Topics

(تیئسویں قسط)

رحمٰن بابا نے عاقب کی آنکھوں کی گہرائی  میں جھانکتے ہوئے فرمایا:

” عاقب میری جان! یاد رکھو کہ زندگی اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایک انمول عطیہ ہے۔ اللہ اپنے بندوں سے صرف یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے دینے والے کو پہچان کر اس کی عطا کردہ نعمتوں سے بھر پور فائدہ اور لطف حاصل کریں اور خوش رہیں۔ مسلسل رنجیدہ رہنے سے دل میں شکایت پیدا ہو جاتی ہے اور شکایت بندے کو ناشکرا بنا دیتی ہے۔ وادی نوم میں خضر بابا کی ڈیوٹی ہے۔ میں تمہیں وادی نوم کے دروازے تک چھوڑ آؤں گا۔ خضر بابا اور وہاں کے منتظیمن تمہیں بتائیں گے کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔ گلبدن کے ساتھ گزارنے والے جن لمحات کی ڈور تمہاری جانب سے ٹوٹ گئی ہے۔ اس ڈور کو دوبارہ جوڑ دو۔ اس کے لئے خضر بابا تمہاری رہنمائی  کریں گے۔“

یہ کہہ کر رحمٰن بابا اپنے گھوڑے کی طرف بڑھے۔ عاقب بھی سمندگان کے قریب آیا۔ دونوں اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے اور پہاڑی سے نشیب کی طرف اُڑتے ہوئے آنا فآنا وادی نوم کے صدر دروازے پر پہنچ گئے۔ رحمٰن بابا نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے عاقب کو خدا حافظ کہا اور فوراً ہی واپس لوٹ گئے۔ وادی نوم کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور دروازے کے دائیں بائیں دو فرشتے گارڈ کی صورت میں موجود تھے۔ عاقب کے گھوڑے سے اترتے ہی ان میں سے ایک فرشتہ عاقب کی جانب بڑھا اور سر کو جھکاتے ہوئے ادب سے سلام کیا۔ عاقب نے بتایا کہ اس کا نام عاقب ہے اور وہ یہاں خضر بابا سے ملنے کے لئے آیا ہے۔ فرشتے نے دو سیکنڈ کے لئے  آنکھیں  بند کیں پھر جو کھولیں تو سامنے سے ایک اور فرشتہ نہایت تیز رفتاری سے ان کے قریب آگیا۔ اس نے بھی ذرا سا جھک کر سلام کیا ۔ گارڈ فرشتے نے کہا۔” یہ عاقب ہیں۔ انہیں خضر بابا تک پہنچا دو۔“

فرشتے نے سمندگان کو اشارہ کیا۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ عاقب فرشتے کے ساتھ چل رہا تھا۔ وادی کے وسط میں ایک چھوٹی سی ہٹ بنی ہوئی تھی۔ فرشتے نے بتایا۔” خضر بابا یہاں رہتے ہیں۔ وادی نوم میں جب ان کی ڈیوٹی لگتی ہے تو ان کا قیام اس کٹیا میں ہوتا ہے۔“

دروازہ بند تھا۔ مگر جیسے ہی عاقب دروازے کے قریب آیا دروازہ خود بخود کھل گیا۔ اندر خضر بابا ایک چارپائی  پر بیٹھے تھے۔ فرشتہ عاقب کو خدا حافظ کہہ کے دروازے سے ہی لوٹ گیا۔ سمندگان دروازے کے پاس ٹھہر گیا ۔ خضر بابا نے عاقب کو دیکھتے ہی کہا۔” آؤ۔آؤ بھی عاقب نئی زندگی میں داخل ہونے کی مبارک باد۔ کہو کیسے ہو؟“

عاقب نے خضر بابا کو جھک کر سلام کیا۔ خضر بابا نے اسے گلے سے لگا لیا۔ دونوں چارپائی  پر بیٹھ گئے۔ خضر بابا نے پوچھا۔” تم نے دنیا کو کس حال میں چھوڑا؟“

عاقب نے کہا۔” جب میں نے دنیا کو چھوڑا تو اس وقت دنیا  میں بسنے والے سب کے سب خدائے واحد بزرگ و برتر کے پرستار تھے۔ وہ اپنی روح سے واقف تھے اور صراطِ مستقیم پر قائم رہنے کے لئے ان کے درمیان ایسے تربیت یافتہ لوگ موجود تھے۔ جو انہیں سیدھے راستے پر قائم اور گامزن رہنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی  کے ساتھ ان کی ہر قدم پر مدد کر سکیں۔“

پھر وہ تشکر بھری آواز میں خضر بابا سے کہنے لگا۔” خضر بابا ! آپ نے جو قندیل میرے سینے میں روشن کی۔ اس قندیل سے میں نے مزید قندیلیں روشن کرنے کی پوری پوری کو شش کی۔ الحمد اللہ کہ میں اس میں کامیاب رہا۔ یقیناً آپ کی چشمِ بصیرت اسے دیکھ ہے۔“

خضر بابا نے خوشی سے سر ہلایا اور عاقب کے ہاتھ کو دبا کر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا۔ عاقب بولا۔

” مگر اب دیکھ رہا ہوں کہ گلبدن سخت رنجیدہ ہے ۔ اس کی اداسی زندگی کی تصویر کو بد نما بنا رہی ہے۔ جبکہ زندگی کی تصویر میرے رب نے بہت حسین بنائی  ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ اس تصویر کے رنگ بدل دے۔ میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔“

خضر بابا نے جواب دیا۔” وادی نوم میں کام کرنے کے مخصوص اصول ہیں۔ تمہیں ان اصولوں پر کار بند رہ کر کام کرنا ہوگا۔“

پھر انہوں نے عاقب کا ہاتھ تھاما اور چارپائی  سے اُٹھتے ہوئے بولے۔

” چلو تمہیں  یہاں کی سیر کرائیں۔ تاکہ تم ان اصولوں کو خود دیکھ لو۔“

سیر کرتے ہوئے عاقب نے دیکھا کہ اس وادی میں  دنیا سے آئے ہوئے تمام جسمِ مثالی بڑے انہماک کے ساتھ اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں۔ کوئی تصویر پینٹ کر رہا ہے، کوئی گھر تعمیر کر رہا ہے، کوئی پہاڑ کے بہت ہی تنگ درے سے گزرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر شخص کے پاس دو فرشتے موجود ہیں۔ جو اس کے کام پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اولیا ء اللہ میں سے کچھ اولیاء بھی مسلسل گشت پر ہیں اور وہ ان لوگوں کو ہدایات دے رہے ہیں جن کے کام بہت ہی بُری طرح اٹک جاتے ہیں۔

خضر بابا نے فرمایا:

” یہ دو فرشتے جو تم دیکھ رہے ہو۔ یہ ہر جسمِ مثالی کے ساتھ ہیں۔ یہ کراماً کاتبین ہیں۔ ان کا کام جسمِ مثالی کی تمام حرکات اور ان کے نتائج کو اپنی نظر کی روشنی میں  محفوظ کرنا ہے۔ ایک فرشتہ درست اعمال کو محفوظ رکھتا ہے۔ دوسرا فرشتہ غلط اعمال کو محفوظ رکھتا ۔ ان فرشتوں کا کام صرف یہیں تک ہے۔ وہ  جسمِ مثالی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کرتے۔ نہ ہی انہیں انسپائر کرتے ہیں۔ عام طور پر یہاںآنے والے جسم ِ مثالی دنیاوی روشنیوں کے زیرِ اثر اور  (Gravity)   کی وجہ سے نیم مدہوشی کی سی حالت میں ہوتے ہیں۔ وہ ان فرشتوں  کو دیکھتے تو ہیں۔ مگر ان کے کاموں کا انہیں آئیڈیا نہیں ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ زیادہ تر لوگ شعوری طور پر کراماً کاتبین کی طرف توجہ نہیں دیتے۔

اس کی وجہ لاعلمی ہے۔ جو لوگ کراماً کاتبین سے واقف ہیں اور ان پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ ان کے اعمال کی فلم بندی کر رہے ہیں۔ تو جب کوئی غلط کام ہو جاتا تو ان کی نظر فوراً اس فرشتے کی نظر سے مل جاتی ہے۔ جو ان کی غلطیوں کو اپنی نظر کی روشنی میں محفوظ کر رہا ہے۔ جسمِ مثالی کی نظر روشنی میں جسم ِ مثالی کے اپنے کام پر پیشمانی کی فکر کی روشنی شامل ہو جاتی ہے۔ یہ روشنی فرشتے کے نقش کئے ہوئے اعمال کے خاکوں کو مٹا دیتی ہے۔ اسی کو محاسبہ کہتے ہیں۔ وادی نوم میں گشت کرنے والے اولیا ء اللہ کو یہ مراعات حاصل ہیں کہ وہ خاص مواقعوں پر جسم ِ مثالی کو ہدایات دیتے ہیں کہ وہ اپنے کاموں کو درست کر لیں۔“

عاقب نے پوچھا۔” یہ لوگ ان کی مدد کیوں نہیں کرتے ۔ جیسے یہ جو شخص نظر آر ہا ہے ۔ یہ کتے سے کتنا خوف زدہ ہے۔ یہ لوگ کتے کو بھگا کیوں نہیں دیتے۔“

خضر بابا بولے۔” کتا موذی نفس ہے۔ یہ شخص خود اپنے نفس کی ہلاکت سے واقف نہیں ہے۔ یہاں اسے اس کے نفس کی ہلاکت کو دکھانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ تاکہ وہ اپنے عقل و حواس کے  ذریعے سے نفس کی  خرابیوں کو پہچان لے۔ کراماً کاتبین اس کی تمام حرکات کو نظر کی روشنی میں محفوظ کر رہے ہیں۔ جب دنیا سے انتقال کر کے یہ شخص ہمیشہ کے لئے یہاں آجائے گا۔ تب کراماً کاتبین اس شخص پر نظر ڈالیں گے۔ اور نظر کی روشنی کو جسم ِ مثالی کی نظر  کی روشنی میں منتقل کر دیں گے۔ پھر جسمِ مثالی کی آنکھوں سے گویا دھند چھٹ جائے گی۔ اور اس کے تمام اعمال اس کی نظروں میں آ جائیں گے اور وہ انہیں جان لے گا۔ عاقب تم یہاں کے طریقہ کار کو دیکھ چکے ہو۔ تم اگر گلبدن کی مدد کرنا چاہتے ہو تو تم صرف اسے ہدایات دے سکتے ہو کہ وہ اپنی زندگی کی تصویر میں کون سے رنگ  استعمال کرے۔ مگر تم اسے چھو نہیں سکتے۔ نہ ہی اس کے کینوس پر کوئی نقش خود بنانے کی تمہیں اجازت ہے۔ یہاں جسم مثالی کو صرف ان کے اپنے ہی ارادے سے کام کرنے کی اجازت ہے۔ خواہ وہ ہدایت کو تسلیم کرے یا نہ کرے۔ جاؤ اس کی مدد کرو۔ اللہ تمہارا حامی و مدد گار ہے۔“

عاقب گلبدن کے پاس آیا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو اس نے گلبدن کہہ کر دھیرے سے اسے آواز دی۔ مگر گلبدن نے جیسے سنی ہی نہیں۔ وہ اسی طرح اپنے کاموں میں مشغول رہی۔ اس نے اسے پھر دوبارہ سہ بار ہ آواز دی۔ اب کے سے اس کے ہاتھ کینوس پر رُک گئے۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنے سر کو ہلایا۔ مگر اس کی  آنکھیں  اسی طرح کینوس پر لگی ہوئی تھیں۔ جہاں زندگی کی تصویر پر گم کے بادل لہرا رہے تھے۔ عاقب نے پیار بھری آواز سے اُسے پکارا۔

” گلبدن یاد کرو کیا تم بھورے بالوں والا وی کا وہ نشان بھول گئی ہو۔ جو قدرت نے تمہاری اور میری پشت پر یکساں طور پر لگایا ہے۔ یہ ہماری زندگی کی کامیابی کا نشان ہے۔ یہ نشان میں یہاں اپنے ساتھ لایا ہوں۔ تمہیں بھی یہ نشان اپنے ساتھ لآنا ہوگا۔ تاکہ ہم اپنی  یہ زندگی بھی ساتھ رہ کر خوشی خوشی گزار لیں۔ گلبدن میری طرف دیکھو۔ آج یہ نشان تمہیں میرے سینے پر  دکھائی  دے گا۔“

عاقب نے یہ کہہ کر سینے سے قمیض کھول دی۔ اس کے سینے پر بھوری  روشنیوں کا وی کا نشان جگمگا رہا تھا۔ اسی وقت گلبدن نے نظریں اوپر کیں اور عاقب کی طرف دیکھا۔ اس کی  آنکھیں  عاقب پر جیسے اٹک کر رہ گئیں۔ عاقب آہستہ اہستہ نرم لہجے میں اسے سمجھاتا رہا۔

” یہ جدائی    عارضی ہے۔ اللہ نے تم پر بچوں کی پرورش کی ذمہ داری ڈال کر تمہیں موقع دیا ہے کہ تم زیادہ سے زیادہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرو۔ گلبدن!! زندگی کی تصویر میں گم کے رنگ شامل نہ کرو۔ یہ تصوی بڑی  انمول ہے۔ ہم اس تصویر کو حشر میں اللہ تعالی کے سامنے کرنے والے ہیں۔

ذرا سوچو۔ ہمارے پاس اور کوئی تصویر نہیں ہے۔ ہر شخص دنیا میں صرف ایک ہی بار پیدا ہوتا ہے۔ جب حشر میں ہمارا رب ہم سے اس زندگی کا حساب مانگے گا تو اسے کیا دکھائیں گے۔ کیا تم بھول گئیں۔ تم ہی تو اپنے بچوں کو سمجھایا کرتی تھیں کہ زندگی کا تصور اللہ کے نزدیک جنت کی زندگی ہے۔ جس میں خوشی ، راحت و ارام و سکون ہے۔ زندگی کے تصور میں جب اداسی کے بادل چھانے لگتے ہیں تو اللہ کی نظر اس تصویر ہٹ جاتی ہے۔ گلبدن میری جان ۔۔ ہوش میں آؤ۔۔ یہ جدائی  عارضی ہے۔۔ یہ رنج بادل کی طرح گزرنے والا ہے۔“

گلبدن کے ہونٹوں کے کونوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اُبھری۔ اس نے اپنی نیم وا  آنکھیں  تھوڑی سی کھولیں۔ اس کی آنکھوں میں اُمید کی روشنی چمکنے لگی۔ اور کینوس پو اس کا ہاتھ تیزی سے چلنے لگا پھر عاقب نے دیکھا کہ اداسی کے تمام بادلوں پر خوشی کی قوس قزح لہرانے لگی۔  سبحان ربی العظیم کہہ کر اس نے اپنے سر کو اپنے رب کے آگے  جھکایا۔ عاقب نے سر اُٹھایا تو اس کے سامنے خضر بابا کھڑے مسکرا رہے تھے۔ ان کے نورانی سراپا میں عجیب سی مہک تھی۔عاقب نے گہری سانس کے ساتھ اس خوشبو اپنی جان میں سموتے ہوئے کہا۔

” خضر بابا ! آپ کی خوشبو میں نے چرا لی ہے۔“

خضر بابا مسکرا کر کہنے لگے۔” میرے دوست!  خوشبو میری کہاں! خوشبو تو اللہ کی ہے۔ اس نے میری جان کو اپنے نور میں لپیٹ دیا۔ اس کے نور کی مہک میری جان میں بس گئی۔ اس کا نور خوشبو بن کر میری روح میں سما گیا ہے۔ اس کی خوشبو مجھے اپنی رگِ جان سے زیادہ قریب اس کی قربت کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ بلاشبہ اس نے مجھے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔“

خضر بابا کے جسم سے روشنیاں بل کھاتی لہراتی ہوئی نکلنے لگیں۔ جس کے سرور نے عاقب کو بھی مسحور کر دیا۔ کچھ دیر تک دونوں اس نور کے سحر میں جکڑے مسحور بیٹھے رہے۔ پھر خضر بابا نے عاقب کو کندھوں پر ہاتھ رکھ کر انہیں ذرا دبایا کہ وہ ہوشیار ہو جائے۔ عاقب نے ادب سے کہا۔

”خضر بابا! میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں۔“

خضر بابا بولے ۔” عاقب میرے دوست! آج سے آپ کی دیوٹی وادی نوم میں لگائی  جاتی ہے۔ کام کی نوعیت آپ اچھی طرح جان چکے ہیں۔ نسل انسانی کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق مختلف رشتوں کی بناید پر ہے۔ جیسے ماں باپ، بہن بھائی، خالہ ،  پھوپھی، چچا، ماموں وغیرہ وغیرہ۔ دنیا میں ان میں ان رشتوں کے تعلق کی وجہ سے آدمی ایک دوسرے کی نصیحتوں کو قبول کرتا ہے۔ جو شخص جس سے جتنا قریب ہوتا ہے۔ اتنا ہی وہ اس کی بات ذہن نشین کر لیتا ہے۔ دنیا سے وادی نوم میںآنے والے زیادہ تر لوگ ایسے ہوں گے۔ جنہیں آپ نے کبھی دیکھا بھی نہیں ہوگا۔چاہے ان کے ساتھ آپ کا دنیاوی کوئی تعلق اور کوئی رشتہ نہ رہا ہو۔ مگر نوعی اعتبار سے ہر فرد کے ساتھ ان تمام بندھنوں سے بندھے ہوئے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ آپ کے تصرف کو قبول کرنے والے ہیں۔ جب آپ کسی شخص کی مدد کو پہنچیں گے تو آپ کے اندر جلتی ہوئی قندیل کی روشنی میں آپ اس فرد کے ساتھ اس تعلق کی ڈور کو دیکھ لیں گے۔ اللہ آپ کا حامی و مدد  گار ہو۔“

پھر خضر بابا نے ہاتھ بلند کر کے شہادت کی انگلی اُٹھائی۔ اسی وقت ایک فرشتہ حاضر ہو گیا۔ خضر بابا نے فرمایا۔”انہیں ان کا کمرہ دکھا دو۔“

عاقب خضر بابا سے رخصت ہو کر فرشتے کے ساتھ ہو لیا۔ یہ ایک درمیانے سائز کا مومولی سا کمرہ تھا۔ فرشتے نے  بتایا۔

”کھانے اور سونے کے لئے آپ کو یہاں آنا ہوگا۔ باقی وقت وادی میں گھوم پھر کر لوگوں کی اسی طرح مدد کرنی ہوگی۔ جیسی آپ گلبدن کی کر چکے ہیں۔ انہیں صرف اپنے کام کو درست کرنے کی ترغیب دینی ہے۔“

ایک دن عاقب وادی نوم میں گشت کر رہا تھا کہ اس کی نظر غار والے جوانوں پر پڑی وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بڑی جانفشانی کے ساتھ ایک قلعہ تعمیر کر رہے تھے۔ عاقب انہیں دیکھ کر کھل اُٹھا۔ تیزی سے ان کے قریب آیا اور ان کے نام لے کر پکارا۔”مقسطین ، اتابک، جذبیر، مرزوق، ثقلین۔“

پانچوں نے فوراً ہی آواز پر توجہ دی اور عاقب کو دیکھتے ہی خوشی سے چلا اُٹھے۔

” ارے عاقب بھائی  آپ کیسے ہیں؟ آپ کے اچانک انتقال سے سب ہی بہت پریشان ہو گئے تھے۔ خاص طور پر گلبدن اور بچے بہت زیادہ رنجیدہ تھے۔ مگر اب تمام حالات نارمل ہو چکے ہیں۔ دنیا کی حالت ٹھیک ہے۔ جب سے آپ یہاں آئے ہیں۔ دنیا کی  آبادی میں بہت سارے نئے لوگوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔خود آپ کے بچوں کی بھی شادیاں ہو چکی ہیں۔“

عاقب کہنے لگا۔” تم ٹھیک کہتے ہو۔ یہاں کا ایک دن وہاں کے کئی سو سالوں کے برابر ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آخر کار ایک دن ہم سب نے یہاں جمع ہو نا ہے۔“

مقسطین بولا۔” قیامت صغریٰ کی تباہی کے بعد جب سے دنیا از سر نو دوبارہ تعمیر ہوئی ہے۔ دنیا کی فضا نہایت ہی صاف ستھری ہو گئی ہے۔ نئی زندگی روحانی طرزوں پر قائم اور رواں دواں ہونے کی وجہ سے لوگوں کی عمروں میں اضافہ ہو گیا ہے اور بڑھاپے کو پہنچ کر بھی ان کے اندر نوجوانوں کی سی ہمت و قوت  موجود ہے۔“

عاقب بولا۔” جس طرح ایک بچہ دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو وہ بالکل ایک پھول کی طرح ترو تازہ ہوتا ہے۔ اس کاذہن دنیاوی فکروں سے آزاد ہوتا ہے۔ مگر جیسے جیسے زندگی کے ماہ و سال گزرتے جاتے ہیں۔ زمانے کا بوجھ تہہ در تہہ اس کے اوپر لپٹتا چلا جاتا ہے۔ اسی بوجھ تلے اس کا نرم و نازک جسم دب کر سخت اور کرخت ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خشک زمین کی طرح اس میں جھریوں کی دراڑیں پڑ جاتی ہیں، پھر وہ جسم ٹوٹ کر ایک نئے سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ ہر دس ہزار سال میں زمین بھی اسی ( Cycle)   سے گزرتی ہے۔ قیامت صغریٰ کے بعد جب وہ نئے سانچے میں ڈھلتی ہے تو اس کی فضا نوزائیدہ بچے کی طرح ترو تازہ ہوتی ہے۔ مگر پھر گردش دوراں کا ہر چکر اس کی لطیف فضاء پر کثافت کی ایکتہہ لپیٹتا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ لطافت تہہ در تہہ کثافتوں کے پردوں میں چھپ جاتی ہے اور زمین کو اپنے اوپر سے اُسے جھاڑنا ہی پڑتا ہے۔ ہر شئے قدرت کے نظام کے تحت کام کر رہی ہے۔“

عاقب نے پھر تمام غار والوں کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا۔

” مجھے خوشی ہے کہ تم لوگ ان حقائق کو اچھی طرح پہچان چکے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تم وادی نوم میں پوری طرح بیدار ہو۔ جب کوئی فرد دنیا میں رہ کر اپنی روح کی قندیل کو روشن کر لیتا ہے تو اس کی پوری زندگی اس کی روشنی میں گزرتی ہے۔ روح کی قندیل روح کا شعور ہے۔ قندیل کی روشنی کا پھیلاؤ انسان کی بیداری ہے۔ قندیل کی روشنی میں آدمی ساری زندگی بیداری کی حالت میں گزار دیتا ہے نہ اسے آرام کی ضرورت ہوتی ہے نہ نیند کی ۔ نہ وہ تھکتا ہے۔ نہ وہ غافل ہوتا ہے۔ وہ اللہ کی صفات   کا مظہر بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی صفات   بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ کو نیند آتی   ہے نہ اونگھ۔ اور نہ اسے تھکن محسوس ہوتی ہے۔ روح کا شعور وہ قندیل ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات   کا نور تیل بن کر روشنی پیدا کر رہا ہے۔ روشنی اللہ تعالیٰ کی صفات   کا مظاہرہ ہے۔ یہ مظاہرہ روح یا امر ربی کے ذریعے ہو رہا ہے۔ روح کی قندیل کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے ساڑھے گیارہ ہزار رنگ ہیں۔ ہر رنگ ایک اسم الہٰی ہے۔ جو اپنی ذاتی فطرت کے مطابق مظاہرہ کرتا ہے۔ جیسے ہرے رنگ کے بلب سے ہری روشنی ہی نکلے گی اور لال رنگ کے بلب سے لال روشنی ہی نکلے گی۔ روح کے قندیل سے جو روشنی نکلتی ہے وہ روشنی روح کی صلاحیت بن جاتی ہے۔ آدمی اپنی روح کی صلاحیتوں سے اس وقت واقف ہوتا ہے جب روح کی روشنی انسانی ذہن یا شعور سے گذر کر عالم میں پھیلتی ہے آدمی کی ازل سے لے کر ابد تک کی تمام زندگی اپنی روح کی روشنی کا مظاہرہ ہے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ تمہارے پانچ چراغ دنیا میں بہت سارے چراغ روشن کرنے والے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں پر حد درجہ مہربان ہے۔“

عاقب نے اپنی بات ختم کی تو اب اس کی توجہ قلعہ کی جانب گئی۔ جس کی تعمیر یہ پانچوں غار والے جوان مل کر کررہے تھے۔ اس نے حیران ہو کر خوشی سے کہا۔” عاقب بھائی! آپ کی حکیمانہ باتوں نے تو ہمارے ہاتھوں کی اسپیڈ تیز کر دی۔ دیکھیئے تو سہی! ہم نے کتنا سارا کام کر لیا۔ اس لمحے میں ہم نے جو بھی تعمیر کی ہے اس کے ہر جُو میں آپ کی حکیمانہ کلام کی روشنی جھلک رہی ہے۔ اس قلعے میں داخل ہونے والے ہمیشہ اس روشنی سے استفادہ حاصل کرتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ ۔ بے شک۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑے ہیں۔“

غار والے نوجوانوں سے رخصت ہو کر عاقب آگے  بڑھا۔ تو اس نے دیکھا کہ بہت ہی بڑا سفید ہاتھی ہے۔ جو بال کل جنگلی اور وحشی کی طرح اپنی قوت میں جھوم جھوم کر اپنی سونڈ کو اِدھر اُدھر لہرا رہا ہے۔ اس کی سونڈ کی زد میں ایک آدمی ہے۔ جو اس سے بچ کر خوفزدہ ہو کر اِدھر اُدھر بھاگ رہا ہے۔ اور چلا رہا ہے۔ خوف نے اس شخص کے ہوش و حواس مفلوج کر دیئے ہیں۔ اور وہ پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر بھاگ رہا ہے۔ مگر کسی طرح بھی ہاتھی کی سونڈ کی زد سے باہر نہیں نکل پاتا۔ عاقب جان گیا کہ اس شخص نے اپنے ارد گرد جھوٹ کا ایک جال بُن رکھا ہے۔ جس نے ہاتھی بن کر اسے اپنے شکنجے میں پھانس لیا ہے۔ مسلسل جھوٹ کی عادت کی وجہ سے وہ دنیا میں سخت خوفزدہ زندگی گزار رہا ہے۔ اس نے اسے آواز دی۔” اے ڈرنے والے ! رُک جاؤ۔“ مگر خوف نے اس کے حواس پر پوری طرح غلبہ کر رکھا  تھا۔

عاقب نے  بھر پور توجہ کے ساتھ اس پر اپنی روشنی کی لہریں ڈالنی شروع کر دیں۔ تاکہ وہ اس مصیبت سے باہر نکلے۔ عاقب کی روشنی نے اس کے اندر کے اضطراب کو کچھ کم کر دیا ۔ اور وہ اضطراری کیفیت سے کچھ سکون کی طرف مائل ہوا۔ اور اس نے عاقب کو دیکھا۔ عاقب نے اسے لہروں کے ذریعے انسپائر کیا کہ یہ سفید ہاتھی تمہارے جھوٹ کا عکس ہے۔ تم نے اسے تخلیق کیا ہے۔ ایسی تخلیق جو فائدے کے بجائے نقصان پہنچائے۔ وہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ تمہارا نفس خود اسے قبول نہیں کر پا رہا ۔ اسے کمزور بنا دو۔ اسے مٹا دو۔ قبل اس کے یہ تمہیں مار ڈالے۔ عاقب نے دیکھا کہ جیسے جیسے اس کی روشنیوں کی لہریں اس شخص کے اندر منتقل ہوتی جاتی ہیں۔ اس کے اندر سے خوف کی لہریں باہر نکلتی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ہاتھی کے قریب کھڑا ہو گیا۔ اس کے اندر سے خوف نکل چلا تھا۔ اس فرد کے خوف کے ساتھ ساتھ ہاتھی کی وحشت بھی کم ہوگئی تھی۔ عاقب نے اس شخص کی حفاظت کرنےوالے فرشتے سے کہا۔

” اس کی دنیا میں حفاظت رکھنا۔ اسے اپنی روشنیوں سے تقویت دیتے رہنا تاکہ اس کے شر سے خود بھی محفوظ رہے اور دنیا والے بھی محفوظ رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب یہ مرنے کے بعد اس عالم میں پہنچے تو یہ ہاتھی مستقل طور پر عذاب بن کر اس کے سر پر منڈلاتا رہے۔ پھر وہ اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکے گا۔“

عاقب ابھی چند قدم ہی آگے  بڑھا تھا کہ سامنے سے ایک فرشتہ آتا  دکھائی  دیا۔ وہ نہایت تیزی کے ساتھ عاقب کے پاس آیا۔ اور قدرے جھک کر آداب بجا لاتے ہوئے بولا۔

” رحمٰن بابا نے آپ کو بلوایا ہے۔ آپ فوراً میرے ساتھ آجائیں۔“

٭٭٭

 

 


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی