Topics
ہم دونوں خاموشی سے راستہ
طے کر رہے تھے……نجم خان آگے تھا اور میں پیچھے……چلتے چلتے اچانک نجم خان ایک چھوٹی
سی پگڈنڈی پہ مڑ گیا……یہ پگڈنڈی سیدھی اس مقبرہ کی طرف جا رہی تھی۔ جس کا گنبد سبز
و سیاہ تھا……کچھ دور چلنے کے بعد……نجم خان مجھ سے مخاطب ہوا……
اگر تم چاہو تو واپس جا
سکتے ہو……میں سلاسل کے ٹھکانہ پر جائوں گا۔ اور اپنی شمیم کو حاصل کر کے رہوں گا۔
لیکن……اللہ رکھی نے تو تم
سے یہ نہیں کہا تھا……میں نے جواب دیا۔
اللہ رکھی نے تو نہیں
کہا……وہ چلتے چلتے بولا……لیکن میرا دل کہہ رہا ہے کہ شمیم کو سلاسل نے اسی جگہ
چھپا رکھا ہے۔
میں نے پھر کچھ نہیں کہا
اور خاموشی سے اس کے پیچھے چلتارہا……کچھ ہی دیر بعد……ہم اس عالیشان عمارت میں داخل
ہو گئے۔ اور ایک لمبی سی نہ معلوم گردش سے گزر کر صحن میں آگئے۔ یہ پرانے وقتوں کے
کسی رئیس کا مقبرہ معلوم ہوتا تھا……جس کے صحن میں جھاڑیوں کا جنگل سا تھا۔ اور اس
سے ذرا پرے چبوترہ پہ چھپر کھٹ بنا ہوا تھا……مجھے سب سے زیادہ تعجب اس بات پہ تھا
کہ اس عمارت کا ہوبہو وہی نقشہ تھا……جیسا کہ اللہ رکھی نے کاغذ پہ بنا ہوا دکھایا
تھا۔
ہم دونوں چبوترہ کے پاس
پہنچ کر رک گئے اور پھٹی پھٹی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ نجم خان کی متلاشی
نگاہیں عمارت کا جائزہ لے رہی تھیں……پھر ایک دیوار پر اس کی نگاہیں جم کر رہ گئیں۔
پھر اس نے دیوار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا……
اس دیوار کو غور سے دیکھو
۔ میں نے اس کے کہنے پر دیوار کی طرف دیکھا……وہ فوراً ہی اس دیوار کے قریب پہنچا۔
اور اینٹوں کو ٹٹولتے ہوئے بولا۔
یہ کوئی خفیہ دروازہ ہے
اس کے بعد اس نے کوشش کر کے ایک اینٹ نکال دی ۔ اینٹ کے پیچھے خلاء تھا۔ جو کہ اس
بات کا ثبوت تھا……کہ واقعی یہ کوئی دروازہ ہے۔
ہم دونوں تیزی سے اینٹیں
ہٹانے لگے۔ اور کچھ ہی دیر بعد……اتنی جگہ ہو گئی کہ ایک آدمی آسانی سے اندر داخل
ہو سکتا تھا……نجم خان بغیر کچھ کہے سنے اندر داخل ہو گیا۔ میں نے بھی اس کی تقلید
کی اور اندر چلا گیا……اندر قبر کی طرح تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اور دو رروشنی ایک
بڑے سے نقطہ کی مانند نظر آ رہی تھی……ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا۔ اور اس نقطہ
کی جانب چل دیئے۔
ہم دونوں جوں جوں آگے
بڑھتے جا رہے تھے۔ یہ نقطہ بھی واضح ہوتا جا رہا تھا۔ اور جب ہم قریب پہنچے تو وہ
ایک غار کا دہانہ دکھائی دیا……اس غار کے دہانہ سے نکلتے ہی ہم دونوں حیرت زدہ رہ
گئے……ہمارے سامنے نہایت ہی سرسبز و شاداب وادی تھی۔ جس میں ہر طرح کے پھلوں اور
پھولوں کے درخت تھے اور درختوں کے درمیان میں کہیں کہیں نہایت ہی شاندار قسم کی
تکونی عمارتیں تھیں’جن کے باہر نہایت ہی خوبصورت عورتیں……مرد اور بچے گھوم پھر رہے
تھے……ان کے چہروں سے حسن و جمال کی روشنیاں سی پھوٹ رہی تھیں……وہ سب کسی اور ہی
دنیا کی مخلوق دکھائی دیتے تھے۔
چلو……نجم خان نے کہا……ان
سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون سی بستی ہے۔
چلو……میں نے جواب
دیا……اور پھر بستی کی طرف بڑھ گئے……نجانے انہیں کس طرح ہمارے آنے کا علم ہو
گیا……انہوں نے سہم کر ہماری طرف دیکھا اور آناً فاناً اپنے گھروں میں داخل ہو
گئے……اب ساری بستی ویران تھی۔ صرف ہم دونوں کھڑے تھے……کہ اچانک ہمارے بائیں جانب
ایک ایسی عمارت دکھائی دی جس سے کہ ہم گزر آئے تھے……ہم دونوں تیزی سے اس عمارت کی
طرف بڑھے اور اندر داخل ہو گئے……اندر عمارت بہت ہی شاندار تھی……اس عمارت میں جابجا
مختلف رنگوں کے شیشے کے ٹکڑوں کے ڈھیر بھی تھے……نجم خان نے شیشوں کے ان ٹکڑوں کے
ڈھیر کی طرف دیکھتے ہوئے نفرت سے کہا……
یہی ان ہیروں اور جواہرات
کا ڈھیر ہے جو کہ سلاسل نے میرے چچا کو دیئے تھے۔
یہ تو بہت بڑا خزانہ
ہے……میں نے تعجب سے کہا۔
لعنت ہے اس خزانہ پر……اس
نے پہلے ہی کی طرح نفرت سے جواب دیا اور دوسرے ہی لمحہ غصہ سے چلایا……
سلاسل تم جہاں کہیں بھی
ہو……سامنے آئو۔
اس کی آواز در و دیوار سے
ٹکرائی اور چند لمحہ گونجنے کے بعد……پھر خاموشی چھا گئی……نجم خان نے اللہ رکھی کے
دیئے ہوئے خنجر کو مضبوطی سے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا اور وہ نہایت ہی
غصہ کے عالم میں سلاسل کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا……اس کو تلاش کرتے ہوئے ہم دونوں اس
عمارت کے اندرونی حصہ میں داخل ہو گئے……یہاں سنگ مر مر کے بے شمار ستون تھے اور
انہی کے درمیان ایک حسین دوشیزہ زنجیروں میں جکڑی ہوئی پڑی تھی……نجم خان فوراً اس
کے قریب پہنچا۔ اور میری شمیم کہہ کر اسے سینہ سے لگایا۔ شمیم پہ نیم بے ہوشی طاری
تھی۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ جیسے کسی نے اس کے جسم سے سارا خون نچوڑ لیا ہو۔ نجم خان
نے جلدی سے اس کے جسم کے گرد لپٹی ہوئی زنجیروں کو کھولا اور غصہ سے پوچھا۔
سلاسل کہاں ہے؟
وہ بدبخت آج صبر مر
گیا……شمیم نے نحیف آواز سے کہا……وہ آگ میں جل گیا۔
اللہ کا شکر ہے……وہ اپنے
انجام کو پہنچ گیا……نجم خان نے جواب دیا۔ چلو اب ہم واپس اپنی دنیا میں چلتے ہیں۔
یہ سن کر شمیم اپنی جگہ
سے اٹھی اور ابھی دو چار قدم ہی چلی ہو گی……کہ نقاہت کی وجہ سے لڑکھڑاگئی……نجم خان
نے فوراً ہی اسے ہاتھوں پہ اٹھا لیا اور پھر ہم غار کے اسی دہانہ کی طرف چل
دیئے……جب ہم واپس آ رہے تھے……تو اجنہ عورتیں……مرد اور بچے سہمی سہمی نظروں سے ہمیں
دیکھ رہے تھے……اس غار سے نکلنے کے بعد……ہم واپس اپنے ٹھکانہ پہ آ گئے……شمیم کیونکہ
بہت زیادہ کمزور تھی لہٰذا نجم خان نے اسے دودھ وغیرہ پلایا اور چند گھنٹہ بعد……جب
اس میں توانائی آ گئی……تو ہم تینوں نے واپسی کا ارادہ کیا۔ بس اسٹاپ پر پہنچ کر
نجم خان تو……شمیم کو لے کر اندرون سندھ جانے والی بس میں سوار ہو گیا……اللہ رکھی
کا یہی حکم تھا کہ شمیم کو حاصل کرنے کے بعد وہ فوراً ہی واپس اپنے شہر چلا جائے
اور میں اکیلا……کراچی اس کے پاس آئوں……نجم خان تو شمیم کو لے کر اپنے شہر چلا گیا۔
اور میں کراچی جانے والی بس کا انتظار کرنے لگا……بس کے انتظار میں گھومتا گھومتا
قریبی بک اسٹال پر پہنچا……جہاں صبح کے تازہ اخبار رکھے ہوئے تھے۔ ان اخباروں کی
سرخیوں پر نظر ڈالتے ہی جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی……ان تمام اخبار کی ایک ہی سرخی
تھی۔
کراچی کے مضافاتی علاقوں
میں زلزلہ کے شدید جھٹکے……کئی مکانات منہدم ہو گئے اور سیکڑوں افراد ملبہ کے نیچے
دب کر مر گئے۔
محمد مونس خان عظیمی
‘‘اللہ
رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور
نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی
تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی
نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے
تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی
کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔
میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے
میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان
کے لئے دعائے مغفرت کریں۔
روحانی فرزند: حضرت خواجہ
شمس الدین عظیمی
مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور
فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷
۶۲جنوری
۵۹۹۱ء