Topics
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: تصوف میں نسبت کا بہت زیادہ تذکرہ کیا جاتا ہے۔ بتایئے! نسبت سے کیا مراد ہے؟
جواب: آدمی کا کسی دوسرے آدمی سے روحانی تعلق قائم ہونے کو نسبت کہتے ہیں یعنی ایک یا زیادہ آدمی کسی ایک آدمی سے اتنے متاثر ہو جائیں کہ وہ اس کی طبیعت، اس کے افکار اور اس کی طرز فکر کو قبول کر لیں۔
نسبت سے مراد یہ ہے کہ کسی بزرگ سے آپ کا روحانی تعلق قائم ہو جائے آپ کی طرز فکر ان کی طرز فکر کے مطابق ہو جائے۔ اللہ والوں کا ہر عمل اور ہر کام اللہ کے لئے ہوتا ہے۔ وہ اللہ کی معرفت سوچتے ہیں۔ اللہ کے لئے سوتے ہیں۔ اللہ کے لئے جاگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے جیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:
“ہمارا یقین ہے کہ ہر امر اللہ کی طرف سے ہے۔”
حضور پاکﷺ کے زمانے میں صحابہ کرامؓ وہی کچھ کرتے تھے جو حضور پاکﷺ کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ حضورﷺ کی سوچ سے آگاہ تھے۔ وہ حضورﷺ کے مزاج شناس تھے۔ حضورﷺ کو جو اعمال ناپسند تھے صحابہؓ ان کاموں سے اجتناب کرتے تھے۔ حضورﷺ کے لئے جو اعمال پسندیدہ تھے، انہیں ذوق و شوق سے انجام دیتے تھے۔
نسبت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ فیض حاصل ہونا یا طرز فکر کا منتقل ہونا۔
ہمارا تجربہ ہے کہ بچے وہی زبان بولتے ہیں جو ماں بولتی ہے۔ کھانا اسی طرح کھاتے ہیں جس طرح ماں کھاتی ہے۔ وہی کرتے ہیں جو ماں کرتی ہے۔ اگر ماں کے اندر غصہ ہے تو بچے بھی غصہ کرتے ہیں، آپ نے دیکھا اور سنا ہو گا کہ بچے ہاں بولتے ہیں تو ماں کہتی ہے بیٹا “جی” بولو لیکن بچہ پھر بھی ہاں بولتا ہے۔
میں نے اپنے گھر میں تجربہ کیا ہے، جب دلہن کہتی ہے میرے پوتے سے ہاں نہیں جی بولو جبکہ دلہن بیگم خود “ہاں” بولتی ہیں۔ اگر ماں خود”جی” بولتی تو بچہ لفظ “ہاں” سے واقف نہ ہوتا۔ لفظ “ہاں” ادب کے لحاظ سے شرافت کے معیار پر پورا نہیں اترتا اس لئے ماں کو برا لگتا ہے لیکن ماں خود “ہاں” بولتی ہے۔
استاد کہتا ہے جھوٹ نہ بولو، وہ خود جھوٹ بولتا ہے۔ جب شاگرد دیکھتا ہے کہ استاد جھوٹ بولتا ہے تو شاگرد پر اثر نہیں ہو گا۔ استاد غصہ کرتا ہے اور شاگرد سے کہتا ہے کہ غصہ کرنا بری بات ہے۔ شاگرد پر یہ نصیحت اثر نہیں کرے گی کیونکہ استاد کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ لیکن اگر استاد کے اندر غصہ نہیں ہو گا تو شاگرد غصے سے واقف نہیں ہو گا۔ جب غصے سے واقف ہی نہیں ہو گا تو غصہ کیسے کرے گا؟
نسبت کا مطلب ہے بڑوں کی سوچ منتقل ہونا۔ سوچ اس طرح منتقل ہو جائے کہ وہ سوچ آپ کا مزاج بن جائے۔ آپ وہی کام کرنے لگیں جو آپ کے بزرگ کرتے ہیں۔ بچے وہی بول بولتے ہیں جو بزرگ بولتے ہیں۔
روحانی اساتذہ اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ وہ خود عمل کرتے ہیں۔ شاگردوں کے لئے ان کا عمل مشعل راہ ہوتا ہے۔ شاگرد ان کی سوچ کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ روحانی استاد کی طر فکر اور عمل کو قبول کرنا فیض یا نسبت ہے۔ بیوی شوہر کا احترام کرتی ہے، بچے از خود باپ کا احترام کرتے ہیں۔ میاں بیوی آپس میں احترام کریں گے تو بچے بھی آپس میں نہیں لڑیں گے۔ باپ بیوی کو کنیز بنا کر رکھے گا۔ بچے بھی یہ سمجھیں گے کہ میری ماں کی کوئی عزت نہیں ہے۔ وہ ماں کی عزت نہیں کریں گے۔
بزرگوں کی عادات، بزرگوں کی سخاوت اور علم منتقل ہونے کو “نسبت” کہتے ہیں۔
کسی امتی کو رسول اللہﷺ سے عشق ہو جائے۔ اس کو نسبت عشق کہتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کا علم حاصل ہو جائے تو اس کو نسبت علمی کہتے ہیں۔ ایک آدمی پرسکون ہے، اسے یکسوئی حاصل ہے وہ ہر بات کو من جانب اللہ سمجھتا ہے۔ اس کو کوئی خوشی ہوئی ہے وہ کہتا ہے یا اللہ تیرا شکر ہے۔ کوئی تکلیف ہوتی ہے،ا س کو ختم کرنے کی تدبیر کرتا ہے۔
سوال: روحانیت میں نسبتوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ آپ ارشاد فرمائیں کہ روحانی طرز فکر حاصل کرنے کے لئے کتنی نسبتیں ہیں؟
جواب: اگر کوئی شاگرد استاد کے علوم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی طرز فکر اور طرز عمل کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ شاگرد کو استاد کی نسبت حاصل ہے۔
میری سوچ کے مطابق اگر میرا شاگرد زندگی گزارے گا تو اسے میری نسبت حاصل ہو جائے گی۔ میں نے اپنی ماں کے جذبات، تاثرات، اخلاص، ایثار، احترام و محبت، خدمت خلق، مہمان نوازی اور ان کی سوچ کو قبول کر لیا تو مجھے اپنی ماں کی نسبت حاصل ہو گئی۔ نسب نامے میں بھی یہی ہوتا ہے۔ میرے باپ کا نام یہ ہے، دادا کا نام یہ ہے، پردادا کانام یہ یہ اور نسب نامہ کسی بزرگ تک پہنچ جاتا ہے۔ جیسے “صدیقی” لوگوں کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی نسبت حاصل ہے۔ جس کو حضرت عمرؓ فاروق کی نسبت حاصل ہے وہ فاروقی کہلاتے ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی نسبت اگر حاصل ہے تو وہ انصاری ہیں۔
سوچ اچھی یا بری ہوتی ہے۔ اللہ سب کو محفوظ رکھے، کوئی چور بن جاتا ہے، یہ اچھی نسبت نہیں ہے۔ اگر اچھے لوگوں میں بیٹھو گے تو اچھے بن جاؤ گے۔ کوئی برے لوگوں میں بیٹھے گا تو لوگ اسے اچھا نہیں سمجھیں گے۔
سوال: علمی حلقوں میں یہ بات اکثر بیان کی جاتی ہے کہ کائنات کا نظام چلانے کے لئے تکوین کا شعبہ کام کرتا ہے اور تکوین کے کارندوں میں انسان اور فرشتے ان کے معاون ہوتے ہیں۔ آپ بتائیں کہ تکوین کیا ہے؟
جواب: زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ اصول، قاعدے اور ضابطے متعین ہوں۔ جب تک کہ قاعدے اور ضابطے نہیں ہوں گے، زندگی کی تکمیل نہیں ہو گی اور زندگی میں نئی نئی دشواریاں پیش آتی رہیں گی۔ ایک مرد، ایک عورت اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں ہم ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال کریں گے۔ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق ہم ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں۔ پھر ہم ایک دوسرے کی پاسداری کرتے ہیں اور اپنا گھر بناتے ہیں۔
اپنے بچوں کو اچھی تربیت دیتے ہیں، ان کی بہترین پرورش کرتے ہیں اور ان کو اچھا شہری بناتے ہیں۔
شادی کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ گھر ہو۔ گھر میں ضروریات کا سارا سامان ہو۔ مثلاً کچن، باتھ روم، کمرے، کمروں کے اندر بیڈ ہوں، بجلی، گیس ہوا اور کھانے پینے سے متعلق اشیاء ہوں اور ان اشیاء کو پکانے کے لئے برتن ہوں۔ بات صرف اتنی ہے کہ دو افراد نے ایک دوسرے کو قبول کرلیا ہے۔ لیکن نکاح کے بعد کی ضروریات کا پورا ہونا ضروری ہے۔ حقوق کا تعین بھی ضروری ہے مثلاً بیوی کے کیا حقوق ہیں؟ شوہر کے کیا حقوق ہیں؟ پھر جب اللہ تعالیٰ اولاد عطا کر دیتا ہے، اولاد کی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ سکول، کالج، یونیورسٹیاں ہوں۔ وسائل بھی اولاد کی تربیت کے لئے ضروری ہیں۔ زندگی گزارنا محض یہ نہیں ہے کہ دو بندوں نے آپس میں عہد و اقرار کر لیا اور زندگی گزر گئی۔ زندگی گزارنے کے لئے بہت سارے عوامل درکار ہیں۔
محض شادی ہونا کافی نہیں ہے، شادی کے بعد انتظامی امور کا پورا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور انتظامی امور کے لئے اپنی اپنی خدمت، اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔
دنیا میں کوئی کام ایسا نہیں ہے کہ جس کی تکمیل انتظام و انصرام کے بغیر ہو سکے۔ یہ ایک روٹین ورک ہے۔ مثلاً فیکٹری میں ایک ڈائریکٹر ہے، فیکٹری بنا کر ڈائریکٹر کا صرف کرسی پر بیٹھ جانا فیکٹری کو نہیں چلا سکتا۔ اس کے لئے قاعدے ضابطے بنیں گے کہ کون کون سے شعبے فیکٹری میں ہونے چاہئیں۔ ان شعبوں کے لئے کتنے آدمی ملازم رکھنے چاہئیں اور فیکٹری میں کتنے مزدور کام کریں گے۔ Raw Materialکہاں سے آئے گا۔ جب چیزیں فیکٹری میں تیار ہو جائیں گی، ان کی سپلائی کس طرح ہو گی۔ اس سپلائی کے لئے آپ کو ٹرک چاہئیں، بازار ہونا چاہئے، دکانیں ہوں۔ یہ سب چیزیں اگر نہیں ہوں گی تو فیکٹری نہیں چلے گی۔
آپ باغ لگاتے ہیں۔ باغ لگانے کے لئے مالی کی ضرورت ہے، پانی کی ضرورت ہے، گوڈی کی ضرورت ہے، چھوٹے درختوں کو پالے سے بچانے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے درختوں کو گرمیوں میں تیز ہواؤں اور لو سے بچانا ضروری ہے۔ کھاد بھی ڈالنی ہو گی۔ کوئی درخت، جب تک اس کے پیچھے ایک مکمل انتظام نہ ہو وہ درخت نہیں بنتا۔ یہ پورا ایک سسٹم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جب کائنات بنائی تو “کن” کہا۔ کائنات وجود میں آ گئی۔ لیکن کائنات وجود میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو چلانے کاکوئی انتظام نہیں کیا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتے بنائے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ایڈمنسٹریشن کے کارندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے لئے زمین بنائی۔ زمین کو اللہ تعالیٰ نے Growکرنے کی صلاحیت دی۔
اس دنیاوی نظام کو چلانے کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کا انتخاب کیا اور فرشتوں سے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں زمین میں اپنا نائب اور خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا کہ آپ جس کو نائب اور خلیفہ بنانے والے ہیں۔ یہ زمین میں فساد برپا کر دے گا، خون خرابہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی اس بات کو رد نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اطمینان دلانے اور یقین کی تکمیل کے لئے آدم علیہ السلام کو علم الاسماء سکھایا اور آدمﷺ کو علم الاسماء سکھانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔
اے آدم! ہم نے تجھے جو علم الاسماء سکھایا ہے۔ فرشتوں کے سامنے بیان کر۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں کے سامنے علم بیان کیا۔ فرشتوں نے کہا۔۔۔۔۔۔کہ اے پرورگار عالم! آپ نے جتنا علم ہمیں سکھا دیا ہے بس ہم اتنا ہی جانتے ہیں۔ اس اعتراف کے بعد فرشتوں نے سجدہ کیا۔ سجدہ کرنے کا مطلب ہے کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی حاکمیت کو تسلیم کر لیا۔
انتظام و انصرام چلانے والے فرشتوں نے جب دیکھا کہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایڈمنسٹریشن سے متعلق علوم سکھا دیئے ہیں۔ انہوں نے آدم علیہ السلام کی حاکمیت کو قبول کر لیا۔ کائنات کو وقت مقررہ تک قائم رکھنے، کروڑوں دنیاؤں کا نظام چلانے والے شعبہ کا نام “تکوین” ہے۔
کروڑوں دنیاؤں میں انتظام و انصرام کرنے والے بندے اور فرشتے ہیں۔ ان کے نام بالترتیب اس طرح بیان کئے جاتے ہیں۔ اخیار، ابرار، نجبا، نقبا، مخدوم شاہ ولایت، صاحب خدمت، عامل، غوث، قطب(اقطاب کے کئی شعبے ہیں۔ قطب ارشاد، قطب تعلیم، قطب تفہیم، قطب الاقطاب، قطب تکوین) کوچک ابدال، ابدال، ممثل، صدر الصدور۔۔۔۔۔۔پھر ان کی الگ الگ سلطنتیں ہیں اور الگ الگ ان کے علاقے ہیں۔ جس طرح دنیاوی نظام میں ایڈمنسٹریشن سلسلہ ہے، اسی طرح روحانیت میں تکوین کا سلسلہ ہے۔
ہماری دنیا اور دوسری دنیاؤں کا نظام دراصل تکوین کے شعبوں کا عکس ہے۔ یعنی دنیا کا نظام اللہ تعالیٰ کے نظام کا عکس ہے۔ اللہ کے حکم کے بغیر درخت کا ایک پتا بھی نہیں ہلتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں بیان ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کے پاس تشریف لے گئے، ان کے ساتھ رہے۔ اس بندے نے کشتی میں سوراخ کر دیا، پھر ایک بچے کو قتل کر دیا، ایک گرتی ہوئی دیوار کو بنا دیا۔۔۔۔۔۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کچھ دیر اور صبر کرتے تو اللہ تعالیٰ کے اور راز کھلتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس قصہ میں تکوین کی نشاندہی کی گئی ہے۔
خطبات ملتان
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔
ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔
عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "