Topics
’’سب تعریف اللہ کے لئے جو رب ہے عالمین کا،
مہربان اور رحم کرنے والا، انصاف کے دن کا مالک ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور
تجھ ہی سے رحم کی مدد کے خواستگار ہیں، چلا ہم کو سیدھے راستے پر جو ان لوگوں کا
راستہ ہے جن کے اوپر تو نے اپنا فضل کیا ہے اور حفاظت کر ہماری ان لوگوں سے جن سے
تو ناراض ہے اور بچا ہم کو بہکنے والوں سے۔‘‘
کائنات کی تنظیم اس طرح
کی گئی ہے کہ ایک ہستی کا کائنات کے اوپر پورا پورا کنٹرول ہے۔ کائنات کے اندر
احتیاج ہے، کائنات ہر قدم پر مجبور ہے، کائناتی کنبہ کا ہر فرد دوسرے فرد کے ساتھ
اس طرح ہم رشتہ ہے کہ باوجود یہ کہ وہ اپنی ذات میں منفرد ہے لیکن دوسرے فرد سے
خود کو دور کر سکتا ہے اور نہ آزاد کر سکتا ہے۔ زماں و مکاں کائنات کی بساط اوّل
ہے، مکاں(زمین)، زماں(آسمان) نہ ہوں تو زندگی عدم ہے۔ عدم پر نقش و نگار حیات ہے،
حیات حرکت ہے، حرکت کا تقاضہ ہے، تقاضہ جذبہ ہے اور جذبہ حس ہے جس سے حواس بنے،
حواس سے خود آگاہی حاصل ہوئی، خود آگاہی نے ’’میں اور تو‘‘ میں امتیاز بخشا۔ یہ
جان لیا کہ میں جز ہوں وہ کل ہے، کل ہے تو میں ہوں وہ ابتدا ہے، میں ابتدا کی
انتہا ہوں، وہ انتہا ہے تو میں اس کا پرتو ہوں، پر تو نے اصل کی آواز الست سنی تو
کان بن گئے، دیکھا تو آنکھیں روشن ہو گئیں، نور کا جھماکہ ہوا تو بارہ کھرب سیل(Cells) چارج ہو گئے، خلئے کھلے تو ایک نقطہ سے کھربوں نقطے متحرک ہو
گئے۔ ’’وہی ہے جس نے تخلیق کیا تم کو ایک نفس(نطفہ) سے‘‘ کی تفسیر سامنے آ گئی پھر
خالق کائنات اللہ کریم بولا:
’’پاکی بول اپنے رب کے نام کی جو سب سے اعلیٰ ہے جس نے بنایا پھر ٹھیک کیاoاور جس نے متعین مقداروں سے ہدایت دیoاور جس نے نکالا چارہoپھر کر ڈالا اس کو کوڑا کالا oہم پڑھا دیں گے تجھ کو پھر تو وہ بھولے گا مگر جو چاہے اللہ وہ جانتا ہے ظاہر اور چھپا ہواoاور آہستہ آہستہ پہنچائیں گے ہم تجھ کو آسانی تکoتو سمجھے گا اگر سمجھنا چاہےoسمجھ جاویگا جس کو ڈر ہو گاoاور سرک رہے گا اس سے بڑا بدبخت اور جو پہنچے بڑی آگ میںoپھر نہ مرے گا اس میں نہ جیوے گاo بے شک بھلا ہو ااس کا جو سنوراo اور پڑھا نام اپنے رب کا پھر نماز قائم کی oکوئی نہیں تم آگے رکھتے ہو دنیا کا جیناoاور پچھلا گھر بہتر ہے اور رہنے والاoیہ کچھ لکھا ہے پہلے ورقوں میں صحاف ابراہیمؑ میں اور صحاف موسیٰ ؑ میںo‘‘۔
’’کچھ پہنچی تجھ کو بات
اس چھپا لینے والے کی oکتنے
منہ اس دن خوف زدہ ہیں محنت کرتے تھکتے oپہنچیں
گے دہکتی آگ میں پانی ملے گا ایک چشمہ کھولتے کا oنہیں
آس پاس کھانا مگر جھاڑ کانٹے oنہ
موٹا کرے نہ کام آوے بھوک میں oکتنے
منہ اس دن آسودہ ہیں oاپنی
کمائی سے راضی oاونچے
باغ ہیں oنہیں
سنتے اس میں بکتا oاس
میں ہے ایک چشمہ بہتا oاس
میں تخت ہیں اونچے لمبے oاور
آپ خورے دھرےoاور
غالیچے قطار پڑے (Wall to wall carpeted) مخمل کے نہالچے گھنڈر رہےoبھلا
کیا نگاہ نہیں کرتے اونٹوں پرoکیسے
بنائے ہیں oاور
آسمان پر کیسا بلند کیا ہےoاور
پہاڑوں پر کیسے کھڑے کئےoاور
زمین پر کیسی صاف بچھائی ہےoاس
کو تو سمجھنا تیرا کام ہی ہے سمجھاناoتو
نہیں ہے ان پر داروغہ oمگر
جس نے منہ موڑا اور منکر ہوا oتو
عذاب کرے گا اس کو اللہ وہ بڑا عذابoبے
شک ہمارے پاس ہے ان کو واپس لاناoپھر
بیشک ہمارا ذمہ ہے ان سے حساب لیناo‘‘۔
سورۃ اعلیٰ اور سورۃ
غاشیہ میں کائناتی کنبہ کے سرپرست اعلیٰ کہکشانی نظاموں کے خالق اکبر اور عالمین
کے رب نے اپنی صفات بیان کر کے واضح کیا ہے کہ کائنات دو رخوں سے مرکب ہے۔ ایک
یونٹ یکتا۔ واحد۔بے نیاز اور ہر قسم کے احتیاج سے پاک۔ خالق جو دیتا ہے لیکن کسی
سے کچھ لیتا نہیں ہے جو زندگی دیتا ہے۔ ایک زندگی سے دوسری زندگی میں اور دوسری
زندگی سے تیسری زندگی میں الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے۔
وہ قائم پاک ذات ہے، حیات
و ممات سے ماورا ہے، جس نے زمین کو بچھونا بنا دیا ہے جس نے پہاڑوں کو میخیں بنا
کر زمین میں گاڑھ دیا ہے، جس نے سات آسمانوں کی چھتوں کو دیواروں اور ستونوں کے
بغیر کھڑا کر دیا ہے۔ جس نے سورج کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ وہ زمین سے اُگتی ہوئی
کھیتیوں کو پکائے اور جس نے چاند کو حکم دے دیا ہے کہ وہ کھیتوں اور پھلوں میں
مٹھاس منتقل کرتا رہے۔ زمین پر سے قطار در قطار درخت اگا دیئے ہیں۔ رنگ رنگ کے
پھول زمین پر زینت کیلئے جھومر بنا دیئے ہیں۔ اور دوسرا یونٹ مخلوق ہے۔ مخلوق میں
افضل آدم ہے۔ وہ آدم جو محتاج ہے، بے اختیار ہے، کبھی موت کا پنجہ اسے دبوچ لیتا
ہے اور کبھی حیات اسے سہارا دیتی ہے۔ اور اگر خالق کائنات اللہ کریم کے ارشادات کے
مطابق وہ خالق اکبر اللہ کو جان لیتا ہے کہ وہ کل کا جزو اور اصل کا پرتو ہے۔ پھر
من و توکا پردہ اٹھ جاتا ہے۔ بندہ اپنی نفی کر کے پکار اٹھتا ہے:
’’میرا یقین ہے کہ ہر امر
اللہ کی طرف سے ہے میرا جینا، میرا مرنا، سب اللہ کے حکم کے تابع ہے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے