Topics

ذہن چوری

 

انسانی ذہن دو رخوں پر سفر کرتا ہے۔ ایک رخ انسان کو خالق سے قریب کرتا ہے اور دوسرا رخ خالق سے دور۔انسان جب مذہب اور دین کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی گزارتاہے تو اس کا ذہن مثبت سمت میں سفر کرتا ہے۔ نتیجتاً وہ پرسکون زندگی گزارتا ہے لیکن انسان جب مذہب کی تعلیمات اور قوانین سے انحراف کرتا ہے تو اس کا ذہن تخریب کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی آزار(تکلیف)کا سبب ظاہر ہوتا ہے۔

ہم جب خاتم النبیین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا مقصد نوع انسانی کو ایسی طرز معاشرت سے روشناس کرانا تھا جس پر عمل کرکے انسان ایک طرف تو اپنی شعوری زندگی کو پاکیزگی، امن و بھائی چارے، مساوات، عدل و احسان، حسن سلوک، حسن اخلاق اور حسن عمل کا نمونہ بناسکتا ہے تو دوسری طرف اپنی روح کو اللہ کے نور سے آراستہ کرکے اپنی تخلیق کے مقصد سے واقف ہوجاتا ہے۔انسان کی تخلیق کا مقصد اپنے خالق اور رب کا عرفان حاصل کرنا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب بندے ہیں جنہیں اللہ نے رحمت اللعالمین بنایا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات محبت کی تعلیمات ہیں جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

موجودہ دور میں امت مسلمہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ مسلمان قوم حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات سے بے بہرہ ہے جبکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پوری تعلیمات قرآن و سنت کے دائرۂ عمل میں ہیں۔

تاریخ کے آئینہ میں نمایاں طو پر نظر آتا ہے کہ جب تک رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات پر عمل کیا گیا۔سرخروئی، فتح و کامرانی اور اقوام عالم کی سربراہی مسلمانوں کے ہاتھ میں رہی۔وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے انبیاء کی تعلیمات کے برخلاف مادی طرز فکر اختیار کرلی گئی اور دنیا کو مقصد بنالیا گیا اسی مناسبت سے لالچ، بداخلاقی، بدسلوکی،بے عملی، معاشرتی اور اخلاقی جرائم اور تخریب کاری میں اضافہ ہوتا رہا۔

-------------------

ہم خود کو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کا امتی کہتے ہیں لیکن عمل دیکھیں تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کا امتی کہنا حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان میں گستاخی اور بے ادبی نظر آتا ہے۔ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں۔۔ کیا مسلمان ایسے ہوتے ہیں جس کا مظاہرہ آج ہورہا ہے۔ آج کا مسلمان تفرقہ میں پڑا ہوا ہے اور اپنی اصلاح کے بجائے دوسروں کا گریبان پکڑنا بہتر سمجھتا ہے۔

خالق کائنات کا ارشاد ہے۔

"سب مل کراللہ  کی رسی کو متحد ہو کر مضبوط پکڑلو اور تفرقہ نہ پڑو۔ (اٰل عمران: 103)

انفرادی ز ندگی زیربحث آتی ہے تو ہمارا عضو عضو مصروف عمل ہوجاتا ہے اور جب اجتماعی زندگی درپیش آتی ہے تو مسلمان ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے۔

کون نہیں جانتا کہ ہمیشہ دنیا میں وہی اقوام سربراہی اور رہنمائی سنبھال لیتی ہیں جو متحد رہتی ہیں ہم انفرادی مفاد کے لئے سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں لیکن اجتماعی حیثیت میں ہم ایک جگہ قومی مفاد کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں۔

رحمۃ العالمین حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،

"مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔"

آج کا مسلمان اپنے بھائی کی گردن کاٹنے کے لئے تیار رہتا ہے ارشاد باری  تعالیٰ ہے۔

"تم بہترین امت ہو جو سارے انسانوں کے لئے وجود میں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہو۔"(اٰل عمران: 110)

اگر اعمال کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اپنے اندر خیر امت کے اوصاف تقریباً معدوم نظر آتے ہیں۔۔ لالچ اور مادی سوچ کے دھارے اس حد تک سرایت کرچکے ہیں کہ ایک جان کی نسبت چند سکوں کی زیادہ اہمیت ہے۔برائیوں کو مٹانے کی جدوجہد اور بھلائیوں کی ترغیب ہی وہ عمل ہے جو ہمارے وجود کا ضامن ہے۔ اس میں کوتاہی کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم جس غلط روش سے بچنے کی تلقین کررہے ہیں اور اس کے برے نتائج سے انہیں خبردار کررہے ہیں، ہم خود دانستہ یا نادانستہ طور پر اسی راہ پر چل رہے ہیں۔۔؟

 اللہ تعالیٰ نے اس طرز عمل کی نشاندہی کرتے ہوئےفرمایا ہے،

"کیا تم لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو۔" (البقرۃ: 44)

"اے لوگو! جو ایمان لائے ہو،  تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔ (الصف: 2)

اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے میں ہماری بات میں اسی وقت تاثر پیدا ہوگا جب ہم خود اس دعوت اور تعلیم کا نمونہ ہوں اور ہمارا رابطہ اللہ کے ساتھ ویسا ہی ہو جوایک حقیقی بندے کا اپنے رب سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ربط کے حصول کا طریقہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا ہے۔

"اے چادر میں لپٹنے والے! رات میں "قیام" کیجئے مگر کچھ رات، آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ اورقرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھئیے۔ ہم جلد آپ پر ایک بھاری فرمان ڈالنے والے ہیں۔" (المزمل: 1-5)

قیام کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی قربت پر قائم ہو کر ایسا ربط پیدا کرے کہ اس کی زندگی کا ہر عمل اللہ کی ذات سے وابستہ ہوجائے اور وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لے۔

جب بندہ اپنے رب سے حقیقی تعلق کو قائم کرلیتا ہے تو وہ غم اور خوف سے نجات حاصل کرکے سکون اور اطمینان کی تصویر بن جاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا،

" سن رکھو! بے شک اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہوتا ہے اور نہ غم ۔" (یونس:62)

ایسا بندہ جب وہ کوئی بات کہتا ہے اور کسی بات کی دعوت دیتا ہے تو باضمیر لوگ اور سعید روحیں اس کی آواز پر لبیک کہتی ہیں۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ،

"مسلمان بندے ایک آدمی کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ دکھتی ہے تو اس کا سارا جسم دکھنے لگ جاتا ہے اور اگر اس کے سرین (ٹانگ) میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سا رے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم (

  

Topics


Aaj Ki Baat

خواجہ شمس الدین عظیمی


دل گداز

خواتین وحضرات کے نام