Topics

جن کی موت


 

                پھر ایک دن سخت گرمیوں کی دوپہر کو جبکہ تمام گھر والے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے کمروں میں آرام کرنا چاہتے تھے ساوتری ایک جگہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ پہلے تو اس کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی لیکن جب اسے دھوپ میں کھڑے دیر ہو گئی تو ماں نے کمرہ میں چلنے کو کہا…………ساوتری نے جواب میں کچھ کہنا چاہا۔ لیکن اس کے گلے سے آواز نہیں نکلی۔ اس نے صرف ایک بار منہ کھولا اور بند کر لیا۔ ماں نے گھبرا کر فوراً ہی یہ بات اس کے پتا دیوان موتی رام کو بتائی۔ وہ کمرہ سے گھبرائے ہوئے نکل آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ساوتری گم سم سی کھڑی دروازہ کو تک رہی ہے۔ ابھی وہ صورت حال کو پوری طرح سمجھنے بھی نہیں پائے تھے کہ صحن کا دروازہ آواز کے ساتھ اس طرح کھلا جیسے باہر سے کسی نے زور سے دھکا دیا ہو۔ دروازہ کے کھلتے ہی ساوتری نے قدم آگے بڑھائے اور مشینی انداز میں باہر کی طرف چل دی۔ اس کے ماتا پتا حیرت و خوف سے کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ دیوانگی کا یہ دورہ ان کی سمجھ سے باہر تھا۔ وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر زمین پر سجدہ میں گر گئے اور گڑ گڑا کر بھگوان س پراتھنا کرنے لگے۔

                ابھی ساوتری دروازہ سے چند قدم کے فاصلہ پر تھی کہ شمشو نمودار ہوا۔ اس نے ایک نظر ساوتری پر ڈالی اور پھر دروازہ کے درمیان میں دونوں ہاتھ اس طرح سے پھیلا کر کھڑا ہو گیا کہ وہ باہر نہ نکل سکے۔ ساوتری مشینی انداز میں چلتی ہوئی اس کی پیٹھ سے ٹکرائی اور رک گئی۔ اس ہی لمحہ دروازہ کے سامنے گرد و غبار کا بادل سا اٹھا۔ جو کہ سیدھا ستون کی شکل میں اوپر کو اٹھتا چلا گیا۔ اور پھر اس کے گرد کے ستون میں سے ایک نہایت ہی خونخوار اور مہیب صورت کا شخص نکلا اس کا پورا جسم تانبے کی مانند چمک رہا تھا۔ اس کے سر اور بھنوئوں کے بال غائب تھے۔ آنکھیں دیئے کی مانند روشن تھیں اور اس کے اعضا قوی تھے۔ وہ آگے بڑھا۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے ساوتری کو اٹھا کر لے جانا چاہتا ہے لیکن شمشو پر نظر پڑتے ہی اس کے چہرہ پر غصہ اور نفرت ابھر آئی۔ اس نے اپنے ہونٹوں کو سکوڑا اور سینہ کا پورا زور لگا کر پھونک ماری دفعتاً آندھی آ گئی۔ اس کی پھونک شمشو کے بدن سے ٹکرائی۔ شمشو تھوڑا سا ہل گیا لیکن پھر۔ اس نے مضبوطی سے قدم جما لئے۔ ساوتری جو کہ اس کی پیٹھ سے لگی کھڑی تھی اس کے بال ہوا سے لہرانے لگے۔ شمشو کچھ دیر اس طوفان کا مقابلہ کرتا رہا۔ پھر اس نے داہنا ہاتھ بڑھایا اور اس مہیب صورت کے ہونٹوں پر اس طرح سے رکھا کہ ہوا نکلنا بند ہو گئی۔ شمشو نے ہاتھ ہٹا لیا ہاتھ کے ہٹاتے ہی اس مہیب صورت نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور اپنا غار جیسا منہ کھول دیا اور سانس اس طرح سے اندر کو کھینچنے لگا کہ شمشو ایک بار پھر ڈگمگا گیا۔ اس مہیب صورت کے منہ میں ہوا کے ساتھ کوڑا کچرا بھی جا رہا تھا۔ شمشو چند لمحہ دیکھتا رہا پھر اس نے دونوں ہاتھ کو لمبا کیا اور اس کے منہ کو اس طرح سے بند کر دیا جیسے دیگچی کو بند کرتے ہیں۔

                اس خوفناک صورت نے نہایت ہی نفرت بھری نظروں سے شمشو کو دیکھا اور پیچھے ہاتھ بڑھا کر گرد کے ستون میں سے ایک ہنٹر نکال لیا۔ لیکن وہ ہنٹر نہیں بلکہ ایک بڑا سا سانپ تھا۔ اس مہیب صورت نے سانپ کو دم سے پکڑا اور اپنے سر سے اونچا کر کے فضا میں دو بار گھمایا۔ اور بالکل چابک کے انداز میں شمشو پر مارا۔ شمشو نے فوراً ہی ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ خوفناک سانپ اس کے ہاتھ پر لپٹ گیا۔ شمشو نے دوسرے ہاتھ سے اس کے بل نکالنا چاہے لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے ہاتھ میں لوہے کے کڑے پہنا دیئے گئے ہوں، یوں شمشو کی اس ناکامی پر اس مہیب صورت نے ایک زور دار فاتحانہ قہقہہ لگایا اور سانپ کی دم کے سہارے جو کہ اس کے ہاتھ میں تھمی ہوئی تھی شمشو کو کھینچنے لگا۔ لیکن شمشو اپنی جگہ پر ایسے کھڑا تھا جیسے چٹان ہو۔ پھر شمشو نے زمین پر آہستہ سے پائوں مارا۔ جس جگہ اس نے پائوں مارا وہاں ایک چھوٹا سا سوراخ ہو گیا اور اس میں سے ایک بڑا سا نیولا نکلا۔

                نیولے کو دیکھتے ہی سانپ نے شمشو کے ہاتھ کو چھوڑ دیا اور خوفزدہ ہو کر گرد کے ستون میں گھسنے لگا۔ ابھی وہ گرد کے طوفان میں پوری طرح گھسنے بھی نہ پایا تھا کہ نیولے نے اسے دم سے پکڑ کر کھینچا اور باہر لا کر اس کے پھن کو منہ میں لے کر زمین سے رگڑنے لگا۔ سانپ نے کئی بار اس کے گرد لپٹنا چاہا لیکن نیولے نے موقع ہی نہیں دیا۔ اور تھوڑی دیر بعد سانپ بے دم ہو گیا۔ سانپ کا حشر دیکھ کر مہیب صورت پر خوف چھا گیا اور وہ نیولے پر نظریں جمائے ہوئے الٹے قدموں چلتا ہوا مٹی اور گرد و غبار کے ستون میں غائب ہو گیا۔ پھر وہ ستون بھی زمین پر بیٹھتا چلا گیا اور چند لمحہ بعد وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ شمشو نے خاموشی سے دروازہ کو باہر سے بند کر دیا۔ اور بغیر کچھ کہے سنے وہاں سے چل دیا۔

٭×××××××××××٭

                شمشو کے جاتے ہی ساوتری اس طرح سے چونکی جیسے خواب سے بیدار ہوئی ہو۔ اس نے اپنے چاروں طرف ایک بھرپور نظر ڈالی۔ پھر اس نے اپنے ماتا پتا کو دیکھا جو اس چلچلاتی دھوپ میں زمین پر سجدہ میں پڑے ہوئے تھے۔ اس نے آگے بڑھ کر اپنے ماں باپ کو اٹھایا اور پھر اپنے کمرہ میں آ کر بستر پر لیٹ گئی۔

                ساوتری کے لئے یہ واقعی ایک خواب تھا۔ وہ اکثر ایسے واقعات سے سپنوں میں دوچار ہوا کرتی تھی لیکن جب کبھی وہ ایسی مشکل یا مصیبت میں پھنسی تو ہمیشہ ایک نورانی صورت والے بزرگ نے اس کی مدد کی۔ لیکن یہ تیسرا موقع تھا جبکہ شمشو اس کی مدد کو آیا تھا۔ شمشو کو وہ پہچان چکی تھی۔ سپنوں میں اڑا کر لے جانے والا خوبرو نوجوان جس کے دو نہایت ہی خوبصورت سنہرے پر تھے یہی شمشو تھا۔ شمشو کے بارے میں وہ جتنا بھی سوچتی الجھتی چلی جاتی۔ کیونکہ کافی عرصہ سے وہ نورانی صورت اس کو سپنوں میں نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس نورانی صورت بزرگ کا تصور اسے بے چین کر دیتا تھا کیونکہ سپنے میں مسجد کے دروازہ تک چھوڑنے کے بعد شمشو تو ایک جانب سر جھکا کر کھڑا ہو جاتا تھا اور پھر وہ بزرگ نہایت ہی پیار اور شفقت سے اسے اندر لے جاتے تھے۔ مسجد کے اندر کی دنیا ہی نرالی تھی۔ یہاں مولویوں اور نمازیوں کے بجائے دوسرے حسین و جمیل صورت کے لوگ موجود ہوتے تھے۔

                وہ نورانی صورت بزرگ اسے نہ صرف عالم بالا کی سیر کراتے تھے بلکہ روحانی علوم سے آراستہ بھی کرتے تھے اور رموز سے آگاہ بھی کرتے تھے۔

٭×××××××××××٭

                اس شکست نے پنڈت ہری رام کو شدید مشتعل کر دیا اور اس نے شمشو سے فیصلہ کن معرکہ کرنے کا پکا ارادہ کر لیا۔

                پھر ایک دن نماز فجر کے بعد جب لوگ مسجد سے نکل رہے تھے تو انہیں پیر حاضر شاہ کے مکان سے شمشو کی بڑی ہی دلخراش چیخیں سنائی دیں۔ چیخیں سن کر لوگ ان کے دروازے پر رک گئے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھاکہ…………یہ کیا ہو رہا ہے۔ خان بہادر بھی لوگوں میں شامل تھے۔ وہ بھی مسجد سے نماز پڑھ کر نکلے تھے۔ انہوں نے ہمت کی اور اندر داخل ہو گئے۔ ان کے پیچھے مرزا جی اور ایک دو آدمی اور تھے۔

                جب وہ صحن عبور کر کے اندر پہنچے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شمشو اپنے کمرہ میں پلنگ کے پاس کھڑا اچھل رہا ہے وہ کبھی اپنے سر کو پکڑتا اور کبھی دونوں ہاتھوں سے پیٹ کو سنبھالتا اور ساتھ ہی ہائے میں مر گیا۔ ہائے میں مر گیا کہہ کر نہایت ہی دلخراش چیخ مارتا تھا۔

                خان بہادر اور دوسرے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ شمشو کو کیا ہو گیا۔ کوئی سوچ رہا تھا کہ اس کے سر میں درد ہے اور کوئی سمجھ رہا تھا کہ پیٹ میں تکلیف ہے۔

                خان بہادر نے کمرہ کے دروازہ سے جھانک کر اسے آواز دی۔ اور پوچھا…………کیا بات ہے؟

                شمشو نے اس ہی طرح اچھلتے ہوئے جواب دیا۔

                ‘‘پنڈت ہری رام۔’’

                اور پھر اس کے منہ سے دلخراش چیخ نکل گئی۔ پنڈت ہری رام کا نام سن کر وہاں پر موجود ہر شخص ایک دوسرے کا منہ تکنے لگا۔

                پنڈت ہری رام سے ہر کوئی واقف تھا۔ بہت عرصہ پہلے وہ یہاں سے چلا گیا تھا اور کوئی مہینہ سوا مہینہ قبل ہی واپس لوٹا تھا۔ لیکن پنڈت ہری رام کا شمشو سے کیا تعلق ہے؟ شمشو نے اس کا نام کیوں لیا؟ لوگ ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ شمشو پنڈت ہری رام سے کیا چاہتا ہے؟ …………کہ کھڑائوں پہنے کسی کے چلنے کی آواز سنائی دی۔ لوگوں نے آواز کی سمت پلٹ کر دیکھا اور چونک اٹھے۔

                پنڈت ہری رام حسب معمول گلے میں بڑا سانپ ڈالے شمشو کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کا حلیہ کچھ اس قسم کا تھا کہ لوگ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔ پنڈت ہری رام نے دروازہ پر پہنچ کر بغور شمور کو دیکھا۔ غرور سے اس کی گردن تن گئی اور فاتحانہ لہجہ میں اس سے مخاطب ہوا میں نے تجھ سے کہا تھا کہ میں نے ہار کبھی نہیں مانی…………کبھی نہیں۔

                فریبی، دغا باز…………شمشو اپنے پیٹ کو پکڑ کر نہایت ہی تکلیف دہ آواز سے بولا۔ تو نے غفلت میں وار کیا ہے۔ مجھے سوتے میں آ دبوچا ہے۔

                تو پھر بلا لے اپنے پیر کو…………پنڈت ہری رام نے زہر خند سے کہا۔ اور اس کے ساتھ ہی فضا میں ایک گونجدار آواز سنائی دی…………ہم حاضر ہیں۔

                خان بہادر اور لوگوں نے دیکھا کہ پیر حاضر شاہ صحن کے ایک کونہ میں کھڑے ہوئے بیری کے درخت کے پیچھے سے بید ٹیکتے ہوئے آ رہے ہیں۔ ان پر نظر پڑتے ہی لوگوں کے چہرے کھل اٹھے۔ لیکن پنڈت ہری رام کو نہ جانے کیا سوجھی۔ وہ تیزی سے اندر کمرہ میں طاق کے پاس پہنچا…………طاق میں کڑوے تیل کا دیا جل رہا تھا…………اس کے ارادہ کو بھانپتے ہوئے پیر حاضر شاہ چلائے۔ ٹھہرو پنڈت ٹھہرو…………میں آ رہا ہوں۔

                پنڈت ہری رام نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا۔ پھر ان کی بات نظر انداز کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ایک چھوٹے سے کپڑے کو چراغ کی لو دکھا دی۔ کپڑے نے فوراً ہی آگ پکڑ لی۔ اس کے ساتھ ہی شمشو نے تڑپ کر ایک چیخ ماری اور پلنگ پر گر پڑا۔

                پیر حاضر شاہ ن ے دروازہ پر پہنچ کر ایک نظر شمشو پر ڈالی اور پھر گھور کر پنڈت ہری رام کی طرف دیکھا۔ غصہ سے ان کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ ایسا غصہ ایسا جلال ایسا رعب لوگوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پنڈت ہری رام کپکپا کر رہ گیا۔ اس نے بڑی مشکل سے تھوک نگلا۔ پیر حاضر شاہ کا چہرہ اعتدال پر آتا چلا گیا جیسے سورج کے سامنے بادل آ گیا ہو۔

                پنڈت جی…………وہ اندر کمرہ میں قدم بڑھاتے ہوئے بولے:

                ‘‘جب میں آ ہی گیا تھا تو ذرا صبر کر لیا ہوتا۔’’

                پنڈت ہری رام کو اپنی اس کامیابی پر بے انتہا خوشی تھی اور وہ اس ہی خوشی میں سرشار بولا:

                ‘‘کیا فرق پڑتا ہے زندہ کر لے اپنے موکل کو۔’’

                ‘‘اب تو تم نے کھیل ہی ختم کر دیا۔’’

                انہوں نے جواب دیا۔ پھر شمشو کے پلنگ کے پاس کھڑے ہو کر نہایت ہی معصومیت سے پوچھا:

                ‘‘اس نے تمہارا کیا بگاڑا تھا؟’’

                اپنے بیر سے خود ہی معلوم کر لے’’…………پنڈت ہری رام نے تمسخر سے جواب دیا۔

                پیر حاضر شاہ اب بالکل ہی پہلے کی طرح ہو چکے تھے۔ ان کے مزاج میں پہلے ہی کی طرح نرمی اور شگفتگی پیدا ہو چکی تھی۔ انہوں نے جھک کر شمشو کے چہرہ پر ایک نظر ڈالی۔ اور نہایت ہی نرم لہجہ میں بولے:

                ‘‘اسے مار کر تم نے بہت برا کیا…………ناحق ایک خون اپنی گردن پر لے لیا۔’’

                اس نے بھی تو مجھے بہت ستایا تھا…………پنڈت ہری رام نے جواب دیا۔ پھر شکوہ والے انداز سے بولا۔

                اس نے میرے دو بیروں کو ختم کر دیا تھا۔

                ہونہہ…………پیر حاضر شاہ نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔ پھر وہ نہایت ہی سرگوشی سے بولے:

                ‘‘ساوتری کی حفاظت پر ہم نے اسے مامور کیا تھا۔’’

                ان کی سرگوشی کو دروازہ پر کھڑے لوگ بالکل نہیں سن سکے۔

                میرے آڑے جو بھی آئے گا۔ اس کا یہی انجام ہو گا…………پنڈت ہری رام نے فخر سے سینہ پھولا کر کہا:

                ‘‘میرے پاس بھگوان کی پرائیت کی ہوئی شکتی ہے۔ میں شیو بھگوان کا پجاری ہوں۔

                بھگوان کی عطا کی ہوئی شکتی منش کا خون نہیں چاہتی…………پیر حاضر شاہ نے سکون سے جواب دیا۔ یہ تو نجس اور ناپاک طاقتیں ہیں جنہوں نے تمہیں ناحق ایک خون سے ہاتھ رنگنے میں مجبور کر دیا۔

                یہ انسان نہیں تیرا بیر ‘‘جن’’ تھا۔ پنڈت ہری رام نے جتانے والے لہجہ میں کہا۔

                اگر تم یہ جان ہی چکے ہو کہ یہ جن تھا۔ تو جائو اپنی خیر منائو…………پیر حاضر شاہ نے سمجھایا۔ اس کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ دار تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔

                میری چنتا نہ کرو۔ میں ہر کام سوچ سمجھ کر کرتا ہوں…………پنڈت ہری رام نے شرارت آمیز مسکراہٹ سے کہا۔ پھر وہ جارہانہ لہجہ میں گردن اکڑا کر بولا۔

                ہاں اگر تم بدلہ لینا چاہو تو میں کھڑا ہوں۔ پھر نہ کہنا شیو بھگوان کا بھگت بھاگ گیا۔

                اس کی یہ بات سن کر پیر حاضر شاہ نے اس پر اوپر سے نیچے تک ایک طائرانہ سی نظر ڈالی۔ جیسے وہ کوئی فیصلہ کر رہے ہوں…………پھر وہ نہایت ہی ٹھہرے ہوئے لہجہ میں سکون سے بولے:

                ‘‘تمہارا جتنا ظرف تھا۔ جتنی طاقت تھی تم نے دکھا دی۔ میرا ظرف مجھے بدلہ لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ میں اپنے آقاﷺ کے نقش قدم کو نہیں چھوڑ سکتا۔ جس نے احد کے میدان میں چہرہ لہولہان ہونے کے باوجود دشمنوں کے حق میں بددعا نہیں کی۔’’

                وہ والہانہ انداز سے بولے:

                ‘‘جس نے طائف کے شہریوں کے پتھر کھائے لیکن ان کے خلاف اف تک نہ کی۔ جسے اللہ نے رحمت اللعالمین کہا۔ اور جس نے فتح مکہ کے بعد اپنے عزیز ترین چچا کے قاتل سے بھی باز پرس نہیں کی۔’’

                پنڈت ہری رام نے حیران و پریشان نظروں سے پیر حاضر شاہ کو دیکھا اور پھر تکبر سے باہر کی جانب چل دیا۔ لیکن اس کی جھکی ہوئی گردن اور خاموشی شرم و ندامت کا مظہر تھی۔

                ضبط نفس کا اتنا زبردست مظاہرہ اس نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے چہرہ پر کوئی سوال ابھرے اور مٹ گئے۔

٭×××××××××××٭

                اس کے جانے کے بعد…………پیر حاضر شاہ نے ایک سفید چادر سے شمشو کے بدن کوڈھانپ دیا اور دروازہ پر کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف آئے اور قریب پہنچ کر کہا:

                ‘‘ابھی ابھی جو سانحہ پیش آیا ہے اس پر مجھے سخت افسوس ہے۔ آپ سب کی تشریف آوری کا شکریہ۔’’

                یہ پنڈت ہری رام ہے کون؟…………ایک شخص نے پوچھا…………شاید وہ اسے اچھی طرح سے نہیں جانتا تھا۔

                چند ماورائی طاقتوں کا مالک ہے۔ پیر حاضر شاہ نے بتایا…………خود کو ہندو مذہب کے ایک دیوتا شیو بھگوان کا پجاری کہتا ہے۔

                یہ وہی لڑکا تو نہیں ہے…………مرزا جی نے شک و شبہ سے پوچھا۔ جو کافی عرصہ پہلے آپ کی محفل میں ایک دو بار شریک بھی ہوا تھا۔

                ہاں…………یہ وہی لڑکا ہے…………پیر حاضر شاہ نے تصدیق کی۔

                میں اسے جانتا ہوں۔ خان بہادر نے نفرت سے کہا…………بڑی ہی کمینہ خصلت شخص ہے۔

                نہیں نہیں…………کسی کو برا کہنا اچھی بات نہیں۔ پیر حاضر شاہ نے سمجھایا۔

                کمال ہے…………ایک اور شخص بولا۔ اس نے آپ کے مرید کو مار دیا اور آپ ہیں کہ…………

                مارنا اور جلانا…………اللہ کا کام ہے…………پیر حاضر شاہ نے بات کاٹ کر کہا…………شمشو کی اجل اس ہی طرح لکھی تھی۔ ورنہ پنڈت ہری رام میں اتنی طاقت کہاں کہ کسی کو مار دے…………

                یہ شمشو جن تھا…………مرزا جی نے تعجب سے پوچھا۔

                ہاں بھئی جن تھا۔ پیر حاضر شاہ نے ٹھنڈی سانس لے کر افسردگی سے کہا…………روحانیت سیکھنے کے لئے میرا مرید ہو گیا تھا۔

                مجھے پہلے ہی شک تھا…………خان بہادر نے تعجب سے بتایا۔ اس کی حرکتیں انسانوں سے قطعی مختلف تھیں۔ یہ پلک جھپکتے ہی کہیں سے کہیں پہنچ جاتا تھا۔ اور جب پیر صاحب باہر پیپل کے نیچے بیٹھا کرتے تھے تو یہ گھنٹوں لالٹین ہاتھ میں تھامے کھڑا رہتا تھا۔

                لیکن پیرصاحب…………مرزا جی نے پوچھا۔ اگر آپ کا مرید جن تھا تو پھر یہ پنڈت سے کیسے مار کھا گیا۔

                بھئی جن انسانوں سے افضل تو نہیں ہیں۔ پیر حاضر شاہ نے سمجھایا۔ پھر پنڈت ہری رام نہایت چالاک آدمی ہے اس نے بے خبری میں اس کے اوپر قابو پا لیا۔ ورنہ شمشو آسانی سے قابو میں آنے والا نہیں تھا۔

                لیکن آپ نے بھی تو اسے بچانے کی کوشش نہیں کی…………خان بہادر نے شکوہ کیا۔

                یہ بات نہیں…………پیر حاضر شاہ نے جواب دیا۔ دراصل مکافات عمل میں دخل دینا ہم فقیروں کا شیوہ نہیں۔

                ہم پر حالات منکشف ہو گئے تھے…………ہم جانتے تھے کہ پنڈت ہری رام شمشو پر قابو نہیں پا سکے گا۔ لیکن جب پنڈت نے شمشو پر سوتے میں وار کیا اور ہم نے دیکھا کہ شمشو بے بس ہو چکا ہے تو ہم اسے بچانے اور پنڈت کو سمجھانے آئے لیکن ہمیں دیکھتے ہی پنڈت نے عجلت سے کام لیا۔ چونکہ شمشو کا وقت ختم ہو چکا تھا اس لئے پنڈت اپنے ارادے میں کامیاب ہو گیا۔

٭×××××××××××٭

                شیو بھگوان کا مندر اس آبادی میں واقع تھا اور پنڈت ہری رام اپنے مخصوص کمرہ میں زمین پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کمرہ میں صرف ‘‘دیو داسیاں’’ ہی جا سکتی تھیں۔

                پنڈت ہری رام نے اپنی زندگی کا طویل حصہ ماورائی طاقتیں حاصل کرنے میں گزارا تھا۔ اور اس وقت وہ خود کو ماورائی طاقتوں کا بادشاہ سمجھتا تھا۔ اس نے کبھی کسی سے شکست نہیں کھائی تھی۔ اس کے سامنے بڑے بڑے سادھو اور پنڈت گھٹنے ٹیکتے تھے…………مسلمانوں کے بھی پیر فقیر اس کے منہ نہیں لگتے تھے۔ آج تک کسی نے اسے چیلنج نہیں کیا تھا۔

                کسی نے اسے شکست نہیں دی تھی۔

                کسی واقعہ نے اسے متاثر نہیں کیا تھا۔

                کسی سانحہ نے اس کے دل پر اثر نہیں کیا تھا۔

                لیکن…………اس واقعہ نے اسے بے چین کر دیا تھا…………اسے شمشو کے مر جانے کا قطعی افسوس نہیں تھا۔ افسوس تھا تو اس بات کا کہ پیر حاضر شاہ نے اسے معاف کر دیا تھا۔

                اتنا بڑا حادثہ اتنا بڑا المیہ اس کے باوجود پیر حاضر شاہ کی پیشانی پر بل تک نہیں آیا تھا۔

                عفو و درگزر کی یہ مثال اس نے کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔

                وہ بے پناہ ماورائی طاقتوں کا مالک تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ پیر حاضر شاہ کم حیثیت نہیں ہے۔ اس بستی کے باشندوں پر اپنی ماورائی طاقت کا رعب جمانے کی خاطر اس نے شمشو کو ختم کر دیا تھا۔ شمشو جو ایک جن تھا اور یہ سب کچھ اس نے پیر حاضر شاہ کے سامنے کیا تھا تا کہ وہ اپنے مرید کا حشر دیکھ کر مشتعل ہو جائیں اور پھر اسے چیلنج کر بیٹھیں۔ وہ پیر حاضر شاہ سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار تھا تا کہ اس بستی کے مسلمانوں پر اس کی روحانی طاقت کا رعب بیٹھ جائے۔ لیکن پیر حاضر شاہ نے اس کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ اس کی حرکت پر درگزر کر کے انہوں نے اسے شکست دے دی تھی۔ ایسی شکست جس نے اس کی روح کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

                پیر حاضر شاہ کس قسم کا پیر ہے؟ اس نے سوچا۔

                جہاں تک ماورائی طاقت کا تعلق ہے وہ انہیں اپنا ہم پلہ ہی سمجھتا تھا لیکن جہاں تک ضبط نفس اور حسن اور اخلاق کا تعلق تھا۔ پیر حاضر شاہ اس سے بہت درجہ بلند تھا…………اس کا واسطہ کئی ایسے مسلمان علماء سے بھی پڑ چکا تھا جو ذرا سی بات پر مشتعل ہو کر اس سے حق و باطل کا معرکہ لڑنے کو تیار ہو جاتے تھے۔

                لیکن…………یہ پیر حاضر شاہ تو ان سب سے مختلف نکلا۔ اس نے اپنے آقاﷺ اپنے نبیﷺ اپنے پیغمبرﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اسے معاف کر دیا تھا۔ یہ معافی…………درگزر اس کے دل و دماغ میں کانٹے کی طرح چبھنے لگی۔

                ‘‘جب پیر ایسا ہے تو اس کا پیغامبر کیسا ہو گا؟’’

                وہ دیر تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں سوچتا رہا۔ ہونہہ…………یہ تو وقتی بات تھی…………اس کے نفس نے اسے سمجھایا۔ مہان شکتی والے فوری طور سے غصہ پی جاتے ہیں لیکن بعد کو کچھ نہ کچھ کر گزرتے ہیں…………اس خیال کے آتے ہی اس نے حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے گرد کنڈل کھینچ لیا۔ اس نے سوچا…………ممکن ہے آج رات پیر حاضر شاہ کچھ کریں۔

٭×××××××××××٭

                لیکن پیر حاضر شاہ کو نہ کچھ کرنا تھا اور نہ ہی انہوں نے کچھ کیا۔

                دن اس ہی طرح گزرتے رہے۔ شمشو کے مرنے کے بعد پیر حاضر شاہ نے گھر میں ہی پھر سے نشست جمانا شروع کر دی تھی۔ اب وہ اپنا تمام کام خود ہی کیا کرتے تھے۔

                مغرب کی اذان ہوتے ہی وہ لالٹین روشن کر کے صحن میں واقعی بیری کے درخت کی ایک شخص سے لٹکا دیا کرتے تھے۔ اور بعد نماز عشاء اس ہی بیری کے درخت کے تنے سے پیٹھ لگا کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اب لوگ بھی کچھ کم ہی آتے تھے۔ لیکن ان کا معمول پہلے ہی جیسا تھا۔ جب تک لوگ نہیں آ جاتے وہ درود شریف پڑھتے رہتے تھے۔


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔