Topics
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیزان محترم! اساتذہ کرام، طلبا ءو طالبات!
السلام علیکم۔
سیرت طیبہ پر ۱۴۰۰ سال کے عرصے میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں اور ان کتابوں کو اگر صفحات کے اعتبار سے جانچا جائے تو لاکھوں صفحات میں رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ محفوظ ہے۔ چودہ سو سال میں جتنی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ہر کتاب میں مؤلف نے رسول اللہﷺ کی زندگی کے بارے میں نئے انداز سے لکھا ہے اور رسول اللہﷺ کے اخلاق کو اور رسول اللہﷺ کے رویوں کو اور رسول اللہﷺ کی زندگی کے اعمال کو اپنے اسلوب کے مطابق مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے۔ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود ابھی تک رسول اللہﷺ کی زندگی کے بے شمار گوشے ایسے ہیں جن پر سے ابھی پردہ نہیں اٹھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مجھ عاجز مسکین بندے کو بھی توفیق عطا فرمائی ہے کہ میں نے اللہ کے محبوب بندے محمد رسول اللہﷺ کی سیرت کے کچھ پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ اس طرح ہوا کہ خواب میں رسول اللہﷺ کی زیارت کا مشرف حاصل ہوا۔ میں نے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں درخواست کی کہ:
“یا رسول اللہﷺ! آپ کی سیرت کے بارے میں چودہ سو سال میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن اتنا کچھ لکھے جانے کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپﷺ کی زندگی اور آپﷺ کے مشن کے بارے میں اور آپﷺ کے اوپر اللہ تعالیٰ کی جو عنایات ہیں اس کا حق پورا ہو گیا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ معجزات کی تشریح کروں۔
شق القمر کیسے ہوا؟ کنکریوں نے کلمہ کس قانون کے تحت پڑھا؟ درخت آپ کے احترام میں جھک گئے، کس قانون کے تحت درخت جھک گئے۔ جنات نے قرآن سنا وہ ایک جگہ جمع ہو گئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ کا نبی ہوں، رسول ہوں۔ جنات نے کہا کہ اگر یہ درخت آپﷺ کی گواہی دے دے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم مسلمان ہو جائیں گے۔ اس درخت سے آواز آئی۔۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔۔۔۔۔۔تمام جنات نے سنا اور وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔
پہلے زمانے میں تو یہ بات بڑی عجیب سی لگتی تھی لیکن آج کے دور میں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ درخت باتیں بھی کرتے ہیں، درخت کے اندر زندگی بھی ہے۔ درخت کے اوپر اگر آپ کلہاڑی چلائیں اور جب اس کے اوپر چوٹ پڑتی ہے تو وہ روتا بھی ہے، چیختا بھی ہے اور اس کی آوازیں ریکارڈ بھی کر لی گئی ہیں۔
بہرحال میرے اس چھوٹے سے منہ سے نکلی ہوئی بہت بڑی بات کو رسول اللہﷺ نے قبول فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں نے جدوجہد کی، غور و فکر کیا اور الحمدللہ تین جلدیں اللہ کے کرم اور رسول اللہﷺ کی نسبت سے لکھی گئیں۔ پہلی جلد میں حضورﷺ کی زندگی کے وہ تمام حالات و واقعات قلمبند کئے گئے ہیں جو آپﷺ کے ساتھ پیش آئے۔ رسول اللہﷺ نے تبلیغ کے سلسلے میں جو تکلیفیں اٹھائیں اور رسالت کے پیغام کو پہنچانے کے لئے جو صعوبتیں برداشت کیں ان کی تفصیلات درج ہیں۔ دوسری جلد میں سائنس کی بنیاد پر معجزات کی تشریح ہے اور تیسری جلد قصص القرآن کا حصہ ہے۔ قرآن پاک میں پیغمبروں کا تذکرہ ہے۔
ایک نشست میں مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جو قصے بیان کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہانیاں نہیں سناتے۔ ان قصوں میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے اور پیغام چھپا ہوا ہے۔ میں نے اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ تفکر کیا کہ پیغمبران کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے قصص میں اللہ تعالیٰ کا کیا پیغام ہے؟
جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے میں خواب کا تذکرہ ہے۔ خواب کے بارے میں جب میں نے غور کیا تو یہ علم حاصل ہوا کہ خواب انسانی زندگی کا نصف حصہ ہے۔ اگر کسی انسان کی عمر اسی سال ہے تو چالیس سال وہ خواب کے حواس میں زندگی گزارتا ہے اور چالیس سال بیداری کے حواس میں زندگی گزارتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ ہے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قصہ ہے، حضرت سلیمان علیہ السلام کا قصہ ہے، حضرت عزیر علیہ السلام کا قصہ ہے۔
قرآن کریم میں جتنے پیغمبروں ؑکے قصص ہیں۔ ان میں کوئی نہ کوئی پیغام ہے اور ساتھ ہی اس میں کوئی نہ کوئی فارمولا موجود ہے۔ میں نے اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ قصص القرآن پڑھے اور اس کے بعد تورات، بائبل پڑھیں اور قرآن کریم کی مدد سے ان قصوں میں اللہ کی حکمت کو تلاش کیا نتیجہ میں ایک کتاب بن گئی “محمد رسول اللہ جلد سوئم”۔ اس طرح سیرت طیبہ پر یہ تین کتابیں سامنے آئی ہیں۔ چوتھی کتاب لکھنے کا ارادہ ہے۔ آپ سب سے درخواست ہے کہ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرمائے کہ وہ کتاب بھی منظر عام پر آ جائے۔
جب ہم رسول اللہﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو پہلی بات ہمیں یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی تعلیمات کا مکمل نچوڑ رسول اللہﷺ کی سیرت میں موجود ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہﷺ نے خود یہ فرمایا ہے کہ میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں میں وہی بات کہہ رہا ہوں جو میرے بھائی پیغمبروں نے مجھ سے پہلے بیان کی ہے۔ سیرت کے حوالے سے ہمیں تین باتیں بطور خاص رسول اللہﷺ کی زندگی میں ملتی ہیں۔
پہلی بات یہ کہ کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے کسی علم کو حاصل کرنے کے لئے منزل تک پہنچنے کے لئے مکمل جدوجہد کی ضرورت ہے اور مکمل جدوجہد کے ساتھ سازگار ماحول کا ہونا ضروری ہے۔ جب تک سازگار ماحول میسر نہیں آئے گا اس وقت تک کامیابی یقینی نہیں ہے۔
اساتذہ کرام کو تعلیمی ماحول فراہم نہ کیا جائے تو نہ اساتذہ کرام پڑھا سکتے ہیں اور نہ طلبہ پڑھ سکتے ہیں۔ یونیورسٹی علوم حاصل کرنے کے لئے ماحول فراہم کرتی ہے۔
مائی حلیمہ صاحبہ کے پاس رسول اللہﷺ تشریف لے گئے، وہاں فرشتوں کا آنا، سینہ کو کھول کر دل نکالنا، دل دھو کر دوبارہ سینہ میں رکھنا۔ یہ واقعہ کتابوں میں مذکور ہے لیکن تاریخی حوالوں سے اگر آپ دیکھیں تو اس قسم کے واقعات رسول اللہﷺ کو کئی دفعہ پیش آئے۔
رسول اللہﷺ غار حرا میں تشریف لے گئے، جہاں کوئی شور و شغف نہیں تھا، آبادی بھی کم تھی۔ سواری کے لئے اونٹ تھے، اونٹ کے چلنے سے تو ویسے ہی کوئی آواز نہیں ہوتی تو اس ماحول سے دور ہو کر رسول اللہﷺ غار حرا میں تشریف لے گئے، الگ تھلگ ہو کر رسول اللہﷺ نے غار حرا میں اللہ کی نشانیوں پر غور و فکر فرمایا۔
غار حرا میں رسول اللہﷺ نے کونسی عبادت کی؟ اس وقت تک نماز تو فرض نہیں ہوئی تھی۔ حضرت محمدﷺ نے غور و فکر کیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے وحی کا سلسلہ جاری ہوا۔ اللہ کی کتاب نازل ہوئی۔ اللہ کی کتاب کے بارے میں آپ جب غور کریں گے تو اس میں آپ کو یہ عنوانات ملیں گے۔
۱۔ شریعت
۲۔ تاریخ
۳۔ معاد
جانوروں میں والدین کے احترام کا اور والدین کی محبت کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن انسانوں میں والدین، اساتذہ، بزرگوں کے احترام کا حکم ہے۔ حقوق العباد پورے کرنے کا حکم ہے۔ انسان ایک معاشرتی جانور ہے۔۔۔۔۔۔معاشرہ کے حقوق کو کس طرح پورا کیا جائے؟ خود کس طرح خوش رہیں اور دوسروں کو کس طرح خوش رکھا جائے؟ شادی بیاہ کیسے ہو؟ قربانی کس طرح کریں؟ حج کے فرائض کیا ہیں؟ وضو، نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ یہ سب شریعت مطہرہ ہے۔
قرآن پاک کے دوسرے حصے میں اللہ کے پیغمبروں کا تذکرہ ہے۔ اللہ کے پیغمبروں علیہم السلام کے تذکرے میں جب ہم تفکر کرتے ہیں تو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہﷺ کا تذکرہ ہے۔ گزرے ہوئے دور کو ہم تاریخ کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دے سکتے۔ ہمارے پاس تاریخ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کس طرح زمین پر آئے؟ کس طرح ان کی اولاد پھیلی؟ ہابیل قابیل کا واقعہ تخریب و تعمیر کا سلسلہ، انسان نے کس طرح ارتقاء کیا، پہلے وہ جڑیں کھا کر گزارہ کرتا تھا پھر Stone Ageآیا، آگ دریافت ہو گئی Electricityدریافت ہوئی اور سائنس کا دور آ گیا۔ ان حالات و واقعات کو ہم تاریخ کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دے سکتے۔ یعنی کہ قرآن کا دوسرا حصہ انسانی ارتقا کی تاریخ ہے۔۔۔۔۔۔
قرآن پاک میں تیسرا حصہ معاد ہے۔ معاد سے مراد ہے کہ انسان اس دنیا میں آنے سے پہلے کہاں تھا؟ دیکھئے! انسان کہیں تھا تو یہاں آیا ہے۔ کہاں تھا؟ تو ہم یہ آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ انسان عالم ارواح میں تھا یعنی عالم ارواح بھی کوئی عالم ہے یہ ایک زون ہے۔ پھر اس دنیا میں اس نے زندگی گزاری۔ سوال یہ ہے کہ 40سال، 50سال، 100سال جتنی بھی عمر گزاری اور اس دنیا میں رہنے کے بعد وہ کہاں چلا جاتا ہے۔
مرنے کے بعد حشر نشر ہونا۔ دوبارہ پیدا ہونا، پیدا ہونے کے بعد حساب و کتاب ہونا۔ تعمیری عمل اور تخریبی عمل کے جزیات کا فیصلہ سننے کے بعد اس کا جنت میں جانا یا دوزخ میں رہنا یہ سب معاد ہے۔
سیرت طیبہﷺ کے حوالے سے ہمارے سامنے رسول اللہﷺ کی زندگی کے تین پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ رسول اللہﷺ اس دنیا میں تشریف لائے۔ ان کی والدہ محترمہ بھی تھیں اور والدصاحب قبلہ بھی تھے۔ رسول اللہﷺ نے کس طرح زندگی گزاری، حالات کا کس طرح مقابلہ کیا اور جب باشعور ہوئے تو کس طرح کاروبار کیا۔ شادیوں میں حضور پاکﷺ کا کیا کردار رہا؟ اولاد کے ساتھ کیسا سلوک فرمایا؟ بیگمات کے ساتھ رویہ کیسا تھا؟ پڑوسیوں کے حقوق کس طرح ادا کئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شب و روز کیسے گزرتے تھے؟
مذہبی حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اسلام میں غربت ہے، افلاس ہے اور جو لوگ یہاں غریب ہوں گے، جنت میں امیر ہوں گے، جو یہاں مفلس ہوں گے انہیں اللہ تعالیٰ محلات عطا کرے گا۔ جب ہم رسول اللہﷺ کی زندگی کے بارے میں تاریخ سے پڑھتے ہیں تو ہم جان لیتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس تین اونٹنیاں تھیں۔ رسول اللہﷺ نے ایک وقت میں چالیس اونٹ کی قربانی بھی فرمائی۔
رسول اللہﷺ کی دس ازواج مطہرات تھیں۔ سب کے الگ الگ گھر تھے، سب کے الگ الگ خرچ بندھے ہوئے تھے۔ رسول اللہﷺ اصحاب صفہ کے اخراجات پورے فرماتے۔ رسول اللہﷺ کو خوشبو کا شوق تھا اور خوشبو پسند فرماتے تھے۔ جو خوشبو رسول اللہﷺ استعمال فرماتے تھے، تاریخی حوالوں سے ہمیں اس خوشبو کا تذکرہ ملتا ہے وہ “عود” ہے(عود کی لکڑی اس وقت پانچ لاکھ روپے کلو ہے)۔ رسول اللہﷺ نے کاروبار بھی کیا، رسول اللہﷺ کے کھجوروں کے درخت تھے۔ بڑے بڑے وفود آتے تھے، ان وفود کو تحفے تحائف دیا کرتے تھے۔ حضور پاکﷺ کا دسترخوان بڑا وسیع دسترخوان تھا۔ حضورﷺ کے پاس بکریاں بھی تھیں۔
معاشرتی نقطۂ نظر سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ مسلمان غریب، مفلس اور مفلوک الحال ہوں۔ مسلمان خوشحال نہیں ہو گا تو زکوٰۃ کہاں سے دے گا؟ مسلمانوں میں خوشحالی نہیں ہو گی تو مسلمان حج کیسے کریں گے؟ اسلامی حکومت کے پاس خزانہ نہیں ہو گا تو گھوڑے، ہتھیار، فوج، توپ، میزائل کس طرح بنیں گے؟ اسلامی معاشرہ غریب اور مفلس و قلاش ہو گا تو زکوٰۃ و صدقہ و خیرات کون دے گا؟ مساجد کیسے تعمیر ہوں گی؟ دین و دنیا کی ترقی میں مسلمان کس طرح دوسروں سے سبقت حاصل کریں گے؟
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس ضابطہ حیات میں تجارت اور صنعت بھی ہے، کھیتی باڑی بھی ہے۔ اس ضابطۂ حیات میں فوج اور چھاؤنیاں بھی ہیں۔
حضرت عثمانؓ کا یہ حال تھا کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک صاحب آئے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ مجھے شہد چاہئے۔ فرمایا عثمانؓ کے پاس چلے جاؤ۔ جب وہ شہد لینے کے لئے حضرت عثمانؓ کے پاس گئے تو وہاں بہت سارے اونٹ بیٹھے ہوئے تھے اور تھوڑے سے گیہوں گرے ہوئے تھے۔ حضرت عثمانؓ ملازمین پر ناراض ہو رہے تھے کہ گیہوں زمین پر کیوں گرے۔ اس شخص نے سوچا کہ اتنے سے گیہوں گرنے پر ملازم کو اتنا سخت سست کہہ رہے ہیں مجھے شہد کیا دیں گے؟
سائل نے دوبارہ جا کر عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ! مجھے شہد چاہئے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ تمہیں کہا تو تھا کہ عثمانؓ کے پاس چلے جاؤ۔ وہ پھر دوبارہ گئے تو اونٹ جا چکے تھے اور حضرت عثمانؓ حساب کتاب میں مصروف تھے۔ منشی جی نے حضرت عثمانؓ سے کہا کہ رسول اللہﷺ نے بھیجا ہے ان صاحب کو شہد چاہئے۔ کہا کہ شہد دے دو۔ منشی جی نے کہا کہ برتن دو۔ اس شخص نے کہا کہ برتن تو میں نہیں لایا۔
منشی جی نے حضرت عثمانؓ سے کہا۔ یہ صاحب برتن نہیں لائے۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا شہد کا کُپا دے دو۔ (کُپے میں چھبیس، ستائیس کلو شہد آتا ہے) اس بندے نے کہا۔ میں کُپا نہیں اٹھا سکتا، کمزور آدمی ہوں۔ منشی جی پھر حضرت عثمانؓ کے پاس گئے۔ حضرت عثمانؓ کو منشی جی کا بار بار آنا ناگوار گزرا۔ انہوں نے فرمایا کُپا نہیں اٹھا سکتا تو اونٹ پر لاد کر لے جائے۔
دوستو! اس درجہ خیرات کب ممکن ہے۔۔۔۔۔۔جب اللہ تعالیٰ کا فضل عام ہو، آدمی دل کھول کر خرچ کرتا ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ حضرت عثمانؓ کی ساری دولت اسلام کی اشاعت پر خرچ ہوئی۔
اللہ کے محبوبﷺ کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے، ہمارے آقا کی شان یہ تھی کہ وہ سادہ زندگی پسند فرماتے تھے۔ گھر کے کام خود کر لیتے تھے۔ کھجور کی چٹائی پر سو جاتے تھے۔ اپنے جوتے خود سی لیتے تھے۔ کائنات کے بادشاہ عوام جیسی زندگی بسر کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں مسلمانوں کی عزت و توقیر اور معیشت کا یہ حال تھا کہ مسلمانوں میں زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔
ہمارے اندر غریبی کا جو تصور ہے کہ مسلمان غریب ہوتا ہے، جو غریب ہو گا اسے جنت میں محل ملیں گے۔ یہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے؟
حضور پاکﷺ نے اپنی امت کیلئے افلاس اور تنگدستی سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ ہر مسلمان کو چاہے وہ خاتون ہو یا مرد ہو، یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ یہ کبھی نہیں چاہتے کہ رسول اللہﷺ کی امت غریب اور مفلوک الحال ہو۔ غربت اور مفلوک الحال سے نجات کے لئے ہمیں اپنے دور کے مطابق عمل کرنا ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“جو قوم اپنی تبدیلی نہیں چاہتی اللہ بھی اسے تبدیل نہیں کرتا۔”
دین اور دنیا کی ساری نعمتیں آپ کے پاس ہونی چاہئیں۔ لیکن سب ہوتے ہوئے ہمیں رسول اللہﷺ کی زندگی کے مطابق سادہ زندگی گزارنی ہے۔ اللہ کے نام پر یتیموں، بیواؤں، معذوروں پر خرچ کرنا ہے۔ قوم کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں کھولنی ہیں۔ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر ہمیں ایجادات کرنی ہیں۔
اپنے دور کے مطابق ہمیں سائنس پڑھنی ہو گی۔ ہمیں صنعت و حرفت میں آگے بڑھنا ہو گا۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ “اگر تمہیں چین میں علم ملے تو چین جاؤ۔” ہم چین عربی سیکھنے نہیں جاتے۔ چین کا نام رسول اللہﷺ نے اس لئے لیا کہ چین اتنا متمدن ملک تھا کہ چین میں پریسPressایجاد ہو گیا تھا، ریشم کے کپڑے اور مختلف چیزیں بنتی تھیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا صنعت و حرفت کے لئے کاروبار کے لئے اپنی معاشرت کو درست کرنے کے لئے اگر تمہیں عرب سے چین جانا پڑے تو وہاں جا کر علم سیکھو۔ یعنی خوشحال ہونے کے لئے دین کے ساتھ ساتھ سائنسی اور صنعت و حرفت کے علوم حاصل کرنا ضروری ہیں۔
میرے دوستو!
میں عرض کرتا ہوں کہ ذہن میں یہ Conceptکہ یہاں کی غریبی جنت میں کام آئے گی۔ شعور کے مطابق نہیں ہے۔ جہاں تک غریب امیر ہونے کا تعلق ہے، جو لوگ کوشش کرتے ہیں جو لوگ جدوجہد کرتے ہیں جو لوگ پڑھتے ہیں لکھتے ہیں وہ ترقی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ایک آدمی جاہل ہے، ایک آدمی Ph.Dہے ظاہر ہے اس میں بڑا فرق پڑ جائے گا۔ یہ Conceptبالکل صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمان قوم کو غریب اور مفلوک الحال رکھنا چاہتے ہیں، جاہل رکھنا چاہتے ہیں۔
اس کے بارے میں بھی رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ :
“ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر علم سیکھنا فرض ہے۔”
تاریخی حوالوں سے جو قوم اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہوتی، وہ ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتی ہے، مردہ ہو جاتی ہے۔ جو قوم اپنی تاریخ کو یاد رکھتی ہے اس کے اندر ولولہ جوش ہوتا ہے اور اپنے اسلاف کی ترقی اور عروج کو دیکھتے ہوئے اس کے اندر ترقی اور عروج کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ ہم اپنے اسلاف کو بھول گئے ہیں۔ ہمارے اسلاف نے ایک ہزار ایک ایجادات کی ہیں۔
* ابن سینا میڈیکل سائنس کے ماہر تھے۔ انہوں نے علم الابدان کا نقشہ بنایا اور جسمانی حرارت ناپنے کا آلہ ایجاد کیا جو “تھرمامیٹر” کی صورت میں موجود ہے۔
* ابو بکر محمد بن زکریا الرازی کو سرجری میں مہارت حاصل تھی۔ آپریشن کے بعد جلد کو سینے کا طریقہ بھی انہوں نے ایجاد کیا۔
* ابوالقاسم عباس بن فرناس ہوا میں اڑنے کے تجربے کرتے رہے ان کی کوششوں کے نتیجہ میں ہوائی جہاز کی ایجاد ہوئی۔
* عبدالمالک اصمعی نے علم ریاضی، علم حیوانات، نباتات اور انسان کی پیدائش اور ارتقا پر تحقیق کی۔
* ASTRONOMY، جیومیٹری کی بنیاد مسلمانوں نے ڈالی، بلڈ سرکولیشن، ویکسینیشن، BONE FRACTUREکے علوم مسلمانوں نے متعارف کرائے، TOWN PLANNINGاور آج کے جدید کیمروں کی بنیاد کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔
اکثر علوم یورپ میں اسلامی دنیا سے منتقل ہوئے ہیں۔ یہ بڑے بڑے سائنسدان، جو ساری دنیا پر حکمران ہیں، ان کی پوزیشن مسلمانوں سے زیادہ خراب تھی۔ تاریخ پر ہماری نظر ہونی چاہئے۔
جو آدمی یہاں پیدا ہوا ہے اسے بہرحال دنیا چھوڑ کر جانا ہے۔ ہماری زندگی کا ایک رخ ہمیں دنیاوی آسائش فراہم کرتا ہے اور ایک رخ ہمیں آخرت کی آسائش فراہم کرتا ہے۔ اس کے لئے ہمارے پاس رسول اللہﷺ کی عملی زندگی ہے۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے جو پسند فرمایا ہے، دنیاوی اعتبار سے ہو یا آخرت کے اعتبار سے ہو، اسے ہم اپنا لیں اور رسول اللہﷺ نے جو پسند نہیں فرمایا اسے ترک کر دیں۔
رسول اللہﷺ نے عفو و درگزر فرمایا، ہندہ جیسی خاتون کو معاف کر دیا۔ میں نے پڑھا ہے کہ وحشی جب رسول اللہﷺ کے سامنے آتا تھا تو شرمندہ ہوتا تھا اسے یاد آ جاتا تھا کہ میں نے رسول اللہﷺ کے چچا کا خون کیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے جب محسوس کیا کہ وحشی شرمندہ ہوتا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اس سے کہو کہ میرے سامنے نہ آیا کرے۔ حضورﷺ چاہتے تھے کہ وحشی کو ندامت نہ ہو۔
عفو و درگزر کی یہ کتنی بڑی شان ہے کہ ہندہ کو معاف کر دیا۔ قرضے معاف کر دیئے۔ اپنے خاندان کے خون معاف کر دیئے۔ سیرت طیبہ ہمیں ہدایت دیتی ہے کہ جب ہم دنیاوی زندگی میں کسی ایسے موڑ پر آ جائیں جہاں ہمیں معاف کرنا چاہئے تو ہمیں معاف کر دینا چاہئے۔ اس لئے کہ رسول اللہﷺ کی یہ پسندیدہ عادت ہے۔ جب خیرات کا مسئلہ ہو تو ہمیں رسول اللہﷺ کی سیرت سے سبق لینا چاہئے اور دل کھول کر خیرات کرنی چاہئے۔ جب فضول خرچی سے رکنے کا مسئلہ ہو تو ہمیں فضول خرچی سے بچنا چاہئے۔ اسی طرح حقوق العباد، میاں بیوی کے حقوق، والدین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، ملک و قوم کے حقوق پورے کرنے چاہئیں۔
*****
(پروفیسر ڈاکٹر نورالدین جامی صاحب):
ماشاء اللہ خوشی ہوئی کہ آج محترم عظیمی صاحب نے سیرت رسولﷺ پر اپنا لیکچر مرحمت فرمایا۔ آج کی گفتگو کے حوالے سے طبا و طالبات کے اذہان میں کوئی سوال ہو تو وہ بلا جھجھک سوال کر سکتے ہیں۔
سوال: عظیمی صاحب! آپ نے فرمایا کہ آنحضورﷺ کے معجزات کی جو تفصیل اور استدلال ہے، وہ آج کل کے حوالے سے سائنسی دور میں بھی ثابت ہو چکا ہے۔ درختوں کا رونا باتیں کرنا ثابت ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کنکریوں نے کلمہ کس طرح پڑھا؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب: پتھر پیدا ہوتے ہیں اور بچپن گزارتے ہیں اور جوان بھی ہوتے ہیں۔ جتنی بھی معدنیات ہیں، سب پتھروں میں شمار ہوتی ہیں۔
Siliconبھی معدنیات میں شامل ہے، Siliconکی وجہ سے آپ کے Mobilesاور Satellitesوغیرہ چل رہے ہیں۔ یہ دھات سنتی بھی ہے، آپ کی آواز کو ذخیرہ بھی کرتی ہے، بعد میں واپس بھی کرتی ہے۔
سوال: سوالات کے مختلف جواب پیش کئے جاتے ہیں؟ اس سلسلے میں وضاحت فرمائیں۔
جواب: تبلیغی سلسلہ میں، میں Romeگیا۔ وہاں ایک مولوی صاحب مجھ سے بہت ناراض ہوئے کہ سیرت کی کتاب میں آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ سب اسرائیلیات ہیں۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ اپنے اسلاف سے زیادہ جانتے ہیں؟ میں نے کہا میں ایک معنی میں، اپنے اسلاف سے بہت زیادہ جانتا ہوں۔ میرے اسلاف کو Telephoneکا پتہ نہیں تھا، کمپیوٹر کا پتہ نہیں تھا، موبائل کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ میرے ابا جی کے پاس سائیکل نہیں تھی۔ میں نے ترقی کر کے بیالیس42روپے میں سائیکل خریدی۔ میرے بچوں نے دس دس لاکھ روپے کی گاڑیاں خریدیں۔ میرے پوتے، نواسے کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں۔ میرے پردادا نے ہوائی جہاز میں سفر نہیں کیا۔ آج ہوائی جہاز میں لوگ سفر کرتے ہیں۔ دل کی سرجری، گردوں کا ٹرانس پلانٹ پہلے زمانے میں نہیں ہوتا تھا۔ لڑائیاں لاٹھیوں اور تلواروں سے ہوتی تھیں۔ اب میزائل اور ایٹم بن بن گئے ہیں۔
محترم مولانا صاحب! بات یہ ہے کہ جتنی ذہن میں بالیدگی آ گئی ہے، جتنا ذہن میں ارتقا ہو گیا ہے، اس کے حساب سے اگر ہم اپنے بچوں کو کچھ پیش کریں گے تو وہ اسے اس لئے قبول نہیں کریں گے کہ ان کے ذہن بڑے ہو گئے ہیں۔ اپنے بچوں کے مقابلے میں ہمارے ذہن بہت چھوٹے ہیں۔ اس زمانے میں پانچ سال کا بچہ کمپیوٹر گیمز کھیلتا ہے۔ میرے پوتے کی عمر پانچ سال ہے۔ ایسے ایسے گیمز کھیلتا ہے جو مجھے نہیں آتے۔ بتایئے! میرا پوتا مجھ سے زیادہ جانتا ہے یا میں زیادہ جانتا ہوں؟ اب آپ ہی بتایئے آپ اپنے دادا سے زیادہ جانتے ہیں، کیا آپ کے علم میں اضافہ نہیں ہوا؟ قرآن میں ہر چیز وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کی وضاحت کر دی ہے۔
*****
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔
ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔
عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "