Topics
القاء دو علم پر مشتمل ہے۔ تصوف میں ایک کا نام حضوری اور دوسرے کا نام علم حصولی ہے۔
جب کوئی امر عالم تحقیق یعنی واجب، کلیات یا ’’جُو‘‘ کے مرحلوں میں ہوتا ہے اس وقت اس کا نام علم حضوری ہے۔ علم حضوری قرب فرائض اور قرب نوافل دونوں صورتوں میں سالک یا مجذوب کی منزل ہے۔ اکثر اہل تصوف کو سالک اور مجذوب کے معنی میں دھوکا ہوتا ہے۔ سالک کسی ایسے شخص کو سمجھا جاتا ہے جو ظاہری اعمال یا ظاہری لباس سے مزین ہو۔ یہ غلط ہے۔ کسی شخص کا واجبات اور مستحبات ادا کر لینا جن میں فرائض اور سنتیں بھی شامل ہیں۔ سالک ہونے کے لئے بالکل ناکافی ہے۔ صاحب سلوک ہونے کے لئے باطنی کیفیات کو بصورت افتادطبعی طورپر موجود ہونا یا بصورت اکتساب لطائف کا رنگ محبت اور توحید افعالی کا رنگ قبول کرنا شرط اول ہے۔ اگر کسی شخص کے لطائف میں حرکت نہیں ہے اور وہ توحید افعالی سے رنگین نہیں ہوئے ہیں تو اس کا نام سالک نہیں رکھا جا سکتا۔ کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ یہ رنگینی اور کیفیت کسی کے اپنے اختیار کی بات نہیں ہے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ چیز اختیاری نہیں۔ اس لئے جو لوگ سلوک کو اختیاری چیز سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ البتہ سلوک کی راہوں میں کوشش امر اختیاری ہے۔
بادئ النظر میں اپنی کوشش کا نام سلوک رکھا جاتا ہے۔ لوگ اس شخص کو سالک کہتے ہیں جو اس راہ میں کوشاں ہو۔ فی الواقع سالک وہی ہے جس کے لطائف رنگین ہو چکے ہیں۔ اگر کسی کے لطائف رنگین نہیں ہوئے ہیں۔ اس کا نام سالک رکھنا صرف اشارہ ہے۔ لوگ منزل رسیدہ کو شیخ اورصاحب ولایت کہتے ہیں۔ حالانکہ منزل رسیدہ وہ ہے جس کے لطائف رنگین ہو چکے ہیں اور جس کے لطائف رنگین ہو چکے ہیں وہ صرف سالک کہلانے کا مستحق ہے۔ ایسا شخص شیخ یا صاحب ولایت کہلانے کا حق ہرگز نہیں رکھتا۔ شیخ یا صاحب ولایت اس شخص کو کہتے ہیں جو توحید افعال سے ترقی کر کے توحید صفاتی کی منزل تک پہنچ چکا ہو۔
لفظ مجذوب کے استعمال میں اور اس کی معنویت اور تفہیم میں بھی اس ہی قسم کی شدید غلطیاں واقع ہوتی ہیں۔ لوگ پاگل اور بدحواس کو مجذوب کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کسی پاگل یا دیوانہ کا نام ہی غیر مکلف اور مجذوب ہے۔ یہ ایسی غلطی ہے جس کا ازالہ القاء کے تذکرے میں کر دینا نہایت ضروری ہے۔ عام طور سے لوگ مجذوب سالک یا سالک مجذوب کے بارے میں بحث و تمحیص کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مجذوب سالک سے افضل اور اُولیٰ ہے لیکن وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ مجذوب سالک کون ہے اور سالک مجذوب کون ہے۔ یہاں اس کی شرح بھی ضروری ہے۔
مجذوب صرف اس شخص کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کھینچ لیا ہو۔ مجذوب کو جذب کی صفت قرب فرائض یا قرب و جود کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اس صفت کے حصول میں قرب نوافل کو ہرگز کوئی دخل نہیں۔
جذب کسی ایسے شخص کی ذات میں واقع ہوتا ہے جو توحید افعالی یعنی لطائف کی رنگینی سے جست کر کے یک بیک توحید ذاتی کی حد میں داخل ہو جائے اسے توحید صفاتی کی منزلیں طے کرنے اور توحید صفاتی سے روشناس ہونے کا موقع نہیں ملتا۔
جس شخص کی روح میں فطری طور پر انسلاخ واقع ہوتا ہے اس کو لطائف کی رنگین کرنے کی جدوجہد میں کوئی خاص کام نہیں کرنا پڑتا یعنی کسی خاص واقعہ یا حادثہ کے تحت جو محض ذہنی فکر کی حدود میں رونما ہوا ہے، اس کے باطن میں توحید افعالی منکشف ہو جاتی ہے۔ وہ ظاہری اور باطنی طور پر کسی علامت کے ذریعے یا کوئی نشانی دیکھ کر یہ سمجھ جاتا ہے کہ پس پردہ نور غیب میں ایک تحقق موجود ہے اور اس تحقق کے اشارے پر عالم مخفی کی دنیا کام کر رہی ہے اور اس عالم مخفی کے اعمال و حرکات و سکنات کا سایہ یہ کائنات ہے۔ قرآن پاک میں جہاں اس کا تذکرہ ہے کہ اللہ اسے اُچک لیتا ہے وہ اس ہی کی طرف اشارہ ہے۔
ذات باری تعالیٰ سے نوع انسانی یا نوع اجنہ کا ربط دو طرح پر ہے۔ ایک طرح جذب کہلاتی ہے اور دوسری طرح علم۔ صحابۂ کرامؓ کے دور میں اور قرون اُولیٰ میں جن لوگوں کو مرتبۂ احسان حاصل تھا، ان کے لطائف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت سے رنگین تھے۔ انہیں ان دونوں قسم کے ربط کا زیادہ علم نہیں تھا۔ ان کی توجہ زیادہ تر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق غور و فکر میں صرف ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے روحانی قدروں کے جائزے زیادہ نہیں لئے کیونکہ ان کی روحانی تشنگی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقوال پر توجہ صرف کرنے سے رفع ہو جاتی تھی۔ ان کو احادیث میں بہت زیادہ شغف تھا۔ اس انہماک کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان لوگوں کے ذہن میں احادیث کی صحیح ادبیت، ٹھیک ٹھیک مفہوم اور پوری گہرائیاں موجود تھیں۔ احادیث پڑھنے کے بعد اور احادیث سننے کے بعد وہ احادیث کے انوار سے پورا استفادہ کرتے تھے۔ اس طرح انہیں الفاظ کے نوری تمثلات کی تلاش کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہ الفاظ کے نوری تمثلات سے، بغیر کسی تعلیم اور بغیر کسی کوشش کے، روشناس تھے۔
جب مجھے عالم بالا کی طرف رجوع کرنے کے مواقع حاصل ہوئے تو میں نے یہ دیکھا کہ صحابۂ کرامؓ کی ارواح میں ان کے ’’عین‘‘ قرآن پاک کے انوار اور احادیث کے انوار یعنی نور قدس اور نور نبوت سے لبریز ہیں۔ جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ ان کو لطائف کے رنگین کرنے میں جدوجہد نہیں کرنا پڑتی تھی۔ اس دور میں روحانی قدروں کا ذکر و فکر نہ ہونا اور اس قسم کی چیزوں کا تذکروں میں نہ پایا جانا غالباً اس ہی وجہ سے ہے۔ البتہ تبع تابعین کے بعد لوگوں کے دلوں سے قرآن پاک کے انوار اور احادیث کے انوار معدوم ہونے لگے۔ اس دور میں لوگوں نے ان چیزوں کی تشنگی محسوس کر کے وصول اِلی اللہ کے ذرائع تلاش کئے۔ چنانچہ شیخ نجم الدین اور ان کے شاگرد مثلاً شیخ شہاب الدین سہروردیؒ ، خواجہ معین الدین چشتیؒ ایسے لوگ تھے جنہوں نے قرب نوافل کے ذریعے وصول اِلی اللہ کی طرزوں میں لاشمار اختراعات کیں اور طرح طرح کے اذکار و اشغال کی ابتدا کی۔ یہ چیزیں شیخ حسن بصریؒ کے دور میں نہیں ملتیں۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے وہ ربط تلاش کیا جس کو علمی ربط کہا جا سکتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کے جاننے میں ان لوگوں نے انہماک حاصل کیا اور پھر ذات کو سمجھنے کی قدریں قائم کیں۔ اس ہی ربط کا نام صوفی لوگ ’’نسبت علمیہ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ اس ربط یا نسبت کے اجزاء زیادہ تر جاننے پر مشتمل ہیں۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے کے لئے کوئی صوفی فکر کا اہتمام کرتا ہے۔ اس وقت وہ معرفت کی ان راہوں پر ہوتا ہے جو ذکر کے ساتھ فکر کے اہتمام سے لبریز ہوتی ہیں۔ اس حالت میں کہہ سکتے ہیں کہ کسی ایسے سالک کو’’نسبت علمیہ‘‘ حاصل ہے۔ یہ راستہ یا نسبت، جذب کے راستے یا نسبت سے بالکل الگ ہے۔ اس ہی لئے اس راستے کو قرب نوافل کہتے ہیں۔خواجہ بہاؤالدین نقشبندیؒ اور حضرت غوث الاعظمؒ کے علاوہ جذب سے اس دور کے کم لوگ روشناس ہوئے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )