Topics

پنڈت ہری رام


 

                شیو دیوتا کے مہان پجاری کے عہدہ پر فائز ہونے سے قبل اس کے فرائض میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اگر اس کے ذہن میں دھرتی کے بارے میں کوئی بھی سوال پیدا ہوتا ہے تو وہ جس ذریعہ سے بھی چاہے تسلی کر سکتا ہے۔

                یہ ایک حقیقت ہے کہ روحانی علوم پر دسترس انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جن کے ذہن میں ‘‘تجسس’’ کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ مظاہر قدرت کے بارے میں ‘‘کیوں اور کیسے’’ کے الجھائو میں وہ حقیقی راہ پا لیتے ہیں۔ ان کی نگاہوں کے سامنے سے حجات اٹھتے چلے جاتے ہیں…………غور و فکر کے بے کراں سمندر میں غوطہ زن رہنے والے بالآخر ‘‘نقطہ حقیقت’’ کو پا لیتے ہیں…………اور پھر ان کے لئے کوئی راز راز نہیں رہتا ‘‘غیب غیب’’ نہیں ہوتا لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہی ممکن ہے جبکہ غور و فکر کرنے والے ذہن کو صحیح راہنمائی بھی مل جائے۔ مظاہر قدرت کی گتھیوں کو سلجھانے والا بذات خود ان گتھیوں کو سمجھ چکا ہو۔

                ہری رام ماورائی علوم کے ابتدائی درس حاصل کر رہا تھا۔ اس کا وسیلہ شیو دیوتا اور اس کا مہان پجاری تھا…………وہ اعلیٰ ذہن کا نوجوان تھا اور کائنات کو اپنے مذہبی نظریہ سے سمجھتا تھا۔ وہ اپنے علم میں اضافہ کرنے کی خاطر ہی پیر حاضر شاہ کے پاس آیا تھا۔ وہ اس معاملے میں انتہا پسند قسم کا متعصب نہیں تھا۔ لیکن جبلی طور سے مذہبی عناد ضرور رکھتا تھا…………وہ اس مقولہ پر کاربند تھا کہ اگر اپنے علم میں اضافہ چاہتے ہو تو جاہلوں کی صحبت میں بیٹھو۔

                پیر حاضر شاہ سے پہلی ملاقات میں وہ جان گیا تھا کہ اس کی ملاقات کسی غیر معمولی شخص سے ہوئی ہے اس کے باوجود اس کی نظر میں پیر حاضر شاہ کی کوئی قدر و منزلت نہیں پیدا ہوئی۔ بلکہ وہ چاہتا تھا کہ پیر حاضر شاہ سے ان عالمی معاملات پر بھی گفتگو کر لے جو اکثر روحانی اور مذہبی و غیر مذہبی لوگوں کے زیر بحث رہتے ہیں…………اور ہر طرز فکر کے لوگ اس بارے میں اپنے نظریات پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس کائنات کی فنا اور بقا کے بارے میں اپنے اس تجسس کا جواب اس کے پاس موجود تھا۔ پھر بھی وہ مزید تسلی کے لئے پیر حاضر شاہ کے نظریات جاننا چاہتا تھا۔ اور اس مقصد کی خاطر وہ ایک ماہ بعد پھر ان کی محفل میں پہنچ گیا۔

٭×××××××××××٭

                پیر حاضر شاہ حسب دستور پیپل کے نیچے بیٹھے حاضرین مجلس سے مصروف گفتگو تھے۔ موضوع سخن بھی اس دنیا ہی کے بارے میں تھا۔ وہ بڑے ہی فلسفیانہ انداز میں کہہ رہے تھے۔ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے، جس انداز سے جس جاندار کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب ‘‘لوح و قلم’’ کا مظہر یا وجود ہے۔ اور یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ ‘‘وجود’’ صرف علم ہے اور علم صفات کا عکس ہے تو پھر صفات کا عکس ہی علم ہوا۔

                وہ کس طرح…………ہری رام نے اچانک سوال کیا۔

                فرد کی زندگی سے متعلق علم کی تمام تجلیاں اس کی روح اعظم میں فکر کی تجلیاں روح انسانی میں اور علم کے تمام نقوش روح حیوانی میں ریکارڈ ہیں۔ پیر حاضر شاہ نے مسکرا کر جواب دیا۔ عام حالات میں ہماری نظر اس طرف کبھی نہیں جاتی کہ موجودات کے تمام اجسام اور افراد میں ایک مخفی رشتہ ہے۔

                لیکن…………وہ خفیہ رشتہ ہے کونسا…………ہری رام نے پوچھا۔

                اس رشتہ کی تلاش سوائے اہل روحانیت کے اور کسی قسم کے اہل علم اور اہل فن نہیں کر سکتے۔ پیر حاضر شاہ نے سنجیدگی سے کہا۔ حالانکہ اس ہی رشتہ پر کائنات کی زندگی کا انحصار ہے۔ یہی رشتہ تمام آسمانی اجرام اور اجرام کے بسنے والے ذی روح اور غیر ذی روح افراد میں ایک دوسرے کا تعارف ہے۔

                جناب میں اس ہی رشتہ کے بارے میں وضاحت چاہتا ہوں…………ہری رام نے اصرار کے انداز میں کہا۔

                اس کی مثال یوں سمجھ لو…………پیر حاضر شاہ نے پہلو بدل کر کہا۔ ہماری نگاہ جب کسی ستارے پر پڑتی ہے تو ہم اپنی نگاہ کے ذریعے ستارے کو محسوس کرتے ہیں۔ ستارہ کبھی ہماری نگاہ کو اپنے نظارہ سے نہیں روکتا۔ وہ کبھی نہیں کہتا کہ مجھے نہ دیکھو۔ اگر کوئی مخفی رشتہ موجود نہ ہوتا تو ہر ستارہ اور ہر آسمانی نظارہ ہماری زندگی کو قبول کرنے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور پیدا کرتا۔ یہی وہ مخفی رشتہ ہے۔

                آپ کی اس بات سے…………ہری رام نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔…………اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ تمام کائنات ایک ہی ہستی کی ملکیت ہے۔

                تم نے بالکل صحیح سمجھا ہے…………پیر حاضر شاہ نے خندہ پیشانی سے کہا۔ اگر کائنات کے اجسام مختلف ہستیوں کی ملکیت ہوتے تو یقیناً ایک دوسرے میں تصادم ہو جاتا کیونکہ ایک ہستی کی ملکیت دوسری ہستی کی ملکیت سے متعارف ہونا ہرگز پسند نہیں کرتی۔

                تو پھر…………یہ کائنات فنا کس طرح ہو گی۔ ہری رام نے معنی خیز انداز میں پوچھا۔

                انسان اور دوسری تمام موجودات کی طرح یہ دنیا بھی جسم واحد ہے۔ پیر حاضر شاہ نے سمجھانے والے لہجہ میں کہا۔ اور جس طرح انسان بقا پانے کے بعد فنا کی طرف دوڑ رہا ہے اس ہی طرح مادی کائنات کی طبعی عمر بھی روز بروز گھٹتی جا رہی ہے اور…………جب وہ زندگی کی آخری حد پر پہنچ جائے گی تو فنا ہو جائے گی۔

                لیکن پیر صاحب…………ہری رام نے قدرے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔ سائنس تو اس بات کو نہیں مانتی۔

                سائنس اور مذہب…………پیر حاضر شاہ نے اپنے دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں سامنے کر کے جواب دیا۔

                حقیقت تک پہنچنے کے لئے دو مختلف ذرائع ہیں۔ سائنس کا کام مادیت کے پرپیچ راستوں کے ذریعہ حق و صداقت تک پہنچانا ہے۔ اور مذہب کا کام بھی یہی ہے…………جبکہ سائنس میں نظریات ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔

                پیر حاضر شاہ کا جواب سن کر ہری رام خاموش ہو گیا…………لیکن اس کے ساتھ ہی ایک پکی عمر کے پڑھے لکھے شخص نے جو کہ اس ہی محلے کے رہنے والے تھے۔ اور ایک دوسرے شہر کے انگریزی اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہ چکے تھے…………لوگ انہیں مرزا جی کے نام سے جانتے تھے…………برجستہ اعتراض کیا۔

                صاحب! آپ یہ بات کس طرح کہہ سکتے ہیں؟ سائنسی نظریات کو غلط ثابت کرنے کا دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا۔

                میں دعویٰ کر سکتا ہوں۔ پیر حاضر شاہ نے اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہا…………ان کے چہرہ پر ایک دم جلال سا چھا گیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ انہوں نے اپنی آنکھیں اس طرح بند کر لیں جیسے غیر شائستگی میں کوئی غیر مانوس سی بات کہہ دی ہو…………اب ان کا چہرہ پھر پہلے ہی کی طرح پر سکون تھا۔ انہوں نے نہایت ہی ٹھہرے ہوئے لہجہ میں کہا۔ سائنس کا یہ اصول ہے کہ جب بھی نئے مفروضات بنتے ہیں، پرانے نظریات کو رد کر دیا جاتا ہے۔ آج کتنے لوگ ہیں جو ڈارون ڈی ور تیر اور مورگن کے نظریات کو بالکل صحیح سمجھتے ہیں۔ ان کے بعد جو مفکر آئے اور انہوں نے جو بھی نظریہ پیش کیا۔ اس نے پرانے نظریہ کی ہمیشہ نفی کی ہے۔ لیکن …………مذہب کا کوئی اصول کوئی نظریہ کبھی نہیں بدلتا۔

                ہری رام نے موقع کی مناسبت سے کہا…………لیکن سائنس زمانے کے لحاظ سے کوئی نظریہ پیش تو کرتی ہے۔ جبکہ مذہب پرانے نظریات کو سینہ سے لگائے رکھتا ہے۔

                یہ غلط ہے…………پیر حاضر شاہ نے حسب عادت مسکرا کر جواب دیا۔ دراصل سائنس کا کوئی نظریہ ہے ہی نہیں۔ جو کچھ ہے…………وہ مذہب کا نظریہ ہے اور سائنس صرف ان اشاروں کنائیوں کی تحقیق و تشریح کرتی ہے جو کہ قطعی طور سے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں…………جبکہ اہل ایمان کا زاویہ فکر وحدانیت پر قائم ہے۔

                وہ کس طرح…………مرزا جی نے تعجب سے پوچھا۔

                پہلے اس بات کو اچھی طرح سے جان لو…………پیر حاضر شاہ نے سنجیدگی سے کہا کہ علم انسانی نے صرف وہ حقائق اور قوانین معلوم کئے ہیں جن سے یہ کائنات بنی ہے مثلاً پانی کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے کہ اس میں حیات ہے۔ اب انسان نے یہ اشارہ پا کر پانی کی افادیت کی جستجو کی اور وہ اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ پانی دو اجزاء ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے…………لیکن انسان کا علم پھر بھی اتنا ناقص ہے کہ وہ نہ تو ان دونوں اجزا کو بنا سکتا ہے اور نہ ہی…………ان اجزا کو ملا کر زمین پر موجود پانی کی طرح پانی بنا سکتا ہے۔

                یہ کام تو کوئی بھی نہیں کر سکتا…………خان بہادر دیر سے خاموش تھے۔ ایک دم بول اٹھے…………پیر حاضر شاہ نے مسکرا کر جواب دیا۔ تصوف کی دنیا کے باسی علم الدنی کے طالبعلم جانتے ہیں کہ پانی کن مقداروں سے بنتا ہے۔

                ناممکن…………قطعی ناممکن…………مرزا جی نے پر زور الفاظ میں تردید کی۔

                شاید تم نے…………اللہ کے برگزیدہ بندوں کے وہ کارنامے نہیں سنے…………پیر حاضر شاہ نے یاددہانی کرانے والے لہجہ میں کہا۔ جن کو اس دنیا کے لوگ کرامات کہتے ہیں۔ تاریخ انسانی اس قسم کے محققین اور سائنسدانوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ اور جن کو لوگ صوفیاء اور اولیاء اللہ کے نام سے پکارتے ہیں لیکن یہ سب کچھ ان لوگوں کے لئے ہے جن کو حقیقت کی تلاش ہو۔ پر وہ قدرے طنزیہ مسکراہٹ سے بولے۔ جن لوگوں نے اس کائنات کی حقیقت جاننے کی خاطر دنیاوی علوم کی لاتعداد کتابیں پڑھ ڈالیں۔ انہیں بھی بالآخر حقیقت حال جاننے کی خاطر ان ہی لوگوں کے پاس جانا پڑا۔ جن کی باطنی نگاہ سے اس کائنات کا کوئی راز پوشیدہ نہیں ہوتا۔ اتنا کہہ کر پیر حاضر شاہ نے اچانک شمشو سے مخاطب ہو کر پوچھا۔ کیوں بھئی…………میں جھوٹ کہہ رہا ہوں؟

                شمشو نے یہ سن کر فوراً منفی انداز میں زور زور سے تین بار گردن ہلا دی۔

٭×××××××××××٭

                اس دن کے بعد…………ہری رام پیر حاضر شاہ کی محفل میں نظر نہیں آیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ تمام تفکرات کو ختم کر کے گیان دھیان میں مصروف ہو چکا ہے۔ اسے لوگوں نے مندر کے باہر بھی بہت کم دیکھا۔ لیکن پیر حاضر شاہ کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ حسب دستور عشاء کی نماز کے بعد پیپل کے درخت کے نیچے آ کر بیٹھے تھے۔ اور درود شریف ختم کر کے جو لوگ آ جاتے تھے ان سے مصروف گفتگو ہو جاتے تھے۔

                ایک دن حسب معمول پیر حاضر شاہ نے جونہی درود شریف کا ورد ختم کیا۔ ان کی نظر اپنے دوست خان بہادر پر پڑی۔ اس وقت نجانے پیر حاضر شاہ کو کیا سوجھی کہ خان بہادر سے بڑی ہی خوش دلی سے بولے۔

                خان صاحب…………اس وقت جو چاہو مانگ لو۔ مل جائے گا۔

                خان بہادر پیر حاضر شاہ کی یہ غیر متوقع بات سن کر ایک دم چونک پڑے۔

                میرے دوست…………پیر حاضر شاہ نے انہیں دوبارہ مخاطب کیا۔ اس وقت تم جو چاہو مل جائے گا۔ جو بھی مانگنا ہے مانگ لے یار۔

                خان بہادر یہ سن کر شش و پنج میں پڑ گئے۔ انہوں نے سوچا۔ کہیں پیر حاضر شاہ مذاق تو نہیں کر رہے ہیں کیونکہ اس وقت ان کے پاس دو تین آدمی اور بھی بیٹھے ہوئے تھے لیکن پیر حاضر شاہ صرف ان ہی سے مانگنے کا اصرار کر رہے تھے۔

                مانگ لے یار…………مانگ لے یار…………پیر حاضر شاہ نے بڑی ہی ترنگ میں سرگھما کر کہا۔ جو دل چاہے مانگ لے۔ اس وقت در مصطفیٰﷺ کھلا ہوا ہے۔ رحمتہ اللعالمینﷺ متوجہ ہیں۔

                مجھے جو بھی مانگنا ہے اپنے خدا ‘‘رب العالمین سے مانگوں گا۔ خان بہادر نے کہا۔ وہ ابھی تک سمجھ رہے تھے کہ پیر حاضر شاہ ان سے مذاق کر رہے ہیں۔

                ارے دوست…………پیر حاضر شاہ نے اس ہی طرح ترنگ میں کہا۔ رب العالمین سے و ملنے میں دیر لگے گی۔ رحمت اللعالمینﷺ سے جلدی مل جائے گا۔

                خان بہادر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں…………پیر حاضر شاہ کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا۔ اور ان کے دل میں بھی اپنی دیرینہ خواہش بیدار ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن اتنے آدمیوں کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے شرما رہے تھے۔ ابھی وہ فیصلہ بھی نہیں کر پائے تھے کہ پیر حاضر شاہ تیوری پر بل ڈالے۔

                پھر سنبھل کر بولے…………یہ وقت…………یہ ساعت…………پھر نہیں آئے گی۔ تمہارے دل میں جو تمنا ہے۔ جو خواہش ہے۔ ہمارے ہاتھ میں ہاتھ دے کر مانگ لو…………اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا دائیں ہاتھ مصافحہ کے انداز میں ان کی طرف بڑھا دیا۔

                ان کی یہ بات سن کر دوسرے لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ان کے خیال کے مطابق پیر حاضر شاہ نے بالکل ہی احمقانہ بات کی تھی…………مرزا جی نے اس سلسلہ میں کچھ کہنا چاہا۔ لیکن ایک دوسرے شخص نے خان بہادر کے کان میں سرگوشی کی۔ تمہیں تو عرصہ سے اولاد نرینہ کی خواہش ہے۔ اپنی اس ہی خواہش کا اظہار کر دو۔

                ہاں…………ہاں…………ایک دوسرے شخص نے بھی اس ہی انداز میں تاکید کی۔ جب وہ تم سے بار بار اصرار کر رہے ہیں تو اپنے لئے بیٹا مانگ لو…………پھر اس نے قدرے نفرت سے کہا۔ پتہ چل جائے گا کتنا بڑا پیر ہے۔

                یہ باتیں سن کر خانہ بہادر کی ہمت بڑھی۔ اور انہوں نے جھجھکتے ہوئے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے کر کہا، دعا کر کہ خدا مجھے بیٹا دے دے۔

                پیر حاضر شاہ نے خان بہادر کا ہاتھ تھامے ہوئے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا۔ سن لیا حضور…………سن لیا حضور، سن لیا حضور…………پھر انہوں نے ایک جھٹکے سے خان بہادر کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اور شمشو سے بولے۔ لا بھئی دو پتے تو توڑ دے۔

                خان بہادر کی اس اظہار خواہش پر دور بیٹھے ہوئے دو تین آدمیوں نے گردن اٹھا اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ اور ہنسنے لگے…………خان بہادر اب عمر کے اس حصہ میں داخل ہو چکے تھے جہاں اولاد کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

                شمشو نے پیر حاضر شاہ کا حکم سنتے ہی اپنے سر کے اوپر ہاتھ بڑھا کر ایک شخ سے دو پتے توڑ کر پیر حاضر شاہ کی طرف بڑھا دیئے۔ پیر حاضر شاہ نے پتوں پر کچھ پڑھا اور پھر خان بہادر سے مخاطب ہوئے…………یہ لو…………اور فوراً گھر چلے جائو۔ ایک پتہ خود کھا لینا اور ایک اپنی بیوی کو کھلا دینا۔ خیال رہے کہ سوکھنے نہ پائیں۔

                خان بہادر نے بادل نخواستہ پتے ہاتھ میں لئے اور حسب ہدایت فوراً ہی گھر کی طرف چل دیئے۔ ابھی وہ دور نہیں گئے تھے کہ مرزا جی کی آواز سنائی دی۔ وہ پیر حاضر شاہ سے کہہ رہے تھے۔ پیر صاحب…………آپ تو ہمیشہ حاجتمندوں کو پھل وغیرہ کھانے کو دیتے ہیں۔ لیکن آج خلاف توقع اپنے خان بہادر کو پتے کیوں کھانے کو دیدیئے۔

                لو…………پیر حاضر شاہ نے زور سے ہنس کر جواب دیا۔ گھوڑا گھاس نہیں کھائے گا تو کیا کھائے گا۔ پھر وہ شمشو سے بولے۔ کیوں بھئی۔ میں جھوٹ تو نہیں کہہ رہا ہوں؟…………اور شمشو نے حسب معمول منفی انداز میں گردن ہلا دی۔

                خان بہادر یہ گفتگو سنتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

٭×××××××××××٭

                خان بہادر ابھی گھر سے دور تھے………… انہوں نے یونہی ایک پتے کو دانتوں میں دبا کر توڑنا چاہا۔ لیکن وہ پورا پتہ ہی منہ میں چلا گیا۔ خان بہادر نے تھوڑا سا پتے کو چبایا۔ اس کا تو ذائقہ ہی کچھ اور تھا…………وہ کبھی تو ہاتھ میں تھمے ہوئے پتے کو دیکھنے لگے اور کبھی…………پیر حاضر شاہ کی طرف دیکھتے…………ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ ان کا دوست واقعی پیر ہے یا نہیں۔ وہ اس ہی سوچ میں گم حویلی میں داخل ہو کر بستر پر لیٹ گئے۔ ان کی بیوی بچیوں کو کھانا کھلانے سے فارغ ہونے کے بعد باورچی خانہ میں مصروف تھیں۔ خان بہادر کو بستر لیٹے کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ان کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے…………اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ پورے پسینے میں نہا گئے۔ انہوں نے گھبرا کر بیوی کو آواز دی۔ پسینہ ان کے جسم سے پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا جسم کے تمام مسام کھل گئے۔ ان کی بیوی نے تین چار بار پسینہ جسم سے پونچھا۔ پھر انہیں اپنا جسم بالکل ہی ہلکا محسوس ہوا…………وہ آرام سے بستر پر لیٹ گئے اور آہستہ آہستہ ان کے جسم میں گرمی آتی چلی گئی…………انہوں نے درزیدہ نگاہوں سے اپنی بیوی کو دیکھا۔ بیوی کو ان کی اس غیر معمولی حرکت پر تعجب بھی تھا اور خوشی بھی۔ خان بہادر نے انہیں ساری بات بتا دی۔ پھر پیر حاضر شاہ کا دیا ہوا پتا اسے بھی کھلا دیا۔ کچھ دیر بعد…………بیوی کے جسم سے بھی پسینہ بہہ نکلا۔ اب خان بہادر اس کا پسینہ پونچھ رہے تھے۔ پھر وہ دونوں ایک دوسرے کا لباس بن گئے اور کچھ دیر بعد میٹھی نیند سو گئے۔

٭×××××××××××٭

                اب خان بہادر تقریباً ہر روز ہی پیر حاضر شاہ کی محفل میں شریک ہونے لگے تھے۔ ان کی اور ان کی بیوی کے جسمانی تغیر نے انہیں پیر حاضر شاہ کا معتقد بنا دیا تھا۔ لیکن پیر حاضر شاہ نے اس سلسلہ میں انہیں سختی سے اپنی زبان بند رکھنے کا حکم دیا تھا۔ شاید پیر حاضر شاہ اس سلسلہ میں اپنی پبلسٹی نہیں چاہتے تھے۔

                پیر حاضر شاہ ہر روز ہی حاضرین مجلس کو ‘‘وحدانیت، حقانیت، شریعت اور طریقت’’ کے باریک نقطوں سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ ایک دن…………جبکہ ابھی دو تین ہی آدمی آ کر بیٹھے تھے اور ابھی انہوں نے درود شریف کا ورد ختم ہی کیا تھا کہ مرزا جی بول اٹھے۔

                حضرت اس دن آپ نے خان بہادر صاحب سے اپنی خواہش کے مطابق مانگنے کا اصرار کیا تھا اور ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ اس وقت رحمتہ اللعالمینﷺ متوجہ ہیں جو بھی مانگنا ہے مانگ لو۔

                ہاں…………ہاں…………کہا تھا…………پیر حاضر شاہ نے ایسے انداز میں جواب دیا جیسے کوئی بھولی ہوئی بات یاد آ گئی ہو۔

                میں اس سلسلہ میں وضاحت چاہوں گا…………مرزا جی نے کہا۔

                کس سلسلہ میں…………پیر حاضر شاہ نے چونک کر پوچھا۔

                یہی کہ آپ نے رحمت اللعالمینﷺ سے مانگنے کو کہا تھا۔ مرزا جی نے جواب دیا۔ جبکہ دینے والا تو صرف اور صرف ‘‘رب’’ ہے جو کہ سارے جہانوں کا مالک و مختار ہے۔

                مجھے بھلا اس سے کب انکار ہے۔ پیر حاضر شاہ نے مختصر سا جواب دیا۔

                جب سارے جہانوں کا مختار کل رب ہے تو پھر کسی اور سے مانگنے کا کیا مطلب؟…………مرزا جی نے تشریح طلب کی۔

                ہاں…………یہ بات ہے…………پیر حاضر شاہ نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔ پھر قدرے مسکرا کر بولے۔ اس بات کو مختظر طور سے اس طرح سمجھ لو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان مبارک کو بیان کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں…………خداوند قدوس کی جتنی بھی صفات انسانی شعور میں آ سکتی ہیں…………وہی تمام کی تمام صفات نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان اقدس میں آئی ہیں۔

                کیا مطلب…………مرزا جی نے اچنبھے سے پوچھا۔

                مطلب یہ…………پیر حاضر شاہ نے جواب دیا کہ اگر ‘‘رب’’ رحیم ہے تو میرا پیارا محبوب جس کا میں غلام ہوں رحمت اللعالمینﷺ ہے۔ اگر رب کریم ہے تو میرا آقا کریم العالمینﷺ ہے۔ غرض کہ جو بھی صفت رب میں ہے وہی صفت میرے آقا میں بھی ہے۔

                اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور خداوند قدوس کی ذات ایک ہوئی۔ مرزا جی نے پوچھا۔

                یہ تو اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے…………پیر حاضر شاہ نے ہنس کر جواب دیا۔ جو جس طرح چاہے حضور اکرمﷺ کی ذات کو سمجھ لے۔ لیکن…………انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت کو اٹھا کر کہا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس در سے کبھی کوئی خالی نہیں گیا۔ جس نے جو بھی مانگا مل گیا۔

                رب بھی تو اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔ مرزا جی نے سوالیہ لہجہ میں کہا۔

                ہاں…………لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ رب العالمین ہے اور اس ہی نے حضور کو رحمت اللعالمینﷺ بنایا ہے۔ پیر حاضر شاہ نے مسکرا کر جواب دیا…………پھر اس سے مانگنے کے طریقے ہیں۔ قوانین ہیں۔

                پیر صاحب! آپ کی کوئی بھی بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔

                اچھا بھئی۔ تو لو آسانی سے سمجھ لو…………پیر حاضر شاہ نے قدرے سنبھل کر کہا۔ دینے والی ذات تو صرف اللہ ہے لیکن جس طرح نماز میں اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر درود شریف کو پڑھنا ضروری قرار دیا ہے اس ہی طرح مانگنے کے طریقے ‘‘دعا’’ میں بھی درود شریف پڑھنا ضروری ہے۔ بس ظاہر ہے کہ عبادت اور دعا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے وسیلہ کے بغیر مکمل نہیں۔ تو اب…………یہ کہہ کر وہ ایک دم اپنی نشست سے اٹھے اور بید ہاتھ میں پکڑ کر گھر کی طرف جاتے ہوئے بولے۔ کوئی کیا کرے ذات الٰہی خود یہ چاہتی ہے کہ ہم حضورﷺ کے وسیلہ سے مانگیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ بھی درود و سلام پڑھتا ہے۔

                اتنا کہہ کر انہوں نے شمشو کی طرف دیکھا۔ جیسے پوچھ رہے ہوں کہ میں جھوٹ تو نہیں کہہ رہا ہوں۔ پھر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے گھر میں داخل ہو گئے۔

                خان صاحب…………کا گھر خوشیوں کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ ان کی برسوں کی تمنا آج پوری ہو گئی تھی…………اللہ کی اس عنایت پر انہوں نے شکرانہ کے نفل ادا کئے اور اپنے بچپن کے دوست دیوان موتی رام کے گھر سب سے پہلے اطلاع کرائی۔ خان صاحب کے گھر لڑکا ہونے کی خوشخبری سن کر دیوان موتی رام کو خوشی ہوئی اور حیرت بھی…………وہ جانتے تھے کہ خان بہادر پہلے ہی سے چار بیٹیوں کے باپ تھے…………لیکن جب ان کی تمنا پوری نہ ہوئی تو تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ اب ایکا ایکی خدا نے انہیں چاند سا بیٹا دے دیا تھا۔ ان کی دیرینہ خواہش پوری ہو چکی تھی۔ لیکن دیوان موتی رام کو افسوس اس بات کا تھا کہ انہوں نے اس بات کی کانوں کان کسی کو خبر تک نہ ہونے دی…………دیوان موتی رام لڑکے کی پیدائش کی خبر ملنے کے تھوڑی دیر بعد ہی ان کے گھر مبارک باد دینے اور گلے شکوے کرنے پہنچ گئے۔ خان صاحب کے گھر کے دروازہ پر فقیر اور بھانڈ کھڑے اپنا انعام وصول کر رہے تھے…………اندر سے عورتوں کے گانے بجانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ دیوان موتی رام نے انہیں مبارکباد دی۔ خان بہادر نے خوشی سے بے قابو ہو کر انہیں دو تین بار سینہ سے چمٹایا۔ دیوان موتی رام نے مبارک باد دینے کے بعد نہایت رنجیدہ خاطر ہو کر کہا۔

                میں نہ صرف آپ کو اپنا دوست سمجھتا ہوں بلکہ بھائیوں کی طرح چاہتا بھی ہوں۔ لیکن مجھے افسوس…………آئو…………آئو…………آئو خان بہادر ان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے بولے۔

                تمہارا شکوہ صحیح ہے…………لیکن میری بات بھی سنو۔

                اس کے بعد وہ دونوں ہی بیٹھک میں پہنچ کر سرکنڈوں کے بنے ہوئے مونڈھوں پر بیٹھ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی ایک ملازم اندر داخل ہوا۔ خان بہادر نے اسے چائے اور میٹھائی لانے کو کہا۔

                ملازم کے جانے کے بعد خان بہادردیوان موتی رام سے بولے…………یار…………میں جانتا تھا کہ جب تمہیں بھتیجا ہونے کی خوشخبری ملے گی تو تم ضرور مجھ سے شکورہ کرو گے کہ میں نے تم سے اس بات کا تذکرہ کیوں نہیں کیا۔

                ہاں…………یہ بات تو ہے…………دیوان موتی رام نے شکوہ سے کہا۔

                لیکن…………میں…………مجبور تھا…………خان بہادر نے جھجھکتے ہوئے جواب دیا۔

                ایسی بھی کیا مجبوری تھی…………دیوان موتی رام نے اس ہی انداز سے پوچھا۔

                یار…………مجھے پیر صاحب نے منع کر دیا تھا…………خان بہادر نے بے دھڑک کہا۔

                پیر صاحب نے منع کر دیا تھا…………دیوان موتی رام نے اچنبھے سے پوچھا۔ پھر بے تابی سے بولے تو کیا یہ سب کسی پیر کا کرشمہ ہے؟

                اور نہیں تو کیا…………خان بہادر نے ہنس کر جواب دیا۔

                ہونہہ…………دیوان موتی رام آنکھیں گھما کر بولے۔ جب ہی تو میں بھی کہوں کہ بھگوان نے اچانک ہی میرے دوست کو کیسے نواز دیا۔ پھر انہوں نے رازداری سے پوچھا۔ لیکن یہ سب کچھ ہوا کیسے؟

 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔