Topics

بسنتی کا قتل


                پنڈت ہری رام…………اگر چاہتا تو کنوتھ کے ذریعہ دکھی لوگوں کی مدد کر سکتا تھا…………وہ چاہتا تو اپنی ماورائی طاقتوں کی دھاک بٹھا سکتا تھا…………لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اب وہ اپنے نفس کا غلام ہو کر رہ گیا تھا۔ کنوتھ کو اس نے صرف اور صرف اپنے کاموں کے لئے مخصوص کر لیا تھا۔

                کنوتھ کی بدولت وہ نہایت ہی خوشحال اور پر مسرت زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس پر آسائش زندگی میں وہ اپنی محسنہ ساوتری کو نہیں بھولا تھا۔ یہ ساوتری ہی تھی جس نے اسے رام لال نائی کا پتہ بتایا تھا۔ اور جب وہ اس کے پاس اپنا گمشدہ ہیرا لینے گیا تو رام لال نائی کی پتنی نے اسے کنوتھ دے دی۔

                کنوتھ لاکھوں اور کروڑوں ہیروں سے بدرجہاں بہتر تھی۔

                پنڈت ہری رام نے کئی بار سوچا کہ وہ ساوتری سے جا کر ملے۔ لیکن برے دوستوں کی صحبت اور بے جا مصروفیت نے اسے اتنا موقع ہی نہیں دیا۔

                آخر…………ایک دن وہ صبح ہی صبح اپنے تانگہ پر بیٹھ کر ساوتری کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ اتنی صبح وہ ساوتری سے اچھی طرح تنہائی میں باتیں کر لے گا…………لیکن جب وہ اس کے دروازہ پر پہنچا تو چند خواتین نے بتایا کہ ساوتری کا رات کو انتقال ہو گیا…………اور کچھ ہی دیر ہوئی کہ لوگ اس کا جنازہ لے کر قبرستان گئے ہیں۔

                پنڈت ہری رام یہ سن کر سکتے میں آ گیا…………اس کے دماغ کو جھٹکا سا لگا اور اس کے دل نے پہلی بار کچھ محسوس کیا۔

                وہ خاموشی سے پلٹا اور…………پھر اس کا تانگہ نہایت ہی برق رفتاری سے قبرستان کی طرف دوڑنے لگا۔

                وہ سارے راستے سوچتا جا رہا تھا…………ساوتری مر گئی…………اس کا دیہانت ہو گیا…………لیکن کیوں…………وہ کیوں مر گئی…………وہ…………کیوں…………مر گئی؟

                انہی خیالات کی بازگشت لئے وہ قبرستان میں داخل ہوا…………اور پھر جب وہ قبر کے پاس پہنچا تو لوگ ساوتری کو لحد میں اتار چکے تھے…………اس کے جنازے میں بے شمار لوگ تھے وہ سب دبی دبی ہچکیوں سے رو رہے تھے۔

                پنڈت ہری رام مجمع میں راستہ بناتا ہوا۔ قبر کے پاس پہنچا…………اس نے دیکھا کہ پیر حاضر شاہ قبر میں ساوتری کے سرہانے کھڑے ہیں…………ساوتری کا پورا جسم گلاب کے پھولوں سے ڈھکا ہوا تھا…………لوگوں نے آخری بار چہرہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی…………اور پیر حاضر شاہ نے لوگوں کے اصرار اور…………ان کی خواہش پر…………ساوتری کے چہرہ سے کفن کا تھوڑا سا ٹکڑا ہٹا دیا۔ پنڈت ہری رام کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی…………ساوتری کے چہرہ پر نور تھا۔ ایسا نور جو شاید فرشتوں کو بھی نصیب نہ ہو۔

                دوسرے لمحہ اس کے چہرہ کو چھپا دیا گیا…………پیر حاضر شاہ قبر کے باہر آ گئے…………اور پھر سب مل کر مٹی ڈالنے لگے اور پنڈت ہری رام سب سے الگ کھڑا سوچ رہا تھا کہ یہ ساوتری کون تھی؟ اس نے طوائف کی زندگی اپنا لی تھی…………اور…………اور…………پھر مرنے کے بعد ایسا نور۔ ساوتری تو یہاں اکیلی تھی…………اس ملک میں تو کوئی اس کا نہ تھا…………پھر یہ اتنے سارے لوگ کہاں سے آ گئے…………کیا…………یہ سب اس کے حسن کے دیوانے تھے۔

                اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔

                لوگ قبرستان سے جا چکے تھے۔ پنڈت ہری رام کو تنہائی کا احساس اس وقت ہوا جب پیر حاضر شاہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔

                چلو…………اب ہم بھی چلتے ہیں۔

                پنڈت ہری رام نے اپنے خیالات سے چونک کر ادھر ادھر دیکھا اور پوچھا…………باقی لوگ کہاں گئے؟

                کون لوگ…………پیر حاضر شاہ نے کہا…………پھر مسکرا کر بولے۔

                ارے بھئی…………وہ تو فرشتے تھے…………جہاں سے آئے تھے وہیں چلے گئے۔

                فرشتے تھے…………پنڈت ہری رام نے حیرت سے کہا۔

                چلو بھئی چلو…………پیر حاضر شاہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر چلتے ہوئے کہا۔

                یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔

                ساوتری…………مر کیسے گئی؟…………پنڈت ہری رام نے چلتے ہوئے پوچھا۔

                جیسے سب مرتے ہیں۔ پیر حاضر شاہ نے لاپروائی سے جواب دیا۔

                پنڈت ہری رام کو یہ روکھا سا جواب ناگوار گزرا۔ اس نے ترچھی نظروں سے پیر حاضر شاہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ تمہاری سیوک کا دیہانت ہو گیا اور تمہیں کچھ پرواہ ہی نہیں۔

                اچھا ہوا مر گئی…………پیر حاضر شاہ نے بے دلی سے کہا…………میری تو جان چھوٹی۔

                بھگوان جانے تم کیسے گرو ہو…………پنڈت ہری رام نے تمسخر سے کہا۔ تمہیں اپنے چیلے کا غم ہی نہیں۔

                ایسے چیلے کا کیا غم کروں…………پیر حاضر شاہ نے اکتائے ہوئے لہجہ میں کہا جو اپنے گرو کا کہنا نہ مانے…………میں نے لاکھ سمجھایا کہ مکافات عمل میں دخل دینا ٹھیک نہیں…………اللہ سے لڑنے لگی۔ لوگوں کے اختیارات ختم کرنے کے درپے ہو گئی۔ کہتی تھی کہ مجھے بے حیائی، فحاشی، لوگوں میں افتراق اور قوم میں ذلت و رسوائی پسند نہیں ہے۔ اگر اپنی طاقت سے لوگوں کے اختیارات سلب کر کے انہیں صرف نیکی پر مجبور کر دیا جائے تو پھر جنت دوزخ اور مکافات عمل کے قانون کی کیا ضرورت باقی رہ جائے گی۔ میں نے بہت سمجھایا کہ اللہ نے قانون بنا دیا ہے کہ قوموں کی تقدیر اس وقت بدلتی ہے جب وہ خود اپنے اختیارات استعمال کر کے اپنی حالت میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ وگرنہ قوم، ملک، عذاب الٰہی میں مبتلا ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔

                پیر حاضر شاہ نے بے خیالی سے کہا…………میں نے بھی تصدیق کر دی اور اللہ کی جناب میں عرض کیا…………ساوتری کو اس دنیا سے بلا لو۔

                اور پنڈت ہری رام نے…………زور سے ہنس کر کہا۔

                پیر حاضر شاہ نے ہنسی کی آواز پر غور سے اس کی طرف دیکھا…………پھر انہیں فوراً ہی خیال آیا کہ وہ چند بے تکی، بے محل باتیں کہہ گئے ہیں۔ لہٰذا خود بھی ہنسنے لگے۔

                پنڈت ہری رام ہنستا ہوا تانگہ پر بیٹھ گیا…………اس نے پیر حاضر شاہ کو بھی بیٹھنے کو کہا لیکن انہوں نے ساتھ چلنے سے معذرت کر لی۔

                پنڈت ہری رام اور کوشیلا بے فکری کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ دن یونہی زندگی کے گزرتے رہے۔

                ایک دن…………پنڈت ہری رام اپنے چند دوستوں کے ہمراہ جونہی باغ میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر متعجب ہوا کہ ایک نہایت ہی حسین شوخ و طرار لڑکی جھولا جھول رہی ہے۔

                سندھ میں یہ رواج ہے کہ خواتین زمیندار کو دیکھتے ہی راستہ چھوڑ دیتی ہیں اور اگر وہ کوئی کام کر رہی ہوتی ہیں تو اس سے بھی ہاتھ کھینچ لیتی ہیں۔

                لیکن یہ لڑکی…………ہر بات سے لاپرواہ اور رواج سے مبرا ہو کر برابر جھولا جھولتی رہی۔

                پنڈت ہری رام نے درخت کے پاس تانگہ روکا اور غصہ سے بولا…………اے لڑکی…………کون ہے تو؟

                تو کون ہے؟…………لڑکی نے نہایت بے باکی سے پوچھا۔

                جواب نہیں…………دوستوں نے اس کی بے باکی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔

                شاید یہ اجنبی ہے اور مجھے نہیں پہچانتی…………پنڈت ہری رام نے اپنی جھینپ مٹانے کی خاطر کہا۔

                تو پھر…………اپنی پہچان کرا دو نا…………ایک دوست نے معنی خیز انداز سے کہا۔

                دوسرے دوست بھی اس کی تائید میں ہنسنے لگے۔ پنڈت ہری رام نے دوستوں پر رعب جمانے کی خاطر بڑے تحکمانہ لہجے میں کہا…………اے لڑکی ادھر آ۔

                یہ سننے کے ساتھ ہی لڑکی نے چلتے ہوئے جھولے پر سے نہایت ہی بے خوفی سے چھلانگ لگا دی اور تانگہ کے سامنے آ کر بولی…………کیا ہے؟

                پنڈت ہری رام اور اس کے دوست بھی تانگہ سے کود کر نیچے آ گئے۔ وہ سب آفت کی اس پر کالا کو درزدیدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے…………جنگل کا بے باک حسن ان کے سامنے سینہ تانے کھڑا تھا۔

                کون ہے تو؟…………پنڈت ہری رام نے پھر اپنا سوال دہرایا۔

                ہنستی لڑکی نے جواب دیا…………اورپھر کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر نہایت ہی ٹھسے سے بولی۔ تم لوگ کون ہو؟

                میں اس باغ کا مالک ہوں…………پنڈت ہری رام نے بتایا۔

                تو پھر اپنی ‘‘اوطاق’’ میں جائو۔ یہاں تمہارا کیا کام ہے؟…………لڑکی نے نہایت ہی لاپروائی سے کہا اور جانے کے لئے مڑی۔ اس کے ساتھ پنڈت ہری رام کا ایک دوست راستہ روکے ہوئے اس کے سامنے آ گیا۔

                کیا بات ہے؟…………لڑکی نے برہمی سے پوچھا۔

                تو کس گائوں کی ہے؟…………پنڈت ہری رام نے پوچھا۔

                میں کسی بھی گائوں کی ہوں تجھے کیا؟…………لڑکی نے بے خوفی سے جواب دیا۔

                تجھے بتانا ہو گا…………پنڈت ہری رام نے غصہ سے کہا…………اس لڑکی کی بے باکی نے اس کے خون کی گردش کو تیز کر دیا تھا۔

                ارے جا…………لڑکی نے بے پروائی سے کہا اور پیٹھ موڑ کر جانے لگی۔

                اس کے ساتھ ہی پنڈت ہری رام نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا…………اس نے جیسے ہی ہاتھ پکڑا فضا میں ‘‘تڑاخ’’ کی زور دار آواز سنائی دی۔

                لڑکی نے پنڈت ہری رام کے تھپڑ مار دیا تھا۔ پنڈت ہری رام نے اپنے گال پر ہاتھ رکھ لیا۔ لڑکی کی اس غیر متوقع حرکت سے تمام دوست دم بخود رہ گئے۔

                تھپڑ مارنے کے بعد لڑکی دوڑتی ہوئی شہتوت کے جھنڈ کی طرف چلی گئی۔

                اس غیر متوقع صورتحال سے دوچار ہونے کے بعد پنڈت ہری رام غصہ سے دانت پیستے ہوئے بڑبڑایا۔

                آخر یہ لڑکی ہے کون؟

                کوئی بھی ہو…………دوستوں نے اسے مشورہ دیا…………اسے اس گستاخی کی سزا ملنی چاہئے۔

                اسے سزا ملے گی اور ایسی سزا ملے گی عمر بھی یاد رکھے گی…………پنڈت ہری رام نے غصہ سے دانت پیس کر جواب دیا۔

                پھر…………ان سب نے تانگہ کو اس ہی جگہ پر چھوڑا اوطاق کی طرف چل دیئے۔ اس واقعہ نے ان سب کو مکدر کر دیا تھا۔ وہ خاموشی سے گردن جھکائے چل رہے تھے…………لیکن پنڈت ہری رام کے سینہ میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی وہ اس گستاخ لڑکی کو سزا دینے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں تیزی سے شیطانی منصوبے بننا شروع ہو گئے تھے۔

                پھر جب وہ سب اپنی اوطاق کے قریب پہنچے تو کامدار دور اینٹوں کے ڈھیر پر بیٹھا دکھائی دیا۔ پنڈت ہری رام نے تمام دوستوں کو سختی سے منع کر دیا کہ وہ کامدار سے کسی بھی قسم کا ذکر نہ کریں۔

                کامدار سن سب کو دیکھتے ہی ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ قریب پہنچ کر پنڈت ہری رام نے ۰۰۱ روپے کا نوٹ دیتے ہوئے کہا۔ کہ تیز قسم کی شراب اور کھانے پینے کا انتظام کرے۔ کامدار فوراً ہی حکم کی تعمیل میں چل دیا۔ پھر دوستوں کو اندر پہنچانے کے بعد پنڈت ہری رام نے کہا۔ تم لوگ بیٹھو میں ذرا باغ کا چکر لگا کر آتا ہوں…………

٭×××××××××××٭     

                یہ پہلا موقع تھا کہ کسی لڑکی نے اس کی بے عزتی کی تھی…………وہ تانگہ میں بیٹھا سکھر شہر اپنے گھر جا رہا تھا۔ اس کا چاق و چوبند گھوڑا تیز رفتاری سے دوڑ رہا تھا۔ گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن کے دریچے بھی کھلتے جا رہے تھے اور ان دریچوں سے شیطان جھانک رہا تھا۔

                عورت کی سب سے بڑی نادانی یہی ہے کہ وہ اپنی جوانی کے جوش اورحسن کے تیکھے وار سے مرد کو بلا وجہ مشتعل کر دیتی ہے جس کے نتیجہ میں اسے خطرناک نتائج سے دوچار ہونا پڑتا ہے کیونکہ مرد مشتعل ہونے کے بعد جو بھی قدم اٹھاتا ہے سوچ سمجھ کر اٹھاتا ہے۔ اس کا انتظام سفاکی اور درندگی سے بھرپور ہوتا ہے پھر وہ انسانیت اور اخلاقی اقدار کو بری طرح پامال کرتا ہے۔ کبھی اس دنیا پر مکمل طور پر عورت کی حکومت تھی۔ مادرانہ نظام قائم تھا۔ عورت کی جذباتی نادانی نے اس نظام میں مرد کو داخل ہونے کا موقع دیا اور پھر عورت خود کنیز بن کر رہ گئی۔ آج جو زیور پہنتی ہے وہ اسی نظام کے سفای کی علامت ہے۔عورتوں کو ہتھکڑی پہنا کر پیروں میں بیڑیاں ڈال کر اور ناک میں نکیل ڈال کر بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا جاتا تا کہ یہ دوبارہ نظام حکومت میں دخل اندازی نہ کرے…………یہ زیور اسی غلامی کے دور کی علامت ہے۔

                اور اگر عورت اقتدار کی خواہش کرتی ہے تو آدمی کے اندر کا درندہ متحرک ہو جاتا ہے…………اس وقت پنڈت ہری رام کے اندر کا سویا ہوا درندہ بھی جاگ اٹھا تھا…………وہ لڑکی کو اس گستاخی کی ایسی عبرتناک سزا دینا چاہتا تھا جسے وہ عمر بھر یاد رکھے۔ گھر پہنچ کر وہ تانگہ سے اترا اور نہایت تیزی سے اس کمرہ میں گھس گیا جس میں دونوں چراغ رکھے ہوئے تھے۔ اسے کافی عرصہ کے بعد کنوتھ کا خیال آیا تھا۔ اسے کنوتھ کی مدد چاہئے تھی۔

                کوشیلا نے اسے اس طرح وقت سے پہلے آتے دیکھا تو ماتھا ٹھنکا۔ اس نے کمرہ میں داخل ہو کر معلوم کرنا چاہا لیکن پنڈت ہری رام نے اندر سے کنڈی لگا لی تھی۔ پھر اس نے منتر پڑھ کر چراغ کو روشن کیا۔ کنوتھ حسب معمول ہاتھ جوڑے چراغ کی لو پر نمودار ہو گئی۔

                کنوتھ…………پنڈت ہری رام نے اپنا غم و غصہ چھپاتے ہوئے کہا۔

                ابھی کچھ ہی سمے گزرا ہے جبکہ میرے باغ میں ایک لڑکی جھولا جھول رہی تھی…………وہ کس کی لڑکی ہے؟

                تمہارے باغ سے تھوڑی ہی دور ایک دوسرے زمیندار کا باغ ہے۔ کنوتھ نے فوراً ہی جواب دیا۔ یہ لڑکی اس کی ہے کنوتھ…………پنڈت ہری رام نے جھجھکتے ہوئے کہا۔ اس لڑکی نے میرے ساتھ بدتمیزی کی ہے اور میں اسے سزا دینا چاہتا ہوں۔

                آپ حکم دیں مہاراج…………کنوتھ نے سعادت مندی سے سر جھکا کر کہا۔

                کیا تم اس لڑکی کو لا سکتی ہو…………پنڈت ہری رام نے پوچھا۔

                اپنے سیوک کی آگیا کا پالن کرنا میرا کام ہے…………کنوتھ نے پھر اسی طرح جواب دیا۔

                اور…………پنڈت ہری رام کو ایک دم خیال آیا کہ کنوتھ میں گائو ماتا جیسی شکتی ہے کیا وہ کسی کو لا سکتی ہے؟ اس خیال کے آتے ہی اس نے سوچا کہ آزما لینے میں کیا حرج ہے۔ وہ ٹھہرے ہوئے لہجہ میں بولا۔

                ٹھیک ہے رات بارہ بجے اس لڑکی کو میری ‘‘اوطاق’’ میں ہونا چاہئے۔

                جو آگیا مہاراج…………کنوتھ نے تعمیل حکم میں سر جھکا کر جواب دیا اور ساتھ ہی چراغ کی لو پر سے غائب ہو گئی۔

                پنڈت ہری رام نے پھونک مار کر چراغ گل کر دیا اور دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ اب وہ پہلے کی طرح مطمئن تھا جیسے اس کے سر سے بوجھ اتر گیا ہو۔

                صحن میں کوشیلا پریشان بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی پنڈت ہری رام نے اسے تسلی دی اور کہا کوئی خاص بات نہیں تھی۔ گائوں میں چوری ہو گئی تھی اس نے بہانہ بنایا…………اور اس ہی سلسلہ میں مجھے کنوتھ سے معلوم کرنا تھا۔

                تو کیا کنوتھ نے چور کا پتہ بتا دیا…………کوشیلا نے تعجب سے پوچھا۔

                ہاں! اس نے ایک شخص کے بارے میں بتایا تو ہے…………پنڈت ہری رام نے چالاکی سے کہا…………اور ممکن ہے آج رات مجھے وہاں رکنا بھی پڑ جائے…………میں صبح ہوتے ہی آ جائوں گا۔ تم فکر نہ کرنا۔

                کوشیلا نے یہ سن کر اسے صبح ہی صبح جلد از جلد گھر پہنچنے کی تاکید کی۔ اور پنڈت ہری رام اسے تسلی دیتا ہوا باہر آ گیا۔ پھر وہ دوبارہ اپنے تانگہ میں بیٹھا اور اس کا گھوڑا سرپٹ شہر سے باہر جانے والی سڑک پر دوڑنے لگا۔ وہ جلد از جلد واپس اپنے دوستوں کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔

٭×××××××××××٭

                 جوں…………جوں…………رات گہری ہوتی جا رہی تھی تمام دوست شراب کے نشے میں مدہوش ہو رہے تھے…………انہیں وقت گزرنے کا کوئی احساس نہیں تھا۔

                پنڈت ہری رام اعتدال سے پی رہا تھا۔ اسے رات کے بارہ بجے کا انتظار تھا۔ اس نے کامدار کو یہ کہہ کر رخصت کر دیا تھا کہ اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ تمام دوست نشہ کی ترنگ میں اول فول بک رہے تھے۔ کوئی کرسی پر اس طرح بیٹھا تھا جیسے لیٹا ہو۔ کوئی فرش اور مسہری پر کروٹیں بدل رہا تھا۔ دو تین ایک ساتھ مل کر گیت گا رہے تھے اور ایک دوست ان کے درمیان بے ڈھنگے طریقہ سے ناچ رہا تھا۔

                یہ سارا ہنگامہ جس کمرہ میں ہو رہا تھا اس کے برابر والے کمرہ میں پنڈت ہری رام تنہا مسہری پر بیٹھا تھا۔ اس کے ذہن میں لڑکی کے بارے میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے۔

                پھر ٹھیک بارہ بجے جبکہ گھڑی کی سوئیاں یک جان ہو گئیں تو دروازہ پر آہستہ سے دستک ہوئی۔ پنڈت ہری رام نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھولا اور لالٹین کی مدھم روشنی میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ دروازے پر لڑکی کھڑی ہے۔ اس کا نام بسنتی تھا۔

                دروازہ کھلتے ہی بسنتی اندر داخل ہو گئی…………پنڈت ہری رام نے دروازہ کی کنڈی لگا لی۔

                میں اپنی گستاخی پر معافی مانگنے آئی ہوں…………بسنتی نے ہاتھ جوڑ کر خوابیدہ لہجہ میں کہا۔

                معافی…………پنڈت ہری رام نے شیطانی قہقہہ لگایا۔ تجھے ایسی معافی دوں گا کہ عمر بھر یاد رکھے گی۔

                پنڈت ہری رام نے اسے مسہری پر دھکا دے کر گرا دیا…………وہ شوخ و طرار لڑکی اس وقت موم کی گڑیا بنی ہوئی تھی۔ اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔

                پنڈت ہری رام اور اس کے دوستوں نے انسانی اقدار کو پامال کر دیا اور آٹھ دس آدمی شیطان بن گئے۔ فضا میں اس کی چیخیں بلند ہوتی رہیں لیکن کسی کو اس پر رحم نہیں آیا۔

                اور پھر…………جب رات کی سیاہی چھٹنے لگی…………تو بسنتی کی چیخیں بھی بند ہو گئیں…………وہ اتنے مردوں کا اکیلی مقابلہ نہ کر سکی اور دم توڑ دیا۔

                بسنتی کے ختم ہوتے ہی سب کا نشہ ہرن ہو گیا…………وہ جسے ذلت و رسوائی کا کھیل سمجھ رہے تھے وہ اب ان کے لئے پھانسی کا پھندہ بن چکی تھی۔ تمام دوست اس صورتحال سے پریشان ہو گئے…………لیکن…………پنڈت ہری رام نے اپنے حواس پر قابو رکھا۔ اس نے دوستوں کی مدد سے بسنتی کی لاش کو ایک بوری میں بند کیا…………اور اجالا پھیلنے سے پہلے نہر میں بہا دیا۔

                پھر اس نے تمام دوستوں سے اس بات کا عہد لیا کہ وہ اس واقعہ کو بھول جائیں گے اور زندگی بھر کسی سے ذکر نہیں کرینگے۔ اس مشترکہ جرم کے خوف سے سب نے قسم کھا کر اس بات کا وعدہ کر لیا۔

٭×××××××××××٭

                صبح ہی صبح…………جبکہ سورج کی کرنوں نے اونچے درختوں کی شاخوں سے جھانکنا شروع ہی کیا تھا کہ اس کا کامدار ناشتہ لے کر آ گیا۔ اس کے چہرہ پر رنج و ملال چھایا ہوا تھا۔

                پنڈت ہری رام نے جب اس کی وجہ جاننا چاہی تو اس نے نہایت ہی پریشانی سے بتایا کہ پڑوسی زمیندار کی بیٹی بسنتی رات سے غائب ہے۔

                پھر…………پنڈت ہری رام نے گھبرا کر پوچھا۔

                لوگ اسے تلاش کر رہے ہیں…………کامدار نے سرگوشی سے کہا…………کچھ بچوں نے بتایا کہ کل وہ یہاں آم کے درخت پر جھولا جھول رہی تھی۔

                غلط…………بالکل غلط…………پنڈت ہری رام نے حوصلہ سے جواب دیا…………کل شام سے تو میں یہاں ہوں میں نے تو کسی لڑکی کو جھولتے نہیں دیکھا۔

                ہو سکتا ہے وہ کسی سے عشق کرتی ہو اور اس کے ساتھ چلی گئی ہو…………اس کے ایک دوست نے بڑی چالاکی سے قیاس آرائی کی۔

                لوگوں کا بھی یہی خیال ہے…………کامدار نے نہایت ہی دھیمی آواز سے تائید کی۔

                اس کے بعد پنڈت ہری رام نے مزید بات کرنا مناسب نہیں سمجھا کامدار بھی خاموشی سے باہر نکل گیا۔

                ان سب نے بادل نخواستہ تھوڑا سا ناشتہ کیا اور پھر شہر جانے کے لئے تانگہ میں بیٹھ گئے۔ پنڈت ہری رام نے کامدار سے کہا کہ وہ کل پھر آئے گا۔

٭×××××××××××٭

                شہر پہنچ کر تمام دوست اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ ان سب کے ذہنوں پر بسنتی کی موت کا خوف سوار تھا۔ پنڈت ہری رام بھی خوفزدہ تھا۔ اس کے چہرہ پر خوف و پریشانی نمایاں تھی۔ کوشیلا نے اس سے معلوم کرنا چاہا لیکن پنڈت ہری رام نے ٹال دیا۔

                جرم کا احساس اس کے ذہن پر بری طرح سے مسلط ہو کر رہ گیا تھا۔ اسے خطرہ تھا کہ بسنتی کی لاش نہر سے نہ مل جائے…………کبھی…………کبھی…………اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مل جائیگی تو کیا ہو گا۔ سارا دن انہی پریشان کن خیالات میں گزر گیا۔ ذرا سی آہٹ پر وہ اس طرح چونک اٹھتا جیسے اسے پکڑ لیا گیا ہو۔

                اس کی بیوی کوشیلا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیوں اس قدر پریشان ہے۔ بیوی نے اسے کئی بار آرام کرنے کو کہا لیکن وہ جب بھی مسہری پر لیٹا خوف نے اسے چین نہ لینے دیا۔نیند اس کی آنکھوں سے غائب ہو چکی تھی۔

                کوشیلا…………اپنی مسہری پر لیٹی دیر تک اس کی یہ اضطرابی کیفیت دیکھتی رہی۔ پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ رات کی تاریکی اور سناٹے نے اس کے دماغ کو بوجھل کر دیا۔ آخر ایک مبہم سی امید نظر آئی۔ اس نے سوچا کہ کنوتھ سے اس سلسلہ میں بات کر لی جائے…………شاید وہ اس جرم کو چھپانے کا کوئی طریقہ بتا دے۔

                وہ کمرہ میں پہنچا۔ اور چراغ کو روشن کر دیا۔ چراغ کی لو پر کنوتھ نمودار ہو گئی…………لیکن اب وہ پلی جیسی تروتازہ نہیں تھی بلکہ نحیف سی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی آواز میں بھی پہلے جیسی گھن گرج نہیں…………کنوتھ نے حسب دستور ہاتھ جوڑ کر لاغر آواز میں کہا۔

                داسی حاضر ہے مہاراج

                کنوتھ…………پنڈت ہری رام نے ڈرتے ڈرتے اسے مخاطب کیا۔ تمہیں معلوم ہے بسنتی کے ساتھ کیا ہوا؟

                مجھے سب کچھ معلوم ہے…………کنوتھ نے نہایت ہی کمزور آواز سے کہا…………لیکن مہاراج اگر اس کی ہتیا ہی کرنی تھی مجھ سے کہہ دیا ہوتا۔

                نہیں یہ بات نہیں ہے…………پنڈت ہری رام نے حوصلہ سے کہا۔ میرا ہرگز ہرگز اسے مارنے کا خیال نہیں تھا۔ بس اسے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے۔

                جو کچھ بھی ہوا ہے بہت برا ہوا ہے۔ کنوتھ نے غمزدہ آواز سے کہا۔ میرا سیوک ہو کر تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔