Topics
زمین۔۔۔ شعور اور زمین
کا باطن۔۔۔ لاشعور ہے۔ زمین پر وہی ظاہر ہوتا ہے جو زیرزمین موجود ہے۔ آم کی گٹھلی
بونے سے انناس۔۔۔ انناس کے بیج سے آم نہیں نکلتا۔ سطح پر وہ شے مظہر بنتی ہے جو
زیر سطح موجود ہے۔ زمین پر آم کے درخت کی موجودگی ’’اطلاع‘‘ ہے جو زمین کے اندر
بیج کو مل رہی ہے۔ غور کیا جائے تو زمین پر اور جو کچھ زمین کے ’’اندر میں‘‘ ہے،
سب ایک لیکن مختلف ہے۔ اختلاف۔۔۔ پردہ ہے اور پردہ۔۔۔ زمین ہے۔
آیئے غور کرتے ہیں کہ
زمین کیا ہے۔۔۔؟
ایسی مخلوقات بے شمار
ہیں جو زمین میں اس طرح داخل ہوتی ہیں جیسے ہم ایک مکان سے دوسرے مکان یا گراؤنڈ
فلور سے بیسمنٹ میں داخل ہوں۔ ہد ہد زمین کے اندر پانی کو اس طرح دیکھ لیتا ہے
جیسے آدمی گلاس میں پانی دیکھتا ہے۔
زمین کی گہرائی ہد ہد
کی نگاہ میں پردہ نہیں ہے۔ اگر زمین ہد ہد کے لئے پردہ نہیں ہے تو پھرآدمی کے لئے
پردہ کیوں ہے۔۔۔؟ آدمی زمین کی گہرائی آلات (Seismometer) سے دیکھتا ہے۔ مطلب یہ کہ دیکھنے والے نے اپنے اور زمین کے
درمیان میڈیم سے زمین کے اندر دیکھا۔
کیا یہ دیکھنا، براہ راست دیکھنا ہے۔۔۔؟ جب کہ
نہیں ہے۔
شعور میں وہی کچھ داخل
ہوتا ہے جو لاشعور میں ہے۔ اس کے باوجود شعور الگ اور لاشعور الگ ہے۔ پردہ کے ایک
طرف شعور، پردہ کے دوسری طرف لاشعور ہے۔
باہر موجود پانی،
ریفریجریٹر کے اندر برف ہے جب کہ برف۔۔۔پانی ہے۔ برف اور پانی کے درمیان
ریفریجریٹر، پردہ ہے۔ ریفریجریٹر خود کیا ہے۔۔۔؟ ایسا ڈبا ہے جہاں حرارت کا درجہ،
ڈبے کے باہر کے درجہ حرارت سے مختلف ہے۔ پانی برف اس لئے بن جاتا ہے کہ پانی کے
اندر برف کی مقداریں غالب ہیں۔ پانی کا منفی درجہ حرارت ریفریجریٹر میں غالب اور
باہر مغلوب ہے۔
درجہ حرارت منفی ہو یا
مثبت۔۔۔ حرارت دونوں میں مشترک ہے۔ حرارت کے کم یا زیادہ ہونے سے ماہیت (خدوخال)
تبدیل ہوتی ہے۔ اگر تبدیل شدہ صورت کو واپس اس درجہ پر لے آئیں جس پر وہ پہلے تھا
تو ایسا ممکن ہے۔ دوسری طرف پانی کو چولھے پر رکھیں اور ابالیں۔ پانی بھاپ بن کر
اڑ جاتا ہے یعنی بھاپ پانی ہے۔ چولہا بند کردیں۔ گرم پانی۔۔۔اپنے درجہ حرارت پر
واپس آجائے گا۔ فکر طلب ہے کہ پانی معتدل درجہ پر واپس آجاتا ہے لیکن ابلنے سے
پہلے اور بعد میں پانی کی خاصیت تبدیل
ہوجاتی ہے۔ جو لوگ مقداروں کے قانون سے واقف ہیں وہ پانی میں تصرف کا اختیار رکھتے
ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین ۔۔۔رحم اور اسپرم
(Sperm) بیج ہے جو رحم میں
متعین مقام پر سکونت اختیار کرتا ہے۔ اسپرم میں پوری تصویر ہے مگر تصویر میں رنگ
شعوری نگاہ سے اوجھل ہیں۔ رنگوں کا پھیلنا۔۔۔ تصویر کا نمایاں ہونا ۔ پھیلنے سے
اسپیس میں اضافہ اور رفتار کم ہوتی ہے۔۔۔ ماہیت تبدیل ہورہی ہے تاکہ اس میں موجود
خدوخال عام شعور کی حد میں داخل ہوسکیں، جس کے لئے مادی شعور کے حساب سے نو ماہ
لگتے ہیں۔اس علم کو ایک بار پھر سمجھئے۔۔۔ لاشعور سے آنے والی اطلاع کو دنیاوی
شعور میں ڈھلنے کے لئے 540 دن رات لگتے ہیں ۔ نو ماہ کا یہ عرصہ لاشعور میں کتنا
ہے، نہیں معلوم۔
احسن الخالقین اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میرا ایک دن پچاس ہزار برس کا ہے۔
میرا ایک دن ایک ہزار سال کا ہے۔
ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ہے۔
نو ماہ۔۔۔ رفتار ہے۔
باری تعالیٰ کے ارشاد پر تفکر کیا جائے تو شعور میں نو ماہ کا عرصہ لاشعور میں
کتنے ہزار سال ہوں گے، ورائے فہم ہے۔ لاشعوری اطلاع۔۔۔ شعور میں داخل ہونے کے لئے
مختلف مدارج سے گزرتی ہے۔ شعور میں داخل ہوکر رفتار کم ہوجاتی ہے۔
سمجھنے کے لئے اس تحریر
کو پانچ دفعہ پڑھئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سطح زمین پر شے کی
ظاہری وسعت زیرِزمین شے سے زیادہ ہے جب کہ دو رخوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے
لئے زیرِزمین بیج کے اندر شکل و صورت ہے۔ بیج چھوٹا لیکن اس میں پورا درخت ہے۔ پھل
لگتے ہیں اور پھل میں درجنوں بیج ہوتے ہیں۔ ہر بیج ایک درخت ہے اور ہر درخت سے
لاشمار درخت بنتے ہیں۔ بیج کیا ہے۔۔۔؟بیج درخت کی نوع کی مائیکروفلم ہے۔ غور و فکر
سے نوع کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
تفکر طلب ہے کہ جو بیج
زمین میں ہے وہ پھل میں ایک سے زائد تعداد میں ظاہر ہورہا ہے۔ بیجوں کو اس بیج سے
الگ نہیں کیا جاسکتا، درخت جس کا مظہر ہے۔ شاخ، پھل، پھول، پتوں اور ان کے ر نگوں
کو توانائی زمین سے مل رہی ہے۔ پانی جڑوں میں ڈالا جاتا ہے اور مقداریں تقسیم ہوتی
ہیں۔ ہر بیج عکس ہے اس بیج کا جس سے شے پیدا ہوتی ہے اور مقداروں میں ردوبدل کے
ساتھ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے۔
الَّذیْ خَلق فَسَوّٰی O وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی O
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح آسمان حدِّنظر
ہے۔۔۔ زمین بھی نظر کی حد ہے۔ نگاہ شعوری طور پر جہاں ٹھہرتی ہے اسے زمین یا خلا
کہہ دیا جاتا ہے۔ مخلوقات میں فہم و ادراک ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
·
تحقیق و تلاش ( سائنس) بتاتی ہے،
·
بلیاں اندھیرے میں آدمی سے آٹھ گنا بہتر دیکھتی
ہیں۔
·
آدمی جو شے چار یا پانچ فٹ کے فاصلہ سے دیکھتا
ہے۔۔۔ شاہین کو بیس فٹ سے نظر آتی ہے۔
·
باز اور شکرے دس سے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی سے
خرگوش یا چوہے کو دیکھ لیتے ہیں۔ 160 کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے فضا میں غوطہ
لگاتے ہوئے شکار پر جھپٹتے ہیں اور شکار نگاہ کے سامنے رہتا ہے۔
·
شارک کی نظر تاریکی میں آدمی کے مقابلہ میں پانچ
سے دس گنا بہتر کام کرتی ہے۔
·
سانپ محدود Visionکے باوجود حرارت کے ذریعے قرب و بعد میں چیزوں
کا ادراک کرتا ہے۔
ہر مخلوق میں آنکھ،
ناک، کان، زبان، دماغ، ہاتھ، پیر، پھیپھڑے، دل اور دیگر اعضا موجود ہیں۔ اعضا کی
ساخت مختلف لیکن ان میں اشتراک ہے۔ جو کام آدمی ہاتھ سے کرتا ہے، مچھلی پنکھ (Fins) سے انجام دیتی ہے۔
کسی کی آنکھ کو نمایاں تو کوئی کھال میں موجود ذرات سے دیکھنے کا کام لیتا ہے یا
لہروں کے ذریعے (Echolocation) چیزوں سے واقف ہوتا ہے۔
بصارت کے قانون میں
مشاہدہ کرایا جاتا ہے کہ آدمی کی نگاہ چوہے کو بڑا جب کہ سانپ چوہے کو چھوٹا
دیکھتا ہے اور چھوٹا سمجھ کر نگل جاتا ہے۔
قانون نگاہ کا زاویہ ، حجم کی نفی ہے۔
سوچنا یہ ہے کہ سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی
صلاحیت سب میں ہے لیکن میکانزم الگ الگ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات کی تشکیل اللہ
تعالیٰ کا حکم ہے۔
’’اللہ کا امر یہ ہے کہ
جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو، اور وہ ہوجاتی ہے۔‘‘ (یٰس: 82)
رب کائنات کے ذہن میں
کائنات کا پروگرام جس طرح موجود ہے وہ ’’کن‘‘ فرمانے سے ظاہر ہوگیا۔ ہر مخلوق ۔۔۔
انسان ملائکہ، جنات، سماوات، ارضیات، جمادات، نباتات، حیوانات وغیرہ کی مقداریں
’’کن‘‘ کا مظاہرہ ہیں۔ تخلیق کے بعد مخلوق کو ادراک نہیں تھا کہ وہ کون ہیں اور
کائنات کیا ہے۔ خالق کائنات نے الست بربکم فرمایا۔۔۔ سماعت، بصارت اور ادراک، تین
زون بنے ۔
·
سماعت کی بحالی سے اللہ کی آ واز کو سن لیا اور
آواز کے قانون کا استعمال سیکھا۔
·
بصارت متحرک ہونے پر نور کا مشاہدہ ہوا۔
·
ادراک ہوا کہ اللہ۔۔۔سماوات و ارض کا خالق ہے۔
اور تخلیق۔۔۔ معین مقداریں ہیں۔
قالو ابلیٰ۔۔۔ اطاعت کا
symbol ہے۔
دلدار۔۔۔ دوستو! الست
بربکم سے مخلوقات نے خالق کا عرفان اور کائنات کا تعارف حاصل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ
ہر شے باطن میں دوسری شے کا علم رکھتی ہے۔ ہدہد کو معلوم ہے کہ زمین میں پانی کہاں
ہے۔ بلی جانتی ہے کہ اندھیرا بھی روشنی ہے۔ ہاتھی۔۔۔ چیونٹی کی توانائی سے واقف
ہے۔ چمگادڑ کو لہروں کے قانون کا علم ہے۔پانی ، اندھیرا، روشنی، توانائی،
لہریں۔۔۔سب مخلوقات ہیں۔ فہم کے مطابق ان میں تصرف ہوتا ہے۔ رب العالمین نے انسان
کو اپنا نائب بنایا ہے۔ نائب کی صفات یہ ہیں کہ وہ مخلوقات سے زیادہ باصلاحیت ہو۔
المیہ یہ ہے کہ موازنہ کیا جاتا ہے تو واضح ہوتا ہے کہ انسان جن صفات کا مجموعہ
ہے، نوع آدم کی اکثریت ان سے واقف نہیں۔
’’اور ہم نے امانت پیش
کی سماوات کو، زمین کو، پہاڑ کو، انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اس امانت کو اٹھالیا
تو ہم ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور انسان نے اس امانت کو اٹھالیا۔ بے شک یہ ظالم اور
جاہل ہے۔‘‘ (الاحزاب 72:)
مقام فکر ہے کہ علم
حاصل ہونے کے بعد ظالم اور جاہل ہونے کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟
انسان یا کائنات میں
موجود کوئی بھی نوع یا کسی بھی نوع کا کوئی فرد زندگی گزارنے کے لئے دو رخوں کا
محتاج ہے۔ وَ مِنْ کُلِّ شَئیً
خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ۔
اور ہم نے ہر شے کو جوڑے جوڑے تخلیق کیا ہے۔ زندگی کیا ہے۔۔۔؟ مختصر تعریف یہ ہے
کہ زندگی ایسا وجود ہے جو حیات و ممات پر قائم ہے اور دونوں رخ ظاہر غیب ہیں۔ حیات
و ممات کے ردوبدل کے نتیجہ میں حواس تخلیق ہوتے ہیں۔ حواس ۔۔۔ردوبدل کی بیلٹ پر
مستقل متحرک ہیں۔
اس عبارت کا خلاصہ یہ
ہے کہ رات چھپ جاتی ہے تو دن ظاہر ہوتا ہے، دن چھپ جاتا ہے تو رات مظہر بن جاتی
ہے۔ یہ قانون پوری زندگی پر محیط ہے۔ علم اکتسابی ہو یا حضوری۔۔۔ دونوں کی بنیاد
غیب و شہود ہے۔
’’وہ اللہ ہے جس کے سوا
کوئی معبود نہیں۔ غائب اور ظاہر چیز کا جاننے والا ، وہی رحمن اور رحیم ہے۔ ‘‘
(الحشر 22:)