Topics

پر اسرار عورت


 

                اختر نے سوچا کہ بھائی جان پھر تکلفات میں پڑتے جا رہے ہیں لہٰذا بات کا رخ موڑ کر بولا…………اب جبکہ میں نے آپ کو اپنے فیصلہ سے آگاہ کر دیا ہے…………کیا آپ مجھے اپنے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے۔

                کیوں نہیں…………کیوں نہیں…………انہوں نے چائے کا گھونٹ لے کر کہا…………اور پھر خلاء میں اس طرح دیکھنے لگے جیسے کچھ کہنے سے پہلے سوچ رہے ہوں…………اختر نے انہیں سوچ میں گم دیکھا تو نہایت ہی انکساری سے بولا…………مجھے یہ معلوم کرنے کا حق تو نہیں ہے…………لیکن گفتگو کے دوران چند باتیں ایسی بھی ہوئی ہیں جنہیں سمجھنے کی خاطر میں نے آپ کے حالات زندگی کا پس منظر بیان کرنے کو کہا ہے…………مثلاً موت کا فرشتہ جو کہ مادی شکل میں آپ کے سامنے آتا ہے…………یا وہ وجوہات جن کی بنا پر آپ سے خاندان والے دور رہے…………ویسے اگر آپ…………یہ سب کچھ بتانا مناسب نہیں سمجھتے ہیں تو میں اصرار نہیں کروں گا۔

                نہیں بھئی نہیں…………انہوں نے ہنس کر کہا…………بات یہ نہیں ہے۔ اب تو تمہیں سب کچھ معلوم کرنے کا حق ہے دراصل میں یہ سوچ رہا تھا کہ اپنے ماضی کا آغاز کہاں سے کروں۔

                کہیں سے بھی کر دیجئے…………اختر نے پلیٹ میں سے بسکٹ اٹھاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

                اچھا تو پھر…………انہوں نے اپنے دونوں پائوں سمیٹ کر بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔

٭×××××××××××٭

                یہ آج سے تیس ۰۳ بتیس ۲۳ برس بیشتر کی بات ہے جبکہ میرے والد اور تمہارے والد ایک ساتھ اس ہی شہر میں رہا کرتے تھے…………اس ہی شہر کے اطراف میں سینکڑوں ایکڑ زمین ہمارے دادا کی تھی۔ آسمان سے دولت برستی تھی…………پھر تمہارے والد صاحب کی شادی کے موقع پر آگرہ سے ایک مشہور طوائف کو بلایا گیا۔ اس طوائف کی ایک نہایت ہی حسین و جمیل بیٹی بھی تھی اس کا نام سانولی تھا…………وہ حسین ہونے کے ساتھ ساتھ غضب کی رقاصہ تھی…………میرے والد نے اسے دیکھا اور دل و جان سے اسے چاہنے لگے…………شادی کے ہنگاموں میں کسی کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ حسن انہیں گھائل کر گیا ہے۔

                ہمیں جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہے یہ حسن ہی تو ہے…………چچازاد بھائی نے فلسفیانہ انداز میں کہا…………اور سب سے منفرد حسن…………عورت کا حسن ہے…………پھر انہوں نے قدرے مسکرا کر کہا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کو اپنی صفت حسن سے بے پناہ نوازا ہے اور یہی عورت کا ہتھیار ہے جس کے سامنے بڑے سے بڑا سرکش مرد بھی سرنگوں ہو جاتا ہے۔

                اس کے بعد انہوں نے دوبارہ اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے کہا…………میرے باپ کی ڈھلتی جوانی تھی…………لیکن ابھی تک وہ اولاد سے محروم تھے…………جبکہ سانولی کی چڑھتی جوانی تھی…………جب سانولی کی ماں نے دیکھا کہ ایک بڑے جاگیردارکا بیٹا اس کی بیٹی کے حسن کا اسیر ہو چکا ہے تو اس نے منہ مانگی قیمت مانگی جو کہ والدصاحب نے دے دی لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں اس عشق کی دوسری بھاری قیمت ادا کرنی پڑی…………سانولی سے نکاح کرتے ہی انہیں خاندان والوں نے لعن طعن کرنا شروع کر دی اور پھر متفقہ طور سے فیصلہ کیا گیا نہ صرف انہیں خاندان سے جدا کر دیا جائے بلکہ ان کی اولاد سے بھی تعلق ختم کر دیا جائے۔    

                 میرے والد کئی سالوں تک اس فرسودہ اور انسانیت سوز قانون کے خلاف لڑتے رہے لیکن کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور جب میرے باپ یعنی دادا مرنے لگے۔ تو انہوں نے شفقت پدری سے مجبور ہو کر میرے باپ کو اپنے پاس بلایا اور کہا…………بیٹا تُو دنیا والوں اور خاندانی رسم و رواج کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ بہتر یہ ہے کہ تو کسی گمنام شہر میں چلا جا…………جہاں تجھے کوئی نہیں جانتا ہو۔ تا کہ تو سکون سے زندگی بسر کر سکے اور اپنے بچوں کا بہتر مستقبل بنا سکے۔ میرے باپ نے اپنے باپ کی بات کو غور سے سنا اور اس پر عمل کرتے ہوئے لکھنؤ چلے گئے۔ چلتے وقت میرے دادا نے انہیں اتنی رقم دے دی کہ لکھنؤ شہر میں آ کر فوجی جوتے بنانے کا کارخانہ کھول لیا اور رہائش کے لئے کسی نواب کی بڑی سی حویلی خرید لی۔

                اس کے بعد…………چچازاد بھائی نے تھوڑا سا رک کر ایک ٹھنڈی سانس بھری اور دوبارہ بولے۔

                اس کے بعد…………جب میں قدرے جوان ہوا تو والد صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ عمارت کسی بہت بڑے نواب نے بنوائی تھی۔ لیکن اس نواب کو اس محل نما عمارت میں رہنا نصیب نہ ہوا۔ ۷۵۸۱؁ء کی تحریک آزادی نے اسے نگل لیا اور انگریزوں نے یہ عمارت ایک ہندو کے ہاتھ فروخت کر دی تھی۔ جس نے اسے ‘‘دھرم شالہ’’ بنا دیا تھا…………لیکن پھر…………گردش زمانہ کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس ہندو نے بھی اس عمارت کو ایک پارسی سیٹھ کے ہاتھوں بیچ ڈالا…………وہ پارسی بمبئی میں رہا کرتا تھا…………اور کبھی کبھی لکھنؤ کے محرم دیکھنے کی خاطر آتا تھا پھر اس پارسی کا دل بھی اس عمارت سے بھر گیا اور اس طرح یہ عمارت مختلف لوگوں کے ہاتھوں فروخت ہوتی ہوئی بالآخر میرے باپ کے پاس آ گئی۔

                عجیب عمارت تھی یہ…………اختر نے ہنس کر کہا۔

                بڑی ہی خوبصورت اور بڑی ہی دلکش عمارت تھی…………چچازاد نے اپنے خیالات میں مگن کہا…………وہ عمارت بہت اونچی جگہ پر بنائی گئی تھی…………اور…………زرد رنگ کے ستون بہت خوبصورت لگتے تھے۔ عمارت کے صدر دروازہ پر دونوں طرف سنگ سرخ کے دو شیر بنے ہوئے تھے۔ جن کے منہ خوفناک انداز میں کھلے ہوئے تھے۔ اس کے دروازے مضبوط اور وزنی لکڑی کے تھے جو کہ باہر کی جانب نوکدار میخوں سے بھرے ہوئے تھے…………ان دروازوں کو جب کھولا جاتا تھا تو ان میں سے ایک طرح کی خاص آواز پیدا ہوتی تھی…………جیسے بہت سی روحیں ایک ساتھ چیخ رہی ہوں…………اس عمارت کے بالائی حصہ میں دو کمرے تھے۔ وہ دونوں کمرے مکان کے انتہائی کناروں پر بنائے گئے تھے اور ان میں پہنچنے کے لئے علیحدہ علیحدہ دو زینے تھے لیکن اوپر کی جانب ایک طویل راہداری بھی ان دونوں کو ملاتی تھی اور اس راہداری کے دونوں جانب محرام بنے ہوئے تھے…………نیچے کے حصہ میں یوں تو کئی کمرے تھے لیکن میں اور میری بہن قریب کے دو الگ الگ کمروں میں رہا کرتے تھے۔ اس عمارت سے ذرا ہٹ کر چاروں جانب اینٹوں کی ایک چھوٹی سی فصیل تھی۔ جس کے ساتھ مالی ڈرائیور اور باورچی وغیرہ کے کوارٹر بنے ہوئے تھے۔

                اس کا مطلب ہے کہ عمارت خوبصورت اور کشادہ تھی…………اختر نے کہا۔

                ہاں…………وہ عمارت ایسی ہی تھی…………اس عمارت کے چاروں جانب سبزہ ہی سبزہ تھا۔ اور اس کے درمیان میں سفید پتھروں کا ایک بڑا سا حوض تھا…………اکثر سورج ڈھلے میرے ماں باپ اس حوض میں نہایا کرتے تھے…………کبھی کبھی میرے ابا پانی کے اندر ڈبکی لگا کر نیچے سے ماں کا پائوں پکڑ کر کھینچ لیا کرتے تھے اور وہ خوفزدہ ہو کر چیخنے لگتی تھیں۔ پھر مسکرا کر کہا…………وہ دونوں اکثر حوض میں نہاتے ہوئے ایک دوسرے کے اتنے قریب آ جاتے تھے کہ میں گھبرا کر وہاں سے بھاگ آتا تھا۔

                ہم دونوں بہن بھائی باغ میں تتلیوں کے پیچھے دوڑتے پھرتے اور کبھی کبھی صدر دروازہ پر بھی پہنچ جاتے۔ یہاں چوکیدار کے پہرہ دینے کی جگہ تھی۔ یہ لکڑی کی مضبوط تختوں سے ایک پنجرہ نما برجی سی بنی ہوئی تھی…………اور اس میں صرف ایک آدمی کے کھڑے ہونے کی جگہ تھی…………دروازہ بند کرنے کے بعد پہرہ دار صرف اوپر کے کھلے ہوئے حصہ سے باہر دیکھ سکتا تھا۔

                اختر جو بڑے ہی انہماک سے سن رہا تھا۔ قدرے رشک سے بولا۔

                آپ نے عمارت کا نقشہ کچھ ایسا بیان کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نہایت ہی پرسکون زندگی بسر کر رہے تھے۔ اگر سکون سے تمہاری مراد دولت ہے تو بے شک میں نے پر آسائش زندگی گزاری ہے…………چچازاد نے سنجیدگی سے کہا…………لیکن…………اگر تم دل و دماغ کے سکون کی بات کرتے ہو تو یہ مجھے اس عمارت میں کبھی نصیب نہیں ہوا۔

                وہ کیوں؟…………اختر نے اچنبھے سے پوچھا۔

                اس عمارت کے بارے میں اتنی تفصیل سے بتانے کا مقصد یہی ہے کہ تم تمام جزئیات کو اچھی طرح سے سمجھتے جائو…………چچازاد نے ٹھہرے ہوئے لہجہ میں کہا…………جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ ہم دونوں بہن بھائی اس عمارت کے زیرین حصہ میں رہا کرتے تھے…………اور میں اپنے کمرہ میں موجود تصویروں، کتابوں اور دیواروں پر کنندہ نقش و نگار سے مانوس تھا…………یہ میری تنہائی کے ساتھی تھے اور میں تنہائی کے احساس کے ساتھ جوان ہوا۔

                تو کیا ماں باپ آپ سے نہیں ملتے تھے…………اختر نے قدرے تعجب سے پوچھا۔

                ہاں…………انہوں نے اپنے الفاظ پر زور دے کر کہا…………کیونکہ وہ اس عمارت کی بالائی منزل میں رہا کرتے تھے اور اپنی پیار بھری زندگی میں بچوں کا دخل پسند نہیں کرتے تھے۔ مجھے اور میری بہن کو اوپر ان کے کمروں میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ البتہ سونے سے پیشتر وہ دونوں ہمارے کمروں کا چکر لگا لیا کرتے تھے۔

                کمال ہے…………اختر نے حیرت سے کہا۔ اس کا مطلب ہے آپ کو بچپن ہی سے ماں باپ کا پیار نہیں ملا۔

                ہاں…………چچازاد نے تائید کی…………ماں کے پیار اور باپ کی شفقت سے ہم دونوں بہن بھائی شروع ہی سے محروم رہے…………اور جب ہم دونوں نے جوانی کی حدود کو چھوا تو تنہائی کے احساس کے ساتھ…………محبت کا وہ جذبہ جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اولاد کے لئے ماں باپ کی رگ رگ میں جاری کر رکھا ہے۔ ہم اس سے تشنہ رہے…………              

                انہوں نے آخری جملہ سوالیہ انداز میں کہا۔ جیسے اختر سے اس کا جواب چاہتے ہوں…………اختر کیا جواب دیتا۔ اس نے گردن جھکا لی۔

                چچازاد بھائی نے کھانس کر گلا صاف کیا اور اپنی کمر سے لگے ہوئے تکیہ کو دوست کرتے ہوئے بولے۔ پھر ایک دن…………میرے باپ کے ساتھ وہی پارسی سیٹھ آیا جس کے پاس پہلے یہ عمارت تھی…………دراصل وہ بمبئی میں فلمیں بنایا کرتا تھا اور اسے اپنی ایک فلم کیلئے اس عمارت کے چند مناظر کی ضرورت تھی…………میرے ماں باپ نے اسے سین فلمانے کی اجازت دے دی…………وہ سیٹھ میری ماں کے حسن سے بھی متاثر ہوا۔ اور اس نے میری ماں کو بمبئی آ کر فلموں میں کام کرنے کی دعوت دی۔

                تو پھر آپ کی اماں نے فلموں میں کام کیا؟…………اختر نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

                نہیں…………میرے باپ نے انہیں اجازت نہیں دی…………حالانکہ اس زمانے میں فلموں میں کام کرنا خوش قسمتی سمجھا جاتا تھا۔

                پھر بھی آپ کے والد صاحب نے اجازت نہیں دی…………اختر نے پوچھا۔

                چچازاد نے بتایا…………اس زمانے میں طوائفیں ہی فلموں میں کام کرتی تھیں۔ میرا باپ جانتا تھا کہ اگر اس کی بیوی نے فلموں میں کام کیا تو یہ اس کے طوائف ہونے کی ایسی تصدیق ہو گی جس کی تردید وہ کبھی بھی نہیں کر سکیں گے۔

                بات تو ٹھیک ہی تھی۔ اختر نے کہا۔

                والد نے…………اپنی بیگم کو سمجھایا کہ ان کے پاس بے انتہا دولت ہے اور انہیں فلموں میں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے…………چچازاد نے خلاء میں دیکھتے ہوئے کہا…………لیکن میری اماں کو دولت سے زیادہ شہرت کی تمنا تھی…………وہ چاہتی تھیں کہ لوگ انہیں دیکھیں…………ان کے حسن کی تعریف کریں اور ان کے آگے پیچھے اپنی آنکھیں بچھا دیں…………وہ اس گھریلو زندگی سے اکتا چکی تھیں۔ لیکن والد بھی اپنے فیصلہ پر قائم تھے۔ انہوں نے بتا دیا تھا کہ اگر وہ فلموں میں کام کرے گی تو اسے طلاق دے دیں گے اور اماں کو بچوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔

                پھر…………اختر نے بے تابی سے پوچھا۔

                پھر…………پھر بھی میری ماں کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آئی…………چچازاد نے بتایا…………وہ اپنی خواہش کی تکمیل کی خاطر باپ سے جھگڑا کرنے لگی اور جب بھی وہ باپ سے جھگڑا کرتی تھیں روتی ہوئی میرے پاس آتی تھیں اور کہتی تھیں تمہارا باپ اس لائق نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص اس کے لئے اپنی زندگی خراب کرے…………تمہیں بڑا ہو کر بہت کچھ بننا ہے۔ اپنے باپ کی زیادہ پرواہ مت کیا کرو۔ کیونکہ وہ دوسروں کی پرواہ نہیں کرتے۔

                میرے باپ زیادہ گفتگو نہیں کرتے تھے…………چچازاد نے اپنا دائیاں ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر کہا…………وہ ہر روز صبح سویرے کارخانے چلے جاتے اور رات کو دیر سے گھر لوٹتے…………میں کار کے آنے اور بڑا دروازہ کھلنے کی آواز سن لیا کرتا تھا پھر میرے باپ زینہ سے چڑھ کر اپنے کمرہ میں جاتے تو بھی میں زینہ چڑھنے کی آواز سن لیا کرتا تھا…………میں جانتا تھا کہ میری ماں میرے باپ کا انتظار نہیں کرتی ہے اور رات کا کھانا اسے باورچی کھلاتا ہے۔

                یعنی…………آپ کے ماں باپ کے درمیان تلخی شروع ہو گئی تھی…………اختر نے پوچھا۔

                تلخی نہیں…………بلکہ محاذ آرائی شروع ہو گئی تھی…………چچازاد نے جواب دیا…………کیونکہ میرے والد بھی ہفتہ میں ایک دو بار مجھے اور عذرا کو اپنے کمرہ میں بلا لیا کرتے تھے۔ ہم دونوں جب بھی ان کے کمرہ میں داخل ہوتے تھے تو سگریٹ اور شراب کی بو پھیلی ہوتی تھی…………اور میرے باپ نواڑ کی بنی ہوئی آرام دہ کرسی پر نیم دراز لیٹے ہوتے تھے…………وہ مجھ سے کہتے تھے کہ دیکھو بیٹا خوب دل لگا کر پڑھو…………تمہیں بڑا آدمی بننا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ تم زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرو گے…………میرا مقصد تمہیں دولت کے لحاظ سے بڑا نہیں بنانا ہے بلکہ تعلیم کے لحاظ سے بڑا بنانا ہے۔ کیونکہ تعلیم انسان کو اعلیٰ شعور عطا کرتی ہے اور وہ ہر کام سمجھ کر کرتا ہے پھر وہ ہم دونوں بہن بھائی کو مخاطب کر کے نصیحت کرتے کہ تم دونوں اپنی ماں کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے پاس اعلیٰ شعور نہیں ہے اس لئے کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہے…………اسے اچھے اور برے میں تمیز نہیں ہے۔

                پھر وہ نہایت ہی فکر مندی سے اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیر کر عذرا سے کہتے…………بیٹی تم سے میری امیدیں وابستہ ہیں میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی ماں سے بالکل مختلف نکلو…………بالکل…………تمہیں میری طرح ہونا چاہئے۔ تم اپنی ماں کے نقش قدم پر نہ چلنا۔ وہ تمہیں غلط راہ پر ڈالنے کی کوشش کرے گی لیکن تمہیں مجھ جیسا بننا ہے۔ مجھ جیسا اچھا۔ اب جائو…………لیکن میری باتوں کو یاد رکھنا۔

                ہم دونوں ان باتوں کو سنتے اور خاموشی سے اپنے کمرہ میں آ جاتے…………اور کبھی کبھی ماں ہمیں اپنے کمرہ میں بیٹھی ہوئی ملتی…………وہ ہم دونوں کو دیکھتے ہی غصہ سے پوچھتی۔

                تم دونوں اپنے باپ کے پاس سے آ رہے ہو…………وہ بڑا ہی خراب آدمی ہے۔ اس نے یقیناً تمہیں میرے خلاف بہکایا ہو گا…………خدا اس شخص کو موت دے جو میری زندگی برباد کر رہا ہے۔

                وہ انتہائی غیض و غضب میں میرے باپ کو کوسنے لگتی۔

                اس کا مطلب ہے کہ ماں باپ دونوں ہی تم بہن بھائی کو ایک دوسرے کے خلاف بہکا رہے تھے…………اختر نے کہا۔

                ہاں…………چچازاد نے ہنس کر کہا…………لیکن ہم نے کبھی ان باتوں پر توجہ نہیں دی کیونکہ ہمارا شعور بھی اس قابل نہیں تھا کہ ہم ان باتوں سے متاثر ہو کر کسی ایک کے حق میں فیصلہ دے سکیں۔

                لیکن آپ کی بہن عذرا…………ابھی اختر نے اتنا ہی کہا تھا کہ چچازاد بھائی بولے…………وہ بہت چھوٹی اور ناسمجھ تھی۔

                اس کے ساتھ ہی عذرا دوبارہ کمرہ میں داخل ہوئی۔ اس کے بھائی نے سلسلہ کلام منقطع کر کے اسے برتن لے جانے کو کہا…………حالانکہ وہ تو آئی ہی برتن اٹھانے کے لئے تھی۔ اس نے اختر کے سامنے سے چائے کا کپ اور بسکٹوں کی پلیٹ اٹھائی۔ اختر نے چور نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ پہلے ہی کھنکھیوں سے دیکھ رہی تھی…………دونوں کی نگاہیں آپس میں ٹکرائیں اور عشق کا دیوتا اپنا کام کر گیا۔

                عذرا کے جانے کے بعد اس کے بھائی نے ایک بار پھر اپنی کمر کے نیچے تکیہ کو درست کیا اور سنبھل کر بیٹھتے ہوئے کہا…………پھر ایک صبح والد میرے کمرہ میں آئے۔ اس کے ساتھ میری چھوٹی بہن عذرا تھی…………والد کے چہرہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ وہ نہایت ہی پریشان اور خوفزدہ تھے۔ انہوں نے بتایا…………کہ میری ماں مر چکی ہے۔ یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ بھلا وہ اتنی جلدی اچانک کیسے مر گئیں۔ اس خبر سے میرے آنسو نہیں نکلے۔ شاید محبت کا جذبہ ختم ہو چکا تھا…………پھر نہ جانے کیوں مجھے خیال آیا کہ یہ جھوٹ ہے۔ تصدیق کرنے کی خاطر میرے قدم خودبخود ماں کے کمرہ کی طرف اٹھنے لگے…………میرا دل کہتا تھا کہ وہ زندہ ہیں۔ میری ماں اتنی کمزور نہیں تھی کہ اچانک موت سے آ دبوچے۔

                دروازہ پر میرے والد نے مجھے روک دیا اور جب…………میں نے ان سے کہا کہ میں اپنی مری ہوئی ماں کو دیکھنا چاہتا ہوں تو انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا…………کہ میری ماں بھاگ گئی ہے یا یوں سمجھو کہ وہ ہم سب کو چھوڑ کر چلی گئی ہے۔

                اوہ…………یہ تو بہت برا ہوا…………اختر نے اظہار افسوس کیا…………آپ کی ماں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔

                جب شوق جنون کی حد میں داخل ہو جاتا ہے…………چچازاد نے سمجھایا…………تو پھر انسان میں اچھائی برائی کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ یہی حال میری ماں کا ہوا۔ فلموں میں کام کرنے کے جنون میں اپنی اور میرے باپ کی عزت دائو پر لگا دی…………لیکن میرا باپ سمجھدار تھا۔ انہوں نے مسکرا کر کہا۔ اس نے ہم دونوں کو سمجھایا کہ میں نہ کہتا تھا کہ وہ اچھی عورت نہیں ہے۔ میرے بچو! اب تمہاری ماں کے اس فعل کو صرف اس کی موت کا بہانہ بنا کر ہی چھپایا جا سکتا ہے۔

                آپ کے والد نے عقلمندی کا ثبوت دیا…………اختر نے تعریف کرتے ہوئے کہا۔

                ہاں میرا باپ عقلمند تھا…………بہت ہی عقلمند…………چچازاد نے خلاء میں دیکھتے ہوئے کہا…………لیکن میری ماں بے عقل تھی…………اس نے فلمی اداکارہ بننے کے شوق میں ہم سب کی زندگی میں زہر گھول دیا۔ یہ صدمہ میرے باپ کے لئے ناقابل برداشت تھا…………موت کا بہانہ چل نہ سکا اور میرے باپ کو سب کچھ بتانا پڑ گیا…………پھر انہوں نے نہایت ہی غمزدہ انداز میں کہا…………جس کو یہ بات معلوم ہوئی اس نے کہا کہ وہ طوائف تھی اور ایک طوائف سے وفاداری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

                آخری جملے کے ساتھ ہی ان کی آواز رندھ گئی اور وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہو گئے۔

                                                 ٭×××××××××××٭

                کمرہ کے ماحول پر ایک عجیب طرح کا المناک سا سناٹا چھایا ہوا تھا…………کچھ دیر بعد…………چچازاد نے اپنی آواز اور جذبات پر قابو پا کر دوبارہ بولنا شروع کیا۔

                لوگوں کے طعنے سن کر میرے باپ گھلنے لگے…………یہ صدمہ غم بن کر ان کی صحت سے چمٹ گیا اور وہ بستر سے جا لگے۔ پھر جلد ہی کراہ پر درد آہوں میں تبدیل ہونے لگی…………مجھ سے ان کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ ڈاکٹر روز صبح و شام ان کے کمرہ میں آتا تھا اور مجھے تسلی دے کر چلا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ بیماری طول پکڑتی گئی…………اور نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہونے لگا کہ اب وہ بچیں گے نہیں۔

                ایک سال یونہی گزر گیا۔

                پھر ایک دن…………چچازاد نے نہایت ہی ٹھہرے ہوئے لہجہ میں بتایا…………جبکہ ان پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے کارندے اور قریبی دوست کمرہ میں موجود تھے…………میں اپنے کمرہ کی کھڑکی میں کھڑا کھوئی کھوئی نظروں سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا…………اس دن سردی بھی کچھ زیادہ ہی تھی اور ابھی سورج پوری طرح چھپا بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہلکی ہلکی کہر نے ماحول کو دھندلانا شروع کر دیا تھا…………کہ اچانک ایک گھوڑا گاڑی کی آواز سنائی دی۔ جو کہ کہر میں ڈوبی ہوئی سڑک پر ہماری حویلی کی طرف آ رہی تھی…………صدر دروازہ سے اندر داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے جس چیز پر نظر پڑی وہ بھورے رنگ کے گھوڑے کی تھوتھنی تھی جب وہ سانس لیتا تھا تو اس کے نتھنوں سے بھاپ کے مرغولے نکلتے تھے۔ جوں جوں گاڑی آگے بڑھتی جا رہی تھی نمایاں ہوتی جا رہی تھی…………یہ ایک سیاہ رنگ کی بگھی تھی جس کے چاروں جانب گھنگھروئوں کی جھالر لٹک رہی تھی جس سے نہایت ہی مترنم اور ہم آہنگ آواز سی پیدا ہوتی تھی۔

                گاڑی جونہی حولی کے اندر داخل ہونے والے دروازہ کے قریب آ کر رکی۔ کوچوان نے جو بوڑھا آدمی تھا فوراً ہی اپنی جگہ سے اتر کر دروازہ کے قریب آیا اور گاڑی کے چمکتے ہوئے ہینڈل کو پکڑ کر دروازہ کھول دیا…………دروازہ کے کھلتے ہی گہرے سرخ رنگ کے برقعہ میں ملبوس ایک عورت بڑی ہی آہستگی کے ساتھ نیچے اتری…………اس نے برقعہ اس طرح سے پہن رکھا تھا کہ صرف اس کی آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں۔

                کون تھی وہ عورت؟……اختر نے تعجب سے پوچھا۔

                وہ عورت…………چچازاد نے ٹھہرے ہوئے لہجہ میں کہا…………وہ عورت کون تھی مجھے نہیں معلوم…………لیکن نتھنے پھلاتا ہوا گھوڑا۔ بوڑھا کوچوان اور گہرے سرخ رنگ کے برقعہ میں لپٹا ہوا ایک نامعلوم پیکر…………یہ ساری چیزیں کسی دوسری دنیا سے متعلق معلوم ہو رہی تھیں…………اور میرے دل و دماغ کو اس پر اسراریت نے مائوف کر دیا تھا میں…………میں تو بس اس پراسرار متحرک پیکر کو دیکھ رہا تھا پھر سنگی زینہ پر ہلکے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ وہ عورت اوپر میرے باپ کے کمرہ کی طرف جا رہی تھی…………پھر میں بھی ایک نامعلوم کشش سے اس کے پیچھے کھینچتا چلا گیا۔

                وہ چھوٹے چھوٹے خوبصورت گلابی رنگ کے پائوں میرے باپ کے پلنگ کے پاس آ کر رک گئے۔ کمرہ میں داخل ہوتے ہی عطر کی تیز خوشبو پھیل گئی…………ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خوشبویات کا سیلاب سا امڈ آیا ہے۔ میں نے باپ کی پائنتی پڑی ہوئی کرسی گھسیٹ کر اس کی طرف بڑھا دی۔ وہ عورت اس ہی طرح برقعہ میں لپٹی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی…………کرسی کھینچنے کی آواز پر میرے باپ نے تھوڑی سی آنکھیں کھول کر دیکھا…………نقاب کے اندر دو پرکشش اور نہایت ہی تیز روشن آنکھیں چمک رہی تھیں اور جب ان کی تھکی ہوئی آنکھیں برقعہ میں سے جھانکتی ہوئی ان پرکشش آنکھوں سے ملیں تو ان میں بھی ایک عجیب طرح کی روشنی سی پیدا ہو گئی اور میرے باپ نے کچھ کہنے کی خاطر لب کھولے لیکن کمزوری کی وجہ سے بول نہ سکے۔

                پھر جوں جوں رات گہری ہوتی چلی گئی۔ میرے باپ کے دوست اور کارندے بھی رخصت ہونے لگے۔ سب سے آخیر میں ڈاکٹر نے صبح ہی صبح آنے کا وعدہ کیا۔ اور رخصت ہو گیا۔

٭×××××××××××٭

                اب کمرہ میں ہم تین آدمی تھے…………چچازاد نے کچھ دیر سستانے کے بعد دوبارہ بولنا شروع کیا۔

                میں…………میرا باپ اور…………پر اسرار پیکر۔

                میں نے سوچا…………شاید یہ میرے باپ کی دوست ہے اور…………تنہائی میں کچھ کہنا چاہتی ہے۔ لہٰذا خاموشی سے باہر نکل آیا اور راہداری میں ٹہلنے لگا…………میرا خیال تھا کہ وہ جلد ہی باہر آ جائے گی لیکن وہ باہر نہیں آئی اور ساری رات انتظار میں گزر گئی۔

                پھر جب صبح کاذب کا اجالا آسمان کے افق پر نمودار ہونے لگا تو وہ عورت باہر نکل آئی۔ زینہ سے اترتے ہوئے ہلکی آہٹ کو سن کر میں نے اس کی طرف دیکھا پھر گھوڑے کے دوڑنے اور گھنٹیاں بجنے کی آواز سے تمام ماحول نہایت ہی پر اسرار ہو گیا تھا۔

                آپ نے والد سے اس عورت کے بارے میں معلوم کیا…………اختر نے جو بڑی ہی توجہ سے یہ سب کچھ سن رہا تھا اچانک پوچھا۔

                ہاں…………چچازاد نے جواب دیا…………اس عورت کے چلے جانے کے بعد میں اپنے باپ کے پاس گیا تھا…………میں نے پوچھا کہ ابا جان یہ عورت کون تھی؟…………جواب میں باپ نے ہونٹوں کو جنبش دی لیکن آواز حلق سے نہیں نکلی۔ وہ چند دنوں میں ہی سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے تھے۔

 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔