Topics
آپ
نے کسی بھی طرح سے اس عورت کے بارے میں نہیں جاننا چاہا…………اختر نے تجسس سے پوچھا۔
نہیں۔
یہ بات نہیں…………چچازاد نے جواب دیا…………میں نے ملازموں سے معلوم کیا۔ کیونکہ میرا
خیال تھا کہ رات کو ضرور کسی نے کوچوان سے بات کی ہو گی…………لیکن ان سب کا یہی کہنا
تھا…………کہ ان میں سے کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ کوچوان سے بات کر
سکتے…………اور بوڑھا کوچوان ماحول سے بے خبر رات بھر گاڑی کے پائیدان پر بیٹھا رہا۔
ملازم
آدھی رات گزرنے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
کمال
ہے…………اختر نے حیرانگی سے کہا۔
اس
سے بھی زیادہ تعجب خیز بات اگلے روز پیش آئی…………چچازاد نے قدرے مسکرا کر کہا۔
وہ
کیا…………اختر نے جلدی سے پوچھا۔
رات
بھر جاگنے کی وجہ سے میرا دماغ بوجھل ہو گیا تھا…………اگلے روز صبح سویرے سخت نیند آ
گئی اور میں اپنے کمرہ میں مسہری پر جا کر بے خبر سو گیا۔
پھر…………دوسرے
دن میری آنکھ گھنٹیوں کی آواز سن کر کھل گئی…………میں کچھ دیر بستر پر لیٹا۔ اس آواز
کو سنتا رہا پھر یک لخت بستر سے اٹھا اور دروازہ پر آ گیا…………وہی بھورا گھوڑا اور
کالی گاڑی سنگ مر مر کی سیڑھیوں کے پاس آ کر رک گئی…………کل کی طرح ویسے ہی کوچوان
نے دروازہ کھولا اور ویسے ہی گہرے سرخ رنگ کے برقعہ میں ملبوس پیکر نکلا اور
خراماں خراماں سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
یہ
وقت تھا۔ جبکہ سورج مغرب میں چھپ چکا تھا اور شفق کی سرخی کو رات کی تاریکی اپنی
آغوش میں سمیٹ رہی تھی…………اس شام بھی میرے باپ کے دوست کمرہ میں موجود تھے…………اور
ڈاکٹر پوری توجہ سے میرے باپ کو دیکھ رہا تھا…………ان سب کے چہرے تھکے ہوئے اور
افسردہ تھے۔ شام ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی واپس نہیں گیا۔ ان سب
کی نگاہیں بستر پر میرے بیمار باپ پر مرکوز تھیں۔ اور وہ عورت…………میرے باپ کے
سرہانے بیٹھی روشن آنکھوں سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔
آپ
نے اس بار بھی اس عورت سے بات نہیں کی…………اختر نے پوچھا۔
جب…………میں
کمرہ میں داخل ہوا تو ماحول پر ایک پراسرار سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اور اس سناٹے میں
کسی بھی شخص نے اس عورت کی طرف توجہ نہیں دی…………چچازاد نے بتایا…………فضاء میں پھیلی
ہوئی خوشبویات نے ہر شخص کے ذہن کو ایسا مست کر دیا تھا کہ ان میں کچھ سوچنے کی
صلاحیت ہی نہ رہی…………میرے دل میں بار بار یہ امنگ سی اٹھتی تھی کہ اس عورت سے بات
کروں…………لیکن نہ جانے وہ کونسی طاقت تھی جو مجھے اس سے بات کرنے سے روک رہی
تھی…………میں اس ماحول سے خوفزدہ ہونے لگا تھا کہ اچانک ڈاکٹر کی آواز سنائی دی۔
قریب
آ جائو…………تمہارے باپ کا آخری وقت آ پہنچا ہے…………اس کی نبض ڈوب رہی ہے۔
میں
تیزی سے آگے بڑھا اور باپ کی پٹی سے لگ کر زمین پر بیٹھ گیا۔
اسی
دوران سرخ رنگ کے برقعہ سے ایک نہایت ہی خوبصورت ہاتھ نکلا اور مخروطی انگلیوں نے
میرے باپ کی پیشانی کو آہستہ سے پکڑ لیا۔
اس
عورت کا ہاتھ پیشانی سے لگتے ہی میرے باپ نے آنکھیں کھول دیں…………وہ مجھے اپنے قریب
پا کر پوری قوت سے بولے۔
بیٹا!
میں اب نہیں بچ سکوں گا…………تمہارے کمرہ کی الماری میں ایک نہایت ہی قیمتی ہیرا
رکھا ہوا ہے…………میرے بعد یہاں کی تمام چیزیں فروخت کر کے…………اپنے رشتہ داروں کے
پاس لوٹ جانا…………یہ عمارت منحوس ہے…………اس عمارت نے…………تمہاری ماں کو مجھ سے جدا کر
دیا…………اور اب مجھے تم سب سے جدا کر رہی ہے…………یہاں…………موت کا
فرشتہ…………صورت…………میں آتا ہے۔
میرے
باپ نے بڑی مشکل سے آخری الفاظ ادا کئے اور اس کی گردن ڈھلک گئی…………میری چیخ نکلتے
نکلتے رہ گئی۔ بس ہونٹ کپکپا کر رہ گئے۔
میں
نے کرسی پر بیٹھی ہوئی عورت کی طرف دیکھا…………لیکن کرسی خالی تھی اور زینہ پر سرخ
رنگ کا برقعہ آہستہ آہستہ نظروں سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ جس طرح سے آسمان پر پھیلی
ہوئی شفق کی سرخی سمٹتی چلی جاتی ہے…………پھر ڈاکٹر نے آگے بڑھ کر میرے باپ کی
آنکھیں بند کیں اور اس کے ساتھ ہی میرے منہ سے سسکیاں نکلنے لگیں…………
اس
ماحول میں جہاں ہر ایک کو موت کی موجودگی کا احساس تھا۔ بلند آواز میں گھنٹیوں کے
بجنے اور گھوڑے کے دوڑتے وقت ٹاپوں کی آواز ہر ایک نے سنی…………پھر یہ آواز رات کے
سناٹے کو چیرتی ہوئی بتدریج دور ہوتی چلی گئی۔
اس
کا مطلب ہے وہ عورت موت کا فرشتہ تھی۔ اختر نے خوف زدہ ہو کر پوچھا۔
میرے
باپ کے آخری الفاظ اور اس عورت کی پراسرار آمد و روانگی سے تو یہی ظاہر ہوتا
ہے…………بہرحال میں نے باپ کی وصیت کے مطابق الماری سے ہیرا نکالا۔
یہ
کہہ کر انہوں نے سرہانے کی جانب سے بستر کے ایک کونہ کو تھوڑا سا الٹا اور چاندی
کی بنی ہوئی، ایک چھوٹی سی ڈبیہ نکال کر اختر کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے…………اس میں
وہ نہایت ہی قیمتی ہیرا ہے۔ جس کی مالیت لاکھوں روپے ہے۔
اختر
نے ڈبیہ ان کے ہاتھ سے لے کر کھولی۔ اس میں واقعی ایک نہایت قیمتی ہیرا جس کی
جسامت کبوتر کے انڈے جتنی ہو گی اور پوری آب و تاب سے جگمگا رہا تھا…………اختر نے
چند لمحہ اسے دیکھا اور پھر ڈبیہ بند کر کے واپس دے دی۔
چچازاد
بھائی نے ڈبیہ اس کے ہاتھ سے لے کر دوبارہ پہلے والی جگہ پر رکھ دی اور بولے میں
نے نہ صرف اس عمارت کا سارا سامان فروخت کر دیا۔ بلکہ عمارت ہی فروخت کر دی اور
اپنی بہن کو لے کر واپس اسی شہر میں چلا آیا۔
یہاں
میرے باپ کے تمام رشتہ دار رہتے ہیں۔ لہٰذا میں نے اسی محلہ میں مکان خرید کر
رہائش اختیار کر لی…………لکھنؤ والی عمارت بیچنے سے میرے پاس اتنی دولت آ گئی تھی کہ
ذریعہ ماش کی فکر نہ رہی۔ میں نے عذرا کو تعلیم دلائی۔ میرا خیال تھا کہ خاندان
والے مجھے یتیم سمجھ کر بخوشی قبول کر لیں گے…………لیکن انہوں نے آج تک میرے باپ کی
غلطی کو معاف نہیں کیا۔
عجیب
بات ہے…………اختر نے گہرا سانس لے کر کہا۔
برادر
عزیز…………چچازاد نے اسے پیار سے مخاطب کیا…………یہ تھا میری زندگی کا کچا چھٹا جو کہ
میں نے تمہیں صاف صاف سنا دیا…………پھر وہ افسردگی سے بولے مجھے اپنی تو فکر
نہیں…………لیکن عذرا کی فکر کھائے جا رہی ہے کیونکہ آج کل میں اکثر پھر ویسی ہی
گھنٹیوں کی آواز سننا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ موت کا وہ پیکر کسی بھی وقت آ سکتا
ہے۔
اللہ
نہ کرے…………اختر نے دعائیہ لہجہ میں کہا…………پھر ناگواری سے بولا…………مجھے آپ کے بارے
میں خاندان والے ہمیشہ غلط بتاتے رہے ہیں…………لیکن آج معلوم ہوا کہ آپ کا جرم کچھ
بھی نہیں ہے۔
خاندان
والے آج تک حسب نسب کو سینہ سے لگائے بیٹھے ہیں…………چچازاد نے اسی طرح افسردگی سے
کہا۔ تم کو پڑھا لکھا اور آزاد خیال سمجھ کر آج اپنی زندگی کی سب سے بڑی تمنا کا
اظہار کیا ہے۔
میں…………میں…………عذرا
سے شادی کروں گا…………اختر نے اعتماد سے کہا۔
اللہ
تمہیں سلامت رکھے…………چچازاد بھائی نے خوش ہو کر دعا دی۔ تم نے مرنے سے پہلے میرے
دل کا بوجھ ہلکا کر دیا۔
آپ
جب چاہیں…………اپنے فرض سے سبکدوش ہو سکتے ہیں…………اختر نے شرما کر کہا۔
میں
مرنے سے پہلے اپنے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں…………انہوں نے پیار سے کہا…………تم
قاضی اور محلے کے دو چار آدمیوں کو لے کر جمعہ تک آ جائو۔
ٹھیک
ہے…………اختر نے جواب دیا اور کرسی سے اٹھ کر مصافحہ کرتے ہوئے بولا۔ بعد نماز جمعہ
میں آ جائوں گا۔
اسی
ہفتہ جمعہ کے دن اختر نے تمام خاندان والوں کی مخالفت کے باوجود عذرا سے شادی کر
لی اور اس کا بھائی شادی کے دو ہفتہ بعد انتقال کر گیا۔
عذرا
نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ خوب سیرت بھی تھی۔ اس نے اختر کو پیار سے ایسا گرویدہ کیا
کہ وہ ‘‘ساوتری’’ کو بالکل ہی بھول گیا۔ ابھی ان دونوں میاں بیوی نے ہمدم و دمساز
بن کر صرف ایک سال ہی گزارا تھا…………کہ ‘‘آزادی’’ کی تحریک اٹھی…………اور ان علاقوں
میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ آگ اور خون کی ہولی کھیلی جانے لگی۔ مسلمانوں کے
جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں تھا۔
ہندوستان
کے مسلمانوں کو آزادی کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔
جب
انہوں نے دیکھا کہ جان و مال کے ساتھ عزت و آبرو بھی محفوظ نہیں رہی…………تو اپنی اس
سرزمین کو خیر باد کہہ دیا۔ جس کی خاک میں ان کے آبائو اجداد کی ہڈیاں دفن تھیں۔
اور جس کی دھول میں ان کی ثقافت کی سینکڑوں سال پرانی تصاویر۔
اختر
اپنی بیوی عذرا کے ہمراہ رات کی تاریکی میں نکلا۔ اور اس سرزمین کی طرف روانہ ہو
گیا۔
جسے
‘‘پاک’’ کی نسبت سے ‘‘پاکستان’’ کہا جاتا تھا۔
شہر
سے نکلنے کے بعد اس نے حسرت بھری نظروں سے اس شہر پر نظر ڈالی جہاں وہ پیدا ہوا
تھا…………جہاں اس کے ماں باپ دفن تھے…………جہاں اس نے بچپن گزارہ تھا…………پیدائش سے لے
کر اب تک تمام واقعات اس کی نظروں کے سامنے فلم کی طرح گزر گئے۔
آج
وہ شہر سے رخصت ہو رہا تھا کیونکہ اس شہر میں انسان انسان کا دشمن بن گیا تھا۔
اکثریت والے لوگ اقلیت والوں کے مکانوں کو دوکانوں کو حتیٰ کہ ان کی عبادت گاہوں
کو مسمار کر رہے تھے…………وہ انسان جو دو نظریہ کی بنیاد پر سینکڑوں برس سے ایک ساتھ
رہتے آ رہے تھے…………جن میں فرشتوں جیسی پاکیزگی تھی…………یکایک شیطان بن گئے تھے۔
آزادی…………یہ
کیسی آزادی تھی۔ اس نے حسرت سے اپنے شہر پر الوداعی نظر ڈالی۔ رات کی تاریکی میں
شہر جل رہا تھا اس کے شعلے آسمان تک پہنچ رہے تھے۔ اس کے کانوں نے عورتوں بچوں اور
مردوں کی کرب ناک چیخیں سنیں
٭×××××××××××٭
برصغیر
کی تقسیم کے وقت جو خون آشام ہنگامہ آرائی ہوئی تھی…………وہ ختم ہو گئی…………اور پھر
سے جلی ہوئی عمارتیں تعمیر ہونے لگیں…………لوگوں نے دیکھا کہ نظریہ کی اس آگ میں ان
کا دامن بھی جھلسا ہوا ہے۔
شیو
بھگوان کا مندر بھی زمین بوس ہو چکا تھا۔ اس کی دیواریں منہدم ہو چکی تھیں اور
بکھری ہوئی اینٹیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں۔شیو بھگوان کی مورتی اس طرح ٹوٹ کر بکھر
گئی تھی…………کہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی ماہر جراح نے اس کے اعضاء کو نہایت ہی سلیقہ
سے جدا کر کے رکھ دیا ہے۔
جب
سورج کی شعاعوں نے مکانوں کی چھتوں اور دالانوں میں اپنا دامن پھیلایا تو پنڈت ہری
رام ایک چرواہے کے روپ میں نمودار ہوا۔ اس کی ہیئت دیکھ کر کوئی بھی یہ نہیں کہہ
سکتا تھا کہ وہ شیو بھگوان کا مہان پجاری ہے۔ اس کے جسم پر بوسیدہ لباس تھا۔ چہرہ
اور سر کے بال آپس میں اس طرح باہم مل گئے تھے کہ صرف آنکھیں اور ناک ہی نظر آتی
تھی…………اس کے ساتھ صرف ایک گائے تھے…………سرمئی رنگ کی اس گائے کے ساتھ اس نے
ویرانوں میں پانچ سال گزار دیئے تھے…………اس کی غذا صرف گائوماتا کا دودھ تھا۔
وہ
شیوبھگوان کے کھنڈر شدہ مندر کے احاطہ میں داخل ہوا۔ اس نے حسرت اور خوشی کے ملے
جلے تاثرات کے ساتھ کھنڈر پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی اور اس جگہ پہنچ گیا جہاں کبھی
شیوبھگوان کی مورتی نصب تھی…………لیکن اب اسی جگہ بے جان مجسمہ کے ٹوٹے ہوئے اعضاء
فرش پر بکھرے ہوئے تھے۔
شیوبھگوان
کے اس پوتر مندر اور خود شیو بھگوان کو دیکھ کر اس کے ذہن کو ایک زبردست جھٹکا
لگا…………اس کے ساتھ ہی اس کے ذہن سے لپٹا ہوا ‘‘جذبہ’’ بیدار ہو گیا…………اس کے شعور
نے ایک دم سے زبردست انگڑائی لی…………یہ انگڑائی ایسی دلفریب تھی کہ اس کا دماغ چٹک
گیا…………اور اعتقاد و یقین کی اس درز میں سے اس نے جھانکنا شروع کر دیا۔
وہ
شیوبھگوان کے ٹوٹے ہوئے پائوں دیکھنے لگا…………یہ وہی پائوں تھے جو فخر و عظمت کے
ساتھ کھڑے تھے۔ اور ان ہی چرنوں میں کنواری کنیائوں نے اپنی آرزوئوں اور تمنائوں
کے چراغ روشن کئے تھے۔ یہ وہی پوترچرن تھے جن کی پتھریلی انگلیوں پر ان روشن جمال
استریوں کی پیشانیوں کے نشان تھے۔ جو ماتھے پر سہاگ کی بندیا سجا کر اپنے ہی پتی
دیوتائوں کی سلامتی مانگتی تھیں اور شیو بھگوان آج خود اس حال میں تھے کہ کوئی ان
کا پرسان حال نہیں تھا۔
ماورائی
طاقتوں کا عظیم دیوتا جس کے سامنے لوگ سرنگوں ہوتے تھے۔ آج خود زمین پر ڈھیر تھا۔
پھر
اس کی نظر ان نقرئی چراغوں اور منقش آتش دانوں پر پڑی جو شیو بھگوان کی مورتی کو
گھیرے رہتے تھے۔ اور جن کی ملگجی روشنی میں خوبصورت دیوداسیاں عقیدت و احترام کے
ساتھ بھجن گاتے ہوئے رقص کرتی تھیں۔
یہ
تمام مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے ایک حقیقت بیان کر رہے تھے…………اس نے محسوس کیا
کہ اس کا شعور اس نور کا جزو ہے جسے اللہ نے اپنی ذات سے جدا کیا تھا۔ اس کی روح
شعور کی دراز سے چیخ اٹھی۔ اسے پہلی بار پیہم لرزشوں کا احساس ہوا…………اس کے اعتقاد
و ایمان کا محل دھڑام سے نیچے آ گرا۔ اس کے شعور نے پہلی بار محسوس کیا کہ اس محل
کی تو کوئی بنیاد ہی نہیں تھی۔ وہ تو بس کہاوتوں اور کہانیوں کی بے سروپا بنیادوں
پر تعمیر کیا گیا تھا جن کے زیر اثر میں حقائق سے انحراف کرتا رہا۔
افسوس…………اس
کے دماغ میں آواز ایکو ہوئی…………ہمیشہ لوگوں کی سنی سنائی کہاوتوں سے مرعوب ہوتا
رہا۔ پتھر کے اس مجسمہ کو میں نے خود بھی سب سے بڑی طاقت جانا…………اور لوگوں کو بھی
اس ‘‘جھوٹ’’ کا یقین دلایا۔
‘‘اف
میرا یہ نفس تعظیم و تکریم میں کہاں تک چلا گیا تھا۔’’
میں
نے آدھی زندگی روح کی پاکیزگی کے بغیر گزار دی…………اور…………اور شیوبھگوان کی مبالغہ
آمیز شکتی حاصل کرنے کی خاطر زندگی کے پانچ سال ویرانوں میں گزار دیئے…………لیکن اس
تپسیا کا حاصل کیا ہوا…………شیوبھگوان زمین بوس ہے…………اور میں اس کی خستہ حالی سے
پریشان ہو رہا ہوں۔
اس
کے دل میں تسلی کی لہر اٹھی…………اقرار ندامت کا جذبہ بیدار ہوا…………نہیں یہ سب جھوٹ
ہے، فریب ہے اس کی روح نے کہا…………پیر حاضر شاہ…………تم کہاں ہو…………تمہارا خدا کہاں
ہے…………کہ وہی سچا ہے۔ وہی عظیم ہے۔ روح کی بازگشت نے اس کی قوت سماعت کو بڑھا
دیا…………اس نے چونک کر اپنے اطراف میں نظر ڈالی…………وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ
اس کا ایک بہت ہی پرانا معتقد موہن لال جو کہ زمیندار تھا اس کے چرنوں میں سر رکھے
ہوئے ہے۔
مہاراج…………آپ
کے درشن کو میری آنکھیں ترس گئی تھیں۔ موہن لال فرط عقیدت سے کہہ رہا تھا۔ آپ کے
درشن کو میری آتما بیاکل تھی۔
کھڑے
ہو جائو…………موہن لال…………پنڈت ہری رام نے نہایت ہی رعب سے حکم دیا۔
اور
اس کے ساتھ ہی موہن لال ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی نگاہوں میں عقیدت کی چمک
اور چہرہ پر خوشی نمایاں تھی…………پنڈت ہری رام کو پہلی بار احساس ہوا کہ سچی خوشی
کیا ہوتی ہے…………اس کے نفس نے پہلی بار اسے احساس دلایا کہ اس کا مقام کیا ہے۔ وہ
جب بھی اس بستی میں داخل ہوا۔ اس کے عقیدت مندوں نے بڑے ہی چائو سے اس کا سواگت
کیا۔ یہ عقیدت…………یہ عزت…………یہ تعظیم…………یہ احترام…………وہ چیزیں تھیں جنہوں نے
ہمیشہ پنڈت ہری رام کے نفس کا گھیرائو کئے رکھا…………اور اس وقت بھی جبکہ وہ روحانیت
کے دوراہے پر کھڑا صراط مستقیم کی طرف گامزن ہونے والا تھا۔ تو یہ موہن لال کہیں
سے آ ٹپکا۔ اور ایک بار پھر وہ انہی پگڈنڈیوں پر گامزن ہو گیا جو کہ بظاہر قوی
معلوم ہوتی تھیں۔
‘‘لیکن
حقیقت میں ناقص اور کمزور تھیں۔’’
٭×××××××××××٭
آپ
کہاں چلے گئے تھے مہاراج…………موہن لال ہاتھ جوڑے گھگھیایا…………زمانہ بدل گیا…………اس
دھرتی پر منش نے منش کا خون بہایا…………
موہن
لال…………پنڈت ہری رام نے اس کی بات کاٹ کر مخاطب کیا۔ وہ سمجھ گیا کہ موہن لال کیا
کہنا چاہتا ہے۔ لہٰذا شیوبھگوان کے بھرم کو قائم رکھتے ہوئے نہایت ٹھہرے ہوئے لہجہ
میں بولا…………ہم جانتے ہیں کہ اس دھرتی پر کیا ہوا…………یہی وجہ تھی کہ میں نے اور
شیو بھگوان نے اس دھرتی کو چھوڑ دیا تھا۔
کیا
مطلب مہاراج…………موہن لال نے حیرت سے پوچھا۔
ظاہری
اسباب یہی بتاتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا…………انسان کے اپنے ہاتھوں ہوا ہے۔
پنڈت
ہری رام نے اسے سمجھایا…………لیکن سب کچھ بھگوان کی منشا سے ہوتا ہے…………پھر وہ نہایت
ہی تکبر سے بولا…………کیا اس دھرتی کے کسی منش میں اتنی شکتی ہے کہ وہ شیوبھگوان کے پوتر
مندر کو مسمار کر دے اور اس کے سیوک کے استھان کو برباد کر دے۔
موہن
لال کیا جواب دیتا۔ پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھے جا رہا تھا۔
پرنتو
یاد رکھ…………وہ اس ہی انداز سے بولا…………اس دھرتی پر منش کوئی حیثیت کوئی اہمیت کوئی
شکتی نہیں رکھتا۔ جو بھی کچھ ہے وہ بھگوان اور اس کی شکتی پرائیت کرنے والے بھگتوں
کا ہے…………یہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے۔ ہماری منشاء سے ہوتا ہے۔
بالکل
سچ…………کہہ رہے ہو مہاراج…………موہن لال نے ہاتھ جوڑتے ہوئے تشکر سے کہا…………آج سے
پانچ برس قبل آپ نے میرے بارے میں جو کہا تھا سچ نکلا…………اب میں بہت بڑا ہو گیا
ہوں…………آپ کی پرارتھنا سے لکشمی نے میرے گھر میں ڈیرہ جما لیا ہے۔
پر
اب ہم کیا کریں…………پنڈت ہری رام نے لاپروائی سے کہا۔
آپ…………آپ
میرے گھر چلئے مہاراج…………موہن لال نے خوشامد سے کہا…………آپ کی موجودگی میرے لئے
باعث برکت ہو گی…………پھر وہ ادھر ادھر دیکھ کر بولا…………اب آپ یہاں کس طرح رہ سکتے
ہیں۔
موہن
لال نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ اس کی تجویز معقول تھی…………شیوبھگوان کے اس تباہ شدہ مندر
میں وہ کس طرح رہ سکتا تھا…………اس وقت اس کے اس عقیدت مند نے ‘‘دعوت’’ دے کر اس کی
رہائش کا مسئلہ حل کر دیا تھا۔ پنڈت ہری رام نے کوئی جواب دینے کے بجائے گائے کو
ایک مخصوص آواز سے بلایا۔
گائے
اس کی آواز سنتے ہی چلی آئی…………پنڈت ہری رام نے اس کی گردن پر پڑی ہوئی سرخ رنگ کی
چھوٹی سی دوڑی کو پکڑ اور بغیر کچھ کہے مندر کے احاطہ کے باہر کی طرف چل
دیا…………موہن لال اس کے پیچھے پیچھے ایک سچے عقیدت مند کی طرح چل رہا تھا۔
احاطہ
کے باہر موہن لال کی کار کھڑی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور پنڈت ہری
رام نے رعب کے ساتھ کہا…………دیکھتا نہیں ہے…………میرے ساتھ کون ہے…………اس کا اشارہ
گٹوماتا کی طرف تھا۔ موہن لال کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے گائے کی پیشانی کو
چھو کر اسے ڈنڈوت کیا۔ اور پھر گاڑی کا دروازہ بند کر کے اس کے پیچھے پیچھے ہو
لیا۔ اور پھر ڈرائیور اس کی گاڑی لے کر چلا گیا۔
٭×××××××××××٭
موہن
لال ایک غریب کسان کا بیٹا تھا۔ وہ اپنی مفلسی دور کرنے کی خاطر ‘‘شیوبھگوان’’ کے
مندر میں آیا کرتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ ‘‘شیوبھگوان’’ کی سیوا کرنے سے اس کی
قسمت پلٹ جائے گی…………یہیں اس کی ملاقات مہان پجاری پنڈت ہری رام سے ہوئی تھی۔
پنڈت
ہری رام نے اس کی ‘‘سیوا’’ سے خوش ہو کر اچھے دن پھر جانے کی دعا دی تھی۔ اب یہ اس
کی دعا کا نتیجہ تھا یا گردش حالات کا کہ تقسیم ہند کے بعد جب لوگوں نے سکون کا
سانس لینا شروع کیا۔ تو وہ امیر ترین آدمی بن چکا تھا…………اور اب…………وہ موہن لال کے
بجائے سیٹھ موہن لال کہلانے لگا تھا۔
اس
کے پاس سینکڑوں ایکڑ زرعی اراضی تھی۔ جس پر وہ کپاس کی کاشت کرتا تھا۔ اور پھر وہی
کپاس شہر میں واقع اس کے ‘‘موہن لال مل’’ میں لائی جاتی تھی۔ جہاں سینکڑوں مزدور
اپنے ہی جیسے انسانوں کا تن ڈھانپنے کی خاطر کپڑا بننے میں لگے رہتے تھے۔
اب
اس کے پاس بھگوان کی دیا سے سب کچھ تھا۔ مل کے احاطہ ہی میں اس کی دو منزلہ نہایت
ہی شاندار اور آرام دہ کوٹھی تھی…………جس کی نچلی منزل میں آخری کونے میں اس نے
لکشمی دیوی کا چھوٹا سا مندر بھی بنوا رکھا تھا۔ اور ہر روز صبح ہی صبح وہ اشنان
کر کے اس دیوی کے درشن کرنے کے بعد اپنے کام کا آغاز کرتا تھا…………اور یہ سمجھتا
تھا کہ یہ لکشمی دیوی کی برکتوں کا نتیجہ ہے کہ پیسہ آسمان سے برستا ہے۔
اس
کے پاس سب کچھ تھا…………لیکن اولاد نہیں تھی…………وہ اپنی زندگی کا سفر نہایت ہی
اطمینان بخش طریقہ سے طے کر رہا تھا لیکن اولاد نہ ہونے کا غم اسے اندر ہی اندر
کھائے جا رہا تھا۔ لاکھوں اور کروڑوں کی اس جائیداد کا مالک صرف اور صرف وہی تھا۔
اس کے بعد…………کوئی نہیں تھا۔
اس
ہی خواہش کی خاطر اس نے اپنی خوبصورت دھرم پتنی کوشیلا کا علاج پیرس اور امریکہ
جیسے ترقی یافتہ ممالک میں کرایا۔ بڑے بڑے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان دونوں
میاں بیوی میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن ان کی خوشیوں میں کبھی اضافہ
نہیں ہوا۔
کوشیلا
بھی موہن لال کی طرح دہقان کی بیٹی تھی۔ اور ہندو سماج کے مطابق کم عمری ہی میں
موہن لال سے بیاہ دی گئی تھی…………شادی کی پہلی رات سے لے کر آج تک اس کے دل میں
اولاد کی تمنا رہی۔ اس کی ہم عمر سکھیاں شادی کے سال بعد ہی نہ صرف ماں بن گئیں
بلکہ ان کی اولاد بھی جوان ہو چکی تھی۔
کوشیلا
کے دل میں ایک عورت ہونے کی حیثیت سے اولاد کی جتنی شدید تمنا تھی اتنی شاید موہن
لال کو نہیں تھی…………موہن لال تو صرف اپنی جائیداد کا وارث چاہتا تھا جبکہ کوشیلا
کو اپنی محبت کا طلبگار چاہئے تھا جو ماں کہہ کر اس کے سینہ سے لپٹ جائے۔ جو اپنا
غم اور خوشی سب کچھ اس سے کہہ لے اور…………اور…………جس کی وہ بے جا ضدوں کو پوری کرتی
رہے…………وہ اسے ڈانٹتی رہے…………اور وہ ماں کہہ کر اس کی آغوش سے لپٹتا رہے۔
اپنے
جذبہ محبت کی اس تسکین کی خاطر جب وہ امریکہ سے واپس لوٹی تھی تو ایک نہایت ہی
خوبصورت کتیا کے بچے کو بھی لے آئی تھی…………اور پھر اس کی تمام تر محبت اس کتیا کے
بچے کی طرف منتقل ہو کر رہ گئی تھی…………اور اب تو کتیا کا وہ بچہ بھی ‘‘جوان کتیا’’
بن چکی تھی۔ اور کبھی کبھی اپنی جبلی فطرت کا اظہار بھی کر دیتی تھی۔ موہن لال کو
اپنی دھرم پتنی کے جذبات کا احساس تھا۔ لیکن اس معاملہ میں وہ کر ہی کیا سکتا تھا۔
ہر
طرح کے طریقہ علاج سے مایوس ہو کر ایک بار پھر اس نے پنڈتوں اور جوگیوں کا سہارا
لیا۔ لیکن وہ سب ٹھگ نکلے۔ اور کوئی بھی اسے اولاد کی نعمت سے مالا مال نہ کر سکا۔
اور پھر اس کا دل پنڈت ہری رام کی یاد میں تڑپنے لگا۔ لیکن شیو بھگوان کا مندر
تباہ ہو چکا تھا اور پنڈت ہری رام جس کی دعا کے کارن وہ امیرانہ زندگی گزار رہا
تھا۔ اس کا کہیں پتہ نہیں تھا۔
محمد مونس خان عظیمی
یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک
جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن
جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم
ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس
کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا
مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔
میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا
اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین
و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا
جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔