Topics
مادے
اور روحانیت کا ازل سے جھگڑا ہے۔
مادے
نے حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔
مادے
نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا۔
مادے
نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بے وطن کرایا۔
حتیٰ
کہ
مادے
نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی تک پہنچا دیا۔
اس
کے باوجود شکست ہمیشہ مادے کو ہوتی ہے…………کیونکہ
…………جہاں
کہیں بھی…………جب بھی مادہ انسانی مسائل حل کرنے میں ناکام رہا روحانیت نے نہ صرف راہ
دکھائی بلکہ مسائل کا حل بھی پیش کیا۔
اسلام
نے ڈیڑھ ہزار سال قبل مادہ کی حقیقت ظاہر کی اور مادہ پر آخری اور بھرپور ضرب
لگائی…………اسلام آج بھی مادہ پرست لوگوں کے سامنے سینہ سپر ہے۔
اسلام
نے مادے کی حقیقت سے کبھی انکار نہیں کیا۔ بلکہ یہ اسلام ہی ہے جس نے مادے کی
افادیت ظاہر کر کے اس پر تصرف کرنے کا طریقہ بتایا۔ قرآن پاک میں زمین پر بکھری
ہوئی اشیاء فضا میں پھیلی ہوئی کہکشانوں کے بارے میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی
گئی ہے۔ اور ساتھ ہی کائنات کے رازوں پر سے پردہ بھی ہٹایا گیا ہے۔ لیکن دلچسپ بات
یہ ہے کہ جو لوگ قرآن پاک میں غور و فکر کرتے ہیں۔ دنیا والے ان کی طرف متوجہ نہیں
ہوتے بلکہ ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو مادہ کی مادی توجیہہ پیش کرتے
ہیں…………ایسے محققین کو‘‘سائنسدان’’ فلاسفر اور موجد قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ
کائنات اتنی پر اسرار اور پیچیدہ ہے کہ بہت سے مسائل آج تک انسانی فہم سے بالا
ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد سلسلہ نبوت ختم کر دیا گیا۔ لیکن ان کے
مشن کو جاری رکھنے اور فرائض کی بجاآوری کے لئے اولیاء کرام کو مقرر کر دیا گیا۔
یہی وہ لوگ ہیں جو قرآن پاک میں تفکر کرتے ہیں، ہدایات ربانی کو سمجھتے ہیں اور
انسانی مسائل کو ان کی روشنی میں حل کرتے ہیں۔
‘‘ایسے
ہی لوگوں کو ‘مومن’ کہا جاتا ہے۔’’
یہ
وہ حضرات ہیں جو انسانوں کی بھلائی کی خاطر ‘‘اسرار الٰہی’’ کو آسان اور سہل زبان
میں بیان کرتے ہیں۔ اب یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ ان کے الفاظ کے مطلب و معنی کو
سمجھیں اور مستفیض ہوں۔
روحانی
ڈائجسٹ نے افہام و تفہیم کا ایک سلسلہ جاری کیا۔ اس سلسلہ کی تمام کڑیاں میرے
روحانی باپ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی ترتیب دی ہوئی ہیں…………جن کے بارے میں
یہی کہا جا سکتا ہے کہ خداوند قدوس ہمیشہ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے کسی خاص
بندہ کو بھیجتا رہتا ہے…………یہ وہ عظیم ہستی ہے جن کے فیض و برکات سے نہ صرف
برصغیر، ایشیاء مستفیض ہو رہا ہے بلکہ اہل یورپ بھی اس چشمہ روحانی سے اپنی تشنگی
بجھا رہے ہیں۔
یہ
اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے مجھے اس روحانی چشمہ تک پہنچا دیا۔ اس مشفق و
محترم ہستی نے جہاں بے شمار گتھیوں کو سلجھایا ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ
‘‘عورت’’ صنف نازک ہونے کی وجہ سے لطیف احساسات کا مجموعہ ہے اور اگر اس کے سینہ
میں ‘‘عشق طریقت’’ کی آگ بھڑک اٹھے تو…………مرد جہاں برسوں کی ریاضت کے بعد‘‘قرب
الٰہی’’ حاصل کرتا ہے۔ عورت زیادہ جلدی منزل رسیدہ ہو جاتی ہے…………لیکن…………لیکن مرد
نے اپنی جبلت کے پیش نظر ‘‘تصوف کی دنیا’’ میں بھی عورت کی برتری کو تسلیم نہیں
کیا…………یہی وجہ ہے کہ تاریخ عالم میں حضرت رابعہ بصری کے بعد کسی عورت کا قابل
تذکرہ نام نہیں ملتا۔ اور جو خواتین اس منصب تک پہنچی بھی ہیں تو انہیں مرد کی انا
پرستی نے زمانے کے دھول کے ساتھ اڑا دیا ہے…………لیکن یہ کب تک ہوتا رہے گا بالآخر
ایک دن مرد عورت کی اس عظمت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ کہ عورت میں
روحانی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں مندرجہ ذیل کہانی ماضی میں تقسیم ہند سے شروع
ہوتی ہے اور اس کا اختتام قیام پاکستان کے بعد ہوتا ہے…………یہ ایک دوشیزہ کی کہانی
ہے جو ‘‘تصوف کی دنیا’’ کی ملکہ تھی لیکن مرد نے اسے اپنی انا کی خاطر حواس باختہ
پاگل اور ‘‘دیوانی’’ قرار دیا یہ کہانی اسرار الٰہی اور تسخیر کائنات کے فارمولوں
کو افشاں کرنے والی جلیل القدر ہستی میرے روحانی باپ کے بتائے ہوئے نظریہ رنگ و
نور کی عکاسی کرتی ہے۔ میں نیاز مند محمد مونس خان عظیمی اظہار تشکر کے ساتھ پیش
کر رہا ہوں۔
اس
کے ساتھ میں کتاب روحانی نماز میں سے انتساب بھی قارئین کی نظر کرتا ہوں۔ ان
خواتین کے نام جو بیسویں صدی کی آخری دہائی ختم ہونے سے پہلے پوری دنیا کے اقتدار
اعلیٰ پر فائز ہو کر نور اول، باعث تخلیق کائنات، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و
سلم کے مشن کی پیش رفت میں انقلاب برپا کریں گی۔
محمد مونس خان عظیمی
یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک
جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن
جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم
ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس
کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا
مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔
میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا
اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین
و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا
جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔