Topics
خانہ کعبہ پر ہر وقت
اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ فرشتے طواف کرتے ہیں۔ بیت اللہ شریف اللہ
کا گھر ہے۔ زائرین جب بیت اللہ شریف جاتے ہیں اور خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں تو
ذہن اللہ کی صفات میں گم ہوجاتا ہے او روح روشنیوں، انوارو تجلیات کو دیکھتی ہے۔
اسی طرح جب زائرین ، اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے مسجد نبوی میں حاضر ہوتے ہیں تو انہیں
سیدنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت نصیب ہوتی ہے۔ انعام و اکرام سے نوازے
جاتے ہیں۔ خواتین و حضرات انوار نبوت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
تاریخ میں بے شمار
واقعات و مشاہدات ہیں جن کو پڑھ کر دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔ کیفیات و احساسات لطیف
ہوجاتے ہیں۔
پرتقصیر بندہ نے کوشش
کی ہے کہ 14 سو سال میں گزرے ہوئے اور موجودہ صدی میں موجود ایسے مرد و خواتین
بزرگوں کے حالات جمع کئے جائیں جن کو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض اور
زیارت نصیب ہوئی ہے اور خواتین و حضرات کو خالق اکبر اللہ وحدہ لاشریک کا صفاتی
دیدار نصیب ہوا ہے۔ ہزاروں میں سے چند واقعات پیش خدمت ہیں۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ
تمام عالم اسلام کو اللہ کے گھر اور اللہ کے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
طواف ایسی عبادت ہے جو
بیت اللہ شریف میں کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات علیم ہے اور علم کا سورس اللہ
ہے۔ رب کائنات کے علوم کے انوار و تجلیات کا مظاہراتی سطح پر نزول تخلیق ہے۔ اس
حرکت میں علم کی تجلی اپنے اندر کے علوم کا مظاہرہ کرتی ہے۔
طواف صعودی اور نزولی
دونوں کیفیات پر مشتمل ہے۔
صعودی حرکت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی جانب متوجہ
ہوتا ہے۔
نزولی حکت یہ ہے کہ بندہ مقدس زمین پر جسمانی
طور پر طواف کرتا ہے۔
خانہ کعبہ کا طواف کرنے
سے شعور اور لاشعور میں روشنیوں کا ہجوم ہوتا ہے۔
انوار و تجلیات کے ذخیرہ کی وجہ سے روح مشاہدہ
حق میں مصروف ہوتی ہے۔
طواف کرنے والے پر بے
خودی طاری ہوجاتی ہے۔
علیم و خبیر اور حکیم و
بصیر اللہ چاہتا ہے کہ انسان اپنی انتہا اور ابتدا کو پہچان کر خالق کائنات اللہ
کی صفات کا مشاہدہ کرے۔ بیت اللہ شریف اللہ کا گھر ہے۔ اللہ کی عبادت طواف کرنے
والوں کے ساتھ ساتھ وحدانیت کو قائم رکھنے کے لئے مرکز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حاجی یا زائر تلبیہ لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك
لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك۔ پڑھتے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کرتا ہے تو
انوار کے احاطےمیں ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں نے بتایا کہ
ہم نے خانہ کعبہ سے نکلنے والی ماورائی روشنیوں کو دیکھا ہے۔ ایک بزرگ نے زاروقطار
روتے ہوئے کہا کہ میں نے اللہ کو دیکھا ہے ۔ میرا وجود محسوسات کے دائرے سے نکل
گیا۔ میں نے دیکھا کہ میں اللہ کے نور کا ایک ذرہ ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے
مخاطب ہیں۔
"ہم نے تیری حاضری
قبول فرمائی۔"
ایک خاتون نے مسجد نبوی
میں درود و سلام پڑھتے وقت دیکھا کہ روضہ مبارک کے اندر سیدنا ابوبکر صدیق رضی
اللہ تعالیٰ عنہ، سیدنا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ
تعالیٰ عنہ تشریف فرما ہیں۔
ایک بزرگ نے خواب میں
دیکھا کہ میری عمر سات یا آٹھ سال ہے جبکہ میں بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا ہوں۔ اللہ
تعالیٰ کے شکر کے ساتھ بیان کرتا ہوں کہ میں خاتون جنت حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے گھر میں ہوں۔ وہ صحن میں موجود ہیں۔ ادب سے سلام عرض کرتا ہوں۔
خاتون جنت حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے سر پر ہاتھ رکھتی ہیں۔
ایک حاجی بیان کرتے ہیں
میں نے مراقبہ میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیارت کی وہ تخت پر
تشریف فرما ہیں۔ ان کے سر مبارک پر نہایت خوبصورت تاج ہے۔ امام حسین رضی اللہ
تعالیٰ عنہ تقریر فرمارہے ہیں۔ لوگوں کا اژدہام ہے۔ اتنی زیادہ ارواح طیبہ موجود
ہیں کہ جہاں تک نظر گئی حاضرین نظر آئے۔
خاتم النبیین حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی کو زیارت ہوئی۔۔ یہ امتی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام
کرتا ہے اوردعا کی درخواست کرتا ہے۔
ایک سالک نے بتایا کہ
میں پورے دن مسجد نبوی میں درود شریف کا ورد کرتا رہا۔ افطار کے وقت چھتری کے نیچے
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
ساتھ افطار فرمارہے ہیں۔ الحمد للہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بی
بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیارت کی۔ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
اس عاجز بندے کو افطار کے لئے ایک کھجور عطا فرمائی۔
روحانی علوم کے امین
ایک بزرگ نے ارشاد فرمایا۔۔ تہجد کے بعد باب جبرئیلؑ کے قریب آسمان سے نور کی
آبشار نزول کرتی ہوئی نظر آئی۔ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ
کے محبوب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مؤدب بیٹھے ہوئے دیکھا۔ صفا میں مراقبہ
میں نور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشاہدہ ہوا۔ چودہ سو سال پہلے کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر
(حجرے) دیکھے اور چودہ سو سال پہلے کی مسجد نبوی نظر آئی۔
ایک عبادت گزار خاتون
نے بتایا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں فجر کی نماز ادا کی۔ سیدناحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الاعلیٰ کی تلاوت فرمائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العالمین سے امت کی مغفرت کی دعا
فرمائی۔
رحمت الٰہی جوش میں آئی۔ ارشاد ہوا۔ "میں
نے تمہاری دعا قبول کرلی اور میرے بندوں نے جو گناہ کئے ہیں وہ معاف کردیئے۔ البتہ
ایک دوسرے پر جو ظلم کئے ہیں ان کا بدلہ لیا جائے گا۔"
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے اللہ تعالیٰ سے پھر درخواست کی ۔۔ "یا اللہ! تو اس پر قادر ہے کہ
مظلوم کے ظلم کا بدلہ عطا فرمادے اور ظالم کے قصور کو معاف کردے۔"
صبح مزدلفہ میں اللہ
تعالیٰ نے اس دعا کو شرف قبولیت بخشا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمیا ہے، کیا ہم رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں شریک ہوسکتے ہیں۔۔؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ نے میری دعا
قبول کی تو شیطان نے آہ و واویلا کیا اور غم سے سر پر مٹی ڈالی۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ
میں مکہ مکرمہ میں تھا۔ میرے پاس یمن کے رہنے والے بزرگ آئے اور فرمایا کہ میں
تمہارے لئے ہدیہ لایا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے دوسرے صاحب سے جو ان کے ساتھ تھے
کہا کہ اپنا قصہ سناؤ، انہوں نے بتایا کہ جب میں حج کے ارادے سے صفا سے چلا تو ایک
بڑا مجمع مجھے رخصت کرنے کے لئے آیا اور رخصت کرتے وقت ایک شخص نے کہہ دیا کہ جب
تم مدینہ طیبہ میں حاضر ہو تو حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات
شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں میرا سلام عرض کردینا۔ میں مدینہ طیبہ میں
حاضر ہوا اور سلام عرض کرنا بھول گیا۔ مدینہ منورہ سے رخصت ہو کر جب پہلی منزل
جوالحلیفہ پر پہنچا اور احرام باندھنے لگا تو مجھے اس شخص کا سلام یاد آگیا۔ میں
نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میرے اونٹ کا خیال رکھنا مجھے مدینہ طیبہ واپس جانا ہے،
میں کچھ بھول آیا ہوں۔
ساتھیوں نے کہا کہ اب
قافلہ کی روانگی کا وقت ہے تم پھر مکہ تک قافلے کو نہ پاسکو گے۔
میں نے کہاکہ پھر میری سواری کو بھی اپنے ساتھ
لیتے جانا۔
یہ کہہ کر میں مدینہ طیبہ لوٹ آیا اور روضہ اقدس
پر حاضر ہو کر اس شخص کا سلام عرض کیا۔ رات ہوچکی تھی مسجد سے باہر نکلا تو ایک
آدمی ذوالحلیفہ کی طرف سے آتا ہوا ملا۔
میں نے اس قافلے کا حال
پوچھا۔
اس نے کہا کہ وہ روانہ ہوگیا ہے۔
میں مسجد لوٹ آیا اور
یہ خیال ہوا کہ کوئی دوسرا قافلہ جاتا ہوا ملے گا تو اس کے ساتھ چلا جاؤں گا۔
رات کو سوگیا اخیر شب میں زیارت ہوئی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم سے عرض کیا،
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔ یہ شخص ہے۔
حضور پاک
صلی اللہ علیہ وسلم میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا ابوالوفاء۔
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
میری کنییت تو ابوالعباس ہے۔
حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔ تم
ابوالوفاء ہو۔
اس کے بعد حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ
پکڑا اور مجھے مسجد الحرام میں پہنچادیا۔ میں مکہ مکرمہ میں آٹھ دن تک مقیم رہا اس
کے بعد میرے ساتھیوں کا قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تاجروں کی ایک جماعت حج
کو گئی۔ راستے میں جہاز خراب ہوگیا۔ حج کا وقت ختم ہورہا تھا۔ ان میں سے ایک شخص
کے پاس پچاس ہزار اشرفیوں کا مال تھا وہ اس کو چھوڑ کرپیدل چل دیا، ساتھیوں نے
مشورہ دیا کہ تو اگر یہاں ٹھہر جائے تو تیرا مال فروخت ہوسکتا ہے۔
تاجر نے کہا،اللہ کی قسم اگر ساری دنیا کا مال
بھی مجھے مل جائے تو تب بھی حج کے مقابلے میں اس کو ترجیح نہ دوں گا کہ وہاں کی
حاضری میں اولیاء اللہ کی زیارت نصیب ہوگی اور جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں۔۔ لوگوں نے
پوچھا۔ آخر تو نے کیا دیکھا؟
اس نے بتایا، ایک مرتبہ حج کو جارہے تھے کہ پیاس
کی شدت نے سب کو پریشان کردیا۔ پانی نہ قیمت سے ملا اور نہ کسی اور طریقے سے۔۔ حلق
خشک ہوگیا، ہونٹ پیاس سے سوکھ گئے، دم نکلنے لگا۔ چند قدم آگے چلا تو ایک فقیر جس
کے ہاتھ میں ایک برچھا اور ایک پیالہ تھا اس نے اپنے برچھے کو زمین میں گاڑدیا۔
چشمہ ابل پڑا میں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور مشکیزہ بھرلیا اس کے بعد قافلے
والوں کو خبر دی۔ سب قافلے والے اس سے سیراب ہوئے۔
حضرت ابراہیم غواص رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں
پیاس سے اس قدر بے چین ہوا کہ چلتے چلتے پیاس کی شدت سے بے ہو ش ہو کر گر گیا۔ کسی
نے میرے منہ پر پانی ڈالا۔ آنکھ کھولی تو دیکھا ایک حسین چہرہ شخص نہایت خوبصورت
گھوڑے پر سوار ہے۔
اس نے مجھے پانی پلایا اور کہا میرے ساتھ گھوڑے پر
بیٹھ جاؤ۔
تھوڑی دیر چلے تھے کہ اس نے پوچھا یہ کون سی
آبادی ہے۔۔؟
میں نے کہا یہ تو مدینہ منورہ ہے۔
کہنے لگا۔۔ اتر جاؤ اور روضہ اقدس پر حاضر ہو تو
یہ عرض کردینا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے بھائی خضر نے سلام عرض کیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ،میں نے جب بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس و اطہر پر درود و سلام بھیجا، رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے۔ ایک رات مجھے مدینہ میں کچھ کھانے کو
نہ ملا۔ دوست کو علم ہوا۔ وہ میرے لئے دودھ کا پیالہ لایا۔ دودھ پیا اور سوگیا۔
خواب میں رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہوا۔
ارشاد فرمایا۔۔
"دودھ کا پیالہ میں نے بھیجا تھا۔"
شیخ الحدیث حضرت مولانا
سید بدر عالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ مدینہ
منورہ میں حاضر تھے۔
ایک روز بتایا کہ سیدناحضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام اپنے مہمانوں کے آرام و آسائش کے لئے نگرانی فرماتے ہیں۔ میں نے سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ انتظام کرتے اور مہمانوں کی خدمت کے لئے بار بار
ہدایت فرماتے دیکھا اور سنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مشہور بزرگ سید احمد
رفاعی رحمۃ اللہ علیہ جب حج کرکے مدینہ
منورہ حاضر ہوئے تو انہوں نے قبر اطہر کے قریب کھڑے ہو کر دو شعر پڑھے جن کا ترجمہ
یہ ہے،
دوری کی حالت میں، میں
جب اپنی روح کو خدمت اقدس بھیجا کرتا تھا
وہ میری نائب بن کر
آستانہ مبارک چومتی تھی،
اب جسم کی باری آئی ہے،
اپنا دست مبارک عطا
کیجئے تاکہ میرے ہونٹ اس کو چومیں
التجا قبول ہوئی۔۔ قبر
شریف سے دست مبارک نمودار ہوا۔
حضرت احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ نے دست مبارک کو بوسہ دیا۔
بتایا جاتا ہے کہ اس وقت نوے ہزار کا مجمع مسجد
نبوی میں تھا، جنہوں نے اس واقعہ کو دیکھا۔ سب نے اللہ کے محبوب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک کی زیارت کی ، جن میں شیخ
عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے۔
حضرت مولانا خلیل احمد
سہارنپوری مدنی رحمۃ اللہ علیہ مسجد
الحرام میں تشریف فرما تھے۔
بہت عجیب انداز میں آپ نے یہ شعر پڑھا۔۔
کہاں ہم اور کہاں یہ
نکتِ گل
نسیم صبح تیری مہربانی
|