Topics

پنڈت کی واپسی


 

                لیکن پیر سائیں! ساوتری تو دیوانی ہے۔ خان بہادر نے ان کی بات سمجھ کر پریشانی سے کہا۔

                تمہیں کیا معلوم۔ پیر حاضر شاہ نے مسکرا کر کہا۔ دیوانی ہے تو کیا ہوا۔ وہ ہماری امانت ہے۔

                یہ کہہ کر وہ تیزی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔ خان بہادر مسجد کے صحن میں حیران و پریشان کھڑے انہیں سیڑھیاں اترتے دیکھتے رہے۔

                دیوان موتی رام کی آخری امید پیر حاضر شاہ تھے…………خان بہادر کو بھیجنے کے بعد اسے اطمینان تھا کہ ساوتری ٹھیک ہو جائے گی۔ اس نے اپنی بیوی کو بھی تسلی دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب خان صاحب کی دعا سے اور اولاد ہو سکتی ہے تو اس کا علاج بھی ہو سکتا ہے۔

                لیکن…………جب شام کو خان بہادر نے اس کے گھر پہنچ کر بتایا کہ پیر صاحب نے اس معاملہ میں معذوری ظاہر کر دی ہے تو اس کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی۔

                خان بہادر نے اپنے دوست کو صحیح بات نہیں بتائی کیونکہ پیر حاضر شاہ سے تمام عمر زبان بند رکھنے کا وعدہ کر چکے تھے۔

                بالآخر دیوان موتی رام نے یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ بھگوان نے اس کی قسمت میں پاگل بیٹی ہی لکھی تھی۔

٭×××××××××××٭

                دن یونہی گزرتے جا رہے تھے۔ ساوتری کی طرف اس کے ماں باپ نے توجہ دینا کم کر دی تھی۔ وہ ہر وقت اپنے کمرہ میں حالت استغراق میں رہتی۔ اور جب کبھی ہوش میں آتی تو ضروریات زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی خاطر باہر آ جاتی۔

                ایک دن صبح ہی صبح۔ پنڈت ہری رام جو کہ شیو بھگوان کا سب سے بڑا پجاری تھا۔ دیوان موتی رام کے دروازہ پر کھڑا دستک دے رہا تھا۔ وہ پندرہ سال بعد اس شہر میں واپس آیا تھا۔

                دیوان موتی رام نے دروازہ کھولا۔ اور جونہی اس کی نظر پنڈت پر پڑی وہ حیرت و خوشی سے گنگ ہو کر رہ گیا۔ ایسے برے وقت میں وہ پنڈت کی آمد کو اپنے لئے خوش بختی سمجھ رہا تھا…………اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے نہایت ہی خوش دلی سے کہا۔

                آپ۔ آپ مہاراج۔ آج میں اپنی قسمت پر جتنا بھی مان کروں کم ہے۔ آج تو میرے بھاگ جاگ اٹھے ہیں۔ صبح ہی صبح آپ کے درشن ہو گئے۔

                موتی رام…………پنڈت ہری رام نے اسے اپنی پاٹ دار آواز میں مخاطب کیا۔ ہم اس گھر میں خوشیوں کی چہکار اور غم کی آواز ایک ساتھ سن رہے ہیں۔

                پدھاریئے مہاراج…………پدھاریئے…………دیوان موتی رام نے خوشی خوشی استقبالیہ انداز میں کہا…………میں آپ کو سب کچھ بتاتا ہوں۔ سب کچھ۔

                ہمیں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں…………پنڈت ہری رام نے اندر قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔ پنڈت نے ایک طائرانہ نظر ڈالی اور بولا۔ میں تجھے ایسا نہیں سمجھتا تھا۔

                کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی مہاراج…………دیوان موتی رام نے ہاتھ جوڑ کر پوچھا۔

                غلطی…………وہ دھاڑا…………تو نے نہ صرف میرا بلکہ شیو بھگوان کا بھی اپمان کیا ہے۔

                شما کیجئے مہاراج…………شما کیجئے…………دیوان موتی رام اس کے قدموں قدموں پر سر رکھ کر گڑگڑایا۔ اس کی آواز سن کر موتی رام کے بیٹے اور بیوی بھی کمروں سے نکل آئے تھے۔

                شما کا وقت گزر چکا ہے۔ پنڈت ہری رام نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے غصہ سے کہا۔ اپرادھی۔ تو نے پیر حاضر شاہ کے پاس جا کر نہ صرف اپنا دھرم بھشٹ کیا ہے بلکہ شیو بھگوان کو بھی ناراض کیا ہے۔

                ہم سے غلطی ہو گئی مہاراج…………دیوان موتی رام کی دھرم پتنی نے ہاتھ جوڑ کر التجا کی۔ آپ شیو بھگوان کے مہاپرش۔

                خاموش…………پنڈت ہری رام نے اسے غصہ سے ڈانٹا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ تم سب کو اس غلطی کا کھشٹ ملے گا۔ تمہیں شیو بھگوان کا شڑاپ بھگتنا ہو گا۔ اس نے حقارت سے کہا۔ اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح پر کچھ پڑھنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی ‘‘نہیں’’ کی ایک گونجدار آواز سنائی دی۔ اس آواز پر سب نے یکبارگی پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ساوتری اپنے کمرہ کے دروازہ کے درمیان میں چوکھٹ پکڑے کھڑی تھی۔

                ساوتری پر نظر پڑتے ہی پنڈت ہری رام دم بخود ہو گیا۔ اس کی تسبیح جوں کی توں تھمی کی تھمی رہ گئی۔

                ساوتری کے حسن نے اسے حیرت زدہ کر کے رکھ دیا تھا۔

                یہ کنیا کون ہے؟ اس نے سکتہ کی سی حالت میں پوچھا۔

                میری بیٹی ہے مہاراج…………دیوان موتی رام نے زمین سے اٹھتے ہوئے بتایا۔

                میں دیکھ رہا ہوں۔ موتی رام، میں دیکھ رہا ہوں۔ وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولا۔

                کیا دیکھ رہے ہیں مہاراج۔ دیوان موتی رام نے خوفزدہ ہو کر پوچھا۔

                تیرے اپمان کا اوپائے یہی ہو سکتا ہے کہ تو اس کنیا کو شیو بھگوان کی داسی بنا دے۔

                پنڈت ہری رام نے گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے کہا۔

                جو آ گیا مہاراج۔ دیوان موتی رام نے جواب دیا…………لیکن۔لیکن یہ تو پاگل ہے۔ دیوانی ہے۔

                تو نہیں جانتا یہ کون ہے۔ پنڈت ہری رام نے معنی خیز مسکراہٹ سے کہا۔ پھر وہ اپنے گلے میں پڑے ہوئے سیاہ رنگ کے سانپ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔

                موتی رام آج سے پندرہ سال پہلے میں نے تجھے جو سندیس سنایا تھا وہ شیو بھگوان کا سندیس تھا۔ پر تو نے صبر نہ کیا اور پیر حاضر شاہ کے…………

                خبردار…………جو تو نے آگے کچھ کہا۔ ساوتری نے اسے غصہ سے ڈانٹا۔

                او ہو اتنا مان ہے اپنے گرو پر…………پنڈت ہری رام ن ے زہر خند سے کہا۔

                چل…………دور ہو یہاں سے…………ساوتری نے اسے للکارا۔

                دیوان موتی رام تیزی سے پلٹا اور ساوتری کے پاس جا کر التجا سے بولا۔

                بیٹی یہ تو کیا کہہ رہی ہے؟ یہ تو سوچ کس سے کہہ رہی ہے پھر اس نے خوشامد سے کہا یہ تو شیو بھگوان کے مہان پجاری ہیں۔ ان کی آگیا کا پالن کرنا تو اپنا دھرم ہے۔

                پتا جی…………ساوتری نے نرم لہجہ سے کہا…………اس سے کہو یہاں سے چلا جائے۔

                مورکھ۔ تیری یہ ہمت۔ یہ مجال۔ پنڈت ہری رام گرجا…………چاہوں تو ابھی تجھے نرکھ میں پہنچا دوں۔

                نہیں مہاراج نہیں۔ موتی رام وہاں سے ہی ہاتھ جوڑ کر گڑگڑایا۔

                اسے شما کر دیجئے مہاراج۔ یہ اپنے ہوش میں نہیں ہے…………ماں نے بھی ہاتھ جوڑ کر التجا کی۔

                پتا جی…………ساوتری نے اپنے باپ کو ڈانٹا…………اس کی خوشامد کرنے کی ضرورت نہیں…………یہ مٹی کا انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ ساوتری کی بات سن کر ہر شخص اس کی جانب تعجب سے دیکھنے لگا۔ کیونکہ اب وہ بالکل ہوش و حواس میں تھی۔

                اچھا…………اگر تجھے اپنی شکتی پر اتنا ہی گھمنڈ ہے تو سنبھل…………پنڈت ہری رام نے شرارت سے کہا۔ اور اپنی نگاہیں ساوتری کی نگاہوں میں گاڑ دیں۔ چند لمحے بعد۔ اس نے اپنے سر کو خفیف سے جھٹکا دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساوتری دروازہ کے درمیان لہرا کر گری۔ لیکن گرتے گرتے وہ سنبھل گئی۔ اور دوبارہ چوکھٹ پکڑ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی اس حرکت پر پنڈت ہری رام بھونچکا سا ہو کر رہ گیا۔ لیکن پھر اس کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ دوڑ گئی اور اس نے پہلے سے بھی زیادہ غور سے اس کو گھورنا شروع کر دیا۔ اس ہی وقت ساوتری اور پنڈت کے درمیان دھویں کی ایک ملگجی سی چادر تن گئی۔ پنڈت ہری رام نے گھبرا کر ہتھیلیوں سے اپنی آنکھوں کو مسلا۔ پھر جب دھوئیں کی چادر چھٹ گئی تو ساوتری کے سامنے شمشو کھڑا تھا۔

٭×××××××××××٭

                شمشو اس وقت اچانک ہی آدھمکا تھا۔ اس کی پیٹھ ساوتری کی طرف تھی اور وہ سوائے ساوتری اور پنڈت ہری رام کے کسی اور کو نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی ساوتری نے دو تین بار اس طرح پلکیں جھپکائیں جیسے اسے پہچان رہی ہو۔

                تو کون ہے؟…………پنڈت نے پوچھا۔

                شمشو…………شمشو نے اطمینان سے جواب دیا۔

                یہاں کیوں آیا ہے؟ پنڈت نے ڈانٹ کر پوچھا۔

                تو کیوں آیا ہے؟…………شمشو نے الٹا اس سے پوچھ لیا۔

                ہونہہ…………تو یہ بات ہے۔ پنڈت نے سوچ کر کہا۔ گرو نے چیلے کو بھیجا ہے۔ پھر وہ موتی رام سے بڑے ہی فخر سے مخاطب ہوا۔ دیکھا تو نے اس کے پیر میں اتنی ہمت نہیں کہ میرا سامنا کر سکے۔

                خاموش…………شمشو دھاڑا۔ خبردار! جو میرے پیر و مرشد کو کچھ کہا۔ وہ اس وقت یہاں نہیں ہیں۔

                یہ سن کر پنڈت ہری رام نے بے ساختہ قہقہہ لگا کر کہا۔ دیکھ لیا تو نے۔ کون ہے جو شیو بھگوان کے پجاری کے سامنے ٹھہر سکے۔

                اپنی زبان کو لگام دے گستاخ…………شمشو گرجا۔ ورنہ ابھی تجھے مزہ چکھا دوں گا۔

                اوہو۔ تو مجھے مزہ چکھائے گا۔ پنڈت نے تمسخر سے کہا اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی مالا کو اونچا کر کے اس کی طرف جھٹکا دیا۔ مالا سے برقی شعاعیں نکلیں اور اس کی طرف لپکیں۔ شمشو نے فوراً ہی پلٹ کر ساوتری کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور خود کو بھی ان کی زد سے بچایا۔ اس کے بعد اس نے پنڈت کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اس کا ہاتھ لمبا ہوتا چلا گیا اور پھر اس نے پنڈت ہری رام کی کلائی پکڑ کر مروڑ دی۔

                بڑی شکتی ہے تجھ میں۔ پنڈت ہری رام نے دانت پیس کر کہا۔ پھر اس نے گلے میں پڑے ہوئے سیاہ رنگ کے سانپ کو زمین پر ڈالتے ہوئے کہا۔ لے اس سے بچ کر بتا۔

                سانپ نے زمین پر آتے ہی اوپر کو اٹھنا شروع کر دیا۔ اور فوراً ہی دم کے سہارے کھڑا ہو گیا۔ اس کی دو شاخہ زبان سے شعلے سے نکل رہے تھے۔ اس نے شمشو کے چہرہ کو ڈسنے کی خاطر پھن کو آگے بڑھایا۔

                شمشو نے اپنی گول گول سرخ آنکھیں اس کی نگاہوں میں جما دیں۔ پھر اس کی آنکھوں سے نہایت ہی باریک سرخ رنگ کی رو نکلی اور سانپ کی آنکھوں میں سرایت کر گئیں۔ سانپ تڑپ کر نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ پنڈت ہری رام نے ہاتھ بڑھا کر سانپ کو پکڑا۔ اور اس کا پھن دیکھ کر غصہ سے بولا۔ مورکھ…………تو نے اسے اندھا کر دیا۔ لیکن اب تو نہیں بچ سکے گا۔

                یہ کہہ کر اس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے سانپ کو شمشو کی طرف اچھال دیا۔ اس سے پہلے کہ سانپ اس تک پہنچتا۔ شمشو نے اپنے دونوں ہاتھوں کو لمبا کیا اور فضا میں سانپ کو پکڑ کر دو ٹکڑے کر دیا۔ یہ دیکھ کر پنڈت ہری رام کے اوسان خطا ہو گئے اور اس نے نہایت ہی پریشانی سے پوچھا۔

                آخر تو ہے کون؟

                اپنے پیر و مرشد کا خادم ہوں۔ شمشو نے اطمینان سے جواب دیا۔

                نہیں…………نہیں۔ تو ان کا بیر(موکل) ہے…………پنڈت ہری رام نے گھبرا کر کہا۔ میری شکتی کا مقابلہ کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ پھر وہ تکبر سے بولا۔ خیر اس وقت تو میں جا رہا ہوں لیکن یاد رکھنا میں نے ہار کبھی نہیں مانی۔ کبھی نہیں۔ اس کے بعد وہ فوراً ہی مڑا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی ساوتری تعجب سے بولی:

                ‘‘تم…………تم…………یہاں؟’’

                پھر اس نے شمشو کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ تمہارے تو دو سنہری پر تھے۔ تم تو مجھے سپنوں میں اڑا کر لے جاتے تھے۔ کہیں…………کہیں میں سپنا تو نہیں دیکھ رہی ہوں۔

                یہ سپنا نہیں۔ حقیقت تھی بیٹی۔ اس کی ماں نے آگے بڑھ کر مخاطب کیا۔ وہ شیو بھگوان کے پجاری تھے اور اب واپس چلے گئے ہیں۔ گھر میں موجود دوسرے لوگوں کو کیونکہ شمشو نظر نہیں آ رہا تھا۔ لہٰذا اس کی ماں یہی سمجھی کہ ساوتری پنڈت کے بارے میں کہہ رہی ہے۔

                شمشو نے اسے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور نہایت ہی آہستگی سے بولا۔

                تم گھبرانا نہیں۔ جب تک پیر و مرشد واپس نہیں آ جاتے تمہاری حفاظت کرنا میرا فرض ہے۔

                پیر و مرشد…………کون پیر و مرشد…………ساوتری نے تعجب سے پوچھا۔ لیکن شمشو اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے باہر نکل گیا۔

٭×××××××××××٭

                پنڈت ہری رام شمشو سے شکست کھانے کے بعد سیدھا اپنے مندر پہنچا تھا۔ اپنے گرو کو اچانک سامنے دیکھ کر مندر کے چھوٹے بڑے پجاریوں اور دیو داسیوں نے اس کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ وہ سب اس کے آجانے سے خوش تھے لیکن وہ ان سب سے بے نیاز کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا اپنے مخصوص کمرہ میں پہنچ گیا۔ اس کا یہ کمرہ شیو بھگوان کی مورتی کے عین نیچے واقع تھا۔ جس طرح تہہ خانہ ہوتا ہے اور اسی کمرہ میں اس نے سورگ بارش ہونے والے مہان پجاری کے ساتھ سخت ریاضت کی تھی…………اور اب وہ اس دھرتی پر شیو بھگوان کی عظیم طاقتوں کی نشانی تھا۔ اسے جب سے یہ اعزاز حاصل ہوا تھا فخر و غرور سے اس کی گردن تنی رہتی تھی۔ وہ بے جا کسی کو تنگ نہیں کرتا تھا۔ ہر شخص کی خواہ وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو ضرورت پوری کر دیا کرتا تھا۔ اسے کبھی کسی سے جلن، حسد یا نفرت نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے لوگ اسے پیار کرتے تھے۔ پریم کرتے تھے لیکن…………اس سے خوفزدہ بھی رہتے تھے وہ ضدی اور ہٹ کا پکا تھا جو بات بھی زبان سے کہہ دیتا وہ پوری نہ ہوہوتی تو اسے اپنی سخت توہین سمجھتا۔ اور پھر…………اس کی تکمیل کی خاطر ماورائی و غیر ماورائی، جائز و ناجائز تمام حربے استعمال کرتا۔

                پندرہ برس پہلے جب وہ اس مندر میں شیو بھگوان کا داس بننے کی تربیت حاصل کر رہا تھا تو بھی لوگ اس کے پاس آیا کرتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ وہ گوشہ نشین ہوتا چلا گیا اور کسی کو پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں چلا گیا۔ کہاں ہے۔

                لیکن اب ایکا ایکی اس کے مندر میں آ جانے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور اس کے معتقد اس کے درشن کو آنے لگے۔

٭×××××××××××٭

                پنڈت ہری رام کو اس کائنات میں جاری و ساری مکافات عمل میں دخل حاصل تھا یا نہیں یہ اندازہ تو اس کی ذات کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات سے ہی لگایا جا سکے گا۔ لیکن اس نے دیوان موتی رام کی پوری جنم کنڈلی دیکھ کر یہ کہا تھا کہ اس کے بھاگ میں اولاد نہیں ہے اور پھر…………جب اس نے بستی میں قدم رکھا تو وہ یہ جان کر حیران رہ گیا کہ دیوان موتی رام صاحب اولاد ہو چکا ہے۔ اس کی پیشنگوئی پہلی بار غلط ثابت ہوئی تھی۔ وہ پردہ غیب کے اس راز کو جاننے کی خاطر سیدھا دیوان موتی رام کے گھر پہنچ گیا تھا۔ جہاں اس کا سامنا ساوتری سے ہو گیا۔ ساوتری کو دیکھتے ہی اس کی نظروں سے پردہ ہٹ گیا۔ وہ جان گیا کہ یہ اللہ کے ایک نہایت برگزیدہ بندہ کی دعائوں کا نتیجہ ہے۔ جذب و کشف کے ذریعہ اس نے ساوتری کی شخصیت کو جانچ لیا تھا۔‘‘ساوتری’’ جو کہ بظاہر دیوانی نظر آتی تھی صاحب کرامت تھی اور ابھی اس سلسلہ میں مزید تربیت حاصل کر رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ پنڈت ہری رام نے اسے شیو بھگوان کی داسی بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لیکن کوئی فیصلہ ہونے سے قبل ہی نجانے شمشو اچانک کہاں سے آ گیا تھا۔ اس نے نہ صرف ساوتری کو پنڈت کے غیض و غضب سے بچا لیا تھا بلکہ اسے وقتی طور پر شکست بھی دے دی تھی۔

                پنڈت ہری رام کے دل میں شکست سے آتش انتقام بھڑک اٹھی تھی۔ لیکن اس وقت اس نے سمجھ سے کام لیا اور خاموشی سے اپنے پرانے ٹھکانے پر لوٹ آیا۔

٭×××××××××××٭

                اس واقعہ کے کوئی بیس پچیس دن بعد جبکہ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ چاروں جانب ہولناک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ پنڈت ہری رام شیو بھگوان کے چرنوں میں مرگ چالے پر بیٹھا کوئی منتر پڑھ رہا تھا۔ اس کے سامنے پیتل کی تھالی میں صندل کی لکڑیاں سلگ رہی تھیں۔ وہ وقفہ وقفہ سے آگ میں لوبان ڈالتا جا رہا تھا، لکڑیاں جل کر کوئلہ اور کوئلے سے راکھ بنتی جا رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد اس نے تھال کے کناروں سے راکھ کو سمیٹا اور مٹھی میں بھر کر اس پر پھونکا۔ پھر اس نے چھوٹی سی کھڑکی کے رخ اپنا منہ کیا اور مٹھی کھول دی۔ اور راکھ فضا میں بکھر گئی۔ لیکن وہ زمین پر گری نہیں۔ بلکہ ایک محدود دائرہ میں جمع ہو کر اوپر کو اٹھی اور کھڑکی سے باہر نکل گئی۔ راکھ کے باہر نکلتے ہی پنڈت ہری رام نے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لئے اور آنکھیں بند کر لیں۔

٭×××××××××××٭

                ساوتری بے خبر اپنے کمرہ میں سو رہی تھی۔ راکھ کا ایک چھوٹا سا بادل روشن دان کے ذریعہ کمرہ میں داخل ہوا اور اس کے پلنگ کے چاروں جانب ایک چکر لگا کر اس کی پائنتی کی جانب گیا پھر راکھ کے ڈھیر نے آہستہ آہستہ ایک ہیولے کی شکل اختیار کر لی…………اب وہاں ایک تندرست و توانا برہنہ عورت کھڑی تھی۔ اس کا سر گائے کا تھا اور دو بڑ ے بڑے نوکیلے سینگ آگے کی جانب نکلے ہوئے تھے۔ اس ہی لمحہ شمشو کمرہ میں اس طرح داخل ہوا جیسے ہوا میں اڑتا ہوا آیا ہو۔

                کون ہے تو؟…………شمشو نے غصہ سے پوچھا۔

                ‘‘گائو ماتا۔ اس نے جواب دیا۔ اور ساتھ ہی گردن کو اس طرح جھکایا جیسے ساوتری کے پلنگ کو سینگوں کے ذریعہ اٹھانا چاہتی ہو۔ لیکن شمشو غافل نہیں تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو۔ شمشو بجلی کی طرح جھپٹا اور اس کی گردن دبوچ لی۔

                چھوڑ دے، مجھے چھوڑ دے…………کمرہ میں گائے کے ڈکارنے کی آواز سنائی دی۔

                لیکن شمشو نے بڑی مضبوطی سے دونوں سینگ پکڑ رکھے تھے۔ گائو ماتا نے آہستہ آہستہ اپنے سر کو اوپر اٹھانا شروع کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شمشو کی قوت دبائو ختم ہوتی جا رہی ہے لیکن سینگوں پر اس کی گرفت مضبوط تھی۔ گائو ماتا نے اپنے سینگوں کو اس کی گرفت سے آزاد کرنے کی خاطر سر کو زور زور سے جھٹکے دینے شروع کر دیئے۔

                اس ہی وقت ساوتری جاگ اٹھی اور اس عجیب الخلقت عورت کو دیکھتے ہی اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ چیخ کے ساتھ ہی شمشو نے اس کی طرف دیکھا۔ نتیجہ میں سینگ اس کے ہاتھوں سے نکل گئے اور وہ لڑکھڑاتا ہوا ایک دیوار سے جا ٹکرایا۔

                گائو ماتا نے خونخوار نظروں سے شمشو کی طرف دیکھا اور پھر سر جھکا کر آگے بڑھی جیسے وہ ساوتری کو اٹھانا چاہتی ہو۔ لیکن اب…………ساوتری میں غیر معمولی تبدیلی آ چکی تھی…………وہ خوفزدہ ہونے کی بجائے نہایت ہی شعلہ بار نگاہوں سے اسے گھور رہی تھی۔ گائو ماتا اپنی جگہ ٹھٹھک کر رہ گئی تھی۔ اور اس ہی وقت شمشو نے موقع کو غنیمت جان کر اپنے دونوں ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیئے…………اور دوسرے ہی لمحہ گائو ماتا کے دونوں سینگ پھر اس کے ہاتھوں میں آگئے۔

                اب گائو ماتا کی پوری توجہ شمشو کی طرف تھی۔ لیکن اس مرتبہ شمشو کی گرفت پہلے سے بھی زیادہ سخت تھی اور اس میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ دونوں میں زبردست قوت آزمائی شروع ہو چکی تھی۔ ساوتری کے بھی ہونٹ ہل رہے تھے جیسے وہ کچھ پڑھ رہی ہو…………پھر اس نے گائو ماتا کی طرف پھونک ماری اور ساتھ ہی شمشو نے بھی سینگ پکڑے پکڑے اس کی گردن مروڑ دی۔ کمرہ میں ایک زوردار آواز سنائی دی جیسے بہت سی گائیں ایک ساتھ ڈکاری ہوں۔

                ادھر شیو بھگوان کے مندر میں مرگ چھالے پر بیٹھے ہوئے پنڈت ہری رام نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں اور بے چینی سے مندر کی کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد ہی راکھ کا بادل اندر داخل ہوا۔ اس میں سے کسی کے کراہنے کی درد ناک آواز نکل رہی تھی۔

                پنڈت ہری رام نے منتر پڑھ کر راکھ کے بادل کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔ بادل اس کی آنکھوں کے سامنے فضا میں ٹھہر گیا۔ پھر اس نے گائو ماتا کے ہیولہ کی شکل اختیار کر لی۔ اب اس کے سر پر سینگ نہیں تھے۔ پھر وہ نسوانی ہیولی فضا میں دھوئیں کی ایک باریک سی لکیر بن کر اس کے سامنے رکھی ہوئی تھالی میں بیٹھتا چلا گیا۔

٭×××××××××××٭

                گائو ماتا…………پنڈت ہری رام کی ایک نہایت ہی طاقت ور بیر(موکل) تھی۔ اور اس وقت اس نے اس موکل کے ذریعہ ‘‘ساوتری’’ کو اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے وہم گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ شمشو ایسے وقت میں بھی ساوتری کو بچانے آ جائے گا۔

                اس نے نہ صرف ساوتری کو بچا لیا تھا بلکہ اس کے موکل کو بھی زخمی کر دیا تھا۔

                گائو ماتا…………قدیم آریائوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اس زمین کو گائے نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا کر رکھا ہے اور جب وہ اپنا سینگ بدلتی ہے تو زمین میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے زلزلے وغیرہ آتے ہیں۔ وہ لوگ اس کی جبلی فطرت کو دیکھتے ہوئے حیات کا سرچشمہ سمجھتے تھے اور بطور چھوٹے بھگوان کے پوجتے بھی تھے۔

                شیو بھگوان نے اسی ماورائی ہستی کو پنڈت ہری رام کی تحویل میں دے دیا تھا۔ اور اس نے اس سے کئی کام لئے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جبکہ شیو بھگوان کی عطا کی ہوئی اس غیر معمولی (بیر) کو شکست ہوئی تھی اور اس شکست کا باعث شمشو تھا۔

                شمشو…………شمشو…………شمشو…………یہ لفظ یہ نام یہ شخص۔ پنڈت ہری رام کے ذہن میں چپک کر رہ گیا تھا۔ اب اس نے پہلے ساوتری کے بجائے شمشو سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا۔

٭×××××××××××٭

                پیر حاضر شاہ کو غائب ہوئے ایک ماہ ہو چلا تھا۔ یہ واقعات ان کی غیر موجودگی میں پیش آ رہے تھے۔ وہ اچانک ہی نجانے کہاں چلے گئے تھے۔ پیپل کے نیچے ان کی نشست گاہ خالی تھی۔ ان سے محبت کرنے والوں اور ان کی محفل میں بیٹھنے والوں نے ایک دو دن تو انتظار کیا۔ پھر انہوں نے کئی بار شمشو سے معلوم کرنا چاہا۔ شمشو ان لوگوں سے نہایت ہی شیریں لہجہ میں کہتا…………آ جائینگے۔ جلدی آ جائینگے۔

                اور جب لوگ یہ پوچھتے کہ وہ کہاں گئے ہیں؟ تو شمشو نہایت ہی بے رخی سے کہتا۔ مجھے کیا معلوم…………لوگ ان کا انتظار کرتے رہے۔ وہ صبح یا شام شمشو سے ان کے بارے میں گاہے بگاہے پوچھ لیا کرتے تھے پھر جوں جوں ان کی غیر حاضری کے دن بڑھتے چلے گئے۔ لوگوں میں انتظار کی شدت کم ہوتی چلی گئی اور پھر…………ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لوگوں نے شمشو سے ان کے بارے میں پوچھنا ہی چھوڑ دیا۔

                لیکن نجانے کیوں خان بہادر کو ان کی جستجو تھی، تلاش تھی۔ وہ اس بات سے پریشان تھے کہ پیر حاضر شاہ اچانک کہاں چلے گئے؟ اس کی وجہ کیا تھی؟…………وہ کونسی ایسی جگہ گئے تھے کہ شمشو کو بھی نہیں معلوم؟ یا پھر شمشو اس بارے میں کچھ بتانا نہیں چاہتا؟ پیر حاضر شاہ کا غائب ہو جانا ان کے لئے ذہنی کرب بن گیا تھا۔

 

 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔