Topics

(چھبیسویں قسط)

اس کے ساتھ ہی ایک نہایت ہی لطیف بہت ہلکے سے رنگ کی روشنی چند سیکنڈ کے لئے دونوں پر چمکی اور اس کے بعد دونوں کے بدن روشنی کی چمک سے رچ گئے۔ اس خوشبو نے دونوں کے اندر سے اجنبیت کے احساس کو مٹا کر اس کی جگہ خوشی اور انسیت کے جذبات بھر دیئے۔ عاقب نے مسکرا کر اپنا نام بتایا۔ گلبدن نے بھی اپنا تعارف کرایااور اسے بتایا کہ وہ اعراف کی سیر کے شوق میں یہاں تک پہنچے ہیں۔ وہ شخص انہیں ایک بہت خوبصورت کمرے میں لے  کر آیا۔ یہاں کچھ لڑکے  لڑکاں بیٹھے تھے۔ اس نے انہیں بتایا کہ یہ یہاں کی سیر کو آئے ہیں۔ ان میں سے ایک  لڑکی  نے اُٹھ کر ان سے ہاتھ ملایا اور بولی:

          میں آپ کو یہاں کی سیر کے لئے لئے  چلتی ہوں۔ پہلے آپ کوچھ نوش فرما لیں۔“

          یہ کہہ کر اس نے انہیں کچھ کھانے پینے کی چیزیں پیش کیں جو بہت ہی لذیز تھیں۔ پھر یہ تینوں غاروں کی سیر کو چل پڑے۔ اس سیر نے عاقب اور گلبدن کو ھیرت میں ڈال دیا۔ جسے وہ محض اندھیرا سا غار سمجھ کر داخل ہوئے تھے۔ وہ تو نہایت ہی شاندار ملک نکلا۔ اس کے اندر گیارہ عظیم الشان شہر تھے۔ ہر شہر کی کوئی نہ کوئی خصوصیت تھی۔ ایک شہر میں جگہ جگہ پہاڑوں سے آبشار نکل رہے تھے۔ ان آبشاروں کی وجہ سے سارے شہر میں سبزہ ، پھل اور پھول کثرت سے  دکھائی  دیئے۔ ایک شہر میں نہایت ہی قسم قسم کے رنگ برنگے پرندے بے شمار تھے۔ یہ تمام پرندے لوگوں سے اس قدر مانوس تھے کہ ذرا سے اشارے پر ان کے ہاتھ اور کندھوں پر بیٹھتے تھے۔ علی الصبح اور شام کو سب مل کر نہایت ہی خوش الحانی سے ذکر کرتے۔ ایک شہر میں سینکڑوں قسم کی خوبصورت تتلیاں تھیں۔ اس شہر کے ہر گھر پر دروازے کے بجائے مختلف رنگوں کے ریشمی پردے لٹکے ہوئے تھے اور ان پردوں پر تتلیاں آ کر بیٹھ جاتیں۔ ہر پردے پر تتلیوں کا ایک نیا ڈیزائن  دکھائی  دیتا۔ یہاں اجنبیت کا تاثر ذرا نہیں تھا۔ ہر شئے ایک دوسرے سے مانوس تھی اس لڑکی نے بتایا:

          یہاں ایک پورا شہر روشنیوں کی ریسرچ لیبارٹری ہے۔ جہاں لوگ روشنی میں ہر دم نئی نئی صفت تلاش کرتے رہتے ہیں اور اس روشنی کو لوگوں کے فائدے کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ تم دونوں پر جو روشنی چند سیکنڈ کے لئے اس وقت چمکی تھی جب تم اس مملکت میں داخل ہوئے تھے وہ روشنی ایسی ہے کہ جس سے اجنبیت کا خوف دل سے زائل ہو کر دوستی اور محبت کے جذبات  دل میں پیدا ہو جاتے ہیں۔۔ جس کا تجربہ تم دونوں کر چکے ہو۔ یہاں اس پوری مملکت میں شہنشاہ کی جانب سے صبح و شام اس روشنی کو تھوری دیر کے لئے روشن کیا جاتا ہے۔“

          یہ باتیں سن کر عاقب کے دل میں روشنیوں کی ریسرچ لیبارٹی دیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس نے کہا:

          ” کیوں نہ ہم اس شہر  کی جانب چلیں۔“

وہ لڑکی کہنے لگی: آج کے لئے اتنی سیر کافی ہے۔ اب شام ہونے والی ہے۔ آج آپ  رات کے کھانے پر شہنشاہ انیب کے یہاں مدعو ہیں۔ میں آپ کو آپ کے کمرے میں لئے چلتی ہوں تاکہ آپ شہنشاہ کے حضور جانے کے لئے تیار  ہو جائیں۔“

وہ لڑکی انہیں لے کر ایک جگہ پہنچی۔ جہاں کمرے میں ضرورت کی ہر شئے موجود تھی۔ حیران کن بات تو یہ تھی کہ ان کے ناپ کے نہایت اعلیٰ کپڑے بھی موجود تھے۔ اس لڑکی نے بتایا:

” ہمارے یہاں آنے والے مہمان کا سیر کے دوران ہی اسکین کر لیا جاتا ہے اور پھر اس کے مطابق اس کا لباس مشین آن کی آن میں تیار  کر دیتی ہے۔“

دونوں نہا دھو کر تیار ہو گئے۔ اس لباس نے دونوں کی سج دھج شاہانہ بنا دی۔ دونوں ایک دوسرے کے حسن کو دیکھ کر شرما گئے۔ شہنشاہ انیب کے عظیم الشان دربار میں جب پہنچے تو بادشاہ دونوں کو دیکھ کر نہایت خوش ہوا اور کھڑے ہو کر دونوں کو گلے سے لگایا اور اپنے قریب بٹھا کر ان سے یہاں کی سیر کے متعلق سوالات کرنے لگا۔ اس کے لطف و کرم کا یہ حال تھا کہ جیسے برسوں کا شناسا ہو۔ نہایت ہی پُرتکلف ضیافت کے بعد جب وہ رخصت ہونے لگے تو شہنشاہ نے ان سے کہا:

” اب جب کہ ہماری خوشبو آپ میں بس گئی ہے۔ آپ جب چاہیں ہمارے ملک کی سیر کو آ سکتے ہیں۔ ہمیں آپ کی دوستی پر رشک ہے۔“

وہ رات عاقب  اور گلبدن نے محل کے قریب  ہی ایک مہمان خانے میں گزاری۔ صبح ناشتے سے فارغ ہو کر دونوں اس لڑکی کے ساتھ ریسرچ لیباٹری والے شہر کی طرف چل پڑے۔ اس لڑکی نے بتایا:

” یہاں کی تقریبا پوری آبادی کا ذہن  ریسرچ کی طرف مائل ہے یہ لوگ روشنیوں سے نئی نئی دریافت کرتے رہتے ہیں۔“ یہاں بڑے بڑے عجائبات  دکھائی  دیئے یہاں مختلف روشنیوں کی مختلف مقداروں کو ایک نقطے پر جمع کر کے ان سے نئی نئی  چیزیں ایجاد کی جا رہی تھیں۔ زندگی کے نمونے نئے زاویوں  اور نئی صورتوں کے ساتھ ظہور میں  آتے جاتے تھے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ قدرت کی ہر شئے میں روشنیوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ اگر روشنیوں کے شہود کے ساتھ ساتھ ان کی منتقلی کے علوم  بھی بندے کو حاصل ہو جائیں تو وہ روشنیوں سے مزید اشیاء کی تخلیق کر سکتا ہے۔

          عاقب اور گلبدن  اس لڑکی کے ساتھ یہاں کے سب سے بڑے ریسرچ سینٹر پہنچے اس سینٹر میں نہایت ہی جدید ترین کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی مشینیں تھیں۔ ڈیپارٹمنٹ کا ایک شخص ان دونوں کو ایک مشین پر لے گیا تاکہ انہیں عملی طور پر اس مشین کی کار کردگی  دکھائی  جائے۔ عاقب نے مشین کے ایک مقام پر انگلی رکھی تو اسکرین پر عاقب کی پوری اسکریننگ اگئی کہ عاقب کے اندر کتنی روشنیاں کام کر رہی ہیں ان کی مقداریں کیا ہیں ان کی انرجی کی وولٹیج کیا ہے۔ ان وولٹیج کی بنا پر روشنیوں کی مقداروں کے مزید کتنے عددی مجموعے بن سکتے ہیں اور شخصی کردار کے اعتبار سے ان مجموعوں سے ان کی فطرت کے مطابق کیا کام لیا جا سکتا ہے۔ مشین نے چارٹ میں ہر عددی مجموعے کا الگ الگ نام بھی بتا دیا۔ یہ تمام نام کائناتی اشیاء کے نام تھے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی ساڑھے گیارہ ہزار اسمائے الہٰیہ کی جو روشنیاں کام کر رہی ہیں۔ یہ تمام روشنیاں انسان کی روح کے اندر ایک مربوط نظام کے ساتھ حرکت کر رہی ہے روشنیوں کی حرکات کے نظام کو اللہ تعالیٰ نے ” امر کن“ کا نام دیا ہے۔ روشنیوں کی تمام حرکات امر کن کے دائرے میں ہیں۔ روح اللہ تعالیٰ کے ساڑھے گیارہ ہزار اسمائے الہٰہیہ کے انوار کا مجموعہ ہے۔ اس مرکز سے روشنیاں نکل کر کائنات کے دائرے میں اپنا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مظاہرہ روشنیوں کا عددی مجموعہ ہے۔ جو کائنات کی کوئی نہ کوئی شئے ہے۔ اس تحقیقی ماہر  نے کمپیوٹر کی اسکرین پر عاقب کی روشنیوں کے عددی مجموعوں کے نام کے نقوش اور خاکے بھی بنا کر دکھادیئے۔ پھر اُس نے بتایا:

          یہ تمام نقوش آپ کے کردار کا ایک جز ہیں۔ ہر نقش کی صلاحیت آپ کی فطرت میں داخل ہے۔ اس مشین کے ذریعے ہم لوگوں کی اسکریننگ کر کے انہیں ان کے اندر کام کرنے والی روشنیوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر ان سے ان کی فطرت کے مطابق کام لیں۔“

          پھر وہ عاقب اور گلبدن کی نظروں کی گہرائی  میں جھانکتے ہوئے کہنے لگا۔

          ” دوستو! حق تو یہ ہے کہ کائنات کی ہر حرکت اللہ کی نگاہ میں ہے جب روح اس حقیقت کو پہچان لیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ روح نے اللہ کی نظر کو پہچان لیا۔ اللہ کی نظر نور ہے۔ اللہ کی نظر کی پہچان سے مراد روح کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کے نور کا چشمہ پھوٹتا ہے۔ قرآن میں  حضرت محمد الرسول ﷺ کے اسی لمحہ معراج کا ذکر بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں۔ کہ ”دل نے جو دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔“ اس جگہ روح کی آنکھ دل کو کہا گیا ہے۔ معراج کے اس لمحے میں زمین سے آسمان اور آسمانوں سے لامکان اور لامکان سے ذات باری تعالیٰ کی الوہیت تک روح محمدی ﷺ نے جو کچھ دیکھا وہ دل کا دیکھنا ہے۔ جس میں روح  اللہ کی نظر کے نور میں کائنات کا مشاہدہ کرتی ہے ساری کائنات اللہ کی نظر کے نور میں ہے۔ کائنات کی اشیاء افراد ہیں۔ افراد کائنات ' اللہ کی نظر کے نور میں تخلیقی مراحل سیع سماوات یا سات آسمان ہیں جو تخلیقی زون ہیں۔ روح کی نظر آسمانوں سے گزر کر نور کی صفات   میں دیکھتی ہے تو اسے اسمائے الہٰیہ کے علوم حاصل ہوتے ہیں اور کائناتی فارمولوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ قرآن میں حضور پاک ﷺ کے لمحہ معراج میں اس حقیقت کا انکشاف اللہ تعالی نے ان الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے کہ ” چھا رہا تھا سدرہ پر جو کچھ چھا رہا تھا اور انہوں ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔“ سدرۃ المنتہیٰ پر چھانے والی تجلیات و انوار اسمائے الہٰہیہ کے انوار کے وہ عددی مجموعے ہیں جو کائنات کے فار مولے ہیں۔ یہی عددی فارمولے اللہ تعالیٰ کے امر کن کے ساتھ کائنات کے دائرے میں نزول کرتے ہیں اور سات آسمانوں یا تخلیقی زون سے گزرتے ہوئے زمین پر آکر ظاہر ہو جاتے ہیں روح کی نظر اسمائے الہٰہیہ یا اللہ کی صفات   سے گزر کر ذات باری تعالیٰ کے نور کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔ تب روح اپنی ذات کے اس مرکز کو دیکھ لیتی ہے جس مرکز سے نور کا چشمہ روح بن کر اس کے اندر پھوٹ رہا ہے۔ قرآن نے اسے رگ گلو کہا ہے اور حضور پاک ﷺ کے لمحہ معراج میں اللہ تعالیٰ کے نور کی اس وجہ قربت کو قاب قوسین  کا نام دیا گیا ہے جس میں روح محمدی ﷺ نے اللہ کی ذات کا مشاہدہ کیا۔  روح محمدی ﷺ کی نظر کی بلند ترین پرواز کو مقام محمود کہا گیا ہے اور پست ترین حد کو تحت الثریٰ کا نام دیا گیا ہے۔ حضور پاک ﷺ کے لمحہ معراج میں روح محمدی ﷺ نے اپنی  نظر کی بلند ترین حد سے  لے کر پست ترین حد تک اللہ کے نور میں اپنا سفر طے کیا ۔ اللہ  کی نظر ہر شئے کو  موجود دیکھتی ہے۔ اللہ کی نظر کی صفات  روح محمدی ﷺ کے حواس بن گئی اورآپ ﷺ نے بیک نظر یہاں سے وہاں تک دیکھ لیا۔“

          وہ شخص دونوں کی طرف بڑی  اپنائیت سے مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہتا جا رہا تھا ۔

          ” اے میرے دوستو! اللہ نے ہر شئے دو رخوں میں بنائی  ہے، علم کا دوسرا رخ عمل ہے۔ علم روح ہے تو عمل اس روح کا جسم ہے۔ جسم سے مراد مظاہرہ ہے۔ کوئی علم اس وقت تک مکمل نہیں سمجھا جا سکتا۔ جب تک اس علم کا مظاہرہ نہ ہو جائے۔ کائنات کی ہر شئے اللہ تعالی کے علم کا ایک بند نقطہ ہے۔ انسان اپنی زندگی کے ہر زون میں ان بند نقطوں کو کھول رہا ہے۔ اگر کھولے گا نہیں تو پائے گا کیسے؟۔ دنیا میں انسان  کا شعور و عقل ایک بند نقطے کی طرح ہے کہ بچہ جب دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو اسے خود اپنی پہچان نہیں  ہوتی۔ پھر عقل آہستہ آہستہ کھلتی  جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بچہ جوان اور بورحا ہوکر اعراف میں پہنچ جاتا ہے۔ دنیا کا جوان و سن رسیدہ شعور اعراف میں پہنچ کر اعراف کا بچہ کہلاتا ہے۔قدرت پھر  اس بچے کی نشو نما اور تربیت کا اہتمام کرتی ہے تاکہ جوان ہو کر اپنی بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کرے۔ اعراف کے عالم میں ملک کا نظام اعراف کے جوان اور بالغ شعور لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو شئے کے اندر کام کرنے والی فطرت سے خوب واقف ہیں۔ جس کی  وجہ سے دنیا کی طرح یہاں بد نطمی نہیں ہے۔ سزا و جزا کے قانون کے تحت یہاں فوراً ہی فیصلے ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بد عنوانیاں نہیں ہیں۔“

          یہاں کی سیر کرانے کے بعد شہنشاہ انیب نے نہایت محبت کے ساتھ دونوں کو رخصت کیا۔ اس نے انہیں بہت ساری رنگا رنگ کی خوشبوئیں تحفہ میں دیتے ہوئے کہا:

          ” ان پر درج مقداروں کے مطابق جب بھی آپ ان خوشبوؤں کی متعین مقداریں پانی میں ڈالیں گے پانی میں پھول اور بوٹے اُگ آئیں گے۔ جو ہمارے ملک کے نامور سائنس دانوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان بوٹوں کو آپ پانی  کی لہروں پر چھوڑ دیں تو یہ پانی کی روانی کو حرکت سے انرجی حاصل کرتے ہیں اور بڑھتے رہتے ہیں۔ اس طرح پانی کی لہروں پر آپ پورا باغ لگا سکتے ہیں۔ پانی کی لہروں کے ساتھ ساتھ ان بوٹوں کی ترتیب بھی بدلتی رہتی ہے۔“

          عاقب اور گلبدن نے گردن جھکا کے اپنے تشکرانہ جذبات کا اظہار کیا اور سب کے خلوص و محبت کے ساتھ یہاں سے واپس لوٹے۔ غار سے باہر نکل کر انہوں نے پہاڑوں پر نظر ڈالی۔ پہاڑ اپنی وسعت اور اونچائی  کے ساتھ اپنی ہیئت و استھکام کا اعلان کرتے  دکھائی  دیتے۔ ایسا خاموش اعلان جسے آنکھ تو دیکھ سکتی ہے مگر کان نہیں سن سکتے۔

          گلبدن بولی:   ” ایسا لگتا ہے جیسے پہاڑوں پر چھایا ہوا دور دور تک سناٹا شہنشاہ انیب  کی مملکت کے اقتدار و دب دبے کا پُر جوش اعلان کر رہا ہے۔“

          عاقب نے گلبدن کی تائید کی۔” تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ اس سناٹے کی کشش نے ہی تو ہمیں درے کے اندر کھینچا تھا۔“

          گلبدن بولی: ” عاقب کیا ایسا نہیں ہے کہ ہر  شئے اپنے آپ  کو نظر کے سامنے لآنا چاہتی ہے تاکہ نگاہ اسے دیکھ لے اور اسے اس کی خوبیوں کے ساتھ پہچان لے۔“

          عاقب نے کہا: ” اللہ کی فکر ہر شئے کا فطری تقاضہ ہے۔ اللہ کی صفات   اللہ کی نگاہ کے سامنے اپنے خزانوں کو ظاہر کرنا چاہتی تھیں تاکہ ذات کے اندر انہیں خود اپنے مقام کی پہچان ہو جائے۔ اللہ کی رحمت کے احاطے میں صفات   الہیہ نے اپنے انمول خزانے نگاہ کے سامنے ظاہر کر دیئے۔ اللہ کی نگاہ کے سامنے ہر صفت ایک نام کے ساتھ ظاہر ہوئی۔ صفتِ رحمت نظر خداوندی کے دائرے میں رحمت العالمین ﷺ کہلائی۔ اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو کائنات کا مظاہرہ نہ ہوتا۔ اسی وجہ سے حضور پاک ﷺ کو باعث تخلیق کائنات کہا گیا ہے۔“

          گلبدن کے دل میں محبت کی شدید لہر اُٹھی۔ وہ بےچین ہو کر بولی : ”عاقب میرا بڑا ہی جی چاہتا ہے کہ میں حضور پاک ﷺ کا دیدار کروں۔ میں خضر بابا سے ضرور اس کی التجا کروں گی۔ کہ وہ کبھی ہمیں ان کا دیدار کرا دیں۔“

          عاقب کے اندر بھی شوق دیدار ابھر آیا۔ وہ فوراً بول پڑا:” تم نے میرے دل کی بات کر دی۔“

          اسی طرح باتیں کرتے کرتے وہ پل دو پل میں اپنے گھر پہنچ گئے۔ گھر میں داخل ہوئے تو خادم فرشتوں نے بڑی ہی خوشی سے دونوں کا استقبال کلیا ان کے ہاتھوں میں نور کی چھوٹی چھوٹی گیندیں تھیں انہیں وہ دباتے تو اس کے اندر سے روشنی کی رنگا رنگ شعاعیں پچکاریوں کی صورت میں نکل کر عاقب اور گلبدن کے بدنوں کو چھو دیتیں جس کے لطف سے دونوں کے بدن لطیف اور انوکھے انداز میں لہرانے لگے۔ اس کے ساتھ ہی فرشتے نہایت ہی حسیں سروں میں دونوں کی تعریف کے گانے گاتے جاتے۔ اس کے ساتھ ہی انواع و اقسام کے کھانوں سے دستر خوان سجا ہوا تھا۔ گلبدن  اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کی خوشی میں سرشار سریلی آواز میں کہنے لگی۔

          ” عاقب ! ہم نے تو کبھی اپنے خواب و خیال میں بھی نہ سوچا تھا کہ ہمارے رب نے ایسے انمول و حسین لمحات اپنے تصور میں ہمارے لئے محفوظ رکھے ہیں۔“

          دونوں کی زبان سے بیک وقت نکلا۔” ہمارا رب ہم سے بے پناہ  محبت   رکھتا ہے۔“

          ضیافت سے فارغ ہو کر دونوں فرشتوں کی مدد سے باغ کے ایک کونے میں بڑا سا تالاب بنا کر اس میں پانی بھر کے اس کے اندر لہریں  پیدا  کرنے کا سسٹم لگایا۔ اور شہنشاہ انیب کے دیئے ہوئے بوٹوں کو اس تالاب میں بو دیا۔ فرشتوں نے تالاب کا دیزائن نہایت خوبصرت بنایا تھا۔ اس پر رنگ و روشنی کے یہ پھول و پودے لہروں کے زیروبم پر رقص کرتے ہوئے جلترنگ کے ساز فضا میں بکھیرنے لگے۔ فرشتوں کی مدد سے یہ باغ اتنی تیزی سے مکمل ہو گیا کہ دونوں حیران رہ گئے۔

          گلبدن بولی۔” عاقب دنیا میں تو اتنی جلدی چند بیج بھی زمین میں نہیں بوئے جا سکتے۔ یہ عالم اس عالم سے کتنا مختلف ہے۔“

          عاقب نے کہا۔” کیوں نہ ہم خضر بابا اور ممی پاپا کو یہاں آنے کی دعوت  دیں۔ خضر بابا کو تو ہمیں اپنی سیر کی رپورٹ بھی دینی ہے۔ وہ لوگ باغ کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔“

          عاقب نے خیال کی لہروں  پر ممی پاپا اور خضر بابا کو اپنے یہاںآنے کی دعوت دی۔ گلبدن نے حوض کے اطراف میں مہمناوں کے لئے نشست کا انتظام کرنے کے لئے خادم فرشتوں کو  حکم دیا ۔ کچھ ہی دیر میں خضر بابا اور عاقب کے ممی پاپا آگئے۔ گلبدن اور عاقب انہیں باغ کے پاس لائے جیسے ہی وہ تالاب کے قریب پہنچے تاما پودوں اور  پھولوں نے خوبصورت انداز میں ہل ہل کر انہیں خوش امدید کہا اور تالاب کی لہریں خوشیوں بھرے ساز چھیرنے لگیں۔ تینوں بہت خوش ہوئے۔ عاقب اور گلبدن نے غاروں کی وادی کے شہنشاہ انیب کی مملکت کی سیر کی روئداد بیان کی اور شہنشاہ انیب کی بہت تعریف کی۔

          خضر بابا نے فرمایا۔” یقیناً شہنشاہ انیب اسی لائق  ہیں  کہ ان کی تعریف کی جائے۔ قدرت کا قانون یہ ہے کہ  غیب  کے عالمین میں اسی کی تعریف کی جاتی ہے جو اپنے آپ کو دنیا میں تعریف کا اہل ثابت کر دیتا ہے۔ قدرت کے نزدیک تعریف کا اہل وہ ہے جسے اللہ تعریف کے لائق جانتا ہے۔ اللہ کی نظر انسان کے اندر کام کرنے والے امر کی حرکات پر ہوتی ہے۔ جب کہ ادمی  کی نظر اپنی ظاہری حرکات کو دیکھتی ہے۔ حق اور باطل میں یہی فرق ہے۔ حق کی نظر نور میں دیکھتی ہے اور باطل کی نظر ناسوتی روشنیوں میں  حق کے سامنے باطلانہ نظریات اسی طرح دم توڑ دیتے  ہیں۔ جیسے سورج کی روشنی کے سامنے اندھیرا ہے اور اندھیرے کی ہر تخلیق عارضی ہے۔ حق نور ہے اور نور اللہ کی صفت ہے۔ اللہ  اپنی ذات و صفات   کے ساتھ حی و قیوم ہے۔ قرآن میں حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی کے واقعہ میں ہمیں اللہ تعالیٰ یہی سبق سمجھا رہے ہیں۔ حضر نوح علیہ السلام حق کا وہ سورج ہیں جو ساری دنیا کے باطل کے سامنے اندھیرے سے ساڑھے نو سو سال تک نبرد آزما رہے بالآخر جیت حق کی ہوئی اور ساری دنیا حق کے سورج کی روشنی میں اندھیرے کی طرح غائب ہوگئی۔“

          پھر خضر بابا نے عاقب کو خاص طور سے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا۔ ” اللہ نے سیر و سیاحت کے حکم میں   یہ حکمت رکھی ہے کہ سیر و سیاحت کے زریعے فرد صلاحیتوں اور کائناتی شعور سے باخبر ہو جائے اشیاء میں تصرف  کرنے کا بنیادی اصول نوعی شعور اور کائناتی شعور کا آدمی کے اندر متحرک ہونا ہے۔ اب جب تم وادی نوم میں  دنیا سےآنے والے افراد کو نیند کی حالت میں تصرف  کرو گے تو انہیں عالم اعراف کی دیکھی ہوئی چیزوں اور واقعات کی خبریں پہنچاؤ تاکہ تمہاری اطلاعات کو خواب کی تصویروں اور تصور کے خاکوں کی صورت میں دیکھیں اور دنیا میں تمہاری انسپائریشن پر عمل  کر کے اپنی عملی زندگی کو ترتیب ددیں۔ انھیں بتاؤ کہ دنیا والوں کے لئے خواب کی زندگی پر توجہ دینا جاگنے کی حالت میں گزارنے والی زندگی سے زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ خیالات کے تانے بانے کے اوپر ہی اعمال کے نقش و نگار بنتے ہیں۔“

          گلبدن اور عاقب نے خضر بابا سے نہایت ہی اشتیاق کے ساتھ درخواست کی کہ اگر اللہ پاک کی مہربانی ان پر ایسی ہو جائے کہ وہ ایک نظر حضور پاک ﷺ کا دیدار کر سکیں تو ان کی روح کو تازگی مل جائے گی۔

          خضر بابا نے ان کے اشتیاق پر گہری نگاہ دالی اور فرمایا۔” اے میرے بچو! روح کا ہر تقاضہ وقت کا ایک پل ہے جب یہ لمحہ انسانی شعور میں داخل ہو جاتا ہے تو اس لمحے کی کیفیات احساس کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔ عنقریب ہی تم اپنی مراد کو پہنچ جاؤ گے۔ اللہ کی تائید اور نصرت تمہارے ساتھ ہے۔“

 

 

 

 

 

 

 

 

 


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی