خطبہ حجتہ الوداع
ہجرت کے دسویں سال حضرت محمدﷺ نے حج کا ارادہ فرمایا۔ لوگوں کو جب پتہ چلا کہ حضرت محمدﷺ حج کے لئے مکہ تشریف لے
جا رہے ہیں تو مدینہ منورہ اور عرب کے دیگر شہروں کے مسلمان حج کے لئے تیار ہو
گئے۔ حضرت محمدﷺ مسلمانوں کے ہمراہ حج
کےلئے مدینے سے مکہ تشریف لائے۔
حضرت محمدﷺ نے مناسک حج ادا کئے اور ۹ ذی الحج ۱۰ہجری کو جب سورج ڈھل گیا، حضرت محمدﷺ اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہو
کر میدان عرفات میں تشریف لائے۔ وہاں حضرت محمدﷺ نے تاریخی خطبہ دیا۔ جو خطبہ
حجتہ الوداع کہلاتا ہے۔ حضرت محمدﷺ نے اپنے خطبے میں دین کی تعلیمات کا
نچوڑ اس طرح بیان فرمایا کہ وہ رہتی دنیا تک نوع انسان کے لیے مشعل راہ ہے۔
حضرت محمدﷺ نے بہت بڑے اجتماع سے فرمایا:
”لوگو!۔۔۔۔۔ میری بات غور
سے سنو!
کیونکہ شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں پھر تم سے نہ مل سکوں۔
اے لوگو! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت
سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قبیلے اس لئے ہیں
کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک
تم میں عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔اس لیے
کسی عربی کو کسی عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں،اسی
طرح
کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر فضیلت نہیں۔
اے لوگو!۔۔۔۔۔۔۔
آج اس مہینے کی تم جس طرح حرمت کرتے ہو اسی طرح ایک
دوسرے کا نا حق خون نہ کرنا اور کسی کا مال لینا تم پر حرام ہے۔
خوب یاد رکھو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہ
تمہارے سب کاموں کا پورا جائزہ لے گا۔
اے لوگو!۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح تمہارے حقوق عورتوں پر ہیں اُسی طرح تم پر تمہاری
عورتوں کے حقوق ہیں۔ ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا۔
غلاموں سے اچھا برتاؤ کرنا۔ جیسا تم کھاتے ہو ویسا ان کو کھلانا۔
جیسے تم کپڑے پہنتے ہو ویسے ہی کپڑے ان کو پہنانا۔ اگر ان
سے کوئی خطا ہو جائے اور تم معاف نہ کر سکو تو ان کو اپنے سے
جدا کر دینا کیونکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ ان کے ساتھ
سخت برتاؤ نہ کرنا۔
لوگو!۔۔۔۔۔۔۔
میری بات غور سے سنو، خوب سمجھو اور آگاہ ہو جاؤ۔ جتنے
کلمہ گو ہیں سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ سب مسلمان
اخوت کے سلسلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ تمہارے بھائی کی چیز
تم کو اس وقت تک جائز نہیں جب تک وہ خوشی سے نہ دے
خبردار!
جہاہلیت کے زمانے کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے
کچل دی گئی ہیں زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں۔
خبردار!
نا انصافی کو پاس نہ آنے دینا۔میں نے تم میں ایک ایسی
چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے
اور اس پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ چیز اللہ تعالیٰ
کی کتاب (قرآن) ہے۔میرے بعد کوئی نبی نہیں اور
تمہارے بعد کوئی نئی اُمت نہیں۔
خبردار! ۔۔۔۔۔
اپنے رب کی عبادت کرتے رہو، صلٰوۃ قائم کرو۔ ماہ رمضان
کے روزے رکھو۔ اپنے اموال کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا
کرتے رہو۔ اپنے رب کے گھر کا طواف کرو۔ مذہب میں غُلو
اور مبالغے سے بچو۔ کیونکہ تم سے پہلی قومیں اس عمل سے
برباد ہوچکی ہیں۔
خبردار! ۔۔۔۔۔
میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا
تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا۔
اے لوگو! ۔۔۔۔۔۔۔۔
تم سے میرے متعلق سوال کیا جائے گا۔ تو بتاؤ تم کیا کہو گے؟“
لوگوں نے عرض کیا:
”ہم گواہی دیں گے کہ آپ ﷺ
نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہمیں
پہنچا دیا ہے اور اپنا فرض پورا کردیا ہے۔“
آپ ﷺ نے انگُشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا پھر لوگوں کی طرف جھکا
کر فرمایا:
”یا اللہ تو گواہ ہے۔“
پھر فرمایا:
”خبردار! ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو حاضر
ہیں وہ یہ کلام ان لوگوں تک پہنچا دیں
جو یہاں نہیں ہیں خواہ وہ اس وقت موجود ہیں یا آئندہ پیدا ہونگے
کیونکہ بہت سے وہ لوگ جن کو میرا کلام پہنچے گا تو وہ سننے والوں
سے زیادہ اسکی حفاظت کریں گے۔“
خطبہ کے بعد حضرت محمدﷺ نے حج کے بقیہ ارکان ادا فرمائے اور مدینہ
تشریف لے گئے۔ ہجرت کے گیارہویں سال حضرت محمدﷺ علیل ہو گئے اور ربیع الاول کے
مہینے میں حضرت محمدﷺ نے پردہ فرمایا۔ وصال کے وقت حضرت محمدﷺ کی عمر مبارک ۶۳ سال تھی۔ حضرت محمدﷺ اس
وقت حضرت بی بی عائشہ ؓ کے حجرے میں تھے اور اس ہی حجرے میں حضرت محمدﷺ کا جسم
اطہر محفوظ ہے اور محو استراحت ہے۔