Topics
انسان کی عظمت اور شرف
جس فضیلت یا بنیاد پر قائم ہے ہم واقف ہونے کے با وجود نہیں جانتے۔ سب جانتے ہیں کہ
نسلِ انسانی کے جدِّ امجد حضرت آدمؑ ہیں۔ اُس زمانے میں شعور آج کے شعور کے مقابلے
میں دودھ پیتے بچے جیسا تھا۔ اس وقت آدمؑ کی اولاد معاشرت یعنی مکان، لباس اور
خوراک کے متعلق نہیں جانتی تھی۔ شعور اتنا کم تھا کہ وہ درختوں پر بسیرا کرتا تھا۔
اولادِ آدمؑ خود رو پودوں۔ جڑوں اور پھلوں کو بطور غذا استعمال کرتی تھی۔ درختوں
کے بڑے بڑے پتے اور جانوروں کی کھال ان کا لباس تھا۔ شعور نے ترقی کی تو درخت،
غاروں اور پتھر کے دور سے معاشرت اور بودوباش کا آغاز ہوا۔ آگ کی دریافت سے انسان
دھات اور لوہے کے دور میں داخل ہوا اور اس طرح ترقی کرتے کرتے شعور پروان چڑھا۔
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع
انسان کو توحید پر قائم رکھنے کے لئے انبیائے کرام کا ایک سلسلہ جاری فرمایا۔
انبیائے کرام تشریف لاتے اور ان کی تعلیمات پر عمل ہوتا لیکن جیسے ہی وہ پردہ
فرماتے اور کچھ وقت گزرتا نوع انسانی کی اکثریت گمراہی میں مبتلا ہوجاتی۔ لوگ
انبیاء کی تعلیمات میں اپنی مصلحت اور ضروریات کے مطابق تحریفات کردیتے۔ انبیائے
کرام کے بعد ہر دور میں ایک ایسا گروہ آتا رہا جو ان کی تعلیمات میں اپنے ذاتی
مفاد کے مطابق معنی پہناتا رہا۔ ان مطلب پرست افراد کی چالاکی اور عیاری سے جادو
اور بت پرستی کا دور شروع ہوا۔ بت پرستی اور جادو کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان بتوں کے
درمیان بھی حفظِ مراتب کا خیال رکھا گیا۔ چھوٹا بت، بڑا بت اور سب سے بڑا بت۔ بت
پرستی کے کسی دور میں ایسا نہیں ہوا کہ بتوں کا کسی ان دیکھی ہستی سے تعلق قائم نہ
رکھا گیا ہو۔
تمام تر مظاہر پرستی،
بت پرستی، مادہ پرستی، آتش پرستی، ستارہ پرستی اور شک یا کفر کے باوجود تاریخ کا
کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں اللہ کا تصور غالب نہ رہا ہو۔ تاریخ میں عبرانی،
سریانی، کلدانی، حمیری، عربی اور دیگر اقوام کا ذکر موجود ہے، ان قصائص میں اللہ تعالیٰ
کا تصور ہمیشہ غالب رہا۔
بت پرستی اور شرک میں
بھی آدمی مجبور ہے کہ وہ ایک مافوق الفطرت ہستی کا تذکرہ کرے۔ شرک کا مطلب یہ ہے
کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت آدم علیہ السلام
سے لے کر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت تک معاشرتی ترقی اور انسانی ذہن
کے ارتقاء کے باوجود ، شعوری پستی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بیت اللہ شریف میں 360 یا 390 بت رکھے ہوئے تھے،
اہل مکہ کی ذہنی پستی
اور شعوری جہالت کی انتہا اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ ہاتھ سے تراشے گئے۔۔ سونے چاندی
کے سکوں سے خریدے ہوئے بتوں کو رب مانتے اور ان کو پوجتے تھے۔ ڈرتے تھے، بتوں کی
بے حرمتی ہوگئی تو نقصان ہوگا۔ منتوں اورمرادوں کا سہارا لیا جاتا۔ چڑھاوے اور
قربانیاں کی جاتی تھیں۔ دودھ بتوں کو پلانے کے لئے رکھا جاتا لیکن کتے، بلیاں اور
مکھیاں پیتی تھیں۔
اس دور میں دوسری اقوام
اور مذاہب کے افراد کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق بیت اللہ
میں عبادت کرسکیں ۔ وہاں یہودی اور عیسائی بھی آتے تھے اور نماز اور ذکر وغیرہ
کرتے لیکن اتنی ہمت اور جرأت نہیں تھی کہ وہ بتوں کے بارے میں نازیبا الفاظ کہہ
سکتے۔
قتل و غارت اور لوٹ مار
کا بازار گرم تھا۔ لڑکیوں کا پیدا ہونا باعثِ شرم تھا۔ بے سہارا یا جنگ میں شکست
خوردہ لوگوں کو غلام بنالیا جاتا اور خواتین فاتح قوم کی کنیزوں میں شمار ہوتی
تھیں۔ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے بازار لگتے تھے۔ تماش بینوں کی جانب سے اعضاء کی
پیمائش کے بعد بولی لگائی جاتی تھی۔ کوئی ایسا پہلو نہیں تھا جس میں خواتین جن کو
اللہ تعالیٰ نے ماں، بہن، بیٹی اور رفیق حیات کا اعزاز بخشا ہے اس کی کھلے عام
توہین نہ کی جائے۔
کوتاہ عقل مردوں کی عقل
پر پردے اتنے دبیز تھے کہ ان کے لئے ماں، بہنوں اور بیٹیوں کی تذلیل قابل تعریف
روایت بن گئی تھی۔ آنکھوں والے اندھے نظر کے باوجود یہ نہیں دیکھتے تھے کہ اللہ کی
معصوم مخلوق بیٹیاں نہ ہوں تو دنیا میں ہمارا وجود بھی غائب ہوجائے گا۔
آدم علیہ السلام کے دور
سے مکہ کی معاشرت تک جو عمومی شعور منتقل ہوا اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ
آدمی انسانی روپ کا پیکر تھا۔ آدمی تعفن، سڑاند اور زمین سے نکلنے والے اور مٹی
میں دفن ہونے والے حیوان کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاتم النبیین سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نبوت سے پہلے غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کئی کئی دن قیام فرماتے اور اپنے ساتھ خورد
و نوش کا سامان لے جاتے تھے۔ اگرچہ یہ سلسلہ پورے سال جاری رہتا لیکن حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے قبل مسلسل پانچ سال تک رمضان المبارک کے پورے ماہ غار
حرا میں قیام فرماتے رہے۔ رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم وہاں ذہنی یکسوئی کے ساتھ
اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر تفکر اور غور فرماتے۔ اس کنسنٹریشن (مراقبہ) سے جبریل
امینؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔
غار حرا جبل نور میں
واقع ہے۔
یہ بڑی پرُمسرت اور حیرت انگیز بات ہے کہ عربی
میں حرا ریسرچ یا تحقیق کو کہتے ہیں جبکہ جبل نور کا مطلب روشنی کا پہاڑ ہے اور
پہاڑ سے مراد لامحدود وسعت ہے۔ اس طرح جبل نور میں غار حرا تشریف لے جانے کا مطلب
یہ ہوا کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام غار حرا میں لامحدود روشنی تلاش کرنے
اور اللہ کی نشانیوں پر غور کرنے کے لئے جاتے تھے۔
جب پانچویں سال حضور
پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیق و تلاش عروج پر پہنچ گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن مبارک نقطۂ وحدانیت میں جذب ہوگیا یعنی
جب ا للہ کے محبوب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ کے دیدار کے
علاوہ کوئی تصو رباقی نہیں رہا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیلؑ کو بھیجا۔ حضرت
جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور اس طرح دین اسلام کا دور شروع ہوا۔
إِنَّ ٱللَّهَ
وَمَلَٰٓئِكَتَهُۥ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِىِّ ۚ
يَٰٓأَيُّھَا ٱلَّذِينَ
ءَامَنُواْ صَلُّواْ عَلَيْهِ وَسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا
"اللہ اور اس کے
فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔اے لوگو! جو ایمان لائے ہو،
تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔"(الاحزاب: 56)
خاتم البیین حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی حیثیت سے امتِ مسلمہ پر لازم ہےکہ غوروفکر کی
تعلیمات اور سنت پر عمل پیرا ہو کر شعوری ارتقاء اور ذہنی وسعت حاصل کرے۔ غار حرا
کی سنت امت مسلمہ کے لئے اس بات کا پیغام ہے کہ باطن میں موجود انوارات اور
روشنیوں کو تلاش کرکے ان کے اندر تفکر کیا جائے۔جس قوم سے تحقیق و تلاش اور
ایجادات نکل جاتی ہیں وہ قوم معزز قوم نہیں رہتی۔
علم امت مسلمہ کا ورثہ
ہے۔
آج مسلمان عمل سے دوری
کے نتیجے میں تباہ و برباد ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلمانوں نے علمی طور پر شعوری
ارتقاء حاصل کرنے کے بجائے تنزل و تباہی اختیار کی ہے۔
علم کی میراث حاصل کرکے
عزت و آبرو سے زندگی بسر کرنے اور بحیثیت امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عروج حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا
چاہئے کہیں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم سے ہمارا تعلق زبانی و
کلامی تو نہیں رہ گیا۔۔؟
محبت و عقیدت کا عملی
تقاضا یہ ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غار حرا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور غور و فکر کو اپنے عمل و کردار کا
حصہ بنائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں علمی اور شعوری ارتقاء، اخوت،
ہمدردی اور اعتماد چاہتے ہیں۔
ارشاد ربانی ہے،
"سب مل کراللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوط پکڑلو اور تفرقہ نہ پڑو۔
(اٰل عمران: 103)