Topics
پنڈت
کی بات سن کر کوشیلا نے اس کی طرف بڑی ہی پر امید نگاہوں سے دیکھا۔
ہم
نے تجھے بتایا تھا…………پنڈت ہری رام نے بدستور اس کے چہرہ پر نظریں جمائے ہوئے بولا
کہ کچھ ہی سمے بیتا ہے جب لکشمی نے ہمیں درشن دیئے ہیں…………ہم نے اسے تیری آشا سنا
دی ہے۔ آدھی رات گزرنے کے بعد دیوی پھر درشن دے گی اور وہ جو کہے تو بلا جھجک پورا
کرنا…………پھر وہ اپنے آخری الفاظوں پر زور دے کر بولا۔ یاد رکھنا دیوی کا کہا پورا
نہیں ہوا تو سارا جیون کھشٹ میں گزرے گا۔ اولاد کی تمنا کبھی پوری نہیں ہو گی۔
نہیں
مہاراج…………کوشیلا گڑگڑائی…………مجھ بدنصیب کی یہ مجال کہاں کہ دیوی کے حکم کو ٹال
دوں…………پھر اس نے قدرے ڈرتے ڈرتے پوچھا…………لیکن مہاراج دیوی کیسے درشن دے گی؟
ایک
عام منش میں اتنی طاقت کہاں کہ وہ دیوی اور دیوتائوں کے درشن کر سکے…………پنڈت ہری
رام نے نہایت ہی تکبر سے کہا…………دیوی یا دیوتا جب کسی پر مہربان ہوتے ہیں تو اپنے
سیوک کے ذریعے اسے حکم دیتے ہیں پھر وہ سمجھانے والے انداز سے بولا۔ وہ اپنے سیوک
کی آتما کے ذریعے پورے شریر میں رچ بس جاتے ہیں…………جب ہی تو لوگ بھگوان کے سیوکوں
کا مان رکھتے ہیں۔
اس
کے بعد اس نے کوشیلا کو حکم دیا کہ وہ لکشمی دیوی کے چرنوں میں بیٹھ کر بھجن گاتی
رہے…………اور اس دوران وہ خود گیان لگا کر دیوی کو بلانے کی خاطر ایک منتر کا جاپ
کرتا رہے گا۔
کوشیلا
ایک فرمانبردار غلام کی طرح لکشمی دیوی کے ساتھ بیٹھ گئی اور پنڈت ہری رام دائیں
جانب آنکھیں بند کر کے گیان میں مصروف ہو گیا۔
کوشیلا
آنکھیں بند کئے مستانہ وار بھجن گانے میں مشغول تھی۔ پنڈت ہری رام نے جب دیکھا کہ
وہ دل سے لکشمی دیوی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بھجن گانے میں مصروف ہے تو دبے
پائوں اپنی جگہ سے اٹھا اور مندر کے دروازہ کو مضبوطی سے بند کر دیا۔
اور
زور زور سے سانس لینا شروع کر دیا۔ جب کوشیلا نے آنکھیں کھولیں تو نسوانی آواز
آئی۔
تجھے
وچن دینا ہو گا…………پنڈت ہری رام نے آنکھیں بند کر کے کہا۔
میں
وچن دیتی ہوں دیوی…………کوشیلا نے جواب دیا…………میں وچن دیتی ہوں تو سن…………
ہری
رام نے نسوانی آواز میں کہا…………اگر تو اولاد چاہتی ہے تو میرے سیوک کی داسی بن جا۔
یہ
سن کر کوشیلا پریشان نظروں سے پنڈت ہری رام کے چہرہ کو تکنے لگی۔ لکشمی دیوی کا یہ
حکم عجیب تھا۔
کیا
وچار کر رہی ہے…………پنڈت ہری رام نے دوبارہ کہا…………یہ میرا اپریش ہے۔ لکشمی دیوی کا
اپدیش ہے۔ اگر تجھے اولاد چاہئے تو میرے آ گیا کا پالن کر…………میں بھی تیری ہی طرح
استری ہوں۔ وچاروں کے منجدہار سے نکل اور میرے سیوک کی داسی بن جا…………یا پھر کھشٹ
کے لئے تیار ہو جا۔ جو الاد نہ ہونے کے کارن تیرا پتی دیوتا تجھے دینے والا ہے۔
کوشیلا
کے دل و دماغ پر لکشمی دیوی کے الفاظ ہتھوڑے برسا رہے تھے…………لیکن وہ اپنے شوہر کی
طرف سے بھی خوف زدہ تھی۔ آخر اس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ مجھے دیوی کے سیوک کی داسی بننا
قبول ہے۔
اس
کے ساتھ پنڈت ہری رام نے آنکھیں کھول دیں اور…………اور…………کہا۔
دیوی
کی آگیا کا پالن کرتے تو سمپھل ہو جائے گی۔
پنڈت
ہری رام نے اپنی استدراجی طاقت کا وہ جادو کر دیا تھا جو کوشیلا کے سر چڑھ کر بول
رہا تھا۔
دوسری
جانب اس نے سیٹھ موہن لال کو بھی اپنی ماورائی طاقتوں کے دام میں پھانسنے کی تیاری
کر لی تھی۔
اور
پھر ایک صبح جب کہ سیٹھ موہن لال لکشمی دیوی کے درشن کر کے لوٹنے ہی والا تھا کہ
پنڈت ہری رام نے اپنی پاٹ دار آواز میں اسے مخاطب کیا۔
سیٹھ…………آج
تم بہت خوش ہو۔ بہت خوش۔ اس لئے کہ اس ہفتہ تمہیں بے انتہا منافع ہوا ہے۔ لکشمی تم
پر مہربان ہے سیٹھ۔
پنڈت
جی…………سیٹھ موہن لال نے ہاتھ جوڑ کر عاجزی سے کہا…………یہ سب دیوی کی کرپا ہے
مہاراج۔
لکشمی
دیالو ہے سیٹھ…………پنڈت ہری رام نے دیوی کے چہرہ پر نظریں جما کر کہا۔ تم بہت جلد
ایک خوشخبری سن لو گے۔
وہ
کیا مہاراج…………سیٹھ موہن لال نے گھگیا کر پوچھا۔
لکشمی
دیوی نے وہ بتانے سے انکار کیا ہے…………پنڈت ہری رام نے اپنے کنٹھ مالا کو گھماتے
ہوئے جواب دیا۔
لیکن
میرا وچار ہے کہ وہ اپدیش تمہاری اولاد کے بارے میں ہے۔
کیا
کہہ رہے ہو مہاراج…………سیٹھ نے حیرت سے پوچھا۔
میں
جوگی ہوں…………پنڈت ہری رام نے اس کی حیرت کا مزہ لیتے ہوئے کہا…………جھوٹ، فریب،
دھوکہ ہم جوگیوں کے لئے عظیم گناہ ہے۔ ہمارے من میں اگر ذرا سا بھی کھوٹ آ جائے تو
بھگوان ہمیں بھسم کر کے رکھ دیں۔ ہم جو کچھ بھی کہتے ہیں بھگوان کی اچھا کے بغیر
نہیں کہہ سکتے…………
میں
جانتا ہوں مہاراج…………سیٹھ موہن لال نے عقیدت سے اپنا سر اس کے قدموں میں رکھ کر
کہا۔ اپنی منڈی اٹھا…………پنڈت ہری رام نے اسے جیسے حکم دیا اور میری بات کو دھیان
سے سن۔
پنڈت
کا حکم سنتے ہی سیٹھ نے اپنا سر اٹھایا اور ہاتھ جوڑ کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
پنڈت ہری رام سمجھ چکا تھا کہ اب سیٹھ ذہنی طور پر اس کے حکم کے طابع ہو چکا ہے۔
لہٰذا نہایت ہی گھمبیر آواز سے بولا۔
آج
رات لکشمی دیوی نے مجھے درشن دیئے تھے اور اس نے مجھے ایک جاپ بتایا ہے جو کہ تجھے
پڑھنا ہو گا۔ اور پھر تیرے من کی آشا پوری ہو جائے گی۔
سچ
مہاراج…………سیٹھ نے تذبذب سے پوچھا۔
پرنتو
یاد رکھ…………پنڈت نے سمجھانے والے لہجہ میں کہا…………دیوی تجھ پر مہربان ہے اور ممکن
ہے کہ وہ دھن کے ساتھ ساتھ تجھے اولاد بھی دے دے…………لیکن یہ اس ہی وقت ممکن ہے
جبکہ تو دیوی کے بتائے ہوئے جاپ کو پورا کرے گا۔
میں…………میں
دیوی کا جاپ پورا کرونگا…………سیٹھ نے اعتماد سے کہا۔
تو
پھر آج آدھی رات گزرنے کے بعد تو اس ہی مندر میں آ جانا…………پنڈت نے اس کی طرف سے
منہ موڑ کر کہا۔ پرنتو یاد رکھنا اس بارے میں تو کسی سے حتی کہ اپنی دھرم پتنی سے
بھی کچھ نہ کہنا…………جا…………اب جا…………اور رات سمے کا انتظار کر۔
سیٹھ
موہن لال یہ سن کر الٹے قدموں مندر سے باہر آیا۔ اب اس کے سینہ میں انجانی خوشیاں
کروٹیں لے رہی تھیں۔
آدھی
رات گزرتے ہی سیٹھ موہن لال مندر میں پہنچ گیا۔
آئو
سیٹھ…………مجھے تمہارا ہی انتظار تھا۔ پنڈت ہری رام نے بے تابی سے کہا۔ پھر اس کے
کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ اس سنسار میں تم واحد شخص ہو جس کے کارن دیوی نے جاپ
بتایا ہے۔
یہ
سب تمہاری کرپا ہے مہاراج…………سیٹھ نے عقیدت سے کہا۔ ورنہ میرے بھاگ ایسے کہاں۔
اس
جاپ کو آج ہی کے دن چار ہفتہ تک تم کو پڑھنا ہے۔ پنڈت ہری رام نے اس کی بات سنی ان
سنی کرتے ہوئے کہا۔ آج رات بھر تمہیں لکشمی دیوی کے چرنوں میں کھڑے ہو کر جاپ کرنا
ہے۔
پھر
وہ قدرے تفکر سے بولا۔ پرنتو یاد رکھ۔ اگر آج رات تو نے دیوی کے چرنوں میں گزار لی
تو اپنے من کی مراد ضرور پا لے گا…………لیکن…………وہ خوفزدہ آواز سے بولا۔
اگر
تیری ذرا بھی پلک جھپکی تو لکشمی دیوی تیری آشا کے ساتھ تجھے بھی نرکھ میں پہنچا
دے گی۔
بول…………تو
اس کٹھن تپسیا کے لئے تیار ہے۔
مجھے…………مجھے
منظور ہے مہاراج…………سیٹھ موہن لال نے وفود جوش سے کہا…………میں اپنے وارث کے لئے سب
کچھ کرنے کو تیار ہوں۔
تو
پھر ادھر آ…………پنڈت ہری رام نے کاندھے سے پکڑ کر لکشمی دیوی کی پھیلی ہوئی ٹانگوں
کے درمیان کھڑا کرتے ہوئے کہا اور جب سیٹھ اس کی بتائی ہوئی جگہ پر کھڑا ہو گیا تو
اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی موٹی دانوں کی مالا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے
کہا…………تو پہلا شخص ہے جسے آج مین زندگی میں اپنی کنٹھ مالا دے رہا ہوں۔ اسے لے
اور اپنی دائیں ٹانگ پر کھڑا ہو جا…………میں تجھے لکشمی دیوی کا پرائیت کیا ہوا جاپ
یاد کراتا ہوں۔
سیٹھ
موہن لال نے مالا اس کے ہاتھ سے لے لی۔ خوشی سے اس کی باچھیں کھلی جا رہی تھیں
اولاد کا نشہ دولت، عورت سب پر سبقت لے گیا۔
پنڈت
ہری رام نے کچھ دیر تک اسے جاپ یاد کرایا اور جب اسے یقین ہو گیا کہ جاپ کے الفاظ
اس کے دل کی گہرائیوں سے نکل رہے ہیں تو خاموشی سے مندر کے باہر نکل آیا۔
اولاد
کی چاہت اور خواہش نے سیٹھ کی آنکھوں سے نیند اڑا دی تھی۔ حد تو یہ تھی کہ اسے
بھولے سے جمائی تک نہیں آئی…………اور پنڈت ہری رام دبے قدموں اوپر کی منزل کی طرف جا
رہا تھا۔
لکشمی
دیوی نے اس سے ماں بننے کا سفلی عمل شروع کرا دیا تھا۔
اس
نے مسہری پر لیٹے لیٹے کھڑکی کے باہر آسمان پر نظریں دوڑائیں۔ نیلے آسمان پر سفید
بادل چاند سے چھیڑ کر رہے تھے اور لطیف جسموں کو گدگدانی والی ہوا سبک رفتاری سے
چل رہی تھی۔ اس کی کھڑکی کے پاس بڑے سے لان میں لگی ہوئی رات کی رانی کی مسحور کن
خوشبو ہوا کے ساتھ کمرے میں آ رہی تھی۔
ابھی
صبح کاذب کا اندھیرا چھٹا ہی تھا کہ پنڈت ہری رام دبے قدموں سے مندر میں داخل ہوا۔
سیٹھ
موہن لال کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔ رات بھر کھڑے کھڑے اس کی ٹانگیں سن
ہو چکی تھیں وہ زندگی میں پہلی بار اتنی دیر تک کھڑا رہا تھا۔
اور
اسے اپنی اس تپسیا پر پورا پورا یقین تھا کہ وہ صاحب اولاد ہو جائے گا اور اس کی
دولت کا وارث ضرور پیدا ہو گا۔
پنڈت
ہری رام نے مندر میں داخل ہو کر پاٹ دار آواز میں کہا…………بیٹھ جائو۔
اور
سیٹھ موہن لال اس کی آواز کے ساتھ ہی دھم سے زمین پر بیٹھ گیا۔
تم
کیسے سیٹھ ہو؟…………پنڈت ہری رام نے تمسخر سے کہا۔ مجھ جیسے پنڈت کی ایک ہی آواز پر
بیٹھ گئے۔
تم…………تم…………بہت
ہی عظیم ہو…………سیٹھ نے نہایت ہی عقیدت سے کہا۔ آج کی تپسیا سے میرا من شانت ہو گیا
ہے۔ مجھے یقین ہو چلا ہے کہ دیوی میری آشا ضرور پوری کرے گی۔ اوش پوری کرے گی پنڈت
ہری رام نے بڑے ہی اعتماد سے کہا۔ دیوی اور دیوتا کسی کی تپسیا کو ضائع نہیں کرتے۔
یہ ہم منش ہیں جو کسی کا احسان نہیں مانتے۔
ایسا
نہ کہو مہاراج۔ سیٹھ اس کے پائوں پکڑ کر گڑگڑایا۔ میں نے ہمیشہ آپ کا مان رکھا ہے
اور گر میری یہ آشا پوری ہو گئی تو…………تو میں لکشمی دیوی کے چرنوں میں سونے کا
ڈھیر لگا دوں گا۔
دیوی
کے قدموں میں سونے کا ڈھیر لگانے کی ضرورت نہیں…………پنڈت نے عقیدت سے کہا۔ تم اپنے
من کی آشا پوری ہو جانے پر دولت مزدوروں میں لوٹا دینا۔ سونا چاندی ہیرے جواہرات
تو دیوی کی ٹھوکروں میں رہتے ہیں۔
پھر
وہ لہجہ بدل کر سمجھانے والے انداز میں بولا…………پرنتو دیوی اور دیوتا کسی سے کچھ
نہیں لیتے…………بلکہ دیتے ہیں۔ سومنات کے مندر کا سونا کس کے کام آیا؟
تم
سچ کہہ رہے ہو مہاراج…………سیٹھ نے خوف سے کہا۔ رات جب میں دیوی کی آنکھوں سے آنکھیں
ملائے جاپ کر رہا تھا۔
تو
نے کیا دیکھا؟…………پنڈت نے پوچھا۔
میں
نے دیکھا…………سیٹھ نے نیند سے بوجھل پلکوں کو حیرت سے پھیلاتے ہوئے کہا…………کہ جیسے
دیوی کی آنکھوں میں جان پڑ گئی ہو۔ اس کی آنکھوں کی چمک میں، میں نے اپنی پتنی کو
دیکھا۔ اس کا پیٹ پھولا ہوا تھا۔ اور…………ڈاکٹر سیٹھی بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔
یہ
ڈاکٹر سیٹھی کون ہے؟…………پنڈت نے آنکھیں مچکا کر پوچھا۔
میرا
فیملی ڈاکٹر ہے مہاراج…………سیٹھ نے جھینپتے ہوئے بتایا۔ کوشیلا کی دیکھ بھال وہی
کرتا ہے۔
پنڈت
ہری رام کچھ اور ہی سمجھا…………اور آتش حسد اس کے سینہ میں بھڑک اٹھی اور اس نے
مسکراتے ہوئے کہا۔
اب
اس کی ضرورت نہیں۔ جب لکشمی دیوی کی آنکھوں میں اپنی آشا پوری ہوتے دیکھ چکا ہے تو
دنیاوی سہارے چھوڑ دے…………تیرے بھاگ میں اولاد لکھی جا چکی ہے اور تو ضرور باپ بنے
گا۔
ایسا
ہی ہو گا مہاراج…………سیٹھ نے ہاتھ جوڑ کر سعادت مندی سے کہا…………میں ڈاکٹر سیٹھی کو
منع کر دوں گا۔
اب
تم جا سکتے ہو…………پنڈت ہری رام نے لاپروائی سے کہا۔
سیٹھ
موہن لال اس کا حکم سن کر بمشکل تمام اپنی جگہ سے اٹھا اور ڈگمگاتے قدموں سے مندر
کے باہر نکل آیا…………وہ خوش تھا…………بہت خوش۔
ڈاکٹر
سیٹھی نے کوشیلا کو ٹیسٹ کیا تو وہ یہ جان کر حیران رہ گیا کہ کوشیلا کی گود بھر
گئی ہے۔
ڈاکٹر
ہونے کی حیثیت سے وہ اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ کوشیلا میں ماں بننے کی پوری
صلاحیتیں موجود تھیں…………لیکن اس کے مالک سیٹھ موہن لال میں کمزوری تھی۔ ایسی
کمزوری جس کا علاج اگر دلجمعی سے کرایا جائے تو ٹھیک ہو سکتا تھا لیکن شروع میں تو
سیٹھ موہن لال نے اس علاج کو اپنی مردانگی کے خلاف سمجھا پھر وہ ڈاکٹر سیٹھی کے
سمجھانے بجھانے پر راضی ہو گیا…………
اسے
کاروبار سے اتنی فرصت نہیں ملتی تھی کہ علاج کر سکے۔
یہ
لاپروائی دیکھ کر ڈاکٹر سیٹھی نے سمجھ لیا تھا کہ سیٹھ کو اولاد کی زیادہ تمنا
نہیں ہے۔
وہ
سیٹھ کے دل کا حال کیا جان سکتا تھا۔
لیکن
اب وہ حیران و پریشان تھا…………کوشیلا کے جسم میں ایک اور جسم وجود پا رہا تھا۔ اس
نے سوچا ممکن ہے کہ وقتاً فوقتاً کھائی جانے والی دوائوں نے اپنا اثر دکھانا شروع
کر دیا۔
‘‘میڈیکل
سائنس اس کا منہ چڑا رہی تھی۔’’
آخر
کار اس نے راز کو حل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس راز پر سے صرف ایک ہی شخصیت پردہ
ہٹا سکتی تھی وہ کوشیلا تھی۔
ایک
رات جبکہ سیٹھ موہن لال زمینوں پر گیا ہوا تھا۔ وہ موہن لاج کی طرف چل دیا۔
اس
کا دل قطعی نہیں چاہ رہا تھا لیکن تجسس اور جذبہ محبت کے تحت اس کے قدم خود بخود
ہی سیٹھ موہن لال کی کوٹھی کی طرف اٹھتے ہی چلے جا رہے تھے۔
پیپل اور نیم کے فلک بوس درختوں کے جھنڈ میں
‘‘موہن لاج’’ دھندلا دھندلا سا نظر آ رہا تھا۔ پام کے درختوں کی لمبی سی قطار کے
درمیان بنے راستے طے کرتا ہوا وہ صدر دروازہ کی سیڑھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پوری
عمارت اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ البتہ اوپر جانے والے زینے کے راستہ میں ایک بلب
جل رہا تھا۔
ڈاکٹر
سیٹھی کوریڈور کو طے کرتا ہوا زینہ کے قریب پہنچا تو اسے خیال آیا کہ کوشیلا کے
پاس جانے سے پہلے دیوی کے درشن کر لینا بہتر ہے۔ پھر اس کی نگاہیں لکشمی دیوی کے
مندر کی طرف اٹھ گئیں۔ لیکن وہ یہ دیکھ کر ٹھٹھک گیا کہ مندر کا دروازہ بھڑا ہوا
ہے۔
دیوی
کے مندر کا دروازہ بند کیوں ہے؟ اس نے سوچا کہ منش سے دیوی دیوتا بھی ڈرنے لگے
ہیں۔
لیکن…………لیکن…………لکشمی
دیوی کا یہ مندر تو سیٹھ موہن لال کی کوٹھی میں واقع ہے جہاں پرندہ پر مارے تو
پرندہ کے پر بھی جل جائیں گے۔ پھر وہ اس ارادہ سے مندر کی طرف چل دیا کہ ممکن ہے
کہ کیواڑ ہی لگے ہوں…………دروازہ کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ دروازہ میں سے روشنی باہر
آ رہی تھی اور ساتھ ہی دو آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ جس کا مطلب ہے کہ اندر کوئی
ہے۔
مندر
کے اندر ایک مذہبی پیشوا تھا۔ دوسری اس کی راہنمائی میں آسمان کا آنند حاصل کرنے
والی اور تیسری خود لکشمی تھی۔ دیوی خاموشی سے ان دونوں کو ہنستا ہوا دیکھ رہی
تھی۔ وہ نہ تو اپنے سیوک کو کچھ کہہ سکتی تھی اور نہ اپنی داسی کو۔ یقین و اعتماد
کی اس دیوار کو وہ نہیں ڈھا سکتی تھی۔ اس کے پرستار جس روپ میں بھی ہوں اسے قبول
تھا۔ یہ دیوی کی عزت و عظمت کی نشانی تھی۔
لیکن
ڈاکٹر سیٹھی نہ دیوی تھا اور نہ ہی دیوتا…………وہ تو بس ایک انسان تھا…………انسان جو
کسی بھی غیر متوقع حالت کو دیکھ کر شش و پنج میں پڑ جاتا ہے اور پھر اس کے جذبات
بھڑک اٹھتے ہیں۔
وہ
سوچ رہا تھا کہ میں زور زور سے چلا کر سیٹھ موہن لال کو بتائوں کہ سیٹھ آئو…………اور
اپنی دھرم پتنی کو دیکھو کہ یہ یہاں کیوں آئی ہے؟
کیا
میں لوگوں کو بتائوں کہ آئو اور دیکھو…………بدی سے بچنے کے ‘‘پاٹ’’ دینے والا۔ پنڈت
خود۔
مذہب
انسان کو زندگی گزارنے کے سلیقہ اور طریقے بتاتا ہے اور شیطان صفت انسان نے مذہب
کو بھی مذاق بنا لیا ہے اور وہ جب بھی جہاں موقع ملتا ہے خود اپنے ساتھ بغاوت کرتا
رہتا ہے۔
پنڈت
ہری رام کو اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ کوشیلا کا پائوں بھاری ہو گیا ہے۔ لیکن
پھر بھی وہ گومگوں کی حالت میں تھا۔ وہ کوشیلا کے ذہن میں ایمان کی ایسی مذہبی تہہ
جما دیتا تھا جس کے زیر سایہ وہ بلا کسی خوف و تردد کے بالک کو جنم دے سکے اور اس
مقصد کی خاطر…………قبل اس کے کہ کوشیلا مندر سے باہر آتی…………پنڈت نے گھمبیر آواز سے
کہا۔
کوشیلا…………آج
تجھے گؤماتا کے پوتر جل کو پینا ہو گا۔ تا کہ تیرے شریر سے جنم لینے والے انسان پر
کسی منحوس کا سایہ نہ پڑ سکے۔
گؤماتا
کے پوتر جل…………کوشیلا نے فرط عقیدت سے کہا۔
ہاں…………یہ
وہ جل ہے…………پنڈت ہری رام نے آنکھیں بند کر کے نہایت ہی رقت بھری آواز سے
کہا…………جسے انسان ایک بار پی لے تو جیون بھر پوتر رہتا ہے۔ اس پر کبھی گھٹنائیں
نہیں آتیں۔
لیکن
مہاراج یہ پوتر جل کہاں سے حاصل کروں گی…………کوشیلا نے کہا۔
تجھے
کہیں جانے کی ضرورت نہیں…………پنڈت ہری رام نے جواب دیا اور آگے بڑھ کر مندر کا
دروازہ کھول دیا۔ پھر اس نے دروازہ کے درمیان میں کھڑے ہو کر اپنی گائے کو مخصوص
انداز میں آواز دی۔
گائے
ایسی سدھی ہوئی تھی کہ پنڈت کی ایک آواز پر اپنے کھونٹے کو چھوڑ کر اس کی طرف چلی
آئی۔ پنڈت نے اس کے گلے میں پڑی ہوئی گھنگروں والی رسی کو پکڑ کر دروازہ کے اندر
کھینچ لیا۔
اور
پھر…………دیوی کے چرنوں میں کوشیلا گائے کے تھل تھل کرتے ہوئے نیم گرم پیشاب کو پی
رہی تھی اور اسے چہرہ پر مل رہی تھی۔ مٹی کے بنے ہوئے اس انسان کے عقائد کتنے
بھونڈے ہوتے ہیں۔
بھگوان…………گؤماتا…………پوتر
جل…………پنڈت…………پجاری…………یہ سب اس کے اعتقاد ہی تو ہیں۔ اگر اعتقاد نہ ہو تو
پھر…………پھر…………کچھ بھی نہ ہو…………صرف انسان ہو…………مٹی کا بنا ہوا۔ پاکیزہ سا دیوتا
جس کی مہک سے یہ کائنات ہمیشہ مسحور رہے۔ لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ مٹی کا یہ
انسان پتھر اور اعتقاد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
بچہ
اگر گود میں پیشاب کر دے تو ماں اسے فوراً ہی اتار دیتی ہے…………وہی ماں وہی مٹی کی
مورت اس وقت ایک چوپائے کے پیشاب کو مقدس سمجھ کر اپنے چہرہ پر مل رہی تھی۔ انسان
کے امکان سے باہر جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی تکمیل کے لئے ہر قسم کا سہارہ لیتا ہے۔
خواہ وہ ناجائز ہو یا نہ ہو۔
گائے
کا پیشاب اس کی آنکھوں میں جا رہا تھا۔ اس کے تمام جسم پر بہہ رہا تھا۔ اس کے
باوجود وہ خوش تھی ۔ اس کے جسم سے بلائیں دور ہوتی رہیں گی۔
جب
گائے پیشاب کر چکی تو پنڈت نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور وہ مندر کے باہر نکل گئی۔
گائے
کے جانے کے بعد کوشیلا نے پنڈت ہری رام کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا۔ اور مندر کے
باہر چلی آئی۔ آج وہ خوش تھی۔ بہت ہی خوش۔ ایسا کیف و سرور تو اسے عام حالات میں
بھی کبھی نہیں ملا تھا…………اس کا سارا بند ایک انجانی خوشی سے سرشار ہو رہا تھا۔
اور وہ اس ہی سرشاری کے عالم میں مسہری پر جا کر لیٹ گئی اور اس طرح چھ ماہ گزر
گئے۔
کوشیلا
کے جسم میں ایک نیا جسم اپنے ارتقاء کی منزلیں طے کرتا ہوا اس مرحلے میں داخل ہو
گیا۔ جہاں روح کی موجودگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔
کوشیلا
اور سیٹھ موہن لال ایک نئے انسان کی موجودگی سے بے انتہا خوش تھے۔ سیٹھ موہن لال
نے پنڈت ہری رام کے چرنوں میں دولت کا ڈھیر لگا دیا تھا۔ لیکن ماورائی طاقتوں کے
اس بادشاہ نے اس دولت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
کوشیلا
پنڈت ہری رام کی گرویدہ تھی۔ اس سے عقیدت رکھتی تھی۔ لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ
وہ مہان گیانی پنڈت ہے جسے اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دنیاوی لذتوں کو تیاگ
چکا ہے۔ اس نے جو کچھ بھی کیا ہے اس کی آشا کے کارن اور لکشمی دیوی کی آگیا کے
کارن کیا ہے۔
اس
کے دل اور دماغ میں پنڈت ہری رام کے لئے بے پناہ عقیدت تھی۔ وہ اس مہا پرش پنڈت کے
لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار تھی۔ غرضیکہ وہ ان دونوں میاں بیوی کی نظروں
میں پرماتما سے بڑھ کر تھا۔
سہ
پہر کو کوشیلا سو کر اٹھی اور سیدھی غسل خانہ میں چلی گئی۔ اس نے ٹب کا نل کھول
دیا۔ پھر اس نے غسل خانہ کی دائیں جانب دیوار کی طرف دیکھا۔ اس دیوار میں پچھلے ہی
ہگتے اس کے پتی دیوتا سیٹھ موہن لال نے بیلجیئم سے درآمد شدہ قد آدم شیشہ نصب
کرایا تھا۔ اس نے قد آدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا سراپا دیکھا۔ اسے اپنا
جسم کچھ عجیب سا لگا۔ بھدا…………بھدا سا بے ڈول…………لیکن اب اس کا یہ سڈول جسم عجیب
بے ڈھنگا سا ہو گیا تھا۔ اس کے جسم سے ایک جسم جنم لے رہا تھا اور اس لئے جنم لینے
والے نے اس کے حسن اور جسم کی بناوٹ ہی کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ لیکن یہ سب کچھ اس
کی اپنی منشاء کے مطابق ہو رہا تھا۔ اسے اور سیٹھ موہن لال کو اپنی بے پناہ دولت
کا وارث چاہئے تھا اور کوشیلا نے اس خواہش کی تکمیل میں اپنا حسن قربان کر دیا
تھا۔
محمد مونس خان عظیمی
یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک
جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن
جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم
ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس
کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا
مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔
میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا
اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین
و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا
جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔