Topics

اللہ کے محبوبﷺ

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو جو مقام عطا کیا ہے وہ ازل تا ابد تک قائم رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اپنی جتنی نعمتیں عطا فرما سکتے تھے اللہ نے وہ نعمتیں اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم پر تمام کیں ہیں۔ محبوب رب العالمین محمد رسول اللہﷺ کے مقام پر تمام انبیاء فخر کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنی تمام نعمتیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم پر پوری کر دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ خالق کائنات ہے۔ غور طلب بات ہے کہ جتنی بڑی کائنات ہے اللہ اس سے بہت بڑا ہے۔ کائنات اتنی بڑی ہے کہ اس میں اربوں کھربوں آباد زمینیں، لاکھوں چاند، سورج اور کھربوں کہکشائیں ہیں۔ اللہ کی تعریف یہ ہے کہ اگر تمام سمندروں کی روشنائی بنائی جائے اور تمام درختوں کے قلم بنا لئے جائیں تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔

اللہ تعالیٰ نے اربوں کھربوں درخت پیدا کئے ہیں اگر حساب لگائیں کہ ایک بڑے درخت میں سے کتنے قلم بن سکتے ہیں۔ سارے درختوں کے قلم بنائے جائیں اور سارے سمندروں کی روشنائی بنائی جائے تب بھی اللہ کی باتیں پوری نہیں ہوں گی۔ البتہ اربوں سنکھوں درخت اور بے شمار سمندر ختم ہو جائیں گے لیکن اللہ کے کلمات اور نعمتوں کا شمار نہیں ہو سکتا۔ اللہ کی تعریف بیان کرنے کیلئے انسانی شعور میں سکت نہیں ہے۔ اللہ کی نعمتیں شمار نہیں کی جا سکتیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد رسول اللہﷺ پر اپنی نعمتیں تمام کیں ہیں۔ اس سے سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ ساری کائنات سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعارف کیلئے بنائی اور اس دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے ان تعلیمات کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی عنوان سے ایک اور بات ضرور کہی کہ میرے بعد آخر میں ایک اور نجات دہندہ آئے گا اور یہ سلسلہ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ختم ہوا۔ یعنی ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر نقارہ بجا کر یہ اعلان کرتے رہے کہ محمدﷺ آئیں گے۔ کسی نے آپ کا کوئی نام بتایا کسی نے نجات دہندہ کہا اور کسی نے فارقلیط رکھا سب کا مقصد اور منتہا حضّور پاکﷺ کی ذات گرامی تھا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے ان پیغمبروں کے ذریعے اپنے حبیبﷺ کا تعارف کرایا۔ پیغمبروں کے مبعوث ہونے کے درمیان کتنا وقفہ رہا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام 2ہزار سال پہلے تشریف لائے تھے اور ان کے 500سال بعد سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان 5سو سال کا وقفہ رہا اگر ایک لاکھ چوبیس ہزار کو 500سے ضرب دی جائے تو قریباً اتنے عرصہ تک اللہ تعالیٰ نے اس آباد دنیا کو بنا سجا کر رکھا اور ہر پانچ سو یا ہزار سال بعد اللہ تعالیٰ نے ایک پیغمبر اس لئے بھیجا کہ نوع انسانی کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کا حبیب آ رہا ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے مابین کروڑوں سال بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کی تشہیر اور رونمائی کے لئے کروڑوں سال پر محیط عرصہ کا انتظا ر و اہتمام کیا اور اپنے اس محبوبﷺ کی رونمائی کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ بے شمار صحیفے اور آسمانی کتابیں نازل فرمائیں۔ 

ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء، اللہ کے دوست بے شمار اولیاء کرام اور ان کے کروڑوں پیروکار ایک ہی اعلان کی تکرار کرتے رہے کہ انتظار کریں اللہ کا محبوبﷺ آئے گا۔

رسول اللہﷺ کے ماننے والوں کی تعداد ایک ارب ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے ماننے والے افراد کی مجموعی تعداد کا اندازہ یا شمار کیا جائے تو یہ حساب و کتاب ایک ناممکن عمل ہے۔ کوئی شخص آپ کو وہ تعداد نہیں بتا سکتا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی آمد کا اعلان کیا۔ کمپیوٹر سے بھی انسان کی علمی استعداد کے مطابق ہی حساب کیا جا سکتا ہے جو زیادہ سے زیادہ ارب، کھرب اور سنکھ درسنکھ ہے۔ انسانی شماریات کا کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس سے یہ کہا جا سکے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کی آمد کا اعلان کتنے افراد سے کروایا ہے۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی روایات کو قائم رکھا اور اللہ کی توحید اور اچھائی و برائی کا پرچار کیا اور بت پرستی، جھوٹ، لڑائی و فساد سے منع فرمایا۔ آپﷺ نے ہر وہ بات فرمائی جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء نے کی لیکن ایک بات نہیں دہرائی کہ میرے بعد کوئی اور نجات دہندہ بھی آئے گا۔ بلکہ اللہ کی آواز میں رسول اللہﷺ نے واشگاف انداز میں یہ فرمایا کہ وہ خاتم النبیین ہیں۔ آپﷺ کے ساتھ ہی نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ کروڑوں سال اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کرایا ہے۔

اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں آنے والے ہیں۔

یہ اعلان اس لئے ہوتا رہا کہ انسانوں کے اندر حضورﷺ کو جاننے،

ماننے اور پہچاننے کا شعور بیدار ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کا نام بھی محمد رکھا۔۔۔۔۔۔محمد کے معنی ہیں، تعریف کیا ہوا۔ حضّور پاکﷺ کی ساری زندگی تعریف شدہ ہے اور کائنات میں صرف نبی کریم، صادق و امین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک ایسی ہستی ہیں جن کی تعریف خود اللہ نے کی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں!

* اور ہم نے اپنے محبوب بندے کو اپنا قرب اور وصل عطا کیا

اور اپنے محبوب سے راز و نیاز کی باتیں کیں

یہ خواب و خیال نہیں ہے

بلکہ ہمارے محبوب نے جو دیکھا اور سناسب حقیقت ہے۔

میرے آقاﷺ کیلئے کروڑوں سال سے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس بات کا اعلان کرتے رہے کہ اللہ کا بندہ آئے گا اور نوع انسانی کے شعور کو اس بات کیلئے تیار کرتے رہے کہ اللہ کا بندہ آنے والا ہے۔ جب یہ کام پورا ہو گیا تو اللہ کے حبیبﷺ تشریف لے آئے۔ پندرہ سو سال میں سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعریف و توصیف میں ہزاروں کتابیں، لاکھوں صفحات اور اربوں کھربوں الفاظ لکھے گئے ہیں اور قیامت تک لکھے جاتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ اور ان پڑھ رسول کی شان اس طرح بیان فرمائی کہ آپﷺ کی بلند تر تعریف و توصیف قرآن پاک میں موجود ہے۔

پندرہ سو سال سے قرآن پاک کی تفاسیر لکھی جا رہی ہیں۔ ہر آدمی جو قرآن پاک کو سمجھنے کی کوشش کر کے اس کی تفسیر لکھنے کی سعی کرتا ہے اور جتنی گہرائی میں وہ قرآن پاک پر تفکر کرتا ہے اتنا ہی قرآن پاک کے انوارات سے اس کا دماغ روشن ہو جاتا ہے اور بالآخر وہ آدمی ان روشنیوں اور انوار سے معمور ہو کر گم سم اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔

ہم مسلمان ایک ذیشان پیغمبرﷺ کے امتی ہیں اور سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارا وسیلہ ہیں۔ یہ ہمارا افتخار ہے کہ ہم اللہ کے محبوب و برگزیدہ بندے کی امت میں ہیں۔ جس محبوب کے تعارف کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔

مسلمانوں نے اس نسبت اور نعمت کا کتنا احترام کیا ہے اور

ہم نے اس نعمت اور قرآن سے کتنا فائدہ اٹھایا ہے؟

یہ لمحۂ فکریہ ہے۔

رسول اللہﷺ کی پیدائش سے بعثت تک اور بعثت سے وصال تک زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ آپﷺ کی حیات مبارکہ اور سیرت طیبہ کی کوئی بات مخفی نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ نے جو کچھ فرمایا وہ ہم سب نے سنا بھی ہے اور سب کو زبانی یاد بھی ہے لیکن امت مسلمہ نے آپﷺ کی سیرت مبارکہ کو اپنی عملی زندگی میں کتنا اپنایا ہے اور قرآن پاک کی صورت میں موجود آپﷺ پر اللہ کی نعمت سے کیا فائدہ اٹھایا ہے؟ اس کا اندازہ آج مسلمان کی حالت و زار دیکھ کر باآسانی ہو جاتا ہے۔

مسلمان دنیا کی پست ترین قوم شمار ہوتی ہے۔ فساد، خون ریزی، ملاوٹ، غیبت، سیاسی قلابازیاں، جھوٹ، سودی لین دین کے ساتھ اللہ کا دشمن بننا۔۔۔۔۔۔مسلمانوں کا عام رویہ ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھا سچا مسلمان بننے کی توفیق دے۔ ہمیں نبی محترم حضرت محمدﷺ کے اخلاق حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

رسول اللہﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری سے نوع انسان کی شعوری وسعت کو معراج ملی۔ اگر ہم رسول اللہﷺ کی زندگی پر غور کریں اور رسول اللہﷺ کی پیدائش سے لے کر شعور کی پختگی تک زندگی کو قدرے اختصار سے بیان کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ رسول اللہﷺ نے ہمیشہ اللہ کی آیات اور نشانیوں پر غور و فکر کیا اور مسلمانوں کو یہی درس دیا ہے۔ شعوری وسعت پیدا کرنے کیلئے تفکر ایک ضروری عمل اور رسول اللہﷺ اور تمام انبیاء کرام علیہ السلام کی سنت ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اولی الالباب لوگوں کی نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ اللہ کی آیات، انسان کی پیدائش، مخلوقات کو زندگی قائم رکھنے کیلئے زمین پر موجود اللہ کے عطا کردہ وسائل اور الہامی کتب پر غور و فکر کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی سیرت پر عمل کرتے ہیں۔ اگر امت مسلمہ دین اور دنیا کی سربلندی میں سرخرو ہونا چاہتی ہے تو اسے حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت پر عمل کر کے اللہ کی نشانیوں پر غور و فکر کرنا ہو گا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اللہ نے سمٰوات، زمین اور ان میں موجود وسائل اور چیزیں انسان کے لئے مسخر کر دی ہیں۔

اے میری قوم۔۔۔۔۔۔میرے آقا نبی مکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کی بدنصیبی ہے کہ وہ آج اس عظیم نعمت سے محروم ہو گئے ہیں جو امت کی حیثیت سے ہمارا ورثہ ہے۔ تمام انبیاء کی تعلیمات میں یہ بات شامل رہی ہے کہ ہمارے بعد اللہ تعالیٰ کا ایک خاص بندہ اور نوع انسانی کا نجات دہندہ آئے گا یہاں تک رسول اللہﷺ تشریف لے آئے۔

آپﷺ نے انبیاء سابقین کیلئے فرمایا کہ میں کوئی نئی بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں وہی بات کہہ رہا ہوں جو انبیاء نے فرمائی ہے۔ 

آپﷺ نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جب فرمایا کہ میں نے اپنی تمام نعمتیں پوری کر دی ہیں اور دین کی تکمیل کر دی ہے تو اس ارشاد کا بھی یہی مفہوم ہے کہ حضّور کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا کیونکہ دین کی تکمیل ہو چکی اور نعمتیں پوری کر دی گئی ہیں۔ ہمارے اوپر اللہ کا خصوصی انعام ہے کہ ہم اللہ کے محبوبﷺ کے امتی ہیں۔

مسلمان ایک ایسی مبارک ہستی کے امتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے معراج میں اپنے قرب سے نوازا اور راز و نیاز کی باتیں کیں۔ مسلمان آج ان کی امت ہونے کے دعویدار تو ہوتے ہیں لیکن قرآن پاک موجود ہوتے ہوئے بھی اس پر غور و فکر اور عمل نہیں کرتے۔

رسول اللہﷺ کا یوم میلاد ہمیں اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کی زندگی پر غور فکر کر کے اس پر عمل کریں۔

* لیکن جب مسلمان آپﷺ کی زندگی پر غور و فکر ہی نہیں کرتے تو عمل کیسے کریں گے؟

اس دنیا میں جتنے بھی انبیا کرام تشریف لائے اور جتنی بھی الہامی کتابیں نازل ہوئیں اور قرآن پاک میں جتنے بھی انبیاء کرام کے قصص موجود ہیں ان سب میں ایک بات تسلسل سے ملے گی کہ تمام انبیاء کرام کی طرز فکر ایک ہے اور

وہ طرز فکر یہ ہے کہ

* اس کائنات کا خالق اللہ ہے جو کائنات کو مسلسل Feedکر رہا ہے۔ تمام انبیاء کی تعلیمات وحدانیت کا درس دیتی ہیں تا کہ تمام لوگ صرف ایک اللہ کے سامنے جھکیں۔ ایک اللہ کی عبادت کریں۔ ایک اللہ کے اوپر بھروسہ کریں اور اللہ کے محبوبﷺ سے محبت کریں ان کے نقش قدم پر چلیں۔

* جب مسلمان انبیاء کرام اور رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کر کے غور و فکر کریں گے تو رسول اللہﷺ کی طرز فکر منتقل ہو جائے گی۔

اگر ہمیں رسول اللہﷺ کی طرز فکر منتقل ہو جائے تو رسول اللہﷺ کی امتی ہونے کی حیثیت سے ہم اللہ کا تعارف حاصل کر لیں گے۔ رسول اللہﷺ کی طرز فکر قرآن پاک میں یہ بتائی گئی ہے کہ

* بندہ اللہ کو دیکھ سکتا ہے

اللہ سے قریب ہو سکتا ہے

اللہ کا دوست بن کر غم اور خوف سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔

رسول اللہﷺ ہر چیز اور ہر بات کو منجانب اللہ یا اللہ کی نسبت سے جانتے ہیں۔ آپﷺ کی سنت مبارکہ میں یہ بات شامل ہے کہ آپﷺ ہر بات کا رخ ارادی و غیر ارادی طور پر اللہ کی طرف موڑ دیتے تھے اگر ہمیں رسول اللہﷺ کی یہ طرز فکر حاصل ہو جائے کہ ہم ہر بات کا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف موڑ دیں تو مسلمان کو اللہ کی دوستی کا شرف مل جائے گا اور جب اللہ سے دوستی ہو جائے گی تو توہمات، تفکرات، پریشانیوں اور وسوسوں سے نجات مل جائے گی۔

رسول اللہﷺ کی طرز فکر یہ ہے

کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے

سب کچھ وقت معینہ کے بعد اللہ کی طرف لوٹ جائیگا۔


Allah Ke Mehboob

خواجہ شمس الدین عظیمی

کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔