Topics
چھوڑو
یار…………خان بہادر نے بے تکلفی سے کہا………… اپنی پیری اور شمشو کا رعب کسی اور پر
جمانا۔ مجھ پر یہ جادو نہیں چلے گا۔
اچھا
بھئی…………اگر تم نہیں مانتے ہو تو ابھی تصدیق ہو جاتی ہے۔ پیر حاضر شاہ نے تمکنت سے
جواب دیا اور پھر شمشو سے بولے…………جا۔ اس ملازم کو لے آ جس نے اسے ذبح کیا تھا۔
پیر
حاضر شاہ کا حکم سنتے ہی شمشو نے تعمیل حکم میں گردن جھکائی اور لمبے لمبے ڈگ
بھرتا ہوا بہر کی طرف چل دیا۔ اسے اس طرح جاتا دیکھ کر خان بہادر نے ایک ٹھنڈی
سانس لی اور بولے…………پیر حاضر شاہ تمہارے اس ملازم کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے
جیسے یہ انسان نہیں، جن ہے۔ یہ بات سن کر پیر حاضر شاہ کھلکھلا کر ہنس دیئے۔ پھر
ان کا ہاتھ پکڑ کر دروازہ کی طرف بڑھتے ہوئے بولے۔ چلو…………باہر چلتے ہیں۔
ابھی
ان دونوں کو باہر آئے ہوئے چند منٹ گزرے تھے کہ…………شمشو پیپل کے درخت کے پیچھے سے
خان بہادر کے ایک ملازم کے ساتھ نمودار ہوا۔ ملازم کو اتنی جلدی سامنے دیکھ کر خان
بہادر کو تعجب ہوا۔ لیکن انہوں نے اس پر توجہ دینے کے بجائے اپنے ملازم کو ڈانٹتے
ہوئے پوچھا۔ کیوں بے…………گولی لگنے کے بعد تو نے یہ ہرن کو ذبح کیا تھا؟
کیا
تو تھا حضور! ملازم نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ لیکن مجھ سے بھول ہو گئی ہے۔ ہرن کی گردن
پر چھری چلاتے وقت تکبیر کہنا بھول گیا تھا۔
ابے
نالائق۔ مردود یہ تو نے کیا کیا۔ خان بہادر غصہ سے چیخے…………تو نے سارا گوشت حرام
کر دیا، لے جا اسے۔ انہوں نے برتن اس کی طرف بڑھاتے ہوئے حقارت سے کہا۔ پھر وہ پیر
حاضر شاہ سے معذرت کرتے ہوئے بولے۔ آپ نے ٹھیک کہا تھا۔ بدبخت نے تمام گوشت خراب
کر دیا۔ پھر وہ پیر پٹختے ہوئے اپنے گھر کی طرف چل دیئے۔
٭×××××××××××٭
کبھی
کبھار پیر حاضر شاہ کے پاس مریض بھی آتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہوتے تھے جو کہ ڈاکٹروں
اور حکیموں کی طرف سے لاعلاج قرار دے دیئے جاتے تھے۔ یہ مایوس لوگ بھولے بھٹکے پیر
حاضر شاہ کی طرف آ نکلتے تھے۔ پیپل کے درخت کی ایک شاخ سے جو کہ قدرے نیچے کو جھکی
ہوئی تھی۔ سرکنڈوں کی ایک بوسیدہ سی ٹوکری لٹکی رہا کرتی تھی۔ جس میں سے شمشو ہاتھ
بڑھا کر وہی پھل نکالتا تھا۔ جس کا نام پیر حاضر شاہ لیتے تھے مثلاً اگر وہ کہتے
کہ بھئی سیب دینا تو وہ سیب نکالتا۔ موسمی، انگور، غرضیکہ جس پھل کا بھی نام لیتے۔
شمشو اس ٹوکری میں ہاتھ ڈالتا اور پھر وہی مطلوبہ پھل اس کے ہاتھ میں ہو۔
پیر
حاضر شاہ پھل پر پھونک مار کر مریض کو دیتے اور اسے تاکید کرتے کہ صبح ہی صبح نہار
منہ کھا لینا۔ اللہ شفا دے گا۔ اور واقعی مریض کو شفا ہو جاتی تھی۔ صحت یاب ہونے
کے بعد وہ لوگ نذرانہ لے کر آتے لیکن پیر حاضر شاہ کچھ بھی قبول نہیں کرتے۔ بلکہ
ان سے کہتے کہ ایک ہزار بار درود شریف پڑھ کر میرے محبوب شافی محشر نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم کو بخش دینا۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سی انسانی بیماریوں کا علاج
اللہ تعالیٰ نے پھلوں میں رکھا ہے۔ اور صاحب بصیرت ہی سمجھ سکتا ہے کہ کونسا پھل
کسی بیماری کے لئے تریاق ہے۔
بعض
دفعہ محلے کی خواتین اپنے بچوں کی نظر وغیرہ اتروانے آتی تھیں۔ وہ دل ہی دل میں
کچھ پڑھ کر بچہ کے چہرہ پر پھونک مارتے اور دوسرے ہی لمحہ روتا ہوا بچہ خاموش ہو
جاتا اور کھیلنے لگتا۔
٭×××××××××××٭
اس
واقعہ کے بعد خان بہادر پیر حاضر شاہ سے متاثر ہو چکے تھے۔ لیکن ان کے دل میں شک و
شبہ بھی رہتا تھا۔
پیر
حاضر شاہ واقعی کچھ ہیں یا نہیں۔ یہ جاننے کی خاطر اکثر خان بہادر بھی نماز عشاء
کے بعد ان کے پاس آنے لگے اور کبھی کبھی ہنسی ہنسی میں بحث و مباحثہ بھی شروع کر
دیتے۔ جس میں دوسرے لوگ بھی شامل ہو جاتے۔ اس نوک جھونک میں نوجوان بھی ہوتے اور
جہاندیدہ بوڑھے بھی۔ رفتہ رفتہ یہ ایک ایسی مجلس بن گئی جس میں ہر طرز فکر کے لوگ
شامل ہونے لگے۔ ہر شخص کو بولنے کی اجازت تھی، ہر شخص کو اظہار خیال کا حق حاصل
تھا۔ تصوف کے بارے میں نہایت ہی دلچسپ اور حیرت انگیز باتیں ہوتی تھیں۔ نفسیات اور
مابعد النفسیات کے بارے میں منفی اور مثبت بحث ہوتی تھی اور جب کبھی دو متضاد ذہن
آپس میں الجھ جاتے تو پیر حاضر شاہ درمیان میں بول کر انہیں سلجھا دیتے۔
ان
کی مجلس میں کبھی بھی ناشائستگی نہیں پیدا ہوئی۔ جب کبھی بھی انہیں کسی کی ناراضگی
یا دل شکنی کا شبہ ہوتا تو وہ گفتگو کا موضوع نہایت ہی موثر انداز میں کسی اور
جانب موڑ دیتے۔
اس
ہی طرح ایک دن عشاء کی نماز کے بعد پیر حاضر شاہ کی محفل پیپل کے درخت کے نیچے جمی
ہوئی تھی۔ خان بہادر بھی اس محفل میں موجود تھے۔ موضوع گفتگو ‘‘وحدانیت’’ تھا جو
کہ دو نوجوانوں اور تین بزرگ قسم کے اشخاص کے درمیان زیر بحث تھا۔
اچانک
ایک نوجوان نے اپنے مقابل بزرگ سے سوال کیا…………اگر اللہ ہے تو کہاں ہے؟
اللہ
ہے…………اور ہر جگہ موجود ہے۔ ان بزرگ نے تیز و تند لہجہ میں جواب دیا۔
اگر
اللہ ہے اور ہر جگہ موجود ہے تو پھر عرش معلیٰ پر کیا ہے؟ اس ہی نوجوان نے پھر
پوچھا۔
وہاں
بھی خدا ہے…………انہی بزرگ نے دوبارہ جواب دیا۔
واہ…………یہ
کس طرح ممکن ہے…………ایک دوسرا نوجوان بولا۔ عرش پر بھی خدا ہے اور فرش پر بھی خدا
ہے۔ گویا خدا کا ایک وجود بیک وقت دو مقام پر موجود ہے۔
ہاں…………خدا
اس ہی طرح ہے۔ ان بزرگ نے اطمینان سے جواب دیا۔
عقل
اس بات کو تسلیم نہیں کرتی۔ نوجوان نے کہا۔ ایک وجود دو مقام پر کس طرح ہو سکتا
ہے؟
تمہاری
عقلوں پر پتھر پڑ گئے ہیں۔ ایک اور بزرگ نے چڑ کر کہا۔ باری تعالیٰ تو وہ ہستی ہے
جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
اور
یہ بدعقلے…………دوسرے بزرگ نے چڑ کر کہا۔ باری تعالیٰ کو عرش اور فرش پر ڈھونڈ رہے
ہیں۔
ناراض
نہ ہوں…………پہلے والے نوجوان نے تحمل سے کہا۔ ہم صرف اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے
شبہات کو دور کرنا چاہتے ہیں۔
یہاں
ہم کئی دنوں سے آ رہے ہیں۔ دوسرے نوجوان نے کہا۔ ہم نے اس مجلس میں مختلف موضوعات
پر گفتگو سن کر یہ اندازہ لگایا کہ ہمیں اپنے سوالوں کا جواب یہیں سے ملے گا۔ اور
آج کی محفل میں ہم نے اس ہی وجہ سے یہ موضوع چھیڑا ہے۔ پہلے والے نوجوان نے اپنے
ساتھی کی تائید میں کہا اگر ہماری اس گفتگو سے آپ حضرات کی دل شکنی ہوئی ہے تو ہم
چلے جاتے ہیں۔
نہیں…………پیر
حاضر شاہ نے ان کے اٹھنے سے پہلے ہی کہا۔ اس محفل میں ہر کسی کو اظہار خیال کی
آزادی ہے۔ پھر انہوں نے معنی خیز نظروں سے ان بزرگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اگر
اس محفل میں کسی کو تسلی بخش جواب نہیں دیا جا سکتا تو بھی ہمارا یہ اخلاقی فرض ہے
کہ سوال کرنے والے کو رنجیدہ نہ کریں۔ پھر وہ نوجوان سے براہ راست مخاطب ہوئے۔
صاحبزادوں! تم نے اپنے شعور کے مطابق وجود باری تعالیٰ کے بارے میں جو کچھ بھی
معلوم کرنا چاہا۔ مجھے افسوس ہے کہ اس کا اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔
دونوں
نوجوانوں نے یہ سن کر تائیدی انداز میں گردن ہلا دی۔ اور ان میں سے ایک نے کہا۔
حضرت
آپ کی اس محفل میں ہم بڑی امیدیں لے کر آئے ہیں۔ ہمیں یقین تھا کہ ہمارے ذہنوں میں
جو تجسس ہے اس کا تسلی بخش جواب مل جائے گا۔
میں
جانتا ہوں…………میں جانتا ہوں…………پیر حاضر شاہ نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
اگر
ان بزرگ کی اس بات کو مان لیا جائے کہ اللہ ہر انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب
ہے۔ دوسرے نوجوان نے اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے کہا…………تو دو باتوں کی نفی ہو جاتی
ہے۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ عرش معلیٰ پر نہیں ہے…………دوئم یہ کہ اللہ واحد نہیں ہے۔
بلکہ اس کے کئی وجود ہیں اور اس کے یہی وجود ہر انسان کی شہہ رگ کے قریب ہیں…………یہ
بات سن کر وہ بزرگ جنہوں نے یہ جواب دیا تھا۔ سوالیہ انداز میں اپنے دوسرے بزرگ
ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگے۔ ان بزرگ کو لاجواب پا کر پیر حاضر شاہ نے ٹھہرے ہوئے
لہجہ میں کہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عرش اور فرش کی باتیں تو بعد کی ہیں۔ سب سے پہلے
تو ہمیں اس ذات کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہئے۔ جو زیربحث موضوع کا مرکز ہے۔
بالکل…………بالکل…………نوجوان
خوشی سے بولا۔ آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی…………ہمارا اصل مقصد تو یہی تھا…………ہم
معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا واقعی اللہ کا وجود ہے یا یہ سب مفروضہ ہے۔ اوہام کی
ایجاد ہے۔
یہ
تو کفر ہے…………ایک عمر رسیدہ بزرگ نے غصہ سے کہا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے وجود سے
انکار کرنے والا مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔
اس
ذات اقدس کے بارے میں تو شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ایک دوسرے بزرگ بولے۔ آج
کل کے نوجوانوں کے دماغ میں شیطان بس گیا ہے اور وہ باری تعالیٰ کے بارے میں بھی
شک کرنے لگے۔
توبہ…………توبہ…………ایسی
محفل میں بیٹھنا بھی گناہ ہے۔ تیسرے عمر رسیدہ بزرگ نے نہایت ہی نفرت و غصہ سے کہا
اور جانے کے لئے اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے۔
پیر
حاضر شاہ نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے نہایت ہی ملائم لہجہ میں کہا۔ بیٹھئے!
حضرت…………بیٹھئے۔ کیا کریں گے بیٹھ کر…………ان بزرگ نے جھنجھلا کر کہا۔ آپ پیر بنے
بیٹھے ہیں اور اپنی صحبت میں ایسے لوگوں کو بھی بیٹھنے دیتے ہیں جو اللہ کو نہیں
مانتے۔
ہم
ایسے ہی لوگوں کے لئے تو بیٹھے ہیں۔ پیر حاضر شاہ نے ہنس کر کہا۔ ہم ایسے ہی لوگوں
کے تو پیر ہیں۔ پھر وہ ہاتھ سے دوبارہ اشارہ کرتے ہوئے بولے۔ آپ بیٹھ تو جائیں اور
ذرا میری بات سن لیں۔
اتنی
بات سن کر وہ بزرگ اظہار بیزارگی کرتے ہوئے دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئے…………معلوم
ہوتا تھا کہ کسی نے ان کے کاندھوں پر زور دے کر بٹھایا ہے۔
٭×××××××××××٭
پیر
حاضر شاہ نے حاضرین محفل پر ایک سرسری سی نظر ڈالی۔ پھر یوں بولے۔ آج ان نوجوانوں
نے وجود باری تعالیٰ کے بارے میں جو کچھ پوچھا ہے۔ مجھے اس پر حیرت بھی ہے اور
خوشی بھی…………پھر انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ حیرت اس وجہ سے کہ مسلمان ہو
کر بھی ان نوجوانوں کو وجود باری تعالیٰ پر شک ہے اور خوشی اس وجہ سے ہے کہ ان
نوجوانوں کے ذہنوں میں وجود باری تعالیٰ کے بارے میں جو شک و شبہ تھا، انہوں نے بے
دھڑک بیان کر دیا۔ انہیں شرم آنی چاہئے…………ایک بزرگ نے غصہ سے کہا…………یہ بے ایمان
ہیں۔
یہ
سن کر ان دونوں نوجوان لڑکوں نے پیشانی پر بل ڈال کر ناگواری سے ان بزرگ کی طرف
دیکھا۔ اور ان میں سے ایک نے نہایت ہی سخت لہجہ میں پوچھا…………ایمان…………ایمان کیا
ہوتا ہے؟
ایمان…………ایمان…………ہوتا
ہے۔ بزرگ نے سٹپٹا کر جواب دیا۔
وہ
دونوں نوجوان بزرگ کی بوکھلاہٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کچھ اور کہنا ہی چاہتے تھے
کہ پیر حاضر شاہ نے بات کو سنبھالتے ہوئے کہا۔ ہمیں ان نوجوانوں کی بات پر ناراض
ہونے یا فتویٰ صادر کرنے کی بجائے جواب دینا چاہئے۔ تا کہ ان کا ذہن صاف ہو جائے
اور اگر ہم ایسا نہیں کر سکے تو…………انہوں نے ایک لمحہ رک کر کہا۔ تو ہم خود بے
ایمان ہیں۔
وہ
کیسے؟…………ایک شخص نے بے ساختہ پوچھا۔
اس
لئے…………پیر حاضر شاہ نے جواب دیا۔ کہ ہم وجود الٰہی پر جس طرح ایمان رکھتے ہیں۔
اگر ہم ‘‘اس ہی زاویہ سے’’ ان نوجوانوں کو وجود باری تعالیٰ کا یقین دلانے میں
ناکام رہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارا ایمان بھی ناقص ہے اور اس طرح ہم بھی ‘‘بے
ایمان’’ ہیں لیکن یہ لوگ ہماری بات سمجھیں بھی تو…………ایک اور شخص بولا۔ ان کی سمجھ
میں تو کوئی بات آتی ہی نہیں۔
دراصل…………یہ
سوال اتنا پیچیدہ اور اشتعال انگیز ہے کہ اسے سننے کے بعد ہر شخص جذباتی ہو جاتا
ہے اور وہ عقل و شعور سے جواب دینے کی بجائے جذبات میں بے معنی دلائل دینے لگتا
ہے۔ پیر حاضر شاہ نے کہا…………اور شیطان کی یہی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ وہ انسان کو
اس معاملہ میں کچھ سوچنے نہ دے لیکن یاد رکھئے…………انہوں نے تنبیہہ کے انداز میں
کہا…………اگر ہم نے ان نوجوانوں کے شک و شبہ کو دور نہیں کیا۔ تو سارا گناہ ہمارے
ذمہ ہو گا اور قیامت کے دن ہم سے جواب طلبی ہو گی…………اور اگر ہم انہیں وجود الٰہی
کا یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے…………تو سمجھئے نجات پا گئے۔
پیر
حاضر شاہ کی بات سن کر وہ لوگ جن کے دلوں میں ان نوجوانوں کے خلاف ہو چلی تھی یہ
سوچنے لگے…………کہ واقعی اگر ہم نے ان مشتبہ ذہن کے نوجوانوں کو ‘‘وحدانیت’’ کا یقین
نہیں دلایا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟
اب
ہر شخص اپنی جگہ پر دلائل سوچنے لگا۔ اور محفل میں کچھ دیر کے لئے سکوت چھا گیا۔
کچھ دیر بعد ایک بزرگ نے اس خاموشی کو یہ کہہ کر توڑا۔ بھئی دیکھئے۔ وجود الٰہی
روشنی کی مانند ہے۔
روشنی…………کو
دیکھ تو سکتے ہیں…………ایک نوجوان نے جواب دیا۔ ‘‘اللہ’’ تو نظر ہی نہیں آتا۔ اللہ
کو دیکھنے کے لئے دل کی آنکھ چاہئے۔ ان بزرگ نے بھنویں چڑھا کر کہا۔
آپ
نجانے کیسی بات کہہ رہے ہیں۔ اس ہی نوجوان نے بیزاری سے کہا۔ ہمارے پاس جو آنکھیں
ہیں جو ذریعہ بصارت ہیں۔ ہم اس ہی ذریعہ سے ‘‘اللہ’’ کو دیکھ سکتے ہیں۔
تو
گویا تم ‘‘اللہ’’ کے وجود پر اعتبار کرتے ہو۔ ایک دوسرے بزرگ نے فاتحانہ لہجہ میں
کہا۔
جی
نہیں…………نوجوان نے سپاٹ لہجہ میں جواب دیا۔ میں تو صرف ان کی بات کا جواب دے رہا
تھا جو کہ ‘‘اللہ’’ کو دیکھنے کی خاطر ‘‘دل کی آنکھ’’ کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ دل
کی آنکھ کونسی ہوتی ہے…………دوسرے نوجوان نے بڑی ہی تمسخر سے پوچھا؟
یہ
سن کر وہ بزرگ جنہوں نے یہ بات کہی تھی کچھ جھینپ سے گئے۔ ان کی جھینپ مٹانے کی
خاطر ایک اور بزرگ بولے۔ ارے میاں…………تم اتنی سی بات نہیں سمجھ پا رہے ہو کہ اس
دنیا کو بنانے والا کوئی تو ہے…………اور جس نے یہ دنیا بنائی ہے۔ بس وہی اللہ ہے۔
لیکن…………میں
نے جب ہوش سنبھالا ہے۔ اس دنیا کو ایسا ہی دیکھ رہا ہوں…………نوجوان نے جواب دیا۔
میں یہ کیسے مان لوں کہ اسے بنانے والا بھی کوئی تھا…………اور اسے ‘‘اللہ’’ کہتے
ہیں۔
نوجوان…………حاضر
شاہ بولے…………تم اس بات کو تسلیم کرتے ہو کہ تم نے اس دنیا میں وجود پایا ہے میں نے
کہاں وجود پایا…………مجھے اس کا علم نہیں۔ نوجوان نے محتاط انداز میں جواب دیا۔
البتہ
جب میں شعور کی منزل میں داخل ہوا تو مجھے اپنے ارد گرد کے ماحول کا احساس ہوا۔
مجھے پتہ چلا کہ اس ماحول کو ‘‘دنیا’’ کہتے ہیں۔
لیکن
شعور کی منزل میں داخل ہونے سے قبل تم کہاں تھے۔ پیر حاضر شاہ نے پوچھا۔ نوجوان یہ
سوال سن کر جواب طلب نظروں سے اپنے ساتھی کی طرف دیکھنے لگا۔
تم
اس سے قبل بھی دنیا میں موجود تھے۔ پیر حاضر شاہ نے سمجھانے والے لہجہ میں کہا۔
لیکن شعور سے نابلد ہونے کی وجہ سے تمہیں کچھ علم نہیں تھا۔ تم اپنی ماں کی آغوش
میں ایک مفلوج انسان کی مانند رہتے تھے اور اس سے قبل…………وہ اپنے الفاظ پر زور دے
کر بولے۔ جب تم بطن مادر میں تھے تو بھی اس ہی دنیا میں موجود تھے…………تمہاری
ماں…………تمہارا بوجھ اٹھائے اس ہی دنیا میں پھرتی تھی۔ اور اس طرح تم بالواسطہ اس
ہی دنیا میں موجود تھے…………تم اپنی پیدائش کے پہلے مرحلہ سے لے کر اس وقت تک اس
دنیا سے وابستہ ہو۔
دونوں
نے اس انداز میں سر ہلایا۔ جیسے بات ان کی سمجھ میں آ رہی ہو…………محفل میں بیٹھے
ہوئے دوسرے لوگ بھی پیر حاضر شاہ کو توجہ سے دیکھ رہے تھے۔ تم اپنی ارتقاء کی
تینوں منزلوں میں سے صرف دو منزلوں کے ماحول سے نا آشنا ہو…………پیر حاضر شاہ نے کہا…………اول
جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں تھے…………دوئم جب تم نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں۔ البتہ
جب تم اپنے وجود کی تیسری ارتقاء میں داخل ہوئے تو تمہارا شعور بیدار ہوا…………اور
پھر ہر چیز تمہارے سامنے موجود تھی۔
جی
ہاں…………دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔
اس
کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی شئے کی پہچان اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک شعور بیدار
نہ ہو۔ پیر حاضر شاہ نے جیسے پوچھا۔
دونوں
نے ایک ساتھ اقرار کے انداز میں گردن ہلائی۔
اور…………شعور
اس ہی شئے کو پہچانتا ہے جس کا اس دنیا میں وجود ہو۔ پیر حاضر شاہ نے بتایا۔ یا جس
کا اس دنیا سے واسطہ ہو…………اور کسی بھی شئے کی پہچان اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک
اس شئے کا نام نہ ہو۔ اور نام اس شئے کے معنی بتاتا ہے۔ تو نام کا مطلب معنی ہوئے
اور مطلب ‘‘موجودگی’’ کے ہوئے۔ اس کے بعد پیر حاضر شاہ نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور
دے کر کہا۔ اصل بات یہ ہوئی کہ کوئی بھی شئے اس وقت تک وجود میں نہیں آتی جب تک کہ
اس کا نام نہیں ہوتا…………یعنی‘‘معنی پہلے وجود میں آتے ہیں اور الفاظ بعد میں وضع
کئے جاتے ہیں’’…………یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ وہ امورجن کا وجود نہیں ہوتا ان کے
لئے الفاظ متعین نہیں کئے جا سکتے۔
یہ
صحیح ہے۔ ایک نوجوان نے جواب دیا۔
تم
نے میری بات کی تصدیق لفظ ‘‘صحیح’’ کہہ کر کی ہے۔ پیر حاضر شاہ نے مسکرا کر کہا۔
حالانکہ صحیح کی شکل و صورت سے تم قطعی نابلد ہو…………لیکن لفظ صحیح نمائندگی کرتا
ہے سچ کی۔ اور اس لفظ کے ساتھ ہی تمہارے شعور میں اس کے معنی بھی آ جاتے ہیں۔
لہٰذا…………اب شعور کی بھی نفی ہو جاتی ہے۔
وہ
کیسے؟…………دونوں نوجوانوں نے تعجب سے پوچھا۔
شعور
کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ پیر حاضر شاہ نے ویسے ہی مسکراتے ہوئے کہا۔ بلکہ الفاظ
اہمیت رکھتے ہیں۔ جب تک بجلی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ اس کا کوئی نام نہیں تھا۔ کوئی
اس کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ لیکن آج…………اس نام کے ساتھ ہی شعور میں اس کی
موجودگی کا احساس ہو جاتا ہے۔
ان
کی یہ بات سن کر دونوں پھٹی پھٹی نظروں سے پیر حاضر شاہ کو دیکھنے لگے۔
اس
کے علاوہ…………پیر حاضر شاہ نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔ کئی ایسے مظاہر قدرت بھی ہیں جنہیں
انسان ہزاروں اور لاکھوں سال سے دیکھ رہا ہے۔ ان کے لئے جو الفاظ مقرر ہیں۔ انہیں
ہزار ہا سال گزرنے کے باوجود بدلا نہیں جا سکا۔ چاند کو چاند…………سورج کو سورج،
پہاڑ کو پہاڑ…………اور مٹی کو مٹی ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے
کہ کوئی بھی شئے اپنے معنی کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ لہٰذا اب جبکہ لفظ ‘‘اللہ’’
وجود میں آیا ہے تو یقیناً اپنے معنی کے ساتھ آیا ہے اور اس کے معنی وہی ہیں جو کہ
ہر ذی روح کے ذہن میں محفوظ ہیں۔ کہ ایک ایسی ہستی جس نے سب کو بنایا۔ لیکن خود
نہیں بنا۔ اتنا کہہ کر پیر حاضر شاہ ایک دم شمشو سے مخاطب ہوئے۔ کیوں…………میں ٹھیک
کہہ رہا ہوں نا؟
شمشو
نے جواب میں تائیدی انداز سے گردن ہلائی۔
دونوں
نوجوانوں کے چہروں سے اطمینان نمایاں ہو رہا تھا۔ پیر حاضر شاہ کی اس منطقی دلیل
سے غالباً ان کے ذہن کھل گئے تھے۔ وہ پیر حاضر شاہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے محفل سے
اٹھ گئے۔
٭×××××××××××٭
ان
دونوں نوجوانوں میں سے ایک کا نام ‘‘ہری رام’’ تھا اور وہ اس ہی بستی کے کناروں پر
واقع شیوبھگوان کے مندر میں مقیم تھا۔ اس بستی میں صرف اس کا یہی ایک دوست تھا۔ جس
کے ہمراہ وہ پیر حاضر شاہ کی محفل میں شریک ہوا تھا۔
ہری
رام ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ اس کا انداز گفتگو نہایت ہی جارحانہ تھا۔ لیکن لہجہ
نہایت ہی مہذبانہ اس کے ماں باپ کون تھے۔ اس کا خاندان کیا تھا۔ اور وہ کس شہر سے
آیا تھا۔ کسی کو اس کا علم نہیں تھا۔
اسے
ماورائی علوم سیکھنے کا شوق تھا اور شیو بھگوان کے مندر میں پنڈت جی سے تعلیم حاصل
کر رہا تھا۔ پنڈت جی کی عمر سو سال سے زیادہ تھی اور ایام گوشہ نشینی میں زندگی
گزار رہے تھے۔
ہندوستان
جس کو دیوی اور دیوتائوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ شیو دیوتا کو بھی ایک اعلیٰ مقام
حاصل ہے۔ کئی ہزار سال سے یہ روایت چلتی آ رہی ہے کہ شیو بھگوان نیک اور خدمت گزار
منش ہی کے چرنوں میں رہ سکتا ہے۔
شیو
بھگوان کی مورتی جس جگہ نصب تھی۔ اس کے عین پیروں کے نیچے ایک تہہ خانہ تھا۔ اس
تہہ خانہ میں ہی کوئی ماورائی علوم کی تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔ اور پھر اس کے مرنے
سے قبل ہی شیو دیوتا نئے پجاری کو اپنی لافانی طاقتوں سے نواز دیا کرتے تھے۔
مرنے
والے کے کریا کرم کے ساتھ ہی شیو دیوتا کے نے پجاری کو مرگ چھالے پر بٹھا دیا جاتا
تھا۔ اس سگھا سن پر بیٹھنے کے ساتھ ہی اس شخص کو تمام مرئی اور غیر مرئی طاقتوں کا
بادشاہ تسلیم کر لیا جاتا تھا۔جس کا کام نہ صرف انسانیت کی خدمت کرنا اور دکھی
لوگوں کی مصیبتوں کو دور کرنا ہوتا تھا۔ بلکہ اسے شیو دیوتا کی خدمت کے لئے خاص
داسیوں اور چھوٹے پجاریوں کی بھی نگرانی کرنا ہوتی تھی۔
کہتے
ہیں کہ جب تک شیو دیوتا اپنا نیا مہان پجاری تیار نہ کر لیں ان کے پرانے پجاری کو
موت نہیں آتی تھی…………اس انتخاب میں کامیاب ہونے کے بعد منتخب شخص کو سخت عبادت و
ریاضت سے گزرنا ہوتا تھا اور ہری رام اس ہی امتحان سے گزر رہا تھا۔
٭×××××××××××٭
اس
شہر میں آنے کے کچھ ہی دن بعد اس نے پیر حاضر شاہ کے بارے میں اڑتی اڑتی خبریں
سنیں تھیں۔ کچھ دن تک رات کو دور سے انہیں پیپل کے درخت کے نیچے چند لوگوں کے
ہمراہ بیٹھے دیکھتا رہا…………اور پھر ایک دن…………وہ ہمت کر کے ان کی محفل میں پہنچ
گیا۔ اس کا خیال تھا کہ غیر مذہب کا یہ اچھوت خالی خولی لوگوں پر رعب جمانے کی
خاطر پیر بنا بیٹھا ہے۔ لیکن اس پہلی ملاقات ہی میں اس کے اندازے غلط ثابت ہو چکے
تھے۔
اس
نے پیر حاضر شاہ سے ‘‘وحدانیت’’ کے متعلق جتنے بھی سوالات کئے تھے۔ ایک مسلمان کے
انداز میں کئے تھے۔ ابھی اس کی وضع قطع سادھوئوں یا پنڈتوں جیسی نہیں ہوئی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ ہر پیر حاضر شاہ سے اپنا ظاہر چھپانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ یا
پھر…………پیر حاضر شاہ نے مصلحتاً اس کی ذات کو ظاہر نہیں کیا تھا۔
محمد مونس خان عظیمی
یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک
جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن
جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم
ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس
کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا
مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔
میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا
اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین
و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا
جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔