Topics

حکم یا امر کی روشنیاں


مندراج بابو کے گھر سے لوٹنے کے بعد اس رات صندل وقت سے پہلے ہی عبادت والے کمرے میں چلی گئی اور اندر داخل ہوتے ہی اس نے حسب معمول اپنے رب کو ایک طویل سجدہ کیا پھر سلطان بابا کا تصور کر کے مراقبہ میں بیٹھ گئی۔ وہ مندراج بابو کی بھٹکی ہوئی آتما کے لئے سلطان بابا سے صلاح لینا چاہتی تھی۔ سلطان بابا کو یاد کرتے ہی سلطان بابا کی قبر سامنے آ گئی۔ وہ اپنے دھیان میں سلطان بابا کی قبر کے اندر داخل ہو گئی۔ سلطان بابا نے محبت کے ساتھ اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ صندل نے مندراج بابو کا سارا واقعہ سنایا۔ سلطان بابا بولے،”آدمی کی غلط خواہشات اسے مرنے کے بعد بھی چین نہیں لینے دیتیں۔ مندراج بابو نے ہمزاد کی تسخیر کا عمل کر کے اپنے لئے جہنم کا دروازہ کھول لیا۔ صندل! ساری کائنات کی اشیاء روح کے ادراک کی ایک ایک صورت ہے۔ روح کا ادراک یہاں صورت بن کر سامنے دکھائی دیتا ہے۔ ہر صورت روح کی ایک صورت ہے۔ ہر صورت روح کی ایک تخلیق ہے۔ اللہ نے روح کو یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ اپنے اندر آنے والی روشنیوں کو تخلیقی صورت میں اپنی آنکھوں کے سامنے لا سکتی ہے۔ روح اللہ کے حکم کو جذب کرتی ہے۔ حکم یا امر کی روشنیاں روح کے دماغ میں جذب ہوتی ہیں۔ روح کا دماغ اسے معنی پہناتا ہے۔ یہ معنی گویا روشنیوں کی مخصوص ترتیب ہیں اور یہ ترتیب تخلیقی مراحل سے گزر کر شکل و صورت بن کر سامنے آ جاتی ہے۔ انسان کی روح اللہ تعالیٰ کے دو امور پر کام کر رہی ہے۔ ایک وہ امور جو اللہ کے پسندیدہ ہیں۔ دوسرے وہ امور جو اللہ کے ناپسندیدہ ہیں۔ ناپسندیدہ امور میں انسان کی خواہش نفسانی کو دخل ہے۔ مگر روح کی فطرت کے مطابق دونوں امور روح کے ذریعے روح کے ادراک کی صورتوں کی تخلیق کرتے ہیں۔ ہمزاد انسان کی نفسانی خواہشات کا عکس ہے۔ تسخیر ہمزاد کا عمل اس عکس کو تخلیقی صورت بخش دیتا ہے اور پھر اس کی طبیعت کے مطابق اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے منافی کام لیتا ہے۔ مگر مرنے کے بعد جب اس پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ اس کے ہر عمل کو کڑی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اور اب ہر ناپسندیدہ عمل پر اس کی پکڑ ہو جاتی ہے ۔ تو آدمی مرنے کے بعد سخت تنگی محسوس کرتا ہے اور پھر اس کی یہ بے چین روح جو اس کی نفسانی خواہشات کے تابع ہے، اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے بے قرار ہو کر اعراف سے زمین کی طرف دربدر پھرتی ہے۔ خود بھی اپنی بے بسی کی وجہ سے ناکام حسرتوں پر اذیت و کرب میں مبتلا ہوتی ہے اور دوسروں کو بھی پریشان کرتی ہے۔”

                صندل نے کہا،”سلطان بابا، پھر ایسے میں کیا کرنا چاہئے؟”سلطان بابا بولے،”صندل تم کیوں پریشان ہوتی ہو؟ اللہ پاک اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ اس نے ایسے بہت سے دوستوں کو مخلوق کی خدمت پر لگا رکھا ہے جو اپنے روحانی تصرف سے ایسی پریشان حال روحوں کو سکون مہیاکرتے ہیں۔ تمہیں اللہ نے اپنی شکتی عطا کی ہے۔ جاؤ اور اپنی شکتی کی لہریں مندراج بابو کی آتما کو منتقل کرو۔ تا کہ اس کی بیمار روح شفایاب ہو۔”

                صندل نے عقیدت سے سلطان بابا کو دیکھا اور آنکھیں کھول دیں۔ چند لمحے اس نے ہاتھ جوڑ کر اپنے رب سے دعا مانگی کہ اس کے ذریعے مندراج بابو کی آتما کو سکون نصیب ہو پھر اس نے ایک گہری سانس لی اور جیسے جیسے اس کا سانس آہستہ آہستہ اندر جمع ہوتا اس کا جسم مثالی اس کے اندر سے باہر آتا جاتا۔ جب یہ جسم پورے کا پورا اس کے مادی جسم سے باہر آ گیا تو اس کی سانس خود بخود اندر جا کر جیسے گم ہو گئی۔ اس کا تعلق مادی جسم سے ٹوٹ گیا۔ اس کے سارے حواس جسم مثالی کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ یہ لطیف جسم اپنے خول سے باہر نکلتے ہی ایک لمحے کو ذرا ٹھنکا۔ پھر اپنے مادی خول پر ایک اچنتی نظر ڈالی اور سامنے کی دیوار سے باہر نکل گیا۔نہایت تیزی سے سفر کرتی ہوئی صندل کی روح سیدھی مندراج بابو کے گھر پہنچی۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئی اس نے دیکھا کہ آدھی رات ہونے کے باوجود بھی سارا گھر جاگ رہا ہے۔ بچے نیند کے مارے رو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے سارے بڑے بھی گھبرائے ہوئے ہیں۔ مندراج بابو کی کراہنے کی بڑی زور زور سے آوازیں آ رہی ہیں۔ صندل نے آواز کی سمت دیکھا۔ اس کی نظر مندراج بابو پر پڑی۔ ایک لمحے کو افسوس کی لہر اس کے سر سے پاؤں تک گزر گئی۔ اس نے دیکھا۔ مندراج بابو کے سارے جسم پر کھال نہیں ہے۔ چھلے ہوئے جسم سے خون جھلک رہا ہے۔ جیسے سارا جسم ایک بہت بڑا زخم ہو۔ اس میں سخت جلن اور درد تھا۔ جس کی وجہ سے وہ مسلسل آہ و زاری کرتے اور رنج و کرب میں مبتلا تھے۔ ان سے چلا بھی نہ جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ دنیا میں رہنے پر مجبور تھے۔

                صندل پوری طرح ان کے سامنے آ گئی۔ وہ اپنی ہی تکلیف میں تڑپ تڑپ کر چلائے جا رہے تھے۔ صندل نے بالکل قریب آ کر کہا،”تایا جی”اپنا نام سن کر وہ چونک گئے اور سر اٹھا کر سامنے دیکھا۔ صندل کو دیکھ کر ایک دم چلا پڑے۔”صندل بیٹی یہ تو ہے؟”پھر وہ رو پڑے۔”دیکھ تو میری کیا حالت ہو گئی۔”صندل بولی،”تاؤ! پرماتما کی پکڑ سے ڈرتے رہنا ہی اچھا ہے۔ وہی سب کچھ ہے۔ اسی سے دیا کی بھیک مانگو۔ وہی آپ کی تکلیف دور کرے گا۔ جو بندے دنیا میں اپنا وقت صرف اپنے لئے گزارتے ہیں۔ انہیں بھگوان ان ہی کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے روح کا جسم بیمار ہو جاتا ہے ۔”مندراج بابو سخت اذیت کی حالت میں آہ بھر کو بولے،”صندل توٹھیک کہتی ہے تو بڑی سیانی ہے بیٹی۔ بھگوان مجھ پر دیا کرے۔ میں نے سب کو بڑی تکلیفیں پہنچائیں۔”یہ کہہ کر انہوں نے نہایت درد بھری آہ کھینچی۔

                صندل کے اندر رحم کی موجیں اٹھنے لگیں۔ اس کی پھیلی ہوئی دونوں ہتھیلیاں مندراج بابو کے سر پر تھیں۔ اور اس کے اندر سے روشنیاں نکل کر ان کے سر میں دھار کی طرح جذب ہونے لگیں۔ جیسے جیسے صندل کی روشنیاں ان کے اندر داخل ہوتی جاتیں۔ ان کے جسم کے زخم آہستہ آہستہ مندمل ہوتے دکھائی دیتے۔ کچھ دیر بعد مندراج بابو کے جسم پر کھال آ گئی اور وہ بالکل ٹھیک ہو گئے۔ صندل نے اپنے ہاتھ ہٹا لئے اور پھر مندراج بابو کا بازو تھام کر بولی،”تاؤ چلو یہ اب تمہارا گھر نہیں ہے۔ اب اپنے نئے گھر جاؤ۔”

                مندراج بابو خاموشی سے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے صندل کے سہارے چلنے لگے۔ ان کے چہرے پر حسرت و ناکامی کی سیاہ جھلک تھی۔ سارے گھر والے کچھ دیر تو آواز پر کان دھرے بیٹھے رہے۔ دکھائی انہیں کچھ نہیں دیتا تھا۔ بس وہ تو صرف آوازیں ہی سنتے تھے۔ جب گھر میں خاموشی چھا گئی تو سب نے شکر ادا کیا اور اپنے بستروں پر تھک کر سو گئے۔

                صندل مندراج بابو کو لے کر گھر سے باہر نکلی اس نے حد نگاہ پر دیکھا۔ اعراف کی روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ انہیں لے کر چند ہی لمحوں میں اعراف کی سرحد پر پہنچ گئی۔ اس سرحد پر ایک سرنگ بنی تھی۔ اس سرنگ پر بڑا سا بورڈ تھا جس پر لکھا تھا۔ دنیا سے اعراف میں داخل ہونے کا راستہ۔ اس سرنگ پر ایک گارڈ کھڑا تھا۔ صندل نے آگے بڑھ کر اسے اپنا کارڈ دکھایا اور مندراج بابو کو اندر بھیج دیا۔ مندراج بابو سہمے سہمے کھوئے کھوئے سے تھے۔ صندل نے دلاسے کے طور پر ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔”تایا جی۔ بھگوان بہت دیالو ہے۔ اسی سے دیا کی بھیک مانگتے رہنا۔”مندراج بابو چپ چاپ اندر چلے گئے۔

                اندر ایک اور گارڈ نے ان کا بازو تھام لیا اور آگے بڑھ گیا۔ صندل وہاں کھڑی دیکھتی رہی۔ اس کی نظر مندراج بابو کو اعراف میں بھی دیکھ رہی تھی۔ سرنگ ختم ہوئی تو ایک اور گارڈ نے انہیں تھام لیا اور اپنے ساتھ لیجا کر انہیں ایک اونچی سی بلڈنگ کے ایک کمرے میں چھوڑ دیا۔ کہنے لگا،”آج سے یہ تمہارا گھر ہے۔”

                صندل سرنگ کے باہر کھڑی سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ جب مندراج بابو اپنے گھر میں بیٹھ گئے تو پھر وہ بھگوان کا شکر ادا کرتی ہوئی واپس لوٹی۔ اگلے ہی لمحے وہ اپنے گھر کی دیوار کے قریب تھی۔ اس نے دیوار پر نظر ڈالی اور پھر اس کے اندر داخل ہو گئی۔ اندر کمرے میں اس کا جسم مراقبہ کی حالت میں ساکت بیٹھا تھا۔ وہ اپنے جسم کے اندر سما گئی۔ جسم میں حرکت کی لہر آ گئی۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے اور زبان سے کہا،”ہے بھگوان تو بڑا دیالو ہے۔ اپنے بھگتوں کے طفیل میرے تاؤ پر اپنا رحم کرنا۔”یہ کہہ کر وہ سجدے میں گر گئی۔ اس دن کے بعد پھر کبھی مندراج بابو کی آوازیں ان کے گھر میں کسی نے نہیں سنیں۔

                ایک رات وہ لیٹی تو بار بار شہباز کی صورت اس کے سامنے آنے لگی۔ اس کا دل بے قرار ہو گیا۔ بستر پر کروٹیں بدل بدل کر وہ بار بار شہباز کو اپنے ذہن سے نکالنے کی کوشش کرتی مگر اس کا خیال اس کے ذہن سے جیسے چپک کر رہ گیا۔ اب اسے تشویش ہوئی کہ جانے شہباز کس حال میں ہے۔ اتنے دن ہو گئے اسے دیکھے ہوئے ۔ بستر پر نہ لیٹا گیا تو وہ اٹھ کر عبادت والے کمرے میں آ گئی اسے یوں لگا جیسے شہباز اسے پکار رہا ہے۔ اس کی بے قراری بڑھنے لگی۔ اسی حالت میں اس نے آنکھیں بند کیں تو دیکھا کہ شہباز ایک کمرے میں تنہا لیٹا ہوا ہے۔ وہ سخت بیمار ہے۔ یہ دیکھ کر صندل پریشان ہو گئی۔ اس کے دل میں سینکڑوں خیالات آنے لگے۔ اتنی طبیعت خراب ہے تو اکیلا کیوں ہے۔ کیا وہ کسی سے نہیں ملتا۔ کیا اس کے ماں باپ کو اس کی بیماری کا پتہ نہیں ہے۔ کچھ بھی ہو۔ وہ بیمار ہے اور مجھے اس کے پاس جانا ہے۔ مگر اتنی رات گئے میں گھر سے نکلی اور کسی نے دیکھ لیا تو صحیح نہیں ہو گا۔ اسے سلطان بابا یاد آئے۔ اس نے ان کی طرف دھیان لگایا تو سلطان بابا فوراً سامنے آ گئے۔ صندل نے ساری صورتحال سے انہیں آگاہ کیا۔ سلطان بابا یہ سن کر خلاء میں ایک جانب دیکھنے لگے۔ پھر بولے،”صندل تو ٹھیک کہتی ہے وہ سخت بیمار ہے اور تجھے یاد کر رہا ہے۔ جا بیمار عشق کا علاج محبوب کا دیدار ہے۔ عشق کے طور پر دیدار کی طلب رد نہیں کی جاتی ۔ اللہ پاک اس کی سکت دیکھنا چاہتا ہے۔”

                یہ کہہ کر سلطان بابا نے اپنے گلے کا ایک بڑا سا رومال اتارا اور صندل کے سر پر ڈال دیا اور بولے،”جا اب تجھے دنیا والے دیکھ نہیں سکیں گے۔ شہباز کے سامنے جا کر یہ رومال اتار لینا۔”

                صندل نے آنکھیں کھولیں تو اس کے سر پر سلطان بابا کا رومال تھا۔ وہ چپ چاپ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے ذہن میں شہباز کی پکار گونج رہی تھی وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی دروازے سے باہر نکل گئی۔ حویلی سے باہر نکلی تو گاؤں میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اس کے دل نے کہا،”سلطان بابا، مدد کرنا۔”اسی دم اس کے سامنے ایک ہلکی سی روشنی کی شعاع دکھائی دی۔ اس کے دل نے کہا، اسی شعاع کے اندر چلتی رہی تو شہباز تک پہنچ جائے گی تیز تیز قدم بڑھاتی وہ جلد ہی شہباز کے گھر تک پہنچ گئی۔ یہ بستی سے دور الگ تھلگ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ اس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ لگا تھا۔ صندل نے خاموشی سے پہلے پردہ ہٹا کر جھانکا شہباز زمین پر دو زانو بیٹھا آہ و زاری کر رہا تھا۔ صندل اندر داخل ہوئی۔ اس نے سلطان بابا کا رومال سر سے اتارا اور پکارا، “شہباز۔”

شہباز نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اندھیرے میں ایک بجلی چمکی۔ شہباز نے زور سے ایک چیخ ماری اور پھر وہ بے ہوش ہو گیا۔ صندل تیزی سے آگے بڑھی۔ خاموش اندھیرے میں اس کی سسکیاں بلند ہونے لگیں۔ اس نے بے ہوش شہباز کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ سسکیوں کے درمیان سلطان بابا کا سکھایا ہوا اسم پڑھ کر اس کی پیشانی پر پھونکتی رہی۔ تھوڑی دیر میں اسے ہوش آ گیا۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ کچھ دیر سکوت کے بعد بولا،”صندل دیوی!ا تنی رات گئے آپ اکیلی یہاں کیسے آئیں؟ آپ کو کتنی تکلیف ہوئی ہو گی۔ صندل دیوی! آپ نہیں جانتیں آپ میرے لئے کیا ہیں۔”

                صندل نے پلو سے اپنی آنکھیں صاف کیں اور بولی،”سب کچھ رب کی طرف سے ہے۔ وہ کس کے دل میں کیا ڈال دیتا ہے۔ کون جان سکتا ہے۔ اپنی حالت سنبھالو۔”یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ سلطان بابا کا رومال سر پر رکھا اور دروازے سے باہر نکل گئی ۔ شہباز گم سم اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔

                سارے راستے اس کی آنکھیں اشک برساتی رہیں۔ حویلی میں داخل ہو کر وہ سیدھی عبادت والے کمرے میں آئی اور سجدے میں گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ روتے روتے اس پر ایک غشی سی طاری ہو گئی۔ اس غشی میں اسے اپنا جسم ایک نور کا ہیولا محسوس ہوا۔ یہ ہیولا اس کے جسم سے نکلا اور آسمان میں گم ہو گیا۔ عشق کی بیخودی نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

                صبح اس کی آنکھ کھلی تو کھڑکی سے روشنی اندر آ رہی تھی۔ وہ اٹھ کر باہر آئی۔ صبح ہو چکی تھی۔ صحن میں کوئی نہ تھا۔ وہ ہاتھ منہ دھو کر باہر نکلی تو حویلی کے دروازے پر زور سے کوئی دستک دے رہا تھا۔ خادم نے دروازہ کھولا۔ آواز سن کر ٹھاکر صاحب بھی صحن میں آ گئے۔ انہوں نے وہیں سے خادم کو آواز دی۔”خادم یہ صبح صبح دروازے پر کون ہے ذرا دیکھنا۔”خادم بولا،”حضور ملنگ بابا ہیں۔”

                “ملنگ بابا”کا نام سنتے ہی ٹھاکرصاحب چونک کر کھڑے ہو گئے اور دروازے کی طرف متوجہ ہوئے۔ دروازے پر ملنگ بابا گلے میں موٹی موٹی عقیق کی مالائیں پہنے ہوئے کھڑے تھے۔ صندل بھی ملنگ بابا کا نام سن کر کھڑی ہوگئی۔ ٹھاکرصاحب بولے،”آیئے آیئے ملنگ بابا۔ آیئے۔”ملنگ بابا قریب آئے۔ ٹھاکر صاحب نے ان کے قدم چومے اور نہایت ادب سے پرنام کیا۔ صندل نے بھی ہاتھ جوڑ کر انہیں پرنام کیا۔ ملنگ بابا نے نہایت غور سے صندل کو دیکھا۔ اور پھر بولے،”صندل تو بھاگوان ہے۔ رب کی نظر نے تجھے مٹی سے سونا بنا دیا ہے۔”یہ کہہ کر ملنگ بابا نے سینے پر ڈھیر ساری مالاؤں کے نیچے ہاتھ ڈالا۔ پھر جب باہر نکالا تو ان کے ہاتھ میں صندل دیوی کا سونے کا وہی بت تھا جو بہت پہلے شہنشاہ جنات نے دیا تھا۔ اس پر صندل دیوی کا نام لکھا تھا۔ صندل نے خوشی سے مسکراتے ہوئے بت اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ایک نظر میں اس پر لکھی عبارت اور اپنا نام پڑھا۔ پھر برابر کھڑے اپنے باپو کے ہاتھ میں بت دے کر ملنگ بابا کے قدموں میں تعظیماً جھک گئی۔ ان کے قدم چومے۔ ملنگ بابا یہ کہتے ہوئے تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھے۔”حق عشق ہے۔ حق محبت ہے۔”وہ یہی دہراتے ہوئے آن کی آن میں دروازے سے باہر نکل گئے۔

                ٹھاکر صاحب نے صندل کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کے بال چومے اور بولے،”بیٹی! صندل دیوی کا خطاب تجھے شہنشاہ جنات کی جانب سے ملا ہے۔ اس پر یہی لکھا ہے ۔”صندل بولی،”باپو بہت پہلے یہ اعزاز مجھے عالم جنات میں حاضری کے دوران دیا گیا تھا۔ مگر جب میں صبح کو سو کر اٹھی تو یہ بت غائب تھا۔ سلطان بابا نے اس وقت یہ فرمایا تھا کہ دیوی کا روپ دھارن کرنے کے لئے تمہیں ابھی اور گھٹناؤں سے گزرنا ہے۔ تمہارا یہ تحفہ ہمارے پاس امانت ہے۔ وقت آنے پر تمہیں مل جائے گا اور باپو اس کے ساتھ شہنشاہ جنات نے ایک کارڈ بھی دیا تھا کہ یہ کارڈ دکھا کر تم جب چاہو عالم جنات میں آ سکتی ہو۔ معلوم نہیں وہ کارڈ کہاں ہے؟ ملنگ بابا کیوں نہیں لائے۔ ویسے باپو آپ کی آشیرباد سے مجھے کبھی عالم جنات میں داخل ہونے سے روکا نہیں گیا۔”

                ٹھاکرصاحب نے پیار سے صندل کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے،”بیٹی! بھگوان نے کائنات کی ہر شے کو کسی نہ کسی مقصد کے لئے بنایا ہے۔ جب کوئی بندہ اپنے مقصد حیات کو پہچان کر اپنے ارادے کے ساتھ خوشی خوشی پرماتما کے حکم کو سوئیکار کر لیتا ہے تو پرماتما اس کے لئے آکاش میں راہیں کھول دیتا ہے۔”

                پھر ٹھاکر صاحب نے صندل دیوی کا بت صندل کو دیتے ہوئے کہا،”بیٹی اسے صندل دیوی والے کمرے میں رکھ دے۔ بھگوان کے راز ہر کسی کو دکھانے کے نہیں ہوتے ہیں۔”سب لوگ ابھی تک سو رہے تھے۔ صندل نے وہ بت الماری میں رکھ دیا اور سوچنے لگی۔ باپو ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ اپنے راز کسی کو بتانے سے کیا فائدہ۔

                اس خیال کے ساتھ ہی شہباز اس کے سامنے آ گیا۔ اپنے خیال کی روشنی میں اسے یوں لگا جیسے شہباز اس کے سامنے سے تیزی کے ساتھ اس کی جانب آیا اور اس سے ٹکرا گیا۔ اس کے سارے بدن میں ایک لطیف سا کرنٹ دوڑ گیا۔ جس نے اس کے روئیں روئیں میں خوشبو پھیلا دی۔ وہ بھجن گاتی ہوئی کمرے سے باہر آ گئی۔ آج اس کی آواز میں ایسا سحر تھا کہ سب لوگ صحن میں نکل آئے۔ خادم نے دوڑ کر چٹائیاں بچھا دیں۔ سب صندل کی مسحور کن آواز میں آواز ملائے رب کی حمد و ثناء کے گیت گاتے رہے۔ عقیدت سے جھومتے رہے اور آخر میں تعظیم کے ساتھ اس کی بارگاہ میں سرجھکا دیا۔ سب کی زبان پر یہی کلمات تھے،”ایشور تیرے بہت سے نام ہیں۔ ہر نام تیری شوبھا ہے۔ تو ہی گیان ہے۔”

                 اگلی مرتبہ جب صندل عالم جنات میں گئی تو اسے پتہ چلا کہ جو ویزا کارڈ شہنشاہ جنات نے صندل کو اعزازی طور پر دیا تھا۔ وہ کارڈ عالم جنات میں تمام گارڈ جنات کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صندل کے وہاں آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ تمام گارڈ جنات اسے پہچانتے ہیں۔

                کچھ دنوں بعد ناگ پچھمی کا تہوار آ گیا۔ اس دن سانپوں کو دودھ پلایا جاتا ہے۔ رات ابھی گہری نہیں ہوئی تھی کہ پڑوس سے بری طرح چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ محلے کے تمام لوگ باہر نکل آئے۔ صندل بھی سب گھر والوں کے ساتھ دروازے پر کھڑی تھی۔ اسی اثناء میں خادم آواز کی سمت دوڑ گیا۔ جو قریب سے ہی آ رہی تھی۔ چند منٹ بعد ہی وہ دوڑتا ہوا واپس آیا۔ ہانپتے ہوئے اس کے منہ سے یہ جملے نکلے۔”سرکار! ہر دیال کا گھر سانپوں سے بھرا ہوا ہے۔ گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میں نے جھانکا تو صحن میں بہت سارے ناگوں کے درمیان ان کی اکلوتی بیٹی رتنا بے سدھ پڑی تھی۔ میں الٹے پاؤں بھاگ آیا۔”صندل اپنی اوڑھنی کا پلو چہرے پر نیچے سرکاتی ہوئی بولی،”خادم چاچا مجھے وہاں لے چلو۔”

                خادم بولا،”چھوٹی بی بی وہاں تو بڑے بڑے ناگوں سے صحن بھرا ہوا ہے۔ کسی کو جانے کی ہمت نہیں ہے گھر والے کمرے میں دروازہ بند کئے چلا رہے ہیں۔”

                صندل ایک دم قدم بڑھاتے ہوئے بولی، “باپو، آپ مجھے وہاں لے چلو مجھے جانا ہی ہو گا۔”چودھرائن اور گھر کے سارے لوگ بیک آواز حیرت سے بول اٹھے۔”صندل تو وہاں جائے گی؟”

                صندل رکی نہیں وہ تیز تیز چلنے لگی آخر اس کے پیچھے ٹھاکرصاحب بھی دوڑے۔ سارا محلہ ہردیال کے دروازے کے باہر کھڑا زور زور سے شور مچا رہا تھا کہ شاید ناگ شور سن کر بکھر جائیں اور وہ رتنا کو اٹھا لیں۔ اتنے میں کوئی سپیرا بین بھی لے کر آ گیا۔ وہ دروازے کے باہر بین بجاے لگا۔ صحن سے دروازے تک سینکڑوں کی تعداد میں سانپ موجود تھے۔ صندل دروازے پر پہنچی تو اس نے ایک لمحے رک کر گھر کے اندر یہاں سے وہاں تک نظر ڈالی۔ اندر پاؤں رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ صحن کے بیچوں بیچ رتنا بے سدھ پڑی تھی۔ بڑے بڑے ناگوں نے اسے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ وہ دروازے کی چوکھٹ پر پہنچ گئی۔ پھر اس نے لوگوں کی طرف اپنا رخ کر کے ہاتھ اٹھا کر سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ سارے لوگ ایک دم چپ ہو گئے۔ سپیرے نے بھی بین اپنے ہونٹوں سے ہٹا لی۔ اب صندل نے زور سے سانپوں کو مخاطب کرتے ہوئے آواز دی۔”اے عالم جنات کے شریر باسیو! تمہیں شہنشاہ جنات کی جانب سے حکم دیا جاتا ہے کہ فوراً شاہی دربار میں حاضری دو۔ تم سانپ بن کر صندل دیوی کی نگاہ سے نہیں چھپ سکتے۔”سانپوں کو اس طرح للکارنے کے ساتھ ہی صندل نے اپنے چہرے سے پلو ہٹایا اور گھور کر سانپوں کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کی نگاہ نے تمام سانپوں کو جیسے ہپناٹائز کر دیا۔ وہ دونوں اطراف میں سمٹنے لگے اور درمیان سے راستہ بن گیا۔ صندل سانپوں کو گھورتی ہوئی اس راستے پر چلتی ہوئی اندر آ گئی۔ سب لوگ حیرت سے صندل پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ صندل رتنا کے قریب آئی۔ اسے سانپ نے ڈس لیا تھا۔ وہ بالکل نیلی ہو رہی تھی۔صندل نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ پھر نہایت جلال میں بولی،”اس کا قاتل کون ہے؟”کوئی بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔ صندل پھر نہایت ہی گرجدار آواز میں للکاری۔”میں پوچھتی ہوں۔ اس کا قاتل کون ہے؟”

                تمام سانپوں نے گردن نیچے کر لی۔ صندل نے گھور کر ایک سانپ کو دیکھا۔ پھر ایک سانپ کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔ اسی وقت وہ سانپ تلملاتا ہوا اس کے قدموں میں آن گرا۔ صندل غضبناک نظروں سے اسے گھورتی ہوئی بولی،”تو تم ہو رتنا کے قاتل؟”پھر اس نے باقی تمام سانپوں سے کہا،”اسے شہنشاہ جنات کے پاس لے جاؤ ہم وہیں ملیں گے۔”

                یہ سنتے ہی تمام سانپوں نے قاتل سانپ کے گرد گھیرا ڈال لیا اور اسے لے کر دروازے کی جانب بڑھے۔ تمام لوگ دروازے پر کھڑے اندر کا نظارہ کر رہے تھے۔ جیسے ہی سانپ دروازے کی جانب بڑھے سب لوگ گلی کے اطراف میں سمٹ گئے۔ تمام سانپ گلی سے گزر کر اس کے سرے پر پہنچے۔ سب کی نگاہیں ان پر ٹکی ہوئی تھیں۔ گلی کے نکڑ پر پہنچ کر ایک دم تمام کے تمام سانپ غائب ہو گئے۔

                صندل تیزی سے رتنا کے پاس آئی اس کے گھر والے اس کے پاس بیٹھے دھاڑیں مار کر رو رہے تھے۔ صندل نے رتنا کی ماں کی پشت پر ہاتھ رکھا اور ملائم لہجے میں بولی،”ماں جی! اوپر والے نے اسے اتنی ہی زندگی دی تھی۔ صبر کرو۔ یہ سب جنات ہیں جو سانپ کا روپ دھار کر لوگوں کو ستانے چلے آتے ہیں ۔ تم فکر نہ کرو انہیں ان کے کئے کی کڑی سزا ملے گی۔”رتنا کی ماں فرط غم میں اور زیادہ زور زور سے رونے لگی۔

                صندل بہت خاموشی سے گھر واپس لوٹ آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ سارے گھر والے بھی واپس آ گئے۔ سب اپنی اپنی جگہ چپ تھے۔ اس حیرت انگیز واقعہ کے بعد سب کا دماغ جیسے سن ہو کر رہ گیا تھا۔ صندل سیدھی عبادت والے کمرے میں آئی اور اندر سے دروازہ بند کر دیا۔ کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ صندل سے کچھ کہے۔ صندل نے سب سے پہلے اپنے رب کے آگے ماتھا ٹیکا پھر آنکھیں بند کر کے سلطان بابا کے تصور میں بیٹھ گئی۔ شہنشاہ جنات کے دربار میں جانے سے پہلے وہ سلطان بابا کو اس قصے کی خبر کرنا چاہتی تھی۔ تا کہ سلطان بابا سے صحیح رہنمائی مل سکے۔ وہ سلطان بابا کی قبر پرپہنچ گئی۔ قبر کی سیڑھیاں اتر کر جب دو عالم اعراف میں سلطان بابا کے پاس پہنچی تو سلطان بابا کو پہلے ہی سے اپنا منتظر پایا۔ انہوں نے بڑی محبت سے صندل کو گلے لگایا اور بولے،”ہم تمہارے ہی انتظار میں تھے۔”صندل خوش ہو کر بولی،”مگر سلطان بابا آپ کیوں میرا انتظار کر رہے تھے؟”سلطان بابا نے بھی اسی خوشی کے ساتھ فرمایا،”اس لئے کہ تمہارے قدموں کی چاپ ہم نے سن لی تھی۔”سچ سلطان بابا”۔ یہ کہہ کر صندل نے خوشی سے سلطان بابا کے ہاتھ چوم لئے۔

                پھر وہ بولی،”آپ کو پتہ ہے کہ میں آج کس لئے آپ کے پاس آئی ہوں؟”

                سلطان بابا بولے،”یہ ہم تم سے سننا چاہیں گے۔”

                صندل نے رتنا کی موت اور سانپوں کا پورا واقعہ انہیں سنا دیا اور بولی،”سلطان بابا ناگ پچھمی کے تہوار کا سہارا لے کر شریر جنات نے جو ہولناک کھیل کھیلا اس کیلئے انہیں شہنشاہ جنات کی جانب سے عبرتناک سزا دلوانا چاہتی ہوں۔ تا کہ آئندہ کے لئے ایسے ہولناک واقعات ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں۔”

                سلطان بابا ایک لمحے کے توقف ک ے بعد بولے،”صندل اللہ تیرے من کی مراد پوری کرے۔ تو بحیثیت چیف جسٹس کے یہ معاملہ شہنشاہ جنات کے حضور پیش کر وہ ضرور اپنے دربار میں سب کو حاضر ہونے کا حکم دیں گے۔ پھراس کے بعد تو جو کچھ چاہتی ہے ان کے گوش گزار کر دینا۔”

                صندل نے ادب سے سلطان بابا کے آگے سر جھکا دیا اور بولی،”سرکار مجھے آ شیر باد دیں تا کہ اس میں مجھے کامیابی ہو۔”سلطان بابا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کچھ پڑھ کر پھونکا اور پھر پیار سے اس کی پیشانی چوم کر بولے،”جا میرا آشیر باد ہر قدم پر تیرے ساتھ ہے۔”

                صندل نے آنکھیں کھولیں رب کا شکر ادا کیا اور دعا میں اس کیس میں کامیابی کی درخواست کی۔ اس کے بعد وہ عالم جنات میں جانے کے لئے تیار ہوئی۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور ایک گہرا سانس اندر کھینچا اور آہستہ آہستہ اپنے جسم مثالی کو جسم سے علیحدہ کر لیا۔ چیف جسٹس کی ٹوپی اور گاؤن پہن کر وہ عالم جنات کی سرحد پر پہنچی۔ گارڈ نے ادب سے سر جھکا کر اسے اندر جانے کی اجازت دے دی۔ صندل سب سے پہلے اپنے کورٹ پہنچی۔ آج کوئی کیس نہیں تھا۔ اس نے شہنشاہ جنات کے نام ایک پیغام بھجوایا کہ وہ فوری طور پر ملنے کی خواستگار ہے۔



Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی