Topics
دیوان
موتی رام نے اقرار کے انداز میں گردن ہلائی۔ اور خوشی خوشی خان بہادر کے ہمراہ چل
دیا۔
اس
کے جانے کے بعد پیر حاضر شاہ شمشو سے بولے۔ دیکھا تو نے یہ ہے دنیاداری۔ اللہ کہتا
ہے کہ جو بندے مجھ تک نہیں پہنچ پاتے ان کی داد رسی کرو۔ تم مانگو میں دوں گا یہ
ضروری تو نہیں ہے۔ شمشو نے آہستہ سے کہا۔
ابے۔
کیوں نہیں ہے ضروری۔ انہوں نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔ جس کی نہیں سنو گے وہی قیامت
کے دن دامن پکڑ کر کھڑا ہو جائے گا اور پھر اللہ بھی انہی کی سنے گا۔ کہے گا جب
میرے بندے نے تجھ سے سوال کیا تھا تو تُو نے ہم سے درخواست کیوں نہیں کی۔ دعا کیوں
نہیں مانگی؟ دینا تو ہمارا کام ہے۔
جب
ہی تو کہتا ہوں حضور۔ دیرانے میں چلئے…………شمشو نے سرگوشی سے کہا۔
تو
کہتا تو ٹھیک ہی ہے۔ پیر حاضر شاہ نے جواب دیا۔ لیکن ہم حکم الٰہی کے بغیر سانس
بھی نہیں لے سکتے۔
لیکن
حضور۔ یہ تو دوسرے دھرم کا تھا۔ شمشو نے اچانک بات پلٹی۔
تو
کیا ہوا؟ اس کی سفارش تو پیارے نبیﷺ کے امتی نے کی تھی۔ پیر حاضر شاہ نے جواب دیا۔
پھر
اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولے۔ ہندو ہے تو کیا ہوا۔ اس کا بھی رب اللہ ہی ہے اور
اللہ کہتا ہے کہ جب میں اپنے کسی بندے کو مایوس نہیں کرتا ہوں تو تم کون ہوتے ہو
مایوس کرنے والے؟ یہ کہتے ہوئے وہ شمشو کے ہمراہ چلے گئے۔
٭×××××××××××٭
اس واقعہ کے تین ماہ بعد ہی ایک صبح جبکہ دیوان
موتی رام رسوئی میں چوکے پر بیٹھے بھوجن کر رہے تھے اچانک ان کی پتنی نے ابکائی سی
لی۔ اور قے کر ڈالی۔ دیوان موتی رام ایک دم سے گبھرا گئے۔ انہوں نے اپنی پتنی کی
پیٹھ سہلاتے ہوئے تسلی دی اور کہا کہ وہ ابھی ڈاکٹر کو لے کر آتے ہیں۔ ان کی پتنی
نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور جب ذرا طبیعت سنبھلی تو بتایا کہ بھگوان نے کرم
کر دیا ہے۔
یہ
سنتے ہی دیوان موتی رام کا دل مارے خوشی کے اچھلنے لگا۔ انہوں نے اپنی پتنی کو
پلنگ پر لٹایا اور باہر جانے لگے۔ پتنی نے انہیں روکتے ہوئے کہا۔ پیٹ بھر کر بھوجن
تو کر لو۔
بس۔
اب نہیں کھائوں گا۔ دیوان موتی رام نے خوشی سے بے قابو ہو کر جواب دیا۔ ذرا خان
بہادر سے مل آئوں۔ باہر نکل کر وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے پیر حاضر شاہ کے گھر
کی طرف چل دیئے۔ چند قدم چلنے کے بعد وہ اچانک رک گئے جیسے انہیں اپنی کسی غلطی کا
احساس ہو گیا ہو۔ دراصل اس وقت دن تھا اور ایسے وقت میں پیر حاضر شاہ سے ملاقات
کرنا ان کے ہم مذہبوں کی نظروں میں بدنامی کا باعث بن سکتا تھا۔ وہ فوراً ہی پلٹے
اور خان بہادر کے گھر کی طرف چل دیئے۔
وہ
اپنے بچپن کے دوست کو یہ خوشخبری سنانا چاہتے تھے۔
خان
بہادر ناشتہ سے فارغ ہو کر بیٹھک میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ دیوان موتی رام بیٹھک
میں داخل ہو کر اس طرح لپٹ گئے جیسے مدتوں سے بچھڑے ہوں۔ خان بہادر اس اظہار خوشی
کا مطلب فوراً ہی سمجھ گئے۔ انہوں نے تصدیق کرنے کی خاطر پوچھا۔ کیا بات ہے دیوان
جی؟ بہت خوش دکھائی دے رہے ہو۔
ہاں
دوست۔ دیوان موتی رام نے خوشی سے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہا۔ آج میں بہت خوش ہوں۔
تمہارے پیر نے جو کہا۔ سچ نکلا۔ میری پتنی امید سے ہے۔
مبارک
ہو۔ خان بہادر نے خوشی سے کہا۔
یار۔
دل چاہتا ہے پیر حاضر شاہ کی مورتی بنوا کر گھر میں رکھ لوں۔ دیوان موتی رام نے
خوشی سے بے قابو ہو کر کہا۔
کیوں
اپنا دھرم بھشٹ کرتے ہو؟ خان بہادر نے ہنس کر جواب دیا۔ پھر سنجیدگی سے بولے اور
ہاں یہ بات کہیں پیر حاضر شاہ کے سامنے نہ کہہ دینا۔ اس معاملہ میں وہ بہت سخت
ہیں۔
نہیں
بھئی نہیں۔ یہ بات صرف تمہارے سامنے کہہ رہا ہوں۔ دیوان موتی رام نے سنبھل کر کہا۔
دراصل برسوں بعد یہ خوشی نصیب ہوئی ہے اس لئے دل نہ جانے کیا کیا کرنے کو چاہ رہا
ہے۔
شاید
تمہیں پیر حاضر شاہ کی بات یاد نہیں۔ خان بہادر نے اسے یاد دلایا۔
انہوں
نے تمہیں کسی کے سامنے تذکرہ کرنے سے منع کیا تھا۔ اور تم ہو کہ خوشی میں دیوانے
ہوئے جا رہے ہو۔
خان
بہادر کی بات سن کر دیوان موتی رام ایک دم سنجیدہ ہو گئے۔ جیسے واقعی ہو سب کچھ
بھول گئے تھے۔
مجھے
بھی پیر حاضر شاہ نے منع کیا تھا۔ خان بہادر دوبارہ بولے۔ اور میں نے لڑکے کی
پیدائش تک کسی کو خبر نہیں ہونے دی۔ حتیٰ کہ تمہیں بھی نہیں بتایا۔
ہاں۔
میں تو بھول ہی گیا تھا۔ دیوان موتی رام نے افسردگی سے کہا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا
ہے مجھ سے غلطی ہو ہی گئی۔
ابھی
کچھ نہیں بگڑا۔ خان بہادر نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ تم نے صرف مجھے ہی بتایا ہے اب
کسی اور کو نہیں بتانا۔ یہ پیر فقیر جو بات بھی کہتے ہیں مصلحت سے خالی نہیں ہوتی۔
دیوان
موتی رام نے فوراً ہی شیو بھگوان کو سوگند کھا کر عہد کر لیا کہ اب وہ کسی سے بھی
ذکر نہیں کرے گا۔
٭×××××××××××٭
جوں
جوں دن گزرتے جا رہے تھے۔ دیوان موتی رام کی خوشیوں میں اضافہ ہوتا چا رہا تھا۔ اس
دنیا میں اولاد نہ ہونے کا غم سب سے بڑا غم ہے۔ اور اولاد ہونے کی خوشی سب سے بڑی
خوشی ہے۔ یہ دونوں میاں بیوی جو کہ جوانی کی حدود کو پار کر رہے تھے۔ ایک بار پھر
سے نوجوان نظر آنے لگے تھے۔ دیوان موتی رام کی پتنی کا نہ صرف جسم گداز ہو گیا
تھا۔ بلکہ اس کے چہرہ پر بھی شادابی نظر آنے لگی تھی۔ وہ دونوں ہی سہانے سپنے
دیکھنے لگے تھے۔ وہ ہر وقت اس ہی سوچ میں مگن رہتے تھے کہ لڑکا ہو گا تو کریں گے
اور لڑکی ہو گی تو یہ کریں گے۔
دیوان
موتی رام کی تو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اپنی پتنی کو کہاں اٹھائیں اور کہاں
بٹھائیں۔ ہر وقت اس کے آگے پیچھے رہتے تھے اور رہتے بھی کیوں نہیں۔ عورت کی قدر و
منزلت مرد کی نظروں میں اس وقت بڑھ جاتی ہے جب وہ اس کی نسل بڑھانے میں معاون و
مددگار ثابت ہوتی ہے۔
٭×××××××××××٭
پھر
ایک دن صبح جبکہ آسمان پر صبح کا دھندلکا چھٹ رہا تھا۔ اور چڑیوں نے چہچہانا شروع
کر دیا تھا دیوان موتی رام کی دھرم پتنی نے ایک چاند سی لڑکی کو جنم دیا۔ لڑکی
نہایت ہی حسین تھی۔ اتنی حسین کہ نہ صرف دائی کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں بلکہ دیوان
موتی رام اور ان کی پتنی بھی حیران رہ گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے چاند کا ٹکڑا
زمین پر اتر آیا ہو۔
دیوان
موتی رام نے فوراً ہی جوتشیوں کو بلوایا۔ اور ان سے کہا کہ اس شبھ گھڑی میں
نوزائیدہ کا نام رکھیں۔ جوتشیوں نے فوراً ہی رامائین کھولی۔ جنم پتری بنائی۔ اور
پھر حیران ہو کر دیوان موتی رام کی طرف دیکھنے لگے پھر ان میں سب سے زیادہ عمر
رسیدہ جوتشی نے ٹھہرے ہوئے کہجے میں کہا۔ تمہارے گھر میں جس کنیا نے جنم لیا ہے وہ
بھگوان کی اوتار ہے۔ اس کی سندرتا ‘‘سیتا’’ جیسی ہے اور جیون ‘‘ساوتری’’ جیسا ہے۔
تم جس نام سے چاہو اسے پکار سکتے ہو۔
اس
کے بعد انہوں نے اپنی رامائین کو بند کیا۔ جنم پتری والے پانسوں کو سمیٹا اور
خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے۔ دیوان موتی رام نے اپنی دھرم پتنی سے مشورہ کے بعد
نوزائیدہ کا نام ‘‘ساوتری’’ رکھ دیا۔
دیوان
موتی رام اور اس کی دھرم پتنی کے جس رشتہ دار نے بھی بچی کی پیدائش کا سنا۔ ان کے
گھر بھاگتا چلا آیا۔ سب کو اس بات پر حیرت تھی کہ عمر کا اتنا طویل حصہ گزرنے کے
بعد یہ دونوں کس طرح صاحب اولاد ہو گئے پھر جو بھی بچی کو دیکھتا حیران رہ جاتا۔
اتنی حسین صورت تو انہوں نے کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔
دیوان
موتی رام بھی خان بہادر کی طرح مٹھائی کا ٹوکرا لے کر پیر حاضر شاہ کے پاس پہنچ
گئے۔ پیر حاضر شاہ نے حسب دستور نہ صرف مٹھائی سے انکار کر دیا۔ بلکہ دیوان موتی
رام سے یہ وعدہ بھی لے لیا کہ وہ یہ بات کبھی بھی کسی کو نہیں بتائے گا کہ پیر
حاضر شاہ کی دعا سے وہ صاحب اولاد ہوا ہے۔
٭×××××××××××٭
دیوان
موتی رام پیر حاضر شاہ کی دعا کی بدولت ایک لڑکی اور تین لڑکوں کے باپ بن چکے تھے۔
اولاد کی خوشی میں وہ پیر حاضر شاہ کو بالکل ہی بھول گئے…………خان بہادر کا اکلوتا
بیٹا اختر جو کہ پیر حاضر شاہ کی دعا کے نتیجہ میں پیدا ہوا تھا۔ وہ بھی اب چھ سال
کا تھا۔ وہ اپنی بڑی بہنوں کی آنکھوں کا تارا تھا اور ساوتری اپنے تینوں بھائیوں
کی لاڈلی تھی۔
خان
بہادر نے اپنے بیٹے کو محلے ہی کے اسکول میں داخل کرا دیا تھا۔ یہاں لڑکے اور
لڑکیاں ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ دیوان موتی رام نے بھی ساوتری کو اسی اسکول میں داخل
کرا دیا تھا۔ بچوں کی وجہ سے خان بہادر اور دیوان موتی رام کے درمیان پرانی دوستی
کے رشتے اور زیادہ مضبوط ہو گئے۔ دونوں کے بچے ایک دوسرے کے گھر میں بلا روک ٹوک
آیا جایا کرتے تھے اور دونوں گھرانوں کے افراد بھی ان بچوں سے اپنے ہی بچوں جیسا
پیار کرتے تھے۔
ساوتری
کی عادتیں عام ہندو بچوں سے قدرے مختلف تھیں۔ وہ دیوالی، ہولی یا اس قسم کے دوسرے
تہواروں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتی تھی۔ بلکہ خاموشی سے ایک تماشائی کی حیثیت
سے سب کچھ دیکھتی رہتی۔
٭×××××××××××٭
ایک
دن ساوتری اسکول سے اختر کے ساتھ گھر واپس آ رہی تھی۔ راستہ میں ساوتری نے اس سے
پوچھا۔ تو سپنے دیکھتا ہے؟
ہاں
دیکھتا ہوں۔ اختر نے جواب دیا۔ لیکن کبھی کبھی۔
میں
تو ہر روز ہی سپنا دیکھتی ہوں۔ ساوتری نے اٹھلا کر کہا۔ بڑا ہی سندر سپنا ہوتا ہے۔
کتنا
سندر ہوتا ہے؟ اختر نے پوچھا۔ میں جتنا اچھا خواب دیکھتا ہوں تو۔ تو دیکھ بھی نہیں
سکتی۔
چل
چل میرے سپنے جیسا سندر نہیں ہو گا۔ ساوتری نے اترا کر کہا۔
اچھا
بتا۔ کیسا سپنا دیکھتی ہے تو؟ اختر نے منہ بگاڑ کر پوچھا۔
ساوتری
معصومیت سے بولی۔
جب
میں سوتی ہوں تو میرے کوٹھے کی چھت درمیان سے کھل جاتی ہے اور نیلے آکاش سے بہت ہی
سندر بہت ہی حسین ایک آدمی اڑتا ہوا آتا ہے۔ اس کے بازوئوں پر سنہری پر ہوتے ہیں۔
وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اڑتا ہے۔ اتنا مزہ آتا ہے۔ اتنا مزہ آتا ہے کہ کیا بتائوں۔
ساوتری نے دونوں ہاتھ سے تالی بجا کر کہا۔ نیچے دریا، جنگل، پہاڑ سب چھوٹے چھوٹے
نظر آتے ہیں پھر وہ آدمی مجھے لے کر ایک میدان میں اترتا ہے۔ اس میدان میں دور تک
ہری ہری گھاس اور من کو بھانے والے پھولوں کے درخت ہی درخت ہوتے ہیں۔ اس میدان کے
بیچوں بیچ ایک بہت ہی خوبصورت سفید عمارت ہوتی ہے جیسے اپنے محلے میں مسجد ہے۔ اس
کے اندر جانے کے لئے ڈھیر سارے زینے ہیں۔ وہ آدمی مجھے لئے ہوئے ان سیڑھیوں پر
چڑھنے لگتا ہے۔ ابھی میں آدھی سیڑھیاں ہی چڑھ پاتی ہوں کہ اس عمارت کے دروازہ پر
ایک بہت ہی نورانی شکل کا آدمی نظر آتا ہے۔ وہ اپنی میٹھی آواز میں مجھ سے کہتا
ہے۔ ساوتری یہ اللہ کا گھر ہے۔ تیری منزل کا آغاز یہیں سے ہو گا۔ اس کے بعد میری
آنکھ کھل جاتی ہے۔
ہونہہ۔
خواب تو واقعی تیرا بہت اچھا ہے۔ اختر نے تعریفی لہجہ میں کہا۔ تو خواب میں مسجد
دیکھتی ہے۔
پھر
سوچ کر بولا۔ میں اپنے ابا سے اس کی تعبیر پوچھوں گا۔
نہیں۔
نہیں۔ ساوتری نے ایک دم گھبرا کر کہا۔ میں نے ماتا پتا کو یہ سپنا بتایا تھا۔
انہوں نے جوتشیوں سے معلوم کیا تھا۔ کہتے ہیں اس کی تعبیر بڑی خراب ہے۔
کیا
خراب ہے؟ اختر نے بگڑ کر پوچھا۔
یہ
تو مجھے نہیں معلوم۔ ساوتری نے جواب دیا۔ لیکن ماتا پتا کا کہنا ہے کہ میں یہ سپنا
کسی کو نہیں بتائونگی۔
پھر
تو نے مجھے کیوں بتایا؟ اختر نے پوچھا۔
تو
میرا دوست ہے نا۔ ساوتری نے بھولے پن سے کہا۔ اور دوست سے کوئی بات چھپائی تھوڑی
جاتی ہے۔ اتنے میں اس کا گھر آ گیا اور وہ اپنا بستہ ہلاتی ہوئی چلی گئی۔
٭×××××××××××٭
اس
واقعہ کے کوئی سال بھر بعد ہی ساوتری کے مزاج میں نمایاں تبدیلی ہونے لگی۔ اس کا
دل اچاٹ سا رہنے لگا۔ پڑھائی میں بھی اس کا دل نہیں لگا۔ اور اس نے اسکول جانا بھی
چھوڑ دیا۔ اب وہ اپنا زیادہ وقت گھر میں گزارہ کرتی۔ یا کبھی کبھار خان بہادر کے
گھر چلی جاتی۔
کبھی
کبھی وہ کسی بھی چیز کو دیر تک تکتی رہتی اور پھر بے اختیار ہنس پڑتی۔ اور اگر
کبھی گھر والے اس سے اس کی وجہ پوچھتے تو کہہ دیتی۔ یہ چیز مجھ سے باتیں کر رہی
تھی۔
کبھی
وہ بے جان چیزوں کو حرکت کرتے ہوئے دیکھتی اور کبھی اسے نورانی جسم کا ہیولہ سا
نظر آتا۔
دیوان
موتی رام اور ان کی بیوی نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ ان کے خیال میں بچے تو
اس قسم کی ناقابل فہم باتیں کرتے ہی رہتے ہیں۔
٭×××××××××××٭
جوں
جوں ساوتری بڑی ہوتی جا رہی تھی۔ ویسے ہی وہ تنہائی پسند بھی ہوتی جا رہی تھی۔ وہ
اپنے ماں باپ سے بھی انتہائی ضرورت کے تحت بات کرتی تھی۔ ورنہ زیادہ وقت تنہا کمرہ
میں گزارتی تھی۔ اور اگر ماں باپ بہت زیادہ اصرار کرتے کہ بیٹی کھیل کود میں بھی
دلچسپی لیا کرو تو باہر آ کر سب سے الگ تھلگ بیٹھ کر مٹی سے گھروندہ بنانے لگتی۔
بھائیوں کے ساتھ بھی وہ نہیں کھیلتی تھی۔ بلکہ خاموشی سے انہیں کھیلتا ہوا دیکھتی
رہتی تھی۔ اور جب اس طرح اس کی طبیعت گھبرا جاتی تو وہ اختر کے گھر چلی جاتی۔
تنہائی اور بے چینی کی اس کیفیت میں اگر اس کا کوئی ساتھی کوئی ہمدرد تھا تو وہ
اختر تھا۔
ساوتری
جس کیفیت سے دوچار تھی۔ اس کی وجہ اسے خود بھی نہیں معلوم تھی۔ لیکن بے چینی کی اس
کیفیت میں اسے ایسی لذت ملتی تھی جسے وہ بیان نہیں کر سکتی تھی۔
عمر
کے جس حصہ سے وہ گزر رہی تھی۔ اسے نہ بچپن کہا جا سکتا تھا اور نہ ہی جوانی۔ اس
عمر میں سمجھنے سمجھانے کی صلاحیت بھی بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ پھر بھی وہ اپنی دلی
کیفیت کا اظہار اختر سے کر دیا کرتی تھی۔ ایک دن وہ اسی طرح سوچ میں گم خان بہادر
کے گھر چلی گئی۔ اس وقت اختر کمرہ میں تنہا بیٹھا اسکول کا کام کر رہا
تھا…………ساوتری نے اس کے قریب پہنچ کر مخاطب کیا۔ اختر۔
ہوں۔
اختر نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ تو آ گئی؟
ہاں۔
چل میرے ساتھ کھیل۔ ساوتری نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
نہیں۔
مجھے اسکول کا کام کرنا ہے۔ اختر نے اپنا ہاتھ چھڑا کر جواب دیا۔ میرے امتحان بھی
ہونے والے ہیں۔
تو
پڑھ لکھ کر کیا بنے گا؟ ساوتری نے بھولے پن سے پوچھا۔
میں
بڑا آدمی بنوں گا۔ اختر نے فخر سے کہا۔ ابا جی کہہ رہے تھے کہ اگر میں اس امتحان
میں پاس ہو گیا تو آٹھویں پڑھنے دلی بھیج دیں گے۔
پھر
کیا کرے گا؟ ساوتری نے اس ہی انداز میں پوچھا۔
پھر۔
پھر میں ابا جی کی طرح فوج میں جائوں گا۔ اختر نے بتایا۔
فوج
میں جائے گا۔ ساوتری نے تنک کر کہا۔ کیا کرے گا فوج میں جا کے؟
کسی
کو مارنا۔ یہ تو پاپ ہے۔ ساوتری نے سنجیدگی سے کہا۔ یہ تو گناہ ہے۔
گناہ
تو اس وقت ہوتا ہے جب کسی کو بلاوجہ مارا جائے۔ اختر نے اسے بتایا۔
تو
پھر ہر سال تمہارے ابا ایک بکرا کیوں مارتے ہیں۔ ساوتری نے جلدی سے پوچھا۔
اری
۔ وہ تو عیدالاضحیٰ پر ابا جی اللہ کے حضور میں بکرا قربان کرتے ہیں۔ اختر نے
ہنستے ہوئے اسے سمجھایا۔
اور
تمہارا اللہ اس قربانی سے خوش ہو جاتا ہے؟ ساوتری نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
اور
کیا۔ جب ہی تو ابا جی اور دوسرے مسلمان بھی قربانی کرتے ہیں۔ اختر نے بتایا۔
قربانی
تو ہم بھی دیتے ہیں۔ ساوتری نے کھوئے ہوئے انداز سے کہا۔ ماتا پتا جی بتاتے ہیں کہ
ہمارے دھرم میں سبھی دیوتائوں کو خوش کرنے کی خاطر قربانی دی جاتی ہے۔
چل
چل۔ اللہ کوئی اس طرح خوش ہوتا ہے کیا؟ اختر نے منہ چڑا کر کہا۔ تجھے تو کچھ معلوم
ہی نہیں۔
اچھا۔
تجھے تو معلوم ہے۔ ساوتری نے کھسیانی ہو کر کہا۔ چل تو ہی بتا دے۔
اختر
اس کی یہ بات سن کر خاموش ہو گیا۔ اس سے جواب نہیں بن پڑ رہا تھا کہ ساوتری کو کیا
بتائے۔ اسے خاموش دیکھ کر ساوتری نے کہا۔ میں بتائوں بھگوان۔
بھگوان
نہیں اللہ۔ اختر نے اسے ٹوکا۔
ہاں۔
اللہ۔ ساوتری نے سنبھل کر کہا۔ اللہ تو خوش اور ہی طریقوں سے ہوتا ہے۔
وہ
طریقہ کیاہے؟ اختر نے ہاتھ نچا کر پوچھا۔
ایک
بار میں نے تجھے اپنے سپنے کے بارے میں بتایا تھا نا؟ ساوتری نے رازداری سے پوچھا۔
ہاں۔
بتایا تھا۔ اختر نے سوچ کر کہا۔ لیکن وہ تو کئی برس پہلے کی بات ہے۔ جب تو میرے
ساتھ اسکول جایا کرتی تھی۔
وہی
سپنا میں اب بھی دیکھتی ہوں۔ ساوتری نے مسکرا کر کہا۔ اور مسجد کے دروازہ پر کھڑے
ہوئے نورانی صورت کے بزرگ مجھ سے کہتے ہیں کہ اس کائنات پر غور کرو۔ اپنے وجود پر
غور کرو۔ خالق، مخلوق اور تخلیق پر غور کرو۔ ہر جگہ تمہیں اللہ نظر آئے گا۔
پھر
تجھے اللہ نظر آیا؟ اختر نے چڑ کر کہا۔
نہیں۔
اللہ تو نظر نہیں آیا۔ ساوتری نے گہری سوچ سے جواب دیا۔ لیکن جب میں سپنے میں نظر
آنے والے بزرگ کی بات پر عمل کرتے ہوئے اپنے اوپر غور کرتی ہوں تو بے حد حیرت ہوتی
ہے۔ گوشت کے اس مجسمہ کی بناوٹ بڑی حیرت انگیز ہے۔
اری
جا۔ تیرا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔ اختر نے اس کی بات کا مذاق اڑایا۔
تو
نے کبھی خود پر غور کیا ہے؟ ساوتری نے پوچھا۔
میں
تیری طرح پاگل دیوانہ نہیں ہوں۔ اختر نے چڑ کر کہا۔
تو
میری بات پر اعتبار نہیں کرتا۔ ساوتری نے منہ بسور کر کہا۔ تو انسان کی بناوٹ پر
غور تو کر کے دیکھ عقل حیران رہ جائے گی۔
تو۔
تو۔ دیوانی ہو گئی دیوانہ۔ اختر نے بگڑ کر کہا۔ جا مجھے کام کرنے دے۔ نہیں توصبح
اسکول میں سزا ملے گی۔
ساوتری
نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاموشی سے باہر چلی گئی۔
٭×××××××××××٭
ایک
دن ساوتری کو نجانے کیا سوجھی۔ اس نے صبح صبح اشنان کیا۔ اور پھر نئی ساڑھی باندھ
کر ماتا جی کو پرنام کیا۔ وہ اس وقت باورچی خانہ میں ناشتہ بنانے کی تیاری کر رہی
تھیں۔ انہوں نے اپنی کنیا کو ساڑھی پہنے دیکھا تو کھل اٹھیں اور بڑے ہی پیار سے
پوچھا۔ بیٹی یہ صبح ہی صبح کہاں جا رہی ہو؟
ماتا
جی۔ ساوتری نے شوخی سے کہا۔ میرا دل چاہ رہا ہے۔ بھگوان کی پوجا کرنے مندر میں
جائوں؟
ضرور
جائو بیٹی۔ ماں نے خوش ہو کر کہا۔ تمہارے پتا بھی وہیں ہونگے۔
ساوتری
نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ خاموشی سے پیٹھ موڑ کر گھر سے باہر آ گئی۔ مندر کچھ
زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی مندر میں داخل ہو گئی۔ ایک چھوٹے
سے ہال کے آخری سرے پر شیو بھگوان کی بڑی سی مورتی نصب تھی اور اس کے قدموں میں
پھل اور مٹھائیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ چند لوگ زمین پر دوزانو بیٹھے پرارتھنا میں
مشغول تھے۔
ساوتری
نے شیو بھگوان کے چہرہ پر نظریں گاڑ دیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا وہ شیو بھگوان کو
پہچاننے کی کوشش کر رہی ہے۔ پھر نجانے کیا ہوا۔ اس نے اپنی گردن کو ایک زور دار
جھٹکا دیا اور بھاگتی ہوئی مندر سے باہر نکل کر گھر میں داخل ہو کر وہ سیدھی اپنے
کمرہ میں چلی گئی اور بستر پر اوندھی گر کر رونے لگی۔ اس کی ماں نے لاکھ پوچھا کہ
بیٹی تو مندر میں پوجا کے لئے گئی تھی بتا تو سہی کیا ہوا؟
لیکن
ساوتری نے کچھ نہیں بتایا۔ بس وہ روئے چلی جا رہی تھی۔
دیوان
موتی رام گھر میں ناشتہ کے لئے آئے تو بیوی نے اس کو ساری بات بتائی۔ انہوں نے
ناشتہ کرنے کے بجائے کمرہ میں جا کر دیکھا۔ ساوتری اپنے پلنگ پر لیٹی سو رہی تھی۔
محمد مونس خان عظیمی
یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک
جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن
جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم
ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس
کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا
مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔
میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا
اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین
و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا
جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔