Topics

حضرت یوسف علیہ السلام

حضرت یوسف علیہ السلام کا زمانہ کم وبیش دو ہزار سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ آپ کے والد گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور جلیل القدر نبی تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی پیدائش کے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کی عمر 73سال تھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا نسب نامہ اس طرح ہے:

’’یوسف علیہ السلام بن یعقوب علیہ السلام بن اسحٰق علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام ۔‘‘

آپ کی والدہ ماجدہ کا نام راحیل بنت لابان تھا۔ والدین کو آپ سے بے پناہ محبت تھی۔ نور نبوت کی چمک اوائل عمر سے آپ کی پیشانی سے جھلک رہی تھی۔ آپ کا حسن و جمال اسی نور نبوت کا پرتو تھا۔ آپ کی دماغی اور فطری استعداد اور دوسرے بھائیوں کے مقابلے میں نمایاں اور ممتاز تھی۔ حسن و جمال اور خداداد صلاحیتوں کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ والدین کی توجہ کا مرکز ہونے کی بناء پر آپ کے سوتیلے بھائی آپ سے حسد کرتے تھے۔

قرآن حکیم میں ایک مکمل سورۃ حضرت یوسف علیہ السلام کے نام گرامی سے منسوب ہے۔ جس میں آپ کے حالات زندگی کا تذکرہ ہوا ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ کو قرآن حکیم میں ’’احسن القصص‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ قصہ حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب سے شروع ہوتا ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا:

’’اے میرے باپ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے، چاند اور سورج مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:

’’میرے بیٹے جس طرح تو نے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند تیرے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ اسی طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرنے والا ہے۔‘‘

حضرت یعقوب علیہ السلام نے جنہیں اللہ کی طرف سے بصیرت عطا ہوئی تھی اپنے لخت جگر کو یہ بھی کہا کہ اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کی حضرت یوسف علیہ السلام سے الفت و محبت، حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائیوں کو ناگوار گزرتی تھی۔ ایک روز حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائیوں نے پروگرام بنایا کہ انہیں راستے سے ہٹا دیا جائے اس مقصد کے لئے سب بھائیوں نے مل کر باپ سے اجازت طلب کی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے ساتھ جنگل میں لے جائیں۔

حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کے بھائیوں کی مخاصمت سے باخبر تھے، بھائیوں کے بے انتہا اصرار کے بعد انہوں نے نیم دلی سے اجازت دے دی۔ سوتیلے بھائی سیر کے بہانے حضرت یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے گئے اور واپس آتے ہوئے انہیں ایک اندھے کنوئیں میں ڈال دیا اور مکر و فریب سے روتے ہوئے گھر لوٹ آئے۔ باپ کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام کی عدم موجودگی کا یہ عذر پیش کیا کہ انہیں بھیڑیا کھا گیا ہے اور ثبوت کے طور پر بکری کے خون میں رنگے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کے کپڑے باپ کو دکھائے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام گو کہ ان کا حیلہ سمجھ گئے تھے لیکن رضائے الٰہی سمجھ کر خاموش ہو رہے اور بشری تقاضے کے تحت اپنے لخت جگر کی جدائی میں اتنا روئے کہ آنکھیں جاتی رہیں۔

جس اندھے کنوئیں میں حضرت یوسف علیہ السلام کوڈالا گیا تھا اس کے قریب سے اسمعیلی عربوں کا مصر جانے والا قافلہ گزرا۔ قافلے والوں نے پانی کے لئے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام اسے پکڑ کر کنوئیں سے باہر نکل آئے۔ قافلہ والے آپ کو مصر ساتھ لے گئے اور مصر کے بازار میں نیلام کر دیا۔ مصری فوج کے سپہ سالار ’’فوطیفار‘‘ نے آپ کو خریدا۔ فوطیفار فرعون کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور لوگ اسے ’’عزیزِ مصر‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ دور حضرت یوسف علیہ السلام کی جوانی کا دور تھا۔ حسن و خوبروئی کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا، جو ان کے اندر موجود نہ ہو۔ عزیز مصر کی بیوی ’’زلیخا‘‘ دل پر قابو نہ رکھ سکی اور حضرت یوسف علیہ السلام پر پروانہ وار نثارہو گئی۔

عصمت و حیا کے پیکر حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک لمحہ کے لئے بھی زلیخا کی حوصلہ افزائی نہ کی، بلکہ اسے بے قراری کی حالت میں چھوڑ کر کمرے سے باہر جانے لگے، زلیخا نے انہیں روکنا چاہا۔ جس سے آپ کی قمیض پھٹ گئی۔ دروازہ کھلا تو عزیز مصر کی بیوی کا چچا زاد بھائی سامنے کھڑا تھا۔ زلیخا نے مکر سے کام لیا اور حضرت یوسف علیہ السلام پر الزام لگا دیا کہ آپ نے اس کی عزت پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ شخص ذکی، فطین، ہوشیار اور معاملہ فہم تھا۔ اس نے کہا کہ یوسف علیہ السلام کا پیراہن دیکھنا چاہئے اگر سامنے سے چاک ہے تو زلیخا سچ بولتی ہے۔ اگر پیچھے سے چاک ہے تو یوسف علیہ السلام بے گناہ ہیں۔ دیکھا کہ پیراہن پیچھے سے چاک تھا۔ عزیز مصر کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے معاملہ رفع دفع کر دیا مگر خاندان میں یہ بات کسی نہ کسی طرح پھیل ہی گئی۔ عورتوں نے زلیخا پر لعن طعن کرنا شروع کر دیا۔ زلیخا نے حقیقت حال ان پر آشکارا کرنے کے لئے ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ تواضع کے لئے پھل رکھے گئے۔ زلیخا نے مہمانوں کو پھل کاٹنے کو کہا اور عین اسی وقت حضرت یوسف علیہ السلام کو قریب سے گزارا گیا۔ حسن و جمال کے مجسمہ اور مردانہ وجاہت کے پیکر یوسف علیہ السلام پر جب عورتوں کی نگاہ پڑی تو ان کے حواس معطل ہو گئے اور انہوں نے پھلوں کے ساتھ اپنی انگلیاں کاٹ ڈالیں۔

زلیخا نے مقصد براری کے لئے حضرت یوسف علیہ السلام کو تنگ کرنا جاری رکھا اور بالآخر آپ پر طرح طرح کے الزامات لگا کر جیل بھجوا دیا۔

حضرت یوسف علیہ السلام سات برس جیل میں قید رہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام خدائے بزرگ و برتر کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ دین ابراہیمی کی دعوت و تبلیغ منصب نبوت کا تقاضہ تھا چنانچہ قید کے دوران آپ قیدیوں کو توحید کی راہ اختیار کرنے کی دعوت دیتے رہتے تھے۔ نیک عمل کی تلقین اور برائیوں سے دامن بچانے کی نصیحت کرتے تھے۔ دوران قید آپ کے وعظ و تلقین کا تذکرہ قرآن میں ان الفاظ میں ہوا ہے۔

’’اے رفیقو بندی خانے کے! بھلا کئی معبود جدا جدا بہتر؟ یا اللہ اکیلا زبردست۔ کچھ نہیں پوجتے ہو سوا اس کے مگر نام ہیں کہ رکھ لئے ہیں تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے، نہیں اتاری اللہ نے ان کی کوئی سند، حکومت نہیں ہے کسی کی سوا اللہ کے، اس نے فرما دیا کہ نہ پوجو مگر اس کو یہی ہے راہ سیدھی پر بہت لوگ نہیں جانتے۔‘‘ (سورہ یوسف)

جیل خانہ کے دوسرے قیدی حضرت یوسف علیہ السلام کی پرہیز گاری، عبادت اور نیک اعمال کی بدولت ان کا ادب و احترام کرتے تھے اور ان کو برگزیدہ شخصیت مانتے تھے۔ ان میں سے دو قیدیوں نے خواب دیکھے۔ قیدیوں نے جن میں سے ایک بادشاہ کا ساقی اور دوسرا باورچی تھا اور وہ بادشاہ کو زہر سے ہلاک کرنے کی سازش میں پکڑے گئے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے اپنے خواب سنائے۔ ایک نے بتایا:

’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ انگور نچوڑ رہا ہوں۔‘‘

دوسرے نے کہا:

’’میں نے دیکھا کہ سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اسے کھا رہے ہیں۔‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام نے تعبیر میں فرمایا کہ انگور نچوڑنے والا بری ہو جائے گا اور اسے پھر ساقی گری سونپ دی جائے گی۔ اور دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور اس کاگوشت مردار جانور کھائیں گے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ میں بیان کردہ چوتھا خواب بادشاہ مصر ’’ملک الریان‘‘ کا ہے۔ بادشاہ نے تمام درباریوں کو جمع کر کے کہا:

’’میں نے خواب دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں انہیں سات دبلی گائیں نگل رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات دوسری سوکھی۔‘‘

بادشاہ کے دربار میں ماہرین خواب نے اس خواب کو بادشاہ کی پریشان خیالی کا مظہر قرار دیا۔ اس خواب سے بادشاہ مصر’’فرعون‘‘ ہر وقت پریشان رہنے لگا۔ بادشاہ کو پریشان دیکھ کر ساقی کو اپنا خواب اور اس کی تعبیر یاد آ گئی۔ اس نے جیل میں قید حضرت یوسف علیہ السلام کے علم و حکمت سے بادشاہ کو آگاہ کیا۔ بادشاہ نے ساقی کو خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لئے حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس بھیجا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات برس تک تم لگاتار کھیتی کرتے رہو گے۔ ان سات برسوں میں غلے کی فراوانی خوب ہو گی اور اس کے بعد سات برس بہت سخت مصیبت کے آئیں گے اور سخت قحط پڑ جائے گا۔ ایک دانہ بھی باہر سے نہیں آئے گا۔ ان سات سالوں میں وہی غلہ کام آئے گا جو پہلے سات سالوں میں ذخیرہ رکھا کیا ہو گا۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے اس پورے قصے میں اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ خواب مستقبل کی نشاندہی کا ذریعہ ہیں۔ خواب میں حضرت یوسف علیہ السلام کی بیان کردہ تعبیر کے مطابق چودہ سال کا مستقبل سامنے آ گیا۔ غور و فکر کے بعد دوسری بات یہ ظاہر ہوتی ہے کہ عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔ یہ بالکل الگ بات ہے کہ علم تعبیر خواب پیغمبروں کا معجزہ ہے۔

’’اسی طرح ہم نے یوسف علیہ السلام کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔‘‘

خواب میں پوشیدہ حکمت اور حضرت یوسف علیہ السلام کی بیان کردہ تعبیر سے بادشاہ مصر بے حد متاثر ہوا۔ اس نے ایسے صاحب علم آدمی کو رہا کر کے دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے رہا ہونے سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ اس الزام کی تحقیق کی جائے جس کے تحت وہ قید کئے گئے تھے۔ بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ قیدی صاحب حکمت اور بزرگ ہے اور یہ صاحب علم برگزیدہ شخص یقیناً بے گناہ ہے ورنہ الزام کی تحقیق کا مطالبہ نہ کرتا اور بخوشی جیل سے باہر آ جاتا۔ شاہ مصر نے تحقیقات کا حکم دیا اور نتیجہ میں حضرت یوسف علیہ السلام بے قصور ثابت ہوئے۔

خواب کی تعبیر معلوم ہونے کے بعد بادشاہ نے دربار میں موجود ماہرین کو اس صورت حال سے نبٹنے کی ہدایت کی۔ یہ خواب جس طرح انوکھا تھا اسی طرح تعبیر بھی عجیب تھی اور سارے دربار میں ایک بھی فرد ایسا نہ تھا جو اس کام سے عہدہ برآ ہو سکتا۔تب حضرت یوسف علیہ السلام نے اس قحط سالی سے بچنے کی تدابیر بھی بتا دیں۔ بادشاہ ان کے علم و حکمت اور بزرگی کا پہلے ہی معترف تھا۔

اب اس کے دل میں حضرت یوسف علیہ السلام کی عزت و عظمت گھر کر گئی۔ اس نے ان تدابیر کو نہ صرف قبول کر لیا بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو ان پر عمل کرنے کا اختیار بھی دے دیا اور کہا:

آج سے تو میرا نائب ہے۔

آج سے تیرا حکم میری رعایا پر چلے گا۔

آج سے میں نے تجھے ساری سلطنت کا مختار بنایا۔

آج سے تو اپنی مرضی کا مالک ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے سلطنت مصر کی باگ ڈور سنبال لی اور چودہ سال کی غذائی پلاننگ کر دی۔ زرعی زمینوں کے قریب غلہ ذخیرہ کرنے کے لئے گودام تیار کرائے گئے۔ یہ گودام اہرام مصر کے طرز پر بنائے گئے تھے۔ جن کے اندر رکھی ہوئی اشیاء پر موسی اثرات اثر انداز نہیں ہوتے۔ سات سال بارشیں خوب ہوئیں اور بہترین فصل حاصل ہوئی۔ پھر کھیتیاں سوکھنے لگیں۔

جوہڑوں اور تالابوں میں جمع شدہ پانی ختم ہو گیا۔ لوگوں کے پاس جمع شدہ غذائی اجناس کی قلت ہو گئی۔ مصر کی ساری زمین سوکھ گئی اور قرب و جوار میں شدید قحط پڑا۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کے حسنِ انتظام کی بدولت غلہ وافر مقدار میں موجود رہا۔

کنعان کے باشندے مصر آ کر سرکاری گوداموں سے غلہ لے کر گئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی اپنے بیٹوں کو مصر سے غلہ لانے کے لئے بھیجا۔ حضرت یوسف علیہ السلام ان گوداموں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور وقتاً فوقتاً تقسیم اجناس کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ ایک بار جائزہ لینے پہنچے تو ایک جیسے لباس اور ایک جیسی شکل و صورت کے حامل دس کنعانیوں کو قطار میں انتظار کرتے دیکھا۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کو پہچان لیا۔۔۔۔۔۔استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ہم سب آپس میں بھائی ہیں اور کنعان سے آئے ہیں۔ ہم دس بھائیوں کے علاوہ ایک اور بھائی اور باپ کنعان میں ہیں۔ گیارہواں بھائی غلہ لینے اس لئے نہ آسکا کہ ہمارے والد آنکھوں سے معذور ہیں۔ باپ کی معذوری کی وجہ یہ بتائی کہ ہمارے ایک اور بھائی یوسف کو بچپن میں بھیڑیا اٹھا کر لے گیا تھا۔ باپ کو اس سے بے انتہا محبت تھی وہ اس کے غم میں روتے روتے بینائی سے محروم ہو گئے ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ سن کر صدمہ پہنچا کہ ان کے باپ ان کی جدائی کے غم میں بینائی کھو چکے ہیں۔ ساتھ ہی اپنے چھوٹے بھائی کی فکر بھی لاحق ہوئی۔ آپ نے اپنے بھائیوں سے کہا۔’’تم لوگ کنعان سے آئے ہو ممکن ہے تمہیں یہاں کے قانون کا علم نہ ہو، غلہ صرف انہی لوگوں کو دیا جاتا ہے جو یہاں موجود ہوتے ہیں۔ اس بار تم کو معذور باپ اور بھائی کے حصے کا غلہ دے دیا جاتا ہے۔

لیکن آئندہ جب غلہ لینے آؤ تو اپنے باپ اور بھائی کو بھی ساتھ لے کر آنا۔‘‘ بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد تو بیٹے کے غم میں گوشہ نشین ہو گئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ آنکھوں سے بھی معذور ہیں۔ ان کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں۔ چھوٹا بائی باپ کی خدمت میں لگا رہتا ہے اور وہ بھی اسے خود سے دور کرنا گوارا نہیں کرتے۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے باپ کی معذوری کا عذر قبول کر لیا لیکن بھائی کے نہ آنے کی وجہ کو قبول نہ کیا اور کہا کہ تمہارے بھائی کو اپنے حصے کا غلہ لینے یہاں آنا پڑے گا اگر وہ نہیں آیا تو تم کو بھی غلہ نہیں دیا جائے گا۔

مصر سے واپسی پر تمام بھائی اپنے نابینا باپ کے پاس پہنچے اور انہیں والئ مصر کے حکم سے آگاہ کیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کی بات سن کر کہا:

’’کیا تم پر اس طرح اعتماد کروں جس طرح اس کے بھائی یوسف کے معاملے میں کر چکا ہوں۔‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام کے دل کا سکون ’’بن یامین‘‘ تھا۔ آنکھوں کی روشنی سے محروم ہونے کے بعد بن یامین ہی باپ کی ضرورت کا خیال رکھتا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی باپ کا جواب سن کر شرمندہ ہوئے اور بڑے بھائی نے نہایت عاجزی سے کہا۔’’آپ کو ہم پر اعتماد نہیں رہا لیکن ہم مجبور ہیں اگر آپ نے بن یامین کو ہمارے ساتھ ہیں بھیجا تو کسی کو بھی غلہ نہیں ملے گا۔‘‘ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے اس بات کا وعدہ لیا کہ وہ بن یامین کو صحیح سلامت باپ کے پاس لے آئیں گے۔

دوسری مرتبہ برادران یوسف کا قافلہ جب مصر کو روانہ ہونے لگا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ دیکھو ایک ساتھ جتھا بنا کر شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے ایک ایک دو دو داخل ہونا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بیٹوں کو یہ نصیحت اس وجہ سے تھی کہ جب وہ پہلی بار مصر داخل ہوئے تھے تو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لئے گئے تھے اور بعد ازاں الزام ثابت نہ ہونے پر رہا ہوئے تھے۔

حضرت یوسف علیہ السلام جانتے تھے کہ ان کے بھائی جو غلہ لے گئے ہیں وہ زیادہ دن نہیں چلے گا۔ انہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اتنی مدت کے بعد بھائیوں کو دوبارہ غلہ لینے کے لئے آنا چاہئے۔ بھائی کے انتظار میں وہ شہر کے باہر چکر بھی لگایا کرتے تھے۔ بالآخر برادران یوسف پہنچ گئے اور باپ کی نصیحت کے مطابق الگ الگ دروازوں سے داخل ہوئے اور پھر ایک جگہ جمع ہو گئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے انہی شاہی مہمان خانہ میں ٹھہرایا اور اپنے سگے بھائی بن یامین کو تنہائی میں طلب کر کے اسے حقیقت حال سے آگاہ کر دیا۔ باپ کی خیر خبر معلوم کی، اپنی ساری روئداد سنائی۔ باپ سے جدائی سے لے کر اب تک کا سارا قصہ بھائی کو سنایا اور تاکید کی کہ دوسرے بھائیوں پر اس راز کو آشکار نہ کیا جائے کہ میں ہی ان کا وہ بھائی ہوں جس کو اپنی دانست میں وہ ختم کر چکے ہیں۔

اب کی بار حضرت یوسف علیہ السلام نے تمام بھائیوں کو پہلے سے زیادہ غلہ دیا اور اپنے بھائی بن یامین کو اپنے پاس رکھنے کی یہ ترکیب کی کہ غلہ ناپنے کا شاہی پیالہ اس کے سامان میں رکھ دیا۔

کنعانی جوانوں کا یہ قافلہ ابھی روانہ ہی ہوا تھا کہ چاندی سے بنے شاہی پیمانے کی تلاش شروع ہو گئی۔ جب پیمانہ نہ ملا تو قافلہ والوں پر چوری کا شبہ ظاہر کیا گیا کیونکہ صرف اس قافلہ کو تقسیم کیا گیا تھا۔ قافلہ رکوایا گیا۔ برادران یوسف نے اس پر احتجاج کیا کہ چوری کا الزام بے بنیاد ہے۔ بحث و تمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ قافلہ والے واپس چل کر تلاشی دیں گے اگر الزام ثابت نہ ہوا تو انہیں اس غلط شبہ کے نتیجے میں پہنچنے والی تکلیف کے بدلے میں مزید غلہ دیا جائے گا اور اگر الزام ثابت ہوا تو مجرم کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔۔۔۔۔۔اور قانون میں اس کی سزایہ تھی کہ مجرم کو اس شخص کے حوالہ کر دیتے تھے جس کی چیز چوری ہوتی تھی۔

شاہی دروغہ نے تمام بھائیوں کے سامان کی تلاشی لینا شروع کر دی آخیر میں سب سے چھوٹے بھائی بن یامین کی خورجی میں سے شاہی پیمانہ برآمد ہو گیا۔ یہ دیکھ رک تمام بھائی پریشان ہو گئے۔

شاہی پہرہ دار بن یامین کو گرفتار کر کے لے جانے لگے تو ان سب کو باپ سے کیا ہوا وعدہ آیا انہوں نے دروغہ کی منت سماجت شروع کر دی کہ بن یامین کو چھوڑ دیا جائے اور اس کی جگہ جس بھائی کو چاہیں وہ گرفتار کر لیں۔ معاملہ حضرت یوسف علیہ السلام والئ مصر کے سامنے پیش ہوا۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے اس امر سے معذوری ظاہر کی اور کہا ۔’’اس سے زیادہ ظلم اور کیا ہو گا کہ اصلی مجرم کو چھوڑ کر کسی اور کو پکڑ لیا جائے۔‘‘

ناکام و نامراد برادران یوسف وطن واپس ہوئے۔ لیکن اس سفر میں ان کا بڑا بھائی ان کے ساتھ نہیں گیا کیونکہ اس نے خاص طور پر بن یامین کی بحفاظت واپسی کا ذمہ اپنے سر لیا تھا اور بارِندامت سے باپ کا سامنا کرنے کی ہمت اس کے اندر موجود نہ تھی۔ وہ شہر مصر کے باہر ہی رہ گیا۔

باقی بھائیوں نے کنعان پہنچ کر اپنے باپ کو صورتحال سے آگاہ کیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرط غم سے ایک آہ کھینچی اور غمزدہ آواز سے بولے۔’’میں جانتا ہوں کہ بات یہ نہیں ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو مان لیتا ہوں۔ اب سوائے صبر کے اور کر بھی کیا سکتا ہوں۔‘‘

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے جو غلہ لائے تھے، ختم ہو گیا۔۔۔۔۔۔وہ پھر مصر جانے کے بارے میں سوچنے لگے لیکن بن یامین کی حرکت سے جو شرمندگی انہیں ہوئی تھی اس کی وجہ سے دوبارہ جاتے ہوئے ہچکچا رہے تھے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے انہیں تسلی دی اور مصر جانے پر آمادہ کیا تا کہ غلہ کے حصول کے ساتھ ساتھ بن یامین کی قید سے رہائی کے بارے میں والئ مصر سے معافی کی التجا کی جا سکے۔

باپ کی ہمت دلانے پر بیٹے دربار شاہی میں حاضر ہوئے اور کہا ’’ہم کو قحط سالی نے پریشان کر دیا ہے۔ اب معاملہ خرید و فروخت کا نہیں ہے، ذرائع آمدنی ختم ہو گئے ہیں۔ ہم غلہ پوری قیمت ادا نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے حاضر ہے اگر تو ہمیں غلہ نہیں دے گا تو ہمارے گھروں میں فاقے شروع ہو جائیں گے۔‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ سنا تو بہت رنجیدہ ہوئے اور آبدیدہ ہو کر کہا۔’’نہیں نہیں میں تمہیں اور اپنے باپ کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

برادران یوسف اس بات پر کہ عزیز مصر ہمارے باپ کو اپنا باپ کہہ رہا ہے ، حیرت زدہ ہو رہے تھے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے مزید کہا:

’’تم لوگوں نے یوسف اور اس کے بھائی بن یامین کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟‘‘

یہ جملہ سن کر ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ عزیز مصر کو یوسف اور بن یامین سے کیا واسطہ ہے۔

’’میرے بھائیو! میں ہی تمہارا بھائی یوسف ہوں جسے تم نے حسد کی بناء پر کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام کے اس انکشاف سے ان کے رہے سہے حواس بھی جاتے رہے۔ خوف، شرمساری اور ندامت کے احساس سے ان کی گردنیں جھک گئیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے پیغمبرانہ طرز فکر سے درگزر سے کام لیا۔ فرمایا:

’’میں تمہارا بھائی ہوں۔ ہم ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ میں آج بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔تم سے کوئی سرزنش نہیں، کوئی شکوہ نہیں، کوئی شکایت نہیں۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ تہ تمہارے گناہ بخش دے کیونکہ وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔‘‘

فرعون مصر کو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی آمد کا پتہ چلا اور یہ کہ ان کے والد اللہ کے برگزیدہ بندے حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کنعان میں اسرائیل کے نام سے پکارے جاتے تھے اور آپ سے کئی معجزے منسوب تھے۔ جن سے فرعون بھی واقف تھا۔ فرعون کو جب یہ پتہ چلا کہ یوسف علیہ السلام اس برگزیدہ ہستی کے بیٹے ہیں تو اس نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان کے پورے خاندان سمیت مصر میں آباد ہونے کی دعوت دی اور سہولت کے لئے فوج کا ایک دستہ برادران یوسف علیہ السلام کے ہمراہ کنعان بھیجا۔ جس میں مال برداری کے جانور بھی شامل تھے۔

قافلے کی کنعان روانگی سے قبل حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا پیراہن بھائیوں کو دیتے ہوئے کہا کہ اسے میرے محترم۔ خدا و مقدس باپ کی آنکھوں سے لگانا۔ خداوند قدوس اپنا فضل کرے گا۔

قافلہ ابھی کنعان میں داخل نہیں ہوا تھا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اہل خاندان سے کہا کہ مجھے اپنے گمشدہ بیٹے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔ اہل خاندان نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی اس بات کو پیرانہ سالی کی وجہ سے ضعف دماغ پر محمول کیا اور کہا کہ برسوں کا گمشدہ بیٹا جس کو بھیڑیا لے گیا تھا۔ بھلا اس کی خوشبو کیسے آنے لگی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا:

’’تم لوگ وہ بات نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں۔‘‘

شاہی دستہ کے ہمراہ قافلہ شہر میں جب داخل ہوا تو حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے گھر کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے سر جھکائے ان کے پاس پہنچے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے خوشی اور بے قراری سے کہا۔

’’تم سب آگئے۔۔۔۔۔۔مجھے یوسف کی مہک محسوس ہو رہی ہے۔‘‘

’’یوسف ہمارے ساتھ نہیں آیا ہے۔‘‘ ایک بھائی نے جھکے ہوئے سر کے ساتھ جواب دیا اور پیراہن نکال کر ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’یوسف نے یہ بھیجا ہے۔‘‘

حضرت یعقوب علیہ السلام نے پیراہن ہاتھ میں لیا اور یہ کہتے ہوئے چومنا اور آنکھوں سے لگانا شروع کر دیا۔’’میرا یوسف زندہ ہے۔ میں نہ کہتا تھا کہ میرا یوسف زندہ ہے، مجھے اس کی مہک آ رہی ہے۔‘‘

پیراہن آنکھوں سے مس ہو رہا تھا اور رفتہ رفتہ بینائی لوٹ رہی تھی۔

بھائیوں نے اول تا آخر سارا قصہ کہہ سنایا۔۔۔۔۔۔

حضرت یعقوب علیہ السلام تمام خاندان والوں کے ہمراہ جن کی تعداد ستر بتائی جاتی ہے، مصر روانہ ہو گئے۔
توریت کی تصریح کے مطابق والد سے بچھڑتے وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر 17سال تھی اور حضرت یعقوب علیہ السلام نوے سال کے تھے۔ جس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام مصر تشریف لائے اس وقت ان کی عمر 130سال تھی گویا باپ بیٹا چالیس سال ایک دوسرے سے جدا رہے۔

اس دوران فوطیفار کا انتقال ہو گیا اور اللہ نے حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کو دوبارہ جوانی عطا کی اور دونوں کی شادی ہو گئی۔
قرآن حکیم نے احسن القصص کو بیان کرتے ہوئے ہماری توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ عام طور پر خواب کو حافظے میں جمع خیالات اور بے معنی تصورات کہا جاتا ہے لیکن کواب کے تجربات اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ خواب محض خیالات کا عکس ہیں۔

رویاء ایسی ایجنسی ہے جس کی معرفت انسان کو غیب کا کشف حاصل ہوتا ہے اور رویاء کی صلاحیت انسان کو مادی سطح سے ماوراء باتوں کی اطلاع فراہم کرتی ہے۔

انسان کی روح یا اناہمہ وقت حرکت میں رہتی ہے۔ جس طرح بیداری کا پورا وقفہ کسی نہ کسی حرکت سے عبارت ہے، اسی طرح خواب بھی حرکت ہے۔ انسان بیداری میں اپنی جسمانی حرکات سے واقف رہتا ہے۔ اس لئے کہ اس سے شعور کی دلچسپی بیداری سے قائم رہتی ہے۔

جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو حواس بیرونی ماحول سے رشتہ قائم کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہمہ وقت کوئی نہ کوئی مہیج اعصاب کو حرکت دیتا رہتا ہے۔ اور اس اشارے پر ہمارا جسم متحرک رہتا ہے۔ جب ہم سو جاتے ہیں تو جسمانی حرکات ر سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ لیکن انا یا نفس کا فعال کردار ختم نہیں ہوتا۔ خواب میں اگرچہ فرد کا جسم معطل ہوتا ہے لیکن وہ تمام حرکات و سکنات کو اپنے سامنے اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح بیداری میں دیکھتا ہے۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ وقت اور فاصلے کی تمام رائج بندشیں ختم ہو جاتی ہیں اور کیفیات ایک نقطے میں سمٹ آتی ہیں۔

خواب میں خاکی حواس مغلوب ہوتے ہیں۔ لیکن روح جن واردات و حوادث سے گزرتی ہے انہیں ہمارا ذہن اس حد تک سمجھتا ہے جس حد تک اس کی دلچسپی ان سے وابستہ رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خواب کے ان حصوں کو بیان کر سکتے ہیں جن پر دلچسپی کی بناء پر ہماری توجہ مرکوز ہو جاتی ہے اور جن واقعات پر ہماری توجہ نہیں ہوتی ان واقعات کی کڑیاں ملانے سے ہمارا شعور عاجز رہتا ہے۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شعور روح کی واردات کو مربوط حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اور روح کی حرکت شعور میں اس طرح سما جاتی ہے کہ اس میں معانی پہنانا ذرا بھی مشکل نہیں ہوتا۔ اس کو سچا خواب کہتے ہیں اور یہی حالت اب ترقی کرتی ہے تو کشف و الہام کے درجے میں پہنچ جاتی ہے۔

نفس کی ایک صلاحیت جو بیداری اور خواب دونوں میں متحرک رہتی ہے۔ قوت حافظہ ہے۔ انسان زندگی کے ہر قدم پر اس قوت سے کام لیتا ہے۔ لیکن اس پر غور نہیں کرتا کہ بچپن کے زمانے کا تصور کیا جائے تو ایک لمحہ میں ذہن بچپن کے واقعات کا احاطہ کر لیتا ہے۔ اگرچہ ہم سالوں کا وقفہ گزار چکے ہیں اور ہزار ہا تبدلیوں سے گزر چکے ہیں لیکن ذہن جب ماضی کی طرف سفر کرتا ہے توسالوں پر محیط عرصہ کو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں طے کر کے بچپن کے زمانے میں جا پہنچتا ہے۔ ہم ماضی کے واقعات کو نہ صرف محسوس کر لیتے ہیں بلکہ یہ واقعات اس طرح نظر آتے ہیں جیسے آدمی کوئی فلم دیکھ رہا ہے۔

کبھی کبھی احساسات کا فرق عام حالات میں بھی اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ شعور اس کا ادراک کر لیتا ہے۔ اگر کسی کام میں بہت زیادہ یکسوئی ہو جائے اور شعوری واردات ایک مرکز پر ٹھہر جائے تو یہ بات تجرباتی مشاہدہ بن جاتی ہے۔

روحانی علم کی ابتداء اس بنیادی سبق سے ہوتی ہے کہ انسان محض گوشت پوست کے جسم کا نام نہیں ہے۔ جسم کے ساتھ ایک اور ایجنسی وابستہ ہے جس کا نام روح ہے اور جو اس جسم کی اصل ہے۔ انسان کی روح جسم کے بغیر حرکت کرتی ہے اور انسان کو اگر ملکہ حاصل ہو جائے تو وہ جسم کے بغیر بھی روحانی سفر کر سکتا ہے۔

اگر خواب اور بیداری کے حوالے سے مراقبہ کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ مراقبہ بیدار رہتے ہوئے خواب کی دنیا میں سفر کرنے کا نام ہے۔ باالفاظ دیگر مراقبہ اس عمل کا نام ہے جس میں آدمی کواب کی کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

لیکن اس کا شعور بیدار رہتا ہے۔ مراقبہ میں وہ تمام حالات پیدا کر دیئے جاتے ہیں جن سے کوئی شخص حواس کی تبدیلی کے وقت گزرتاہے۔ آنکھیں بند کر کے سانس کی رفتار آہستہ کر لی جاتی ہے۔ اعضائے جسمانی کوڈھیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تا کہ جسم غیر محسوس ہو جائے۔ ذہنی طور پر انسان تمام افکار و خیالات سے ذہن ہٹا کر ایک تصور کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ اگر مراقبہ کرنے والے کسی شخص کو دیکھا جائے تو بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک آدمی آنکھیں بند کئے سو رہا ہے۔ لیکن فی الحقیقت اس کا شعور اس طرح معطل نہیں ہوتا جیسا کہ خواب میں ہوتا ہے۔ چنانچہ مراقبہ میں آدمی بیدار رہتے ہوئے اس کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے جو خواب دیکھتے ہوئے طاری ہوتی ہے۔ جوں ہی شعوری حواس پر سکوت طاری ہوتی ہے بیداری کے حواس پر خواب کے حواس کا غلاف چڑھ جاتاہے۔ اس حالت میں آدمی اپنے ارادے سے ان تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو استعمال کر سکتا ہے۔ جو خواب میں کام کرتی ہیں۔

ماضی، مستقبل، دوری، نزدیکی، بے معنی ہو جاتی ہے۔ آدمی خاکی جسم کی تمام قیود سے آزاد ہو جاتا ہے۔
یہ صلاحیت ترقی کر کے ایک ایسے درجے میں پہنچ جاتی ہے کہ خواب اور بیداری کے حواس
Parrallelہو جاتے ہیں۔ اور انسانی شعور جس طرح بیداری کے معاملات سے واقف ہے اسی طرح خواب کی حرکات سے بھی مطلع رہتا ہے۔ چنانچہ وہ خواب کے حواس میں اپنی روح سے حسب ارادہ کام لے سکتا ہے۔

 


Mehboob Baghal Mein

خواجہ شمس الدین عظیمی



’’ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو نہایت احسن طریقہ پر پیدا فرمایا اور پھر اس کو بد سے بھی بدترین مقام پر پھینک دیا۔

زمین کو اللہ تعالیٰ نے بد سے بھی بدترین مقام کہا ہے۔ اس لئے آدم کو سخت اضطرب لاحق ہو اور وہاں آپ کو ایسی چیزوں سے واسطہ پڑا جن کو کہ اس سے قبل آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ یعنی بھوک پیاس وغیرہ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو آپ کے پاس بھیجا۔ جنہوں نے اس منزل اور ضرورت گاہ کے تمام عقیدے آپ پر کھول دیئے۔ یوں استاد شاگرد کا رشتہ ازل تا ابد قائم ہو گیا۔ غرض ہر صاحب علم کا کوئی نہ کوئی استاد اور کوئی نہ کوئی شاگرد ہو گا جس سے بندہ تربیت حاصل کر کے اللہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔