Topics
سوچ بچار اور تفکر ایسا عمل ہے جس میں ایک
لمحہ کائنات کا احاطہ کرلیتا ہے۔ یعنی کائنات اور ہمارے درمیان کسی قسم کا فاصلہ
نہیں ہے اس لئے کہ لاشمار عالمین پر مشتمل یہ نظام، اس نظام میں زندگی اور زندگی
میں حرکت کن کا مظاہرہ ہے۔زندگی وسائل کی پابند ہے۔ وسائل تقاضے اور تقاضوں سے
حواس بنتے ہیں۔ بھوک پیاس، سونا جاگنا، آپس میں میل جول، ایک دوسرے سے بات کرنے
اور ممتازہونے کی خواہش غرض ہزاروں قسم کی دل چسپیاں۔۔۔ یہ سب وہ کیفیات ہیں جو
حواس میں جذب ہوکر مظاہراتی خدوخال کا علم بخشتی ہیں۔
حواس ایک ہیں لیکن دو طرح سے کام کرتے
ہیں۔۔۔ حواس کے ظاہری اور باطنی دونوں رخوں کا ادراک زندگی ہے۔۔۔ ایک رخ تعمیر اور
دوسرا رخ تخریب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے،
"رمضان کا مہینہ جس میں نازل ہوا قرآن،
ہدایت ہے لوگوں کے واسطے، اس میں راہ پانے اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی روشن
نشانیاں ہیں۔ جو کوئی تم میں سے اس مہینہ کو پائے تو روزے ر کھے۔ اور جو کوئی
بیمار ہو یا مسافر تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ چاہتا ہے
تم پر آسانی اور نہیں چاہتا ہے تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم روزوں کی تعداد
پوری کرو۔ اور حمد کرو اللہ کی کہ اس نے ہدایت کے راستے کھولے تاکہ تم شکرگزار
بنو۔ (البقرۃ : 185(
قرآن کریم روشن نشانیوں پر مشتمل ایسی ہدایت ہے جس پر
غور و فکر اور عمل کرنے والا بندہ رمضان کے حواس میں پنہاں رموز کا علم حاصل
کرلیتا ہے۔
رمضان المبارک کے علاوہ عام دنوں میں ہماری دل چسپیاں
مظاہر کے ساتھ زیادہ رہتی ہیں۔ حصولِ معاش میں جدوجہد اور دوسرے دنیاوی مشاغل میں
ہم مصروف رہتے ہیں۔ کسی ایک شے کی طرف متوجہ ہونا دیگر چیزوں کا ترک ہے۔ ذہن ہر
لمحہ ایک چیز کا ادراک کرتا ہے۔ کوئی گلاب کے پھول کو دیکھتا ہے اور کوئی پھول میں
موجود کائنات پر غور کرتا ہے۔ گلاب کی طرف متوجہ شخص کے لئے گلاب کا پھول بظاہر
کائنات ہے۔۔۔ باقی چیزیں موجود ہو کر بھی سامنے نہیں ہیں۔ دیکھنے کی یہ طرز محدود
ہے۔دوسری طرف گلاب کے نظام پر غور کرنے والا ذہن ایک لمحہ میں کائنات کی وسعت کا
احاطہ کرلیتا ہے اس لئے کہ گلاب اور کائنات کا نظام ایک ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ
کسی ایک رخ کا غالب ہونا دراصل دوسرے رخ کا ترک ہے۔
روزہ ہمیں ایسے نقطہ پر لے آتا ہے
جہاں سے مظاہر کی نفی شروع ہوتی ہے۔ مثلاً وقتِ مقررہ تک ظاہری حواس سے توجہ ہٹا
کر ذہن اس طرف آمادہ کرنا کہ ظاہری حواس کے علاوہ اور بھی حواس ہمارے اندر موجود
ہیں جو غیب کی دنیا سے روشناس ہونے کا ذریعہ ہیں۔ بھوک پیاس پر کنٹرول، گفتگو میں
احتیاط، دروغ گوئی اور غیبت سے پرہیز، رزق حلال کا حصول، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ
سے دور رہنا اور ناپ تول میں انصاف کرنا، زکوٰۃ، صدقہ خیرات، نیند میں کمی اور
چوبیس گھنٹے کسی نہ کسی طرح یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مظاہر کی گرفت سے آزاد ہو کر
بندہ اللہ کی طرف متوجہ رہے۔
حدیث قدسی ہے: "روزہ
میرے لئے ہے اور روزہ کی جزا میں ہوں۔"
روزہ دار کے اندر وہ حواس کام کرتے
ہیں جن حواس سے انسان اللہ تعالیٰ کے انوار کا مشاہدہ کرتا ہے۔ حواس کا ایک رخ
اللہ سے دور اور دوسرا رخ اللہ سے قریب کرتا ہے۔ مظاہر میں انسان زمان و مکان میں
قید ہے اور غیب میں زمانیت اور مکانیت انسان کی پابند ہے۔ زندگی کے ظاہری رخ میں
خیال اور اس کا مظاہرہ۔۔۔ زمان و مکان سے آزاد ہونے اور مکان و زمان میں مقید ہونے
کی واضح مثال ہے۔ خیال وسائل کی محتاجی کے بغیر جس وقت اور جہاں چاہے روشنی کی
رفتار سے سفر کرتا ہے جب کہ مادی جسم وقت اور فاصلہ پر تصرف کے لئے وسائل کا محتاج
ہے۔ خیال غیب کی دنیا ہے اور جو حواس ہمیں غیب سے روشناس کرتے ہیں قرآن کریم میں
ان کا نام "لیل"۔۔۔ رات ہے۔
خالق کائنات کا ارشاد ہے
" رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور
دن کو رات میں۔" (اٰل عمران: 27(
حواس ایک ہی ہیں۔ ان میں صرف درجہ بندی ہے۔ رات کے حواس
میں زمانیت غالب اور مکانیت مغلوب ہے۔ رات کے یہی حواس غیب میں سفر کرنے کا وسیلہ
ہیں اور انہی حواس سے انسان برزخ، اعراف اور فرشتوں کو دیکھتا ہے۔
خاتم النبیین سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی معراج کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
"پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندہ
کو رات ہی رات ادب والی مسجد سے پرلی مسجد تک جس میں ہم نے خوبیاں رکھی ہیں کہ
دکھائیں اس کو اپنی قدرت کے نمونے، وہی ہے سنتا دیکھتا۔" (بنی اسرائیل: 1(
رات کے حواس (سونے کی حالت) میں ہم ذہنی طور پر
مظاہراتی پابندی سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ روزہ کا پروگرام ہمیں یہی عمل اختیار کرنے کا
حکم دیتا ہے۔ روزے میں تقریباً وہ تمام حواس غالب ہوجاتے ہیں جن کا نام را ت ہے۔
روزہ "ترک" سے تعلق استوار کرتا ہے۔یہ ایسی
عبادت ہے جس میں جائز اور ناجائز دونوں چیزوں کا ترک ہے۔ ترک سے مراد یہ ہے کہ جن
کاموں سے پرہیز کا حکم دیا گیا ہے اور شعوری طور پر جتنی چیزیں ضروری ہیں ان سب کو
اللہ کے لئے ترک کردینا۔ کھانا پینا جائز ہے لیکن آدمی روزہ میں نہیں کھاتا تاکہ
اللہ کے حکم کی اطاعت ہو۔ سونا منع نہیں ہے لیکن روزہ چوں کہ بیداری میں رہتے ہوئے
لاشعور سے واقف ہونے کا عمل ہے اس لئے کم سے کم سونے کی تلقین کی جاتی ہے۔ باتیں
کرنے کی ممانعت نہیں ہے لیکن غیر ضروری باتیں کرنا منع ہے۔ روزہ میں ظاہری دنیا کا
خیال ذہن سے ہٹ کر یہ احساس غالب رہتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ روزہ دار صرف
اللہ کی خوش نودی کے لئے صاف ستھری زندگی، صحیح نظام الاوقات میں گزارتا ہے۔
رمضان المبارک سے متعلق باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں،
"اور جب تجھ سے پوچھیں بندے میرے مجھ کو
تو میں نزدیک ہوں، پہنچتا ہوں پکارتے کی پکار کو، جس وقت مجھ کو پکارتا ہے۔ لہٰذا انہیں
چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت
پائیں۔" (البقرۃ: 186(
رمضان قلب و جسم کی کثافت دور کرکے لاشعور میں داخل
ہونے کا پروگرام ہے۔ دن بھر نہ کھانے، کم سونے اور افطاری میں سادگی اور اعتدال کے
حکم میں حکمت یہ ہے کہ جسم میں کثافت کم ہو تاکہ بندہ بیداری میں رہتے ہوئے غیب کی
دنیا میں داخل ہوسکے۔
روزہ کا روحانی پہلو خاص و عام سب کے لئے ہے۔ فرق یہ ہے
کہ اللہ کا عرفان حاصل کرنے والے خواتین و حضرات اللہ کے لئے ترک کی لذت سے واقف
ہیں اور ہم ترک کی لذت سے ناآشنا ہیں۔ خاتم النبیین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
ہر اُمّتی کے لئے ترک ممکن ہے۔ جو بندہ صبح سے شام تک محض اللہ کے لئے بھوکا پیاسا
رہتا ہے وہ ترک کی لذت سے آشنا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر روزہ چھوٹ جائے تو
محسوس ہوتا ہے کہ ہم خاص نعمت سے محروم ہوگئے ہیں۔ سخت گرمی اور بھوک کی شدت میں
پانی نہ پینا اور تمام حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلینا بلاشبہ اللہ کے لئے
ترک ہے اور اس کی لذت سے ہر روزہ دار واقف ہے۔
ترک انفرادی طرز فکر سے دوری کا نام ہے۔ آدمی ذہنی
رجحانات کے زیراثر جو زندگی گزارتا ہے، زندگی ان ہی قدروں میں مختصر ہوجاتی ہے۔
ایک طرز فکر سے دوسری طرز فکر میں داخل ہونے کے لئے پہلی طرز فکر کی نفی کرنا پڑتی
ہے۔ ایک طرف اپنی انا کی نفی ہوتی ہے اور دوسری طرف بندہ اللہ کی صفات کو اپنے
اوپر محیط کرلیتا ہے۔ جیسے جیسے صفات محیط ہوتی ہیں، طرز فکر تبدیل ہوجاتی ہے۔۔۔
صفات احاطہ کرکے بندہ کا ذہن بن جاتی ہیں۔
رمضان المبارک کے بیس روزوں میں ظاہری عمل اور ظاہری
حواس کے ترک سے روزہ دار غیب کی دنیا سے قریب ہوجاتا ہے۔
ابدال حق قلندر بابا اولیا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
کہ رمضان المبارک میں لیلۃ القدر آنے تک روزہ دار کے ذہن کی رفتار ستر ہزار گنا ہوجاتی
ہے۔ اس رفتار سے انسان۔۔۔ حضرت جبرائیل ؑ اور فرشتوں کو اللہ کے حکم سے دیکھ لیتا
ہے۔ حضرت جبرائیل ؑ ایسے شخص سے مصافحہ کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے،
" بے شک ہم نے اسےلیلۃ القدر میں نازل
کیا۔ اور تمہیں کیا ادراک
کہ کیا ہے
لیلۃ القدر۔ لیلۃ القدر بہتر ہے ہزار مہینے سے،اترتے
ہیں اس میں روح اور فرشتے اللہ کے حکم سے ،
سلامتی ہےیہ رات طلوع ِ فجر تک۔ " (سورۃ القدر:1-5(