Topics

کراچی

ہوائی جہاز جوں جوں کراچی کے نزدیک پہنچ رہا تھا افسر اعلیٰ کی حالت بہتر ہوتی جا رہی تھی۔ وہ ہوش میں آ چکا تھا لیکن اس کے چہرے سے شدید اضمحلالا اور نقاہت کے آثا ر ہویدا تھے۔ افسر اعلیٰ کے برابر رابرٹ بیٹھا تھا۔ مقابل کی سیٹ پر فرہاد خود اسور اس کے برابر ڈیوڈ بیٹھا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد فرہاد ایک طاہرانہ نظر افسر اعلیٰ کے چہرے پر ڈال لیتا۔ وہ اپنے ذہن میں اس کی موجودہ اور گزشتہ شام کی حالتوں کا موازنہ کر رہا تھا ۔ افسر اعلیٰ  کوبڑی مشکل سے اسٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس میں ائیر پورٹ پہنچایا گیا تھا اور حیرت انگیز طور پر ائیر کی حدود میں داخل ہوتے ہی اسے ہوش میں آنے لگا تھا۔

                ڈیوڈ نے فرہاد سے مخاطب ہو کر کہا۔” ہمارے صاحب تو اب بالکل ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔“

                ”ہاں ' یوں لگتا ہے جیسے بیمار ہی نہ ہوئے ہوں۔“ فرہاد نے جواب دیا اور پھر چند ثانیے خاموش رہ کر  بولا۔

                ” اور پھر بیماری بھی اس قدر شدید کہ ڈاکٹر سے مرض کی تشخیص ہی نہیں ہو پا رہی تھی۔ البتہ چہرے پر بیماری کے بعد کی نقاہت اور تھکن ظاہر ہے۔“ ڈیوڈ نے کہا ۔

” میرا خیال ہے کہ کراچی پہنچنے تک نقاہت کے یہ اثرات بھی چہرے سے زائل ہو جائیں گے۔“ فرہاد نے مسکرا کے کہا۔” ”کیوں؟ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟“  ڈیوڈ نے مجسم سوال بن کر پُوچھا۔

” جِس طرح میں نے یہ کہا تھا کہ ہمیں کراچی واپس جانا ہوگا اور آج رات ہی جانا ہوگا۔“ فرہاد نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

” ہاں آپ کی یہ بات تو بالکل درست ثابت ہوئی۔“ ڈیوڈ نے اعتراف کیا۔

” بس اسی طرح باقی باتیں بھی درست ثابت ہوں گی۔“ فرہاد نے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ڈیوڈ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ دیوڈ نے شکریے کے ساتھ قبول کر لیا۔ کچھ دیر  تک خاموشی چھائی رہی۔ پھر ڈیوڈ فرہاد سے مخاطب ہوا” افسوس ہمارا یہ دورہ ادھورا رہ گیا۔ ہم پاکستان کے خوبصورت قدرتی نظارے اور قابلِ دید تاریخی مقامات دیکھے بغیر واپس جا رہے ہیں۔“

                فرہاد اپنے ہی خیالات میں کھو چکا تھا اس لئے اس نے دیوڈ کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ ڈیوڈ چند لمحے خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر اس کا کندھا ہلا کر بولا۔” کُیوں جناب آپ کن خیالات میں کھو گئے؟“

                فرہاد  ایک دم چونک  کر پلٹا” اوہ۔۔۔۔ آپ نے مجھ سے کچھ کہا! معاف کیجیئے گا۔ ڈیوڈ، میں کچھ سوچنے لگا تھا۔“

                کوئی بات نہیں میرے دوست۔“ ڈیوڈ نے خوش دلی سے کہا۔ کبھی کبھی آدمی سوچوں میں گم ہو ہی جایا کرتا ہےلیکن بے تکلفی معاف۔ ایک زمہ دار پولیس آفیسر خواب و خیال کی وادیوں میں زیادہ سفر نہیں کرتا۔ یہ مشغلہ تو کچھ شاعروں ہی  کو زیب دیتا ہے۔“

                ” ٹھیک کہا آپ نے ۔“ فرہاد نے جواباً کہا۔” مگر جس طرح ایک شاعر عالمِ خیال سے اپنے شہ پارے صفحہ قرطاس پر منتقل کرتا ہے۔ اسی طرح ایک پولیس افسر کا کام بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ہم بھی کسی جُرم کی تہہ تک پہنچنے کے لئے بار بار اپنے تخیل کی قوت کو ہی بروئے کار لاتے ہیں۔“

                ڈیوڈ نے مُسکراتے ہوئے کہا،” اس وقت آپ کسی سنگین جُرم کی گتھی سُلجھانے میں مصروف تھے؟ کیا وہی طِلسماتی کیس ۔“

                ” ہاں میں اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا ناصر کے کیس کے بارے میں۔ میں نے شاید کہا بھی تھا کہ کچھ باتیں میں آپ کو قبل از وقت نہیں بتا سکتا اور اب بھی اسی سلسلے میں میرے پاس کوئی قابلِ ققبول دلیل تو موجود نہیں ہے مگر میرا خیال ہے کہ آپ کے  اس وفد کے سربراہ کا اچانک بیمار ہونا اور پھر فوری واپسی میں ناصر سے متعلق ایک غیر مرئی قوت کا ہاتھ ضرور ہے۔

                فرہاد نے ٹھہر ٹھہر کر اپنی بات پُوری کی اور ہر لفظ کے ساتھ اس کی انکھیں ڈیوڈ کے چہرے پر رُو نما ہونے والے اثرات کا جائزہ لیتی رہیں۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا ڈیوڈ اس کی بات کو محض خرافات اور توہم پرستی سمجھ رہا ہے یا سنجیدگی سے یہ سب سُن رہا ہے مگر وہ کوئی خاص نتیجہ نہیں اخذ کر سکا۔ کیونکہ ڈیوڈ کے چہرے پر سنجیدگی اور کھلنڈرے پن کی دھوپ چھاؤں مستقل رنگ جمائے ہوئے تھی۔ چند لمحوں کے لئے فرہاد کی گفتگو کا سلسلہ ٹوٹا تو ڈیوڈ نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔” تو یوں کہیے کہ آپ کے ناصر نے ہمارا سارا پروگرام خراب کیا ہے۔ کیا ناصر کو یا اس کی حامی غیر مرئی قوت کو ہم سے کوئی خاص دشمنی ہے، ہم تو غیر ملکی ہیں۔ ہمارا ان معاملات سے کیا تعلق؟“

                ”نہیں نہیں ، اس قوت کو آپ سے کیوں دشمنی ہونے لگی۔ وہ تو  یہ سب کُچھ ناصر کی محبت میں کر رہی ہے۔“ فرہاد نے اس طرح صفائی پیش کی کہ دیوڈ کو ہنسی آگئی اور وہ بولا۔” معلوم ہوتا ہے آپ توہمات پر بہت ۔۔۔ زیادہ یقین رکھتے ہیں۔“

                ” توہمات پر نہیں حقیقت پر۔ کاش میں آپ کو بتا سکتا کہ میں نے اب تک کیا کچھ دیکھا ہے۔ گزشتہ چند  ہفتوں کے دوران میں جن واقعات اور تجربات سے دو چار ہوا ہوں۔ انہوں نے واقعی مجھے توہم پرست بنا دیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر آپ میری جگہ ہوتے تو آپ کا بھی ردِ عمل بھی مختلف نہ ہوتا۔“ فرہاد نے فی الفور جواب دیا۔

                ” مسٹر فرہاد ، آپ کو یاد ہوگا۔ میں آپ کو کئی بار رُوحانی علوم میں اپنی دلچسپی کے بارے میں بتا چُکا ہوں۔ توہم پرستی والی بات تو میں نے آپ سے لطف لینے کے لئے کی تھی ورنہ مجھے پختہ یقین ہے کہ ایسے حالات رُونما ہو سکتے ہیں جن میں انسان قطعی بے بس اور لاچار ہو جاتا ہے۔“

                ” میں موپنجوداڑو“ کے اُنچے ٹیلے کی اوٹ میں جس تجربے سے گزرا ہوں  اور مجھے جو حکم دیا گیا ہے اس کے بارے میں آپ کو کراچی پہنچ کر سب کچھ بتا دوں گا۔“ فرہاد نے کہا۔

                وہ دونوں پھر خاموش ہو گئے۔ باتوں میں انہیں وقت گزرنے کا بالکل احساس نہیں ہوا تھا اور مسافروں کو حفاظتی پیٹیاں باندھنے کی ہدایت کی جا رہی تھی۔

                رابرٹ نے جو وفد کے سربراہ کے برابر بیٹھا ہوا تھا دریافت کیا۔” سر اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟“ مُجھے تو یاوں لگ رہا ہے گویا میں کبھی بیمار تھا ہی نہیں۔“ افسرِ اعلیٰ نے سگریٹ کا ایک طویل کش کھینچ کر دھواں خارج کرتے ہوئے نہایت خوشگوار موڈ میں جواب دیا۔

                ” خدا کا شکر ہے ۔ آپ صحت یاب ہوگئے۔ ہم سب تو آپ کے لئے بہت فکر مند ہو گئے تھے۔“ رابرٹ نے پھر کہا۔

                ” ہاں عجیب سی تکلیف تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے سینے میں کے اندر جسم کو کوئی نشتر سے چھید رہا ہو اور پھر سر میں سخت درد ۔ خدا کی پناہ۔ میں تو اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا تھا۔ بہرحال کراچی پہنچتے ہی اپنا میدیکل چیک اپ کرواؤں گا اور پھر فوراً ہی واپسی کا ارادہ ہے۔“

                فرہاد تک وفد کے سربراہ کی آواز پہنچ رہی تھی ۔ وہ زیرِ لب مسکرایا۔” اس پریشانی میں لطف کی بات یہ ہے کہ انھیں حقیقت سے آگاہ نہیں کیا جا سکتا۔“ اس نے سوچا۔

                ایس پی فرہاد مہمانوں کو ان کی قیام گاہ پر چھوڑ کر اپنے گھر پہنچا۔ کپڑے بدلے، غسل کیا اور پھر متعلقہ تھانے کے ایس ۔ ایچ ۔ او کو فون کیا۔” ناصر کے بارے میں کیا اِطلاع ہے؟“ اس نے پہلا سوال یہی کیا۔” سر! آپ کے ھکم کے مطابق ہم نے ناصر کے معاملے کو آگے نہیں بڑھایا۔“ بہت اچھا کیا۔ میں یہی جاننا چاہتا تھا کہ کہیں میری عدم موجودگی میں کوئی نئی صورتِ حال نہ پیدا ہو گئی ہو۔“ فرہاد نے کچھ توقف  کر کے پھر کہا۔” میں دورہ مختصر کر کے واپس اگیا ہوں ، تم ٹیلی فون پر مجھ سے رابطہ قائم رکھو۔“ ایس ۔ایچ۔ او کو ہدایت دے کر فرہاد نے کار نکالی اور آئی جی کو اپنی آمد کی رپورٹ دینے ہیڈ آفس روانہ ہو گیا۔ راستے بھر وہ سوچتا رہا کہ اسے اپنی رپورٹ میں کسی پراسرار قوت کا بھی ذکر کرنا چاہیئے  یا نہیں۔ خاصے غور و خوض کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ معاملے کو محدود ہی رکھنا چاہیئے اور غیر ملکی وفد کے سربراہ کی علالت کی صرف طبی توجیہہ کافی ہوگی۔

                تمام واقعات سنانے کے بعد فرہاد نے آئی جی سے درخواست کی کہ جب تک غیر ملکی وفد کراچی میں ہے اس کی جگہ کسی دوسرے افسر کو اس کے ساتھ تعینات کر دیا جائے۔“

                ” کیوں؟ آپ کو کوئی خاص دشواری درپیش ہے؟“ آئی جی نے استفسار کیا۔” جی سر! ایسا ہی سمجھ لیں۔“ فرہاد نے ادب سے جواب دیا۔” آپ کے خیال میں وہ کتنے دن کراچی میں قیام کریں گے؟“ آئی جی نے پوچھا۔

                ” سر میرا خیال تو یہ ہے کہ اگر ان اختیار میں ہو تو وہ مزید ایک دن بھی ٹھہرنا گوارا نہ کریں گے۔“

                ” کیوں ، ایسی کیا بات ہے؟“

                ” سر! میں نے یہ اندقازہ لگایا ہے کہ مگربی اقوام کے لوگ کسی ایشیائی ملک میں بیمار پڑ جائیں تو سمجھتے ہیں کہ انھیں اپنے ملک کے مقابلے میں بہت کم تر درجے کی طبی سہولتیں ملیں گی۔“

                ” یہ ممکن ہے ایسا ہی سمجھتے ہوں۔“ آئی جی نے فرہاد سے اتفاق کیا۔

                کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھر آئی جی نے مُہر سکوت توڑتے ہوئے کہا۔” اگر آپ کے خیال کے مطابق ان کا قیام صرف آئندہ چند گھنٹے تک رہے گا تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ ہی ان کے ہمراہ رہیں۔“

                ” سر! میں آپ کو  اپنی مشکلات سے شاید بخوبی آگاہ کر پاؤں گا۔“ فرہاد نے مُلتجیانہ انداز میں کہا۔” اگر آپ کسی اور کو تعینات کر دیں تو بڑی عنایت ہوگی۔“

                ” اچھا۔۔۔۔یقیناً آپ کسی ایسی الجھن میں گرفتار ہیں جس کا ذکر مجھ سے بھی نہیں کرنا چاہتے۔“ آئی جی نے نرمی سے کہا۔” خیر میں کسی دوسرے افسر کی ڈیوٹی لگا دیتا ہوں۔“ فرہاد خاموش رہا۔ پھر آئی جی نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا۔” میں سمجھتا ہوں اخلاقی طور پر مجھے ان کی مزاج پرسی  کے لئے خود جانا چاہیئے۔ آپ کی کیا رائے ہے۔“

                ” جی ۔ جی سر، اپ کا خیال نہایت مناسب ہے اور سر، آپ ازرا کرم اسے محسوس نہ فرمائیں دراصل میں جس مشکل سے دوچار ہوں وہ بہت زیادہ میرا  ذاتی مسئلہ بن گئی ہے۔ البتہ کسی مناسب وقت پر میں ضرور اپ کو آگاہ کر دُوں گا۔“ یہ کہہ کر فرہاد نے اجازت طلب کی اور سیلوٹ کر کے آئی جی کے کمرے سے باہر نکل آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                گھر سے تیار ہو کر نکلنے اور آئی جی سے ملاقات کر کت واپس ہو تک فرہاد کو بہ مشکل پون گھنٹہ لگا ہوگا۔ ابھی دن کے دس بجے تھے۔ فرہاد اپنی کار میں بیٹھا اور پولیس ہیڈ آفس سے روانہ ہو گیا۔ راستے میں اسے اپنا ایک گہرا دوست ملا لیکن اس نے اس سے بھی رسمی گفتگو کی اور آگے بڑھ گیا۔ اس کا رُخ تھانے کی طرف تھا ۔ جہاں ایس ۔ایچ او اس کا منتظر تھا۔ اُس نے پولیس ہیڈ افس پہنچتے ہی سب سے پہلے ایس۔ ایچ۔ او کو ایک بار پھر فون کر کے کہا تھا  وہ تھانے  میں اس کا انتظار کرے۔ وہ جلد ہی پہنچ رہا ہے ۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ ایس۔ ایچ ۔او کو ساتھ لے کر ناصر کے گھر جائے گا۔ تھانے کے گیٹ پر سے اس نے ایس۔ ایچ ۔او کو گاڑی میں بٹھایا اور ناصر کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ ناصر کے محلے میں داخل ہو کر فرہاد نے ایک جگہ کار روک دی۔ کیوں کہ آگے گلی اتنی تنگ تھی کہ کار کا جانا ناممکن تھا۔ کیوں کہ دونوں وردی میں ملبوس تھے اس لئے آس پاص کے لوگ بالخصوص بچے انہیں دیکھ کر ٹولیوں کی شکل میں جمع ہو گئے اور ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ ناصر نے پھر کوئی جُرم کر دیا ہے جو پولیس کے بڑے افسر خود آئے ہیں۔ ایک شخص نے ذرا بلند آواز میں کہا۔” بھائی ہر معاملے میں بے چارے ناصر کو تو بدنام نہ کرو اور پھر تم لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ناصر غریب نے کسی شریف آدمی کی تو پگڑی نہیں اچھالی تھی۔ کسی کی بہن یا بیٹی کو تو نہیں چھیڑا تھا تو اس  نے تو بس جس آدمی کی اکڑ فوں نکالی وہ محلے کا سب سے بڑا غنڈہ تھا جس کے ہاتھوں سارا محلہ ایک عذاب میں مبتلا تھا۔“

                فرہاد کو ایسا محسوس ہوا  جیسے یہ شخص بالواسطہ طور پر اس سے ناصر کی سفارش کر رہا ہے۔ وہ دونوں ناصر کے گھر کی طرف بڑھے۔ لوگ جستجو میں کچھ فاصلے سے ان کے پیچھے چلنے لگے۔ فرہاد نے ایس۔ ایچ ۔ او سے مخاطب ہو کر کہا۔” مجھے یونیفارم میں نہیں انا چاہیئے تھا۔ لوگ خوامخواہ متجسس ہو جاتے ہیں۔ عجلت میں مین نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس طرح ملنے سے ناصر یا اس کی ماں پر کوئی خوشگوار اثر نہیں پڑے گا۔ اب یہ لوگ ایک بار پھر ناصر کی طرف سے مشکوک ہو رہے تھے۔ انہی باتوں کے دوران وہ ناصر کے گھر کے نزدیک پہنچ گئے ۔ ایس ۔ ایچ ۔ او نے اشارے سے گھر کی نشاندہی کی۔ ایس پی فرہاد نے اسے ہدایت کی وہ کار میں بیٹھ کر اس کی واپسی کا انتظار کرے اور یہ کہ محلہ والوں کو بھی سمجھا دے کہ وہ ناصر کے پاس کسی جُرم کی تفتیش کے لئے نہیں آئے ہیں۔

                ” بہت بہتر ، سر “ یہ کہہ کر ایس ۔ ایچ۔ او نے واپس کار کا رخ کیا دونوں پولیس افسران کی اس مختصر گفتگو کے دوران محلے والے ان سے کچھ پیچھے ہی ٹھہر گئے تھے۔ ایس ۔ ایچ۔ او نے پلٹتے ہوئے ان لوگوں کو اشراے سے اپنے قریب بلایا اور ان سے کہا۔” آپ لوگ یقیناً ناصر کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے۔ دراصل ایس پی صاحب ناصر کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں کہ اس نے ایک بدنام غنڈے کو اچھا سبق دیا۔“ تمام لوگ ایس۔ ایچ۔ او کی یہ بات سُن کر حیران اور ششدر رہ گئے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔” ارے ان پولیس والوں کی کسی بات کا اعتبار نہیں۔ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔“

                شاید ایس۔ ایچ ۔ او کے کان میں اس بات کی بھنک پڑ گئی۔ اس نے پھر ان سے درخواست کی  کہ وہ خوامخواہ شکوک و شہبات کا شکار نہ ہوں اور اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور خود کار میں بیٹھ کر ایس ۔ پی کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔

                فرہاد نے ناصر کے دروازے پر آہستگی سے دستک دی۔ دروازے کے بوسیدہ اور سالخوردہ کواڑ زُبان ِ حال سے کہہ رہے تھے کہ ہمارے مکین کچلے ہوئے مفلوک الحال لوگ ہیں۔ اس کی دستک کے جواب میں اندر سے ایک ضعیف نسوانی آواز آئی، ” کون ہے؟“ فرہاد کو پہچاننے میں دیر نہ لگی کہ یہ آواز ناصر کی  بوڑھی ماں  ہی ہو سکتی ہے۔ اس نے اپنے لہجے میں ممکنہ حد تک نرمی اور اپنائیت سمو کر کہا۔” میں ہوں آمّاں جی۔ ناصر صاحب سے ملنے آیا ہوں۔“

                بڑی بی نے اپنا چہرہ دروازے کی بے شمار جُھریوں کے  قریب لا کر اسے غور سے دیکھا۔ دروازے تک آتے ہوئے وہ کچھ بڑ بڑا رہی تھیں۔ فرہاد کو یوں لگا جیسے وہ کہہ رہی ہو کہ میرے غریب بیٹے کے نام کے ساتھ صاحب کا لفظ لگانے والا یہ کون شخص ہو سکتا ہے؟ پھر دوسرے ہی لمحے  بڑی بی کی بھرائی ہوئی آواز بلند ہوئی۔ ” الٰہی خیر، یہ پولیس والا پھر آگیا۔“

                فرہاد نے یہ جملہ سن کر دل ہی دل میں اپنی اس حماقت پر خود کو ایک بار پھر کوسا کہ وہ یونیفارم پہن یہاں کیوں آگیا اور پھر بڑی بی کا خوف دور کرنے کے لئے بولا۔” اماں جی، آپ پریشان نہ ہوں، میں ناصر صاحب کو کسی قسم کی زحمت دینے نہیںآیا ہوں۔ مجھے اپ اپنا ہمدرد سمجھیں۔“

                ” بیٹا! میری  سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا۔“ بڑی بی نے بے چارگی سے کہا۔” ناصر کے حالات ہی ایسے ہوش اُڑانے والے ہیں اور اب تم آگئے ۔“

                ” اما جی! آپ نے مجھے بیٹا کہا ہے تو میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ واقعی میں ناصر  کو اپنے بھائی کی مانند سمجھتا ہوں۔ اس وقت اپ کے دروازے پر ایک پولیس افسر نہیں، اپ کا اپنا بیٹا کھڑا ہے۔“ فرہاد نے کہا۔

                ” ہمیں اور پریشان نہ کرو بیٹا۔“ پولیس والوں نے پہلے ہی بار بار آکر ہمیں سارے محلے میں بدنام کر دیا ہے۔ ہمیں اب تمہاری کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے بلکہ میں تو ناصر سے کہتی ہوں کہ بیٹا یہ جگہ ہی بدل دے مگر سوال یہ ہے کہ پھر ہم جائیں کہاں!۔“ ناصر کے منہ سے نکلنے والے ایک ایک لفظ سے مجبوری اور بے کسی ٹپک رہی تھی۔ فرہاد نے جواب میں کہا۔

                ” اماں جی! ایسا لگتا ہے کہ پولیس اور محلے والوں کے ساتھ ساتھ آپ ناصر سے بھی ناراض ہیں۔“

                ” بیٹا ! ناراض نہ ہوں تو کیا خوش ہوں؟ ناصر جو اتنا سیدھا سادہ لڑکا ہے ۔ کیسی بُری صحبتوں میں پڑ گیا ہے۔ جانے کہاں مارا مارا پھرتا ہے۔“ ناصر کی ماں نے تلخ لہجے میں اپنی بدظنی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

                ” اماں جی! اپ نے کیسے یقین کر لیا کہ وہ بُڑی صحبتوں میں پڑ گیاہے؟“ فرہاد نے پوچھا۔

                ” اے بیٹا! تو تو سوال جواب کیے جارہا ہے ۔ میں پوچھتی ہوں اگر وہ بُری صحبت میں نہیں پڑا تو مھلے والے کیوں اس سے نالاں ہیں؟ پولیس کیوں اس کے پیچھے پھر رہی ہے؟ اس کی جیب  میں نوٹوں کی گڈیاں کہاں سے آ جاتی ہیں؟“ ناصر کی ماں اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہتی کہ فرہاد نے درمیان ہی میں اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

                ” اماں جی ! آپ کی بدگمانیاں شاید میں ابھی نہ دور کر سکوں۔ لیکن ناصر نے کبھی آپ کو اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا؟“

                ”ارے بتایا کیوں نہیں! لیکن اس کی بات سے میری تسلی کہاں ہوتی ہے۔ وہ تو کہتا ہے کہ نہ تو  وہ بُری صحبت میں پڑا ہے اور نہ ہی کہیں ڈاکہ ڈال کر روپیہ لاتا ہے بلکہ وہ تو کہتا ہے کہ کوئی پراسرار طاقت ہے جو اسے پیسے دے جاتی ہے۔ اس طاقت کا وہ کوئی نام بھی نہیں بتاتا۔“ بڑی بی نے ٹھہر کر ٹھنڈا سانس بھرا اور بات جاری رکھتے ہوئے بولیں۔

                ” تم خود ہی بتاؤ بیٹا! بھلا کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کو یوں ڈھیر سارے پیسے  مل جاتے ہوں۔ میں اس سے پوچھتی ہوں کہ جب وہ سارا سارا دن تپتی دھوپ میں جان توڑ محنت کرتا، تب تو کبھی اس کے پاس اتنے پیسے نہ ہوئے کہ ہم دو وقت پیٹ بھر کر روٹی بھی کھا لیتے اور تن بھی ڈھانپ لیتے۔ مگر اب تو اس کی جیب  روپیوں سے ٹھنسی رہتی ہے۔

ناصر کی ماں کی انکھیں جذبات سے بھیگ گئیں اور وہ خاموش ہو گئی۔

                فرہاد نے کہا۔” اماں جی، آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔ واقعی آج کل ایماندای میں زندگی میں دو وقت کی روٹی مہیا ہونا بھی مشکل ہو جاتا ہے، مگر اماں جی ، اگر آپ میری بات مانیں تو میں کچھ کہوں؟“ ناصر کی ماں نے کوئی جواب نہ دیا۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد فرہاد نے کہنا شروع کیا۔

”اماں جی، شاید آپ میرے عُہدے سے واقف نہیں ہیں۔ میں ایس پی ہوں جو پولیس کا ایک بڑا عہدہ ہوتا ہے ۔ میرے ماتحت درجنوں تھانے اور سینکڑوں ملازمین ہیں۔ چھوٹے چھوٹے تو کیا ، اکثر بڑے برے مجرموں کو میرے ماتحت ہی گرفتار کر لاتے ہیں۔ مگر میں آج خود اپ کے  دروازے پر حاضر ہوا ہوں۔ آپ کو یہ بتانے کے لئے کہ ناصر مُجرم نہیں ہے۔ اس نے درحقیقت کوئی جرم نہیں کیا۔ بلکہ وہ چند مشکلات میں گرفتا ر ہے اور شاید وہ ان مشکلات سے جلد گلو خلاصی نہ حاصل کر سکے۔ آپ تو ماں ہونے کے ناطے ناصر کو مجرم سمجھ کر روتی اور کرہتی رہی ہوں گی۔ میں نے بھی شروع میں ناصر کو ایک عام ملزم ہی سمجھا تھا اور جب کئی بار وہ حوالات سے فرار ہوا تو میں بہت جھنجھلایا بھی تھا۔ ممکن تھا معاملہ اسے اشتہاری مجرم قرار دینے تک اجاتا۔ میرے ماتحتوں نے کئی بار ناصر کے اندر موجود کسی غیر  انسانی پُاسرار قوت کا زکر کیا ،مگر میں نے ہمیشہ اسے ضعیف الاعتقادی قرار دیتے ہوئے اپنے ماتحتوں کا مذاق اُڑایا اور ان کو سختی سے ڈانٹ ڈپٹ بھی کی ۔ پھر پے در پے واقعات رُونما ہوئے جن کی بنا پر میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ناصر قطعی بے قصور ہے اور در حقیقت اس پر کسی طاغوتی قوت نے گلبہ پا لیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خیر کی کوئی طاقت بھی اس کی پشت پناہی کر رہی ہے اور مجھے اسی قوت نے بھیجا ہے۔“

                ” بیٹا ! کہیں تم مجھ سے بات تو نہیں بنا رہے ہو یا یہ بھی پولیس کی کوئی چال ہے۔“ ناصر کی ماں کے لہجے میں خوف و شک کی آمیزش تھی۔

                فرہاد ناصر کی ماں کے اس جواب پر مسکرا کر بولا۔” اماں جی! آپ کے شکوک و شبہات اپنی جگہ درست ہیں ۔ ہمارے یہاں کے لوگ پولیس سے بلا کسی وجہ کے بھی خوف زدہ  رہتے ہیں لیکن آپ مجھ پر اعتماد کریں اور مجھے ناصر سے ملوا دیں۔“

                اس پر ناصر کی ماں نے تشویش کا کہا۔” ناصر تو گھر پر نہیں ہے ، بلکہ وہ تو گزشتہ دو دن سے گھر آیا ہی نہیں ہے۔ میں خود  اس کے لئے بہت پریشان ہوں۔“

                ” اوہ۔۔۔ناصر دو دن سے گھر نہیں ایا۔ اماں جی! آپ کچھ اتا پتا بتا سکتی ہیں کہ وہ کن لوگوں کے ساتھ گیا ہے یا کہاں جا سکتا ہے؟“

                یہ سوال کرتے ہوئے فرہاد کے زہن میں یہ شک ابھرا کہ شاید بڑی بی ابھی بھی مجھ پر اعتماد نہیں کر رہی ہیں۔ اور باوجود یقین دلانے کے ان کا خیال یہی تھا کہ میں ان کے بیٹے کو گرفتا کرنے آیا ہوں۔ وہ ایک تجربہ کار پولیس افسر تھا اور بات کرنے والے کے لہجے ہی سے اسے اندازہ ہو جاتا تھا کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے یا سچ۔ ناصر کی ماں کی بات میں اسے سچائی کا وزن محسوس ہو رہا تھا۔ وہ یہی تجزیہ کر رہا تھا کہ بڑی بی نے اس کی محویت کو توڑا اور بولیں،

                ” بیٹا! یہ سوال تم مجھ سے کر رہے ہو۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ناصر کہاں ہو سکتا ہے تو خود اسے تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑی ہوتی۔ ممتا بڑی عجیب شے ہے بیٹا! میں دو دن سے اس کی صورت دیکھنے کو تڑپ رہی ہوں۔ دل میں طرح طرح کے وسوسے اور اندیشے آ رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے ، میرا بیٹا صحیح سلامت ہو۔“

                ” اماں جی! آپ فکر مند نہ ہوں۔ اللہ کی ذات سے اُمید ہے کہ ناصر بخیریت ہوگا۔ میں اس کا سراغ لگانے کی پوری کوشش کروں گا۔“

                پھر اس نے جیب سے سو سو روپے کے پانچ نوٹ نکالے اور ناصر کی ماں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔” شاید ، آپ کو خرچ کی ضرورت ہو، ناصر بھی گھر پر نہیں ہے۔ اپ میری طرف سے یہ پیسے رکھ لیں۔ میں بھی تو آپ کا بیٹا ہوں۔“

                ” نہیں۔۔ نہیں بیٹا! اللہ تجھے جیتا رکھے ۔ مجھے پیسوں کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ بس بیٹا! کسی طرح ناصر کو تلاش کر کے لا دو یا اس کی خیر خبر ہی مجھے پہنچوا دو تاکہ میرے بے قرار دل کو چین آجائے۔“

                ”اماں جان، آپ بالکل بے فکر رہیں۔ میرے عملے کا کوئی نہ کوئی آدمی آپ کی خبر گیری کے لئے اتا رہے گا اور وہ ہمیشہ سفید کپڑوں ہی میں ہوا کرے گا۔ ویسے جب بھی کوئی ضرورت پڑے تو آپ مجھے فوراً بلوا لیں۔ جیسا کہ میں نے ابھی آپ کو بتایا میرا نام فرہاد ہے۔“

                ” اچھا بیٹے فرہاد! اللہ تجھے خوش رکھے۔ تیرے انے سے میری آدھی فکر دور ہو گئی اور ناصر کی طرف سے میرے دل میں جو شبہ تھا وہ بھی نکل گیا۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                فرہاد ناصر کی والدہ سے رخصت ہو کر اپنی کار تک ایا۔ کار کے نزدیک  پہنچتے ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کے اگلے دو پہیوں میں ہوا بالکل نہیں رہی ہے۔ انسپکٹر اس کا منتظر تھا۔ اس کو آتا دیکھ کر وہ دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ فرہاد نے چھوٹتے ہی اس سے سوال کیا۔

                ” انسپکٹر، یہ گاڑی کو کیا ہوا ہے۔“ انسپکٹر گھبرا کر بولا۔” سر، کچھ بھی تو نہیں ہوا۔“

                                ” یہ دیکھو! یُوں لگتا ہے اگلے دونوں پہیوں کی ہوا کسی نے نکال دی ہے۔“ فرہاد نے کہا۔

                ” سر، میں تو یہاں سے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں ہٹا ہوں ، اور کسی کا اس طرف سے گزر بھی نہیں ہوا۔ دوسرے یہ کہ سر، ہوا نکلنے کی آواز تو انی چاہیئے تھی ۔ مجھے وہ بھی محسوس نہیں ہوئی۔“

                انسپکٹر نے حیرانی سے وضاحت کی۔

                ” خیر ان باتوں کے لئے اب وقت نہیں ہے۔ تم جلدی سے  رکشہ یا ٹیکسی کا بندو بست کرو۔ گاڑی بعد کو آدمی بھیج کر منگوا لینا۔“ فرہاد نے حکم دیا۔ اس کے انداز ے کے مطابق یہ نستور کی  دشمن اسی قوت کا کارنامہ ہو سکتا تھا جو نہیں چاہتی تھی کہ وہ نستور کا حکم بجا لائے۔ اسی لئے وہ اس معاملے میں تفیش کرنے کو وقت کا زیاں سمجھ رہا تھا۔ تیکسی ملنے میں انھیں تقریباً دس منٹ لگ گئے۔

                اب ان کی تیکسی برق رفتاری سے فاصلہ طے کر رہی تھی۔ فرہاد نے انسپکٹر سے کہا” سب سے پہلے ہمیں یہ سُراغ لگانا ہے کہ ناصر کہاں جاتا ہے اور کس کے ساتھ رہتا ہے۔“

                ” سر، آپ کا خیال بہت مناسب ہے، مگر جب تک ناصر سے ملاقات نہ کیا جائے۔ اُس وقت تک  یہ معلوم کرنا باظاہر خاصا دشوار معلوم ہوتا ہے۔“ انسپکٹر نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔

                ” مگر اس انتظار میں بہت وقت ضائع ہو سکتا ہے ، میں چاہتا ہوں کہ ہم جلد از جلد اس کا کھوج لگا لیں۔“ فرہاد اتنا کہہ کر چند ثانیوں کے لئے خاموش ہوا اور پھر سوچتے ہوئے بولا۔” لیکن تُم بھی ٹھیک ہتے ہو۔ آخر ہوا میں تو اس کی تلاش نہیں کی جا سکتی۔ ایک بار گھر آکر وہ دوبارہ کہیں جائے۔ تب ہی اس کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے وہ آج ہی کسی وقت گھر لوٹے۔ لہذا پہلا کام تم یہ کرو کہ کسی ہوشیار آدمی کو سفید کپڑوں میں اس کے گھر پر تعینات کر دو اور اسے ہدایت کر دو کہ ناصر جہاں کہیں بھی جائے وہ نہایت احتیاط سے اس کا تعاقب کر دے اور تمام پتے نوٹ کر لے۔“ فرہاد نے حکم دیا۔

                ” بہت بہتر سر۔ ایسا ہی ہوگا“۔۔۔۔۔۔۔ انسپکٹر نے کہا۔

                اب ان کی ٹیکسی بندر روڈ سے گزر رہی تھی۔ چاروں طرف ٹریفک کا ایک سیلاب تھا فرہاد بے توجہی سے تیکسی کے باہر دیکھ رہا تھا۔ اگے سگنل سُرخ تھا۔ تیکسی رُک گئی۔ وہ دونوں خاموش بیٹھے تھے۔ یکا یک فرہاد نے خود کلامی کے سے انداز میں کہا۔

                ”خوب یاد آیا۔“

                انسپکٹر جو اس کے ایک ایک اشارے کا منتظر تھا ایک دم بولا۔”  سر کیا یاد آگیا؟“

                ” انسپکٹر! تم نے ایک بار حادثے کا ذکر کیا تھا جس میں کسی شخص نے دو آدمیوں کو بالکل بے بس کر دیا تھا اور اس معاملے میں کسی بڑے سیٹھ کی بیٹی بھی ملوث تھی۔“

                ” جی، جی ، سر ، میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ ممکن ہے وہ ناصر ہی ہو۔“ انسپکٹر نے ایسے لہجے میں جواب دیا جس میں کامیابی پر ہونے والا احساس ِ طمانیت شامل تھا۔

                ” کیا نام بتایا تھا تم نے اس لڑکی کا؟“

                ” سر! وہ شہر کے بہت بڑے سیٹھ کی لڑکی ہے۔ بے انتہا ، ماڈرن اور آزاد خیال شکیلہ رفیق اس کا نام ہے۔ اس کے روز و شب نائٹ کلبوں اور ڈانس پارٹیوں میں گزرتے ہیں۔“

                ” ٹھیک ہے، میرا خیال ہے ہم اپنی منزل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ تم یہ معلوم کرو کہ آج شام شکیلہ رفیق کی کیا مصروفیات ہیں اور وہ کس پارٹی یا فنکشن میں شریک ہو نے والی ہے۔“ فرہاد نے ہدایات مکمل کرتے ہوئے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                کراچی واپسی سے لے کر اب تک کی بھاگ دوڑ نے فرہاد کو تھکا  دیا تھا۔ اس لئے وہ گھر پہنچتے ہی کھانا کھا کر سو گیا۔ ابھی شام ہونے میں کئی گھنٹے باقی تھے۔ لہذا اس نے  آرام کا یہ موقع غنیمت جانا۔ ویسے بھی اب جو کچھ ہونا تھا شام کو ہی ہونا تھا۔ پھر ٹیلی فون کی گھنٹی ہی نے اسے بیدار کیا۔ اس نے رسیور اُٹھایا۔ دوسری  جانب سے ڈیوڈ بات کر رہا تھا۔ رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد ڈیوڈ نے اسے بتایا کہ شام کی فلائٹ سے وفد کے تمام اراکین وطن واپس جا رہے ہیں۔

                ” مجھے افسوس ہے مسٹر دیوڈ کہ آپ لوگ دورہ ادھورا چھوڑ کر جارہے ہیں مگر شاید اسی میں ہم سب کی بہتری ہوگی۔“

                ” اس افسوس کا اظہار اپ ایک بار پہلے بھی کر چُکے ہیں۔“ دیوڈ نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔” میں نے دراصل اپ کو الوداع کہنے کے لئے فون کیا تھا۔ آپ نے تو ہماری رفاقت ہی ترک کر دی۔ کیا پم سے کوئی غلطی ہوگئی؟“

                ” نہیں، نہیں مسٹر ڈیوڈ ایسا نہیں آپ کے ہمراہ میں نے جو وقت گزارا۔ وہ ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ مگر میری ذاتی مجبوریاں ایسی  تھیں کہ میں آپ کو الوداع کہنے کے لئے نہیں آسکا۔ براہ کرم مجھے  معاف کر دیجیئے گا۔“

                 ایس پی فرہاد نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔

                ” واقعی آپ مشرقی لوگ بے حد بامروت ہوتے ہیں مسٹر فرہاد آپ فکر مند نہ ہوں۔۔۔۔ مسائل زندگی میں ہر آدمی کے ساتھ ہوتے ہیں خُدا آپ کی پریشانی جلد دور کرے۔۔۔اچھا گڈ بائی۔“

                ” گڈ بائی۔“ فرہاد نے کہا الفاظ ادا کر کے فون رکھ دیا۔ اس نے گھڑی دیکھی سوا چار بج چکے تھے۔ حیرت ہے ابھی تک انسپکٹر نے کوئی اطلاع نہیں دی۔ اُس نے سوچا۔۔ عین اسی وقت ٹیلی فون کی گھنٹی نے دوبارہ اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ حسب توقع دوسری طرف انسپکٹر ہی تھا۔

                ” کہو کیا خبر ہے؟“ فرہاد نے قدرے بے چینی سے پوچھا۔

                ” سر، آج شام شکیلہ رفیق ایک فینسی دریس شو میں جا رہی ہے اور اس کے ساتھ وہی آآدمی ہوگا جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ ناصر ہے۔“

                ” اس کے بعد شکیلہ کا کیا پروگرام ہے؟“ فرہاد نے دریافت کیا۔

                ” سر ، اس کے بعد وہ اپنی ایک سہیلی کے گھر ڈنر میں شرکت کے لئے جائیگی۔ میں نے اس کا پتہ بھی حاصل کر لیا ہے۔ یہ نارتھ ناظم آباد کا ایک بنگلہ ہے۔“

                ” ٹھیک ہے تم فوراً میرے پاس آجاؤ۔ اور خیال رہے کہ سادے لباس میں آنا۔“

                ” بہت بہتر ، سر۔۔۔“ فرہاد نے رسیور رکھ دیا اور غسل کے لئے چلا گیا۔ جب وہ نہا کر نکلا تو موڈ خوشگوار تھا اور زیرِ لب وہ کوئی گیت گنگنا رہا تھا ۔ اسی اثنا میں بیگم فرہاد نے چائے کی دو پیالیاں لئے دبے قدموں کمرے میں داخل ہوئی۔ دروازے کی جانب پشت ہونے کے باعث فرہاد کو اس کے انے کی خبر نہ ہوئی اور وہ اپنی دھن میں مَست تھا کہ بیگم کی آواز نے چونکا دیا۔

                ”اوہو! آج تو کئی دنوں بعد ماشاء اللہ طبیعت  زوروں پر نظر آرہی ہے۔“

                ” ہاں بیگم! طبیعت  تو آج واقعی بہت اچھی ہے۔“ فرہاد نے مسکرا کے جواب دیا۔

                ” چلیئے! خُدا کا شکر ہے میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ کچھ دنوں  کے لئے آپ باہر ہو آئیں تو صحت پر بہت اچھا اثر پڑے گا۔ گو آپ چند دن میں ہی واپس اگئے مگر طبیعت بحال ہو گئی ہے اور اس طرح ناصر کے جھنجھلاہٹ سے بھی آپ کی جان چھوٹ گئی۔“

                بیگم  فرہاد نے محبت میں ڈوبی ہوئی نظروں سے فرہاد کو دیکھتے ہوئے کہا۔

                ” بیگم اپ کا خیال تو درست ہو سکتا ہے کہ کراچی سے باہر چند دن قیام نے میری صحت پر خوشگوار اثر ڈالا ہو۔ لیکن ناصر کے جھنجھٹ سے جان کہاں چھوٹ سکتی ہے۔“ فرہاد نے مُسکرا کر چائے کی پیالی لیتے ہوئے کہا۔

                ” ارے اب ختم بھی کیجیئے نہ قصے کو یا آپ مجھے چھیڑنے کو یہ کہہ رہے ہیں۔“ بیگم فرہاد کے لہجے میں اندازِ محبوبی نمایاں تھا۔۔

                ” نہیں بیگم، اس میں ایسی کوئی بات نہیں ناصر کا معاملہ تو رہ گا مگر اب صُورتِ حال کچھ مختلف ہوگئی ہے۔“

                ” کیا اب کوئی نئی افت کھڑی ہوگئی ہے؟“ بیگم فرہاد نے روہانسا ہو کر پُوچھا ۔

                ” آفت تو نہیں ہے، بلکہ ممکن ہے اگے چل کر راحت ہی ثابت ہو۔ بیگم ، پہلے میرے اُپر ناصر سے متعلق کچھ سرکاری زمہ داریاں تھیں۔ میں نے اپنے طور پر ان ذمہ ڈاریوں کو نبھانے کی پوری کوشش کی۔ اب مجھے ناصر کی بے گناہی کا مکمل یقین ہو گیا ہے۔ مگر  ایک اور پُراسرار طاقت نے مجھے حکم دیا ہے  کہ میں ناصر کی مدد کروں۔ کیونکہ وہ کچھ مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور بیگم، اس قوت کا تعلق انسانوں سے نہیں ہے۔“ چند لمحے ٹھہر کر وہ دوبارہ گویا ہو۔

                ” اور تم یہ بھی سُن لو کہ اس قوت کے سامنے انکار کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔ جب وہ مجھ سے رابطہ کرتی ہے تو میں اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔ خوابناک گھنٹیوں کی آواز مجھے بے بس کر دیتی ہے۔“

                بیگم فرہاد کی انکھوں سے آنسو نکل ائے۔ اس کے منہ سے صرف اس قدر نکلا” اُف میرے خُدا! ہمارے گھر کو کس کی نظر کھا گئی ہے؟“

                 اسی اثنا میں خادمہ نے انسپکٹر کی آمد کی اطلاع دی۔

 

 

 


 

                نیلی واکس تیزی سے کراچی کی پُر رونق سڑکوں سے گزرتی ہوئی شہر کے مشہور ہوٹل میں پہنچی جہاں تھوڑی دیر بعد فینسی ڈریس شو ہونے والا تھا۔ ہوٹل کے ارد گرد آج معمول سے زیادہ کاریں نظر آرہی تھیں۔ ہوٹل کے سامنے پھیلے ہوئے فٹ پاتھ پر کاروں سے رنگ و خوشبوؤں کا ایک سیلاب ہوٹل کی جانب رُخ کر رہا تھا۔ حسین اور خوبصورت خواتین شاندار ملبوسات میں ہوٹل کی جانب رواں دواں تھیں۔

                فرہاد اور انسپکٹر ہوٹل کے مین گیٹ کے باہر ہی کھڑے ہو گئے۔ ابھی پروگرام شروع ہونےمیں کافی دیر تھی۔

                فرہاد کے ھکم پر انسپکٹر اندر ہال کا جائزہ لینے چلا گیا۔ انسپکٹر نے ہال کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ایک چکر لگایا۔ وہ کنکھیوں سے ارد گرد کے ماحول کا  جائزہ بھی لیتا جا رہا تھا۔ ہال نصف سے زائد بھر چکا تھا۔ عورتیں اور مرد کرسیوں پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ دو دو چار چار کی ٹولیوں میں ہال کے بغلی دروازوں کے ساتھ ساتھ کھڑے  ہوئے تھے۔ یہ اپنی نوعیت کی واحد تقریب تھی جس میں لوگوں کو پابند ی وقت کا اس قدر خیال تھا کہ وہ وقت سے کچھ دیر پہلے ہی آگئے تھے۔ انسپکٹر نے ہال  کے اختتامی کونے سے اسٹیج کی جانب پھر ایک راؤنڈ لگایا۔ ایک دروازے کے قریب پہنچ کر اس نے اپنی رفتار بالکل دھیمی کر دی۔ پھر کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر ہال پر ایک طاہرانہ نظر ڈالی جیسے کسی کو تلاش کر رہا ہو۔ ساتھ  ہی ساتھ اس کے کان عورتوں اور مردوں کی گفتگو  پر لگے ہوئے تھے۔

                ” دیکھیں آج آول انعام کس کو ملتا ہے؟“ ایک دراز قد خوبصورت عورت نے کہا۔

                ” میرا تو خیال ہے کہ شکیلہ رفیق ہی اول آئے گی۔“ دوسری عورت نے اظہار ِ خیال کیا۔

                ” اس لئے کہ ایک تو شکیلہ رفیق کے نقوش بہت زیادہ پُرکشش ہیں پھر سنا ہے کہ اب کی بار اس نے پیرس کے ایک ٹیلر سے فینسی شو میں شرکت کے لئے لباس سلوایا ہے۔“

                ” اور اس فینسی ڈریس شو کے اخراجات کا بھاری حصہ میں نے سنا ہے وہ اپنی جیب سے ادا کرے گی۔“

                ” تو گویا شکیلہ بھی اس فینسی ڈریس شو کے مقابلے میں شریک ہو رہی ہے۔ تب تو ہمیں شاید پروگرام کے اختتام تک یہیں انتظار کرنا پڑے گا۔“ انسپکٹر یہ سوچتا ہوا پہلی قطار کے سامنے پہنچا۔ یکایک اسے انتہائی قیمتی سوٹ میں ملبوس ایک شناسا شکل نظر آئی۔ اس قسم کے تماشوں میں عموماً پہلی صف میں اہم شخصیات کے لئے جگہ مخصوص ہوتی ہے۔ چناچہ یہ اندازہ لگانا تو کوئی مشکل نہ تھا کہ یہ شخص انتہائی اہم ہے مگر انپکٹر چند ثانیوں تک اپنے ذہن پر زور دینے کے باوجود بھی یہ طے نہیں کر پا رہا تھا کہ اس نے اس شخص کو کہاں دیکھا ہے؟ اسی سوچ میں اس نے پہلی صف کو عبور کیا اور پھر دوسرے کونے پر جا کر واپس ہوا۔ ایک بار پھر اس نے اگلی صف میں بیٹھے ہوئے شخص کےخدوخال پڑھنے کی وہ کوشش کر رہا ہے وہ اپنے ناقدانہ جائزے سے ذرا بھی متاثر نہیں نظر آتا۔ ورنہ عموماً لوگ اس انداز کو ناپسند کرتے ہیں اور ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ اور اضطرابی حرکتوں سے ان کے اظہار ِ نا پسندیدگی کا پتہ چل جاتا ہے ممکن ہے کہ وہ غیر معمولی اعصاب کا آدمی ہو۔ اور اس بے نیازی سے اپنی قوتِ ارادی کا ثبوت دینا چاہتا ہو۔ بہرحال ، جو کچھ بھی ہو، وہ اپنے رویے سے بے نیاز آدمی لگتا تھا۔

                یکایک انسپکٹر کے ذہن میں خیال کی ایک برقی رَو سی کوند گئی اور اس نے خود سے مخاطب ہو کر کہا۔” ارے یہ تو ناصر ہے ۔ پہچان میں ہی نہیں آرہا۔“  ناصر کو تلاش کرنے کی خوشی میں وہ جلد از جلد اپنے افسر ایس۔ پی فرہاد کے پاس پہنچ جانا چاہتا تھا۔

                ” سر! میں نے ناصر کا پتہ لگا لیا ہے۔“ انسپکٹر نے جاتے ہی مسرت بھرے لہجے میں کہا۔

                ”کہاں ہیں ناصر صاحب؟“ فرہاد نے دریافت کیا۔

                ” سر! وہ تو پہچان میں ہی نہیں آرہے ہیں۔“ انسپکٹر نے فرہاد کو ناصر کے ساتھ ” صاحب“ کا لفظ استعمال کرتے دیکھ کر خود بھی زیادہ مہذب ہونے کا ثبوت دیا۔ اور پھر ساری بات اس نے فرہاد کو بتا دی۔

                اب باہر کھڑا ہونا بے سود تھا۔ دوسرے پروگرام شروع ہونے میں بھی تھوڑی دیر رہ گئی تھی۔ انسپکٹر نے اس فینسی ڈریس شو میں شرکت کے لئے دو پاس حاصل کر لئے تھے۔ وہ اپنی اپنی سیٹوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ خوش قسمتی سے انہیں پہلی قطار سے چند قطار پیچھے ہی جگہ مل گئی تھی۔ جہاں سے ناصر پر بخوبی نظر رکھی جا سکتی تھی۔

                چوں کہ ناصر کا چہرہ فرہاد کے سامنے نہیں تھا۔ اس لئے اب تک اسے انسپکٹر کی بات کا یقین نہیں آرہا تھا۔ اس بے یقینی کی وجہ بھی اس کے ذہن میں  واضح تھی۔ کہاں ناصر جیسا غریب مزدور پیشہ آدمی جس کے پاس ڈھنگ کے کپڑے تک نہ تھے اور کہاں ایسا خوش پوش اور خوش لباس آدمی، اعلیٰ سوٹ میں ملبوس۔ وہ کوئی بڑا سیٹھ یا اعلیٰ عہدے دار نظر آتا تھا۔

                پروگرام کا آغاز ہوا۔ ایک شخص نے اسٹیج پر آ کر پروگرام کی غرض  و غایت بیان کی۔ ان خواتین کے نام پکارے گئے جو اس مقابلے میں شریک تھیں۔ اسٹیج سکریٹری نے حاضرین کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا۔ ” ہامرے ملک میں منعقد  کئے جانے والے فینسی ڈریس شو ز میں عموماً صرف پاکستان کی خواتین کے لباس جن میں علاقائی لباس بھی ہوتے ہیں شامل کئے جاتے ہیں ۔ لیکن ہم نے آج کا یہ مقابلہ دوحصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ مقابلے میں حصہ لینے والی خواتین ایک بار مشرقی لباس پہن کر اور ایک بار مغربی لباس پہن کر مقابلے میں شریک ہوں گی۔“ اس بات پر ہال میں پُر زور تالیاں بجائی گئیں۔

                اسٹیج پر چند ثانیوں کے لئے پردہ گرا دیا گیا۔ جب دوبارہ پردہ اُٹھایا گیا تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ مختلف رنگوں کی روشنیاں مقابلے میں شریک ہونے والی تمام عورتوں پر جو ایک قطار میں کھڑی ہوئی تھیں پڑ رہی تھیں اور ان کے حسن اور دلفریبی میں اضافہ کر رہی تھیں۔اس کے بعد ایک ایک کر کے مقابلے میں شریک لرکیاں اسٹیج پر آتی رہیں اور اپنے اپنے لباسوں کی تراش خراش، آرائش        و زیبائش پر حاضرین سے دادِ تحسین وصول کرتی رہیں۔

                اناؤنسر نے شکیلہ رفیق کا نام پکارا اور وہ  مغلیہ لباس میں شہزادیوں کی مانند چلتی ہوئی اور چند منٹ اسٹیج پر کھڑے رہ کر چلی گئی۔ ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔

                جب مغربی لباس کا مقابلہ شروع ہوا تو شکیلہ رفیق نے فرانیسی خواتین کا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ اب کے بھی اس کی امد پر ہال تالیوں سے دیر تک گونجتا  رہا۔

                فرہاد  کے چہرے  سے اس بے معنی اور لغو پروگرام سے متعلق بے زاری کی کیفیت عیاں تھی۔

                بالآخر اسٹیج سکریٹری نے ڈریس شو کے خاتمہ کا اعلان کیا اور کہا کہ جج حضرات کسی فیصلے تک پہنچنے کے لئے گفت و شنید میں مصروف ہیں۔ اس وقت تک کے لئے چند تفریحی آئٹم پیش کئےجاتے ہیں۔

                اور آخر میں اسٹیج سکریٹری ججوں کا فیصلہ لے کر اسٹیج پر آیا۔ لوگوں کی متجسس نگاہیں اس پر لگی ہوئی تھیں ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اسٹیج کے گرد موجود لوگوں کہ بے ساختہ چیخیں نکل پڑیں۔

                ” سانپ !  سانپ!“

                اناؤنسر نے گھبرا کےاِدھر اُدھر دیکھا۔ اسٹیج پر چھ سات فٹ لمبا سیاہ سانپ تیزی سے رینگتا ہوا اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سانپ کی تیز پھنکاریں دل دہلائے دے رہی تھیں۔ وہ گھبرا کر اسٹیج سے نیچے کودا اور بوکھلاہٹ میں آگے بیٹھے ہوئے لوگوں پر گر پڑا۔

                سانپ رینگتا ہوا اسٹیج سے نیچے آگیا اور اب اس کا رُخ ناصر کی جانب تھا۔ سانپ کو آتا دیکھ کر لوگوں میں بھگڈر مچ گئی۔  بہت سے لوگ بچاؤ کے لئے ایک ساتھ بھاگے۔ کئی لوگوں کے سر آپس میں ٹکرائے اور آپس میں گتھم گتھا ہو  کر رہ گئے۔ ہر شخص یہی سمجھ رہا تھا کہ سانپ اس کا تعاقب کر رہا ہے۔

                ایس پی فرہاد  اور انسپکٹر دونوں اس غیر متوقع صورتِ حال کے لئے قطعی تیار نہیں تھے۔ وہ بھی گیر ارادی طور پر لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ایس پی کو اس جگہ سانپ کی موجودگی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ قانون کا محافظ ہو نے کی حیثیت سے اس کے زہن نے ایک دوسری طرز پر سوچنا شروع کردیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی یہ بد نظمی پیدا کر کے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہو؟

                وہ لوگوں کو افراتفری میں مبتلا چھوڑ کر دروازے کی طرف بھاگا اور یکا یک اسی وقت ہال کی تمام بتیاں گُل ہو گئیں اور چاروں طرف گھپ اندھیرا ہو گیا۔اندھیرے نے لوگوں کو اور بھی زیادہ بے حواس کر دیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ عورتوں کی چیخیں مسلسل گونج رہی تھیں۔

                اندھیرے میں   لوگوں سے ٹکراتا ایس پی فرہاد دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہاں لوگوں کا ہجوم تھا جو باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایس پی بڑی دھکا پیل کے بعد باہر نکلنے میں کامیاب ہو سکا۔ باہر لان  پر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ ہوٹل کے دوسرے سب کمرے روشن ہے۔ اسے حیرت ہوئی کہ ہال کی ساری  بتیاں تو گُل ہیں لیکن باقی حصوں میں روشنی ہو رہی ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ہال کی بتیاں الگ الگ سوئچوں سے کنٹرول ہوتی ہیں ۔ پھر اسے یہ بھی یاد تھا کہ کوئی سوئچ بورڈ کے قریب بھی نہیں گیا۔

                 وہ اسی ادھیڑ پن میں تھا کہ پورا ہال روشنیوں سے جگمگا اُٹھا، وہ تیزی سے ہال کے اندر پہنچا۔ ہال کے دروازے پر موجود لوگوں نے گھبرا کر ادھر اُدھر سانپ کو چاروں طرف  تلاش کیا گیا۔ سانپ کے بارے میں لوگوں میں قیاس آرائیاں  جاری تھیں۔ اور ہر قیاس ارائی میں حیرت کا عنصر شامل تھا۔

                ایس پی فرہاد بھی اس واقعے کو کوئی معنی پہنانے سے قاصر تھا۔ کسی غیر قانونی واردات نہ ہونے کی وجہ سے اس کے خیال کی تردید ہو گئی تھی کہ کسی نے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہ ڈرامہ اسٹیج کیا ہے کیوں کہ ہال میں موجود خواتین اپنے قیمتی زیورات پہنے ہوئے تھیں اور ان سب کے پرس بھی محفوظ حالت میں تھے۔

                خیالات کی رَو میں بہتے بہتے اس کا ذہن ناصر پر جا رُکا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی نگاہیں ناصر کو تلاش کرنے لگیں۔ اسنے تمام سیٹوں پر نظریں دوڑائیں اور ہال میں کھڑے لوگوں کو بھی اچھی طرح دیکھا لیکن ناصر وہاں موجود نہیں تھا۔ ایس پی کا ذہن ناصر کی غیر موجودگی کو سانپ والے واقعے سے جوڑنے  لگا۔ اس نے سوچا کہ سانپ اور ناصر کی شخصیت دونوں میں ضرور کوئی پراسراریت موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ناصر  کا اس واقعہ سے کوئی تعلق ہو جب ہی وہ وہاں موجود نہیں ہے۔ لیکن آخر ناصر کے یہاں سے جانے میں کیا مصلحت ہو سکتی ہے؟

                اتنے میں انسپکٹر وہاں آ پہنچا۔” سانپ نے کسی کو کاٹا تو نہیں؟“ ایس پی نے پوچھا۔

                ” جی نہیں سر! ایسی کوئی خبر نہیں ہے اور سر! حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہوٹل کے لوگوں کے بیان کے مطابق جس وقت ہال کی روشنی گُل ہوئی اس وقت ہوٹل کے دوسرے حصوں میں روشنی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ کسی نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر یا طے شدہ منصوبے کے تحت ہال کی لائٹیں  بجھا دی ہوں تو اس خیال کی بھی تردید ہو جاتی ہے کیوں کہ ہال  اور اسٹیج کی روشنیاں الگ الگ سوئچ بورڈوں  سے کنٹرول ہوتی ہیں اور انہیں ایک ساتھ جلانا یا بجھانا ممکن نہیں ہے۔“

                ”پہلے میرا ذہن کسی جُرم کی طرف گیا تھا لیکن موجود حالات نے اس کی نفی کر دی ہے۔“

                ایس پی کی نگاہیں ہال کا جائزہ لے رہی تھیں۔ اس نے کہا۔” ناصر نظر نہیں آرہا ہے۔ نہ جانے کہاں چلا گیا۔“

                ” کیا ناصر نہیں ہے؟“ انسپکٹر کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔” میں تو اس ہنگامے میں اسے بھول ہی گیا تھا۔“

                ” ہمیں ناصر کو تلاش کرنا چاہیئے۔ مجھے شبہ ہو رہا ہے کہ ناصر کا اس واقعہ سے کوئی تعلق ضرور ہے۔“ ایس پی نے کہا۔

                 ایس پی بظاہر انسپکٹر سے باتیں کر رہا تھا لیکن اس کا ذہن مسلسل سوچوں کے گرداب میں پھنسا ہوا تھا۔ ایک پراسرار ہستی نے اس کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ناصر کو مشکلات سے نکالنے کی کوشش کرے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ناصر کی کس طرح مدد کرے۔

                ایس پی اور انسپکٹر باہر آ کر کار میں بیٹھ گئے اسی وقت انہیں شکیلہ رفیق نظر آئی جو ہوٹل کے اندر سے نکل کر باہر لان کی جانب آ رہی تھی۔ باہر نکلنے کا راستہ دونوں طرف سے سر سبز گھاس سے گھرا ہوا تھا۔

                ” انسپکٹر ! تم یہیں رکو۔ میں شکیلہ رفیق سے ناصر کے بارے میں پوچھتا ہوں۔ دیکھتے ہیں وہ ناصر کی غیر موجودگی کے بارے میں کیا کہتی ہے۔“


Hayola

Sadiqul israr

روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ قسط وار مضمون ھیولا۔۔جن ، انسان اور روح کے درمیان کش مکش پر میں ایک خوب صورت کہانی  کی دستاویز پیش خدمت ہے۔