Topics

یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری جگنو کا دن وہی جو رات ہے ہماری


آپ کو معلوم ہے کہ رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات ہوتی ہے۔ کوئی رات ایسی  نہیں گزرتی جس کے بعد دن نہ آئے۔۔۔ کوئی دن ایسا نہیں آتا جس کے بعد رات کا اندھیرا نہ ہو۔

·                    اگر رات دن زندگی ہے تو سوال یہ ہے کہ زندگی کیا ہے۔۔۔؟

·                    زندگی جاگنے اور سونے کا عمل ہے تو سونا جاگنا کیا ہے۔۔۔؟

·                    زندگی کھانے پینے، نسل بڑھانے کا نام ہے تو بالآخر سب کچھ ختم ہوجانا کیا ہے۔۔۔؟

·                    ختم ہوجانا ہی سب کچھ ہے تو پھر بقا کیا ہے۔۔۔ بقا کا ادراک نہ ہو تو پھر ادراک کیا ہے۔۔۔؟

سونا اور جاگنا، تقاضوں کی تکمیل کا کامیاب یا ناکام پروگرام ہے۔ بھوک پیاس کو زندگی کہا جائے تو بھوک لگتی ہے۔۔۔ ہم کچھ کھالیتے ہیں۔ خشک آنتیں پانی سے سیراب ہوتی ہیں۔ اعضا مضمحل ہوں اور جسم تھک جائے ہم سوجاتے ہیں۔نیند کا غلبہ بیداری سے دور کرتا ہے اور بیداری نیند سے دور کردیتی ہے۔ بیداری اگر حرکات و سکنات ہے پھر سکوت کیا ہے۔۔۔؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمین پر آنے سے پہلے ہم کہیں تھے، کہاں تھے ہمیں یاد نہیں۔۔۔ کیا آپ کو یاد ہے۔۔؟

 نیند کی دنیا میں قدرت ہر روز یاددہانی کراتی ہے کہ یہاں آنے سے پہلے ہم کہیں تھے اور وہاں زندگی کے شب و روز کیا تھے۔نیند اور بیداری مختلف ہونے کے باوجود مشترک ہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ جب کھانا پینا، سونا جاگنا ، محبت نفرت، خوشی غم، علم لاعلمی، دیدہ نادیدہ تقاضے۔۔۔ نیند اور بیداری میں یکساں ہیں تو پھر وہ کون سی بات ہے جو رات کو دن اور دن کو رات سے الگ کرتی ہے۔۔۔؟بات کو صحیح طرح سمجھنے کے لئے یک سو ہونا ضروری ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ خیالات کو رد نہ کریں، وہ گزرجائیں گے۔

وقت ایسی بساط ہے کہ شعوری دائرہ کار میں رہتے ہوئے کسی بھی طرح پیمائش ممکن نہیں۔ اسپیس کی مجبوری اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ جس جگہ ہم بیٹھے ہیں وہ ٹھہری ہوئی محسو س ہوتی ہے جب کہ زمین (اسپیس) ٹھہری ہوئی نہیں ہے۔اسپیس۔۔۔ ٹائم کی بیلٹ پر متحرک ہے اور دونوں رخ سوچ بچار کا تقاضا کرتے ہیں۔وقت گزرتا ہے لیکن نظر نہیں آتا۔۔۔ اسپیس نظر آتی ہے لیکن حرکت محسوس نہیں ہوتی۔

ٹائم اور اسپیس کی چھپن چھپائی سے رات اور دن کے حواس فہم بنتے ہیں۔ بیداری کے حواس میں فاصلہ اور نیند میں وقت غالب ہے۔ حواس میں تفریق۔۔۔ رفتار ہے۔

فارمولا:

حواس (فہم) + رفتار کم = دن

حواس (فہم) + رفتار زیادہ = رات

غالب اور مغلوب۔۔۔ ظاہر اور غیب ہے جب کہ شے دونوں حالتوں میں موجود ہے۔ لمحہ غائب ہو کر ظاہر ہوتا ہے اور غائب ہو کر مظہر بنتا ہے۔ دوسرا دن ’’دوسرا‘‘ اس لئے ہے کہ پہلا دن اس کے اندر موجود ہے۔ بڑھاپے میں جوانی، جوانی میں لڑکپن اور لڑکپن میں بچپن چھپا ہوا ہے۔ ادوار اسپیس اور ادوار کا دورانیہ وقت ہے۔

کسی کی عمر پچاس سال ہے تو پچاس سال میں وقت غالب۔۔۔ وقت میں موجود ادوار میں اسپیس غالب ہے۔۔۔ پچاس سال میں۔۔۔

اٹھارہ ہزار دو سو پچاس (18250) دن رات

چار لاکھ اڑتیس ہزار (438,000) گھنٹے

دو کروڑ باسٹھ لاکھ اسّی ہزار (26,280,000) منٹ

ایک ارب ستاون کروڑ اڑسٹھ لاکھ (1,576,800,000) سیکنڈ ہیں۔

اس میں کچھ بھی کم کرنے سے پچاس سال کی مقداریں متاثر ہوجائیں گی۔ لکھنا یہ مقصود ہے کہ پچاس سال میں ایک ارب ستاون کروڑ اڑسٹھ لاکھ سیکنڈ نہیں آتے جب کہ موجود ہیں۔

دو رخ ہر آن وجود رکھتے ہیں۔ جو رخ نگاہ بنتا ہے ہم اس کو ظاہر کہتے ہیں اور جو نظر نہیں آتا اسے غائب کہہ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،

’’ان کے لئے ایک اور نشانی رات ہے، ہم اس کے اوپر سے دن کو ہٹادیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھاجاتا ہے۔‘‘ (یٰس 37:)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری دنیا کائنات میں سب سے چھوٹا یونٹ ہے۔۔۔ دیگر عالمین کی طرح اس یونٹ میں کسی مقام پر دن تو دوسرے مقام پر رات ہوتی ہے۔ مشرق میں رات حاضر لیکن مغرب کے لئے رات غائب ہے۔ مغرب میں دن ہے تو مشرق میں رہنے والوں کے لئے دن غائب ہے۔

’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔‘‘ (لقمٰن 29:)

ایسے ممالک بھی ہیں جہاں ایک حصہ میں رات تو دوسرے حصہ میں دن ہوتا ہے۔ کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ ایک ہی ملک میں ایک ہی وقت میں رات اور دن کا ایک ساتھ موجود ہونا یا نہ ہونا کیا ہے۔۔۔؟ رات اور دن کا آنا جانا سورج کے غروب اور طلوع ہونے سے ہے۔اسکول میں پڑھایا جاتا ہے کہ سورج مشرق سے طلوع اور مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ مغرب میں سورج کا طلوع ہونا دن ہے تو مشرق میں رات ہے۔ اس طرح مشرق میں دن، مغرب میں رات ہے۔ ایک مقام پر طلوع۔۔۔ دوسرے مقام پر غروب ہے۔

’’اللہ ہی رات اور دن کا الٹ پھیر کررہا ہے۔ اس میں اولی الابصار کے لئے سبق ہے۔‘‘ (النور44:)

سائنس بتاتی ہے کہ سورج توانائی کا سورس ہے۔ سورج کے گرد گھومنے کے ساتھ زمین اپنے محور پر گھوم رہی ہے۔ محوری گردش سے دن۔۔۔ رات، رات۔۔۔ دن میں تبدیل ہوتی ہے۔ زمین کا جو حصہ سورج کی طرف ہے وہاں دن اور جو حصہ سائے میں ہوتا ہے وہاں را ت ہے۔ یہ سائنس کی تحقیق ہے۔ آخری الہامی کتاب قرآن کریم میں ارشاد ہے،

’’وہی دن پر رات اور رات پر دن کولپیٹتا ہے۔ اسی نے سورج اور چاند کو اس طرح مسخر کررکھا ہے کہ ہر ایک، ایک مقرر وقت تک چلے جارہا ہے۔ جان رکھو، وہ زبردست اور درگزر کرنے والا ہے۔‘‘ (الزمر: 5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسی مخلوقات بے شمار ہیں جن کے لئے رات۔۔۔ دن اور دن۔۔۔ رات ہے۔

دو انچ طویل آبی مخلوق بوب ٹیل رات میں شکار کے لئے نکلتی ہے اور خود کو روشن کرنے کے لئے اپنے اندر بیکٹیریا سے مدد لیتی ہے۔ پیٹ کے نچلے حصہ میں چمکنے والے بیکٹیریا ماحول میں رنگ سے مشابہ روشنی خارج کرتے ہیں۔ بوب ٹیل اس روشنی میں چھپ جاتی ہے اور وہاں موجود کسی مچھلی یا آبی مخلوق کو نظر نہیں آتی۔ اس طرح حملہ سے محفوظ رہتی ہے اور دوسری مچھلیاں دھوکا کھا کر شکار بن جاتی ہیں۔ بوب ٹیل چاندنی سے مشابہ روشنی خارج کرتی ہے تاکہ کیموفلاج میں آسانی ہو۔ دن میں یہ خود کو ریت میں چھپالیتی ہے۔

ریل روڈ کیڑا(Railroad) بھنورے کی ایک قسم ہے جو رات میں نکلتا ہے۔ جنوبی امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ اس میں روشنیوں کا رنگ سرخ اور سبز ہے ۔ سبز روشنیاں جسم کے دونوں اطراف جب کہ سرخ روشنی سر پر ہوتی ہے جو حملہ کے خدشہ یا کسی کو تنبیہ کرنے کے لئے ظاہر ہوتی ہے۔

کرم خور لکڑبھگا (Aardwolf) قریباً دو فٹ لمبا گیدڑ کے جیسا جوان ہے جو دن بھرسرنگوں میں سوتا ہے اور رات میں شکار کے لئے نکلتا ہے۔ بجو (Badger) دن میں آرام کرتے ہیں اور رات میں مٹی کھود کر کیڑے، حشرات، مینڈک اور دوسرے چھوٹے جان دار کھاتے ہیں۔ کبھی کبھار خرگوش اور مرغیاں بھی ان کی خوراک بنتی ہیں۔ آئی آئی(Aye Aye) ، کالا گینڈا، بھیڑیا، ٹارنٹلا (Tarantula) مکڑی اور بہت سے جان دار رات میں جاگتے ہیں اور معاشی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گہری اندھیری رات میں جگنو جگ مگارہا تھا۔ مسافر نے کہا کہ بھائی جگنو! رات تو آرام کے لئے ہے، تم روشنی لئے کہاں اور کس چیز کی تلاش میں ہو۔۔؟

 جگنو بولا۔۔۔ رات کہاں! ابھی تو دن شروع ہوا ہے۔ کیا تمہیں روشنی نظر نہیں آرہی، کیا دن تمہارے سامنے نہیں ہے۔۔۔؟ مسافر نے دیکھا کہ اندھیرے میں جگنو کی روشنی رات کے اس حصہ پر غالب آگئی ہے جہاں اندھیرا تھا۔۔۔ اندھیرا نہیں روشنی تھی۔تھوڑی دیر میں چمگادڑ نظر آئی۔ مسافر نے پوچھا، بی چمگادڑ! بھلا رات کے اس پہر تمہارا کیا کام۔۔۔؟

 چمگادڑ بولی۔۔۔ اگرچہ میں جگنو کی طرح روشن نہیں لیکن روشنی کی لہروں میں دیکھتی ہوں۔ یہ سوال کہ اس وقت کیا کررہی ہوں تو جسے تم رات کہہ رہے ہو وہ میرے لئے دن ہے۔ جاگنا سیکھ لو گے تو رات میں دن۔۔۔ دن میں رات دیکھو گے۔

عاشق رسولؐ۔۔۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں،

یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری

جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی سوچا ہے کہ زندگی کیا ہے۔۔۔؟ وجود ظاہر نہیں ہوا تھا تو کہیں تھے یا نہیں تھے۔۔۔؟ دو رخ اس طرح یک جا ہوئے کہ تیسرا رخ ظاہر ہوا۔ ضرب در ضرب ہو کر خلیات شکل و صورت میں تبدیل ہوگئے۔ مقررہ مدت کے بعد من موہنی صورت پردہ میں سے ظاہر ہوئی اور ہر لمحہ تبدیلی کے عمل سے گزری لیکن بنیاد ایک رہی۔اس طرح سمجھئے کہ ایک دن کا بچہ دو دن کا ہوا۔۔۔ دو دن کا بچہ چار دن کا۔۔۔ چار دن کا بچہ سولھویں دن میں داخل ہوا۔ مفہوم یہ ہے کہ 16 دن غروب ہونے سے 17 واں دن طلوع ہوا۔ غیب ظاہر۔۔۔ ظاہر غیب نے جوانی کا روپ اختیار کیا۔

پانچ منٹ کے لئے آنکھیں بند کرکے غور کیجئے اور بتایئے کیا مناظر دیکھے۔۔۔؟

رات اور دن الگ الگ نہیں۔۔۔ ایک یونٹ کے دو رخ ہیں۔ روشنی مغلوب ہوجائے تو رات ہے۔۔۔ روشنی غالب آجائے تو دن ہے۔ یہی بات زندگی کے لئے بھی ہے۔

’’رات کو دن میں پروتا ہوا لے کر آتا ہے اور دن کو رات میں۔ زندگی سے موت کو نکالتا ہے اور موت سے زندگی کو۔‘‘ (اٰلِِ عمران: 27)

زندگی کا ایک رخ موت اور دوسرا رخ زندگی ہے۔ ایک عالم میں حیات ، دوسرے عالم میں موت اور موت بالآخر حیات ہے۔


Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام