Topics

حیات کیا ہے؟

جواب: مثلاً اللہ تعالیٰ کے ذہن میں انسان اور انسان کی شکل وصورت اسی طرح موجود تھی جس طرح انسان بحالت موجودہ پیدا ہو کر بالغ خدوخال حاصل کر کے ایک عمر تک ایک خاص مظہر کی حیثیت میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اس مثال کی وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ انسان کی ذات ایک حرکت ہے۔ وہ حرکت اللہ تعالیٰ کے حکم سے شروع ہوتی ہے۔ اس حرکت کے ہزاروں اجزاء ہیں اور ان اجزاء میں سے ہر چیز ایک حرکت ہے۔ گویا انسان کی ذات لاشمار حرکتوں کا مجموعہ ہے۔ جب انسان نے اپنی زندگی کی پہلی حرکت کی تو اس حرکت کی ابتدا کو الگ اور انتہا کو الگ مظہر بننے کا موقع ملا۔ ابتداءً جو حرکت وقوع میں آئی، وہ خالقیت کی صفت کا مظہر تھی۔ وہ حرکت ابتدائی مراحل سے گزر کر تکمیل تک پہنچی۔ پہلا جزو ابتدائی حرکت اور دوسرا جزو تکمیل۔ دونوں مل کر حیات انسانی کی ایک تمثیل بنی۔ اس حرکت کے فوراً بعد حیات انسانی کی دوسری حرکت شروع ہو گئی۔ پھر اس کی بھی تکمیل ہوئی۔ یہ دونوں تمثیلیں ہوئیں۔ پہلی تمثیل ایک ریکارڈ تھی اور دوسری تمثیل بھی ایک جداگانہ ریکارڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ پہلی تمثیل کا ریکارڈ اگر محفوظ نہ ہوتا تو زندگی کی پہلی حرکت جو زندگی کا ایک جزو ہے فنا ہو جاتی۔ اسی طرح دوسری تمثیل کا ریکارڈ نہ رہتا تو دوسری حرکت فنا ہو جاتی۔ اگر فنائیت کا یہ سلسلہ جاری رہتا تو زندگی کی ہر حرکت جیسے ہی وقوع میں آتی ویسے ہی فنا ہو جایا کرتی۔ اس طرح کسی انسان کی تمام زندگی کی نفی ہو جاتی اور پھر کسی طرح بھی ہم زندگی کو زندگی نہیں کہہ سکتے تھے۔ اس لئے یہ ضروری ہوا کہ زندگی کی ہر حرکت محفوظ رہے۔ زندگی کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت کے تحت واقع ہوئی ہے یعنی صفت خالقیت کی حدود میں ظاہر ہوئی۔ اس حرکت کا محفوظ رہنا اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی صفت میں ممکن تھا جو احاطہ کر سکتی ہو اور حفاظت کی صلاحیت رکھتی ہو۔ چنانچہ یہ لازم ہو گیا کہ حرکت صفت خالقیت کے تحت شروع ہوئی تھی اس کی تکمیل صفت قدرت کی حدود میں ہو۔ اب ہر حرکت کے لئے لازم ہو گیا کہ وہ صفت خالقیت یعنی رحمت کی حدوں میں شروع ہو اور صفت مالکیت یعنی صفت قدرت کی حدوں میں تکمیل پذیر ہو۔ اس اصول سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ رحمت اور قدرت کے سائے میں ہی حرکت وجود پا سکتی تھی۔ ان دونوں صفات کا سہارا لئے بغیر حرکت کا وجود ناممکن ہے۔

اس بیان سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ زندگی رحمت اور قدرت کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جس قدر صفات ہیں ان میں سے ہر صفت کے ساتھ رحمت اور قدرت کا جذب ہونا یقینی ہے۔

’الف‘ جن انوار کا نام ہے ان کو تصوف کی زبان میں ’’سِر‘‘ کہتے ہیں۔ سِر وہ انوار ہیں جو اپنی لطافت کی وجہ سے اعلیٰ ترین شہود رکھنے والوں کو نظر آتے ہیں۔ یہی وہ انوار ہیں جو نہر تسوید کے ذریعے موجودات کو سیراب کرتے ہیں۔ ان ہی انوار کے ذریعے سالک اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے۔

نہر تجرید، نہر تشہید اور نہر تظہیر کے انوار معرفت ذات تک نہیں پہنچا سکتے۔ ذات کی معرفت حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ سالک ان انوار کی معرفت حاصل کرے جن کا نام الف ہے۔

لوح محفوظ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی فرد دوسرے فرد سے روشناس ہوتا ہے تو اپنی طبیعت میں اس کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس طرح دو افراد میں ایک فرد اثر ڈالنے والا اور دوسرا فرد اثر قبول کرنے والا ہوتا ہے۔ اصطلاحاً ہم ان دونوں میں سے ایک کا نام حساس اور دوسرے کا نام محسوس رکھتے ہیں۔ حساس محسوس کا اثر قبول کرتا ہے اور مغلوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً زید جب محمود کو دیکھتا ہے تو محمود کے متعلق اپنی معلومات کی بنا پر کوئی رائے قائم کرتا ہے۔ یہ رائے محمود کی صفت ہے جس کو بطور احساس زید اپنے اندر قبول کرتا ہے۔ یعنی انسان دوسرے انسان یا کسی چیز کی صفت سے مغلوب ہو کر اور اس چیز کی صفت کو قبول کر کے اپنی شکست اور محکومیت کا اعتراف کرتا ہے۔ یہاں آ کر انسان، حیوانات، نباتات، جمادات سب کے سب ایک ہی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں اور انسان کی افضیلت گم ہو کر رہ جاتی ہے۔ اب یہ سمجھنا ضروری ہو گیا کہ آخر انسان کی وہ کون سی حیثیت ہے جو اس کی افضلیت کو قائم رکھتی ہے اور اس حیثیت کا حاصل کرنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔

انبیاء اس حیثیت کو حاصل کرنے کا اہتمام اس طرح کیا کرتے تھے کہ وہ جب کسی چیز کے متعلق سوچتے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کوئی رشتہ براہ راست قائم نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔کسی چیز کا رشتہ ہم سے براہ راست نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ رفتہ رفتہ ان کی یہ طرز فکر مستحکم ہو جاتی تھی اور ان کا ذہن ایسے رجحانات پیدا کر لیتا تھا کہ جب وہ کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے تھے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف خیال جاتا تھا۔ انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاً ہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے۔

جب ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی تو ان کے ذہن کی ہر حرکت میں اللہ تعالیٰ کا احساس ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہی بحیثیت محسوس کے ان کا مخاطب اور مدنظر قرار پاتا تھا اور قانون کی رو سے اللہ تعالیٰ کی صفات ہی ان کا احساس بنتی تھیں۔ رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کی صفات ان کے ذہن میں ایک مستقل مقام حاصل کر لیتی تھیں یا یوں کہنا چاہئے کہ ان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا تھا۔ یہ مقام حاصل ہونے کے بعد ان کے ذہن کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کی صفات کی حرکت ہوتی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی کوئی حرکت قدرت اور حاکمیت کے وصف سے خالی نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ ان کے ذہن کو یہ قدرت حاصل ہو جاتی تھی کہ وہ اپنے ارادوں کے مطابق موجودات کے کسی ذرہ، کسی فرد اور کسی ہستی کو حرکت میں لا سکتے تھے۔

بسم اللہ شریف کی باطنی تفسیر اس ہی بنیادی سبق پر مبنی ہے۔ اولیائے کرام میں اہل نظامت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی ذہن عطا کیا جاتا ہے اور قربِ نوافل والے اولیائے کرام اپنی ریاضت اور مجاہدوں کے ذریعے اس ہی ذہن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 


Topics


Loh o Qalam

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )