Topics

قیام پاکستان سے پہلے کا واقعہ


                قیام پاکستان سے پہلے کا واقعہ ہے۔ پاکستان بننے سے تقریباً تیس پینتیس سال پہلے ہندوستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں دیولالی میں جودھا من گاؤں کے قریب ہے، ایک معزز خاندان آباد تھا۔ لوگوں میں وہ ٹھاکر صاحب کے نام سے مشہور تھے۔ ٹھاکر صاحب کے والدین اور آباؤ اجداد زمانوں سے دیو لالی میں بستے چلے آ رہے تھے۔ جس کی وجہ سے سارا گاؤں ٹھاکر صاحب اور ان کی فیملی کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ ٹھاکر صاحب کے والدین تو اب فوت ہو چکے تھے البتہ ان کے ایک بڑے بھائی تھے جن کا نام مندراج تھا۔ وہ مندراج بابو کے نام سے مشہور تھے۔ دونوں بھائی ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ ٹھاکر صاحب کے یہاں پانچ بچے تھے۔ تین بیٹے اور دو بیٹیاں۔ بیٹے دونوں بیٹیوں سے بڑے تھے۔ جن کے نام راہول، سنیل اور عاجل تھے۔ ان سے چھوٹی بیٹی کا نام کندن تھا۔ ٹھاکر صاحب کی بیگم چودھرائن کے نام سے مشہور تھیں۔ مندراج بابو کا کنبہ بڑا تھا۔ مندراج بابو ٹھاکر صاحب سے عمر میں بھی تقریباً گیارہ سال بڑے تھے۔ ان کے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ چار بیٹیوں کی شادی ہو چکی تھی۔ اور دو بیٹیاں بیاہی جا چکی تھیں۔ چاروں بیٹے بہویں سب ایک ساتھ ہی رہتے تھے۔ بہت بڑی سی حویلی میں مندراج بابو اور ٹھاکر صاحب دونوں پیدا ہوئے تھے۔ دو بہنیں بھی ہوئیں مگر ان کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا۔ حویلی اس قدر بڑی تھی کہ اچھا بھلا قلعہ لگتی تھی۔ سارے گاؤں میں سب سے بڑا مکان یہی تھا۔ پہلے ٹھاکر صاحب بھی اسی میں رہتے تھے۔ یہیں ان کے تینوں بیٹے بھی پیدا ہوئے۔ مگر پھر ایک ہی سال میں ماں باپ دونوں کے انتقال کے بعد ٹھاکر صاحب کے ہاں جب کندن پیدا ہوئی تو پیدائش کے چھٹے دن جب اسے اور اس کی ماں کو چھٹی کا اشنان(غسل) دیا تو پرکھوں کی روایات کے مطابق فقیروں کو کھانا کھلایا گیا۔ مغرب کے وقت صحن میں بڑی بڑی دریاں بچھا دی گئیں۔ اور چنے کی دال اور چاول اور حلوہ پوری کے تھال دسترخوان پر رکھے گئے۔ جانے کہاں کہاں سے فقیر امڈے چلے آئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ دھامن گاؤں سے بھی غریب غرباء چلے آئے تھے۔ کئی دیگوں میں کئی سو لوگوں نے کھانا پیٹ بھر کر کھایا۔ ابھی دسترخوان جاری تھا کہ ایک ملنگ نما فقیر چلتا ہوا اندر آیا وہ کھڑا اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے کسی کو تلاش کر رہا ہو۔ ٹھاکر صاحب تیزی سے اس کی طرف بڑھے تا کہ اسے دسترخوان پر بیٹھنے کو کہا جائے ابھی وہ اس کے پاس پہنچے ہی تھے کہ وہ فقیر جس کا حلیہ سب سے الگ تھا، اس نے ایک گیروے رنگ کی چادر کی لنگی باندھ رکھی تھی۔ وہی چادر اس نے اوپر اور کاندھے پر بھی ڈالی ہوئی تھی۔ اس کا سارا سینہ گلے میں پہنی ہوئی موتیوں اور پتھروں کی مالاؤں سے چھپا ہوا تھا۔ پیشانی پر صندل کی تین چوڑی چوڑی لکیریں تھیں۔ ہاتھ میں دو تارہ پکڑا ہوا تھا۔ لمبی لمبی زلفیں بے ترتیبی سے شانوں پر پھیلی ہوئی تھیں۔ ٹھاکرصاحب کے پاس پہنچتے ہی وہ فقیر ایک دم بول اٹھا “میں تیرا کھانا کھانے نہیں آیا، بالک میں تو تیرا گھر تجھے لوٹانے آیا ہوں۔”یہ کہہ کر چادر کے اندر سینے پر ہاتھ ڈالا اور باہر نکالا تو اس کے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ چادر کے نیچے تو اس کے جسم پر کچھ نہ تھا۔ ٹھاکرصاحب ایک لمحے کو جیسے سن سے ہو گئے پھر ہاتھ میں کاغذات لے کر اس پر نظر ڈالی اور پھر جو اٹھائی تو فقیر کا کچھ پتہ نہ تھا۔

                وہ چپ چاپ کاغذات لے کر اندر کمرے میں آگئے۔ لیمپ کی روشنی میں کھول کر دیکھا۔ یہ ایک مکان کے کاغذات تھے۔ ان کے اوپر ٹھاکر صاحب کے والد کے دستخط تھے۔ یہ مکان اسی محلے کے ایک کونے پر تھا۔ جہاں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی۔ مکان کے آگے کھیت شروع ہو جاتے تھے۔ اس وجہ سے لوگ بھی اسے بھولے ہوئے تھے۔ کوئی اچھی طرح جانتا بھی نہیں تھا کہ اس کے یہاں اور کون رہتا ہے۔ گاؤں کے بزرگ جنگو چاچا کا وہاں تھوڑا بہت آنا جانا تھا۔ انہوں نے بھی لوگوں کے سامنے اس بڑھیا سے متعلق کوئی قابل ذکر بات نہیں کی۔ گاؤں کے لوگ مطمئن تھے کہ جنگو چاچا بڑھیا کی خبر گیری کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ٹھاکر صاحب نے تو ایک مرتبہ بھی اس حویلی کے اندر قدم نہ رکھا تھا۔ کاغذان کے ہاتھ میں تھے اور دماغ تیزی سے پچھلے ورق الٹا رہا تھا۔ والد صاحب کے دستخط ان کاغذات پر کیسے آ گئے۔ انہوں نے تو کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ بستر مرگ پر چند دن ان کی بیماری میں کٹے۔ اس میں ہی ذکر کر دیتے۔ ان کاغذات کے اوپر تو صاف لکھا ہے کہ مکان میرے نام ہے اور والد صاحب کی جانب سے ہے۔ پھر مجھے اس کی اطلاع آج تک کیوں نہ ملی۔ بہتر یہ ہے کہ سب سے پہلے مجھے ہی اسے جا کر دیکھنا چاہئے۔ پھر ہی کسی سے ذکر کیا جا سکتا ہے۔ یہ سوچ کر کمرے سے باہر آئے۔ صحن میں بچھے دسترخوان کا جائزہ لیا خادموں کو ضروری ہدایات دیں اور خاموشی سے باہر نکل آئے۔ تانگا ڈیوڑھی پر تیار کھڑا تھا۔ اس پر بیٹھ کر بڑھیا کے گھر چلنے کو کہا تانگا گیٹ کے اندر داخل ہوا اور حویلی کے دروازے پر آ کر رک گیا۔ یہ حویلی بہت ہی پرانی تھی۔ پھر آمد و رفت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے ویران پڑی تھی۔ گیٹ سے لے کر گھر کے دروازے تک بہت ہی اونچے گھنے درخت دونوں اطراف ہی تھے۔ سارا راستہ سوکھے پتوں سے اٹا پڑا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے زمانے سے صفائی نہیں کی گئی ہے۔ ٹھاکر صاحب تانگے سے اتر کر حویلی کے دروازے پر آ کھڑے ہوئے۔ شیشم کی لکڑی کا بہت بڑا سا دروازہ اس وقت بھی اسی طرح چمک رہا تھا جیسے کبھی نئے پن میں چمکتا ہو گا۔ ٹھاکر صاحب نے دروازے کو ہاتھ سے چھوا اور دل ہی دل میں اس کی خوبصورتی اور مضبوطی کی تعریف کے بغیر نہ رہ سکے۔ اس پر لگا پیتل کا بڑا سا دستک دینے والا کنڈا زور سے بجایا کچھ لمحے بعد ملنگ بابا نے دروازہ کھولا۔ ٹھاکر صاحب نے جلدی سے ہاتھ جوڑ کر انہیں پرنام کیا۔ وہ رعب دار آواز سے بولے۔”آؤ بالک، اندر آ جاؤ تمہارا ہی انتظار ہو رہا ہے۔”اس وقت مغرب کا وقت تیزی سے گزر کر رات کے اندھیرے میں داخل ہوتا جا رہا تھا۔ اندر تو اچھا خاصہ اندھیرا تھا۔ ملنگ بابا نے ایک جانب پڑی ہوئی لالٹین ہاتھ میں لی اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ٹھاکر صاحب ملنگ کے پیچھے چل پڑے۔ حویلی اچھی خاصی بھول بھُلیّاں تھی۔ دو تین راہداریوں سے گزر کر ایک کمرے میں آئے اس کمرے میں داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے یہ ایک پوجا گھر ہے۔ سب سے پہلے ٹھاکر صاحب کی نظر سامنے دیوار کے پاس خوبصورت بڑے سے طاق میں رکھی ہوئی ایک مورتی پر گئی۔ اس کے قدموں میں بہت سی موم بتیاں جل رہی تھیں اور پاس ہی فرش پر بھیڑ کی بڑی سی کھال پر ایک بڑھیا آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ ٹھاکر صاحب نے ادب سے کہا۔ “نمستے ماتا جی۔”بڑھیا نے پلکیں جھپکائیں۔ ملنگ بابا نے ٹھاکر صاحب کے شانوں کو چھوتے ہوئے کہا۔”پاس بیٹھ جاؤ۔”ٹھاکر صاحب اس بڑھیا کے بالکل پاس بیٹھ گئے اور اپنا ہاتھ اس کے ماتھے پر رکھا۔ اس نے نقاہت سے بار بار بند ہوتی آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”پُتر اب یہ گھر تیرا ہے۔ صندل دیوی نے تیرے گھر جنم لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ سب فیصلے اوپر والوں کے ہیں۔ صندل دیوی کے لئے یہ حویلی تیرے نام لکھ دی گئی ہے۔”ٹھاکرصاحب بولے۔ “مگر یہ تو میرے والد صاحب کے دستخط ہیں۔”بڑھیا نحیف و نزار آواز میں آہستہ آہستہ کہنے لگی۔”انہوں نے ملنگ بابا کو اوپر بلایا تھا۔ اور وہاں پر تیرے باپ سے یہ کاغذات بنوا کر بجھوائے ہیں۔”ٹھاکرصاحب نے گہری نظر سے بڑھیا کو دیکھا اور پاس کھڑے ملنگ بابا کو بھی۔ انہیں ان کی آنکھوں میں سچائی کی روشنی دکھائی دی۔ ویسے بھی ٹھاکر صاحب کے لیے ماورائی باتیں کچھ انوکھی نہ تھیں۔ وہ باپ دادا سے ایسی باتیں سنتے چلے آئے تھے۔ انہوں نے بڑھیا کے ہاتھ کو آہستہ آہستہ سہلاتے ہوئے پوچھا۔”اماں، صندل دیوی کیسی ہو گی؟”۔ بڑھیا نے دیوار کے طاق کی جانب اشارہ کیا۔ “یہ صندل دیوی ہے۔”ٹھاکر صاحب نے اب غور سے اس مورتی کو دیکھا۔ یہ صندل کی لکڑی کی تراشی ہوئی ایک خوبصورت مورتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے فنکار نے اسے فرصت سے بنایا ہے۔ اس کی ٹھوڑی پر بیچوں بیچ ایک سیاہ تل دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا۔ بڑھیا پھر بولی۔”صندل دیوی امرت کا پیالہ ہو گی۔ لوگ اس کے چرن چھو کر اپنی آتما کی پیاس بجھائیں گے۔”

                اب بڑھیا کے چہرے سے بے پناہ تھکاوٹ جھلکنے لگی۔ اس نے آنکھوں سے ملنگ بابا کو اشارہ کیا۔ ملنگ بابا طاق کی جانب آئے اور مورتی کے چرنوں میں پڑا ہوا پوجا کے تھال سے ایک بتاشہ اٹھا کر ٹھاکر صاحب کو دیا۔ ٹھاکر صاحب نے اسے کھا لیا۔ اس دوران بڑھیا کی نظریں بدستور ٹھاکر صاحب پر رہیں۔ جیسے ہی انہوں نے بتاشہ زبان پر رکھا، بڑھیا کی آنکھوں سے اطمینان و سکون کی لہریں نکلنے لگیں۔ اس نے آہستہ آہستہ گہرے گہرے سانس لئے اور منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔”پربھو، میرا کام بس اتنا ہی تھا۔”وہ بار بار یہی جملہ منہ ہی منہ میں دہرا رہی تھی۔ اب اس کا ذہن دنیا میں نہ تھا۔ چند لمحوں بعد اس کے منہ سے تین مرتبہ “پربھو”،”پربھو”،”پربھو”نکلا اور ایک ہچکی آئی اور گردن ایک جانب سے ڈھلک گئی۔ ٹھاکر صاحب نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔ پھر ہاتھ اٹھا کر آہستہ آہستہ دعا کی۔ اور چادر سے بڑھیا کا چہرہ ڈھانپ دیا۔ آہستہ سے اس کے پاؤں کی جانب کھڑے ہو گئے۔ ایک دفعہ پھر منہ ہی منہ میں کچھ پڑھا اور دعا کی۔ پھر ملنگ بابا سے کہا میں ماتا جی کے کریا کرم کا بندوبست کرتا ہوں۔ ملنگ بابا نے ٹھاکر صاحب کو گہری نظر سے دیکھا۔ اور ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ “بالک ماتا جی کا حساب کتاب اوپر والوں کے ساتھ ہے۔ ابھی تم خود دیکھ لو گے۔”ٹھاکر صاحب چپ ہو گئے۔ انہوں نے پہلے بھی اس حویلی سے منسوب کئی عجیب و غریب باتیں سنی تھیں۔ اس کے علاوہ اپنے دادا سے کافی روحانی علوم و تربیت انہیں حاصل ہوئی تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ روحانی علوم کسی مذہب و مسلک کا خاصہ نہیں ہیں۔ روحانی علوم تو روح کی صلاحیتوں کو جاننا اور اپنے ارادے سے ان کا استعمال کرنا ہے۔ اور روح ہر انسان کے اندر موجود ہے۔


Jogun

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح عورت یا مرد ہوتی ہے۔ روح روح ہوتی ہے اور کیونکہ روح صرف روشنی ہوتی ہے اور روشنی کے لئے حد بندیاں قائم نہیں کیں جا سکتیں۔ روشنی ہر جگہ ہے۔ روشنی کے لئے در و دیوار معنی نہیں رکھتے۔ روشنی ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ جب کوئی مرد یا عورت روح سے واقف ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور ہزاروں سال بعد کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ چونکہ ماضی، حال، مستقبل اس کے سامنے آ جاتا ہے اس لیے وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کی حاکمیت یقین کے ساتھ قبول کر لیتا ہے تو اس کر اندر سے غم و پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ سکون کے گہوارے میں محو خرام ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سعیدہ خاتون عظیمی کی اس کاوش کو عوام الناس کے لئے مقبول بنائے اور جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں ان کے ادراک و فہم میں جلا بخشے۔

                آمین

خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی