Topics
صندل
دھیمے لہجے میں بولی،”ماں، میں نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ میں نے جنگل میں تپسیا
کی ہے ماں، میں جوگن ہوں۔”پھر وہ ٹھاکر صاحب کی جانب دیکھ کر بولی،”باپو، سلطان
بابا کہتے ہیں کہ بھگوان نے مجھے اپنے کام کے لئے چن لیا ہے۔ باپو میرے ساتھ تو
بچپن ہی سے عجیب عجیب سی باتیں ہوتی آئی ہیں۔ پہلے میں انہیں اچھی طرح سمجھتی نہیں
تھی مگر اب میں سب کچھ اچھی طرح سمجھتی ہوں، باپو جب میں گھر میں تھی تو ہر رات کو
مجھے عالم جنات جانا ہوتا تھا۔ باپو میرے ساتھ وہاں کیا کیا گزری، میں سب کچھ آپ
کو آہستہ آہستہ بتاؤں گی۔”پھر وہ سر جھکا کے بڑی عاجزی سے بولی،”باپو، آپ تو مجھے
جانتے ہو میں گھر چھوڑ کر ہرگز بھی نہ جاتی اگر آپ لوگ میری شادی کی تیاری نہ
کرتے۔ ماں میں نے تو پہلے ہی منع کیا تھا۔”ماں بولی،”مگر تو راتوں رات کس کے گھر
گئی تھی؟”صندل بولی،”ماں میں یہی تو کہہ رہی ہوں کہ میں کسی کے گھر نہیں گئی تھی
نہ کسی کے ساتھ گئی تھی۔ مجھے تو سلطان بابا جنگل میں لے گئے تھے۔ وہاں ایک پہاڑ
کے غار میں بہت عرصے تک رہی۔”
ٹھاکرصاحب
بولے،”صندل ایسا نہیں کہ ہمیں تیرے اوپر اعتبار نہیں ہے مگر میں نے اور خادم نے تو
جنگل کا کونہ کونہ چھان لیا، تیرا کہیں نشان نہ ملا تو کس جنگل کی بات کر رہی ہے؟”
صندل
بولی،”باپو، وہ کون سا جنگل تھا، میں کیا جانوں۔ اس جنگل کے سوا میں نے اور کوئی
جنگل دیکھا ہی کب ہے؟”
ماں
بولی،”جنگل میں تجھے ڈر نہیں لگا؟”صندل نے کہا،”سلطان بابا نے مجھے حصار باندھ کر
بیٹھنے کو کہا تھا حصار کے اندر کوئی نہیں آسکتا۔”
ٹھاکر
صاحب بولے۔”اس جنگل میں تو شیر اور درندے بھی ہوں گے؟”
صندل
بولی۔”باپو شیر اور درندے تو میں نے کبھی نہیں دیکھے۔ البتہ ہرن ضرور تھے۔ اس کے
علاوہ جنات مجھے تنگ کرنے آتے تھے۔ مگر بھگوان کی کرپا سے اور سلطان بابا کی مدد
سے وہ کبھی نقصان نہ پہنچا سکے۔ جنگل میں کافی عرصہ رہنے کے بعد سلطان بابا مجھے
دریا کے اندر لے گئے۔”چودھرائن حیرت سے بولی،”دریا کے اندر تو ڈوبی نہیں۔ تجھے تو
تیرنا بھی نہیں آتا۔”
صندل
مسکرا کر بولی،”نہیں ماں، میں کیسے ڈوبتی، سلطان بابا جو ساتھ تھے۔ انہوں نے مجھے
اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور جب میں نے اس دریا میں پاؤں رکھا تو ایک خشک راستہ
بن گیا۔ آگے آگے سلطان بابا اس راستے پر چل رہے تھے۔ پیچھے پیچھے میں تھی۔ پیچ میں
جا کر اس راستے پر نیچے جانے کی سیڑھیاں تھیں۔ ہم نیچے اترے تو وہاں پوری ایک دنیا
آباد تھی۔ ماں وہاں پر ایک مقام پر مٹی اور دلدل کے سوا کچھ نہ تھا۔ نہ کوئی آدم
نہ آدم زاد۔ وہاں سلطان بابا نے مجھے بٹھا دیا۔ اور اب میں وہیں سے یہاں آ رہی
ہوں۔”
ٹھاکرصاحب
غور سے صندل کی باتیں سن رہے تھے۔ ان کے چہرے پر فکر کی علامتیں تھیں۔ وہ کچھ
سوچتے ہوئے بولے۔”صندل تیری پیدائش کے ساتھ ایک عجیب واقعہ وابستہ ہے۔”صندل بولی،”کس
کا باپو؟”
ٹھاکرصاحب
بولے،”کندن کی چھٹی کے روز ایک ملنگ بابا آئے تھے۔ انہوں نے اس حویلی کے کاغذات دے
کر کہا کہ یہ حویلی تمہاری ہے۔ اس کاغذات پر میرے پتا جی کے دستخط تھے۔ جب میں اس
حویلی کو دیکھنے آیا تو اس کے صندل دیوی والے کمرے میں ایک بڑا سا بت تھا۔ اس کے
قدموں میں پوجا کا تھال تھا اس کے پاس ہی فرش پر ایک بڑھیا عورت بستر مرگ پر تھی۔
وہیں ملنگ بابا بھی تھے۔ بڑھیا نے مجھ سے کہا کہ یہ صندل دیوی ہے مجھے پوجا کی
تھالی سے بتاشہ کھلایا اور کہا کہ صندل دیوی نے تیرے گھر جنم لینے کا فیصلہ کر لیا
ہے۔ صندل دیوی کا جنم اسی گھر میں ہو گا۔ دیوی کا بت ہوبہو تیری صورت کا تھا۔ اس
کی ٹھوڑی پر بالکل تیری طرح کا تل تھا۔ بڑھیا میرے سامنے ہی پرلوک سدھار گئی اس کا
جسم بھی دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گیا۔ مگر سب سے عجیب بات تو یہ ہے کہ تیری
پیدائش تک میں نے یہ کمرہ بند رکھا۔ جب تو پیدا ہوئی تیری شکل دیکھ کر مجھے بڑھیا
کی بات یاد آ گئی کہ صندل دیوی نے تیرے گھر جنم لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جب تیری
ماں کو اس کمرے میں لے کر آیا تو اس وقت تو سوا مہینے کی تھی۔ جس وقت سے بڑھیا کا
انتقال ہوا تھا اس کے بعد پہلی مرتبہ یہ کمرہ کھولا گیا تھا۔ جب میں نے دیکھا وہاں
سے تیرا ہم شکل صندل دیوی کا بت اور پوجا کا تھال غائب تھا۔ کچھ بھی نہ تھا۔ سوائے
اس کبوتروں والی تصویر کے۔ پھر اس کے بعد بھی ملنگ بابا ملے تھے۔ انہوں نے بتایا
تھا کہ تو صندل دیوی ہے تجھے پرماتما نے چن لیا ہے۔ بیٹی ہم تو شروع سے ہی تیری
زندگی دیکھ رہے ہیں ہمیں پورا یقین ہے کہ تو دیوی کا اوتارہے اب ہم تجھ سے شادی کا
نہیں کہیں گے مگر ہمیں بتا کہ اب تجھے کیا کرنا ہے؟ تیرے آنے کی خبر آناً فاناً گاؤں
میں پھیل جائے گی اگر لوگ تیرے بارے میں پوچھیں گے تو ان سے کیا کہنا ہے؟”
صندل
بولی،”پتا جی، یہ مجھ پر چھوڑ دیجئے میں خود ان سے بات کروں گی۔ بس مجھے آپ دونوں
کا آشیرباد چاہئے۔ میں نے آپ کو بہت دکھ پہنچائے ہیں، میں اس کے لئے معافی مانگتی
ہوں۔”وہ اپنے ماتا پتا کے چرنوں میں جھک گئی انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر
آشیر باد دی۔
دوسرے
دن صبح تڑکے اس کی آنکھ کھلی وہ سیدھی صندل دیوی والے کمرے میں پہنچی سجدہ کیا اور
اپنے رب کے دھیان میں بیٹھ گئی۔ مراقبہ ختم کرنے سے پہلے اس نے ایک لمحے کے لئے
روشنی کے جھماکے کی صورت میں دیکھا کہ خادم گھر گھر اس کے آنے خوشی میں لڈوبانٹ
رہا ہے۔اور جوق در جوق لوگ اس کو دیکھنے آ رہے ہیں۔ صندل نے اس کو رب کی جانب سے
ایک اطلاع جان کر ماں سے لڈو منگوانے کو کہا۔ صبح صبح خادم کے ہاتھ سب کے گھر لڈو
بنوا دیئے اور اس سے کہہ دیا کہ صندل کے آنے کی خوشخبری ہر گھر میں دے دے۔
ابھی
خادم گھر بھی نہیں لوٹا تھا کہ اڑوس پڑوس سے عورتیں آنا شروع ہو گئیں۔ مالا نے
انہیں صحن میں بٹھایا۔ مالا کا چہرہ دیکھتے ہی ایک عورت زور سے لعن طعن کے انداز
میں بولی،”اے چودھرائن، آگئی وہ پچھل پیری۔”آواز سن کر صندل فوراً ہی کمرے سے باہر
آئی اس نے مسکرا کر سب کو پرنام کیا پھر جواباً کہنے لگی۔”ماسی پرماتما کی کرپا سے
میں واپس آ گئی ہوں۔ آپ سب خوش تو ہیں۔”
سب
نے ناک بھوں چڑھا کر منہ پھیر لیا اور ایک کہنے لگی،”اس کا اتنا جگرا کیسے ہوا کہ
اس ڈھٹائی کے ساتھ ہمارے سامنے آ گئی۔”
اتنے
میں چودھرائن بھی آ گئی۔ سب عورتوں نے اس کے سامنے خادم کی بانٹی ہوئی مٹھائی ڈال
دی اور بھی کئی عورتیں مٹھائی لوٹانے آئیں۔ ایک عورت بولی،”چودھرائن تو نے اسے گھر
کیسے رکھ لیا۔ دو سال گھر سے باہر رہ کر منہ کالا کیا اب جوگن بن کر ہماری آنکھوں
میں دھول جھونکنے آئی ہے۔ ہم تو پنچائیت بلائیں گے اپنی بہو بیٹیوں کو خراب نہیں
کرنا۔”
یہ
کہتی ہوئی سب کی سب اٹھ کھڑی ہوئیں۔ چودھرائن کہتی رہ گئی،”اے بہن ذرا ٹھہرو تو
ذرو بیٹھو تو، پانی تو پیتی جاؤ۔”مگر اس کے جواب میں ایک کڑک دار آواز آئی۔”اب اس
گھر کاپانی، کھانا سب ہمارے لئے حرام ہے۔”بڑ بڑ کرتی ہوئی ساری واپس چلی گئیں۔
صندل کو تھوڑا سا تو اندازہ تھا کہ گھر والے ضرور ناراض ہونگے مگر سارا محلہ اس کے
خلاف ایک محاذ بنا لے گا اس کا اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ وہ ماں کے پاس آئی اس کے
شانوں کو تسلی دینے والے انداز میں آہستہ آہستہ دباتے ہوئے بولی،”ماں، اوپر والا
ہم سب کی ایک ایک پل کی خبر رکھتا ہے۔ تو دیکھ لینا کل یہی لوگ ہمارے گھر آنا اپنی
عزت سمجھیں گے۔”مالا بولی،”مگر جوان لڑکی کا گھر سے باہر قدم نکالنا اور پھر دو
سال غائب رہنا کون قبول کر سکتا ہے؟”صندل نے چونک کر مالا کی طرف دیکھا۔ اسے بھاوج
سے ان الفاظ کی توقع نہ تھی۔ اس نے فی الحال خاموشی میں ہی اپنی عافیت جانی۔ مگر
اندر ہی اندر سلطان بابا کو مدد کے لئے پکارتی رہی۔
دو
دن خاموشی سے گزر گئے۔ مالا اور کاجل اس سے کچھ زیادہ اُکھڑی اُکھڑی سی تھیں۔ وہ
بچوں کو بھی اس کے قریب نہیں آنے دیتی تھیں۔ اس کا زیادہ تر وقت عبادت میں گزرتا
تھا۔ محلے پڑوس سے بھی ان دو دنوں میں کوئی نہیں آیا۔ صندل کے ماتا پتا بھی حالات
کی تبدیلی سے پریشان تھے۔ وہ بھی چپ چاپ سوچتے رہتے تھے۔ تیسرے دن شام کو ٹھاکر
صاحب نے گھر آتے ہی چودھرائن کو کمرے میں بلایا۔ کہنے لگے،”آج گاؤں کے بیس عزت دار
لوگ میرے پاس دکان پر آئے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ صندل نے ہمارے گاؤں کی عزت پر دھبہ
لگایا ہے۔”میں نے کہا کہ صندل تو جوگن ہے وہ جوگن بن کر لوٹی ہے۔ سب لوگ بولے کہ “ہم
منگل وار کو پنچائیت بٹھائیں گے۔ وہاں صندل کو ان دو سالوں کا حساب دینا ہو گا۔ وہ
جوگن کیسے بن گئی۔ جوگن بن کر اس نے کیا پُن کمائے ہم جاننا چاہتے ہیں۔”
ٹھاکر
صاحب کے چہرے پر سخت پریشانی کے آثار تھے۔ کہنے لگے، “بیگم، سارا گاؤں وہاں حاضر
ہو گا۔ ان کے سامنے صندل کو ان کے سوالوں کے جواب دینے ہوں گے۔”چودھرائن سن کر
رونے لگی،”اے بھگوان، اب کیا ہو گا؟”صندل اطمینان سے بولی۔”ماتا جی۔ آپ بھگوان پر
بھروسہ رکھیں۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ رب کی شکتی سے سب کا دل مطمئن ہو
جائے گا۔ آپ نہ گھبرائیں۔”ٹھاکر صاحب ٹھنڈی سانس بھر کر بولے،”بھگوان کرے ایسا ہی
ہو۔”
اس
رات باوجود کوشش کے ٹھاکرصاحب اور چودھرائن جی سے کچھ نہ کھایا گیا۔ دونوں اپنی
جگہ فکر مند تھے۔ اتنی مدت بچھڑنے کے بعد تو بیٹی سے رب نے بڑی منتوں کے بعد ملوایا
تھا۔ اب وہ اپنی بچی کو دوبارہ کھونا نہیں چاہتے تھے۔ جب سے صندل گھر آئی تھی۔
مالا اور کاجل تو اس سے بات نہیں کر رہی تھیں مگر راہول اور سنیل بھی کچھ خفا سے
تھے۔ سب اپنی اپنی جگہ چپ چاپ تھے۔ ماتا پتا کے آگے ان کی کچھ چلتی نہ تھی۔ اس لئے
بھی گھر میں خاموشی تھی۔ لڑائی جھگڑا نہ تھا۔ اس کے علاوہ سلطان بابا کی قبر سے
تبرک ملنا اور ان کے یہاں اولاد ہونا۔ صندل کا ہمزاد کے ساتھ مقابلہ کرنا یہ باتیں
بھی صندل کی سچائی کو ثابت کرتی تھیں۔ لیکن صندل کی غیر حاضری میں گاؤں والوں نے
جو کھچڑی پکائی اس نے بھائی بھاوجوں کے ذہن میں صندل کے لئے شک ڈال دیا تھا۔
رات
کو جب ٹھاکرصاحب اور چودھرائن نے اور صندل نے کھانا نہیں کھایا تو خادم صندل کے
پاس آیا، کہنے لگا ،”چھوٹی مالکن آپ ذرا بھی فکر نہ کریں۔ بڑے مالک سے کہیں وہ بھی
فکر نہ کریں۔ سلطان بابا بہت بڑی ولی اللہ ہیں۔ ان کے کرم سے آپ کو اللہ پاک بڑا
رتبہ دے گا، انشاء اللہ،میرا دل کہتا ہے ۔چھوٹی مالکن میں مالک سے آ گیا لے کر صبح
عاجل بابو کے پاس دھامن گاؤں جاؤں گا اور انہیں ساتھ لے کر آؤں گا۔ انہیں ابھی تک
آپ کے آنے کی خبر بھی نہیں ہے۔ پھر ان کا پنچائیت میں بیٹھنا ضرور ی ہے۔”
صندل
بولی، “ٹھیک ہے، تم باپو سے آ گیا لے کر صبح دھامن گاؤں کے لئے روانہ ہو جانا۔”
خادم
بولا، “چھوٹی مالکن، رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک دربار لگا ہوا ہے۔ اس دربار
میں سلطان بابا ایک تخت پر تاج لگائے بیٹھے ہیں۔ان کے سامنے فرش پر بہت سارے لوگ
بیٹھے ہیں۔ سارا دربار بھرا ہے۔ اس میں سے گاؤں کے چند لوگوں کو اور اپنے تمام گھر
والوں کو پہچان لیا۔ باقی کو میں نہیں جانتا کہ وہ کون تھے۔ سلطان بابا کے داہنی
جانب ایک گارڈ کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پرچہ تھا۔ اس نے وہ پرچہ پڑھا۔ اس میں
ایک اعلان تھا، اعلان یہ تھا کہ سلطان بابا کی نور نظر صندل دیوی کو شاہ ملکوت
اعلیٰ حضرت سلطان بابا کے دربار اعلیٰ میں طلب کیا جاتا ہے۔
اس
اعلان کے فوراً بعد ایک جانب سے صندل بی بی آپ نہایت ہی اعلیٰ لباس میں آہستہ
آہستہ شہزادیوں کی مانند چلتی ہوئی تخت کی جانب بڑھیں۔ سلطان بابا نے اپنے برابر
میں خالی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ آپ انہیں جھک کر سلام کرنے کے بعد وہاں
بیٹھ گئیں۔ پھر اس اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ صندل دیوی کی گذشتہ خدمات کو
مدنظر رکھتے ہوئے انہیں دوبارہ عالم جنات کے انتظامی امور کی درستگی کے لئے چیف
جسٹس کے عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے۔ اس اعلان کے بعد سلطان بابا نے آپ کو چیف
جسٹس کی سند عطا کی اور خلعت سے نوازا۔”
خادم
ہاتھ باندھ کر نہایت ادب کے ساتھ صندل کے سامنے خم ہو گیا اور بڑی عقیدت کے ساتھ
کہنے لگا۔”چھوٹی مالکن،”میری نظر اس سند پر گئی۔ اس میں نمایاں طور پر مسلمانوں کے
پیغمبر حضرت محمدﷺکا نام آخر میں بطور دستخط درج تھا۔”یہ خواب سن کر صندل بولی،”خادم
اس خواب کا ذکر تم کسی سے نہ کرنا۔ لوگ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ دو عالم کے اصل
شہنشاہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ انہیں کے دربار عالی مقام سے باقی سب کو احکامات نازل
ہوتے ہیں۔ اصل مذہب ایک رب پر ایمان لانا ہے اور اس کے بنائے ہوئے نظاموں کو
سمجھنے کے لئے ہر شئے کے اندر کام کرنے والی فطرت کا مطالعہ کرنا اور فطرت کے
مطابق ہر شئے سے کام لینا ہے۔”صندل سے اسلام کی باتیں سن کر خادم اپنی خوشی نہ
چھپا سکا۔ خوش ہو کر بولا۔”چھوٹی مالکن، آپ سب سے بڑی ہیں۔ اللہ پاک آپ کو بہت عزت
دے۔ بے شک آپ سچی ہیں۔”
صبح
صبح منہ اندھیرے صندل اٹھ کر عبادت والے کمرے میں آئی۔ سجدہ کیا۔ مراقبہ کیا اور
پھر سب کو جگانے کے لئے سریلی آواز میں بھجن گانے لگی۔ بجھن کی آواز سن کر آہستہ
آہستہ سب ہی جاگ اٹھے۔ پوجا پاٹھ سے فارغ ہو ئے تو خادم نے چودھرائن سے کہا۔”بڑی
مالکن، اگر آپ کی آگیا ہو تو میں عاجل بابو کو لے آؤں؟ انہیں چھوٹی مالکن کے آنے
کی خبر بھی مل جائے گی اور وہ پنچائیت میں بھی شریک ہو جائیں گے۔”
چودھرائن
یہ سن کر کچھ دیر چپ چاپ سوچتی رہی پھر کہنے لگی۔”ٹھاکر صاحب سے جانے کی اجازت لے
لے۔”خادم نے ٹھاکر صاحب سے بھی یہی بات دہرائی۔ ٹھاکرصاحب فوراً بولے۔”میں آج تجھے
وہاں بھیجنے ہی والا تھا۔ تو ناشتہ کر کے جلدی روانہ ہو جا۔ صبح ٹرین سات بجے جاتی
ہے۔”
وقت
تھوڑا تھا۔ خادم نے جلدی جلدی جانے کی تیاری پکڑی۔ سارا راستہ وہ دل ہی دل میں
دعائیں کرتا رہا کہ اللہ پاک صندل بی بی کو گاؤں والوں کے سامنے رسوا نہ کرے۔ اس
کی ساری زندگی اس گھر کی خدمت گزاری میں گزر گئی۔ اس کی اپنی تو کوئی فیملی نہیں
تھی۔ صندل اور کندن اس کے ہاتھوں میں پلی تھیں۔ اسے ان بچیوں سے بالکل اپنی اولاد
کی طرح محبت تھی۔ درود شریف پڑھ کر وہ تمام وقت سفر میں صندل کے لئے دعا کرتا رہا۔
یہاں تک کہ دھامن گاؤں آ گیا۔ عاجل اور نرملا اسے یوں اچانک دیکھ کر بہت خوش
ہوئے۔سب کی خیریت دریافت کی۔ خادم نے اسے تمام حالات سے آگاہ کیا۔ عاجل فوراً
بولا،”صندل پوتّر ہے صندل سچی ہے۔ بھگوان نے اسے اپنی شکتی دی ہے۔ بھگوان گاؤں
والوں کو اس کی شکتی دکھانا چاہتا ہے۔ تم نے بڑا اچھا کیا جو یہاں آئے۔”
دوسرے
دن صبح کی گاڑی سے عاجل اپنی بیوی نرملا اور بچی کے ساتھ گاؤں روانہ ہو گئے۔ گھر
پہنچے تو سب کو اپنا منتظر پایا۔ صندل عاجل کی ایک سالہ بیٹی کو دیکھ کر بہت خوش
ہوئی۔ دو دن باتوں میں گزر گئے۔ تیسرے دن شام کے چار بجے پنچائیت بیٹھی۔ گاؤں کے
تقریباً آدھے آدمی وہاں موجود تھے۔ مسلمانوں نے یہ سوچ کر کہ ہندو لڑکی کا معاملہ
ہے پنچائیت میں شریک ہونے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ مگر گاؤں میں خبر کوئی بھی ہو جنگل
کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔
ادھر
شہباز اتنے عرصے بعد جب گھر گیا تو اس کے ماں باپ خوشی سے پاگل ہو گئے۔ ہونا ہی
تھا۔ شہباز ان کا اکلوتا بیٹا جو تھا۔ تلاش بسیار کے بعد دونوں اللہ کی رضا سمجھ
کر اب تک صبر کئے بیٹھے تھے۔ اب جو اچانک بیٹا گھر آیا تو انہیں یوں لگا جیسے اللہ
تعالیٰ نے ان کے مردہ جسموں میں جان ڈال دی ہے۔ انہوں نے شہباز سے کئی بار پوچھا
کہ تم آخر گھر سے بغیر بتائے کیوں غائب ہو گئے تھے۔ مگر شہباز کی زبان پر کبھی
صندل کا نام تک نہ آیا۔ اس نے یہی کہا کہ ایک بزرگ میرے خواب میں آئے تھے۔ تین دن
تک وہ لگاتار مجھے گھر سے نکلنے پر اصرار کرتے رہے اور ایک رات جب میں سو رہا تھا۔
وہ مجھے اٹھا کر جنگل میں لے گئے اور وہاں میری تربیت کی۔ مجھے جنگل میں چھوڑ کر
چلے آئے اور اب انہیں کے حکم پر میں دوبارہ یہاں بھیجا گیا ہوں۔ مجھے اپنی زندگی
اب دین کے کاموں میں بسر کرنی ہے۔
شہباز
کے ماں باپ سیدھے سادھے نیک لوگ تھے۔ انہوں نے اسے اپنی سعادت سمجھا کہ ان کا بیٹا
دین کے کاموں میں اپنی زندگی گزار دے۔ پیسے کی انہیں پروا نہیں تھی۔ ان کے آباؤ
اجداد کی اچھی خاصی زمینیں تھیں۔ جو ٹھیکے پر دی ہوئی تھیں۔ ان کا گزارہ آسانی سے
چل رہا تھا۔ البتہ ان کی خواہش تھی کہ بیٹے کے ذریعے ان کی نسل چلتی رہے۔ مگر
شہباز نے انہیں اس موضوع پر بات کرنے سے روک دیا کہ وہ فقیرانہ طرز پر اپنی زندگی
گزارنا چاہتا ہے اور اللہ کی بھی یہی مرضی ہے۔ ماں باپ یہ سن کر چپ ہو گئے۔ وہ
جانتے تھے کہ شہباز کے پر دادا کے بھائی نے بھی اپنی ساری زندگی درویشی میں گزار
دی تھی۔
انہوں
نے بھی شادی نہیں کی تھی۔ مگر بیٹے کے لئے ان کے ارمان تھے یہ آس تھی کہ شاید کبھی
بیٹا شادی پر آمادہ ہو جائے۔ بہرحال وہ خوش تھے کہ اکلوتے بیٹے کی صورت تو دکھائی
دی۔
شہباز
کا زیادہ وقت عبادت و ریاضت میں گزرتا۔ ان چند دنوں میں اس نے عبادت کے ساتھ ساتھ
محلے پڑوس کے ضرورتمندوں کی بھی ہر طرح سے مدد کی۔ جس کی وجہ سے آس پاس میں یہ بات
مشہور ہو گئی کہ شہباز دو سال کسی بزرگ کی تربیت میں رہ کر درویش بن کے آیا ہے۔
صندل کو پنچائیت میں پیش کرنے کی خبر شہباز تک بھی پہنچی۔ پنچائیت والے دن وہ بھی
وہاں جا پہنچا۔ مندراج بابو بھی وہاں موجود تھے۔ تارا کی شادی ہو چکی تھی۔
ٹھاکرصاحب اور مندراج بابو ایک دوسرے سے کبھی کبھار ملتے تھے۔ پنچائیت میں ٹھاکر
صاحب کے تمام بیٹے شامل تھے۔ صندل ایک جانب اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس نے زرد
اوڑھنی میں اپنا آدھا چہرہ چھپایا ہوا تھا۔ پنچائیت کی کارروائی شروع ہوئی۔ صندل
سے سوال کیا گیا۔”گھر سے اچانک بغیر بتائے چلے جانے اور دو سال غائب رہنے کے بعد
جوگن بن کر لوگوں کے سامنے آنے سے تمہارا مقصد کیا ہے؟”
صندل
پورے اعتماد کے ساتھ بولی،”ہر کام اوپر والے کی اِچھا (مرضی) سے ہوتا ہے۔ نہ میں
اپنی مرضی سے گئی تھی ، نہ اپنی مرضی سے گھر آئی ہوں۔”
پنچائیت
میں گاؤں کے سات با اثر لوگ تھے۔ جو سوال کرنے والے تھے۔ صندل کا معقول جواب سن کر
ایک دوسرا آدمی بولا۔”تمہیں اوپر والے کی مرضی کا کیسے پتا چلا۔ کیا تم نے اسے
دیکھا؟”یہ کہہ کر وہ مذاق اڑانے کے سے انداز میں ہنسا۔ اس پر سب لوگ ہنسنے لگے۔
اب
صندل بارعب آواز میں بولی،”میں نے کیا دیکھا اور کیا نہیں دیکھا۔ تم لوگوں کو بتا
بھی دوں تو تم لوگ یقین کب کرو گے۔ یہ باتیں تو وہی سمجھ سکتا ہے جو اپنی آتما کو
پہچانتا ہے۔”ایک تیسرا آدمی بولا۔”کیا تو اپنی آتما کو پہچانتی ہے؟”
صندل
کڑک کر بولی،”ہاں، میں اپنی آتما کو پہچانتی ہوں۔”اس شخص نے کچھ اور اعتراضانہ
سوال کرنے کے لئے ابھی منہ کھولا ہی تھا کہ ایک یوگی مہاراج جو چلہ کشی کر کے کچھ
نہ کچھ غیب کی دنیا سے ضرور متعارف تھے اور گاؤں کے مہاپنڈت مانے جاتے تھے۔ نرمی
کے ساتھ بولے۔”بالک اپنی آتما کو پہچاننے کے لئے پہلے تپسیا کرنی پڑتی ہے۔ پھر
گیان ملتا ہے۔”
صندل
نے ادب کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر پنڈت کو پرنام کیا اور بولی،”مہاراج، آپ کا فرمان
بالکل درست ہے۔ بغیر تپسیا کے گیان نہیں ملتا۔ میرے دل میں بچپن ہی سے پرماتما نے
اپنی محبت ڈال دی ہے۔ محبت کے بغیر دل میں لگن پیدا نہیں ہوتی جب بھی میں بھگوان
کی مورتی کے سامنے بھجن گاتی میرے دل میں پرماتما کی محبت روشنی کے فوارے کی طرح
پھوٹنے لگتی۔ میں بالکل بچی تھی مجھے کچھ نہ پتا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ نہ ہی اس کے
متعلق کسی نے مجھے بتایا تھا مگر مہاراج، اسی دم مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے دل سے
پھوٹنے والی یہ روشنی ہی پرماتما ہے، مجھے یوں لگتا جیسے میرا اور پرماتما کا
سمبندھ میرے دل کے ساتھ ہے، میرا دل مجھے اپنا اصل لگتا، وہ اس روشنی سے باتیں
کرتا، وہ روشنی بڑے پیار سے میرے دل سے باتیں کرتی، دن بدن میرے دل میں پرماتما کی
محبت بڑھتی چلی گئی۔ میرا یقین بڑھتا چلا گیا کہ اوپر والا میرے دل میں رہتا ہے
اور پھر آہستہ آہستہ میری نظر دل سے پھوٹنے والی اس روشنی کو دیکھنے لگی۔ میں نے
اس روشنی میں ایک اور صندل کو چلتے پھرتے دیکھا یہ صندل روشنی کے ہلکے پھلکے سائے
کی طرح تھی۔ میں اس دم کچھ سیانی ہو چکی تھی۔ میں نے پتا جی سے پوچھا، پتا جی کیا
انسان کے اندر ایک اور انسان بستا ہے؟ پتا جی میری بات سن کر چونک گئے، کہنے لگے
اندر سے تیرا کیا مطلب ہے بیٹی؟ میں نے کہا اندر سے مراد دل ہے پھر میں نے باپو کو
ساری کیفیات بتائیں کہ اس طرح میں اپنے دل میں ایک اور صندل کو دیکھتی ہوں۔ پتا جی
نے میری ٹھوڑی کا تل چوما اور پیار سے کہا، صندل دل میں پرماتما بستا ہے اور دل ہی
منش کا روپ دھار کر پرماتما کو دیکھتا ہے۔ مگر بیٹی جس کا دل پوتر ہو وہی اپنے
اندر کی روشنی دیکھتا ہے۔”
صندل
کی بات سن کر ٹھاکرصاحب کی آنکھیں بھر آئیں۔ اب تمام لوگ دم بخود بیٹھے سن رہے
تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے انہیں ہپنا ٹائز کر دیا ہے۔ صندل کی ہر بات ان کے
دل کو لگتی محسوس ہوئی۔
صندل
نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا۔”مہاراج، آپ تو بہت بڑے گیانی ہو آپ میری بات کو
سمجھ سکتے ہو اس کی سچائی کو پرکھ سکتے ہو۔ مہاراج جب سارا گھر سو جاتا تو میں
چپکے سے اپنے بستر سے اٹھ جاتی، بھگوان کے آگے ماتھا ٹیکتی، گیتا کا پاٹھ کرتی،
ایسے میں میرے اندر روشنی کا فوارہ ابلتا دکھائی دیتا۔ میں پوری قوت سے اس کی شکتی
کو اپنے اندر سمیٹتی جیسے کوئی بہتے دریا کے کناروں پر بند باندھ کر پانی کو روک
لیتا ہے۔ گیتا پڑھ کر مجھے اپنے اندر کی شکتی کا پتا چلا۔”
مہاپنڈت
بولے۔”تجھے کیا پتا چلا؟”
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا
مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے
حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی
نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو
جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال
پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی،
حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات
میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے
ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ
سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام
الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم
میں جلا بخشے۔
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن، کراچی