Topics
اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو اس کے باپ آدم کا ورثہ منتقل کیا ہے۔ یہ وہ علم ہے
جو آدم کے علاوہ کائنات میں کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے۔
الٰہی سائنس کا یہ علم
آدم کو اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ثنائی، اللہ کی حاکمیت، اللہ کی
قدرت اور اللہ کی ربوبیت کا ادراک حاصل کرے اس کے برخلاف وہ جو بھی سوچ ہے، جو بھی
تفکر ہے، جو بھی علم ہے، وہ سب خود فریبی اور سراب ہے۔
انسانی دماغ میں حواس
خمسہ کی اطلاعات موجود رہتی ہیں یا اطلاعات حواس خمسہ بنتی ہیں، حواس خمسہ اعصاب
کے ذریعے دماغ میں نصب کروں تک پہنچ کر نقش ہو جاتے ہیں، یہی وہ یاداشتیں ہیں
جنہیں حافظہ کہا جاتا ہے، دماغ کے یہ دو کڑے جو دائیں طرف اور بائیں طرف واقع ہیں۔
انسانی زندگی کے تمام احساسات کو جو پیدائش سے لےکر موت تک کے حالات پر مشتمل ہیں
یاد رکھتے ہیں، کوئی مضمون نگار جب کوئی مضمون لکھتا ہے یا کوئی شاعر جب شعر کہتا
ہے تو دماغ کے پچھلے حصے میں جہاں گردن کے اوپر ابھار ہوتا ہے، تحریکات ہوتی ہیں
اور یہ تحریکات لہروں کی شکل میں وارد ہوتی ہیں، انسان جب کوئی کام کرتا ہے، کچھ
سوچتا ہے، کوئی حرکت کرتا ہے تو دراصل ریڈھ کی ہڈی میں موٹا تار (حرام مغز) کرنٹ
کی گزرگاہ بن جاتا ہے اور حرکت اس کا مظاہرہ ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی عمل، کوئی
فعل، کوئی حرکت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک حرام مغز میں کرنٹ کا صحیح بہاؤ نہ
ہو۔ یہ کرنٹ نظام کائنات میں جاری و ساری لہریں ہیں، آواز کیا ہے؟ آواز تو لہروں
کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور یہ ساری کائنات آواز کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
یہی آواز لہروں میں منتقل
ہو کر معلومات بنتی ہیں، معلومات اور اطلاع کے بغیر کائنات کے وجود کا تذکرہ ممکن
نہیں ہے، انسان کی زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں معلومات کے علاوہ زندگی میں
کچھ بھی نہیں ملتا، ہمارا پیدا ہونا، جوان ہونا، بوڑھا ہونا، خورد و نوش کی ضرورت
کو پورا کرنا ، سونا، جاگنا، رزق تلاش کرنا، پڑھنا، لکھنا، عروج و زوال کی راہ کا
متعین ہونا سب معلومات پر قائم ہے۔
اوسط عمر اگر ساٹھ سال ہو
تو ایک آدمی بارہ کروڑ اکسٹھ لاکھ چوالیس ہزار سال معلومات میں زندگی گزارتا ہے
یعنی اوسط عمر میں معلومات کا دورانیہ بارہ کروڑ اکسٹھ لاکھ چوالیس ہزار سال ہو
تقریباً پونے تیرہ کروڑ اطلاعات پیدائش سے موت تک انسانی زندگی کا سرمایہ ہیں،
چونکہ انسان زندہ رہنے کے قانون سے واقف نہیں ہے اس لئے ۹۵ فیصد اطلاعات یا ۹۵ فیصد زندگی ضائع ہو جاتی
ہے، یہ اطلاعات قدرت کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق قبول کی جائیں اور ان پر عمل
درآمد ہو جائے تو انسان اشرف المخلوقات ہے، اگر ایسا نہ ہو (جیسا کہ عام طور
پرنہیں ہوتا) تو انسان اشرف المخلوات کے دائرہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔
کوئی اطلاع یا کسی شئے کا
علم ہمیں لازمانیت سے موصول ہوتا ہے یہ لازمانیت نئی نئی اطلاعات، زمانیت(وقت) کے
اندر ارسال کرتی رہتی ہے، اگر ہم لازمانیت کو ایک نقطہ سے تشبیہ دیں تو یوں کہیں گے کہ اس نقطہ میں کائنات کا یکجائی
پروگرام نقش ہے، لہروں کے ذریعے اس نقطہ سے جب کائنات کا یکجائی پروگرام نشر ہوتا
ہے توحافظہ سے ٹکرا کر بکھرتا ہے، بکھرنے ہی ہر لہر ایک مختلف شکل وصورت میں
تصویری خدوخال اختیار کر لیتی ہے، لہروں کا حافظہ کی سطح پر آ کر بکھرنا ہی وقت کو
وجود میں لاتا ہے، چونکہ حافظہ جبلی طور پر (فطری طور پر نہیں) محدود ہے اس لئے
تصویر کے مابین فاصلہ بن جاتا ہے اس فاصلہ کا دوسرا نام دوری کا احساس اور وقت کی
طوالت ہے، اگر ہم اس نقطے کو تلاش کر لیں جہاں کائنات کا یکجائی پروگرام نقش ہے تو
فاصلہ کالعدم ہو جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے