Topics

جھوٹی پیش گوئی


                اب اس کے خوب صورت جسم سے اسے ماتا اور اس کے پتی کو پتا کہنے والا جنم لے رہا تھا…………اولاد کی چاہت جذبہ محبت پر چھا گئی اور وہ ایک انجانی خوشی کی لہر محسوس کرتی ہوئی پانی کے بھرے ٹب میں اتر گئی۔

                ٹب میں بیٹھ کر اس نے پانی کی سطح سے اوپر نکلے ہوئے جسم پر خوشبودار صابن ملا اور پھر آنکھیں بند کر کے چہرہ پر بھی لگانے لگی…………

                غسل کرنے کے بعد کوشیلا تولیہ کھینچتی ہوئی دروازہ کی طرف گئی۔ اور اس ہی لمحہ اس کا پائوں پھسل گیا۔ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور غسل خانہ کے فرش پر چاروں شانے چت گر پڑی۔

                سیٹھ موہن لال غسل خانے میں داخل ہوا تو کوشیلا کا جسم بالکل ڈھیلا پڑ چکا گھا…………وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔

                سیٹھ موہن لال یہ دیکھ کر گبھرا گیا۔ اس نے جلدی جلدی جیسے بھی ہو سکا کوشیلا کو بمشکل تمام اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور شب خوابی کے کمرہ میں لے آیا۔ اس کا سانس پھول چکا تھا۔ اس نے ڈسپنسری میں ڈاکٹر سیٹھی کو فون کیا اور اسے فوراً ہی گھر پہنچنے کو کہا۔

٭×××××××××××٭

                کوشیلا کی حالت تشویشناک تھی۔ ڈسپنسری کے چھوٹے سے آپریشن تھیٹر میں وہ میز پر بے ہوش لیٹی تھی۔ انجکشن لگانے کے بعد وہ آپریشن تھیٹر کے باہر آ گیا…………باہر سیٹھ موہن لال بے چینی سے ٹہل رہا تھا اور اس سے کچھ فاصلہ پر پنڈت ہری رام ایک کونے میں اطمینان سے کرسی پر بیٹھا پرارتھنا میں مصروف تھا۔

                ڈاکٹر سیٹھی کے باہر آتے ہی سیٹھ موہن لال نے بے تابی سے پوچھا۔

                ‘‘میری دھرم پتنی اب کیسی ہے؟’’

                تشویش کی کوئی بات نہیں…………ڈاکٹر سیٹھی نے تسلی دی…………میں نے انجکشن لگا دیا ہے۔

                ڈاکٹر کا تسلی آمیز جواب سن کر سیٹھ موہن لال پنڈت سے مخاطب ہوا۔

                پنڈت جی…………یہ میری بیس سال کی محنت ہے…………اتنے طویل عرصے بعد بھگوان نے مجھ پر کرپا کی ہے۔ مجھے اولاد سے نوازا ہے تم…………بھگوان سے اوپر پرارتھنا کرو…………کہ کوشیلا کو کچھ نہ…………کچھ بھی نہ ہو۔

                یہ سب بھگوان کی دین ہے۔ پنڈت ہری رام نے آنکھیں بند کر کے کہا۔

                لکشمی دیوی نے بھگوان سے سفارش کر دی ہے تیری آشا پوری ہو جائے گی۔ تجھے تیری دولت کا وارث ملے گا…………اوش ملے گا۔ پنڈت جی…………سیٹھ موہن لال فرط عقیدت سے اس کے پائوں چھو کر بولا۔ آپ تو جانتے ہیں اولاد کے لئے ڈاکٹر مایوس ہو چکے ہیں…………یہ اختیار صرف بھگوان کو حاصل ہے۔

                ہاں سیٹھ صاحب…………یہ سب بھگوان کے ہاتھ میں ہے۔ ڈاکٹر سیٹھی نے چبھتا ہوا طنز کیا۔ ڈاکٹر تو صرف دوائیں دے سکتے ہیں…………بچہ پیدا نہیں کر سکتے بچہ تو صرف بھگوان کے سچے سیوک ہی پیدا کر سکتے ہیں۔

                آخری جملے پر پنڈت ہری رام نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور برجستہ جواب دیا۔

                اس لئے کہ ان میں بھگوان کی پرائیت کی ہوئی شکتی ہوتی ہے…………اور وہ ابھی اپنا جملہ پورا بھی نہیں کر پایا تھا کہ ایک نرس نے تیزی سے آ کر ڈاکٹر سیٹھی کو بتایا کہ …………کوشیلا ہوش میں آ گئی ہے۔

                یہ سنتے ہی سیٹھ موہن لال نے اپنا سر پنڈت ہری رام کے قدموں میں جھکا دیا اور ڈاکٹر سیٹھی دوبارہ آپریشن تھیٹر میں چلا گیا۔

                ڈاکٹر سیٹھی آپریشن ٹیبل کے قریب پہنچ کر قدرے کوشیلا پر جھک سا گیا۔ جیسے یقین کرنا چاہتا ہو کہ واقعی وہ ہوش میں آ گئی ہے۔

                کوشیلا نے سیٹھی کو جھکا دیکھا تو نہایت ہی کرب سے بولی…………ڈاکٹر میرے پیٹ میں سخت درد ہو رہا ہے۔ پھر اس نے سخت افسردگی سے کہا…………کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے ارمانوں کی کلی مرجھا جائے۔

                کیسی باتیں کر رہی ہو کوشیلا…………ڈاکٹر سیٹھی نے اس کی پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تسلی سے کہا۔ جب بھگوان نے بچہ دیا ہے تو وہ اسے سدا زندہ بھی رکھے گا۔ میں اپنی کوشش کر رہا ہوں…………بچہ ضائع نہیں ہو گا۔

                ڈاکٹر کی تسلی آمیز بات سن کر کوشیلا نے اطمینان سے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔

                ڈاکٹر سیٹھی نے نرس کو ایک اور انجکشن تیار کرنے کا حکم دیا اور کوشیلا کے پیٹ پر آہستہ سے ہاتھ پھیرنے لگا۔

                کوشیلا کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر سیٹھی نے موہن لال کو اس کی تشویش ناک حالت سے آگاہ کر دیا اور سیٹھ موہن لال نے نہ صرف شہر کی دو مشہور و معروف لیڈی ڈاکٹرز کو بھاری فیس دے کر بلا لیا تھا بلکہ اس نے امریکہ کے ایک ماہر ڈاکٹر سے بھی فون پر رابطہ قائم کر رکھا تھا لیکن تمام وسائل کے باوجود ڈاکٹروں کی سر توڑ جدوجہد کے باوجود کوشیلا کے ماں بننے کا ارمان پورا نہیں ہوا۔

                پنڈت ہری رام کی پرارتھنائیں بھی بے کار ثابت ہوئیں اور پھر پورے دس دن بعد…………کوشیلا کے ہاں مرا ہوا بچہ پیدا ہوا۔ ڈاکٹر سیٹھی پسینے میں شرابور تھیٹر سے باہر نکلا اور بڑے ہی دکھ سے بولا…………سیٹھ جی کیا ہوا…………سیٹھ موہن لال نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی پوچھا…………میری کوشیلا تو ٹھیک ہے نا؟

                سیٹھ جی…………ڈاکٹر سیٹھی نے ڈرتے ہوئے کہا…………کوشیلا…………ٹھیک ہے۔ اسے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے…………لیکن…………لیکن اس کا بچہ ضائع ہو چکا ہے۔

                کیا بکتے ہو…………سیٹھ موہن لال نے چیخ کر کہا۔ جیسے اسے اپنے کانوں پر یقین نہ ہو۔

                کونے میں بیٹھے ہوئے پنڈت ہری رام نے اس کی طرف چونک کر دیکھا اور پھر بلند آواز سے بولا۔ یہ غلط ہے…………یہ سچ ہے پنڈت جی…………ڈاکٹر سیٹھی نے زہر خند لہجے میں کہا۔

                اس کے ساتھ ہی ایک نرس سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے بچہ کو لے کر باہر آ گئی۔ سیٹھ موہن لال سخت ذہنی دبائو میں آ کر ڈاکٹر سیٹھی کو کاندھے سے پکڑ کر چلایا…………یہ نہیں ہو سکتا…………میرا بچہ نہیں مر سکتا…………پھر اس نے پاگلوں کی طرح آنکھیں پھاڑ کر کہا…………کیا میرا بچہ میرا نہیں تھا۔

                یہ میں نہیں بتا سکتا۔ ڈاکٹر سیٹھی نے خشک لہجے میں جواب دیا۔ اس بات کا علم مجھ سے زیادہ پنڈت جی کو ہے۔

                یہ سن کر سیٹھ موہن لال پاگلوں کی طرح پنڈت کی طرف پلٹ کر بولا…………کہو پنڈت …………ہری رام نے بے خیالی سے جواب دیا۔ کیا مطلب…………سیٹھ موہن لال نے غم و غصہ سے کہا۔

                بچہ بھگوان نے دیا تھا۔ بھگوان نے ہی واپس لے لیا…………پنڈت ہری رام نے خلا میں گھورتے ہوئے کہا…………کہنے کو تو اس نے یہ بات کہہ دی لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہوا۔

                پنڈت کی بات سن کر سیٹھ موہن لال نے قریب کھڑی ہوئی نرس کی طرف دیکھا…………پھر اس نے بچہ کو جھپٹا اور دیوانوں کی طرح بھاگتا ہوا لکشمی دیوی کے مندر کی طرف چلا گیا۔

                پنڈت جی…………اب کوشیلا کے جیون کے لئے پرارتھنا کیجئے گا۔ ڈاکٹر سیٹھی نے نہایت ہی سرگوشی سے کہا۔ پنڈت ہری رام اس کے اس جملے کا طنز سمجھ گیا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کنٹھ مالا کو گلے میں ڈال لیا اور خاموشی سے مندر چل دیا۔ اس کے مندر کی طرف تھکے تھکے سے اٹھتے ہوئے قدم اس کی شکست خوردگی کا پتہ دے رہے تھے۔

                اسے ایک بار پھر شکست ہو گئی تھی۔

                لکشمی دیوی کے قدموں میں سیٹھ موہن لال اپنے مردہ بچے کی لاش سینہ سے لگائے پڑا تھا۔ شاید لکشمی دیوی سے دی ہوئی بھکشا کا شکوہ کر رہا تھا…………اور لکشمی دیوی نے بچہ کے ساتھ ساتھ اسے بھی اپنے پاس بلا لیا تھا…………سیٹھ موہن لال اس صدمے سے جانبر نہ ہو سکا۔

                پنڈت ہری رام ہاتھ جوڑے سر جھکائے لکشمی دیوی کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے دل سے آہیں نکل رہی تھیں…………وہ دیوی سے شکوہ کر رہا تھا لیکن دیوی خاموش تھی جیسے پنڈت کی کوئی بات سننا نہیں چاہتی ہو۔

                یکایک پنڈت کو احساس ہوا کہ لکشمی دیوی تو پتھر کی مورتی ہے…………وہ بھلا کیا سنے گی۔ لکشمی دیوی کو یہ طاقت کہاں کہ کسی کو اولاد دے دے اور اس کے ساتھ ہی اعتماد و یقین کی عمارت ڈھیر ہو گئی۔

                پنڈت ہری رام کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کا جسم بھاری ہو گیا ہو………… اس نے خود کو منوں بوجھ تلے محسوس کیا…………یہ غم کا بوجھ تھا…………بچہ کی موت کا صدمہ تھا…………وہ بچہ جو اگر زندہ رہتا تو پنڈت ہری رام کی ماورائی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہوتا۔ پنڈت ہری رام کو پہلی بار محسوس ہوا کہ غم بھی کوئی چیز ہے…………وہ خالی خالی نظروں سے بچہ کو دیکھ رہا تھا…………معصوم سا بھولا بھالا بچہ…………

                اولاد کیا ہوتی ہے۔ یہ کونسی نعمت ہے جس کے لئے میاں بیوی تڑپتے ہیں۔ پہلی بار اس کے ذہن میں اولاد کی اہمیت اجاگر ہوئی اور اس کے ساتھ ہی شفقت پدری کا جذبہ بھی بیدار ہو گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر بچہ کو لینا چاہا لیکن اسی وقت مندر میں سیٹھ موہن لال کے عزیز و اقارب روتے ہوئے داخل ہوئے۔

                ڈاکٹر سیٹھی نے انہیں بتا دیا تھا کہ سیٹھ اس حادثہ سے اپنا ذہنی توازن کھو چکا ہے اور وہ بچہ کو لے کر لکشمی کے مندر میں گیا ہے۔

                سیٹھ کے رشتہ داروں نے اس کی اور بچہ کی لاش کو اٹھا لیا اور الٹے قدموں سے مندر سے نکل گئے۔

                سیٹھ موہن لال کی ارتھی کو اس کے بھائی نے آگ لگائی…………شعلے فضا میں بلند ہوئے اور پنڈت ہری رام کو اشلوک پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا سارا وجود جل رہا ہو۔ جلتے ہوئے گوشت کی سڑانڈ اسے اپنے ضمیر کی سڑانڈ محسوس ہوئی۔

                سیٹھ موہن لال اور بچہ کی چتا شعلوں کی لپیٹ میں تھی اور پنڈت ہری رام خود بھی اس آگ میں جل رہا تھا۔ اس کی روح دھواں بن کر ان شعلوں میں تبدیل ہو رہی تھی…………اس کی ماورائی طاقت بھسم ہوتی جا رہی تھی اور جب وہ جلی ہوئی چتا کی راکھ کے پاس سے اٹھا تو خود بھی راکھ کا ڈھیر ہو چکا تھا۔

                اب وہ بس عام سا آدمی تھا۔ ایسا آدمی تھا جس کے دل میں اولاد کی تمنا تھی اور بیوی کی خواہش۔ جو اب بھگوان کا سیوک نہیں بلکہ اس دھرتی کا اپرادھی تھا۔ جب تک اسے ماورائی طاقتیں حاصل تھیں تب تک وہ بھگوان کا سیوک تھا۔

                مندر اس کا ٹھکانہ تھا۔ پجاری اور پجارنیں اس کی خدمت کرنا باعث فخر سمجھتی تھیں۔ لیکن اب تو وہ کچھ بھی نہیں تھا محض ایک انسان تھا…………اور انسان کا ذہن تیزی سے کام کرتا ہے…………کیونکہ وہ ہر کام کے انجام سے بے خبر ہوتا ہے لیکن پھر بھی اچھائی کی امید پر جو کچھ بھی سمجھتا ہے کر ڈالتا ہے۔

                پنڈت ہری رام کی اصل حقیقت ابھی کسی پر ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ اس نے مستقبل میں زندگی گزارنے کا لائحہ عمل تیار کر لیا۔ اور چتا کے پاس سے ایک نئے عزم نئے ولولہ کے ساتھ اٹھا اور لکشمی دیوی کے مندر کی طرف چل دیا۔

٭×××××××××××٭

                کوشیلا جلد ہی صحت یاب ہو گئی۔ ہندو مذہب میں عورت کا بیوہ ہو جانا بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بیوہ ہونے کے بعد معاشرہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ حتیٰ کہ اس کی گھریلو زندگی بھی اجیرن ہو جاتی ہے۔ کوشیلا ودوا ہو چکی تھی اور سیٹھ موہن لال کی چتا کی راکھ ابھی ٹھنڈی بھی نہ ہونے پائی تھی کہ اس کی جائیداد کے سینکڑوں وارث پیدا ہو گئے۔

                کوشیلا کی محل نما کوٹھی میں اس کے سسرال والوں نے ڈیرہ جما لیا تھا اور اس کے تین دیور جو کہ زمینداری کرتے تھے مل کے مالک بننے کے منصوبے بنانے لگے…………ان کے ساتھ دو نندیں اور ان کے شوہر بھی شامل ہو گئے۔

                وہ لوگ کوشیلا کو کسی بھی معاملے میں نہیں پوچھتے تھے بلکہ وہ لوگ کھل کر یہ بات کہتے تھے کہ اگر آج موہن لال کی بیوی بانجھ نہ ہوتی تو انہیں اس چلتے ہوئے کاروبار کو سنبھالنے کی خاطر گائوں سے نہ آنا پڑتا۔

                اس کی نندیں منہ بگاڑ بگاڑ کر کہتیں۔ اس کے ابھاگن نے ہمارے بھائی کو کھا لیا۔

                کوشیلا کے ماتا پتا بھی آ چکے تھے۔ وہ لوگ غریب نہ تھے۔ اس کے باوجود چاہتے تھے کہ اس کی جائیداد میں سے کچھ نہ کچھ تو ان کی بیٹی کو ملنا چاہئے۔

                کوشیلا ان تمام جھگڑوں سے الگ تھی اسے صرف ایک ہی فکر تھی…………ایک ہی غم تھا کہ اب اس کا کیا ہوگا۔ اگر آج اس کی اولاد ہوتی تو اسے کسی بھی بات کی فکر نہ ہوتی۔ ان خاندانی جھگڑوں اور جائیداد کی کشمکش کو ختم کرنے کی خاطر اس نے پنڈت ہری رام سے رجوع کرنے کا سوچا۔

                اس کی نظروں میں وہ اب بھی مہاپرش پجاری تھا اور اسے یقین تھا کہ ان تمام دشواریوں کو پنڈت ہری رام چٹکی بجاتے میں حل کر دے گا۔

٭×××××××××××٭

                پنڈت ہری رام لکشمی دیوی کے سامنے بیٹھا مستقبل کے تانے بانے بنانے میں مشغول تھا۔ کوشیلا نے مندر میں پہنچ کر پنڈت کو سر جھکائے سوچ میں گم دیکھا تو سمجھی وہ گیان کر رہا ہے لہٰذا وہ خاموشی سے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی۔

                پنڈت ہری رام نے کچھ دیر بعد یونہی گردن اوپر کو اٹھائی تو دیکھا کہ کوشیلا سامنے کھڑی ہے۔ کوشیلا کو اچانک اپنے سامنے پا کر وہ چونک سا گیا۔

                اسے ودوا ہوئے صرف ایک ماہ ہی ہوا تھا۔ شوہر کی موت کا غم اس کے چہرے پر نمایاں تھا۔ اس کے باوجود سیاہ رنگ کی ساڑھی میں بہت اچھی لگ رہی تھی۔

                پنڈت جی…………کوشیلا نے ٹھہرے ہوئے لہجہ میں کہا۔ لکشمی نے مجھے اولاد دی تھی وہ بھی لے لی۔ پتی دیوتا تھا و سورگ باش ہو گیا…………پھر وہ قدرے تیز لہجہ میں بولی…………اب دیوی سے کہو۔ دھن بھی واپس لے لے۔ جس کی خاطر رشتہ دار آپس میں لڑتے مرتے ہیں…………جس کی خاطر انہوں نے میرا جینا مشکل کر دیا ہے۔ دیوی تیرا دکھ جانتی ہے…………پنڈت ہری رام نے تحمل سے جواب دیا۔

                پنڈت جی…………دیوی سے کہو مجھے بھی اپنے پاس بلا لے…………کوشیلا نے زمین پر بیٹھ کر اس کے پائوں چھوتے ہوئے رندھی آواز میں کہا…………میرا سب کچھ برباد ہو گیا…………سب کچھ تباہ ہو گیا…………اب میں اس جیون میں کیا کروں گی…………کیا کروں گی۔

                آخری الفاظ کے ساتھ ہی اس کا دل بھر آیا۔ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

                نراش نہ ہو…………پنڈت ہری رام نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا…………دیوی دیا لوہے وہ تیری ضرور سائیتا کرے گی…………اگر جیون میں کھٹنائیں نہ ہوں تو آتما کو چین کیسے ملے گا۔

                پھر اس نے بڑے ہی پیار بھرے لہجے میں سمجھایا۔

                تیرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا…………یہ ہونا ہی تھا…………یہ سب تیرے پچھلے جنم کا کھوٹ تھا…………دیوی نے تیری آشا پوری کر دی تھی لیکن تیرے پچھلے گناہوں کو ختم کرنا دیوی کا کام نہیں تھا…………وہ کھشٹ تو تجھے ملنا ہی تھا۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی کوشیلا تعجب سے پنڈت ہری رام کو دیکھنے لگی۔

                منش کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ کسی کے کارن ہو رہا ہے۔

                پنڈت ہری رام نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا…………حالانکہ اسے جن کھٹنائوں سے گزرنا ہوتا ہے وہ اس کے پچھلے جنم کا کیا دھرا ہوتا ہے…………اور جب وہ ان کھٹنائوں سے گزر جاتا ہے تو آتما کو آنند مل جاتا ہے پھر جیون میں سکھ ہی سکھ ہوتا ہے۔

                لیکن…………یہ کیسا کھشٹ ہے مہاراج کہ میرا…………تو یہ جیون بھی نرکھ بن گیا ہے۔ کوشیلا نے ڈرتے ڈرتے غمزدہ آواز میں کہا۔

                جیون کو دوش نہ دے…………پنڈت ہری رام نے اسی ہی طرح پیار سے سمجھایا…………یہ سب کچھ تیرے پچھلے جنم کے کارن ہوا ہے…………جو ہونا تھا ہو گیا…………کھشٹ ختم ہوا…………اب پھر تو نیا جیون شروع کر دے اب تیرے جیون میں سکھ ہی سکھ ہیں۔

                میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا مہاراج…………کوشیلا نے اپنی سسکیوں پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

                میرے ودوا ہوتے ہی رشتہ داروں نے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ ہر رشتہ دار دولت حاصل کرنے کے چکر میں لگا ہوا ہے۔ کوئی میری طرف…………دھیان ہی نہیں دیتا۔ کوئی میرا دکھ سمجھتا ہی نہیں۔ اتنا کہہ کر اس نے ساڑھی کے پلو سے اپنا منہ چھپا لیا اور پھر سسکیاں لینے لگی۔

                دکھ سمجھا نہیں جاتا…………پنڈت ہری رام نے کہا…………دکھ تو بانٹا جاتا ہے…………اور تیرا دکھ بانٹنے کے لئے میں ساتھ ہوں۔

                آپ…………آپ مہاراج…………کوشیلا نے حیرت و خوشی کے ملے جلے لہجہ میں پوچھا۔

                پنڈت ہری رام جانتا تھا کہ غمزدہ کے زخموں پر مرہم رکھنے کا یہی موقع ہے…………یہی وقت تھا جبکہ وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتا تھا…………لہٰذا نہایت ہی چالاکی سے بولا۔

                دیوی نے تیری سہائیتا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور جس طرح اس نے اپنے سیوک کے ذریعے تجھے اولاد سے نوازا تھا اس ہی طرح اپنے سیوک کے ذریعہ تیرے جیون میں سکھ ہی سکھ بھر دے گی۔

                لیکن…………یہ سب کیسے ہو گا…………کوشیلا نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

                تو اس کی چنتا نہ کر…………پنڈت ہری رام نے سمجھایا۔ اگر تجھے جیون میں سکھ چاہئے تو صرف میری آگیا کا پالن کرنا ہو گا…………اس کے بعد اس نے کوشیلا کو دونوں بازوئوں سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے کہا۔

                جب بھی مجھے دیوی کا سندیس ملے گا میں تیرے جیون میں خوشیاں بھر دونگا…………اب تو جا اور اس سمے کا انتظار کر۔

                یہ سن کر کوشیلا نے پنڈت ہری رام سے مزید گفتگو کرنا بے کار سمجھا۔ اس نے ساڑھی کے پلو سے اپنی آنکھوں کو صاف کیا اور خاموشی سے باہر نکل آئی۔

٭×××××××××××٭

                غمزدہ شخص کی مثال اس کشتی کی مانند ہوتی ہے جس کا بادباں ٹوٹ گیا ہو…………اور ہوا کے رحم و کرم پر ہو…………پھر عورت…………اور وہ بھی ایسی عورت جو بیوہ ہو چکی ہو…………جس کے کوئی اولاد نہ ہو۔ جس کی کوئی دلجوئی کرنے والا نہ ہو۔ ایسی عورت تو اس شیشے کی مانند ہوتی ہے جو ٹوٹ کر بکھر گیا ہو۔

                عورت…………خواہ کسان کی بیوی ہو یا کسی بادشاہ کی، مرد اس کا سب سے بڑا سہارا ہوتا ہے۔

                کوشیلا کا یہی سہارا تھا جو ختم ہو گیا تھا۔

                پنڈت ہری رام نے اس بے سہارا عورت کو سہارا دینے کا وعدہ کر لیا تھا اور کوشیلا کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ بے یار و مددگار نہ ہو۔ اس میں حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم پیدا ہو گیا۔ مہان پنڈت کے سہارے تو وہ دنیا سے مقابلہ کر سکتی ہے۔

                اسے کیا معلوم کہ پنڈت تو اب خود خالی ہاتھ تھا۔

                اب وہ ہفتہ میں دو تین بار لکشمی دیوی کی پوجا کے بہانہ مندر میں آ جاتی تھی اور تنہائی کے ان لمحات میں پنڈت ہری رام سے باتیں کر کے اس سے مدد کی طلبگار ہوتی تھی لیکن پنڈت ہر بار اسے یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ…………ابھی دیوی کا اپدیش نہیں ملا ہے۔

                درحقیقت…………وہ دریا میں طوفان آنے کا منتظر تھا…………وہ جانتا تھا کہ کوشیلا کو بیوہ ہوئے صرف چند ماہ ہی ہوئے…………اور وہ شوہر سے جدائی کا غم زیادہ عرصہ نہیں سہہ سکے گی۔

                ضبط کا بند ایک نہ ایک دن ٹوٹ ہی جائے گا۔

                دریا کا پانی کناروں سے بہہ نکلے گا اور یہی وہ موقع ہو گا جب کہ وہ جیون بھر تشنگی بجھانے کی خاطر اس دریا سے پانی حاصل کر لے گا۔

٭×××××××××××٭

                کچھ عرصہ بعد کوشیلا کے سسر نے بینک بیلنس پر قبضہ کر لیا۔ بھائیوں نے مل کر حصے بخرے کر لئے۔ نندوں نے اس کے جسم سے زیور اتار لیا…………اب وہ یک و تنہا دلبرداشتہ پنڈت کے سامنے کھڑی تھی۔

                پنڈت نے اس کے دکھے ہوئے دل پر ایک بار پھر مرہم رکھا۔ اسے سمجھایا کہ اس سنسار میں دکھ ہی دکھ ہے اور اب بہتر یہی ہے کہ اس سنسار کو چھوڑ دیا جائے۔

                کوشیلا کو پنڈت سے محبت تھی اس کے دل میں پنڈت کے لئے عقیدت و احترام تھا…………وہ اس کی ماورائی طاقتوں کی گرویدہ تھی۔

                اسے جب یہ پتہ چلا کہ پنڈت بھی اسے چاہتا ہے اس سے پریم کرتا ہے اور اب جیون ساتھ گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اسے خوشی ہوئی۔

                ہندو معاشرہ میں کسی بیوہ عورت کو شوہر کا سہارا مل جانا اس کی سب سے بڑی خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے۔ اس معاشرہ میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔

                کوشیلا اپنی قسمت پر جتنا بھی ناز کرتی کم ہے۔ پنڈت نے اس کے ساتھ جیون گزارنے کا فیصلہ کر کے اس پر بہت بڑا احسان کیا تھا۔

                ان دونوں نے اس شہر سے چلے جانے کا منصوبہ بنایا۔

                اور پھر ایک رات کوشیلا نے وہ نقدی اپنے ساتھ لی جس کا علم اس کے مرحوم پرتی کو بھی نہیں تھا اور لکشمی دیوی کے مندر میں آ گئی۔ ان دونوں نے ایستادہ لکشمی دیوی کی الوداعی پوجا کی۔ اور پھر مندر کے باہر نکل آئے۔ اب دونوں نامعلوم منزل کی طرف گامزن تھے۔ جہاں ان کے استقبال کے لئے سکھ ہی سکھ موجود تھے۔

٭×××××××××××٭

                ۰۵۹۱؁ء کا ذکر ہے جبکہ تقسیم ہند کو چار سال گزر چکے تھے۔

                پنڈت ہری رام نے ہندوستان چھوڑ دیا تھا۔ اس نے ہندو معاشرہ سے کنارہ کشی اختیار کر کے پاکستان میں آ کر سکھر شہر میں بود و باش اختیار کر لی۔

                کوشیلا اپنے گھر سے جو کچھ لے کر چلی تھی وہ کچھ زیادہ نہیں تھا۔ لیکن منگل سوتر جو سیٹھ موہن لال نے اسے دیا تھا اور وہ اس کے سہاگ کی نشانی تھا قیمتی تھا کیونکہ اس میں ایک بڑا سا ہیرا نصب تھا۔

                اس کے پاس جو کچھ بھی تھا کچھ تو سفر کے دوران خرچ ہو گیا اور باقی جو بچا اس سے انہوں نے شہر کے مضافات میں رہائش کے لئے مکان خرید لیا تھا…………منگل سوتر جسے کوشیلا نے بہت حفاظت سے رکھا تھا نہ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔

                پنڈت ہری رام تعلیم اور ہنر سے بے بہرا تھا۔ ذریعہ معاش اس کے لئے مسئلہ بن گیا۔ منگل سوتر کا ہیرا ہوتا تو وہ اسے بیچ کر کوئی منافع بخش کاروبار کر لیتا۔ پھر بھی اس نے پیٹ بھرنے کی خاطر روہڑی شہر میں واقع ایک بنئے کی دکان پر منشی کی نوکری کر لی تھی اور ساتھ ہی وہ اس کوشش میں مصروف رہتا تھا کہ کوئی ایسا گیانی سادھو مل جائے جو اسے ہیرے کا پتا بتا دے۔

 

 

 

 



Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔