Topics
جب مجھے ہوش آیا تو چاروں
طرف چھپ اندھیرا تھا ۔ تاریکی اتنی زیادہ تھی کہ ہاتھ کو ہاتھ سمجھائی نہیں دے رہا
تھا۔ میرا انگ انگ دکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو میں تاریکی میں آنکھیں کھولے لیٹا
رہا اور یہ یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا ……کہ کہاں ہوں……پھر چند لمحہ بعد مجھے گزرے
ہوئے واقعات یاد آ گئے……یہ بھی غنیمت تھا کہ سر بھاری ہونے کے باوجود یادداشت قائم
تھی۔ ان بدبختوں نے نجانے کتنی دیر تک مجھے چکر دیئے تھے کہ سر میں ٹھہر ٹھہر کر
درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں……میں نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا تب مجھے احساس ہوا
کہ میں ایک پتھر کی سل پر لیٹا ہوں اور مجھے خیال آیا کہ کہیں کسی تہہ خانے میں تو
قید نہیں کر دیا گیا ہوں۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے ارد گرد کا جائزہ لینا شروع کر
دیا۔ لیکن تاریکی اتنی زیادہ تھی کہ آنکھیں جمانے کے باوجود کچھ دکھائی نہ
دیا……ابھی میں اس ماحول کے بارے میں سوچ رہا تھا……کہ فرش پر کئی آدمیوں کے چلنے کی
چاپ سنائی دی پھر باہر سے دروازہ کھولا گیا اور اس کے ساتھ ہی نہ صرف روشنی پھیل
گئی بلکہ تین تنو مند آدمی بھی اندر داخل ہو گئے۔ ان میں سے دو کے پاس بندوقیں
تھیں اور تیسرا جو کہ سیاہ لباس پہنے ہوئے تھے۔ اس کے ہاتھ میں لالٹین تھی……ان سب
کے پیچھے دروازہ کے درمیان ایک اور ہیبت ناک شخص تھا جس نے پورے جسم کو چادر میں
چھپایا ہوا تھا۔ اس کے سر پر شیشوں والی ٹوپی تھی۔ جو اس بات کی علامت تھی……کہ وہ
ان سب کا حاکم ہے۔
لالٹین پکڑے ہوئے شخص نے
میرے قریب آ کر مجھے اٹھ جانے کا حکم دیا……اور میں اس کی زبان نہ سمجھتے ہوئے بھی
اس کا مقصد سمجھ گیا۔ لہٰذا……فوراً ہی کھڑا ہو گیا……پھر انہوں نے ساتھ چلنے کو
کہا۔ میرے پاس ان کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ لہٰذا ……خاموشی سے ساتھ
ہو لیا……سب سے آگے لالٹین والا تھا۔ اس کے پیچھے دونوں بندوق برداروں کے درمیان
میں تھا۔ اور میرے پیچھے ٹوپی والا تھا……کچھ دور چلنے کے بعد ٹوپی والا دائیں جانب
چلا گیا اور ہم سب آگے بڑھتے رہے……ہم سب نے پیچ در پیچ کئی راہداریاں طے کیں……کئی
سیڑھیاں چڑھے اور کئی سیڑھیاں اترے……ایک ایسے راستے پر پہنچے جو قدرے سیدھا تھا
اور فرش پر قیمتی قالین بچھے ہوئے تھے……یہ ایک طویل راہداری تھی جو بتدریج روشنی
تھی۔ یعنی اس کا ایک حصہ تاریک تھا تو دوسرا دن کی طرح روشن……میں روشن حصہ کی طرف
بڑھ رہا تھا……راہداری کے اختتام پر ایک بڑا سا سنہری محراب دروازہ تھا……ہم جوں ہی
اس کے قریب پہنچے وہ خود بخود کھل گیا……یہاں آ کر لالٹین والا رک گیا اور دونوں
بندوق بردار مجھے لئے ہوئے آگے بڑھے……اس کمرہ کے فرش پر بھی نہایت ہی دبیز اور
خوبصورت قالین بچھا ہوا تھا……دیواروں پر نہایت ہی دیدہ زیب پچی کاری کا کام تھا۔
اور کمرہ کے گنبد جو کہ عین میرے سر کے اوپر واقع تھا رنگین شیشے جڑے ہوئے تھے۔ جن
میں رنگین روشنیاں چھن چھن کر قوس قزح کا سماں پیش کر رہی تھیں۔
ہم تینوں آگے بڑھتے ہوئے
ایک ایسے خوشنما ریشمی پردہ کے قریب پہنچ گئے جو کہ دیوار کی مانند دائیں سے بائیں
پھیلا ہوا تھا۔ چند لمحے سکوت چھایا رہا۔ پھر اس پردے کے پیچھے سے تالی بجنے کی
آواز آئی……اور اس کے ساتھ ہی نہایت سرعت سے پردہ سرک گیا……پردے کے سرکتے ہی میں نے
خود کو ایک ایسے دیوان خانہ میں پایا جو واقعی کسی بادشاہ کا معلوم ہوتا تھا۔
کمرہ میں گلاب اور حنا کی
خوشبو تھی۔ جس نے میرے دماغ کو معطر کرنا شروع کر دیا تھا……کمرہ میں اس قدر تیز
روشنی تھی کہ کسی بھی شے پر نظر نہیں ٹھہرتی تھی……پردہ کے سرکتے ہی میرے دونوں
محافظ زمین پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئے۔ اور مقامی زبان میں بولنے لگے۔ تب مجھے
احساس ہوا کہ یہاں کوئی اور شخص بھی موجود ہے، میں نے غور سے دیکھا……آخری دیوار کے
ساتھ قدرے بلند چبوترہ پر ایک نہایت ہی خوشنما کرسی رکھی ہوئی تھی۔ اور اس تخت نما
کرسی پر ایک بار عب اور پر جلال شخص گائو تکیوں کے سہارے شاہانہ انداز میں بیٹھا
ہوا تھا……داڑھی سے بھرا ہوا چہرہ اس کی خاندانی وجاہت اور بزرگی کا غماز تھا……ایک
نہایت ہی تندرست و توانا دوشیزہ مشک و عنبر کا بلوری پیالہ ہاتھ میں اٹھائے اس کے
بائیں جانب کھڑی تھی اور اس کی پشت کے دائیں جانب نوخیز لڑکیاں ایک لوک دھن ہلکے
سروں میں بجا رہی تھیں……جب پردہ سرک رہا تھا تو میں نے ایک نہایت ہی حسین دوشیزہ
کو بغلی دروازہ کی اوٹ میں الٹے پائوں جاتے ہوئے دیکھا تھا……اس کے پائوں میں بندھے
ہوئے گھنگرو چھنک رہے تھے۔
جب دونوں محافظ اپنی بات
ختم کر چکے تو اس شخص کی بھاری آواز گونجی……اسے قریب لائو اس آواز کے ساتھ ہی
دونوں محافظوں نے مجھے بازوئوں سے پکڑا اور تخت نما کرسی کی جانب دھکا دے دیا……میں
گرتے گرتے سنبھلا اور کھڑا ہو گیا……رئیس نے میری جانب نگاہیں اٹھائیں۔ میں اس کی
بڑی بڑی عقابی نگاہوں کی تاب نہ لا سکا اور نظریں جھکا لیں۔
تم کوٹ کے اند رکیوں
آئے……رئیس نے بڑے ہی دبنگ لہجہ میں پوچھا۔
میں……میں……میں……اس سے آگے
کچھ نہ کہہ سکا۔ میرا حلق خشک ہو گیا۔
میں……میں کے بچے……وہ غصہ
سے دھاڑا……تو جانتا ہے کہ کوٹ میں آنے کے بعد کوئی بھی شخص زندہ واپس نہیں جا
سکتا۔
میں جانتا ہوں……لیکن
سائیں میں مجبور تھا……میں گڑگڑایا۔
تیری کیا مجبوری تھی……وہ
پہلے سے کم سخت لہجہ میں بولا۔
اس کی شخصیت کا رعب کچھ
ایسا تھا کہ میں جواب نہ دے سکا……مجھے خاموش دیکھ کر اس کے چہرہ پر مسکراہٹ دوڑ
گئی……اور اس نے اپنی آواز میں نرمی پیدا کرتے ہوئے کہا……اگر تو سچ سچ بتا دے گا تو
یہاں سے زندہ بھی واپس چلا جائے گا……مجھے سچ بولنے والوں سے ہمدردی ہوتی ہے۔ اس کی
بات سن کر مجھے حوصلہ ہوا……اور میں نے ہمت کر کے پوچھا……سائیں سچ سچ بتا دوں آپ
ناراض تو نہیں ہو ں گے۔
نہیں……اس نے صرف یہ ایک
لفظ ادا کیا اور زیر لب مسکرانے لگا۔
سائیں! ‘‘اللہ رکھی’’ کے
پیچھے یہاں تک آیا ہوں……میں نے بتایا۔
اللہ رکھی……وہ بڑبڑایا۔
اور پھر پہلے ہی کی طرح کرخت لہجہ میں بولا……تو نے اللہ رکھی کو کہاں دیکھا تھا۔
میں نے اسے شروع سے لے کر
گلفروش ڈنو تک کے واقعات سنا دیئے……اور پھر کہا میں اسی کے تعاقب میں یہاں تک چلا
آیا تھا۔
میری بات سن کر اس نے ایک
زور دار قہقہہ لگایا……اور بولا……تجھے جس اللہ رکھی کی تلاش ہے وہ تو کسی مزار پر
بیٹھی بھیک مانگ رہی ہو گی……یہاں اس کا کیا کام؟
ممکن ہے یہ میری غلط فہمی
ہو……میں نے ندامت سے کہا۔
پھر بھی تیری غلط فہمی
دور کر دینا ضروری سمجھتا ہوں……اس نے بڑے ہی اطمینان سے جواب دیا۔ اور اس کے ساتھ
ہی دوبارہ تالی بجائی……ابھی تالی کی بازگشت ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ بغلی دروازہ
پر پڑے ہوئے ریشمی پردہ کو حرکت ہوئی……اور وہاں ایک جاذب نظر دوشیزہ رکوع کے انداز
میں نمودار ہوئی۔
اللہ رکھی کو بلائو……رئیس
نے اپنی بھاری بھر کم آواز میں حکم دیا……دوشیزہ واپس پردہ کے پیچھے غائب ہو گئی
اور چند ثانیہ بعد……ایک نوخیز لڑکی جس کا حسن قابل دید تھا……دروازہ کے درمیان ظاہر
ہوئی۔
اسے غور سے دیکھ لے……رئیس
کی بارعب آواز سنائی دی……کیا یہی تیری مطلوبہ اللہ رکھی ہے۔
میں نے گردن اٹھا کر اس
لڑکی کی طرف دیکھا……یہ وہی لڑکی تھی جو کہ چند دن قبل گلفروش ڈنو کی دوکان سے
پھولوں کا زیور خرید رہی تھی……میں نے نظریں جھکا کر انکار کے انداز میں سر ہلا
دیا……اس نے بائیں ہاتھ کے اشارہ سے دوشیزہ کو واپس جانے کا اشارہ کیا……اور دوسرے
ہی لمحہ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
میرے مجرم کا کیا حال ہے؟
رئیس نے اپنے محافظوں سے پوچھا۔
سائیں!……ایک محافظ نے ادب
سے جواب دیا……اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے۔
یہ جواب سن کر وہ مجھ سے
مخاطب ہوا……تم دونوں کا جرم ایک ہی ہے……فرق صرف یہ ہے کہ تم جس اللہ رکھی کی خاطر
کوٹ میں داخل ہوئے تھے۔ وہ اللہ رکھی یہ نہیں ہے……لیکن جس شخص کو تم نے میرے غضب
سے بچانے کی کوشش کی تھی……اس کی اللہ رکھی یہی ہے۔
میں اس کی بات کا کیا
جواب دیتا۔ خاموشی سے گردن جھکائے اس کی بات سنتا رہا……لیکن ایک عجیب سا خیال بار
بار میرے ذہن میں آ رہا تھا۔ میں نے اس شخص کو کہیں دیکھا ہے۔ لیکن کہاں دیکھا ہے
اور کب دیکھا ہے……یہ یاد نہیں آ رہا تھا۔
ابھی میں اپنے خیالات میں
کھویا ہی تھا کہ اس کی آواز سنائی دی……تمہارے دل میں صرف محبت ہی نہیں ہے۔ بلکہ
انسانی ہمدردی بھی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ تم نے میرے مجرم کو بچانے کی خاطر اپنی
زندگی خطرہ میں ڈال دی۔
آپ کا مجرم……میں نے قدرے
اچھنبے سے کہا۔ پھر سنبھل کر بولا……وہ دراصل میرے گلفروش دوست کا بھائی ہے……اور اس
نے بارہا سمجھایا بھی ہے کہ وہ اللہ رکھی کا خیال چھوڑ دے۔ لیکن یہ نہ مانا اور
آخر کار‘‘کوٹ’’ کے اندر گھس آیا۔ جہاں تمہارے محافظ اس پر تشدد کر رہے ہیں……
……اور یہ تم سے برداشت نہ
ہو سکا……اس نے تمسخرانہ لہجے میں میرا جملہ پورا کیا۔ اور پھر دوسرے ہی لمحہ
فلسفیانہ انداز میں بولا……عشق و حسن ازل کا جھگڑا ہے……اس بے وقوف کو سوچنا چاہئے
تھا کہ وہ زندگی بھر اپنی محبوبہ کو حاصل نہیں کر سکے گا۔
تو کیا تم اسے جان سے مار
دو گے……میں نے خوفزدہ ہو کر پوچھا۔
اس کا ابھی میں نے فیصلہ
نہیں کیا……اس نے میری جانب جھکتے ہوئے بتایا……ویسے ‘‘کوٹ’’ میں داخل ہونے والا شخص
مردوں سے بدتر زندگی گزارتا ہے۔
اس کے سفاکانہ لہجہ سے
میری پیٹھ میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ اور میں نے عاجزانہ انداز سے کہا……اس نے کوٹ
میں داخل ہوکر سخت غلطی کی ہے……لیکن آپ سمجھدار ہیں……قانون کو ہاتھ میں لینا اچھی
بات نہیں ہے۔
اور کسی کے کوٹ میں داخل
ہونا اچھی بات ہے……اس نے زہر خند سے جواب دیا……شاید تمہیں معلوم نہیں……کوٹ کے اندر
میرا قانون چلتا ہے۔ اور اگر میں تمہارے قانون کی پابندی کرتا تو……آج سے کئی برس
قبل قتل کیا جا چکا ہوتا……یا پھر سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا ہوتا۔
کیوں۔ ایسی کیا بات ہو
گئی……میں نے تعجب سے پوچھا۔
میرے دوست……وہ نہایت ہی
سنجیدگی سے بولا……یہ دنیا انسانوں کا ایسا تالاب ہے جس میں بڑے مگر مچھ ہر وقت منہ
کھولے چھوٹے مگر مچھوں کی تاک میں رہتے ہیں……اور اگر انسان اپنی عقل سے کام نہ لے
تو ان کا آسانی سے شکار ہو جاتا ہے۔
میں آپ کی بات نہیں
سمجھا……میں نے معصومیت سے جواب دیا۔
میری بات کے جواب میں اس
نے بھرپور نظروں سے میرے چہرے کا جائزہ لیا جیسے جاننا چاہتا ہو کہ واقعی میں اس
کا مطلب نہیں سمجھا……پھر وہ ایک دم اپنی نشست سے اٹھتے ہوئے محافظوں سے مخاطب
ہوا……ہم ‘‘بندی’’خانہ میں جانا چاہتے ہیں تا کہ اس شخص کو معلوم ہو جائے……اس نے
میری جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا……کہ اگر ہم اپنے قانون پر انحصار نہ کریں تو لوگ
ہمیں جینے نہیں دیں گے۔
آخری لفظ کے ساتھ ہی وہ
چبوترہ سے نیچے اتر آیا۔ اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا ہوا بغلی دروازہ میں
داخل ہو گیا۔
چند لمحے بعد……میں رئیس
کے دو محافظوں کی معیت میں مختلف راہداریوں سے گزر رہا تھا……وہ نہایت ہی تنو مند
شیدی گیس کے جلتے ہوئے ہنڈے اٹھائے آگے آگے چل رہے تھے……قیمتی اجرک کو سنبھالتا
ہوا رئیس نہایت ہی تمکنت اور وقار سے چل رہا تھا……گو کہ اس کی چال میں لنگ تھا……اس
کے باوجود……اس کا قد و قامت……تیکھے نقوش……اور بات کا انداز سب کچھ قدیم بادشاہوں
جیسا تھا……وہ حقیقت میں سندھ کے کسی شاہی خاندان کا آخری چشم و چراغ دکھائی دیتا
تھا……میں اس کے پیچھے تھا۔ اور ادھر ادھر نظریں دوڑاتا ہوا چل رہا تھا……ایک بار
پھر……ہم نے بہت سی غلام گردشیں طے کیں……کئی بھاری بھر کم آہنی دروازے کھولے
گئے……پتھر کی کئی سلیں سرکائی گئیں……تب کہیں جا کر ہم سب ایک ایسی راہداری میں
پہنچے جو دوسری راہداریوں سے زیادہ تنگ اور مہیب تھی……اس راہداری کے الٹے ہاتھ پر
آہنی دروازوں کا سلسلہ دور تک چلا گیا اور ہم سب کے قدموں کی چاپ سنگی فرش پر گونج
رہی تھی……جلتی ہوئی روشنی میں ہمارے سائے کھردری دیواروں پر آڑے ترچھے پڑ رہے
تھے……اور مجھے بچپن میں پڑھی گئی الف لیلیٰ کی کہانیاں یاد آ رہی تھیں……چلتے چلتے
رئیس نے پوچھا……اللہ رکھی کا عاشق کس کوٹھری میں ہے۔
سائیں! دائیں سے دوسری
کوٹھری میں……ایک محافظ نے بتایا۔
چند قدم چلنے کے بعد رئیس
رک گیا……ایک محافظ نے آگے بڑھ کر آہنی دروازہ میں پڑے ہوئے تالہ کو کھولا……اور پھر
دروازہ کھلتے ہی تیز بدبو کا بھپکا میری ناک سے ٹکرایا……میں نے گیس کی تیز روشنی
میں ایک نوجوان کو دیکھا جس کا جسم زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اور کوٹھری کے ایک
کونہ میں غلاظت کا ڈھیر تھا۔ اس نوجوان کی حالت زار دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو
گئے……وہ میرے دوست کا بھائی تھا……اور اس کا زنجیروں میں بندھا ہوا جسم زخموں سے
چور چور تھا۔
سائیں! مجھ پر رحم
کریں……نوجوان نقاہت سے گڑگڑایا……آپ کو خدا کا واسطہ مجھ پر رحم کریں۔
مجھے اس نوجوان کی فریاد
پر رحم آ گیا۔ میں نے رئیس کی طرف دیکھا۔ لیکن اس پر نوجوان کی فریاد کا کچھ بھی
اثر نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے چہرہ پر نفرت عود کر آئی ۔ اور وہ غصے سے بولا……میرے
‘‘کوٹ’’ میں آنے والا کتے سے بدتر موت مرتا ہے۔
آخری الفاظ کے ساتھ ہی اس
نے حقارت سے نوجوان کے منہ پر تھوک دیا۔ اور محافظ کو دروازہ بند کرنے کا اشارہ
کرتا ہوا باہر نکل آیا۔
اس کوٹھری کے بند ہو جانے
کے بعد……رئیس ایک دوسری کوٹھری کے سامنے پہنچ کر رک گیا……ایک محافظ نے آگے بڑھ کر
کوٹھری کا دروازہ کھولا۔ اور دونوں محافظ مجھے بازوئوں سے پکڑ کر اندر لے گئے۔
رئیس اندر نہیں آیا۔ وہ دروازہ کے درمیان میں کھڑا رہا۔ ہنڈوں کی روشنی میں مجھے
کوٹھری کے اندر کی ہر چیز صاف دکھائی دے رہی تھی۔
اس شخص کو خوب غور سے
دیکھ لو……باہر سے رئیس کی آواز سنائی دی۔
میں نے حکم کے مطابق
کوٹھری میں نظریں دوڑائیں اور ایک کونہ میں ایک شخص کو کسی خونخوار درندہ کی مانند
زنجیروں میں جکڑا ہو ادیکھا۔ اس شخص کے بدن پر کوڑوں کے نشان پڑے ہوئے تھے۔ جن سے
خون نکل کر جم گیا تھا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں اس کی جگہ نہیں ہوں۔
اس نقلی رئیس کو قریب جا
کر دیکھ لو……رئیس کی آواز دوبارہ سنائی دی……یہ گذشتہ کئی برسوں سے میرے بارے میں
معلومات اکٹھی کرتا رہا ہے اور میری حرکات و سکنات کی مشق کرتا رہا ہے۔
وہ شخص بے جان سا آنکھیں
بند کئے پڑا تھا۔ میں اس کے قریب پہنچ گیا اور اس کے ساتھ ہی مجھ پر حیرتوں کے
پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ وہ میرا دوست قاسم شیدی تھا۔
اصلی رئیس کہہ رہا
تھا……نہ جانے اس شیطان کے ذہن میں یہ سازش کس طرح آئی……کہ مجھے ہٹا کر خود رئیس بن
جائے۔
میں بیان نہیں کر سکتا کہ
رئیس کا یہ جملہ سن کر میرا کیا حال ہوا……اس کے ساتھ ہی میرے دماغ میں قاسم کی وہ
گفتگو تازہ ہو گئی جو کہ اس نے جی۔ایم بیراج کی تعمیر کے دوران ایک بار دوستوں کے
سامنے ہوٹل میں کی تھی۔
میں نے مڑ کر دروازہ کے
درمیان کھڑے ہوئے رئیس پر نظر ڈالی اور پھر کوٹھری کے سنگی فرش پر پڑے ہوئے اپنے
دوست قاسم کو دیکھنے لگا۔ دونوں میں سرمو کوئی فرق نہیں تھا……وہاں اگر فرق تھا تو
صرف لباس کا……ایک ننگے بدن فرش پر پڑا ہوا تھا اور دوسرا صاف ستھرا قیمتی لباس زیب
تن کئے خوشبو میں بسا کھڑا تھا……اور پھر اسی لمحہ میرے خون کی گردش تیز ہو گئی
اپنے برے وقت کے ساتھی کو اس حال میں دیکھ کر مجھ سے برداشت نہ ہو سکا……میں ایک دم
سے بپھر گیا اور قریب کھڑے ہوئے محافظ پر یہ کہتا ہوا جھپٹ پڑا۔
بدمعاشو۔ تم نے میرے دوست
کو قید کر رکھا ہے۔
میرے اچانک حملہ سے وہ
محافظ سنبھل نہ سکا۔ اس کا گلہ میرے دونوں میں تھا……میں اسے جان سے مار دینا چاہتا
تھا۔ عین اسی وقت دو غلاموں نے مجھے پیچھے سے پکڑ کر کھینچ لیا۔ میں آسانی سے قابو
میں آنے والا کہاں تھا۔ اپنے دوست کی خاطر لڑنے مرنے کو تیار ہو گیا……اور جب رئیس
کے آدمی مجھے کھینچتے ہوئے باہر لے جانے کی کوشش کر رہے تھے تو کوٹھری میں پڑے
ہوئے قاسم نے نہایت ہی نحیف آواز میں کہا……نوجوان! یہاں ایک نہایت ہی……سنگین جرم
سرزد ہوا ہے……ہمیں دھوکا دیا گیا……اصل رئیس……
اس سے قبل کہ میرا دوست
اپنا جملہ پورا کرتا……اس کوٹھری کا دروازہ ایک دھماکا کے ساتھ بند کر دیا گیا۔
اورمیرے دوست کی آواز اس کال کوٹھری میں گھٹ کر رہ گئی……رئیس کے آدمی مجھے گھسیٹتے
ہوئے پھر دیوان خاص کی طرف لے کر چلے……راستہ میں مجھے خیال آیا……میرا کیا حشر کرے
گا……اگر میں نے زیادہ دیر تک مزاحمت کی تو ممکن ہے……مجھے بھی قاسم کی طرح کسی ایسی
زمین دوز کوٹھری میں ڈال دے جہاں سے میں زندگی بھر نہ نکل سکوں……اس خیال کے آتے ہی
سنبھلا اور رئیس کے آدمیوں کے ساتھ چلنے لگا۔
محمد مونس خان عظیمی
‘‘اللہ
رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور
نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی
تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی
نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے
تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی
کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔
میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے
میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان
کے لئے دعائے مغفرت کریں۔
روحانی فرزند: حضرت خواجہ
شمس الدین عظیمی
مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور
فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷
۶۲جنوری
۵۹۹۱ء