Topics
میں آنکھیں ملتاہوا پلنگ
سے اٹھا۔ اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ مجھے اللہ رکھی کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ میں
کمرہ سے باہر نکل آیا۔ باہر تخت پر اللہ رکھی بیٹھی’ انگلیوں پر کوئی وظیفہ پڑھ
رہی تھی مجھے دیکھتے ہی بولی۔ تم اٹھ گئے۔
تو کیا میں سو گیا تھا۔
میں نے قریب آ کر پوچھا۔
میں تو یہی سمجھتی
ہوں……اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
وہ……وہ……عورت اور دوسرے
تمام لوگ کہاں گئے۔ میں نے اپنے اطراف میں نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
کون لوگ……اس نے اچنبھے سے
پوچھا۔
وہ تو کبھی کے اپنے گھر
جا چکے ہیں……اس نے بتایا۔
اس کا مطلب ہے……میں نے
قدرے تعجب سے کہا۔ تمہاری پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی۔
ارے نہیں……اس نے انکساری
سے جواب دیا۔ میں تو ناچیز بندی ہوں……یہ جو کچھ بھی تم نے دیکھا ہے۔ خواب میں
دیکھا ہے۔
اگر یہ خواب تھا……میں نے
سوچتے ہوئے کہا……تو عجیب خواب تھا……دو سال پہلے کا واقعہ حقیقت میں نظر آ رہا تھا۔
خواب میں تو
انسان……سیکڑوں سال پہلے کے واقعات پلک جھپکتے دیکھ لیتا ہے۔ اس نے جواب دیا۔
لیکن یہ خواب تو نہیں
تھا……مجھے جیسا یاد آ گیا۔ یہ تو تم نے میری پیشانی پر پھونک ماری تھی۔
تو پھر یہ پھونک کا کمال
ہوا۔ وہ زور سے ہنسی۔
نہیں پھونک کا کمال نہیں
تھا……میں جھنجھلا گیا۔
تو پھر کیا تھا……اس نے
معنی خیز انداز میں پوچھا۔ پھر خود ہی ملائم لہجہ میں بولی……تم کچھ نہیں
جانتے……کچھ بھی نہیں……تم تو مادی علوم جانتے ہو اورنہ تمہیں روحانیت کا پتہ ہے۔
تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں
نے اسی لہجہ میں کہا۔ لیکن میں ان شعبدہ بازیوں سے مرعوب ہونے والا نہیں ہوں……اگر
تم کچھ جانتی ہوتیں تو ان واقعات کی توجیہہ پیش کر دیتیں۔
اگر میں پیش بھی کر دوں
تو بھی تم اعتبار نہیں کرو گے۔ اس نے کہا۔
تم بتائو تو سہی……میں نے
اصرار کیا۔
تم……تم……مراقبہ کے بارے
میں جانتے ہو……اللہ رکھی نے پوچھا۔
ہاں……جانتا ہوں……میں نے
فخر سے جواب دیا۔ یہ ایک طرح کی عبادت ہے……حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم غار حرا
میں کیا کرتے تھے۔
اور بس……وہ مسکرائی۔
ابھی میں سوچ رہا تھا کہ
وہی خوبرو نوجوان نہ جانے کہاں سے نمودار ہو گیا……میں چونک گیا……کیونکہ میں نے اس
نوجوان کو پہلے بھی دیکھا تھا۔وہ نوجوان نہایت ہی ادب سے سر جھکائے اللہ رکھی سے
کہہ رہا تھا۔ ماں جی اب آپ کو کراچی شہر چلنا ہو گا۔
رہائش کا انتظام ہو
گیا……اللہ رکھی نے پوچھا۔
ہاں۔ ہو گیا……نوجوان نے
مختصر سا جواب دیا۔
تو پھر چلنے کی تیاری
کرو……اللہ رکھی نے اسے حکم دیا……وہ نوجوان روبوٹ کی طرح پلٹا اور سہ دری کے دروازہ
میں داخل ہو گیا۔ اس کے جاتے ہی میں اس طرح چونک گیا جیسے نیند سے بیدار ہوا ہوں۔
یہ……نوجوان کون ہے……میں
نے پوچھا۔
میرا ملازم ہے……اللہ رکھی
نے بتایا۔
تمہارا ملازم……میں نے
قدرے حیرانگی سے کہا……بڑا وہی ماڈرن ہے۔
ارے ہاں۔ اب کچھ سنبھل
گیا ہے……اللہ رکھی نے ہنستے ہوئے کہا……پہلے تو یہ بہت ہی بگڑا ہوا تھا۔
کیا مطلب……میں نے کچھ نہ
سمجھتے ہوئے پوچھا۔
پہلے یہ بڑا ہی بنا ٹھنا
پھرتا تھا……اللہ رکھی نے بتایا……لڑکیاں اسے دیکھتے ہی شادی کے لئے تیار ہو جاتی
تھیں۔ اب سمجھا بجھا کر ایک ہی حلیہ میں رہنے پر راضی کیا ہے۔
ہے تو واقعی حسین……میں نے
تعجب سے آنکھیں پھیلا کر کہا۔ لیکن حلیہ والی بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔
حسین ہے نا……اللہ رکھی نے
میری بات کی تائید کی۔ پھر سرگوشی سے بولی………یہ…………‘‘جن’’ ہے……لہٰذا جب چاہتا اپنا
حلیہ تبدیل کر لیتا تھا۔
یہ ‘‘جن’’ ہے……میں نے
قہقہہ لگایا۔ جن تو بڑے ہی ڈرائونے اور ہیبت ناک ہوتے ہیں۔ تم مجھے بے وقوف بنا
رہی ہو۔
بنے ہوئے کو کیا
بنانا……اللہ رکھی نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔ پھر تخت سے اٹھتے ہوئے بولی۔ اچھا اب
مجھے تو کراچی جانا ہے……تم بھی گھر جائو۔
پھر وہ دس روپے کا نوٹ
میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی……یہ……رکھ لو۔
مجھے اس کی ضرورت نہیں
ہے……میں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
انسان کو پیسے کی ہر وقت
ضرورت رہتی ہے……اس نے جواب دیا۔ اور دس روپے کا نوٹ زبردستی میری جیب میں ٹھونستے
ہوئے بولی……سدا وقت ایک سا نہیں رہتا……وقت نے تمہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے……بہت پیچھے۔
کیا مطلب……میں نے وضاحت
چاہی۔
اب جائو……اس نے روکھے
لہجہ میں کہا……جب گھر جائو گے تو خود ہی سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ آخری جملہ ادا
کرنے کے ساتھ ہی وہ تیزی سے دروازہ کی طرف بڑھی۔ اور غائب ہو گئی۔ میں اس کے آخری
جملوں پر غور کرتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل دیا۔
جب میں اپنے مکان کی طرف
جا رہا تھاتو عجیب سی تبدیلی محسوس کر رہا تھا۔ میرے قدموں کے نیچے کولتار کی سیاہ
سڑک تھی اور دونوں جانب بجلی کے کھمبے کھڑے تھے……پھر یہی نہیں۔ گائوں میں بھی
تبدیلی آ چکی تھی……میرے گائوں میں کچے مکانات بکثرت تھے۔ لیکن اب……وہاں کوئی بھی
مکان کچا نہیں تھا بلکہ ہر مکان پکا تھا اور گائوں ایک جدید بستی میں تبدیل ہو چکا
تھا۔
میں ایک ہی رات میں……اس
تبدیلی پر حیران و پریشان تھا……میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا……کچھ بھی
نہیں……میں بار بار سوچتاتھا کہ……کہیں کسی اور بستی میں تو نہیں نکل آیا……لیکن ذہن
بار بار اس خیال کی تردید کر دیتا تھا……میں اندازہ سے اس گلی میں داخل ہوا جس میں
ہمشیرہ کا مکان تھا اور اس مکان کے سامنے جا کھڑا ہو گیا اب یہ مکان بھی پختہ تھا
میں نے دروازہ پر دستک دی اور انتظار کرنے لگا۔ میرا خیال تھا کہ بہن یا بہنوئی
کوئی تو دروازہ کھولے گا لیکن جب دیر تک دروازہ نہیں کھلا تو میں نے دوبارہ دستک
دی اور اس کے ساتھ ہی دروازہ کھل گیا دروازہ کھولنے والی ایک ادھیڑ عمر اجنبی عورت
تھی۔
میں اس اجنبی عور کو دیکھ
کر سخت پریشان ہو گیا۔ اور ابھی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا……کہ اس نے سخت لہجہ میں
پوچھا……کیا بات ہے۔
میں نے اپنی بہن اور
بہنوئی کا نام بتاتے ہوئے کہا……وہ اس مکان میں رہتے تھے۔
ہاں رہتے تھے……اس عورت نے
پیشانی پر بل ڈال کر جواب دیا……پانچ سال پہلے وہ یہ مکان بیچ کر چلے گئے۔
پانچ سال پہلے……حیرت و
استعجاب سے میں نے کہا۔
لو۔ تو کیا میں جھوٹ کہہ
رہی ہوں۔ عورت نے کمر پر ہاتھ رکھ کر بڑی ہی اکڑ سے کہا۔ میرے پاس مکان کا اسٹامپ
ہے……لیکن تو کون ہے۔
یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔
میں نے مزید حیران و پریشان ہو کر کہا ۔ میں کل رات ہی تو انہیں یہاں چھوڑ کر گیا
ہوں اور تم۔
لو۔ اس کی سنو۔ اس عورت
نے ایک دوسری عورت کو مخاطب کیا۔ یہ کل رات اپنے بہنوئی اور بہن کو اس گھر میں
چھوڑ کر گیا تھا۔
اس عورت نے عجیب نظروں سے
مجھ گھورا……جیسے میں پاگل ہوں۔ پھر بڑے ہی طمطراق سے پوچھا……کیا نام تھا تیری بہن
اور بہنوئی کا۔
میں نے اسے نام بتائے۔
جا۔ اپنا کام کر……اس نے
اکھڑ لہجہ میں کہا……وہ تو پانچ سال پہلے یہ مکان بیچ کر کہیں چلے گئے۔
کہاں چلے گئے۔ میں نے بے
اختیار پوچھا۔
ہمیں کیا معلوم……عورت نے
ہاتھ نچا کر جواب دیا……پھر وہ پہلی والی عورت سے مخاطب ہوئی……بہن بہنوئی اس کے ہیں
اور پتہ ہم سے معلوم کر رہا ہے۔
پہلی والی عورت نے قدرے
شش و پنج سے کہا……مجھے تو کوئی پاگل دکھائی دیتا ہے۔
آخری الفاظ کے ساتھ ہی اس
عورت نے دروازہ بند کر لیا……اس کی ساتھی عورت نے بھی ایسا ہی کیا……اب میں عجیب
الجھن میں مبتلا ہو گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایک رات میں اتنی زبردست
تبدیلی کس طرح رونما ہو گئی۔ میں اس بارے میں جتنا بھی غور کرتا الجھتا جاتا تھا۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ، کچھ بھی نہیں……اس گائوں میں……اس بستی میں اور
کوئی میرا رشتہ دار نہیں تھا……میں نے راہ چلتے ہوئے چند لوگوں سے اس بستی کے بارے
میں پوچھا۔ انہوں نے میری ہر بات کا جواب……پانچ سال پہلے کے حوالہ سے دیا……اس کا
مطلب یہ تھا کہ ایک رات……جو کہ میں نے اللہ رکھی کی حویلی میں گزاری تھی……وہ پانچ
سال پر محیط تھی۔ اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں اس کے یہ الفاظ گونجنے لگے۔
وقت نے تمہیں پیچھے چھوڑ
دیا ہے۔
آخر کار میں نے فیصلہ
کیا……کہ واپس ‘‘اللہ رکھی’’ کے پاس جائوں اور اس سے یہ مسئلہ حل کرائوں یہ سوچ کر
میں دوبارہ اس حویلی کی جانب چل دیا۔
اللہ رکھی کو زمان و مکان
پر کنٹرول تھا۔ یا نہیں……مجھے کچھ نہیں معلوم۔ لیکن اس وقت میں جس صورتحال سے
دوچار تھا۔ اس کا حل اللہ رکھی کے پاس ضرور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں بستی سے نکل
کر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اس کی حویلی کی طرف چل دیا……لیکن جب میں سڑک عبور کر کے
ان درختوں کے جھنڈ کے قریب پہنچا جن کی اوٹ میں اس کی حویلی تھی۔ تو یہ دیکھ کر
بہت ہی پریشان ہوا……کہ اس کی حویلی تو خاک کا ڈھیر بنی ہوئی تھی……اور ایسا معلوم
ہوتا تھا کہ اس حویلی کو بھی زمین بوس ہوئے عرصہ چکا ہے۔
واقعاہر لمحہ مجھے ایک
نئی الجھن میں ڈال رہے تھے……لیکن میرے اعصاب……مضبوط تھے۔ میں نے ان بھول بھلیوں سے
نکلنے کی خاطر……اس ماحول ہی کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا اور کراچی جانے کا ارادہ
کر لیا۔ میں نے اینٹوں کے ڈھیر پر الوداعی نظر ڈالی اور کراچی کی جانب جانے والی
سڑک پر آ گیا۔ اس وقت یہاں ذرائع آمد و رفت برائے نام تھے……سڑک پر کھڑے کھڑے مجھے
خیال آیا……کہ میں کراچی جائوں گا کیسے……اس کے ساتھ ہی خود بخود میرا ہاتھ جیب کی
طرف چلا گیا۔ اور یہ جان کر اطمینان ہوا کہ اللہ رکھی کے دیئے ہوئے دس روپے کا نوٹ
موجود ہے۔
اس کے ساتھ ہی مجھے اس کے
وہ الفاظ یاد آ گئے جو اس نے دس روپے کا نوٹ دیتے ہوئے کہے تھے اس کا مطلب یہ تھا
کہ اللہ رکھی کو میرے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کا علم تھا۔ اور وہ یہ جانتی
تھی……کہ میں اس کے پاس کراچی آئوں گا……اس خیال کے آتے ہی میرے دل میں شدت سے یہ
خواہش پیدا ہو گئی کہ کسی نہ کسی طرح سے جلد از جلد کراچی پہنچ جائوں……کافی دیر
بعد……ایک سواری ادھر سے گذری میں نے اسے رکنے کا اشارہ کیا اور قریب پہنچ کر
بولا……مجھے کراچی جانا ہے۔
پانچ روپے ہوں گے بابو
جی……اس نے کرایہ بتایا۔
ٹھیک ہے……میں نے جواب دیا
اور بیٹھ گیا……میرے پاس دس روپے تھے میں نے سوچا کہ پانچ روپے کرایہ کے ادا کرنے
کے بعد بھی پانچ روپے تو بچ ہی جائیں گے۔
تقریباً دو گھنٹے کے
بعد……میں کراچی پہنچ گیا……میں اپنے خیالات میں گم تھا کہ اچانک اس کی آواز سنائی
دی۔
میں ادھر ادھر نظریں دوڑانے
لگا……میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اللہ رکھی کا پتہ میرے پاس نہیں تھا……یہ میری
غلطی تھی……کہ یہ معلوم ہو جانے کے بعد بھی کہ اب وہ کراچی جا رہی ہے۔ میں نے اس کا
پتہ نہیں معلوم کیا تھا۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ حالات
بالکل ہی بدل جائیں گے……کراچی میرے لئے بالکل اجنبی شہر تھا……میرے ماں باپ پہلے ہی
اس دنیا سے کوچ کر چکے تھے۔ بہن اور بہنوئی کے علاوہ کوئی ایسا رشتہ دار بھی نہیں
تھا۔ یہی وجہ تھی……کہ جیسے ہی تعلیم کا سلسلہ ختم ہوا۔ میں گائوں اپنی بہن کے پاس
چلا گیا۔ جہاں میری ملاقات ‘‘اللہ رکھی’’ سے ہو گئی تھی۔ اور ‘‘وقت’’نے مجھے پیچھے
چھوڑ دیا تھا……اب میں اسی کی تلاش میں کراچی آ گیا تھا۔
میں جس جگہ اترا
تھا……میرے سامنے سے رنگ برنگی کاریں گزر رہی تھیں……اطراف میں عوام کا اژدھام
تھا……میں فٹ پاتھ پر کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب کہاں جائوں……اجنبی شہر میں میر اشناسا
کوئی بھی نہ تھا……میں مستقبل کے تانے بانے بنتا ہوا فٹ پاتھ پر چلنے لگا……میں چلتا
رہا……چلتا رہا……اس مسافر کی طرح جسے اپنی منزل کا علم نہیں ہوتا۔
بس لوگ چل رہے تھے۔ اور
میں بھی ان کے ہمراہ وکٹوریہ روڈ پر چل رہ اتھا……انسانوں کے اس ہجوم میں ہر شخص کی
منزل تھی……صرف میں ہی ایک ایسا تھا۔ جس کی کوئی منزل نہ تھی۔ کوئی ٹھکانہ نہیں
تھا۔ چلتے چلتے میں ایک باغ کے قریب پہنچ گیا……سامنے نظر دوڑائی تو سبز گھاس کے
تختے اور ان کے کناروں پر خوش رنگ پھولوں کے درخت لہلہارہے تھے۔ چند بچے اور بوڑھے
گھاس پر بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے۔ میں تھک چکا تھا۔ اور گھاس پر بیٹھ کر سستانا
چاہتا تھا کہ اچانک مجھے بھوک کا احساس ہوا……اس کے ساتھ ہی میری نظر باغ کے آخری
کونے میں گئی……یہاں مالا باری کا ہوٹل تھا……بھوک انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت
سلب کر لیتی ہے۔ اس وقت میری بھی یہی حالت تھی……میری جیب میں آخری پونجی صرف پانچ
روپے تھے۔ اور بھوک کا غلبہ اس قدر شدید تھا کہ میں کل کی فکر کیے بغیر مالا باری
کے ہوٹل کی طرف چل دیا۔
مالا باری کے ہوٹل
میں……میں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔ اور جب باہر نکلا تو میری جیب میں صرف دو
آنے تھے……جی ہاں……دو آنے……ان دو آنوں سے میں صرف ایک کپ چائے پی سکتا تھا……میں نے
دو آنے سنبھال کر رکھ لیے۔
پھر جب سورج نے مغرب کی
سمت سفر شروع کر دیا۔ تو مجھے رات گزارنے کی فکر ہوئی……اس بڑے شہر میں رات بسر
کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں تھا۔ پھر میرے لیے زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں
گھر کی چاردیواری کے باہر رات بسر کرنے والا تھا……میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ
کیا کروں……میں ذہن میں رات بسر کرنے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا۔ اور سوچتا ہوا پھر
صدر کے قلب میں پہنچ گیا۔
یہاں پہنچ کر مجھے محسوس
ہوا کہ اب……اس وقت یہاں دن جیسی چہل پہل نہیں تھی۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ
دوکانیں بند کر کے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔
جوں جوں رات گہری ہوتی جا
رہی تھی۔ صدر کی رونق بھی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ اور تقریباً دس بجے تو بالکل ہی
سناٹا سا چھا گیا تھا……پھر میں نے دیکھا کہ لوگ بند دوکانوں کے سامنے فٹ پاتھ پر
بستر بچھا بچھا کر لیٹنے لگے……ان کو دیکھ کر میری بھی ہمت بڑھی……یہ لوگ وہ تھے جن
کا میری طرح کوئی ٹھکانہ نہیں تھا……جب کافی تعداد میں لوگ آ کر لیٹ گئے تو میں نے
اطراف میں نظر ڈالی……اور ہمت کر کے ایک خالی جگہ لیٹ گیا۔
ابھی میں عالم غنودگی میں
تھا……کہ ایک نہایت ہی کرخت آواز کانوں سے ٹکرائی……اڑے اٹھو……وری تم ادھر کدھر آ
گیا۔
میں نے آنکھیں کھول کر
دیکھا……ایک لحیم شحیم قد آور شیدی سر پر کھڑا مجھ سے کہہ رہا تھا۔ میں اس کی آواز
اور قدآور شخصیت سے سہم کر فوراً ہی اٹھ گیا……میرے اٹھتے ہی اس نے بغل میں دبی
ہوئی دری بچھائی اور اس پر لیٹتے ہوئے بولا……چلو ابھی ادھر سے اپنا شکل گم کرو۔
میں اپنی شکل کہاں گم
کرتا۔ تمام فٹ پاتھ بھر چکے تھے۔ میں نے اپنے جسم کو سکیڑا اور اس کے پائوں کے
قریب بیٹھ گیا۔ اس نے سونے کی خاطر اپنا سر زمین پر ٹکا دیا۔ لیکن چند لمحہ بعد جب
اس نے دیکھا کہ میں اپنی جگہ سے نہیں ہلا ہوں تو گردن اٹھا کر بولا……اڑے اس شہر
میں اجنبی ہے کیا۔
میں نے کوئی جواب دینے کے
بجائے اس کی جانب رحم طلب نظروں سے دیکھا……وہ فوراً ہی سنبھل کر بستر پر بیٹھ
گیا……اور تسلی دیتے ہوئے بولا……تم ہندوستان سے آیا ہے……گھبرائو نہیں……یہ کراچی
اپنے ہی جیسے بے گھر لوگوں کا ٹھکانہ ہے……تمہارے پاس دری شری ہو تو بچھا لو۔
میں نے بتایا کہ میرے پاس
اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے وہ میری بات کے جواب میں زور سے ہنسا۔ اور اپنے مخصوص
انداز میں تین انگلیوں سے چٹکی بجاتے ہوئے بولا……تم چوری موری میں سزا کاٹ کر تو
نہیں آیا۔
میں نے اس کی غلط فہمی
دور کرنے کی خاطر شروع سے لے کر اب تک کے واقعات سنا دیئے۔
میری بپتا سننے کے
بعد……اس کے چہرہ پر ایک عجیب قسم کا تاثر پھیل گیا۔ او ر وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر
بولا۔ ابی پتا نئیں تم سچ بولتا ہے۔ یا۔ جھوٹ……لیکن ہم ایک بات بولتا ہوں……یہ اللہ
والے لوگ موجی ہوتے ہیں۔ چاہیں تو بادشاہ بنا دیں۔ اور چاہیں تو فقیر۔
لیکن اس وقت تو میری حالت
فقیر سے بھی بدتر ہے……میں نے غمزدہ لہجہ میں کہا۔
کوئی بات نہیں……اس نے
تسلی دی۔ پھر اپنے مخصوص انداز میں چٹکی بجاتے ہوئے بولا……اپن تو ایک بات جانتا
ہے۔ سدا وقت ایک سا نہیں رہتا۔
لیکن ……لیکن……ابھی تو وقت
نے مجھے پیچھے چھوڑ دیا ہے……میں نے مری ہوئی آواز میں کہا۔
ابھی معلوم نہیں……وقت نے
تمہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یا۔ تم نے وقت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے……اس نے ایک بار پھر
تسلی دی……لیکن تم پھِکر نئیں کرو……اپنے ساتھ ہی رہو۔
تم۔ کیا کرتے ہو……میں نے
بے ساختہ پوچھا۔
اپنا اشٹوری بھی تمہارے
جیسا ہے……وہ زور سے ہنستے ہوئے بولا……اپنے کو بھی وقت نے ادھر فٹ پاتھ پہ دھکیل
دیا ہے۔
وہ کیسے……میں نے تعجب سے
پوچھا۔
اس نے اپنے بارے میں جو کچھ
بتایا۔ وہ مختصراً یہ تھا……کہ وہ لیاری کا ایک اوسط درجہ کے گھر میں پیدا ہوا تھا۔
اس کا نام محمد قاسم شیدی تھا……اس کا باپ موٹر مکینک تھا۔ اور بند روڈ پر موہن لال
کے گیراج میں ملازم تھا۔ جب وہ دس گیارہ سال کا ہوا۔ تو اس کا باپ اپنے ساتھ ہی
کام پر لے جانے لگا اور اس طرح وہ بیس سال کی عمر میں ایک ماہر موٹر مکینک ہو گیا۔
جب وہ بیس سال کا تھا۔ تو اس کے باپ کو دمہ ہو گیا۔ اس نے باپ کے علاج پر روپیہ
پانی کی طرح بہایا۔ لیکن تین سال بعد وہ مر گیا۔ اسے باپ کی موت کا گہرا صدمہ تھا۔
لیکن اس کے باوجود کام پر جاتا رہا……اور ابھی ایک سال ہی گزرا تھا’ گیراج میں کام
کرتے ہوئے بھاری مشین اس کے پائوں پر گری اور دائیں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
اس کی ماں نے دو سال تک
علاج کرایا۔ اس عرصہ میں گھر کا نہ صرف تمام اثاثہ فروخت ہو گیا بلکہ گھر بھی رہن
رکھنا پڑ گیا……جب وہ اسپتال سے گھر آیا۔ توا س کی چال میں لنگ پیدا ہو گیا تھا۔
ڈاکٹروں کا کہنا تھا۔ اس کی دائیں ٹانگ چھوٹی ہو گئی ہے۔ اس نے اپنے اس جسمانی نقص
کے باوجود کام جاری رکھا۔ وہ دن رات گیراج میں کام کرتا رہا۔ تا کہ گھر کو رہن سے
چھڑا لے۔ لیکن وہ گھر نہیں چھڑا سکا۔ اس کی ماں اس صدمہ کی تاب نہ لا کر مر
گئی……پھر پاکستان بن گیا۔ اور موہن لال اپنا گیراج بیچ کر ہندوستان چلا گیا……اور
اس طرح وہ فٹ پاتھ پر آ گیا۔
میرے اس دوست کا
نام‘‘قاسم شیدی’’ تھا……میرا یہ دوست عجیب قسم کے مزاج کا تھا۔ اسے میں نے کبھی بھی
کل کی فکر میں مبتلا نہیں دیکھا……وہ دن بھر گاڑیوں کی صفائی اور مرمت میں لگا
رہتا۔ میں چونکہ کوئی ٹیکنیکل کام نہیں جانتا تھا۔ لہٰذا تھوڑے ہی فاصلہ پر واقع
ایک مالا باری کے ہوٹل میں بیٹھا رہتا تھا۔ یہ مالا باری بھی قاسم شیدی کا دوست
تھا۔ میں اس سے کوئی چیز طلب کرتا۔ وہ فوراً ہی مہیا کر دیتا……قاسم شیدی جیسا مخلص
دوست مجھے پھر کبھی نہیں ملا۔ وہ ایسے وقت میں میرا دوست بنا تھا۔ جب کہ میرے پاس
نہ تو کھانے کے لئے کوئی پیسہ تھا……اور نہ ہی سر چھپانے کی جگہ تھی۔
مجھے اپنے دوست کی ہر ادا
پسند تھی……وہ لنگڑا کر چلتا تھا۔ اور اس کی چال میں بھی ایک طرح کا وقار تھا……وہ
بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی سے بڑے ہی زور سے چٹکی بجاتا تھا۔ اور میں سمجھتا ہوں
کہ دنیا کا کوئی بھی شخص اس طرح سے چٹکی نہیں بجا سکتا۔
اگر مجھے اختلاف تھا۔ تو
صرف اس کی لاابالی طبیعت سے تھا۔ وہ کسی بھی قسم کی فکر نہیں کرتا تھا۔ کام سے
فارغ ہونے کے بعد وہ گھنٹوں ہوٹل میں بیٹھ کر ‘‘خیالی پلائو’’ پکاتا رہتا تھا۔ اور
جب میں اس سے کسمپرسی کی شکایت کرتا۔ تو وہ اپنے مخصوص انداز میں چٹکی بجا کر
کہتا……سدا وقت ایک سا نہیں رہتا تم دیکھنا……ایک وقت آئے گا جب کہ ہم بہت امیر ہوں
گے……سندھ کے وڈیروں کی طرح……میں اسے کوئی جواب نہیں دیتا تھا۔ کیونکہ میں جانتا
تھا……کہ ‘‘قاسم’’ نہ جانے کس امید پر امیر بننے کی آس لگائے بیٹھا تھا……شاید اسے
کسی جادوئی چراغ کے ملنے کی امید تھی۔
انہی دنوں حکومت نے
دریائے سندھ پر بیراج بنانے کے منصوبہ کا اعلان کیا۔یہ بیراج دریائے سندھ پر……حیدر
آباد سے تقریباً چھ سات میل دور ‘‘جام شورو’’ کے مقام پر تعمیر کیا جانا تھا……یہ
ایک بڑا منصوبہ تھا۔
شروع میں ملکی و غیر ملکی
ماہرین کی رہائش کے لئے مکانات وغیرہ تعمیر کرنے کا کام تھا۔ اور اس کام کی نگرانی
کے لئے پڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت تھی۔ جو کہ کام کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ
مزدوروں کا حساب بھی کر سکیں……میں نے نوکری کی دو درخواستیں ہاتھ سے لکھیں……ان میں
ایک درخواست تو میری تھی اور دوسری میرے دوست قاسم کی……اس وقت ہم دونوں ہی کی قسمت
زوروں پر تھی۔ لہٰذا ایک ہفتہ کے اندر ہی اندر ہم دونوں کی درخواستیں منظور کر لی
گئیں۔
مجھے تعمیری کام کا
سپروائزر مقرر کیا گیا۔ اور قاسم کو سرکاری گاڑیوں کی دیکھ بھال کا کام سونپا گیا۔
اور اس طرح ہم دونوں کراچی چھوڑ کر ‘‘حیدر آباد’’ آ گئے۔ حیدر آباد شہر کے باہر
حکومت نے ایک بڑا سا قطعہ اراضی حاصل کر لیا تھا۔ جہاں مکانات کی تعمیر شروع ہو
گئی۔
پھر…… ایک وقت ایسا بھی
آیا جب کہ ہم دونوں جدا ہو گئے۔ قاسم کو جام شورو میں دریائے سندھ کے کنارے بھیج
دیا گیا۔ کیونکہ اب بھاری مشینیں آنا شروع ہو گئی تھیں جو کہ بیراج بنانے کے لئے
مٹی سمیٹتی تھیں۔ ان مشینوں کے ذریعہ دریا کے بہنے کا متبادل راستہ بنایا جانے
لگا……جام شورو کے مقام پر کام زور و شور سے ہونے لگا۔ بیراج کالونی کی تعمیر مکمل
ہو چکی تھی۔ اور اس میں ملکی و غیر ملکی ماہرین نے رہائش اختیار کر لی تھی۔ اب
کیونکہ میرا کام ختم ہو چکا تھا۔ لہٰذا حکام بالا نے مجھے ملازمت سے برطرف کرنے کی
بجائے یہ ڈیوٹی لگا دی……کہ میں غیر ملکیوں کو حیدر آباد شہر اور اس کے گرد و نواح
کی سیر کرایا کروں……اس مقصد کے لیے انہوں نے مجھے ایک گاڑی بھی دے دی جسے میں نے
چند روز ہی میں چلانا سیکھ لیا……اب میرا کام شام کو غیر ملکیوں کو سیر کرانا ہوتا
تھا۔ اور ان کی خواہش پر کبھی میں حیدر آباد شہر میں ہوتا تھا۔ اور کبھی جام شورو
میں۔
اس مصروفیت کی وجہ سے میں
اپنے دوست قاسم سے بہت ہی کم ملاقات کر پاتا تھا……البتہ جب میں جام شورو میں ہوتا
تھا۔ تو آتے جاتے اس سے سلام دعا ہو جاتی تھی……میں اسے اکثر فولادی ٹوپی پہنے اور
ہاتھ میں اوزار لئے ہوئے کسی نہ کسی گاڑی کے انجن پر جھکا ہوا دیکھتا تھا۔ میں جب
بھی اسے مخاطب کرتا تھا۔ وہ سلام کا جواب دینے کے بعد اپنے مخصوص انداز میں چٹکی
بجایا کرتا تھا۔ میں نے اس میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں دیکھی۔ اس کی وہی مست مولا
قسم کی طبیعت تھی۔
وقت گزرتا رہا……اور اس
طرح تین سال گزر گئے……پھر اتوار کی ایک شام میں چند غیر ملکیوں کو لے کر جی۔ ایم
۔بیراج گیا۔ میں نے دریا سے قدرے دور ایک ہوٹل کے قریب گاڑی کھڑی کی……غیر ملکی
گاڑی سے اتر کر زیر تعمیر بیراج دیکھنے کو چل دیئے۔ اور میں نے ہوٹل کا رخ کیا……یہ
ہوٹل ایک مقامی نے بانس اور چٹائیوں سے بنایا تھا۔ اور بیراج پر کام کرنے والے
مزدور وغیرہ یہیں کھانا کھاتے تھے……میں جیسے ہی اندر داخل ہوا……میں نے دیکھا کہ
قاسم ایک ٹیبل کے گرد اپنے چند دوستوں کے ہمراہ بیٹھا ہے……مجھے دیکھتے ہی اس نے
گرمجوشی سے سلام کیا……اور پھر چٹکی بجا کر اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ میں اس کے
قریب جا کر ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔
وہ اپنے دوستوں کے ساتھ
بیٹھا ادھر ادھر کی ہانک رہا تھا……میرے پہنچنے کے بعد……گفتگو یہ چل نکلی……کہ دراصل
ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ کیونکہ ایک نہ ایک دن یہ بیراج تو مکمل ہو ہی جائے گا۔ اس کے
بعد ہم سب کیا کریں گے۔
اس موضوع پر ہر شخص اپنے
اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد قاسم کھانس کر بولا……اچھی زندگی
گزارنے کے دو طریقے ہیں……ایک محنت کے ساتھ اور دوسرا عقل و چالاکی سے۔
ہر شخص محنت کرتا ہے……میں
نے جواب دیا……لیکن ہر……
لیکن……اس نے میری بات
کاٹی……ہر شخص اپنی خواہش کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتا۔
کیا مطلب……ایک اور دوست
نے پوچھا۔
ہر شخص کی خواہش ہوتی
ہے……وہ مخصوص انداز میں چٹکی بجاکر بولا……کہ اس کے پاس بے پناہ دولت ہو۔ اور اس کی
ہر خواہش پلک جھپکتے میں پوری ہو جائے۔
یہ بات تو ہے……ایک دوسرے
ساتھی نے تائید کی۔
اور اس کے لئے عقل کی
ضرورت ہے……اس نے مختصر جواب دیا۔
یہ عقل والی بات میری
سمجھ میں نہیں آئی……میں نے چائے کا گھونٹ لے کر کہا۔
ارے عقل سے کام لے کر تو
انسان اپنی تقدیر بدل سکتا ہے……اس نے جواب دیا۔
چاہے اس کی قسمت میں غریبی
لکھی ہو……میں نے برجستہ پوچھا۔
یہ قسمت کی بات تو کم عقل
لوگ کرتے ہیں……وہ اپنے الفاظ پر زور دے کر بولا……اگر انسان عقل سے کام لے۔ تو وہ
سب کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ جو وہ چاہتا ہے۔
چھوڑو یار……میں نے تمسخر
سے کہا……جب ہم کراچی میں تھے۔ تو تم ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ سدا وقت ایک سا
نہیں رہتا۔
میں صحیح کہتا تھا……اس نے
برجستہ جواب دیا……اب دیکھو۔ تم نے عقل سے کام لے کر نوکری کے لئے درخواست دے دیا
تھا اور ہم دونوں کو نوکری مل گیا۔ اگر تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ تو اپن دونوں
ابھی کراچی ہی کی فٹ پاتھ پر ہوتے۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ
عقل سے کام لے کر ‘‘وقت’’ کو بھی بدلا جا سکتا ہے……میں نے پوچھا۔
بالکل……بالکل……اس نے
تائیدی لہجہ میں کہا۔ پھر سب کے چہروں پر نظر ڈالتے ہوئے بولا……جب سے میں حیدر
آباد آیا ہوں……ادھر کے رئیس……نواب اور وڈیروں کو دیکھ دیکھ کر میرے دل میں بھی ‘‘وڈیرہ’’
بننے کی خواہش پیدا ہو گئی ہے۔
تو کیا تم وڈیرہ بن جائو
گے……ایک دوست نے طنزکیا۔
کیوں نہیں……اس نے اعتماد
سے جواب دیا……میں عقل سے کام لے کر ایک ایسا رئیس بنوں گا جس کی زندگی قدیم سندھی
تہذیب و تمدن اور جدید آرام و آسائش کا حسین امتزاج ہو گی جس کے ‘‘کوٹ’’ میں پھلوں
کے درختوں کی بے شمار قطاریں ہوں گی……میرے آگے پیچھے خدام ہوں گے……پیچ در پیچ
راہداریاں ہوں گی جن کے فرش بیش بہا قیمت قالینوں سے مزین ہوں گے……دیواروں پر
سندھی بادشاہوں کے محل کی طرح پچی کاری کا کام ہو گا……اور چھت پر جواہرات کا جڑائو
کام ہو گا……ایک بڑا سا حرم ہو گا۔ جس میں دنیا جہان کا حسن جمع ہو گا……میرے پاس
ایسے غلام ہوں گے جو حکم دیئے بغیر یہ جانتے ہوں گے کہ میں کیا چاہتا ہوں۔
قاسم نے جونہی اپنی بات
ختم کی۔ ہم سب زور سے قہقہہ لگا کر ہنس پڑے……اس نے اپنی خیالی دنیا کو جو نقشہ
کھینچا تھا وہ کسی شاہی خاندان ہی کا ہو سکتا تھا۔ جو ہم لوگوں کے تصور میں بھی
نہیں آ سکتا تھا۔
تم لوگ ہنس رہے ہو……اس نے
چٹکی بجا کر سنجیدگی سے کہا……دیکھنا ایک دن میں اس عقل سے کام لے کر اپنی قسمت بدل
دوں گا۔
اس دن اس کی یہ باتیں سن
کر مجھے یقین ہو گیا کہ اس کی کھوپڑی میں کوئی کل ڈھیلی ہے……اسی قسم کی باتیں کرتے
ہوئے مجلس ختم ہو گئی۔ اور جب میں ہوٹل سے نکلا۔ تو غیر ملکی ماہرین بھی واپس گاڑی
کی طرف آ رہے تھے۔
محمد مونس خان عظیمی
‘‘اللہ
رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور
نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی
تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی
نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے
تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی
کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔
میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے
میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان
کے لئے دعائے مغفرت کریں۔
روحانی فرزند: حضرت خواجہ
شمس الدین عظیمی
مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور
فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷
۶۲جنوری
۵۹۹۱ء