Topics

زمین کی بیلٹ

 

زمین تین حصے پانی میں ہے اور ایک حصہ آبادیاں ہیں جبکہ پانی کے اندر بھی پہاڑ، نباتات، جمادات اور جواہرات موجود ہیں زندگی کی طرزیں دونوں زون میں ایک ہیں زندگی چھپنے اور ظاہر ہونے کی بیلٹ پر متحرک ہے۔

زمین طبقات یا پرت در پرت بنی ہوئی ہے۔ جس طرح پیاز میں بے شمار پرت در پرت ہیں اسی طرح زمین بھی طبقات یا پرت در پرت تخلیق کی گئی ہے۔ زمین کو ادھیڑا جائے تو نظر آتا ہے کہ زمین کا ہر پرت ایک تخلیق ہے۔ کسی پرت کا نام لوہا، کسی کا نام کوئلہ، کسی کا نام تانبہ یا پیتل کسی پرت کو یورینیم اور کسی پرت کو گیسز کا پردہ۔۔ ایسا پردہ جس پر زندگی چل رہی ہے اس کے علاوہ معدنیات، تیل، پیٹرول اور نامعلوم کون کون سی مخلوقات اسی طرح آباد ہیں جس طرح زمین کے اوپر نظر آتی ہیں۔

جیالوسٹ یہ بات جانتا ہے کہ ذرات دراصل نئی نئی تخلیقات کے فارمولے ہیں۔

مٹی کہیں سرخ ہے، کہیں سیاہ ہے، کہیں زرد ہے، کہیں بھربھری ہے، کہیں چکنی ہے۔ کہیں پہاڑ کی طرح سخت ہے اور کہیں دلدل ہے۔ ایک خاصیت جو ہر جگہ مظاہرہ کرتی ہے یہ ہے کہ زمین ماں کی طرح اپنے بطن میں بیج کو نشوونما دیتی ہے ماں پہلے دن سے بچے کو اپنے اندر مقررہ نظام کے تحت تخلیقی پروسیس کے مطابق نشوونما کرکے پیدا کرتی ہے اسی طرح "ماں زمین" بھی بے شمار بیجوں کو پروان چڑھا رہی ہے۔

 جب زمین کے اوپر موجود تخلیقات پر تفکر کرتے ہیں تو یہ بات یقین کا درجہ حاصل کرلیتی ہے کہ زمین دراصل کسی تخلیق کو مظہر بنانے کے لئے بنیادی مسالہ فراہم کررہی ہے۔ جس طرح کسی کھلونے کی ڈائی میں پلاسٹک ڈال کر کھلونا بنالیا جاتا ہے۔ زمین کو اللہ تعالیٰ نے یہ وصف بخشا ہے کہ وہ ہر ڈائی کے مطابق خود کو ڈائی کے اندر ڈھال لیتی ہے۔

 بیج پر غور و فکر روشنی دکھاتا ہے کہ ہر بیج ایک ڈائی ہے۔

زمین کا وصف یہ ہے کہ وہ جب کسی سانچہ کو استعمال کرتی ہے تو خود کو جتنا چاہے پھیلالیتی ہے، جتنا چاہے سمیٹ لیتی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے بیج کو جورائی کے دانے سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔ اس طرح وسعت دے دیتی ہے کہ وہ بہت بڑا درخت بن جاتا ہے۔ زمین کا وصف یہ بھی ہے کہ تین حصے پانی کی تقسیم اس طرح کردیتی ہے کہ وہ پانی ڈائی کے مطابق اعضا بن جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانی کا بہاؤ رک جائے تو پانی سڑ جاتا ہے۔ بدبو اور تعفن پیدا ہوجاتا ہے۔ ہر مخلوق میں تین حصے پانی ہے۔مخلوق جب تک حرکت میں رہتی ہے فطرت سے قریب رہتی ہے اور جب کوئی فرد اپنی فطرت یعنی حرکت سے انحراف کرتا ہے تو جمود طاری ہوجاتا ہے اور جمود بالآخر تعفن ہے۔

زمین، زمین کے اندر اور اوپر جتنے بھی طبقات ہیں، اشجار، نباتات، معدنیات اگر ان کی فطرت کو سمجھا جائے تو حرکت کے علاوہ کچھ نہیں۔

اس وقت زمین پر سات ارب کی آبادی ہے۔ یہ اس آبادی کا ذکر ہے جو زمین کا تیسرا حصہ ہے۔ زمین پر آباد بستیوں اور شہروں کو دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ آبادیاں اور شہر دراصل valleys ہیں کہیں یہ گھاٹیاں اور Valleys چھوٹی ہیں اور کہیں یہ بڑی ہیں۔شمال میں پہاڑیاں ہیں۔جنوب میں گھاٹیاں یا کھلے میدان ہیں۔ان گھاٹیوں یا کھلے میدانوں کو پہاڑوں سے دبایا گیا ہے۔

کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا اور پہاڑوں کو اس کی میخیں نہیں ٹھہرایا۔ (6-7:78)

اور اطراف میں سمندر ہیں۔ سمندر کے اندر جزیرے ہیں اور یہ چھوٹے بڑے جزیرے ہی شہروں میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اندر کی آنکھ دیکھتی ہے کہ جو آبادی معلوم دنیا کہلاتی ہے۔ آبادیاں اس کے علاوہ بھی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سائنس نے بہت ترقی کی اور یہ ترقی پانچ سے دس فی صد تک انسانی صلاحیتوں کا مظاہرہ ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی صلاحیتوں کا صرف دس فیصد استعمال کرتا ہے تو ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ نوے فی صد صلاحیتیں کیا ہیں؟

کھربوں سال میں انسان اس قابل ہوا ہے کہ وہ دس فیصد صلاحیتوں کا استعمال کرسکا ہے۔ نوے فیصد صلاحیتیں اگر استعمال کی جائیں تو اس کے لئے کتنا وقت درکار ہوگا؟

"اور وہی ذات ہے جو اتارتی ہے پانی کو آسمانوں سے اور نکالتی ہے اس میں سے ثمرات اور یہ ثمرات تمہارے لئے رزق ہیں۔" (البقرۃ 3؛22)

یعنی انسان کی زندگی کا دارومدار اس انرجی، توانائی، فوڈfood، پانی کے اوپر ہے اور پانی کا وصف مسلسل حرکت ہے۔معاشرے میں وہی فرد ممتاز ہوتا ہے جو پانی کی فطرت کے مطابق زندگی گزارتا ہے اور جو اس سے انحراف کرتا ہے اس پر جمود طاری ہوجاتا ہے جہاں جمود ہو وہاں تعفن پھیل جاتا ہے اور یہ تعفن ہی اضطراب، پریشانی، بے چینی اور بیماری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرکت کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ تخریب ہے اور دوسرا رخ تعمیر ہے۔ تخریبی رخ شیطنت ہے اور تعمیری رخ رحمت ہے۔ موجودہ ترقی کا دور تعمیر کے پردے میں تخریب ہے۔ اس لئے کہ یہاں ہر ترقی کے پیچھے لالچ، زرپرستی، خودنمائی، اقتدار کی خواہش، تباہی، بربادی اور ہلاکت خیز طرز فکر ہے۔

 ایک معیوب رخ یہ بھی ہے کہ چالاک و عیار لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی تہی دست مخلوق کو اپنے لئے ذریعہ معاش بنالیا۔ کون نہیں جانتا آج کا دور آرام و آسائش، روپے پیسے کی بہتات، زرپرستی، اقربا پروری، فنا ہونے والی ہر چیز کو بقا سمجھنے کی بالادستی، امارت کے اور غربت کے درمیان دیواریں بنادی گئی ہیں۔۔ لیکن کل جو طوفان نوحؑ آچکا ہے وہ کل پھر آج بن جائے گی۔ جب ایسا ہوگا تو زرپرستی کا عروج اس طرح خاک میں مل جائے گا کہ زر و جواہرات، محلات، اطلب و کمخواب بنانے والی فیکٹریاں سب تہہ و بالا ہوجائیں گی۔

 تخلیق کرنے والی ہستی صاحب قدرت اللہ کا ارشاد ہے:

"اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ان کے لئے دردناک عذاب کی بشارت ہے۔"  (التوبۃ: 34(

نادار،یتیم ویسیر اور مفلوک الحال بچوں اور بڑوں کا خیال رکھیں۔

"لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا کریں۔ جواب دو کہ جو مال بھی  تم خرچ کرو ، اپنے والدین، اپنے رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی تم کروگے۔ اللہ اس سے باخبر ہے۔(البقرۃ: 2:5)

اللہ کے حضور دعا ہے کہ ہم سب کو توفیق دے کہ زندگی میں توازن برقرار رہے۔ آمین


 

Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام