Topics
انسان کے اندر جب سوچنے
سمجھنے کا پیٹرن متحرک ہوتا ہے تو ہر عمل میں گہرائی نظر آتی ہے۔ ایک عام آدمی ریت
پر سے گزرتا ہے لیکن جس آدمی کے اندر تفکر ہو وہ ریت میں چمک پر غور کرتا ہے اور
ریت کی چمک دمک سے دماغ کے وہ خلیے جو غیب کا مشاہدہ کرتے ہیں چارج ہوجاتے ہیں نظر
یہ آتا ہے کہ ریت کا ہر ذرہ جاندار اور پرکشش ہے، انسان سے کچھ کہناچاہتا ہے۔۔۔
ریت کے ذرات بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری ایک دنیا ہے اور یہ دنیا آدمی کی دنیا کی
طرح فسانہ ہے۔
ریت کے ذرات بولتے ہیں۔
ایک وقت تھا بہت بلند اور ارفع و اعلیٰ برفیلے پہاڑوں پر ہمارا حجم منوں ٹنوں تھا
وہاں سے ایک ذرہ جو کئی کئی ہزار ٹن وزنی تھا اپنے قبیلہ سے، ماحول سے، جنم دھرتی
سے الگ ہوا اور پانی کے طوفانی ریلے اسے بہالے گئے۔ لہروں نے پہاڑ کو چٹانوں میں
تبدیل کیا، چٹانوں کو توڑ کر ریت کے ذروں میں بدل دیا اور بالآخر پہاڑ نے ریت کے
ذرات میں تبدیل ہو کر سمندر کی تہہ کو اپن مسکن بنالیا۔
ریت کا یہ ذرہ اصل میں
ایک پہاڑ تھا جو ٹوٹ کر، بکھر کر ریت میں تبدیل ہوا۔ ریت کیا ہے۔۔۔؟ مٹی ہے۔۔۔ مٹی
کبھی پہاڑ بن جاتی ہے۔۔۔ کبھی خود کو دلہن کے روپ میں دیکھنے کے لئے گل و گلزار کا
روپ دھار لیتی ہے، اونچے نیچے درخت پر لگے ہوئے رنگارنگ پھول، لیکن بے رنگ نظر آنے
والی دنیا میں رنگین پھل آم، سیب، انار، انگور، نارنگی (جبکہ نارنگی کا ہر روپ
رنگین ہے)۔۔۔ مٹی سے بت اور بت خانہ کی عمارت بنتی ہے۔ جب بت ، بت خانہ اور عمارت
ٹوٹ کربکھرتی ہے تو ریت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اولی الا۔ابصار۔۔۔ صاحب
نگاہ اللہ کی تخلیقات کو جب دیکھتا ہے وہ خود کو رنگین دیکھتا ہے۔
اصل بات دیکھنے کی ہے۔۔ دیکھنا یہ بھی سمجھا
جاتا ہے کہ بندہ سب کچھ دیکھتا ہے لیکن وہ کچھ نہیں دیکھتا۔ دیکھنے کی ایک طرز یہ
ہے کہ بندہ بشر گلاب دیکھتا ہے۔۔ پھول کی خوبصورتی بظاہر گلاب کی پنکھڑیوں اور
خوشبو میں ہوتی ہے لیکن خوشبو کیا ہے۔۔؟ اس کے بارے میں کوئی نہیں بتاتا کہ ہوا کا
جھونکا کبھی خوشبو، کبھی بدبو کا احساس بنتا ہے اور کچھ فاصلہ پر یہ احساس قوت
شامہ کو متاثرکرتا ہے لیکن خوشبو اور بدبو نظر نہیں آتی ہے۔
کم و بیش سات ارب آبادی
میں اکثریت پھولوں کی خوشبو، رنگ آمیزی، نرم و ملائم پنکھڑی سے متاثر ہوتے ہیں
لیکن یہ نہیں سوچتے کہ زمین ایک ایسا printing press ہے جو ساٹھ سے زیادہ رنگ چھاپ رہا ہے۔رنگ کیا
ہے۔۔؟ تصوف کے نقطۂ نظر سے دوری ہے۔ ایسی دوری جو غیب ہوجانے کے بعد بھی قائم رہتی
ہے۔ گلاب کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ گلاب نسلی امتیاز کا حامل ایک پھول ہے اور
یہ ازل سے ہے۔ اس طرح زمین پر اور زمین کے اندر ہر مخلوق رنگین ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے،
اور یہ جو بہت سے رنگ
برنگ کی چیزیں اس نے تمہارے لئےزمین میں پیدا کی ہیں ، ان میں غوروفکر کرنے والوں
کے لئے نشانی ہے۔ (النحل: 13(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر چھوٹی سے چھوٹی اور
بڑی سے بڑی مخلوق کی دنیاوی مثال یہ ہوسکتی ہے کہ ہر مخلوق ایک گھروندہ ہے۔ بنتا
ہے اور ٹوٹ جاتا ہے۔ گھروندے میں ایک ہستی چھپی ہوئی ہے ہستی کا ادراک ہوجائے تو
دنیا ہے۔ہستی کا ادراک نہ ہو تو ہر چیز ریت کے اندر گم ہے۔
سبک خرام پانی، ابلتے
چشمے، خلا سے گرتی آبشاریں، پانی میں لاتعداد مخلوقات، رنگارنگ مچھلیاں، شجر و حجر
سب موجود ہیں۔
پانی میں ایک مخلوق صدف
ہے۔صدف سیپ کو کہتے ہیں۔ یہ انتہائی سخت سمندری کیڑا ہے، اس کے دونوں بازوؤں پر
کچھوے کی طرح سخت ہڈی کی ڈھال ہوتی ہے، جو اسے دوسرے جانوروں سے محفوظ رکھتی ہے،
پانچ برس میں جوان ہوتا ہے، بارش کے دنوں میں سطح پر آکر اپنے گرد خاص طرح کا جا
لا بنا کر مکڑی کی طرح خود کو محفوظ کرلیتا ہے۔
خوردبین دیکھتی ہے کہ
صدف (سیپ) تین پرت کا مجموعہ ہے۔
·
اوپر والا پرت سخت لچک دار اور سیاہی مائل سبز
رنگ۔۔
·
دوسرے پرت میں چونے کے بے شمار چھوٹے خانے اور
کئی طرح کے رنگ پیدا کرنے والے مادے۔
·
تیسرا چمکدار پرت، پرت در پرت ہوتا ہے۔۔۔ یہاں
موتی بنتا ہے۔
موتی کی پیدائش کے بارے
میں مختلف روایات ہیں۔
نو روز کے اکیسویں دن نیساں کا مہینہ شروع ہوتا
ہے، اس مہینے کے بادل ابر نیساں اور بارش آب نیساں کہلاتی ہے۔ ابر نیساں جب سمندر
پر برستا ہے تو سیپ سطح پر آکر منہ کھول دیتے ہیں اس طرح آب نیساں کے قطرے ان کے
منہ میں پڑتے ہیں، جس قدر بڑا قطرہ صدف کے پیٹ میں جاتا ہے، اتنا ہی بڑا موتی
تخلیق ہوجاتا ہے۔
موتی کی پیدائش کے
مقامات سمندر اور دریا ہیں۔ موتی انگریزی میں پرل(pearl) عربی میں لولو، سنسکرت میں موکنکم، ہندی میں
موکتا اور فارسی میں مروارید کہلاتا ہے۔ موتی خشخاش کے دانے سے لے کر کبوتر کے
انڈے کے برابر ہوتا ہے۔ اس کو دیگر پتھروں کی طرح تراشنا نہیں پڑتا۔ یہ قدرتی چمک
دمک رکھتا ہے۔ اس کی بہت اقسام ہیں۔موتی اپنی خوش رنگی اور چمک کے باعث مقبول ہے۔
خواتین میں اس کا استعمال بہت زیادہ ہے۔یہ بیش قیمت اور قدیمی جوہر ہے۔
سب سے پہلے موتیوں کا
رواج ہندوستان میں ہوا۔ ہندوؤں کی قدیم کتب میں اس کے پہننے اور اسے دیوتاؤں کی
نذر کرنے کے طریقے درج ہیں۔ قدیم مصر میں انہیں بتوں کی نذر کیا جاتا تھا، ایرانی
اور یونانی امرا ءکانوں میں موتیوں کی بالیاں پہنا کرتے تھے۔ اڑھائی سال قبل مسیح
میں مروارید خراج میں دیئے جاتے تھے۔ رومیوں میں موتی کا استعمال زمانہ قدیم سے
چلا آرہا ہے، شاہ روم کے پاس موتیوں کا بڑا ذخیرہ تھا۔ روم کی خواتین میں مروارید
اس قدر مقبول تھا کہ جو خریدنے کی سکت نہیں رکھتی تھیں وہ تہواروں پر اس کی
مالائیں کرائے پر حاصل کرتی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں
کا ذکر سورہ رحمن میں وضاحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
دونوں دریاؤں سے موتی
اور مرجان نکلتے ہیں اور تم اپنے ر ب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔(الرحمٰن
: 22-23)
قدر ت کی صناعی میں
موجود تخلیقات کا ذکر آپ نے پڑھا۔
سوال یہ ہے کہ پہاڑ میں بکھرے ہوئے رنگ، رنگوں
میں رنگارنگ پھول، پھولوں میں خوشبو، خوشبو میں راحت و سکون، سکون میں نیند، نیند
میں زمینی ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد دنیائیں۔ دنیاؤں میں دیدہ نادیدہ
مخلوقات۔۔۔زندگی اور موت۔۔۔ موت اور زندگی کا چھپنا اور ظاہر ہونا سب کیا ہیں۔۔۔؟
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق سب کا سب پانی اور پانی کی کارفرمائی ہے۔
قرآں کریم میں ارشاد ہے،
" آسمان
کی چھت بنائی اور آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کے ثمرات
نکال کر تمہارے لئے رزق پہنچایا۔"(البقرۃ: 22)
محترم قارئین آپ نےآیت پڑھی۔۔۔ سماعت سے ٹکرائی یعنی کانوں نے سنی۔۔۔
اس کی اگر equation بنائی جائے تو اس طرح
بنے گی۔
پانی+ مٹی+ زمین کے
اندر باہر رنگ برنگ کی گیسز = گلاب کا پھول اور انار وغیرہ۔
کرم فرما خواتین و
حضرات سوچیں، سمجھیں، دوستوں سے مشورہ کریں کہ تخلیقات کی اصل کیا ہے۔۔؟