Topics
نماز فجر کے وقت مرشد کریم
نے اپنی مدھر آواز میں نفی اثبات کا ذکر کرایا اور پھر مراقبہ ہوا۔ آج آخری روز تھا۔
ناشتہ پر سب ساتھی گذشتہ روز زیارت کے سفر کا تذکرہ کر رہے تھے کہ مرشد کریم نے یہ
پر مزاح تبصرہ فرمایا کہ یہ تو آرمی کی ڈرل (فوجی مشق) محسوس ہوتی تھی۔
ہلکے پھلکے ناشتہ کے بعد ریلوے
اکیڈمی روانگی ہوئی باہر نکلے تو سامنے پہاڑوں پر صبح کی دھوپ بے جان سی نظر آئی۔ راوی
نے مرشد کریم سے عرض کی حضور کوئٹہ آج اداس ہے۔ آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ کوئی بات
نہیں کراچی خوش ہو جائے گا۔ پھر کہا کہ بھئی آپ خوش رہا کریں۔ دوبارہ ملاقات ہو گی۔
انشاء اللہ۔ افسردگی اچھی بات نہیں ہوتی۔
مرشد کریم ریلوے اکاؤنٹس اکیڈمی
پہنچے۔ جہاں 9بجے اکیڈمی کے آفیسران ار ان کے اہل خانہ کے ساتھ نشست کا اہتمام تھا۔
اکیڈمی کے ڈائریکٹر جناب صلاح الدین صاحب اور ڈپٹی ڈائریکٹریس محترمہ سعیدہ بلوچ صاحبہ
نے الشیخ عظیمی صاحب کا استقبال کیا۔ محترمی نواب بھائی نے مرشد کریم کی علمی کاوشوں
اور سلسلہ کی تعلیمات سے حاضرین کو آگاہ کیا۔ آپ نے حاضرین کو روحانی علوم سیکھنے کی
اہمیت سے آگاہ کیا اور حاضرین محفل کو سوالات کی دعوت دی۔
’’مراقبہ، تفکر، روح‘‘
ایک صاحب نے سوال کیا۔ سپرٹ
اور مائنڈ میں کیا فرق ہے؟ ان کی حدود کیا ہیں اور مائنڈ پاور فل ہے یا سپرٹ؟
آپ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔انفارمیشن
اور انفارمیشن کی سورس (Information and Source
of Information) پر یہ ساری کائنات قائم
ہے۔ دماغ (مائنڈ) کی حیثیت انفارمیشن یعنی اطلاع کی ہے۔ اور روح اس اطلاع کا ماخذ اور
منبع(Source) ہے۔ اگر ماخذ ہی نہ ہو تو اطلاع نہیں ہو گی۔ روح، سپرٹ یا Soulپوری زندگی کی دستاویز یا
پوری زندگی کا ریکارڈ ہے۔ اس دستاویز سے دماغ اخذ کرتا ہے اور آگے بڑھا دیتا ہے پھر
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے یہ مثال دی کہ ہر آدمی میں پڑھنے لکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
ایک آدمی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ دوسرا آدمی ہے ایک کلاس بھی نہیں پڑھتا۔ اب
جس آدمی نے نہیں پڑھا اس کیلئے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس میں صلاحیت نہیں تھی۔ اس
لئے اس نے نہیں پڑھا۔ دراصل اس نے سورس آف انفارمیشن سے اپنے دماغ میں کچھ منتقل ہی
نہیں کیا۔ اس لئے اس کا مظاہرہ بھی نہیں ہوا۔
دوسر ے صاحب نے سوال کیا کہ
روحانی علوم سیکھنے کیلئے مراقبہ کے علاوہ کوئی اور آسان راستہ ہو تو بتائیں۔
آپ نے کہا کہ مراقبہ کوئی
مشکل عمل نہیں ہے۔ مراقبہ روحانیت سیکھنے کا آسان ترین راستہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ
جتنے بھی پیغمبر گزرے ہیں۔ سبھی نے مراقبہ کیا ہے۔ مراقبہ ایک اصطلاحی نام ہے۔ جس کا
مطلب ہے غور کرنا، تفکر کرنا یعنی کسی بھی چیز کی بات یکسوئی اور مرکزیت کے ساتھ سوچ
بچار Concentrationکرنا۔
قرآن حکیم میں سات سو چھپن
آیات تفکر، غور و فکر اور تدبر سے متعلق احکامات کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان ساڑھے سات سو
آیات میں کائنات پر غور کرنے، اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر تفکر کرنے اور اس قسم کی باتوں
پر سوچنے کی دعوت دی گئی ہے۔ چاند کیا ہے، سورج کیا ہے، کہکشانی نظام کیا ہیں؟ آپ اپنے
گھر میں پانی پر تفکر کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے بنایا ہے۔ باغ میں جا کر
مختلف پھولوں پر تفکر کر سکتے ہیں کہ ایک ہی قطعہ زمین و یکساں مٹی سے ایک جیسے پتوں
اور مختلف رنگوں اور خوشبو والے پھول کیسے نکل آئے۔ اس تفکر و فکر کرنے کا اصطلاحی
نام مراقبہ ہے۔
مراقبہ میں آنکھیں بند کرنے
کیلئے اس لئے کہا جاتا ہے کہ آنکھیں بند کرنے سے یکسوئی جلدی ہو جاتی ہے۔
سائنسی ایجادات غور و فکر
ہی کا تو نتیجہ ہیں۔ اگر روحانی عالم غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ
مراقبہ کہاں سے آ گیا؟
میرے عزیز بھائی! کیا شریعت
نے سوچنے، غور و فکر کرنے اور تفکر کرنے سے منع کیا ہے؟
ایک صاحب نے یہ جاننا چاہا
کہ سلسلہ عظیمیہ کس مسلک سے ہے اور چار سلسلوں میں کس سے وابستہ ہے؟ آپ نے بتایا کہ
سلسلہ اور مسلک میں فرق ہوتا ہے۔ مسلک کا تعلق فقہ سے ہے اور سلسلہ روحانی تعلیمات
کا سکول ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اب تک دنیا میں دو سو سلاسل
رائج ہوئے۔ برصغیر میں چار سلاسل زیادہ معروف ہیں کیونکہ ان کے بزرگوں نے عوام میں
زیادہ کام کیا ہے۔ یہ سلاسل اس بنیاد پر قائم ہوئے کہ جیسے جیسے نوع انسانی کے شعور
نے ترقی کی اسی مناسبت سے سلسلے کے اسباق مرتب ہوئے۔ مثلاً آج کے دور میں ہم کہہ سکتے
ہیں کہ شعور انسانی بالغ ہو گیا ہے۔ جیسے جیسے قوموں کا ارتقاء ہوتا ہے اللہ کی طرف
سے ان کے لئے راستے متعین ہوتے رہتے ہیں۔ اور یہ بات قرآن حکیم کے عین مطابق ہے:
’’جو لوگ اللہ کے لئے جدوجہد
کرتے ہیں اللہ ان کے لئے اپنے راستے کھول دیتا ہے، انہیں ہدایت دیتا ہے۔‘‘
سلسلہ عظیمیہ نے انسانی شعور
کی پختگی اور سائنسی علوم کی پیش رفت کو سامنے رکھتے ہوئے اسباق مدون کئے ہیں جن سے
انسان آسانی سے روحانی علوم سیکھ سکتا ہے مثلاً لوح محفوظ کو فلم پروجیکٹر یا ٹی وی
اسٹیشن کی مثال دے کر آسانی کے ساتھ سمجھایا جا سکتا ہے۔ یا روح کے متعلق کمپیوٹر کی
مثال دی جا سکتی ہے۔
ایک صاحب نے اپنی تشنگی کا
اظہار کچھ اس طرح کیا کہ کیا روح کو جانے بغیر بھی زندگی کا مقصد پورا ہو سکتا ہے؟
آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا
کہ روح کو جانے بغیر دنیا کا مقصد تو پورا ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کا اصل مقصد روح
کو جانے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ اب اگر آپ کا یقین ہے کہ اس دنیا کے بعد بھی دوسرا عالم
ہے۔ تو جب تک آپ روح کو نہیں جانیں گے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مرنے کے بعد روح ایک
عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہو جاتی ہے۔ گدھے اور انسان میں یہ فرق ہے کہ انسان روح
کو جان لیتا ہے اور گدھے کو اللہ نے یہ صلاحٰت ہی نہیں دی کہ وہ روح کو جان سکے۔ صلاحیت
ہونے کے باوجود بھی آدمی روح کو نہ جانے تو وہ کیا ہوا۔ انسان کا تو مقصد حیات ہی یہ
ہے کہ وہ اپنی روح کو جان لے اور اپنی روح کو جان لینے کے بعد اپنے رب کو پہچان لے۔
اب اگر کوئی شخص عرفان ذات اور عرفان الٰہی کے بغیر مرتا ہے تو مرنے کے بعد کی زندگی
جو بہت ہی لمبی، طویل اور نہ ختم ہونے والی ہے وہ بہت عذاب میں گزرتی ہے۔
ایک اور صاحب نے سوال کیا۔
جدید نفسیات نے اتنی ترقی
کی ہے کہ شعور، لاشعور اور تحت لاشعور کے مختلف درجات بیان کر دیئے گئے ہیں۔ کیا روحانیت
میں بھی شعور، لاشعور، تحت لاشعور ہوتے ہیں؟
جواب میں آپ نے بڑے موثر انداز
میں بتایا کہ ان باتوں سے روحانیت کا دامن کبھی خالی نہیں رہا۔ بات صرف اتنی ہے کہ
انسانی شعور کمزور تھا۔ بات سمجھانے کے باوجود سمجھ نہیں آتی تھی۔ اب جدید علوم میں
پیش رفت ہونے اور سائنسی ایجادات سامنے آنے کے بعد روحانی معاملات سمجھنے اور سمجھانے
میں بہت آسانی اور سہولت ہو گئی ہے مثلاً بجلی، ریڈیو، ایٹم کی تھیوری، لہروں کا نظام،
کمپیوٹر وغیرہ کی مثالیں انسانی ذہن کو بات سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔ اسی طرح زمین
کے طبقات اور ان کے رنگ بتا دیئے گئے ہیں۔ اب اس بات کو کون مانے گا کہ زمین کو ایک
گائے نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور سینگ بدلنے سے زلزلہ آتا ہے۔ آج اس توجیہ
کو ایک باشعور آدمی قبول نہیں کر سکتا۔
سارا قرآن روحانیت ہے۔ قرآن
کو ایک ارب مسلمان جانتے اور مانتے ہیں۔ مگر قرآن کریم کی روح سے واقف نہیں اسی ہی
لئے ذلیل و خوار ہیں۔ ہمارے اسلاف چونکہ قرآن حکیم کی روح سے واقف تھے اس لئے ساری
دنیا پر حکمران تھے۔ ایک اور فرق آپ نے بیان کیا۔ مسلمان اور مومن الگ الگ بات ہے جو
روحانیت سے واقف ہوتا ہے وہ موحد ہو جاتا ہے مشرک نہیں رہتا۔ الحمد اللہ میرے شاگردوں
میں سوائے یہودیوں کے دیگر مذاہب کے لوگ بھی ہیں۔ ایک بار ایک ہندو شاگرد نے میرے اسباق
پر ذوق و شوق سے عمل کیا جب اس نے بہت ہی زیادہ ترقی کی تو کہا کہ میں مسلمان ہونا
چاہتا ہوں لیکن میں نے کہا کہ ابھی آپ لگے رہیں حتیٰ کہ ایک دن وہ بہت گھبرایا ہوا
آیا کہ رات خواب میں کرشن جی نے کہا کہ میری طرف سے خواجہ صاحب کو کہو کہ تجھے سیدھا
راستہ دکھا دیں تو میں نے اس کو کلمہ پڑھا دیا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسانی
ارتقاء کی تکمیل سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہو گئی لیکن ہم بحیثیت مسلمان
وہ نہیں رہے جو ہمارے اسلاف تھے یقیناً ہم پیچھے ہٹے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علوم اور نعمتوں سے فائدہ اٹھانے میں فی الوقت ناکام
ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اس باوقار نشست
کا اختتام ہوا۔
گھر پہنچ کر موجود افراد سے
ملاقات ہوئی۔ کھانا کھایا گیا اور آرام کے بعد ملاقات کے منتظر صوبائی وزیر تعلیم اور
ان کے اہل و عیال سے ملے۔ روانگی سے قبل اہل خانہ سے فرداً فرداً ملے۔ سب اہل خانہ
آپ کے قیام کے دوران اس سعادت پر مشکور تھے۔ آپ نے سب کو دعا دی اور شکریہ ادا کیا۔
چھوٹے بیٹے جس کو آپ نے معصومیت و سادگی پر اپنا دوست بنا لیا تھا اسے پیار کیا اور
کہا کہ یہ مجھے بہت یاد آئے گا۔ دعا کے ساتھ ہی گھر سے روانگی ہوئی اور مراقبہ ہال
پہنچے۔ جہاں کافی دیر سے سلسلے کے بہن بھائی الوداعی ملاقات کے منتظر تھے۔ صبح سے یوں
محسوس ہوتا تھا کہ ہر چیز رخصت ہو رہی ہے۔ مشن کے فروغ کے تناظر میں اس حرکت ہی میں
برکت ہے۔ بہتا پانی ایک جگہ جمع نہیں ہوتا یہ نشیب و فراز سے گزرتا ہوا پیاسی زمین
کو سیراب کرتا آگے بڑھتا رہتا ہے۔
آپ نے اپنے قیام کے دوران
یہاں دو تعارفی تقاریب، چار علمی نشستوں، دو تربیتی ورکشاپس، دو روحانی محافل، چار
محافل مراقبہ میں ملاقات برائے علاج و مسائل اور دو مرکزی سیمینارز میں شرکت فرمائی۔
تسخیر کائنات، روحانی خواتین اور علم الاسماء جیسے اہم موضوعات پر اپنے زریں افکار
و خیالات سے مستفیض فرمایا۔ حتیٰ کہ سیر و تفریح میں بھی جس طرح شستہ پیرائے میں آپ
نے ساتھیوں کی فکری تربیت کا اہتمام کیا اور سب سے بڑھ کر جس محبت و قربت سے نوازا
اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ آپ یہاں سے روانگی کے وقت پروگرام کے انتظامات، دورہ کے
نتائج اور ساتھیوں کی محبت و خدمت سے بہت خوش ہوئے۔ ائیرپورٹ پر ہم سب نے دلگیر جذبات
میں مرشد کریم کو خدا حافظ کہا۔
اس سوچ کے جواب میں کہ مرشد
کریم کی محبت و قربت سے ان دنوں میں ہم نے کیا حاصل کیا؟ تو گزرے دنوں کو یاد کرتے
ہوئے جب غور و فکر کیا تو ہرگز لمحہ اور مرشد کے عمل سے جو سبق ملا وہ یہ ہے:
اصل خالق و مالک اللہ ہے اور
اللہ ہی سب کچھ کرنے والا
قادر مطلق ہے۔
وادی اوڑک میں ڈیم کے قریب
سیر کے دوران جب مختلف ساتھی فطرتی حسن کو بیان کرتے ہوئے پانی کے وسائل، آبپاشی و
آبنوشی کے منصوبے اور قدرتی مقامات کی معلومات مرشد کریم کو بتا رہے تھے یا پھلوں کی
اقسام و باغات کی تفصیلات بیان ہو رہی تھیں تو مرشد کریم کافی دیر تک بغور سب کی باتیں
سنتے رہے۔ بالآخر آپ نے گہرے تاسف کے ساتھ فرمایا کہ ان تمام تفصیلات میں اگر ایک ذکر
نہیں کیا گیا تو وہ خالق کائنات اللہ کا ذکر ہے۔ اللہ جو مصور کائنات ہے۔ جس نے زمین
بنائی۔ پہاڑ قائم کئے۔ پانی کے چشموں اور دریاؤں کا نظام بنایا، درخت اگائے، پھل پھول
پیدا کئے۔ پانی کو ٹھنڈا، میٹھا اور خوش ذائقہ بنایا۔ بندہ ہر ظاہری چیز کا ذکر تو
کرتا ہے۔ وادی کا حسن تو دیکھتا ہے لیکن اس تمام قدرتی و فطرتی حسن اور وسائل کا خالق
’’اللہ‘‘ اس کے ذہن میں نہیں آتا۔
علم الیقین و عین الیقین کا
تقاضہ ہے کہ پس پردہ حقیقت سے روشناس ہو کر اپنے ہر عمل اور ذہنی حرکت کو اسی حقیقت
کے تناظر میں دیکھا جائے اور اس ذات کی قلبی نسبت حاصل کر لی جائے جو ان مناظر، وسائل
اور نعمتوں کا مالک ہے۔ ہمارا خالق اور ہمارا کفیل ہے۔ خود زندہ ہے اور ہمیں زندگی
کو قائم رکھنے کے لئے وسائل فراہم کرنے والا حئ و قیوم ہے۔ اور جس کی طرف پلٹ کر ہم
نے واپس جانا ہے۔
Chasm E Mah Roshan Dil E Mashad
خواجہ شمس الدین عظیمی
مٹی کی
لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس
جاگیر
ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس
ٹکڑے جو
قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں
ان ٹکڑوں
کا نام ہم نے رکھا ہے حواس
(قلندر
بابا اولیاءؒ )
انتساب
مربّی،
مشفّی
مرشد کریم
کے نام
الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت
کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے
کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب
میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم
موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی
سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔
اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ
سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی،
محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔