Topics
آدمی معین مقداروں سے تخلیق ہوا ہے، اس تخلیق میں معین مقداریں (لہریں زندگی بنتی
ہیں۔ یہ لہریں نہ ہوں تو زندگی موت بن جاتی ہے، ہمارا مشاہدہ ہے کہ متعین طول موج
سے کم یا زیادہ فریکوئنسی کی آواز آدمی نہیں سن سکتا۔ دن کی روشنی میں آدمی زیادہ
دور دیکھ لیتا ہے، جب کہ رات کی تاریک روشنی میں آدمی کم دیکھتا ہے، کتے بلیوں میں
آدمی سے زیادہ قوت شامہ ہے، آدمی کی جسمانی قوت حیوانات سے کم ہے لیکن پھر بھی ہر
شئے ہر آدمی کو فوقیت حاصل ہے کیوں؟
اس لئے کہ انسانی دماغ
میں بجلی زیادہ ذخیرہ ہوتی ہے، انسانی دماغ جو ایک چھوٹا سا عضو ہے سائنس دان اسے
تمام تر صلاحیتوں، قوت اور توانائی کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں، اس میں معلومات اکھٹا
کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہے، سب سے بڑھ کر یہ جمع شدہ معلومات سے نئی نئی اچھوتی
اور انوکھی باتوں کو جنم دیتا ہے لیکن اگر بجلی کی رو نہ آئے تو لوہے سے بنے ہوئے
ایسے روبوٹ کی طرح ہے، جس میں کرنٹ نہ ہو۔
جب آدمی زمین پر نہیں تھا
تو ایسی جگہ تھا جہاں اسے ہر چیز بغیر مشقت کے مل جاتی تھی، اسے محنت مشقت کی عادت
نہیں تھی، زمین پر آنے کے بعد اسے مشقت بھری زندگی ملی، انسان کی ہمیشہ یہ خواہش
رہی ہے کہ وہ جنت کی زندگی گزارے، جنت کی زندگی کی خواہش نے اسے بے چین کیا ہوا
ہے، یہ بے چینی رنگ لائی اور انسان نے خفیہ صلاحیتوں کو اجاگر کر کے ایسی مشین
ایجاد کر لی جس سے کام لے کر وہ مشقت کی زندگی سے بے نیاز ہو جائے، یہ سب تو ہوا
مگر آدمی نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ خفیہ صلاحیتوں کا مخزن کیا ہے؟ ان صلاحیتوں
کو متحرک کرنے کے لئے کرنٹ کہاں سے آتا ہے؟ پہیہ کی ایجاد کے بعد انسان پر سہولتوں
کے حصول کی راہ ہموار ہو گئی اور وہ قدم قدم آگے بڑھتے ہوئے کمپیوٹر ایج میں داخل
ہو گیا۔ اب انسان اس حقیقت سے واقف ہو گیا ہے کہ کوئی بھی مشین صلاحیتوں کے بغیر کام
نہیں کر سکتی، انسان جب سے دنیا میں آیا ہے وہ جنت کو زمین پر اتار لینے کے لئے
کوشاں ہے۔
جیسے اس نے تفکر کیا،
انسان کے اندر نصب شدہ کمپیوٹر اس کی رہنمائی کرتا رہا نتیجہ میں روبوٹ ایجاد ہو
گئے، انسان ایک ہی کام کرتے کرتے اکتا جاتا ہے جب کہ روبوٹ دن رات ایک ہی کام کو
دہرا سکتا ہے، روبوٹ انسانوں کے مقابلے میں موسمی تغیرات سے کم متاثر ہوتے ہیں،
امریکہ اور یورپ کی بیشتر فیکٹریوں میں روبوٹ سے کام لیا جا رہا ہے، ویلڈنگ،
پینٹنگ، مولڈنگ اور چیزیں اٹھانے اور رکھنے کا کام کرنے والے صنعتی روبوٹ انسانوں
کی طرح کام کرتے ہیں لیکن اگر سوئچ آن نہ کیا جائے تو یہ حرکت نہیں کرتے، ان کی ہر
حرکت کو برقی آلات کے ذریعہ ایک بورڈ کنٹرول پینل سے متعین کیا جاتا ہے، سوئچ آف
کر دیا جائے تو کنٹرول پینل سے انفارمیشن کی سپلائی منقطع ہو جاتی ہے اور روبوٹ کی
حرکت ختم ہو جاتی ہے۔
یہی صورتحال انسان کی بھی
ہے، انسان کو زندگی اور زندگی کے تقاضوں کے بارے میں اطلاعات فراہم نہ ہوں تو اس
کے اندر کرنٹ کی سپلائی بند ہو جاتی ہے، زراعت، تعمیرات، نیو کلیئر پلانٹ، انتہائی
حساس اور خطرناک شعبوں کے علاوہ خلائی تحقیق میں بھی روبوٹوں سے استفادہ کیا جا
رہا ہے۔ اعداد و شمار کا ریکارڈ مرتب کرنے والے روبوٹ سے شروع ہونے والی ریسرچ اس
مقام تک پہنچ چکی ہے کہ انسانی دماغ میں موجود صلاحیتوں کا حامل روبوٹ بنانے کا
کام ہو رہا ہے۔
ہزاروں سال کی کاوش کے
بعد بھی جس مقام پر سائنٹسٹ نہیں پہنچ سکے مسلمان قرآن میں تفکر کر کے وہ مقام
حاصل کر لیتا ہے:
’’اور جب تو بناتا مٹی سے
جانور کی صورت میرے حکم سے پھر دم مارتا اس میں تو ہو جاتا جانور میرے حکم سے اور
چنگا کرتا ماں کا پیٹ کا اندھا اور کوڑھی کو میرے حکم سے اور جب نکال کھڑا کرتا
مردے میرے حکم سے۔‘‘
(سورۃ المائدہ۔ ۱۱۰)
روبوٹ لوہے سے بنی ہوئی
ایک ایسی مشین ہے جس میں ذاتی حرکت نہیں ہے، سوئچ آن ہوتے ہی روبوٹ کرنٹ کا دباؤ
محسوس کرتا ہے اور الیکٹران کا بہاؤ روبوٹ کے کل پرزوں میں دوڑنے لگتا ہے۔ روبوٹ
کے اندر نصب کمپیوٹر برقی اطلاع کے تحت ہاتھ متحرک کرنے والے کل پرزوں کو حرکت
دیتا ہے اور روبوٹ ہاتھ اٹھا دیتا ہے، کمپیوٹر میں اطلاع موصول کرنے، قبول کرنے
اور تعمیل کرنے کا ایسا نظام ہے جسے رد نہیں کر سکتا، کل پرزوں میں دوڑنے والی
برقی رو اگر روبوٹ میں ہے تو روبوٹ چلنے اور کام کرنے پر مجبور ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ مٹی سے چڑیا
بناتے تھے اور پھر اس میں پھونک مار دیتے تھے اور مٹی سے بنائی ہوئی چڑیا اڑ کر
درخت پر جا بیٹھتی تھی، مٹی سے بنی ہوئی چڑیا اور لوہے سے بنے ہوئے روبوٹ میں کیا
فرق ہے؟ فرق یہ ہے کہ روبوٹ میں بجلی کرنٹ بن رہی ہے اور چڑیا میں پھونک ’’جان‘‘
بن رہی ہے۔
حضرت محمدﷺ کا اعجاز ہے
کہ امت مسلمہ کے لئے بالخصوص اور تمام نوع انسانی کے لئے بالعموم آپﷺ نے تسخیر
کائنات کے فارمولے بیان کئے ہیں۔ ہر انسان یہ جانتا ہے کہ انسانی جسم میں اگر روح
نہ رہے تو جسم روح کے بغیر روبوٹ کے علاوہ کچھ نہیں، انسان خلاء ہے، خلاء میں روح
ہے، روح میں حرکت ہے، حرکت میں کرنٹ ہے، کرنٹ توانائی ہے، ہر شئے میں توانائی برقی
رو ہے، برقی رو اللہ کا نور ہے۔
’’اے پیغمبرﷺ! یہ لوگ آپﷺ
سے پوچھتے ہیں کہ روح (یعنی زندگی) کیا ہے؟ آپﷺ انہیں بتا دیجئے روح (زندگی) میرے
رب کے امر سے ہے تمہیں اس کا علم دیا گیا ہے مگر قلیل علم دیا گیا ہے۔‘‘
ہم اس علم سے استفادہ کر
سکتے ہیں، علم کا حصول اس بات کا متقاضی ہے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے، اس کا
مظاہرہ ہو، مزید وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اس کا امر یہ ہے کہ وہ
جب کسی چیز کے بنانے کا ارادہ کرتا ہے تو اس چیز سے کہتا ہے ’’ہوجا‘‘ اور وہ
’’ہو‘‘ جاتی ہے۔‘‘
روحانی سائنسی فارمولہ یہ
بنا، انسان خلاء ہے، خلاء میں روح ہے، روح میں خالق کائنات کا امر ہے اور امر یہ
ہے کہ جب وہ کسی چیز کو تخلیق کرنا چاہتا ہے تو کہتا ہے ہو جا اور وہ مخلوق کے روپ
میں ظاہر ہو جاتی ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں
قرآن شریف دلیل میں کہتا ہے کہ:
’’اور جب تو بناتا مٹی سے
جانور کی صورت میرے حکم سے پھر دم مارتا اس میں تو ہو جاتا جانور میرے حکم سے،
چنگا کرتا ماں کے پیٹ کا اندھا اور کوڑھی کو میرے حکم سے اور جب نکال کھڑا کرتا
مردے میرے حکم سے۔‘‘
(سورۃ المائدہ۔ ۱۱۰)
حق الیقین کے لئے حضرت
عزیرؑ کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہے:
’’وہ جس کا گزر ایک بستی
پر ہوا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی، اس نے کہا بھلا اللہ اس کو اس کے فنا ہو
چکنے کے بعد کس طرح زندہ کرے گا؟
للہ نے اس کو سو سال کی
موت دے دی، پھر اس کو اٹھایا، پوچھا کتنی مدت اس حال میں رہے؟ بولا ایک دن یا اس
دن کا کچھ حصہ، فرمایا تم پورے سو سال اس حال میں رہے اب تم اپنے کھانے پینے کی
چیزوں کی طرف دیکھو، ان میں سے کوئی چیز سڑی نہیں ہے اور اپنے گدھے کو دیکھو ہم اس
کو کس طرح زندہ کرتے ہیں تا کہ تمہیں اٹھائے جانے پر یقین ہو اور تا کہ ہم تمہیں
لوگوں کے لئے نشانی بنائیں اور ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ کس طرح ہم ان کا ڈھانچہ کھڑا
کرتے ہیں۔ پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، پس جب اس پر حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی وہ
پکار اٹھا میں تسلیم کرتا ہوں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
(سورۃ البقرہ۔ ۲۵۹)
گدھا اس وقت زندہ ہے جب
اس میں روح ہے، مردہ گدھا خلاء ہے اور سو سال کے بعد جب اس خلاء میں روح (کرنٹ یا
زندگی) ڈال دی گئی تو گدھا پھر زندہ اور متحرک ہو گیا۔
عالم امر کا مظاہرہ دیکھ
کر حضرت عزیرؑ پکار اٹھے:
’’تسلیم کرتا ہوں کہ بے
شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
برقی کرنٹ اور زندگی کے
بغیر ساٹھ سال کا ایک آدمی بستر پر دراز ہے، سر اور سر کے اندر دماغ ہے، ہڈیوں کے
پنجرے میں دل گردے اور دوسرے اعضاء ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ہاتھ، پیر،
بازو اور ٹانگوں کے جوڑ ایک دوسرے میں پیوست ہیں آکسیجن لینے کے لئے ناک کے نتھنے
کھلے ہوئے ہیں۔ سانس لینے کا ذریعہ منہ اور حلق بھی ہیں، ان سب کے باوجود انسانی
مجسمہ میں حرکت نہیں ہے، یہ ایک ایسے سائنسدان کی لاش ہے جس کی ایجادات میں
کمپیوٹر جیسی مشین بنائی، روبوٹ بنائے، لاسلکی نظام سے دنیا کو بہت چھوٹا کر دیا
ہے لیکن بستر پر دراز اس سائنٹسٹ کے اندر اب کوئی حرکت نہیں ہے، دماغ ہے مگر بے
کار ہے، دل ہے مگر دھڑکن نہیں، شریانیں ، وریدیں ہیں لیکن خون کا دوران مفقود ہے،
آنکھیں ہیں، آنکھوں کے عضلات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی مگر آنکھیں اندھی ہیں،
ہاتھ میں پانچوں انگلیاں ہیں مگر قلم پکڑنے کی سکت نہیں ہے، پیر ہیں مگر یہ عظیم
سائنٹسٹ کھڑا نہیں ہو سکتا، ایسا کیوں ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جسم
کے اندر سسٹم فیوز ہو گیا ہے، فضا میں بجلی ہے، آکسیجن ہے مگر جسم مردہ ہے تو کیا
پھر انسان روشنیوں سے چل رہا ہے، روشنی سے جل بجھ رہا ہے؟ قرآن اس سائنس کو اس طرح
بیان کرتا ہے:
’’اللہ نور ہے آسمانوں
اور زمین کا۔ اس نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے، اس میں ایک چراغ ہے، وہ
چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ
فانوس گویا ایک ستارہ ہے، موتی کی طرح چمکدار اور روشن ہے، برکت والے پیڑ زیتون سے
جس کا نہ مشرق ہے، نہ مغرب ہے، قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگرچہ اسے آگ نہ
چھوئے نور پر نور ہے اور اللہ اپنے نور کے راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ
مثالیں بیان فرماتا ہے لوگوں کے لئے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔‘‘
(النور۔ ۲۵)
جب انسان قرآن کے بیان
کردہ اس فارمولے سے واقف ہو جائے گا تو اسے بھاری بھر کم لوہے کے بنے ہوئے روبوٹ
کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، اسے سوئچ آن آف نہیں کرنا پڑے گا، اس کی سوچ روبوٹ کا
کام کرے گی، وہ جو چاہے گا ہو جائے گا اور جب چاہے گا ہو جائے گا۔
’’اور جب تو بناتا مٹی سے
جانور کی صورت میرے حکم سے پھر دم مارتا اس میں تو ہو جاتا جانور(زندہ) میرے حکم
سے۔‘‘
(القرآن)
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے