Topics

دیوانی


 

                انہوں نے پیار سے اپنی بیٹی کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ لیکن فوراً ہی ہٹا لیا۔ ساوتری کا پورا جسم جل رہا تھا اسے تیز بخار چڑھا ہوا تھا۔ انہوں نے جلدی جلدی ایک پیالی چائے پی اور پھر ڈاکٹر کے پاس چلے گئے۔ ان کی بیوی ساوتری کے پاس ہی بیٹھ گئی۔

                اس واقعہ کے بعد اگر دیوان موتی رام کے گھر میں کوئی مہمان آ جاتا تو ساوتری اس کے سامنے نہیں آتی تھی۔ خاص کر لڑکوں سے تو بالکل ہی بات کرنا پسند نہیں کرتی اور جب ماں باپ بہت زیادہ ضد کرتے تو وہ منہ پر گھونگھٹ نکال کر سامنے آتی تھی وہ بھی بس چند لمحوں کے لئے۔ اس کے بعد واپس گوشۂ تنہائی میں چلی جاتی۔ اگر اس کی ہم عمر سہیلیاں ساتھ کھیلنے پر بہت زیادہ اصرار کرتیں تو وہ ان کے ساتھ صرف ایک ہی کھیل کھیلتی تھی‘‘مٹی کے گھروندے بنانا’’۔ جب لڑکیوں کے دل اس کھیل سے بھر جاتے اور وہ کوئی دوسرا کھیل کھیلنا چاہتیں تو ساوتری کبھی بھی ان کا ساتھ نہیں دیتی بلکہ خاموشی سے ایک طرف گم سم سی کھڑی ہو جاتی اور انہیں دیکھتی رہتی…………کبھی…………کبھی…………وہ کسی سہیلی کے کان میں چپکے سے کہتی۔ اللہ اللہ کیا کرو۔ وہ جس سہیلی کے کان میں یہ بات کہتی۔ وہ اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگتی اور پھر یہی بات وہ اپنی ماں سے بھی کہہ دیتی۔ ماں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہتی کہ ساوتری تو دیوانی ہے بیٹی؟ اس کی باتیں نہ سنا کرو۔

٭×××××××××××٭

                عمر کے ساتھ ساتھ ساوتری کے شعور میں بھی تبدیلی آ رہی تھی وہ گھنٹوں خلاء میں دیکھتی رہتی۔ اور کبھی کبھی بے مقصد جملے بھی بولا کرتی تھی۔ وہ کہتی آہا آسمان پر ستارے چمک رہے ہیں۔ ادھر دیکھو۔ میوئوں کے باغ ہیں۔ ہوا زور سے چل رہی ہے…………نور برس رہا ہے۔ سکون بانٹا جا رہا ہے۔

                جوں جوں بڑی ہو رہی تھی۔ اس میں بڑی خصوصیت جو نمایاں تھی وہ زبان تھی۔ ساوتری ہندی یا سنسکرت کا ایک لفظ بھی نہیں بولتی تھی۔ بلکہ وہ جب بھی بولتی تھی تو نہایت ہی صاف اردو بولتی تھی۔ یا کبھی کبھی عربی کا کوئی لفظ بول دیتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی اسے ان زبانوں کی تعلیم دے رہا ہے۔

                ساوتری جب تنہائی سے اکتا جاتی تو اپنے گھر کے دروازہ پر آ بیٹھتی۔ اور مٹی کا گھروندہ بناتی رہتی۔ اگر کوئی گزرنے والا پوچھتا کہ ساوتری کیا کر رہی ہو تو کہتی۔

                جنت میں گھر بنا رہی ہوں۔ تم بھی بنا لو پوجا پاٹ کے لئے جانے والوں سے کہتی۔ مٹی کے ہو مٹی میں مل جائو گے۔ پھر پتہ چلے گا۔ اصلی بھگوان کا۔ اس کے بعد وہ قہقہے لگانے لگتی۔

                شروع میں لوگوں نے اس کی باتوں کی طرف توجہ نہیں دی۔ لیکن جب ساوتری برا بھلا کہنے سے باز نہیں آئی تو انہوں نے دیوان موتی رام سے شکایت کی۔ دیوان موتی رام نے ساوتری کو سختی سے ڈانٹا۔ لیکن اس کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

                دیوان موتی رام نے کئی سادھوئوں اور سنیاسیوں کو دکھایا۔ ان سب کا کہنا تھا کہ ساوتری کا ذہن پختہ نہیں ہے۔ جب وہ پوری طرح شعور کو پہنچے گی تو نارمل ہو جائے گی۔

٭×××××××××××٭

                ساوتری نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اس کے اوپر جذب و مستی کی کیفیت طاری رہنے لگی۔اسے اپنے بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا تھا۔ جو بھی اسے دیکھتا تھا دیوانی سمجھتا تھا۔ اس حالت میں چودہ پندرہ سالہ ساوتری کا حسن بے مثال تھا۔ اسی نوے سال تک کے بوڑھوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اتنا حسین چہرہ نہیں دیکھا۔ اسے جو بھی دیکھتا۔ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ جوانی میں اس کا حسن اور بھی نکھر آیا تھا۔ قدرت نے فراخدلی سے اسے اپنا شاہکار بنایا تھا۔

٭×××××××××××٭

                چند قریبی رشتہ داروں نے جو اس سے جلتے تھے۔ اس کی ناقابل فہم باتوں اور حرکتوں کو اس وجہ سے اور بھی دیوانگی کا رنگ دے کر اچھالا کہ اسے کوئی اچھا سا بر نہ مل سکے۔ اور پھر اس طرح یہ بات سارے محلے اور برادری میں پھیل گئی کہ دیوان موتی رام کی حسین بیٹی ساوتری دیوانی ہے۔

                اسے دیوانی کہنے والے وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے اس کے ساتھ بچپن گزارہ تھا۔ لیکن ان میں اختر شامل نہیں تھا۔ وہ دلی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ بچپن کے ساتھی اس بات کی تصدیق کرتے تھے کہ ساوتری تو شروع ہی سے دیوانی تھی۔ وہ تو بچپن میں پاگلوں جیسی حرکتیں کرتی تھی۔ دیوان موتی رام اور ان کی بیوی کو بیٹی کی دیوانگی کا غم اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا…………وہ دونوں ہر وقت یہی سوچتے رہتے تھے کہ ساوتری کا جیون کیسے گزرے گا۔ ان کے تینوں بیٹے جوان ہو چکے تھے اور وہ ان کے لئے دھرم پتنیاں تلاش کر چکے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جب تک وہ دونوں زندہ ہیں ان کی بیٹی کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ سوچ کر دونوں میاں بیوی اداس ہو جاتے تھے۔

٭×××××××××××٭

                ساوتری جب ہوش میں ہوتی تھی تو ماں باپ کی حالت دیکھ کر کڑھتی تھی۔ وہ انہیں سمجھاتی کہ اس کی طرف سے قطعی پریشان نہ ہوں۔ یہ زندگی تو چند دن کی زندگی ہے۔ اچھی یا بری کٹ ہی جائے گی۔ اصلی زندگی تو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔

                بیٹی مرنے کے بعد کونسی زندگی شروع ہوتی ہے۔ اس کی ماں تعجب سے پوچھتی۔

                زندگی تو مسلسل سفر کا نام ہے ماتا جی۔ وہ بڑے ہی پیار سے ماں کو سمجھاتی۔ اس دنیا میں آنے سے قبل انسان اپنی منزل پر ہوتا ہے۔ پھر وہ اس دنیا سے اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے اور پلٹ کر واپس اپنے مقام چلا جاتا ہے۔

                ماں اس کی یہ باتیں سن کر فکر مند ہو جاتی اور کہتی بیٹی تیری باتیں ہماری سمجھ میں آتیں نہیں۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ جیون سکھ سے گزر جائے تو یہی آتما کا نروان ہے۔

                آتما کا نروان یہ نہیں ہے ماتا جی۔ وہ بڑے ہی پیار سے سمجھاتی۔ انسان کو زندگی میں دکھ جھیلنے پڑتے ہیں۔ دوسروں کی خاطر تکلیفیں اٹھانا پڑتی ہیں۔ اللہ کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔ پھر اسے سکون میسر آتا ہے۔

                لیکن…………بیٹی تیرا روپ دیکھ کر تو ہمیں غم لگ گیا ہے۔ اس کی ماں افسردگی سے کہتی۔

                ‘‘تم میری فکر نہ کرو’’ ساوتری انہیں تسلی دیتی۔ انسانی رشتہ سے میں تمہاری بیٹی ضرور ہوں۔ لیکن میں تمہارے کام کی نہیں ہوں۔ وہ سمجھاتی۔ میری پیدائش کا مقصد کچھ اور ہے۔

                یہ تو کیا کہہ رہی ہے بیٹی؟ اس کی ماں تعجب سے کہتی۔

                تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکو گی ماں! بس تم یہ سمجھ لو کہ اس دنیا میں رہ کر مجھے برائیوں کا خاتمہ کرنا ہے…………اور جس شخص کی دعا سے مجھے یہاں بھیجا گیا ہے…………وہی میرا نگہبان ہے۔

                بیٹی۔ تیری تو کوئی بھی بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کی ماں کچھ نہ سمجھ کر جواب دیتی۔ اس کے خیال میں بھی ساوتری کی باتیں دیوانگی کی تھیں۔

٭×××××××××××٭

                ساوتری کی تشویشناک حالت دیکھتے ہوئے دیوان موتی رام کو ایک بار پھر پیر حاضر شاہ کا خیال آیا۔ انہی کی دعا سے وہ صاحب اولاد ہوئے تھے۔ پیر حاضر شاہ کا خیال آتے ہی انہیں ایک گوناگوں ڈھارس بندھی۔ ان کا دل کہتا تھا کہ پیر حاضر شاہ ضرور ان کی بیٹی کو ٹھیک کر دیں گے۔ اور پھر وہ خان بہادر کی طرف چل دیئے۔

                خان بہادر اپنے دوست کے تمام حالات سے واقف تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کے دوست کی بیٹی بچپن ہی سے دیوانی ہے۔ انہوں نے اپنے دوست کا غم بانٹنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ لیکن نجانے کیوں…………اس طویل عرصہ میں انہیں بھی کبھی پیر حاضر شاہ کا خیال نہیں آیا تھا۔ اب جو دیوان موتی رام نے ان سے کہا کہ پیر حاضر شاہ ہی اس معاملہ میں کچھ کر سکتے ہیں۔ تو خان بہادر فوراً ہی سفارش کرنے کو تیار ہو گئے۔ اور اس ہی وقت دیوان موتی رام سے یہ کہہ کر پیر حاضر شاہ کی طرف چل دیئے کہ تم اطمینان رکھو۔ میں بات کر کے آتا ہوں۔

٭×××××××××××٭

                دن کے نو دس بجے کا وقت تھا۔ جب کہ خان بہادر پیر حاضر شاہ کے گھر میں داخل ہوئے۔ ابھی انہوں نے دروازہ سے نکل کر صحن میں قدم رکھا ہی تھا کہ شمشو اندر کے ایک کمرہ سے انتہائی تیزی کے ساتھ نکلا۔ خان بہادر اسے دیکھتے ہی جہاں تھے وہیں رک گئے۔ اور پوچھا۔ پیر صاحب کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔

                ‘‘آپ اس وقت نہیں مل سکتے۔’’ شمشو نے آہستہ سے کہا۔

                ‘‘کیوں نہیں مل سکتا؟’’ خان بہادر بگڑ کر بولے۔ ان سے کہو خان صاحب آئے ہیں۔

                خان بہادر کی پیر حاضر شاہ سے کافی بے تکلفی تھی۔ اس ہی ناطہ وہ سمجھتے تھے کہ پیر حاضر شاہ سے جب چاہیں مل سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت شمشو ان کے آڑے آ گیا تھا۔

                ‘‘وہ اس وقت کسی سے بھی نہیں مل سکتے۔’’ شمشو نے روکھے پن سے کہا۔

                ‘‘وہ اس وقت درس قرآن دے رہے ہیں۔’’ شمشو نے بتایا۔

                درس قرآن دے رہے ہیں؟…………خان بہادر نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر قدرے غصہ سے بولے۔ لیکن یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے۔

                ‘‘جی وہ مسجد میں ہیں۔’’ شمشو نے بتایا۔

                ‘‘تو یہ کہو نا۔’’ خان بہادر نے جواب دیا اور مسجد کی طرف روانہ ہو گئے۔ مسجد کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا بس یوں سمجھ لو کہ پیر حاضر شاہ کے مکان اور مسجد آمنے سامنے تھے۔ درمیان میں ایک پندرہ بیس فٹ کی چوڑی سی گلی تھی۔

                خان بہادر نے جوتے اتارے اور سیڑھیاں چڑھ کر مسجد میں جانے لگے۔ اس مسجد کا صد دروازہ آٹھ دس سیڑھیوں کے بعد آتا تھا۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر جیسے ہی اوپر پہنچے۔ شمشو پھر سامنے کھڑا تھا۔

                شمشو کو اس طرح اچانک سامنے دیکھ کر خان بہادر چونکے۔ ابھی ابھی وہ اسے گھر میں چھوڑ کر آئے تھے پھر یہ اتنی جلدی یہاں کیسے پہنچ گیا؟ انہوں نے راستہ میں بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔ ممکن ہے وہ کسی اور راستہ سے یہاں پہنچ گیا ہو۔ انہیں خیال آیا۔ اس مسجد کا صحن کافی وسیع تھا۔ اس کے صحن میں بیک وقت تین چار سو مسلمان نماز پڑھ سکتے تھے۔ صحن کے بعد والے حصہ پر چھت پڑی ہوئی تھی اور بے شمار محراب دارد بنے ہوئے تھے۔ پیش امام کا ممبر چھت کے نیچے آخری دیوار کے ساتھ بنا ہوا تھا۔ بہت سے بچوں کے قرآن پڑھنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ لیکن بچے نظر نہیں آ رہے تھے۔

٭×××××××××××٭

                خان بہادر کو دیکھتے ہی شمشو بھڑک کر بولا۔ میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ اس وقت پیر صاحب کسی سے نہیں مل سکتے۔

                ابے تو کون ہوتا ہے روکنے والا۔ خان بہادر کو ایک دم غصہ آ گیا۔ اور انہوں نے ہاتھ بڑھا کر شمشو کو ایک طرف ہٹانا چاہا۔ اس کے بازو کو پکڑتے ہی انہیں ایک جھٹکا سا لگا اور انہوں نے ‘‘سی’’ کہہ کر اپنا ہاتھ پکڑ لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کا ہاتھ جل گیا۔ لیکن ہاتھ تو صحیح حالت میں تھا البتہ شمشو کا جسم آگ کی طرح گرم تھا۔ انہوں نے حیرت زدہ نظروں سے شمشو کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ‘‘ابے تیرا جسم ہے یا آگ؟’’

                 شمشو نے اس بات کا جواب دینے کی بجائے گردن جھکائے ہوئے نہایت ہی انکساری سے کہا۔

                جناب۔ مناسب یہی ہے کہ اس وقت چلے جائیں۔

                دیکھ بھئی! شمشو۔ خان بہادر نے سنبھل کر کہا تو آگ کا گولہ ہے یا مٹی کاڈھیر؟ میں تو اس وقت پیر جی سے مل کر ہی جائوں گا۔

                خان بہادر کی یہ بات سن کر شمشو نے گردن اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ اس کی گول بڑی بڑی آنکھیں سرخ انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں۔ ایک بار تو خان بہادر کو جھرجھری سی آ گئی۔ لیکن پھر وہ ہمت کر کے بولے۔ ‘‘ابے کیا دیکھ رہا ہے؟ ہٹ میرے راستے سے۔’’

                ‘‘آپ فوراً ہی واپس چلے جائیں۔’’ شمشو نے اپنے دانتوں پر دانت جما کر کہا۔‘‘معلوم ہوتا تھا کہ وہ خان بہادر کی ضد سے غصہ میں آ گیا ہے۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر خان بہادر کا جسم بھی کانپ اٹھا۔ انہیں پہلی بار احساس ہوا کہ شمشو کوئی غیر معمولی ہستی ہے۔

٭×××××××××××٭

                شمشو اور خان بہادر کی حجت سن کر اندر سے پیر حاضر شاہ بولے:

                ‘‘ارے او شمشو کوئی بھی ہے۔ اندر آنے دے۔’’

                پیر حاضر شاہ کی آواز سن کر شمشو نے غلاموں کی طرح گردن جھکا دی اور ایک طرف ہٹ گیا۔ خان بہادر نے ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالی اور اندر بڑھ گئے۔ شمشو ان کی سمجھ سے باہر تھا۔

                ابھی خان بہادر صحن سے گزر ہی رہے تھے کہ انہوں نے بہت سارے بچوں کو سپارے ہاتھوں میں تھامے محراب دار دروازوں سے نکلتے دیکھا۔ وہ سب نہایت ہی تیزی سے مسجد کے باہر جا رہے تھے۔ خان بہادر نے روک کر ان بچوں کو دیکھا۔ ان میں محلے کا ایک بھی بچہ نہیں تھا۔ بچے سیڑھیوں سے اترنے کے بعد نظر نہیں آ رہے تھے۔ پھر خان بہادر کے دماغ کو ایک زبردست جھٹکا سا لگا۔

                انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ انہوں نے ساوتری کو بھی ان ہی بچوں کے ہمراہ تیزی سے مسجد کی سیڑھیاں اترتے دیکھا تھا۔ لیکن وہ اسے اچھی طرح سے نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ ساوتری بچوں کے ہجوم میں تھی۔ وہ صرف اس کی ایک جھلک ہی دیکھ پائے۔

                ممکن ہے یہ میرا وہم ہو۔ انہوں نے سوچا بھلا ساوتری یہاں کس طرح آ سکتی ہے۔ پھر وہ اندر داخل ہو گئے۔ اندر کونے میں پیر حاضر شاہ مصلے پر بیٹھے تھے۔ خان بہادر کو دیکھتے ہی بولے۔ ‘‘بھئی اس وقت کیسے آنا ہوا؟’’

                ‘‘آپ کے پاس کبھی کوئی بغیر ضرورت کے بھی آیا ہے؟’’ خان بہادر نے مسکرا کر جواب دیا۔

                ‘‘ہاں یہ بات تو ہے۔’’ پیر حاضر شاہ نے گہری سوچ سے جواب دیا۔ لیکن اس وقت میں کسی سے ملتا نہیں ہوں۔

                ‘‘جب ہی آپ کا ملازم شمشو مجھے نہیں آنے دے رہا تھا۔’’ خان بہادر نے بتایا۔

                میں نے اس کو کہہ رکھا ہے۔ پیر حاضر شاہ نے کہا۔ صبح کو جب میں مسجد میں درس دے رہا ہوں تو کسی کو میرے پاس نہ آنے دے۔

                حضور! یہ کیا بات ہوئی خان بہادر نے شکایت آمیز لہجہ میں کہا۔ ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ میں لوگوں کی داد رسی کے لئے ہوں۔ جو جب چاہے آسکتا ہے اور دوسری طرف یہ پابندی۔

                ‘‘دراصل صبح کے وقت میں ان بچوں کو قرآن پڑھاتا ہوں۔’’ پیر حاضر شاہ نے کہا۔

                ‘‘تو کیا ہوا؟’’ خان بہادر بولے آپ حاجت مند کی بات تو یہاں بھی سن سکتے ہو۔

                ‘‘نہیں، نہیں۔’’ پیر حاضر شاہ نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔ یہاں کوئی نہیں آ سکتا۔

                کیوں نہیں آ سکتا؟ خان بہادر نے چڑ کر پوچھا۔ آپ بچوں کو اس وقت قرآن ہی تو پڑھاتے ہیں۔

                تم نہیں جانتے۔ پیر حاضر شاہ نے مجبور ہو کر کہا۔ یہ انسانوں کے بچے نہیں۔

                تو کیا جنات کے بچے ہیں؟ خان بہادر نے تمسخر سے کہا۔

                ہاں! یہ اجنہ کے بچے ہیں۔ پیر حاضر شاہ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

                جی…………خان بہادر اس انکشاف پر حیرت زدہ سے رہ گئے اور پھٹی پھٹی نظروں سے انہیں دیکھنے لگے۔

                یہ سب مسلمان ہیں۔ پیر حاضر شاہ نے ان کی حیرانگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔ اور میرا یہ فرض ہے کہ میں ان کو دینی تعلیم دوں۔

                کمال ہے…………خان بہادر نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

                جب ہی تو پیروں فقیروں کے پاس جانے کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ پیر حاضر شاہ نے سمجھایا۔ روحانی لوگوں کی اور بھی بہت سی دوسری مصروفیات ہوتی ہیں۔ جنہیں دنیا والوں سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔

                اگر یہ سارے بچے جنات کے تھے۔ خان بہادر نے سنبھل کر کہا۔ تو موتی رام کی بیٹی ساوتری یہاں کیسے تھی؟

                خان بہادر کی یہ بات سن کر پیر حاضر شاہ نے زور دار قہقہہ لگایا اور بولے تمہیں وہم ہوا ہے۔

                ساوتری کا یہاں کیا کام؟ یہاں تو جنات کے بچے آتے ہیں اور ساوتری تو انسان کی اولاد ہے۔ پھر ایک دم سنجیدگی سے پوچھا۔ ہاں تم بتائو اس وقت کیوں آئے ہو؟

                کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ خان بہادر نے پیشانی کو ملتے ہوئے کہا۔

                بھئی! تمہیں کچھ سمجھنے سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ پیر حاضر شاہ نے بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا۔ تم صرف یہ بتائو۔ کیوں آئے ہو؟

                ان کی بات سن کر خان بہادر نے ایک گہری سانس لی۔ پھر اپنے چہرہ پر دونوں ہاتھوں کو پھیر کر پریشانی کے تاثرات کو دور کیا اور بولے۔ آپ میرے دوست دیوان موتی رام اور اس کی بیٹی ساوتری کو تو جانتے ہو۔ ساوتری تو پیدا ہی…………

                لو بھئی…………پیر حاضر شاہ نے ان کی بات کاٹ کر کہا۔ میں انہیں نہیں جانوں گا تو پھر اور کون جانے گا۔

                کیا بتائوں…………خان بہادر نے جھجھکتے ہوئے کہا…………وہ پانچ سال کی عمر ہی سے عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتی تھی اور…………

                اب تو وہ ماشاء اللہ جوان ہو گئی ہو گی…………پیر حاضر شاہ نے ایک بار پھر ان کی بات کاٹ کر پوچھا۔

                جی ہاں۔ وہ جوان تو ہے خان بہادر نے بتایا۔ لیکن اس کی دیوانگی نہیں گئی۔

                پھر…………پیر حاضر شاہ نے اجنبیت سے پوچھا۔

                میرے دوست سے جو بن پڑا کر لیا…………خان بہادر بولے۔ بڑے بڑے سادھوئوں سنیاسیوں اور ڈاکٹروں کو دکھایا ہر قسم کا علاج کروایا اس کی دیوانگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسے اپنا ہوش ہی نہیں ہے۔ بس ہر وقت گم سم سی رہتی ہے اور بے تکی باتیں کرتی رہتی ہے۔

                پھر میں کیا کروں۔ پیر حاضر شاہ نے بے پروائی سے کہا۔

                موتی رام کو اس کا غم کھائے جا رہا ہے۔ خان بہادر نے افسردگی سے کہا۔ جوان لڑکی کو عمر بھر گھر میں تو نہیں بٹھایا جا سکتا۔

                اس کی باقی اولادیں تو ٹھیک ہیں…………پیر حاضر شاہ نے کہا۔

                جی ہاں۔ آپ کی دعا سے ساوتری کے بعد تین بیٹے اور بھی ہوئے۔ وہ سب کے سب تندرست ہیں۔ خان بہادر نے بتایا۔

                بس پھر تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ پیر حاضر شاہ نے اطمینان سے کہا۔

                وہ تو ٹھیک ہے خان بہادر نے کہا لیکن معاملہ لڑکی کا ہے ہر طرف سے مایوس ہو کر اس نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ پھر وہ التجا آمیز لہجہ میں بولے:

                ‘‘اب آپ ہی اس کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ آپ ہی اس کی بیٹی کو صحیح کر سکتے ہیں۔’’

                بہت دن کے بعد تمہارے دوست کو ہمارا خیال آیا۔ پیر حاضر شاہ نے ہنس کر شکوہ کیا۔

                آپ تو جانتے ہیں وہ ہندو ہے۔ خان بہادر نے سرگوشی سے کہا۔ آپ سے کھلے بندوں ملتے ہوئے ڈرتا ہوں لیکن وہ آپ کا بہت ہی احسان مند ہے اور اگر حکم دیں گے تو وہ سر کے بل حاضر ہو جائے گا۔

                خان صاحب! تمہیں آج سے چودہ برس پہلے کی بات یاد ہے۔ پیر حاضر شاہ نے ان کی بات پر توجہ دینے کے بجائے پوچھا۔

                کیوں نہیں خان بہادر نے اقرار کرتے ہوئے جواب دیا۔ میں ہی تو موتی رام کو لے کر آپ کے پاس آیا تھا۔

                اور تم نے ہی اس کی سفارش کی تھی۔ پیر حاضر شاہ نے انہیں یاد دلایا۔

                جی ہاں۔ مجھے یاد ہے…………خان بہادر نے ایک بار پھر اقرار کیا۔

                اور تمہیں یہ بھی یاد ہو گا…………پیر حاضر شاہ نے معنی خیز انداز سے کہا۔ ہم نے اس سے کہا تھا کہ ہم سے اولاد مانگو گے تو ہم ہی جیسی ہو گی۔

                جی ہاں۔ یاد ہے خان بہادر نے گردن ہلا کر کہا۔

                بس تو پھر اب تم کیوں آئے ہو؟ انہوں نے نہایت ہی بے رخی سے کہا۔ اب کیوں سفارش کرتے ہو۔ انہوں نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا۔ پھر صحن کی طرف آتے ہوئے قدرے جلالی انداز میں بولے۔ ہم نے اسی روز کہہ دیا تھا۔ پھر کوئی گلہ شکوہ نہ کرنا۔

                لیکن حضور۔ خان بہادر نے انہیں التجا آمیز لہجہ میں مخاطب کیا۔

                خان صاحب! پیر حاضر شاہ نے انہیں اسی ہی طرح جلالی لہجہ سے خطاب کیا۔ بس جو بات طے ہو گئی۔ وہ طے ہو گئی۔

                خان بہادر نے پہلی بار پیر حاضر شاہ کو اس طرح جلال میں دیکھا تھا۔ وہ سٹپٹا سے گئے لیکن ہمت کر کے بولے میں سمجھا نہیں حضور۔

                تم ہمارے دوست ہو پیر حاضر شاہ نے ایک محراب دار دروازہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ محلہ دار پڑوسی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میرے آقا کے امتی ہو، اس نسبت سے میں تمہارے دوست کے لئے جو کر سکتا تھا کر دیا لیکن اب یہ ممکن نہیں کہ میں اپنے حق سے بھی دستبردار ہو جائوں۔

                اس کے بعد انہوں نے دروازہ کی آڑ میں سے اپنا بید اٹھایا اور صحن کی طرف چل دیئے۔ خان بہادر اب بھی ان کی بات کو نہیں سمجھ پائے تھے۔ لہٰذا پیچھے آتے ہوئے نہایت ہی انکساری سے بولے میں آپ کا مقصد نہیں سمجھا حضور اگر تم اس معاملہ میں اپنی زبان تمام عمر بند رکھو تو بتائے دیتے ہیں۔ پیر حاضر شاہ نے صحن کے بیچ میں رک کر کہا۔ خان صاحب نے فوراً ہی ان سے وعدہ کر لیا کہ وہ زندگی بھر کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے۔

                پیر حاضر شاہ نے کہا…………تمہیں یاد ہے۔ تمہارے دوست موتی رام نے کہا تھا کہ پنڈت ہری رام نے اسے بتایا تھا کہ اس کی قسمت میں اولاد نہیں ہے۔

                ہاں مجھے یاد ہے…………خان بہادر نے کہا۔

                پنڈت ہری رام نے سچ کہا تھا…………پیر حاضر شاہ نے بتایا…………لیکن جب تم اسے لے کر ہمارے پاس آئے تو ہم نے اپنے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے وسیلہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے اپنے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور اپنے پروردگار سے وعدہ کیا کہ اس کی اولاد سے پہلی اولاد کو ہم اس کا فرمانبردار اور غلام بنائیں گے۔

 

 

 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔