Topics

ساوتری سے ملاقات


 

                اس مقصد کی خاطر وہ دریائے سندھ کے بیچوں بیچ واقع جزیرہ سادھو بیلا کے پنڈتوں سے بھی مل چکا تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسا مہاپرش نہ تھا جو اس کی کھوئی ہوئی چیز واپس دلا دیتا۔

                اس زمانے میں دریائے سندھ پر ایوب برج نہیں تھا بلکہ انگریزوں کا بنایا ہوا قینچی والا پل تھا جس پر صرف ریل ہی گزر سکتی تھی اور آدمیوں کے گزرنے کے لئے ایک جانب تنگ سا راستہ تھا۔

                سکھر اور روہڑی کے درمیان آنے جانے والے لوگ پل سے پیدل چل کر تانگوں میں بیٹھا کرتے تھے۔ ایک شام جبکہ سورج مغرب میں چھپ چکا تھا اور اس کی تمازت سے دریائے سندھ کا پانی سرخ ہو رہا تھا۔ پنڈت ہری رام بھی گھر جانے کی خاطر ایک تانگہ میں جلدی سے بیٹھ گیا۔ تانگہ میں دوسری سواریاں بھی بیٹھی ہوئی تھیں اور کوچوان گاہے بگاہے ان سے باتیں بھی کرتا جا رہا تھا۔

                ہری رام کو تانگہ والے کی آواز کچھ مانوس سی لگی۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا اور حیرت و استعجاب سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا…………تانگہ والا پیر حاضر شاہ تھا۔ صرف اس کا لباس بدلا ہوا تھا اس نے سر پر شیشوں جڑی سندھی ٹوپی پہن رکھی تھی اور کاندھوں پر خوش رنگ اجرک پڑی ہوئی تھی۔

                پنڈت ہری رام نے ان کا نام لے کر پکارا۔ تانگہ والے نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔

                اے میاں…………میں نہ پیر ہوں…………نہ فقیر ہوں…………تانگہ والا ہوں…………صرف تانگہ والا۔

                نہیں…………نہیں…………تم پیر حاضر شاہ ہو…………پنڈت ہری رام نے نہایت ہی وثوق سے کہا۔

                اس کی یہ بات سن کر دوسری سواریاں بھی تانگہ والے کو تکنے لگیں۔

                تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے بھائی…………تانگہ والے نے اس ہی طرح سامنے سڑک پر نظریں دوڑاتے ہوئے جواب دیا…………ہم شرابی کبابی تانگے والا بھلا پیر حاضر شاہ اور پیر غائب شاہ کیسے ہو سکتے ہیں؟…………ہم تو اللہ کے گنہگار بندے ہیں۔

                اتنا کہہ کر اس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چابک کو دو تین بار ہوا میں لہرایا…………شائیں شائیں …………چابک کی آواز سنتے ہی گھوڑے نے سرپٹ دوڑنا شروع کر دیا۔

                پنڈت ہری رام خاموشی سے اس کا چہرہ تکنے لگا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا…………کچھ بھی نہیں۔

                تانگہ والا پیر حاضر شاہ تھا یا نہیں…………اس سوال نے پنڈت ہری رام کو الجھن میں ڈال دیا۔

                بھلا یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ پیر حاضر شاہ کو پہچاننے میں غلطی کرے۔ پیر حاضر شاہ کو تو قیامت کے دن بھی نہیں بھول سکتا تھا۔ پنڈت ہری رام نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس تانگہ والے کی حقیقت جان کر رہے گا۔

                سکھر شہر کے بیچوں بیچ انگریزوں کا بنایا ہوا گھنٹہ گھر ہے۔

                یہ گھنٹہ گھر ہی اس زمانے میں شہر کا مرکز تھا۔ کیونکہ یہاں سے اندرون شہر چار جانب سڑکیں نکلتی تھیں۔ جن میں سے ایک سٹیشن کی طرف…………دوسری شاہی بازار کی طرف…………تیسری بیراج کالونی کی طرف اور چوتھی معصوم شاہ مینارہ کی طرف بل کھاتی ہوئی چلی گئی تھی۔ گھنٹہ گھر کے اسی چوراہے پر اسٹیشن جانے والی سڑک کے کنارے تانگہ اسٹینڈ بھی تھا اور یہاں سے ہی لوگ تانگوں میں بیٹھ کر شہر کے اطراف میں جایا کرتے تھے۔

                صبح ہی صبح…………پنڈت ہری رام نے تانگہ اسٹینڈ پر جا کر دوسرے کوچوانوں سے حلیہ بتا کر معلومات حاصل کیں۔

                اسے پتہ چلا کہ اس حلیہ کا کوچوان معصوم شاہ مینارہ کے پیچھے ایک جھونپڑی میں تنہا رہتا ہے۔ اس کے گھر کا پتہ معلوم ہونے کے بعد پنڈت ہری رام اس جگہ پہنچ گیا۔ اس زمانہ میں معصوم شاہ مینارہ کے پیچھے ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین نے جھونپڑیاں ڈال رکھی تھیں…………جن میں وہ بیوی بچوں کے ساتھ گزارہ کر رہے تھے۔

                پنڈت ہری رام تانگہ والے کا حلیہ بتاتا ہوا اس جھونپڑی تک پہنچ گیا۔

                کوچوان…………جو واقعی پیر حاضر شاہ تھا، اشراق کی نماز سے فارغ ہوا ہی تھا کہ اچانک اسے دروازہ پر پنڈت ہری رام کھڑا نظر آیا۔

                اسے اپنے سامنے دیکھ کر وہ لمحہ بھر کو چونکے۔ لیکن پھر نہایت ہی خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہوئے بولے۔

                آخر تم مجھ تک پہنچ ہی گئے۔

                میرا دل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ آپ پیر حاضرشاہ نہیں ہیں…………پنڈت ہری رام نے فتح مندی سے جواب دیا۔ اچھا…………انہوں نے نہایت ہی دلفریب مسکراہٹ سے کہا۔ پھر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اندر لاتے ہوئے بولے…………جب تم مجھے پہچان ہی گئے ہو تو کسی سے میرا ذکر نہ کرنا۔

                وہ کیوں؟…………پنڈت ہری رام نے تعجب سے پوچھا۔

                پچھلی باتوں کو دہرانے سے کیا فائدہ؟…………انہوں نے بچھی ہوئی چٹائی پر بیٹھتے ہوئے کہا…………ویسے بھی میں خود کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔

                واہ…………یہ بھی خوب رہی…………پنڈت ہری رام نے مزاحیہ لہجے میں کہا۔ بھگوان کے اوتار ہو کر اس کے بندوں سے خود کو چھپا رہے ہو۔ خیر چھوڑو…………تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکو گے…………پیر حاضر شاہ نے جواب دیا اور دوبارہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولے۔ تمہارے لئے ناشتہ کا انتظام کرتا ہوں۔

                اس کے بعد وہ اپنی جھونپڑی کے دروازہ پر پڑے ہوئے ٹاٹ کا پردہ ہٹا کر نکل گئے۔

                پنڈت ہری رام نے تنہائی سے فائدہ اٹھا کر جھونپڑی میں نظریں دوڑائیں۔ نہایت ہی مختصر سا سامان تھا۔ ایک جانب بانوں سے لپٹا ہوا پلنگ تھا جس کی پائنتی لپٹا ہوا بستر رکھا تھا۔ پلنگ کے نیچے ہی ٹین کا صندوق تھا۔ ایک جانب گھڑونچی پر مٹکا رکھا ہوا تھا۔ جس پر سلور کا گلاس تھا۔ اور اس کے قریب ہی دو میلے کپڑوں کے جوڑے لٹک رہے تھے۔

                پیر حاضر شاہ کی قناعت پسندی سے وہ متاثر ہوا…………اللہ کے برگزیدہ بندوں کے پاس دنیا میں گزارہ کرنے کے لئے یہی بہت کچھ ہوتا ہے۔

٭×××××××××××٭

                کچھ دیر بعد پیر حاضر شاہ دو شیشے کے چھوٹے گلاسوں میں چائے اور ایک پلیٹ میں ڈھیر سارے بسکٹ لئے دوبارہ جھونپڑی میں داخل ہوئے اور چٹائی پر پنڈت ہری رام کے سامنے رکھتے ہوئے بولے۔

                ہوٹل میں یہی بسکٹ تھے…………میں بھی انہیں پر گزارہ کرتا ہوں۔

                یہاں بھی مجلس تو جمتی ہو گی؟…………پنڈت ہری رام نے پلیٹ سے ایک بسکٹ اٹھا کر پوچھا۔

                میں نے تمہیں بتایا نا…………پیر حاضر شاہ نے جواب دیا کہ میں نے کسی کو اپنے بارے میں نہیں بتایا…………یہاں ہندوستان والی بات نہیں ہے۔

                تم ہندوستان سے کب آئے ہو؟

                یہی کوئی چار سال ہو گئے…………پنڈت ہری رام نے مختصر جواب دیا۔ اور ہم سے آج ملے ہو…………انہوں نے شکوہ آمیز لہجہ میں کہا۔ پھر فوراً ہی سنبھل کر بولے…………اب کس منزل پر ہو۔

                پنڈت ہری رام نے ہاتھ میں پکڑا ہوا بسکٹ دوبارہ پلیٹ میں رکھ دیا اور نہایت ہی افسوس سے بولا…………اب میں کسی بھی منزل پر نہیں ہوں…………میرے لئے منزلیں ختم ہو گئیں ہیں اور میں آج بھی وہیں پر ہوں جہاں سے چلا تھا۔

                دراصل…………تم نے منزل پانے کی کوشش ہی نہیں کی…………پیر حاضر شاہ نے نہایت ہی ٹھنڈے لہجہ میں کہا…………تم نے چند ماورائی طاقتیں حاصل کرنے کے بعد سب کچھ انہی کو سمجھ لیا تھا…………تم نے اللہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی۔

                میرے مذہب میں جس طرح سے ماورائی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے وہ میں نے حاصل کر لی تھی…………پنڈت ہری رام نے جواب دیا…………اور تم سے ملاقات ہونے کے بعد میں نے ویرانوں میں سخت ریاضت کی۔ جس کی وجہ سے مجھے بے پناہ ماورائی طاقتیں حاصل ہو گئی تھیں۔

                لیکن اب کہاں ہیں وہ تمہاری ماورائی طاقتیں…………پیر حاضر شاہ نے تنک کر پوچھا۔

                سب کچھ مل جانے کے بعد بھی مجھے سکون نہیں تھا…………پنڈت ہری رام نے خلا میں دیکھتے ہوئے کہا…………تم نے مجھے انسانوں سے پریم کرنے کو کہا تھا اور میں اس ہی پریم کی جستجو میں کوشیلا تک پہنچ گیا۔

                میں جانتا ہوں…………پیر حاضر شاہ نے مسکرا کر کہا…………پھر اس کی طرف گلاس بڑھاتے ہوئے بولے…………مکافات عمل کے تحت تم جن جن مراحل سے گزرے ہو۔ مجھے سب علم ہے لیکن میں نے تمہیں جس ‘‘محبت’’ کا درس دیا تھا وہ…………وہ نہیں تھا جو تم سمجھتے ہو۔

                نہیں…………وہ یہی تھا…………پنڈت ہری رام نے زور دے کر کہا…………سچا پریم کیا ہوتا ہے یہ مجھے کوشیلا سے ملنے کے بعد معلوم ہوا…………عورت کے بغیر آتما کو سچی خوشی نہیں ملتی۔

                مجھے تمہاری بات سے انکار نہیں…………پیر حاضر شاہ نے جواب دیا۔

                لیکن اگر تم میری بات پر عمل کرتے تو آج…………کسی نہ کسی مقام پر ضرور ہوتے۔

                درحقیقت اس دور میں کسی دوسرے مذہب کا سہارا لینا میں برا سمجھتا تھا۔ پنڈت ہری رام نے مسکرا کر جواب دیا۔ یہ تو اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے…………پیر حاضر شاہ نے قدرے ہنس کر کہا۔

                تم نے کیا راہ نمائی حاصل کی ہے…………پنڈت ہری رام نے اچانک طنز کیا۔

                میں جو کچھ بھی تھا یا جو کچھ بھی ہوں راہنمائی سے ہوں…………پیر حاضر شاہ نے نہایت ٹھنڈے لہجہ میں کہا۔ دیکھئے پیر صاحب…………پنڈت ہری رام نے چبھتے ہوئے لہجہ میں کہا…………جہاں تک ماورائی علوم کا تعلق ہے تو آپ جانتے ہیں میں بھی اس علم سے فیض یاب ہو چکا ہوں مزہ تو جب ہے کہ آپ کوئی ایسا کرشمہ دکھائیں جسے میں نہ جانتا ہوں۔

                کیا مطلب…………پیر حاضر شاہ نے بھولے پن سے پوچھا۔

                بات یہ ہے…………پنڈت ہری رام ان کی طرف جھک کر سرگوشی سے بولا…………میں یہاں آ کر مالی مشکلات میں مبتلا ہو گیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ایسا وسیلہ…………               

                تم نے جو شادی کی تھی…………پیر حاضر شاہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا…………کوشیلا تو بہت کچھ اپنے ساتھ لائی ہو گی۔

                ہم ہندوستان سے ایسے افراتفری کے عالم میں آئے کہ وہ کچھ زیادہ نہ لا سکی…………پنڈت ہری رام نے اس ہی طرح سرگوشی سے بتایا۔

                اللہ پر بھروسہ رکھو…………انہوں نے آسمان کی جانب دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت اٹھا کر کہا…………اللہ سب کچھ ٹھیک کر دے گا سب کچھ۔

                کیا یہ ممکن نہیں…………کہ جس طرح ہندوستان میں تم فکر معاش سے بے نیاز تھے اس ہی طرح کا مجھے بھی کوئی وسیلہ بتا دو…………نہیں بھئی نہیں…………ایسا ہونا ممکن نہیں…………پیر حاضر شاہ نے فضا میں ہاتھ لہرا کر بیزاری سے کہا۔

                بس…………پنڈت ہری رام نے زور سے ہنس کر کہا…………یہی ہے تمہارا علم…………تمہاری ماورائی طاقت۔

                نہیں…………یہ بات نہیں…………پیر حاضرشاہ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

                پھر اس کی پیشانی پر نظریں جما دیں جیسے اس کی تقدیر کا لکھا پڑھ رہے ہوں۔

                پھر کیا بات ہے…………پنڈت ہری رام نے اس ہی طرح پوچھا۔

                تم…………تم صبر نہیں کرو گے…………پیر حاضر شاہ نے اس کی پیشانی سے نظریں ہٹا کر جواب دیا۔

                جب تم میرے کام نہیں آ سکتے ہو…………پنڈت ہری رام نے کھلے لفظوں میں کہا…………تو کسی اور کے کیا کام آسکتے ہو؟ تم نے یہی رہنمائی حاصل کی ہے۔

                وہ اس کی بیزاری اور غصہ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بولے…………تمہارے مزاج میں آج بھی وہی اکھڑا پن، ضد، ہٹ دھرمی اور طعن شامل ہے۔

                پیر حاضر شاہ کی یہ بات سن کر پنڈت ہری رام سنبھلا…………واقعی اس کا مزاج آج بھی پہلے ہی جیسا تھا…………وہ آج بھی دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھتا تھا۔ ہندوستان میں فکر معاش سے اس لئے بے تعلق تھا…………کہ لوگ مجھے کچھ نہ کچھ دے جایا کرتے تھے۔

                ہونہہ…………تو آپ کو دست غیب حاصل نہیں تھا…………پنڈت ہری رام نے سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہا۔

                ہم فقیر لوگ ان چکروں میں نہیں پڑتے…………پیر حاضر شاہ نے لاپروائی سے جواب دیا…………ہمیں کامل یقین ہے کہ پیدا کرنے والا رزق بھی دے گا۔ بس ذرا جدوجہد کرنا پڑتی ہے…………ہاتھ پائوں چلانے پڑتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لو۔ میں تانگہ چلا کر پیٹ بھرتا ہوں۔

                تو پھر تم یہاں بھی پیری کا چکر چلا دو…………پنڈت ہری رام ن ے شرارت سے کہا…………چھپ چھپ کر نذرانہ لینے لگو…………کون پوچھے گا۔

                میں یہ نہیں کر سکتا…………انہوں نے پنڈت کی بات کا جواب دیا۔ یہاں میرے فرائض دوسرے ہیں۔

                کیا ہیں وہ فرائض؟…………پنڈت ہری رام نے قدرے تعجب سے پوچھا۔ لیکن اس میں طنز بھی چھپا ہوا تھا۔

                یہاں مجھے ابھی تک ظاہر ہونے کا حکم نہیں ملا ہے…………انہوں نے رازداری سے بتایا…………بس منشاء الٰہی کے مطابق خاموشی سے کام کئے جا رہا ہوں۔

                میرے کام نہ کرنے کا بہانہ خوب بنایا ہے تم نے…………پنڈت ہری رام نے تمسخر سے کہا اور ساتھ ہی چائے کا گلاس خالی کر کے سامنے رکھ دیا۔ پھر بے دلی سے بولا…………اچھا دوست…………اب اجازت دو۔ میں تمہارے پاس بڑی امیدیں لے کر آیا تھا۔

                ہمارے پاس سے کوئی نامراد نہیں لوٹا ہے…………پیر حاضر شاہ نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔ پھر اس کے اٹھنے سے پہلے پوچھا۔ وہ تمہاری بیوی کا منگل سوتر کہاں ہے؟

                یہ سن کر پنڈت ہری رام حیرت سے ان کا چہرہ تکنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کونسا علم ہے جس کے ذریعے پیر حاضر شاہ میرے اور میری بیوی کے بارے میں یہاں تک جانتے ہیں۔

                اس میں تو بڑا ہی قیمتی ہیرا تھا…………پیر حاضر شاہ نے مزید انکشاف کیا۔ اور پنڈت ہری رام کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے سامنے پیر حاضر شاہ نہیں بلکہ روحانی علوم کی کتاب کھلی ہوئی ہے۔

                تو…………تو…………تمہیں یہ بھی معلوم ہی ہو گا کہ وہ ہیرا کہاں ہے…………پنڈت ہری رام نے تعجب سے پوچھا۔

                ہاں۔ مجھے معلوم ہے…………پیر حاضر شاہ نے جواب دیا۔

                تو تم پھر…………بتائو ہیرا کہاں ہے…………پنڈت ہری رام نے بے تابی سے پوچھا۔ اس ہیرے کی بدولت میرے دن پھر جائیں گے۔

                یہ کام میں نہیں ساوتری کرتی ہے…………پیر حاضر شاہ نے بتایا…………وہی پوشیدہ رازوں سے پردہ ہٹاتی ہے۔

                ساوتری…………کون ساوتری…………پنڈت ہری رام نے پیشانی پر بل ڈال کر پوچھا۔

                ارے یار…………تم ساوتری کو بھول گئے…………پیر حاضر شاہ نے قہقہہ لگا کر کہا…………وہی ساوتری جسے تم شیو بھگوان کی داسی بنانا چاہتے تھے۔

                اوہ…………تو کیا وہ یہاں ہے…………پنڈت ہری رام نے اس طرح پوچھا جیسے اسے سب کچھ یاد آ گیا ہو۔

                لیکن…………میں نے سنا تھا کہ وہ پاگل ہو کر مر گئی تھی…………پنڈت ہری رام نے قدرے تعجب سے کہا۔

                وہ پاگل کبھی بھی نہیں تھی۔ انہوں نے مسکرا کر جواب دیا…………وہ عشق حقیقی کی کیفیت تھی۔ پھر قدرے ٹھہر کر بولے…………جہاں تک اس کی موت کا تعلق ہے تو یہ بات تم خود اس ہی سے معلوم کرنا۔

                لیکن…………وہ ہے کہا؟…………پنڈت ہری رام نے ادھر ادھر نظریں دوڑا کر پوچھا…………اسے بلائو تو سہی۔ وہ یہاں نہیں رہتی۔ پیر حاضر شاہ نے بتایا۔ پھر اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولے۔ آج رات کو نو بجے کے بعد آ جانا۔ میں تمہیں اس کے پاس لے جائوں گا۔ وہی تمہارے ہیرے کے بارے میں بتائے گی۔

                کیا۔ تم ابھی نہیں ملا سکتے ہو؟…………پنڈت ہری رام نے بے قراری سے کہا اور اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔

                ابھی ملنا فضول ہے…………پیر حاضر شاہ نے بتایا…………جو میں نے وقت بتایا ہے وہی مناسب ہے۔ پھر وہ اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے بولے۔ جلد بازی اچھی نہیں ہوتی۔ میں نے جو وقت بتایا ہے آ جانا۔ ملا دوں گا۔

                پنڈت ہری رام نے اب مزید اصرار کرنا بے کار سمجھا۔ اس نے رات کو نو بجے آنے کا وعدہ کیا اور پیر حاضر شاہ سے مصافحہ کر کے رخصت ہو گیا۔

٭×××××××××××٭

                اس ہی دن کو ٹھیک نو بجے پنڈت ہری رام پھر پیر حاضر شاہ کے پاس پہنچ گیا۔ یہ سخت سردی کا موسم تھا۔ پیر حاضر شاہ نے اپنے چہرہ کے گرد مفلر اس طرح سے باندھ رکھا تھا کہ صرف آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔ یہی حال پنڈت ہری رام کا تھا۔ اس نے لمباسا گرم کوٹ پہن رکھا تھا اور سردی سے بچنے کی خاطر اس کے کالر کھڑے کر لئے تھے۔

                وہ دونوں معصوم شاہ مینارہ کی چڑھائی ختم کر کے نیچے گھنٹہ گھر کے پاس پہنچ گئے…………اس رات کو کوئٹہ کی یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں۔ جس کی وجہ سے سڑکوں پر آمد و رفت برائے نام تھی۔

                پیر حاضر شاہ پنڈت ہری رام کو ساتھ لئے ہوئے گھنٹہ گھر کے چوراہے سے آگے بڑھے اور ایک مکان کے دروازے پر کنڈی کھٹکھٹائی۔ اس وقت سکھر کا بازار حسن شہر کے وسط میں واقع تھااور اس کے گرد اونچی سے چار دیواری بنی ہوئی تھی…………سخت سردی ہونے کے باوجود اس علاقہ میں بڑی ہی گہما گہمی تھی…………عورتیں سولہ سنگھار کئے مردوں کا دل لبھانے میں مشغول تھیں۔

                یہ دو کمروں کا چھوٹا سا مکان تھا۔ دونوں کمرے برابر تھے۔ ان میں دائیں جانب والا کمرہ بڑے ہی سلیقہ سے سجا ہوا تھا۔ پورے کمرہ میں ایک نہایت ہی بیش قیمت خوبصورت قالین بچھا ہوا تھا۔ دیواروں کے ساتھ ریشمی کپڑوں کے گائو تکیے رکھے ہوئے تھے۔

                پیر حاضر شاہ پنڈت ہری رام کو لئے ہوئے قالین پر ایک گائو تکیے کے سہارے بیٹھ گئے۔

                پنڈت ہری رام متحیر نظروں سے کمرہ کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ سامنے والے دروازے پر پڑے ہوئے پردہ کو حرکت ہوئی اور ساوتری سفید بے داغ لباس میں نمودار ہوئی۔ اس کے گلے میں چنبیلی کا ہار…………بالوں میں موتیوں کا گجرا…………اور ہاتھوں میں فیروزی رنگ کے دانوں کی تسبیح تھی۔ اس لباس میں اس سج دھج میں اس کا حسن اور بھی نکھر آیا تھا…………وہ آسمان سے اتری ہوئی حور دکھائی دے رہی تھی۔

                پنڈت ہری رام نے اسے دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں کو اس طرح مچکایا۔ جیسے اس کے حسن کی تابانی سے آنکھیں خیرہ ہو گئیں ہوں۔ ساوتری نچے تلے قدموں سے چلتی ہوئی پیر حاضر شاہ کے سامنے دو زانوں سر جھکا کر بیٹھ گئی اور نہایت ہی عقیدت و احترام سے بولی۔

                محترم و مقدس بزرگ۔ آپ کی تشریف آوری میرے لئے باعث فخر ہے۔ آپ حکم کرتے یہ کنیز خود آستانہ پر حاضر ہو جاتی۔ ارے بھئی ہماری ملاقات تو ہوتی رہتی ہے…………پیر حاضر شاہ نے خوش دلی سے جواب دیا۔ پھر پنڈت کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا…………تمہیں ان سے بھی تو ملانا تھا۔

                کیا حال ہے پنڈت جی۔ کیسے مزاج ہیں…………ساوتری نے بڑے ہی تپاک سے پوچھا۔

                ٹھیک ہوں…………پنڈت ہری رام نے شش و پنج سے جواب دیا۔ ابھی تک اس کی سمجھ میں ساوتری کا یہ روپ نہیں آ رہا تھا۔

                ارے بھئی پیر حاضر شاہ بولے۔ پنڈت ہری رام کی بیوی کا منگل سوتر کھو گیا ہے۔

                اچھا تو آپ نے شادی کر لی ہے…………ساوتری نے خوشی سے پوچھا۔

                پیر حاضر شاہ نے ٹھنڈے لہجہ میں کہا۔ منتشر ذہن کے سکون کے لئے کچھ نہ کچھ بہانہ تو چاہئے۔ ہندوستان سے آتے وقت وہ منگل سوتر کہیں کھو گیا ہے۔ اس میں ایک بڑا ہی قیمتی ہیرا تھا۔

                پیرحاضر شاہ کن انکھیوں سے پنڈت کی طرف دیکھ کر دوبارہ بولے…………ان معاملات کو تو تم ہی جان سکتی ہو۔ لہٰذا یہ اس سلسلے میں تمہارے پاس آئے ہیں۔


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔