Topics
لطیفۂ نفسی کی روشنی میں عمل استرخاء کا پہلا قدم سماعت کا حرکت میں آ جانا ہے۔ یہ قدم انسان یا کسی ذی روح کے اندر کے خیالات کو آواز بنا کر صاحب شہود کی سماعت تک پہنچا دیتا ہے۔ تفہیم کے سبق میں اس شہود کو تقویت پہنچانے کے لئے کئی مادی چیزیں بھی استعمال کی جاتی ہیں جن میں سے ایک سیاہ مرچ کا سفوف ہے۔ اس سفوف کو پانی کے ایک دو قطروں کے ذریعے روئی کے چھوٹے سے پھوئے پر لپیٹ کر کانوں کے سوراخوں میں رکھ لیتے ہیں۔ مراقبہ کے وقت بھی اور استرخاء کے وقت بھی۔
عمل استرخاء کا دوسرا قدم یہ ہے کہ لطیفۂ نفسی کی روشنیاں شامہ اور لامسہ کو ترتیب دے سکتی ہیں اور صاحب شہود کسی چیز کو خواہ اس کا فاصلہ لاکھوں برس کی روشنی کے سالوں کا ہو، سونگھ سکتا ہے اور چھو سکتا ہے۔ روشنی کی رفتار فی سیکنڈ دو لاکھ میل سے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ لطیفۂ نفسی کی روشنیاں بڑھانے میں کئی طرح کی فکریں خاص طور سے کام میں لائی جاتی ہیں۔ شغل اور فکر کی دو ایک مثالیں دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
نمبر۱:
الف انوار جن کے تذکرے پر یہ تمام باب مشتمل ہے، اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے، ایسی صفت جس کا تجزیہ ہم ذات انسانی میں کر سکتے ہیں۔ یہی صفت انسان کا لاشعور ہے۔ عمومی طرزوں میں لاشعور اعمال کی ایسی بنیادوں کو قرار دیا جاتا ہے جن کا علم عقل انسانی کو نہیں ہوتا۔ اگر ہم کسی ایسی بنیاد کی طرف پورے غور و فکر سے مائل ہو جائیں جس کو ہم یا تو نہیں سمجھتےہیں یا سمجھتے ہیں تو اس کی معنویت اور مفہوم ہمارے ذہن میں صرف ’’لا‘‘ کی ہوتی ہے یعنی ہم اس کو صرف نفی تصور کرتے ہیں۔
ہر ابتداء کا قانون لوح محفوظ کی عبارتوں میں ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جب ابتداء کی معنویت سے بحث کرتے ہیں یا اپنے ذہنی مفہوم میں کسی چیز کی ابتداء کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس وقت ہمارے تصور کی گہرائیوں میں صرف ’’لا‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے یعنی ہم ابتداء کے پہلے مرحلے میں صرف نفی سے متعارف ہوتے ہیں حالانکہ عقل کی عام قدروں نے اس معانی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ لیکن لوح محفوظ کا قانون ہمیں اس حقیقت کو پوری طرح سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس ’’لا‘‘ کا تجزیہ کئے بغیر ہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ہر وہ حقیقت جس سے ہم کسی طرح، چاہے توہماتی طور پر یا خیالاتی طرزوں پر یا تصوراتی طرز پر روشناس ہیں ایک ہستی رکھتی ہے، خواہ وہ ہستی ’’لا‘‘(نفی) یا اثبات ہو۔ جب ہم لوح محفوظ کے قانون کی طرزوں کو سمجھ چکے ہوں تو کسی حقیقت کو خواہ وہ نفی ہو یا اثبات ہو ایک ہی تصور کی روشنی میں دیکھیں گے۔ جب ہم اثبات کو ’ہے‘ کہتے ہیں یعنی اس کو ایک ہستی سمجھتے ہیں تو نفی کو ’نہیں ہے‘ کہتے ہیں یعنی اس کو بھی ایسی ہستی قرار دیتے ہیں جس کے ہونے کا علم ہمیں حاصل نہیں۔ گویا ہم لاعلمی کا نام نفی رکھتے ہیں اور علم کا نام اثبات۔ جس کا نام ہم اثبات یا علم رکھتے ہیں وہ بغیر اس کے کہ ہم لاعلمی سے واقفیت رکھتے ہوں ہماری شناخت میں نہیں آ سکتا۔ بالفاظ دیگر پہلے ہم نے لاعلمی کو پہچانا، پھر علم کو۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )