Topics
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم
ہے کہ سلسلہ عظیمیہ کے کسی بھی فرد نے جب بھی حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے روحانی مشن
کی ترویج و ترقی کے لئے کوئی ارادہ کیا اور ارادہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے قدم بڑھایا
تو اللہ تعالیٰ کی مدد اسے حاصل ہوئی۔ ہمیں کبھی اس بات کا تردد نہیں ہوا کہ ہم سلسلہ
کا کام کریں گے تو کامیابی ہو گی یا نہیں ہو گی۔
ہم نے اپنے ظرف کے مطابق اگر
کسی چھوٹے کام کا انتخاب کیا تو اللہ تعالیٰ نے چھوٹا کام کرا دیا اور اگر ہم نے بڑے
کام کا انتخاب کیا تو اللہ تعالیٰ نے بڑا کام کرا دیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’ہم نے انسان کے لئے سماوات
اور زمین اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب مسخر کر دیا۔‘‘
جہاں تک وسائل اور اس کی محکومیت
کا تعلق ہے عام آدمی بھی اس سے مستفیض ہو رہا ہے مثلاً ہوا زندگی کے لئے کتنا بڑا وسیلہ
ہے۔
ہوا کے بغیر زندگی زیربحث
ہی نہیں آتی۔ کوئی آدمی چاہے یا نہ چاہے، کوشش کرے یا نہ کرے، زندگی کے لئے ہوا کی
ضرورت خود بخود پوری ہو رہی ہے۔ انسانی مشین کو چلانے کے لئے آکسیجن کا ایندھن ضروری
ہے۔ آدمی چاہے یا نہ چاہے آکسیجن اسے ملتی رہتی ہے۔ غذائی ضروریات کے لئے زمین موجود
ہے۔
اگر زمین اتنی سخت کر دی جائے
کہ وہاں پہاڑ کے علاوہ کچھ نظر نہ آئے تو ایک دانہ گندم بھی دستیاب نہیں ہو گا۔ اس
کا مطلب یہ ہوا کہ زمین آپ کی خدمت گزاری کے لئے مجبور ہے۔ اس لئے مجبور ہے کہ اللہ
تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ جو بندے زمین پر رہتے ہیں وہ وسائل کے ساتھ زندہ رہیں۔ علیٰ
ہذاالقیاس آپ جتنا بھی غور و فکر کریں گے ایک ہی بات نظر آئے گی کہ وسائل زندگی کی
بنیادی ضرورت ہیں۔
وسائل انسان کے تابع ہیں اور
انسان کو فائدہ پہنچا رہے ہیں لیکن لوگ روتے ہیں، شکوہ کرتے ہیں ، وسائل کی کمی سے
پریشان بھی ہوتے ہیں اور کبھی کوئی یہ نہیں سوچتا کہ بنیادی ضروریات کبھی تشنہ تکمیل
نہیں رہتیں۔ اللہ تعالیٰ وسائل فراہم کرتے رہتے ہیں اور ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں۔
وسائل پابند ہیں کہ انسان کی خدمت گزاری پر مستعد رہیں۔
۱۔ سب انسان اللہ کے بنائے ہوئے وسائل استعمال کرتے ہیں مگر اس طرف غور
نہیں کرتے کہ زندگی کو برقرار رکھنے والے وسائل وافر مقدار میں ہر وقت، ہر آن، ہر لمحہ
دستیاب ہیں۔
۲۔ دوسرا گروہ غور و فکر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔
جب تک وہ چاہتا ہے ہم دنیا میں رہتے ہیں اور جب وہ چاہتا ہے ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین کا پیدا ہونا اللہ کی مرضی سے ہوا اور زندہ رہنے کے لئے
وسائل کی فراہمی قانون قدرت کی ذمہ داری ہے۔ اگر قدرت وسائل فراہم نہیں کرے گی تو انسان
مر جائے گا۔ یہ مرنا جینا ایک قانون کے تحت ہے۔ ہماری زندگی ہماری موت اسی کے چاہنے
پر ہے۔ یہی طرز فکر استغناء ہے۔
استغناء ایک کیفیت ہے روحانی
شاگرد سے جس کی مشق کرائی جاتی ہے۔ سالک کے ساتھ بار بار ایسے حالات و واقعات پیش آتے
ہیں کہ بالآخر وہ یقین کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہاں جو کچھ ہے سب اللہ کی طرف
سے ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی اور پالنے والا نہیں ہے۔
جب تک مشاہدات نہیں ہوتے بار
بار تجربہ نہیں ہوتا۔ انسان کے اندر یقین کی تکمیل نہیں ہوتی۔ آدمی کی عادت ہے کہ کوئی
کام اس کی عقل سے ماؤرا ہو جاتا ہے تو اسے اتفاق کہہ دیتاہے۔ دو چار دس اور پچاس سو
کام جب اس طرح کے ہوتے ہیں تو اس کے ذہن سے اتفاق کا لفظ نکل جاتا ہے۔
سلسلہ عظیمیہ کے دوستوں کے
ساتھ قدرت کا تعاون اس لئے ہے کہ اللہ کے دوست حضور قلندر بابا اولیاءؒ چاہتے ہیں کہ
سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ہر فرد کا رابطہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پکا ہو جائے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے
استغناء کے ضمن میں سورۃ اخلاص کو بڑی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے
ہیں کہ اللہ ایک ہے۔ مخلوق ایک نہیں ہوتی۔ اللہ احتیاج نہیں رکھتا اور مخلوق ہر ہر
قدم پر محتاج ہے۔ مخلوق کسی کا بیٹا ہوتی ہے یا باپ ہوتی ہے۔ مخلوق کا خاندان بھی ہوتا
ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں اپنی
پانچ صفات کا ذکر کیا ہے۔ اور وہ پانچ صفات ایسی ہیں کہ جس میں انسان چار صفات میں
بے بس ہے۔ ان میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا مثلاً مخلوق یکتا نہیں ہو سکتی۔ لازم ہے
کہ مخلوق اولاد یا باپ ہو۔ مخلوق کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا کوئی خاندان ہو۔
ایک ایجنسی ایسی ہے جس سے انسان اللہ کے ساتھ وابستگی کو مستحکم کر سکتا ہے۔ وہ یہ
ہے کہ انسان اگر چاہے تو وسائل کی احتیاج سے آزاد ہو کر صرف ایک ہستی یعنی اللہ سے
اپنی توقعات قائم کر لے۔ جس طرح اللہ وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ اسی طرح انسان تمام وسائل
کی احتیاج سے اپنا ذہن ہٹا کر اللہ کے ساتھ وابستہ ہو جائے۔ اللہ کے ساتھ وابستگی قائم
کرنے کے لئے تجربہ ضروری ہے۔ مشاہدہ بھی ضروری ہے۔ اور یہ تجربہ اور مشاہدہ ایک بار
نہیں بار بار ہونا ضروری ہے۔ آپ کا ایک کام ہو گیا تو آپ نے کہا اتفاق سے میرا یہ کام
ہو گیا ہے۔ آپ کا ایک کام ہو گیا تو آپ نے کہا اتفاق سے میرا یہ کام ہو گیا ہے۔ دوسرا
کام جس کے ہونے کی کوئی امید نہیں تھی وہ بھی ہو گیا۔ اور ان اتفاقات میں آپ کی زندگی
میں دس بیس سو کام ہو گئے۔ ظاہر ہے آپ یہ کہیں گے یہ کیسا اتفاق ہے کہ ہر وہ کام جس
کے بارے میں میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ یہ کام نہیں ہو سکتا وہ کام ہو جاتا ہے
اور جو میں چاہتا ہوں وہ نہیں ہوتا۔
سلسلہ عظیمیہ کے امام لوگوں
کے اندر استغناء پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ جتنا ان تجربات اور مشاہدات کے بارے میں ذہن
استعمال کریں گے اسی مناسبت سے آپ کے اندر استغناء پیدا ہو جائے گا۔
ہر آدمی اپنے ماضی میں جھانکے،
جب وہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ اس چھوٹے سے بچے کے ذہن میں نہ وسائل تھے نہ کوئی اپنی
ذاتی خواہش تھی نہ اس کے اندر وسائل کے حصول کی فکر تھی لیکن وسائل اس بچہ کو فراہم
ہوتے رہے۔
آپ اپنے بچے کو گود میں لے
کر ایک گھنٹہ تک بیٹھ سکتے ہیں۔ ایک گھنٹہ تک اسے گود میں لے کر نہلا سکتے ہیں۔ دوسرے
کے بچوں کو آپ اتنی دیر گود میں نہیں لیتے۔ جس طرح آپ اپنے بچے کے لئے پوری پوری رات
نیند خراب کرتے ہیں محلے کے بچے کے لئے نیند خراب نہیں کرتے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے
کہ جس سے کوئی آدمی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس بچہ کو والدین کے
لئے مخصوص کر دیا ہے۔ وہ مخصوص اس بنیاد پر ہوا کہ ماں کے دل میں اس بچہ کی محبت ڈال
دی ہے جو اس کے بطن سے پیدا ہوا۔ سب بچوں سے ہر آدمی محبت کرتا ہے لیکن کیا کوئی ماں
یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ میں دنیا کے تمام بچوں سے اپنی اولاد کی طرح پیار کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔؟
ایک بادشاہ لاوَلد تھا۔ اس
کے اولاد نہیں ہوتی تھی۔ طے یہ ہوا کہ کوئی بچہ لے کر پال لیا جائے۔ ایک جمعدارنی کا
انتخاب ہوا کہ یہ گھر گھر جاتی ہے اس سے کہا جائے کہ خوبصورت بچہ لے کر آئے۔ تلاش شروع
ہو گئی۔ دو مہینے گزر گئے بچہ نہیں ملا۔ بادشاہ نے اس کو بلا کر کہا کہ اگر کل بچہ
نہیں لائی تو میں تجھے قید کر دوں گا۔ وہ اگلے دن ایک بچہ کو لے آئی۔ وہ موٹے موٹے
نقوش والا کالا کلوٹا بچہ تھا۔ ناک بہہ رہی تھی، آنکھیں میلی تھیں۔ بادشاہ بچہ کو دیکھ
کر کہا کہ شہر میں تجھے یہی بچہ ملا ہے؟
جمعدارنی نے کہا کہ شہر میں
اس سے خوبصورت بچہ مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔
بادشاہ نے پوچھا یہ کس کا
بچہ ہے؟
جمعدارنی بولی۔ سرکار! یہ
میرا بیٹا ہے۔
وسائل کا جہاں تک تعلق ہے
بچہ وسائل کے نام اور استعمال سے واقف ہی نہیں ہوتا۔ اس تجربہ اور مشاہدہ سے یہ ثابت
ہوا کہ انسان کی ابتدا وسائل کی پابند نہیں ہے۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اس کے اندر
لاشعوری حرکات و سکنات کم ہوتی چلی جاتی ہیں اور شعوری حرکات و سکنات بڑھتی رہتی ہیں۔
جیسے جیسے شعوری حرکات اس کے اندر زیادہ ہوتی ہیں بچہ بالغ اور باشعور ہوتا ہے۔ وہ
خود کو اپنے ارادے اور عقل سے وسائل کا پابند سمجھنے لگتا ہے۔ حقیقت امر یہ ہے کہ خود
کو وسائل کا پابند سمجھتے رہنے سے وسائل بنانے والے کی طرف ذہن نہیں جاتا۔ وسائل کی
پابندی سے ذہن ہٹے گا تو وسائل تخلیق کرنے والے کی طرف ذہن متوجہ ہو گا۔
انسان اشرف المخلوقات ہے۔
انسان کے علاوہ کائنات میں کوئی اشرف نہیں ہے۔ یہ بات انسان کے علم میں ہو یا نہ ہو
لیکن دوسری مخلوق اور فرشتے جانتے ہیں۔
حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانیؒ
بیمار تھے۔ ایک بزرگ نے دروازہ پر دستک دی۔ بڑا بیٹا باہر گیا۔ بزرگ نے ایک خط دیا
اور کہا۔
’’اپنے ابا کو دے دو۔‘‘
بیٹے نے باپ کو خط دے دیا۔
انہوں نے خط پڑھا اور فرمایا کہ
’’ان سے جا کر کہو آدھے گھنٹے
بعد تشریف لائیں۔‘‘
بیٹے نے جا کر کہہ دیا۔ کہ
ابا کہہ رہے ہیں آدھے گھنٹے بعد آنا۔بزرگ چلے گئے۔
حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانیؒ
نے جلدی جلدی ضروری کام نمٹائے اور ان کا انتقال ہو گیا۔ تکفین و تدفین کے بعد بیٹے
کو خیال آیا کہ وہ بزرگ کون تھے۔ ابا نے انہیں آدھے گھنٹے بعد بلایا تھا۔ وہ کیوں نہیں
آئے؟ خط کی تلاش ہوئی تو خط تکیہ کے نیچے مل گیا۔ خط میں لکھا تھا:
’’میں آپ کی خدمت میں حاضر
ہوا ہوں۔ بڑی سرکار سے آپ کا بلاوا آیا ہے۔ بتایئے کیا حکم ہے؟‘‘
نیچے لکھا تھا۔’’عزرائیل‘‘
آدھے گھنٹے کے بعد بلایا تھا۔
ملک الموت آدھے گھنٹے بعد آیا اور بہاؤ الدین ذکریا ملتانیؒ کو اپنے ساتھ لے گیا۔
قلندر غوث علی شاہؒ لکھتے
ہیں کہ کلیر شریف میں ایک صاحب تھے، کافر شاہ۔ شام کے وقت غوث علی شاہ اور کافر شاہ
سیر کرنے نہر کے کنارے چلے گئے۔ باتیں کرتے کرتے کافر شاہ اچانک بولے۔
’’بھائی ہمارا بلاوا آ گیا
ہے اور ہم جا ریہ ہیں۔‘‘
کافر شاہ لیٹ گئے اور کہنے
لگے۔
’’اب میرے پیروں کی جان نکل
رہی ہے۔ میری جان سینے میں آ گئی ہے۔ اب میری جان حلق میں ہے۔ اچھا بھئی! خدا حافظ۔‘‘
اور مر گئے۔
غوث علی شاہؒ حیران ہوئے کہ
یہ بھی کوئی مرنے کا طریقہ ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد سورج غروب ہو گیا۔ رات ہو گئی۔ غوث
علی شاہؒ صاحب کو خیال آیا کہ رات بھر جنگل میں لاش پڑی رہے گی۔ یہ نہ ہو کہ مردہ جسم
میں بھوت گھس جائے یا لاش کوئی جانور کھا جائے۔ عشاء کی نماز بھی قائم نہیں ہوئی۔ صبح
کی اذان کے وقت کہنے لگے:
’’اے بھائی کافر شاہ! میں
نے تیرے ساتھ کیا برائی کی تھی جس کی تو نے مجھے یہ سزا دی ہے، میری نماز بھی گئی۔
ساری رات تو نے مجھے بٹھائے رکھا۔ میں کہیں جا بھی نہیں سکتا۔‘‘
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے
کہ کافر شاہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ وہ اٹھ کر بیٹھے تو غوث علی شاہؒ کو یہ گمان گزرا کہ
ان کے جسم میں کوئی بدروح گھس گئی ہے۔ کہنے لگے۔
’’اچھا۔‘‘
اور ہاتھ میں لاٹھی لے کر
کھڑے ہو گئے۔ لاٹھی سر پر مارنے والے ہی تھے کہ کافر شاہ بولے۔
’’بات سن تھوڑی دور کھڑا ہو
جا۔وہاں کھڑے ہو کے بات کر۔‘‘
ہمت کر کے پچھلے پیروں ذرا
دور کھڑے ہو گئے۔ کافر شاہ بولے۔
’’میں بدروح نہیں ہوں، ابھی
تو شکوہ کر رہا تھا کہ میں مر گیا اور تیری نماز قضا گئی۔ اور رات بھر تجھے زحمت دی
میں نے۔ تو اپنی نماز پڑھ لے۔ میں تھوڑی دیر بعد مر جاؤں گا۔‘‘
غوث علی شاہؒ کو بڑی حیرت
ہوئی اور پوچھا۔
’’یہ مرنا کیا ہے؟‘‘
کافر شاہ نے کہا۔’’یہ بعد
میں بتاؤں گا۔ وضو کر آ۔‘‘
جلدی جلدی گھبراہٹ میں وضو
کر کے آئے اور کہنے لگے۔
’’بھائی کافر شاہ! کیا تم
واقعی مر گئے تھے۔ اگر مر گئے تھے تو زندہ کیسے ہوئے؟‘‘
کہنے لگے۔ ’’جیسے میں بارہ
گھنٹے پہلے مر گیاتھا ویسے ہی میں پھر مر جاتا ہوں۔‘‘
اور پھر کہنے لگے۔
’’میرے پیروں سے جان نکل گئی،
ٹانگوں سے نکل گئی۔‘‘
انہوں نے ہاتھ جوڑ کر بڑی
منت سماجت کی کہ شہر میں جا کر مرنا۔ پھر مجھے مصیبت پڑے گی۔ میں تجھے کہاں نہلاؤں
گا؟ کہاں سے کفن دوں گا؟ کس طرح دفن کروں گا؟ آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے؟ کون
سے وقت کی دشمنی نکال رہا ہے؟
کافر شاہ کہنے لگے۔
’’بھائی! حکم یہی ہے کہ یہاں
پر مرنا ہے۔‘‘
غوث علی شاہؒ نے پوچھا۔’’مرنے
کے بعد کیا ہوتا ہے؟‘‘
کہا۔ ’’مرنے کے بعد کیا ہوتا
ہے اس کو بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن میرے ساتھ بہت اچھا ہوا ہے۔ تو فکر نہ کر۔
مرنے کی جگہ تو یہی متعین ہے۔ تین بندے آئیں گے ان کے پاس بیلچہ ہو گا۔ قبر کھود کر
دبا دیں گے۔ کفن کا کیا ہے ایک چادر تم اپنی ڈال دینا ایک ان سے لے لینا اور دفنا دینا۔‘‘
ا ور وہ مر گئے۔
مرنے سے پہلے غوث علی شاہؒ
نے پوچھا۔
’’تم کون ہو؟ کہاں سے آئے
ہو؟ کون سا وطن ہے؟‘‘
کافر شاہ نے کہا۔ ’’یہ پوچھنے
کی کیا ضرورت ہے کہ کہاں سے آئے ہو، کون سا وطن ہے۔ لوگوں نے کچھ ایسی باتیں ہم میں
دیکھی ہوں گی کہ کافر شاہ کہنے لگے تو ہم نے اپنا نام ہی کافر شاہ رکھ لیا۔ ہم اتنا
بتا دیتے ہیں کہ ہم ایک شہزادے تھے اور ہم نے اپنی سلطنت چھوڑ کر یہ راستہ اختیار کیا
اور یہاں صابر صاحبؒ کے پاس آ گئے اور اللہ نے ہماری طلب سے زیادہ نعمت عطا کر دی۔‘‘
آپ کو اللہ نے جس شرف پر پیدا
کیا ہے۔ آپ نے نہ اس شرف کو تلاش کیا نہ اس شرف کو کبھی اہمیت دی۔ آپ نے جب اللہ تعالیٰ
کے دیئے ہوئے اشرف کو اہمیت نہ دی، اس کو تلاش نہیں کیا تو آپ اشرف المخلوقات کے دائرے
میں کس طرح آئیں گے؟ لیکن پھر بھی عطا کردہ وسائل آپ سے روگردانی نہیں کرتے۔ لاکھوں
کروڑوں سال کی تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ہے کہ سورج نے آپ کو کبھی دھوپ دینے
سے انکار کیا ہو۔ تاریخ انسانی میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ چاند نے آپ سے انحراف
کیا ہو۔ ہوا نے انکار کیا ہو کہ میں انسان کی ضرورت پوری نہیں کر سکتی۔ سارے وسائل
آپ کے پاس ہیں۔ اب جب آپ خود ہی وسائل اپنے اوپر مسلط کرتے ہیں، خود ہی اپنی نفی کرتے
ہیں، خود ہی اپنے لاشعور کو رد کرتے رہتے ہیں تو محرومی آپ نے اپنے اوپر مسلط کر لی
ہے، یہ محرومی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ چاہتے
ہیں کہ ہر عظیمی دوست ایسا راسخ العلم ہو کہ علم اس کا مشاہدہ بن جائے اور وہ ہر آن
اور ہر لمحہ باطنی اور ظاہری آنکھوں سے یہ دیکھ سکے کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہو رہی
ہے۔ ہر چیز کا حصول، ہر چیز کا نزول اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو رہا ہے اور ہر چیز اللہ
کی طرف لوٹ رہی ہے۔
روحانی علم مشاہداتی علم ہے،
روحانی علم یقین ہے۔ مشاہدہ کے بغیر یقین کی تکمیل نہیں ہوتی۔
گھر میں گانا بجانا ہوتا ہے
تو بچے گویے بن جاتے ہیں۔ گھر میں شاعری ہوتی ہے تو بچے شاعر بن جاتے ہیں۔ گھر میں
ناچ گانا ہوتا ہے تو بچے ناچ گانا سیکھ لیتے ہیں۔ گھر میں نعت خوانی ہوتی ہے تو بچے
نعتیں پڑھتے ہیں۔ گھر میں قرآن خوانی ہوتی ہے تو بچے قرآن خوانی کرتے ہیں۔ گھر میں
ماں باپ نمازی ہیں تو بچے ماں باپ کی نقل کرتے ہیں۔ گھر میں علم ہو تو بچے علم حاصل
کرتے ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ علم سیکھیں۔ سائنسی علوم سیکھیں۔
مشاہداتی علم سیکھیں۔
اگر مشاہداتی نظر نہیں ہے
تو انسان اشرف المخلوقات نہیں ہے۔ انسان کے اندر یقین کا پیٹرن نہیں ہے تو اس کے اندر
ایمان داخل نہیں ہوتا۔ ایمان نہیں ہے تو انسان اشرف المخلوقات نہیں۔
اشرف المخلوقات اس کو کہتے
ہیں جس کے اندر وہ سماعت کام کرتی ہو جس سماعت کی بنیاد پر انسان نے اللہ کی آواز سنی
ہے۔ جس نے عالم ارواح میں اللہ کو دیکھا تھا۔ اور اشرف المخلوقات وہی انسان ہے جو ناسوتی
نظام میں اللہ کا عرفان حاصل کرے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’میں تمہاری رگِ جان سے زیادہ
قریب ہوں۔‘‘
آپ کہیں گے نظر کیوں نہیں
آتا جبکہ اللہ رگ جاں سے زیادہ قریب ہے۔ کوئی آدمی آپ سے یہ کہتا ہے کہ میاں تم اپنی
جان سے واقف ہو۔ آپ کے پاس کیا جواب ہے؟ جب آپ اپنی جان سے ہی واقف نہیں ہیں تو جان
سے جو قریب ہے اس سے کیسے واقف ہوں گے۔ جان سے مراد روح ہے۔ جان سے مراد آپ کی اصل
ہے۔ جب آپ اپنی روح سے ہی واقف نہیں تو اللہ کو کیسے دیکھیں گے؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’میں تمہارے اندر ہوں تم
مجھے دیکھتے کیوں نہیں؟‘‘
اندر سے مراد روح ہے۔ روح
کی وجہ سے ہی آپ کا مادی جسم حرکت کر رہا ہے۔ اچھل کود رہا ہے۔ کبر و نخوت کی تصویر
بنا ہوا ہے۔ انسان انا کے خول میں بند ہے۔ اگر آپ روح کی حقیقت کو پا لیں گے تو آپ
کے اندر تکبر نہیں رہے گا۔ آپ جب اپنی روح سے واقف ہو جائیں گے تو آپ کے وجود کی اصل
آپ کے سامنے آ جائے گی۔ اور جب تک آپ جسمانی نظام کو ہی سب کچھ سمجھتے رہیں گے، روح
پردے میں رہے گی۔
جسمانی نظام کو سب کچھ سمجھنا
ہی جہالت ہے۔ یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ جسمانی زندگی ہی سب کچھ ہے تو جسم فنا
کیوں ہو رہا ہے۔ مٹی کے ذرات میں تبدیل کیوں ہو رہا ہے؟ جو چیز ہر لمحہ اور ہر آن فنا
ہو رہی ہے اصل کس طرح ہو سکتی ہے؟
ہمارا مشن ہے کہ انسانی برادری
کو ایسے تجربات سے گزارا جائے جس کے نتیجے میں وہ یہ کہنے پر مجبورہو جائے کہ سب کچھ
اللہ ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم سب اپنے بزرگ، اپنے باپ، اپنے جد حضور قلندر بابا
اولیاءؒ کی طرز فکر کے مطابق تجربات اور مشاہدات کو سامنے رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ
یقین کا پیٹرن اجاگر کریں۔ جیسے جیسے یقین کا پیٹرن ہمارے اندر اجاگر ہوتا چلا جائے
گا اسی مناسبت سے ہم دنیا میں رہتے ہوئے پر سکون اور خوف و غم سے آزاد زندگی میں لوٹ
جائیں گے۔ جب ہم اس دنیا کی گرفت سے آزاد ہو کر یہاں رہتے ہوئے پر سکون اور خوف و غم
سے آزاد زندگی میں داخل ہو جائیں گے تو ہمارے اندر یقین کا پیٹرن اتنا مستحکم ہو جائے
گا جتنا ہمارے باپ (آدم ؑ ) اور ہماری ماں (حوا ؑ ) کے اندر تھا۔
یاد رکھئے! جب بندہ اللہ کے
قریب ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر سکون، استغراق اور سرور کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
آپ کا فرض ہے اللہ تعالیٰ
کی قربت کا جو تصور آپ کے اندر بیدار اور متحرک ہو گیا ہے اسے ساری دنیا میں عام کر
دیں۔ اللہ کا پیغام بلا کسی تفریق کے پوری نوع انسانی تک پہنچا دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ
سب کا حامی و ناصر ہو۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرکزی مراقبہ ہال، کراچی
۱۷ جنوری ۲۰۰۰ء
Chasm E Mah Roshan Dil E Mashad
خواجہ شمس الدین عظیمی
مٹی کی
لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس
جاگیر
ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس
ٹکڑے جو
قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں
ان ٹکڑوں
کا نام ہم نے رکھا ہے حواس
(قلندر
بابا اولیاءؒ )
انتساب
مربّی،
مشفّی
مرشد کریم
کے نام
الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت
کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے
کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب
میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم
موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی
سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔
اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ
سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی،
محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔