Topics

حضرت یعقوب علیہ السلام

حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل ہے۔ ’’اسرائیل‘‘ عبرانی زبان کا لفظ ہے جو ’’اسرا‘‘ یعنی عبد اور ’’ایل‘‘ یعنی اللہ کے الفاظ کا مرکب ہے۔ عربی میں اس کا ترجمہ ’’عبداللہ‘‘ یعنی اللہ کا بندہ کیا جاتا ہے۔ آپ کے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جس وقت حضرت اسحٰق علیہ السلام کی ولادت اور منصب نبوت پر سرفرازی کی بشارت دی گئی تھی اسی وقت آپ علیہ السلام کی پیدائش اور جلیل القدر پیغمبر ہونے کی بشارت بھی دی گئی۔

’’اور بخشا ہم نے اس کو اسحٰق اور یعقوب دیا انعام میں‘ اور سب کو نیک بخت کیا۔‘‘

 (الانبیاء)

حضرت اسحٰق علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دروسرے فرزند اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے چھوٹے بھائی تھے۔ حضرت اسحٰق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سنائی گئی اس وقت ان کی عمر سو سال تھی اور حضرت سارہؓ کی عمر ۹۰ سال تھی۔ قرآن پاک میں بشارت سے متعلق واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل کرنے کے لئے فرشتوں کی جماعت سدوم کی آبادیوں کی طرف جانے سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت مہمان نواز تھے۔ انہوں نے بھنا ہوا گوشت آنے والے مہمانوں کے سامنے رکھا لیکن مہمانوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تشویش ہوئی کہ مہمانوں کے روپ میں یہ لوگ کون ہیں؟ تب فرشتوں نے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ قوم لوط پر عذاب نازل کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ پھر انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی حضرت سارہؓ کو حضرت اسحٰق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی۔ حضرت سارہؓ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ابھی تک کوئی اولاد نہ تھی۔

انہوں نے فرشتوں کی زبانی جب یہ بشارت سنی تو انہیں حیرت ہوئی کہ عمر کے اس حصہ میں اللہ تعالیٰ انہیں اولاد سے نوازیں گے؟

اس پر فرشتوں نے کہا۔

’’وہ بولے‘ یوں ہی کہا تیرے رب نے‘ وہ جو ہے‘ وہی ہے حکمت والا خبردار۔‘‘

 (الذریت)

اسحاق اصل تلفظ کے اعتبار سے ’’یصحق‘‘ ہے۔ یہ عبرانی لفظ ہے۔ جس کے معانی ’’ہنستا ہوا‘‘ ہیں۔

حضرت اسحاق علیہ السلام کی جائے پیدائش شام کی سرزمین تھی۔ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام مصر کے سفر کے بعد اقامت گزیں تھے۔ محققین حضرت اسحٰق علیہ السلام کا سنِ پیدائش(۲۰۶۰) قبل مسیح بتاتے ہیں۔

آپ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور جلیل القدر پیغمبر تھے۔ آپ کے بعد بنی اسرائیل میں جتنے بھی رسول اور نبی مبعوث ہوئے وہ سب آپ کی اولاد میں سے تھے۔ آپ نے اپنے والد حضرت ابراہیم کے پیغام ہدایت کی ترویج کا کام جاری رکھا اور قوم کو توحید اور دین حق کی پیروی کرنے کی تلقین کی۔ قرآن حکیم نے آپ کے حالات زندگی سے متعلق تفصیلات بیان نہیں کی ہیں۔ مختلف آیات میں آپ کے نبی ہونے اور آپ پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا ذکر ہے۔ توریت کی تصریح کے مطابق آپ کی شادی حضرت ابراہیم کے بھائی ناحور کی پوتی ربقہ سے ہوئی۔ جن کے بطن سے آپ کے جڑواں بیٹے عیسو ادوم اور حضرت یعقوب علیہ السلام تولد ہوئے۔ اس وقت حضرت اسحٰق علیہ السلام کی عمر ۶۰ سال تھی۔ حضرت اسحٰق علیہ السلام آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ آپ نے ایک سو اسی (۱۸۰) برس کی عمر میں کنعان میں انتقال فرمایا۔ آپ کا مدفن قریہ اربع(حبرون) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سارہؓ کے پہلو میں بتایا جاتا ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کے والد حضرت اسحٰق علیہ السلام اس بات سے واقف تھے کہ رشد و ہدایت کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے فرزند حضرت یعقوب علیہ السلام کو چن لیا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو باپ کی توجہ اور محبت اپنے بھائی کی نسبت زیادہ حاصل تھی۔ عیسو ادوم حضرت یعقوب علیہ السلام کے برادرِ توام تھے اور آپ علیہ السلام سے پہلے ان کی ولادت ہوئی تھی۔ عیسو ادوم ماہر شکاری تھے اور شکار کے گوشت سے اپنے والد کی تواضع کیا کرتے تھے۔ حضرت اسحٰق علیہ السلام نے ایک روز اس خواہش کا اظہار کیا کہ عمدہ کھانے سے ان کی تواضع کی جائے۔ عیسو ادوم اس مقصد کے لئے شکار کرنے چلے گئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے گھر پر کھانا بنایا اور باپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضرت اسحٰق علیہ السلام نے خوش ہو کر انہیں خیر و برکت کی دعا دی۔ عیسو ادوم جب واپس آئے تو انہیں یہ معلوم کر کے رنج ہوا کہ ان کے بھائی نے پہلے ہی باپ کی تواضع عمدہ کھانے سے کر دی ہے۔ ابلیس نے ان کے دل میں وسوسہ ڈال دیا کہ جو خیر و برکت انہیں ملنے والی تھی ان کے بھائی یعقوب نے انہیں اس سے محروم کر دیا ہے۔ بشری کمزوری کے تحت وہ اپنے بھائی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ناراض ہو گئے۔ یہ ناراضگی اور رنجش جب بڑھنے لگے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی والدہ نے انہیں اپنے بھائی’’لابان‘‘ کے پاس فدان ارام بھیج دیا تا کہ دونوں بھائی کچھ عرصہ ایک دوسرے سے جدا رہیں اور آپس کے تعلقات بگڑنے نہ پائیں۔ عیسو ادوم اس بات پر ناراض ہو کر اپنے چچا حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاس چلے گئے۔ جہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی صاحبزادی سے ان کی شادی ہوئی اور وہ اور ان کی اولاد وہیں آباد ہوئی۔ تا ہم دونوں بھائیوں کے باہمی تعلقات بعد میں خوشگوار رہے۔

لابان کے پاس حضرت یعقوب علیہ السلام کے قیام کا عرصہ ۲۰ سال بتایا جاتا ہے۔ اس وقفہ سے متعلق توریت میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ آپ کے ماموں نے آپ سے عہد لیا کہ اگر آپ دس سال ان کے یہاں رہ کر بکریاں چرائیں تو وہ اس مدت کو مہر قرار دے کر اپنی بیٹی آپ کے عقد میں دے دیں گے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ مدت پوری کر دی تو آپ کے ماموں لابان نے اپنی بڑی لڑکی ’’لیہ‘‘ آپ کے عقد میں دینا چاہی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا رجحانِ طبع چھوٹی لڑکی ’’راحیل‘‘ کی طرف تھا۔ لیکن دستور کے مطابق بڑی لڑکی سے پہلے چھوٹی لڑکی کی شادی نہ ہو سکتی تھی۔ آپ کے ماموں نے اس کا حل یہ پیش کیا کہ آپ بڑی لڑکی سے شادی کر لیں اور ان کے یہاں اپنا قیام سات سال مزید بڑھا دیں تب چھوٹی لڑکی بھی آپ کے عقد میں دے دی جائے گی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کے مشورہ پر عمل کیا اور اس طرح یکے بعد دیگرے دونوں بہنیں بیک وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کے عقد میں آ گئیں۔ لیہ اور راحیل کے علاوہ زلفا اور بلہا بھی آپ کے حلقہ زوجیت میں آئیں۔ مؤخر الذکر دونوں ازدواج پہلی بیویوں کی خالہ زاد تھیں۔ کتاب مقدس کے باب پیدائش میں ازدواج اور اولاد سے متعلق تفصیل اس طرح ہے کہ پہلے لیہ سے چار بیٹے تولد ہوئے اور راحیل سے کوئی اولاد نہ تھی۔ تب راحیل نے اپنی کنیز بلہا آپ کی زوجیت میں دے دی۔ جن سے دو بیٹے تولد ہوئے۔ اس دوران لیہ سے مزید اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے بھی اپنی کنیز زلفا کو حضرت یعقوب علیہ السلام کے حلقہ زوجیت میں دے دیا۔ ان سے بھی دو بیٹے ہوئے اس کے بعد لیہ سے حضرت یعقوب علیہ السلام کے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ آخر میں راحیل سے بھی حضرت یعقوب علیہ السلام کے دو بیٹے تولد ہوئے یہ دونوں بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی بن یامین تھے۔ اس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کے ۱۲ بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ سب سے چھوٹے فرزند بن یامین کے علاوہ تمام اولاد فدان ارام میں پیدا ہوئی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے ماموں’’لابان‘‘ کے پاس سے جب فلسطین واپس آئے تو انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو بہت سا مال و متاع دے کر رخصت کیا۔ بن یامین کی پیدائش فلسطین میں ہوئی۔

قرآن حکیم میں آپ کے جلیل القدر نبی ہونے کا تذکرہ متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ آپ اہل کنعان کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ محققین کے مطابق آپ کے زمانے میں کنعان کا بادشاہ سلجم ابن دارا تھا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے سلجم اور اس کی قوم کو حق و معرفت کی راہ اپنانے کی دعوت دی۔ لیکن سرکشوں نے اسے قبول نہ کیا اور بالآخر وہ لوگ زلزلے کی لپیٹ میں آ کر ہلاک ہو گئے۔

قرآن حکیم میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے ساتھ ’’اسباط‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ سبط اس درخت کو کہتے ہیں، جس کی بہت سی شاخیں ہوں۔ قبائل بنی اسرائیل کی ابتداء آپ کی اولاد سے ہوئی اور بنی اسرائیل میں انبیاء کا جو سلسلہ قائم ہوا وہ سب آپ کی اولاد میں سے تھے۔ لفظ ’’اسباط‘‘ اسی طرف اشارہ ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے ایک سو سینتالیس برس کی عمر میں مصر میں وفات پائی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے آپ کے جسد خاکی آپ کی وصیت کے مطابق کنعان لے جا کر حضرت سارہؓ حضرت ربقہ اور حضرت اسحٰق علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا۔

قرآن حکیم میں مذکورہ انبیاء علیہم السلام کے تذکرے ہمیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم اللہ کے برگزیدہ بندوں کی طرز فکر سے وقوف حاصل کریں۔ حضرت اسحٰق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام سے منسوب واقعات کے تسلسل کا بغور جائزہ لینے پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام ایسے ذہن کے حامل ہوتے ہیں۔ جن میں صبر اور شکر کی طرزیں مستحکم ہوتی ہیں۔ وہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے حامل ہونے پر شکر ادا کرتے ہیں اور کسی نعمت کے حاصل نہ ہونے پر اس دجہ ملول اور غمگین نہیں ہو جاتے کہ اللہ کے ناپسندیدہ لوگوں کا طرز عمل اختیار کر لیں اور گلے شکوے کرنے لگیں۔ وہ مشیت الٰہی کے تابع ہوتے ہیں اور نظام قدرت کے تحت ترتیب پانے والے واقعات میں رضائے الٰہی ان کے مطمح نظر ہوتی ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ وسیع تر اختیارات کے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن واقعات کو اپنے حق میں استوار کرنے کے لئے ان کے مندرجات اور تریب میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے بلکہ اللہ کے حضور عجز و انکساری کا نذرانہ پیش کر کے التجا کرتے ہیں کہ رب کائنات ان کو ثابت قدمی اور صبر و استقامت عطا فرمائے تا کہ وہ اس امتحان میں پورے اتریں۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی تمام زندگی میں صبر و استقلال کا عظیم الشان مظاہرہ کیا۔ جب آپ کے فرزند اور جلیل القدر پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام اپنے ہی بھائیوں کے حسد کا شکار ہو کر باپ سے جدا ہو گئے تو باوجود اس کے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام حقیقت حال سے باخبر تھے۔ وہ مشیت الٰہی کے تحت خاموش رہے اور انہوں نے رب کائنات کے انتظام کے تحت بیٹے سے ملنے کا انتظار کیا۔ بشری تقاضے کے تحت وہ بیٹے کی جدائی میں روتے رہے لیکن ناشکری اور نافرمانی کا ایک لفظ بھی زبان سے ادا نہ کیا۔
پیغمبروں کی ساری زندگی اس عمل سے عبارت ہے کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے۔ تمام انبیائے کرام اور اولیاء اللہ کے اندر استغناء کی طرز فکر راسخ ہوتی ہے۔ انبیاء اس طرز فکر کو حاصل کرنے کا اہتمام اس طرح کیا کرتے تھے کہ وہ کسی چیز کے متعلق سوچتے تھے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کوئی رشتہ براہ راست قائم نہیں کرتے تھے۔ ان کی طرز فکر ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ ہے، کسی چیز کا رشتہ براست ہم سے نہیں ہے۔ بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ کی معرفت ہے۔ رفتہ رفتہ ان کی یہ طرز فکر مستحکم ہو جاتی ہے اور ان کا ذہن ایسے رجحانات پیدا کر لیتا کہ جب وہ کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ کی طرف خیال جاتا۔ انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاً ہوتا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ کی وجہ سے ہے۔

اس طرز عمل میں ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم ہو جاتا ہے۔ اللہ ہی بحیثیت محسوس کے ان کا مخاطب ہو جاتا ہے۔

رفتہ رفتہ اللہ کی صفات ان کے ذہن میں ایک مستقل مقام حاصل کر لیتی ہیں اور ان کا ذہن اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا ہے۔

غور و فکر کیا جائے تو سوچنے اور سمجھنے کے کئی رخ متعین ہوتے ہیں۔ تفصیل میں جانے کے بجائے ہم دو رخ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو علمی اعتبار سے مستحکم ذہن ہیں یعنی ایسا ذہن رکھتے ہیں جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا یقین ہے کہ ہر چیز، اس کی دنیا میں کوئی بھی حیثیت ہو، چھوٹی ہو یا بڑی، راحت ہو یا تکلیف سب اللہ کی طرف سے ہے۔ ان لوگوں کے مشاہدے میں یہ بات آ جاتی ہے کہ کائنات میں جو کچھ موجود ہے، جو ہو رہا ہے، جو ہو چکا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے اس کا براہ راست تعلق اللہ کی ذات سے ہے۔ یعنی جس طرح اللہ کے ذہن میں کسی چیز کا وجود ہے اسی طرح اس کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

راسخ فی العلم لوگوں کے ذہن میں یقین کا ایسا پیٹرن بن جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت، ہر ضرورت اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیتے ہیں۔ یہی پیغمبروں کی طرز فکر ہے۔ ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ ہمارے لئے اللہ نے جو نعمتیں مخصوص کر دی ہیں، وہ ہمیں ہر حال میں میسر آئیں گی اور یہ یقین ان کے اندر استغناء کی طاقت پیدا کر دیتا ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ کا ارشاد ہے کہ استغناء بغیر یقین کے پیدا نہیں ہوتا اور یقین کی تکمیل بغیر مشاہدے کے نہیں ہوتی اور جس آدمی کے اندر استغناء نہیں ہوتا اس آدمی کا تعلق اللہ سے کم اور مادی دنیا (اسفل) سے زیادہ رہتا ہے۔

روحانیت ایسے اسباق کی دستاویز ہے جن اسباق میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ سکون کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر استغناء ہو۔ استغناء کے لئے ضروری ہے کہ قادر مطلق ہستی پر توکل ہو توکل کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر ایمان ہو اور ایمان کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر وہ نظر کام کرتی ہے جو نظر غیب میں دیکھتی ہے۔ بصورت دیگر کبھی کسی بندے کو سکون میسر نہیں آ سکتا۔ آج کی دنیا میں عجیب صورت حال ہے کہ ہر آدمی دولت کے انبار اپنے گرد جمع کرنا چاہتا ہے اور یہ شکایت کرتا ہے کہ سکون نہیں ہے، سکون کوئی عارضی چیز نہیں ہے، سکون ایک کیفیت کا نام ہے جو یقینی ہے اور جس کے اوپر کبھی موت وارد نہیں ہوتی۔ ایسی چیزوں سے جو عارضی ہیں، فانی ہیں اور جن کے اوپر ہماری ظاہری آنکھوں کے سامنے بھی موت وارد ہوتی رہتی ہے، ان سے کسی طرح سکون نہیں مل سکتا ہے۔ استغناء ایک ایسی طرز فکر ہے جس میں آدمی فانی اور مادی چیزوں سے ذہن ہٹا کر حقیقی اور لافانی چیزوں میں تفکر کرتا ہے۔ یہ تفکر جب قدم قدم چلا کر کسی بندے کو غیب میں داخل کر دیتا ہے تو سب سے پہلے اس کے اندر یقین پیدا ہوتا ہے۔ جیسے ہی یقین کی کرن دماغ میں پھوٹتی ہے وہ نظر کام کرنے لگتی ہے جو نظر غیب کا مشاہدہ کرتی ہے۔ غیب میں مشاہدے کے بعد کسی بندے پر جب یہ راز منکشف ہو جاتا ہے کہ ساری کائنات کی باگ دوڑ ایک واحد ہستی کے ہاتھ میں ہے تو اس کا تمام تر ذہنی رجحان اس ذات پر مرکوز ہو جاتا ہے اور اس مرکزیت کے بعد استغناء کا درخت آدمی کے اندر شاخ در شاخ پھیلتا رہتا ہے۔

استغناء سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی پیسے کی طرف سے بے نیاز ہو جائے۔ روپے پیسے اور خواہشات سے کوئی بندہ بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ضروریات زندگی اور متعلقین کی کفالت ایک لازمی امر ہے اور اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ استغناء سے مراد یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کرے، اس عمل میں اس کے ساتھ اللہ کی خوشنودی ہو اور اس طرز فکر یا عمل سے اللہ کی مخلوق کو کسی طرح نقصان نہ پہنچے۔ ہر بندہ خود خوش رہے اور نوع انسانی کے لئے مصیبت اور آزاد کا سبب نہ بنے۔ ضروری ہے کہ بندے کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو کہ کائنات میں موجود ہر شئے کا مالک دروبست اللہ ہے۔ اللہ ہی ہے جس نے زمین بنائی، اللہ ہی ہے جس نے بیج بنایا، اللہ ہی ہے جس نے زمین کو اور بیج کو یہ وصف بخشا کہ بیج درخت میں تبدیل ہو جائے اور زمین اس کو اپنی آغوش میں پروان چڑھائے۔ پانی درختوں کی رگوں میں خون کی طرح دوڑے۔ ہوا روشنی بن کر درخت کے اندر کام کرنے والے رنگوں کا توازن قائم رکھے۔ دھوپ درخت کے ناپختہ پھلوں کو پکانے کے لئے مسلسل ربط اور قاعدے کے ساتھ درخت سے ہم رشتہ ہے۔ چاندنی پھلوں میں مٹھاس پیدا کرے۔ زمین کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ ایسے درخت لگائے جو انسان کی ضروریات کو پورا کریں۔ درختوں کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ ایسے پتے اور پھل پیدا کریں کہ جن سے مخلوق کی ضرورت موسم کے لحاظ سے پوری ہوتی رہیں۔

اللہ یہ چاہتا ہے کہ کائنات کے اندر موجود ہر شئے مسلسل حرکت میں رہے۔ جو بندے اللہ کے اس فرمان، اس خواہش اور اس وصف کو قبول کر کے جدوجہد کرتے ہیں، وہ کائنات کے رکن بن جاتے ہیں اور یہ رکنیت کائنات کو متحرک اور فعال رکھتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ نوع انسانی کے افراد کو پیدائش کے وقت ظہنی طور پر پس ماندہ یا پاگل یا مخبوط الحواس کر دے تو انسان کیا کر سکتا ہے اور س سے کون سی ترقی ممکن ہے۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ ایسے بچے بھی پیدا ہوتے ہیں جو ترقی اور تنزلی سے واقف ہی نہیں ہوتے۔
وہ لوگ جن کے اندر اللہ کی ذات کے ساتھ وابستگی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے ہر عمل پر اللہ محیط ہے۔ جب کسی بندے کے اندر یہ طرز فکر پوری طرح قائم ہو جاتی ہے تو روحانیت میں ایسے بندے کا نام مستغنی ہے۔ جب کوئی بندہ مستغنی ہو جاتا ہے تو اس کے اندر ایسی طرز فکر قائم ہو جاتی ہے کہ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ میرا تعلق ایک ایسی ہستی کے ساتھ قائم ہے جو میری زندگی پر محیط ہے۔ بار بار جب یہ احساس ابھرتا ہے تو یہ احساس ایک مظاہراتی شکل اختیار کر لیتا ہے اور وہ یہ دیکھنے لگتا ہے کہ روشنی کا ایک دائرہ ہے اور میں اس دائرے میں موجود ہوں۔ یہ دائرہ ایک روشنی ہے اور اس روشنی میں بشمول انسان ساری کائنات بند ہے۔ اس بات کو تمام آسمانی کتابوں نے بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ آسمانی کتابیں بتاتی ہیں کہ آسمان اور زمین جس بساط پرقائم ہے، وہ ایک روشنی ہے۔ جو ہر لمحہ، ہر آن کائنات کی ہر چیز کو اللہ کے ساتھ وابستہ کئے ہوئے ہے۔ مستغنی آدمی کی نظر جب اس دائرے یا روشنی کے ہالے پر ٹھہرتی ہے تو اس کی نظروں کے سامنے وہ فارمولے آ جاتے ہیں۔ جن فارمولوں سے تخلیق عمل میں آتی ہے۔

عام حالات میں جب استغناء کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے اوپر کتنا توکل اور بھروسہ ہے۔ توکل اور بھروسے کی تعریف کرتے ہیں تو ہمیں بجز اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہماری دوسرے عبادات کی طرح توکل اور بھروسہ بھی لفظوں کا ایک خوش نما جال ہے۔ توکل اور بھروسہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دے۔ لیکن جب ہم فی العمل زندگی کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ بات محج لفظی اور غیر یقینی نظر آتی ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ ہر آدمی کی زندگی میں اس کا عمل دخل ہے۔ ہر آدمی کچھ اس طرح سوچتا ہے کہ ادارے کا مالک یا سیٹھ اگر مجھ سے ناراض ہو گیا تو ملازمت سے برخاست کر دیا جاؤں گا یا میری ترقی نہیں ہو گی یا ترقی تنزلی میں تبدیل ہو جائے گی۔ یہ بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ جب کسی کام کا نتیجہ اچھا مرتب ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ نتیجہ ہماری عقل، ہماری ہمت اور ہماری فہم و فراست سے مرتب ہوا ہے۔ اس قسم کی بے شمار مثالیں ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بندے کا اللہ کے اوپر توکل اور بھروسہ محض مفروضہ ہے۔ جس بندے کے اندر توکل اور بھروسہ نہیں ہوتا، اس کے اندر استغناء بھی نہیں ہوتا۔ توکل اور بھروسہ دراصل ایک خاص تعلق ہے۔ جو بندے اور اللہ کے درمیان قائم ہے اور جس بندے کا اللہ کے ساتھ یہ تعلق قائم ہو جاتا ہے، اس کے اندر سے دنیا کا لالچ نکل جاتا ہے۔ ایسا بندہ دوسرے تمام بندوں کی مدد و استعانت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ وہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ کی صفات یہ ہیں کہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، اللہ اپنی مخلوق سے کسی قسم کا احتیاج نہیں رکھتا۔ اللہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ ہے۔ اللہ کا کوئی خاندان بھی نہیں ہے۔

ان صفات کی روشنی میں جب ہم مخلوق کا تجزیہ کرتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ مخلوق ایک نہیں ہے۔ مخلوق ہمیشہ کثرت سے ہوتی ہے۔ مخلوق زندگی کے اعمال و حرکات پورے کرنے پر کسی نہ کسی احتیاج کی پابند ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مخلوق کسی کی اولاد ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ مخلوق کی کوئی اولاد ہو اور مخلوق کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا کوئی خاندان ہو۔ بیان کردہ ان پانچ ایجنسیوں میں جب تفکر سے کام لیا جاتا ہے تو یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ اللہ کی بیان کردہ پانچ صفات میں سے مخلوق ایک صفت میں اللہ کی ذات سے براہ راست تعلق قائم کر سکتی ہے۔ مخلوق کے لئے یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ وہ کثرت سے بے نیاز ہو جائے۔ مخلوق اس بات پر بھی مجبور ہے کہ اس کی اولاد ہو یا وہ کسی کی اولاد ہو۔ مخلوق کا خاندان ہونا بھی ضروری ہے۔

اللہ کی پانچ صفات میں سے چار صفات میں مخلوق اپنا اختیار استعمال نہیں کر سکتی۔ صرف ایک حیثیت میں مخلوق اللہ کی صفت سے ہم رشتہ ہو سکتی ہے۔ وہ صفت یہ ہے کہ تمام وسائل سے ذہن ہٹا کر اپنی ضروریات اور احتیاج کو اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیا جائے۔

بندے کے اندر اگر مخلوق کے ساتھ احتیاجی عوامل کام کرے رہے ہیں تو وہ توکل اور بھروسہ کے اعمال سے دور ہے۔

روحانیت کے راستے پر چلنے والے مسافر کو اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ زندگی کے تمام تقاضے اور زندگی کی تمام حرکات و سکنات جب شاگرد دروبست پیر و مرشد کے سپرد کر دیتا ہے تو وہ اس کی تمام ضروریات کا کفیل بن جاتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح ایک دودھ پیتے بچے کے کفیل اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ جب تک بچہ شعور کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا، ماں باپ چوبیس گھنٹے اس کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ گھر کا دروازہ نہ کھلے کہ بچہ باہر نکل جائے گا۔ سردی ہے تو بچے نے کپڑے کیوں اتار دیئے۔ سردی لگ جائے گی۔ کھانا وقت پر نہیں کھایا تو ماں باپ پریشان ہیں کہ بچے نے وقت پر کھانا کیوں نہیں کھایا۔ بچہ ضرورت سے زیادہ سو گیا تو اس بات کی فکر کہ کیوں زیادہ سو گیا۔ نیند کم آئی تو یہ پریشانی کہ بچہ کم کیوں سویا۔ ہر شخص جو پیدا ہوا ہے اور جس کی اولاد ہے اور جس نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو دیکھا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ بچے کی تمام بنیادی ضروریات کے کفیل اس کے ماں باپ ہوتے ہیں اور یہ کفالت اس طرح پوری کی جاتی ہے کہ جس کا تعلق بچے کے اپنے ذہن سے قطعاً نہیں ہوتا۔ چونکہ شاگرد یا مرید پیر و مرشد کا ذہن مرید کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ جب شیخ مرید کی کفالت کرتا ہے تو مرید کا شعور یہ بات جان لیتا ہے کہ جو بندہ میری کفالت کر رہا ہے، اس کا کفیل اللہ ہے اور رفتہ رفتہ اس کا ذہن آزاد ہو جاتا ہے اور اس کی تمام ضروریات اور تمام احتیاج اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہو جاتی ہیں۔

 


Mehboob Baghal Mein

خواجہ شمس الدین عظیمی



’’ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو نہایت احسن طریقہ پر پیدا فرمایا اور پھر اس کو بد سے بھی بدترین مقام پر پھینک دیا۔

زمین کو اللہ تعالیٰ نے بد سے بھی بدترین مقام کہا ہے۔ اس لئے آدم کو سخت اضطرب لاحق ہو اور وہاں آپ کو ایسی چیزوں سے واسطہ پڑا جن کو کہ اس سے قبل آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ یعنی بھوک پیاس وغیرہ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو آپ کے پاس بھیجا۔ جنہوں نے اس منزل اور ضرورت گاہ کے تمام عقیدے آپ پر کھول دیئے۔ یوں استاد شاگرد کا رشتہ ازل تا ابد قائم ہو گیا۔ غرض ہر صاحب علم کا کوئی نہ کوئی استاد اور کوئی نہ کوئی شاگرد ہو گا جس سے بندہ تربیت حاصل کر کے اللہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔