Topics

سیرت طیبہ

قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ہم نے سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر کو بلند کیا ہے جس ذات پاک کے ذکر کو خود اللہ تعالیٰ بلند فرما دیں اس ہستی کے متعلق کسی کا کچھ کہنا عقیدت تو ہو سکتی ہے لیکن اس سے آپﷺ کی سیرت کا احاطہ نہیں ہو سکتا۔

آج کے مادی دور میں نہایت محبت، عقیدت اور احترام سے لوگوں کا سیرت طیبہ کی محافل میں شریک ہونا اس بات کی شہادت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو نہایت بلند درجات عطا فرمائے ہیں اور ہمارے دلوں میں سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت جاگزیں ہے۔

ہر دور میں علماء، فضلاء، دانشوروں اور عقیدت مندوں نے حضّور پاکﷺ کی سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کی پردہ کشائی کی ہے۔ صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین، اولیاء اللہ، علماء کرام، مفسرین، محدثین اور مفکرین ہر زمانے میں انسانی شعور کے ارتقاء کے مطابق کچھ نہ کچھ کہتے رہے لیکن چودہ سو سال میں بھی سیرت طیبہ کے کسی پہلو کا احاطہ نہیں ہو سکا۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکہ یا سیرت طیبہ پر صدیوں سے بے شمار کتب تحریر کی جا رہی ہیں اور خصوصی بات یہ ہے کہ جس کتاب کو بھی دیکھا جائے اس میں ایک نئی کشش، چاشنی اور گداز ملتا ہے۔ حضّور پاکﷺ کی سیرت طیبہ میں مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ کی زندگی کے حالات و واقعات کے بے شمار پہلو شامل ہیں۔ حضّور پاکﷺ کی سیرت پر لکھی گئی لاکھوں کتابوں میں آپﷺ کے اخلاق، کردار اور سپہ سالاری وغیرہ کے پہلو اجاگر کئے گئے ہیں۔ غرض کہ حضّور پاکﷺ کی حیات مبارکہ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں رہا جو نوع انسانی یا امت مسلمہ کے سامنے نہ آیا ہو۔

اس سلسلے میں مجھے بھی شوق ہوا تو میں نے اللہ تعالیٰ کے حضّور دعا کی اور سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار کی طرف توجہ کر کے اظہار تمنا کیا!

یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و سلم میں کسی قابل تو نہیں ہوں لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ سیرت پاک پر کوئی ایسی کتاب لکھی جائے جس میں روحانی گوشے اجاگر کئے جائیں۔

الحمدللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسکرا کر اس گزارش کو شرف قبولیت بخشا۔

میں بہت عرصہ اس سلسلے میں متفکر رہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے اندر یہ تقاضا پیدا کر دیا ہے تو میں کسی طور حضّور صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک کو روحانی نقطۂ نظر سے بیان کرنے کے قابل ہو جاؤں پھر اللہ تعالیٰ کا بہت کرم ہوا اور اس کام کی ابتداء ہوئی اور کتاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی چار میں سے دو جلدیں مکمل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار میں مقبول فرمائے اور مجھے یہ توفیق اور ہمت دے کہ میں مزید دو جلدوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو مکمل کرنے کے قابل ہو سکوں۔

اب تک میں نے 27کتابیں لکھی ہیں اور کسی کتاب کے تحریر کرنے میں مجھے کبھی ضعف محسوس نہیں ہوا جو اللہ تعالیٰ نے دماغ پر انسپائر کیا میں تحریر کرتا چلا گیا۔ لیکن اس کتاب کو تحریر کرنے کے دوران میں نے یہ عجیب بات محسوس کی کہ ہر سطر تحریر کرتے ہوئے مجھ پر سرشاری کی کیفیت غالب رہی۔ ذہن میں ہمیشہ یہ بات رہی کہ حضّور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ پر کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد سے دو جلدیں مکمل ہو گئیں۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکہ کے اس حصہ کا میں نے بغور مطالعہ کیا۔ جس میں حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی۔ اس زندگی میں ایسی کوئی تکلیف اور اذیت نہ تھی جو حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہ دی گئی ہو۔ یتیمی، صدمات، خاندان کا دباؤ، اہل قریش کے ظلم و ستم، مکہ والوں کا بائیکاٹ حتیٰ کہ جان لینے کی کوشش، یہ وہ ناقابل بیان واقعات ہیں جنہیں میں نے کتاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جلد اوّل میں جمع کیا ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ حضّور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ زندگی مختصراً پیش کروں جس میں آپﷺ نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے بے شمار اذیتیں اور تکالیف برداشت کیں۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر کرم کے طفیل میں چاہتا تھا کہ کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے معجزات کی سائنسی توجیہہ بیان ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے معجزات سے ہم سب واقف ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہیں لیکن میری روح کا تقاضا تھا کہ یہ بات بیان کر دی جائے کہ چاند کے دو ٹکڑے ہونے میں سائنسی علوم کیا توجیہہ پیش کرتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہو جائے کہ:

* چاند کیا ہے؟

* چاند کہاں سے نکلتا ہے اور کہاں غروب ہوتا ہے؟

* رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب چاند کو اشارہ کیا تو اس کے ٹکڑے کیسے ہو گئے؟

میرا خیال تھا کہ اگر اس معجزہ کی سائنسی توجیہہ پیش کی جائے تو دور جدید کے پڑھے لکھے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ساتھ دیگر غیر مسلم اقوام کو بھی ایک نئی روشنی ملے گی۔

اسی طرح حضّور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک میں کنکریوں نے کلمہ پڑھا۔ یہ بالکل درست ہے کہ کنکریوں نے کلمہ پڑھا لیکن!

* کنکریوں نے کلمہ کیسے ادا کیا؟

اللہ تعالیٰ کا کون سا قانون اور حکمت تھی جس کے تحت کنکریوں نے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہا؟

جب حضّور پاک صلی اللہ علیہ و سلم تجارت کے لئے تشریف لے گئے تو درخت آپﷺ کی تعظیم میں جھکے۔ پہاڑوں نے آپﷺ کی عظمت کا اقرار کیا اور کوئی بُوٹی، پودا اور پھول ایسا نہ رہا جس نے حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان اقدس میں جھک کر آپﷺ کی عظمت کا اظہار نہ کیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ:

* پودے اور درخت کیسے جھک گئے؟

میں نے کتاب محمد رسول اللہﷺ جلد دوئم میں رسول اللہﷺ کے معجزات کی موجودہ سائنسی علم کی روشنی میں توجیہہ پیش کی ہے۔ تا کہ سائنسی علوم کے حامل، تعلیم یافتہ افراد حضّور پاکﷺ کی سیرت طیبہﷺ کا مطالعہ کریں اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضّور پاکﷺ کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ نے حضّور پاکﷺ پر کتاب نازل فرمائی۔ سب جانتے ہیں کہ حضّور پاکﷺ امی نبی تھے لیکن یہ آپﷺ کی عظمت اور شان ہے کہ جس انسان نے کبھی پڑھا نہ ہو اور مدرسہ میں تعلیم حاصل نہ کی ہو، دستخط کرنا نہ جانتا ہو، اس معزز و محترم ہستی نے قرآن جیسی عظیم کتاب نوع انسانی کو عطا فرما دی۔

قرآن پاک میں ہمیں تین چیزیں ملتی ہیں۔

شریعت

تاریخ

معاد


شریعت:

شریعت اس امر سے متعلق قانون ہے کہ مسلمان اپنی زندگی کیسے گزاریں۔ کاروبار کس طرح کریں۔ والدین اور بیوی بچوں کے حقوق کیسے ادا کریں۔ قوم اور ملک کے حقوق کیا ہیں۔ مسلمانوں کی معاشرت کیسی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کا پورا قانون بیان کیا ہے۔

تاریخ:

قرآن پاک کا ایک حصہ تاریخ ہے۔ جتنے بھی پیغمبران علیہم الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے۔ اُن کی اقوام اور ادوار کا تذکرہ اس میں شامل ہے۔

* حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا تذکرہ

* حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جادو کا تذکرہ

* حضرت یوسف علیہ السلام کا تذکرہ

* حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں خواب کی زندگی کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ

* حضرت سلیمان علیہ السلام کا قصہ

* حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں زمان و مکان سے آزاد Timelessness(لازمانیت) کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ

* حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ

* حضرت عزیرعلیہ السلام کے واقعہ میں Preservationاور Refrigerationکا مکمل قانون اورفارمولا۔

میرا دل چاہتا ہے کہ قرآن پاک میں تاریخی اعتبار سے جو واقعات اور قصص ہیں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انہیں ایک جگہ جمع کر دیا جائے۔ اس فقیر کو آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے میں عاجز بندہ اس کوشش میں کامیاب ہو جاؤں۔

معاد:

قرآن پاک کا تیسرا حصہ معاد سے متعلق ہے۔

* انسان اس دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھا؟

* اس دنیا میں کس طرح اور کیوں آیا؟

* ہر پیدا ہونے والا انسان اس دنیا سے کہاں چلا جاتا ہے؟

اس Cycleکے بہت سے ادوار ہیں۔ اگر اس کا مختصراً تذکرہ کیا جائے تو ترتیب یہ بنتی ہے:

* انسان عالم ارواح میں تھا۔

* عالم ارواح کے بعد کتاب المبین میں

* کتاب المبین کے بعد لوح محفوظ میں

* لوح محفوظ کے بعد بیت المعمور میں

* بیت المعمور کے بعد عالم برزخ میں

اور

* عالم برزخ کے بعد وہ عالم ناسوت میں آ گیا

* عالم ناسوت سے عالم اعراف میں

* عالم اعراف سے نفخِ صور میں

* نفخِ صور سے عالم حشر و نشر

* عالم حشر و نشر سے یوم میزان میں( یوم الحساب)

* یوم الحساب سے جنت یا دوزخ میں

اور

* پھر ابد اور ابدالاباد میں منتقل ہو گیا۔

یہ ساری باتیں رسول اللہﷺ نے قرآن پاک میں بہت وضاحت کے ساتھ بیان کی ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ یہ سارے حقائق ابھی تک امت مسلمہ میں نوع انسانی کے سامنے نہیں آئے۔

اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے اسلاف یہ باتیں نہیں جانتے تھے۔ رسول اللہﷺ کے وارث علمائے باطن، اولیاء اللہ یہ سب باتیں جانتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ:

رسول اللہﷺ سے مجھے علم کے دو لفظ ملے۔ ایک لفظ میں نے ظاہر کر دیا اور ایک لفظ میں نے چھپا لیا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے پوچھا!

کہ علم بھی کوئی چھپانے کی چیز ہے؟

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔

اگر میں نے یہ لفظبیان کر دیا تو لوگ مجھے قتل کر دیں گے۔ 

* انہوں نے یہ علم اس لئے چھپایا کہ عام لوگوں کا شعور اس علم کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔

چودہ سو سال کے بعد نوع انسانی کے شعور میں اتنا ارتقاء ہو گیا ہے اور انسان کا ذہن اب وہ چیزیں سمجھنے لگا ہے جو وہ چودہ سو سال پہلے نہیں سمجھتا تھا۔ مثلاً ریڈیو، ٹیلی ویژن، کیمرہ، کمپیوٹر، لاسلکی نظام مواصلات، سٹیلائٹ نظام کے ذریعے زمین کے اندر اور آسمانوں کی وسعت میں دیکھ لینا وغیرہ وغیرہ۔ اگر صرف 150سال قبل لوگوں سے یہ کہا جاتا کہ ریڈیو بجتا ہے، ٹی وی پر تصویریں آتی ہیں، ڈش انٹینا کا نظام ہوتا ہے اور ان چینلز پر ساری دنیا کے پروگرام دیکھے جا سکتے ہیں اور یہ کہ کراچی سے امریکہ بات کی جا سکتی ہے اور امریکہ سے پاکستان بات کی جا سکتی ہے بلکہ ٹیلی فون کے ساتھ تصویر بھی سکرین پر آ جاتی ہے تو کوئی یقین نہیں کرتا چونکہ علم محدود تھا اس لئے انسانی شعور بھی محدود تھا۔

انسانی شعور محدود ہونے کی بناء پر ہی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے ایک لفظ جو انسانی شعور کے مطابق ہے وہ ظاہر کر دیا ہے اور جو لفظ انسانی شعور کی سکت سے باہر ہے وہ میں نے چھپا لیا ہے۔ آج چودہ سو سال بعد انسانی شعور میں اتنی سکت پیدا ہو گئی ہے کہ اگر کسی بات کو دلیل اور حکمت کے ساتھ بیان کیا جائے تو وہ بات انسان کی سمجھ میں آ جاتی ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب لوح و قلم میں فرمایا ہے۔

* میں یہ کتاب سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔

یہ کتاب سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ اب نوع انسانی کی شعوری سکت اتنی ہو گئی ہے کہ اگر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ ’’علم کا ایک لفظ میں نے چھپا لیا ہے‘‘ کو تھوڑا تھوڑا کر کے بتدریج ظاہر کیا جائے تو انسانی عقل اسے سمجھ کر اس سے استفادہ کر سکتی ہے۔

آدمی کے اندر کوئی بھی قابلیت اس کی ذاتی نہیں ہوتی۔ ہر آدمی شاعر نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فرد پر اشعار انسپائر ہوتے ہیں تو وہ شاعر بن جاتا ہے۔ اسی طرح ہر آدمی ادیب نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر کسی پر ادب انسپائر ہوتا ہے تو وہ لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ توفیق اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ انتہا یہ ہے اور اگر آپ غور و فکر کریں تو انسان کھانا بھی نہیں کھا سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھانا کھانے کی اطلاع نہ ملے۔ اگر اس کے ذہن میں پانی پینے کا خیال نہ آئے تو کوئی انسان پانی بھی نہیں پی سکتا۔ اگر دفتر جانے کا خیال نہ آئے تو کوئی انسان دفتر نہیں جا سکتا۔ اگر اس کے ذہن میں شادی کا خیال نہ آئے تو وہ شادی نہیں کر سکتا۔

دنیا کی 6ارب آبادی میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملے گی جس میں کسی فرد نے اپنی پیدائش سے لے کر موت تک 80سال کی عمر میں زندگی کا کوئی ایک عمل خیال آئے بغیر انجام دیا ہو۔ کوئی شخص اپنی پوری زندگی میں کسی ایک خواہش، جذبہ یا عمل کو بغیر خیال آئے سر انجام نہیں دے سکتا۔

* لوح محفوظ کے قانون کے مطابق ہر آدمی پندرہ سیکنڈ کے بعد ایک خیال سے دوسرے میں منتقل ہو جاتا ہے۔

80سال کی عمر میں پندرہ سیکنڈ فی خیال کے حساب سے آدمی کا ذہن کروڑوں اطلاعات موصول کرتا ہے۔ ان خیالات کے تابع آدمی کروڑوں میں سے چند امور کو سر انجام دیتا ہے۔ جب آدمی خیال آئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تو یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر  خیال آتا کہاں سے ہے۔ جیسے ریڈیو کی نشریات ایک خاص فریکوئنسی پر ریڈیو سٹیشن سے نشر ہوتی ہیں اور جب ریڈیو سیٹ اس فریکوئنسی کے مطابق آن ہو جاتا ہے تو سٹیشن کی لہریں سیٹ پر نشر ہونا شروع ہو جاتی ہیں اسی طرح جب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ زندگی کا کوئی عمل خیال آئے بغیرکیا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ خیال کہیں سے آ رہا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ خیال کہاں سے آ رہا ہے؟

* تفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ خیال اللہ تعالیٰ کی طرف سے آ رہا ہے۔

یہ انسان کے ذہن کی محدودیت ہے کہ وہ چند خیال فی ہزاروصول کرتا ہے اور ان میں بھی اپنی ذاتی اغراض شامل کر کے اس پر عمل کرتا ہے۔ مثلاً بھوک ایک تقاضا اور خیال ہے۔ اس کے لئے آدمی کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ روٹی کھائے۔ اب اس خیال کو مثبت یا منفی طرز فکر پہنانا انسان کا اختیار ہے۔ مثبت طرز فکر اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ ہے۔ جس میں آدمی محنت کر کے روٹی حاصل کرتا ہے جبکہ منفی طرز فکر شیطنت ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ اس کے تحت آدمی محنت کی بجائے چوری کر کے روٹی کھاتا ہے۔

خیال کا منبع یا سورس اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ کیلئے کہا جاتا ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتا حالانکہ انسان کی زندگی بجائے خود اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے۔ خیال نہ آئے تو زندگی منجمد ہو جائے گی۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

و نحن اقرب الیہ من حبل الورید

* ہم انسان کی رگِ جاں گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں۔

الا انہ بکل شئی محیط

* میں وہ ذات اقدس و اکبر ہوں کہ میری صفات نے تمہارا احاطہ کیا ہوا ہے۔ تم اس احاطہ سے باہر نکل ہی نہیں سکتے

قالو اناللّٰہ و انا الیہ رجعون

* ہم تو اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں

یہ ایک دائرہ ہے جس میں انسان کہیں سے آ رہا ہے اور کہیں جا رہا ہے لیکن اس کو یہ پتہ نہیں کہ وہ کہاں سے آ رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے۔

علمائے باطن کہتے ہیں

* یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وراثت یافتہ لوگ کہتے ہیں کہ پوری کائنات اللہ کا نُور  ہے۔ یہاں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ سے تعلق کے بغیر قائم ہو۔ معاد کی یہی تعریف ہے۔

معاد میں عالم ارواح بھی ہے۔ فرشتوں کی اقسام، جنات اور انسان بھی ہیں۔ معاد ہمیں بتاتا ہے کہ اس دنیا کی طرح کروڑوں دنیائیں آباد ہیں اور لاشمار کہکشانی نظام موجود ہیں۔ سات آسمان، عرش و بیت المعمور کی تفصیلات کا علم ہمیں معاد سے حاصل ہوتا ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہ پر غور و فکر کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ حضّور پاکﷺ کی زندگی کا کوئی بھی عمل حضّور کی اپنی ذات کیلئے نہ تھا۔ حضّور پاکﷺ نے جو کچھ بھی کیا وہ اللہ کے لئے کیا۔ حضّور پاکﷺ نے جو کچھ سوچا وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت و نسبت سے سوچا اور جو پیغام پہنچایا وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق پہنچایا۔

امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نبی محترمﷺ کے نقش قدم پر چل کر حضّور پاکﷺ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرے اور اس مطالعہ کے بعد جب یہ حقیقت آشکار ہو کر حضّور پاکﷺ نے جو عمل بھی کیا وہ اللہ تعالیٰ کے لئے کیا ہے تو امت کی حیثیت سے ہمارے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم بھی اپنے رسولﷺ کی سنت کی پیروی میں اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کریں۔

ہماری کسی سے دشمنی ہو تو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اگر ہماری کسی سے دوستی ہے تو اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ اگر کھانا کھائیں تو اسکےلئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور اگر پانی پئیں تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی اپنی مخلوق کی پیاس بجھانے کیلئے بنایا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کوئی احتیاج نہیں رکھتا، اللہ تعالیٰ نہ تو پانی پیتا ہے نہ کھانا کھاتا ہے اور نہ گھر میں رہتا ہے۔ یہ سارے وسائل اللہ تعالیٰ نے محبت کے ساتھ مخلوق کے لئے پیدا کئے ہیں۔

امت مسلمہ اگر اس بات پر اپنی زندگی قائم کر لے کہ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرنا ہے۔ تو ہم نہ صرف رسول اللہﷺ کی طرز فکر سے واقف ہو جائیں گے بلکہ ہمیں رسول اللہﷺ کی نسبت منتقل ہو جائے گی۔



Allah Ke Mehboob

خواجہ شمس الدین عظیمی

کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔