Topics

(نویں قسط)

کھانا کھا کے عاقب کیپٹن کے پاس خود گیا اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ بولا” کل صبح تم چاہو تو اسماعیل کے ساتھ گزار سکتے ہو۔ اس کے ساتھ جو ہیلپر کام کرتا ہے اس کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ۔ شاید اللہ نے تمہارے لئے روزی کا بندوبست کرنا تھا۔“ یہ کہہ کر وہ مسکرا دیا۔ عاقب بھی مسکرا دیا۔ قدرت کے کام ہی نرالے ہیں۔

          دوسرے دن صبح سے ہی وہ اسماعیل کے پاس آگیا۔ جہاز بیچ سمندر میں اونچی اونچی لہروں پر بہا چلا جا رہا تھا۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد عاقب نے اسماعیل سے پوچھا۔” یار تمہارا دس سال کا تجربہ ہے جہاز رانی کرتے اچھے بُرے وقت تو زندگی میں آتے ہی ہیں۔ مگر کیا کوئی ایسا تجربہ بھی ہے جسے تم کبھی بھلا نہیں سکتے۔“

          اسماعیل نے کہا۔” یوں تو خراب موسم میں طوفانی لہروں کی لپیٹ میں جہاز کےآنے کے کئی ایسے تجربات ہیں جو اتنی آسانی سے بھلائے نہیں جا سکتے۔ مگر سمندر کی زندگی میں یہ تو ہوتا ہی ہے۔ البتہ ایک ایسا واقعہ جو بہت ہی عجیب و غریب ہے۔ عقل کام نہیں کرتی۔ اگر تم سنو گے تو شاید تمہیں بھی یقین نہ آئے۔ مگر یہ حقیقت ہے۔ اس وقت کیپٹن صاحب بھی وہاں موجود تھے۔“

           عاقب نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔” یار اسماعیل بھائی! اب سنا بھی دو جلدی سے۔“

          اسماعیل نے اپنی بات آغاز کیا۔” سردی کا موسم تھا۔ ہم لوگ افریقہ سے نیوزی لینڈ مال لے کر جا رہے تھے۔ اس جہاز میں مال کے ساتھ کبھی کوئی پیسینجر بھی بٹھا لیتے ہیں۔ جو ہمیں اعتبار کے قابل لگتا ہے۔ کیپٹن صاحب سے تو تم مل  ہی چکے ہو۔ وہ بہت نرم دل آدمی ہیں۔ تنزانیہ کی بندرگاہ  دارالسلام سے ہم نے مال اُٹھایا۔ ابھی چلنے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ لوڈنگ ختم ہو چکی تھی۔ چلنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ایک سفید ریش آدمی جس کی داڑھی تین انچ سے زیادہ نہیں تھی۔ تیزی سے چلتا ہوا جہاز کی جانب آیا۔ میں نیچے ہی کھڑا  ہوا تھا۔ مجھ سے کچھ فاصلے پر جہاز کے اندر کیپٹن صاحب کھڑے تھے۔ اس شخص کا رنگ بالکل سفید و سرخ تھا۔ داڑھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ تراشی ہوئی ، بال سنورے ہوئے۔ کپڑے بھی صاف  ستھرے تھے لباس سے عربی معلوم ہوتا تھا۔ ہلکے کریم  رنگ کا عربی لباس اس پر بہت جچ رہا تھا۔ قد لمبا اور نہایت مناسب تھا۔ غرضیکہ اس کے چہرے پر بزرگی کا نور جھلک رہا تھا۔ عمر کوئی پچاس پچپن کے لگ بھگ  ہوگی۔  وہ تیز  چلتا ہوا جہاز کی طرف آرہا تھا ۔ میں دیکھ کر کھڑا ہوگیا اور سلام علیکم کہا۔اس نے بھی سلام کیا اور وہ کہنے لگا ۔ میں جہاز کے کیپٹن سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ کیپٹن پاس ہی تھے۔ میں نے کیپٹن کو آواز دی کہ یہ صاحب آپ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ کیپٹن نے ایک نظر ان پر ڈالی۔ پھر ہمارے پاس آگئے۔ ان بزرگ نے انہیں سلام کیا اور کہا میں آپ کے جہاز  میں سفر کرنا چاہتا ہوں۔ کیپٹن ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولے۔۔ آپ کہاں جائیں گے؟ وہ بولے۔” مجھے نیوزی لینڈ   جانا ہے۔ کیپٹن نے کہا۔” جناب آپ کو معلوم ہے کہ راستہ بہت لمبا ہے وہاں پہنچتے پہنچتے ہفتے لگ جائیں گے۔ وہ بزرگ کہنے لگے۔ مجھے معلوم ہے۔ مگر میں اسی شپ پر   جانا چاہتا ہوں۔ کیپٹن نے کہا۔ ٹھیک ہے آپ آ سکتے ہیں۔ انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ شاید رقم نکالنے کے لئے تو کیپٹن صاحب نے مسکرا کے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور نرمی کے ساتھ کہا۔ آپ ہمارے بزرگ ہیں۔ پیسوں کی کوئی بات نہیں۔ چلیئے آپ کو آپ کا کیبن دکھا دوں۔“

          ”عاقب تم یہ نہ سمجھنا کہ کیپٹن صاحب ہر کسی کے ساتھ یہی معاملہ کرتے ہیں۔ دراصل کیپٹن صاحب کو قیافہ شناسی کا ملکہ حاصل ہے۔ وہ ایک نظر دیکھ کر آدمی کو پہچان لیتے ہیں۔ یہ مال بردار شپ ہے۔ وہ آدمی دیکھ کر ہی کسی کوآنے دیتے ہیں۔“

          عاقب نے تائید میں کہا۔” کیپٹن صاحب نے پہلی بار مجھے جس نظر سے دیکھا تھا ۔ میں ان کی نظروں کی گہرائی  کو محسوس کر رہا تھا۔“

          اسماعیل نے اپنا قصہ جاری رکھتے ہوئے کہا۔” ہمیں سفر کئے ہوئے ابھی صرف چار دن گزرے تھے۔ وہ بزرگ زیادہ تر اپنے کیبن میں رہتے، کھانا بھی بہت کم کھاتے، بات بھی نہایے  مختصر   کرتے۔ انہوں نے اپنا نام عبد اللہ بتایا تھا۔ کیبن  سے باہر شام کو نکلتے۔ تو ڈیک پر سمندر کی لہروں کو چپ چاپ دیکھتے رہتے۔ کیپٹن صاحب نے ایک دفعہ ان سے پوچھا بھی کہ آپ تنہا اپنے کیبن بور تو نہیں ہو جاتے۔ ہمارے پاس آجایا کریں۔ یا کسی سے بات کر لیا کریں۔ وہ صرف مسکرائے اور آہستہ سے بولے۔” میں تنہا کب ہوں۔ یہ کہہ کر پھر اپنے کیبن میں جا کر گم ہو گئے۔ چار دن گزر چکے تھے۔ جہاز اپنی رفتار میں بڑے آرام سے سفر کر رہا تھا ہر طرف سوائے پانی کے کچھ نہ تھا۔ چوتھا دن بھی گزر گیا۔ سردی کی اندھیری راتیں تھیں۔ زیادہ تر ملازم کیبن میں اندر سو رہے تھے۔ کوئی ڈھائی  تین بجے کا وقت تھا میں اور کیپٹن صاحب دونوں جہاز کے وہیل پر تھے۔ ساتھ ساتھ باتیں بھی کرتے جاتے تاکہ نیند نہ آجائے۔ عبد اللہ کا کیبن پشت کی جانب قریب ہی تھا۔ پلٹ کر دیکھنے  پر ان کے کیبن کا دروازہ  دکھائی  دیتا تھا۔ ان کے اطراف کے چار کیبن میں ملازم سو رہے تھے۔ اتنے میں کھٹ سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ کیپٹن نے مُڑ کر دیکھا تو عبد اللہ دروازے پر کھڑے  دکھائی  دیئے۔ کیپٹن نے مجھ سے کہا۔ ” ارے  یہ عبد اللہ اس وقت کیا کر رہے ہیں؟ اسی وقت اندھیرے میں  میں نے جو سامنے سمندر میں دیکھا تو ایک پورا پہاڑ سامنے  دکھائی  دیا۔ اس قدر قریب کہ  اب بچنے کی کوئی  راہ نہ تھی۔ میں بدحواسی میں پوری قوت سے چلا اُٹھا۔”  کیپٹن پہاڑ!! کیپٹن پہاڑ!! کیپٹن نے گھبرا کے سمندر میں اپنی  آنکھیں  گاڑ دیں۔ یہ سب کچھ آنا فاناً ہوا۔ عبد اللہ پوری تیزی سے دوڑتے ہوئے ریلنگ کی جانب بڑھے۔ ابھی وہ ریلنگ کے پاس پہنچے ہی تھے کہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ سامنے پہاڑ کی طرف بڑھائے اور پہاڑ کو پرے دھکیلنے لگے۔ ہم نے دیکھا کہ وہاں عبد اللہ کی  بجائے ایک روشنیوں کا بنا ہوا انسان کھڑا ہے۔ یہ شخص اس قدر لمبا تھا کہ اس کا قد آسمان کو چھو رہا تھا۔ اس کی روشنی نے سمندر کو حدِ نگاہ تک روشن کر دیا۔ اس شخص نے ذرا سا جھک کے نیچے دیکھا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے پہاڑ کو کھلونے کی طرح اُٹھا لیا اور اُٹھا کے دور بہت دور سمندر میں   پھین دیا۔ میں اور کیپٹن صاحب دونوں اپنی جگہ ساکت کھڑے تھے، ہماری  آنکھیں  حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں اس کے بعد یہ روشنی کا آدمی گھٹتے گھٹتے چھوٹا ہو گیا اور اس کی ساری روشنیاں عبد اللہ میں سما گئیں۔ عبد اللہ ہماری جانب مُڑے اور کہنے لگے۔ نیوزی لینڈ آگیا۔ حالانکہ عبد اللہ ہم سے خاصے دور تھے۔ مگر ان کی آواز ہمیں بالکل اپنے کانوں کے پاس سنائی  دی۔ ان کی آواز نے ہم دونوں کو اس سکتے کی حالت سے باہر نکال دیا۔ کیپٹن صاحب کے منہ سے نکلا۔” نیوزی لینڈ آگیا۔ میں نے اپنی حالت کی طرف نظر کی۔ میں وھیل سے کم از کم دو گز دور کھڑا تھا۔ کیپٹن بھی ساتھ ہی تھے۔ میں جلدی سے وھیل کی طرف لپکا اور وھیل سنبھال لیا۔ اسی وقت نیوزی لینڈ کی بندر گاہ کی روشنیاں سامنے آگئیں۔ میں نے عملے کو جگانے کا الارم بجایا۔ کیپٹن صاحب عبد اللہ کی جانب بڑھے۔ اتنے میں عبد اللہ آگے  سمندر کی طرف بڑھے اور ریلنگ میں سے گزر کر پانی پر یوں چلنے لگے جیسے خشکی پر چلتے ہیں اور جلد ہی بندرگاہ کی روشنیوں میں گم ہو گئے۔ سارا عملہ جلدی جلدی آگیا۔ سب نے پوچھا ہم کہاں ہیں۔ جب پتہ چلا کہ نیوزی لینڈ میں ہیں تو کسی کو یقین نہیں آیا کہ چار دن میں نیوزی لینڈ کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ سب لوگوں میں ہلچل مچ گئی۔ چند لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہہ معاملہ کیا ہے؟ میں نے کہا اللہ کی قدرت ہے جہاز لنگر انداز کرنے کی تیاری کرو۔“

          ہم نے جہاز لنگر انداز کیا۔ کیپٹن نے ہاربر کے کارکنان سے رابطہ کیا۔ وہاں سے جواب آیا کہ ہمیں آپ کے پہنچنے کی اطلاع مل چکی ہے۔ یہ بات ہمارے لئے اور بھی زیادہ حیران کن تھی۔ ہمیں تو خود بھی پتہ چلا کہ ہم نیوزی لیند پہنچ چکے ہیں۔ یہ خبر کس نے دی۔ یقیناً یہ خبر عبد اللہ نے دی۔ مگر فون، وائرلیس آخر کس نظام کے تحت یہ خبر دی۔ کیپٹن صاحب نے مجھ سے کہا۔” تعجب ہے  بھائی  عبد اللہ صاحب تو کوئی بہت ہی کمال کی ہستی ہیں۔ میں نے کہا۔ وہ واقعی اللہ کے بندے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد ہماری حیرتوں میں مزید اضافہ ہوا۔ وہ یوں کہ جب جہاز کسی بندر گاہ پر لنگر انداز ہوتا ہے تو اس بندر گاہ کے کچھ ذمے داران آ کر جہاز کی چیکنگ کرتے ہیں اور پھر جہاز کے اراکین کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دیتے ہیں۔ چیکنگ کے بعد انہوں نے رسید دی۔ کیپٹن نے جب رسید دیکھی تو اس پر تاریخ ہی لکھی تھی۔ جس تاریخ پر ہم نے نیوزی لینڈ پہنچنا تھا یعنی ہمارے حساب سے دو ہفتے کے بعد کی تاریخ تھی۔ کیپٹن نے اس سے پوچھا۔ آج کیا تاریخ ہے۔ اس نے کہا۔ آپ بالکل ٹھیک دن پہنچے ہیں۔ آپ نے اسی دن پہنچنا تھا۔ کیپٹن نے ان سے تو کچھ نہیں کہا۔ مگر میرے پاس آ کر وہ کاغذ میرے سامنے رکھ دیئے۔ بولے۔ اس کی تاریخ تو پڑھو۔ میں نے تاریخ پرحی تو میں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم نے تو صرف چار دن سمندر میں سفر کیا ہے۔ یہ تو پندرہ دن بعد کی تاریخ  بتا رہے  ہیں۔ ہم نے اپنی گھڑیاں چیک کیں۔ جن پر تاریخ تھی۔  سب ہی چار دن بعد کی تاریخ بتا رہے تھے۔ ہم حیران تھے ۔ سارے جہاز پر وہی چار دن بعد کی تاریخ تھی۔ مگر نیوزی لینڈ میں دو ہفتے بعد کی تاریخ کیسے آگئی۔ کیپٹن صاحب نے ایک آدمی سے خاص طور پر کہا کہ تم شہر جا کر پتہ کر کے آؤ کہ آج کیا دن ہے اور کیا تاریخ ہے۔ ان  سارے ہنگاموں میں  صبح ہو چکی تھی۔ وہ شخص کوئی ایک گھنٹے بعد آیا اور اس نے وہی دن اور تاریخ بتائی۔ جو چیکنگ والوں نے نوٹ کی تھی۔ پھر ہم نے شہر میں ان بزرگ کو بہت ڈھونڈا مگر وہ کہیں  دکھائی  نہیں دیئے۔ آج بھی ہم اس واقعہ کو یاد کرتے ہیں تو حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ یقیناً اسے اللہ تعالی ٰ نے ہماری حفاظت کے لئے بھیجا تھا۔۔۔“

          عاقب بڑی  دلچسپی سے یہ باتیں سن رہا تھا۔ اس نے کہا ” ضرور وہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے شعبہ تکوین سے تعلق رکھتے ہیں۔  شعبہ تکوین سے تعلق رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے امر کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور امر ربی کی اطلاعات پر روحانی شعور کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہر آدمی دو جسموں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ ایک جسم یہ مادی جسم ہے۔ دوسرا جسم روشنیوں کا بنا ہوا ہے۔ جو روحانی جسم ہے اور روح یا اللہ کے امر پر کام کرتا ہے۔ روشنی کا جسم ٹائم  اینڈاسپیس سے آزاد رہ کر کام کرتا ہے۔ تم نے اس جسم کا مظاہرہ دیکھ لیا۔ امر ربی کی صلا حیتوں کو سمجھنے والے اور روحانی شعور سے کام لینے والے آدمی کو اللہ کا بندہ یعنی عبداللہ کہتے ہیں۔“ اسماعیل کہنے  لگا۔ عاقب بھائی  جس دن سے ان بزرگ کو دیکھا ہے۔ اللہ والوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلو مات کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر جو کچھ ہم نے دیکھا ہے۔ جب کسی کو سناؤ تو وہ یقین ہی نہیں کرتا۔ عاقب بولا۔” اصل بات یہ ہے کہ عام افراد اپنے مادی جسم سے تو  واقف ہیں مگر روحانی جسم سے واقف نہیں ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کو جوڑا بنایا۔ اس کے متعلق تو وہی آپ  کو بتا سکتا ہے جو خود اپنے روحانی جسم سے واقف ہو۔ روحانی جسم اللہ تعالیٰ کے امر کی اطلاعات کو وصول کرتا ہے اور اس پو فوراً ہی عمل کرتا ہے۔ روحانی دماغ ٹائم اسپیس پر حاوی ہے۔“

           اگلےدو دن بھی عاقب اسماعیل کے ساتھ کام کرتا رہا۔ اس نے رحمٰن بابا کی بہت ساری باتیں اسے سنائیں اور بتایا کہ اگر تمہارا کبھی ادھر   جانا ہو تو ان سے ضرور ملنا۔ پانچویں دن رات کے گیارہ بجے کا وقت ہوگا کہ سمندری واچ نے اطلاع دی کہ سمندر میں جہاز کی پشت کی جانب کچھ فاصلے پر اندھیرے میں کوئی کشتی آتی    دکھائی  دے رہی ہے۔ اس کشتی میں کوئی روشنی نہیں ہے۔ جہاز کے تمام عملے  کو اس کشتی کی اطلاع دے دی گئی۔ اتنےبڑے جہاز میں اگر کوئی چپکے سے چڑھنا چاہے تو وہ نظر بچا کے کہیں بھی چڑھ سکتا ہے  کہیں نہ کہیں تو اسے چھپنے کی جگہ مل ہی جائے گی۔ مگر چلتے جہاز میں کسی چڑھنا اتنا آسان نہیں  ہے۔ بیچ سمندر میں رات کے اندھیرے میں جہاز کے قریب کشتی  کا چلنا غیر معمولی بات تھی یا تو یہ کشتی راستہ بھول کے اس طرف آگئی ہے یا پھر کسی نہ کسی مصیبت میں ہے۔ کیپٹن نے اسماعیل کو حکم دیا کہ سرچ لائٹ اس کشتی پر اور اس کے اطراف میں ڈالی جائے۔ کشتی پر سرچ لائٹ ڈالی گئی دیکھا  کہ کشتی میں کچھ لوگ لیٹے ہو ئے ہیں۔ وہ اس طرح کپڑوں میں لیٹے ہوئے تھے کہ ان کے چہرے اور حلیئے قطعی نظر نہ  آئے۔ جب سرچ لائٹ کشتی کے اطراف میں گئی تو کچھ فاصلے پر ایک بہت بڑی کشتی بھی  آتی    دکھائی  دی۔ مگر عجیب بات تھی کہ اس کشتی کی لائٹ بھی تمام کی تمام بند تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ دونوں کشتیاں جہاز کی روشنی کے پیچھے آرہی ہیں۔ کیپٹن نے اعلان کرایا کہ ان کشتیوں میں جو بھی سفر کر رہے ہیں۔ وہ اپنی لائٹیں جلائیں اور جہاز سے دور رہیں۔ مگر بار بار اعلان کرنے پر بھی دونوں کشتیوں میں کسی قسم کی کوئی حرکت نہ ہوئی۔

          اسماعیل نے کیپٹن سے کہا۔” سر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ان کشتیوں میں لوگ یا تو سو رہے ہیں یا پھر نشے میں ہیں۔ ہو سکتا ے بے ہوش ہوں۔“

          کیپٹن نے کہا۔” اگر سو رہے ہوتے تو ہماری آواز اور روشنی میں ضرور جاگ جاتے۔ اگر شراب کے نشے میں مدہوش ہیں ۔ تب بھی کشتی تو کوئی نہ کوئی چلا ہی رہا ہے۔ احتیاط لازمی ہے اگر یہ کسی مصیبت میں پھنسے ہوتے تو جہاز دیکھ کر کوئی نہ کوئی اشارہ تو کرتے ۔“ ابھی کیپٹن نے اپنی بات ختم  ہی کی تھی کہ بڑی کشتی کی جانب سے S.O.S  ایمر جنسی سگنل فضا میں بلند ہوا۔ اسماعیل فوراً بولا۔” سر یہ لوگ ضرور کسی مصیبت میں ہیں۔ دیکھیئے وہ ایمر جنسی سگنل بھیجا ہے۔“  کیپٹن نے جہاز کی اسپیڈ کم کرنے کا حکم دیا۔ اسپیڈ ذرا کم ہوئی تو کیپٹن نے کہا ۔ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اطلاع دو یا پھر جہازی کوڈ کے ذریعے حالات سے اگاہ کرو تاکہ تمہاری مدد کی جائے۔ چند لمحوں بعد پھر ایک ایمر جنسی سگنل فضا میں بلند ہوا۔ اب کے سے کیپٹن نے کہا کہ ضرور ان لوگوں کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ جہاز کی رفتار ویسے بھی نہایت کم کر دی گئی تھی۔ بڑی کشتی جہاز کے قریب آگئی تھی۔ چھوٹی کشتی بھی دور نہیں تھی جہاز پر چڑھنے کے لئے رسی کی سیڑھیاں لٹکا دی گئیں۔ کیپٹن نے پھر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے انہیں پکارا۔ اپنی کشتی جہاز کے قریب کر لو تاکہ تمہیں اوپر کھینچا  لیا جائے۔ پہلے بڑی کشتی بالکل قریب اگئی۔ یہ بہٹ بڑی بوٹ تھی۔ جس میں کم از کم پندرہ بیس لوگوں  کی گنجائش تھی۔ بوٹ جہاز کے بالکل قریب آگئی۔ کیپٹن نے پوچھا۔” کیا بات ہے؟“

          ایک شخص نے بوٹ کی کھڑکی میں سے جھانکتے ہوئے کہا۔” ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ ہمارے پاس کھانا بالکل ختم ہو چکا ہے۔ ہم بہت تھکے ہوئے ہیں اور پریشان ہیں۔“

          کیپٹن نے پوچھا۔” کتنے آدمی ہیں؟“

          کہا گیا۔” بارہ اس بوٹ میں  ہیں اور تین دوسری کشتی میں ہیں۔“

          کیپٹن نے کہا۔”   ٹھیک    ہے۔ آجاؤ!“

          وہ سب جہاز پر چڑھ آئے۔ چھوٹی کشتی بھی قریب ا چکی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ تین ادمی بھی جہاز پر چڑھ آئے۔ سب نے برساتی نما کوٹ پہن رکھے تھے اور کالر اونچے کر کے اپنے چہروں کو آدھا اس میں چھپایا ہوا تھا۔ بال بکھرے اور الجھے ہوئے تھے۔ سب واقعی تھکے ہوئے لگتے تھے۔ کیپٹن نے سب کی طرف دیکھ کر کہا۔” آپ لوگ تھکے ہوئے لگتے ہیں۔ ہم آپ کے کھانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ اتنی دیر آپ ڈائننگ ہال میں چلیں۔ ہمارا آدمی آپ کو وہاں لے جائے گا۔“

           وہ چپ چاپ اس شخص کے ساتھ جانے کے لئے مڑے۔ ابھی وہ مڑے ہی تھے کہ نہ جانے کیپٹن کو کیا خیال آیا۔ اس نے ایک دم کہا۔” ذرا ٹھہر   جانا!۔“ یہ کہہ کر وہ ان کے  پاس  آگیا اور گہری نظروں سے ان لوگوں کو دیکھنے لگا پھر پاس کھڑے جہاز کے دو ملازموں کو اشارہ کر کے کہا۔” پہلے ان سب کی تلاشی لے لو۔ یہ ہمارے جہاز کا اصول ہے۔“

          ابھی وہ ملازم قریب آئے ہی تھے کہ آنا فآنا سب نے اپنی پستولیں نکال لیں اور للکارے” خبردار جو ہمارے قریب آئے“ کیپٹن نے پوچھا۔” تم لوگ کیا چاہتے ہو؟“

           ان میں سے ایک بولا۔” ہمیں معلوم ہے کہ اس جہاز  پر اسلحہ ہے ہمیں وہ دے دو۔“

          کیپٹن نے کہا۔” اول تو ہمارے جہاز  پر اسلحہ نہیں ہے۔ بلکہ کھانے پینے  کا سامان ہے۔ دوسرے تم کیا خیال کرتے ہو کہ تم لوٹ مار کر کے بچ جاؤ گے۔“

          اسی وقت دو تین لٹیروں نے ہوائی  فائر کر دیئے۔ فائر کی آواز سن کر جہاز کے عملے کے سیکورٹی والے نکل آئے اور چپکے سے پیچھے سے آ کر انہوں نے ان لٹیروں کو اپنی گنوں کی زد میں  لے لیا۔ سیکوڑٹی والوں کی آواز سن کر ایک لٹیرا جو کیپٹن سے قریب کھڑا تھا۔ ایک دم سے اس نے کیپٹن پر جمپ مار کر اسے پکڑنے کی کوشش کی۔ کیپٹن نے زور سے اس کے منہ پر مکا مار کے اسے پرے دھکیلا اور خود دور ہٹ گیا۔ مگر اس کا فائدہ اُٹھا کر تین لٹیرے دیدہ دلیری کے ساتھ عملے کے چند لوگوں سے گتھم گتھا ہو گئے اور دو ملازموں کو پکڑ کے انہیں یرغمال بنا لیا۔ عاقب اسماعیل کے ساتھ تھا۔ بحری قزاقوں کے متعلق اس نے پڑھا اور سنا تو بہت کچھ تھا ۔ مگر عملی طور پر انہیں دیکھنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس کا ذہن تیزی سے کام کرنے لگا کہ کس طرح ان لٹیروں سے خلاصی حاصل کی جائے۔ سیکورٹی والے برابر انہیں للکا رہے تھے مگر وہ اس قدر نڈر تھے کہ یر غمالیوں کی کنپٹی پر پسٹول رکھ کر انہیں مارنے کی دھمکی دی کہ تم نے مارا تو یہ بھی جان سے جائیں گے۔ ان کا لیڈر اسلحہ کا مطالبہ کرنے لگا۔

          کیپٹن نے کہا۔” ٹھیک ہے ہم تمہیں اسلحہ دیتے ہیں۔“ وہ جان گیا تھا کہ اگر گولیاں چل گئیں تو خوامخواہ کوئی مارا جائے گا۔ اس نے کہا ہم تمہیں اسلحہ کی پیٹیاں دیتے ہیں۔ مگر جہاں مال رکھا ہے۔ اس گودام میں تمہارا صرف ایک آدمی جائے گا۔“

          لُٹیرا بولا۔” تم وہ مال گودام سے یہاں پہنچا دو۔“ کیپٹن نے کہا۔” یہی تو میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم  کو کسی نے غلط اطلاع دی ہے۔ ہمارے جہاز پر کھانے پینے کا مال ہے اور کچھ دوسری چیزیں ہیں۔ مگر اسلحہ ہرگز نہیں ہے۔ تم اپنا ایک آدمی گودام میں بھیجو وہ خود دیکھ لے گا۔“

          لُٹیروں کا لیڈر بڑے جلال میں چیخا۔” کیا تم مجھے بے وقوف بنآنا چاہتے ہو۔ جاؤ اور اسلحہ کی پیٹیاں یہاں حاضر کرو ورنہ ان دونوں کی خیر نہیں۔“

          عاقب نے دیکھا وہ دونوں بے قصور ملازم  کے کنپٹی پر رکھے پستول کی نالی کے خوف سے ادھ موئے  ہو رہے تھے۔ وہ کسی نادیدہ قوت کے تحت ایک دم سے یہ کہتا ہوا سامنے کیپٹن کی جانب بڑھا۔” سر آپ کہیں تو میں گودام سے وہ پیٹیاں یہاں لے آؤں ان لوگوں سے ضد کرنا ٹھیک نہیں ہے۔“ کیپٹن نے حیران ہو کر عاقب کی طرف دیکھا۔ اتنی دیر میں عاقب کیپٹن کے پاس پہنچ چکا تھا ۔ اس نے کیپٹن کو آہستہ سے کہا۔” مجھ پر بھروسہ کریں۔“

           اتنے میں لُٹیروں کے لیڈر کی پھٹی ہوئی آواز گونجی۔” کیپٹن ہمارے ساتھ ضد ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی بات مان لے۔“ عاقب نے کیپٹن کے کان میں کہا۔” سر اپنے آدمیوں کے ساتھ مجھے گودام میں بھیج دیں۔“ کیپٹن نے آہستہ سے عاقب کے کان میں سرگوشی کی۔” بے وقوف میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ واقعی ہمارے جہاز پر اسلحہ نہیں ہے۔“

          عاقب نے کہا۔” اللہ جانتا ۔ مجھے جانے تو دیں۔“ کیپٹن نے عاقب کی نگاہوں میں جھانکا اور چند آدمیوں کو اشارہ کر کے حکم دیا کہ ۔” ان کے ساتھ جا کر وہ پیٹیاں لے آؤ۔“

          عاقب گودام میں گیا۔ اسے اپنے اندر بے پناہ قوت محسوس ہو رہی تھی۔ اتنی زیادہ کہ اس نے ایک پیٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا یہ بہت بڑا لکڑی کا بکس تھا۔ اس نے جونہی اس بکس کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ چار ملازم اس پیٹی کو اُٹھانے کے لئے لپکے۔ عاقب نے ایک طرف سے اسے اُٹھایا۔ تو اس طرف کے ملازموں کے ہاتھ نیچے ہی رہ گئے۔ وہ حیرانی سے عاقب کی طرف دیکھنے لگے۔

           وہ بولا۔” تم دوسرا بکس اس کے ساتھ والا اُٹھا لو۔ یہ میں اُٹھا لیتا ہوں۔“

           وہ چھ آدمی مل کر ایک بکس  بمشکل اُٹھا سکے۔ سب کے اوپر حیرت طاری تھی۔ کچھ حادثے کا پریشر تھا کوئی کچھ نہ بولا۔ عاقب نے آٹھ بڑے بڑے بکسوں کو اوپر پہنچا دیا۔ یہ تمام لکڑی کے بکس تھے۔ عاقب کیپٹن کے پاس کھڑے ہو کر اُس سے مخاطب ہو کر بولا۔” سر یہ آٹھ بکس ہیں۔ بس یہی تھے۔“

          کیپٹن سخت پریشان تھا۔ چپ چاپ دیکھتا رہا۔ شاید سوچ رہا تھا کہ اب کیا ہوگا۔ اگر ان لُٹیروں نے بکس کھول لئے اور اس میں اسلحہ نہ پایا تو کیا صورت ِ حال ہوگی۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ان بکسوں میں اسلحہ تو ہے نہیں کچھ اور سامان ہے۔ عاقب کے چہرے پر اطمینان کا نور جھلک رہا تھا۔

          قزاقوں کا لیڈر بولا۔” ان بکسوں کو کھول کر دکھایا جائے۔“

          عاقب نے کہا۔” ہم انہیں کھو ل کر دکھا دیں گے۔ مگر شرط یہ ہے کہ تم اس اسلحہ کو لے کر خاموشی کے ساتھ واپس لوٹ   جانا۔“

          عاقب نے لیڈر کے چہرے پر اپنی نظریں گاڑ دیں۔

           لیڈر بولا۔” ٹھیک ہے تم ان بکسوں کو کھولو۔“

          عاقب نے ایک ایک کر کے  تمام بکس کھول دیئے۔ ان تمام بکسوں  کے اندر بندوقیں اور پستول تھے۔ لُٹیروں کے چہرے شیطینت سے تمتمانے لگے۔ کیپٹن کی  آنکھیں  فرطِ حیرت سے چمک اُٹھیں ۔ مگر وہ چپ تھا۔ ان تمام بکسوں کو کھولنے کے بعد عاقب نے جہاز کے عملے کے ایک ملازم سے کہا کہ ان سب بکسوں کو بند کر کے ان پر کیلیں ٹھنونک دے تاکہ کشتی میں لوڈ کرنے میں آسانی  ہو۔ تمام بکسوں کو  دوبارہ بند کر کے کیلوں سے مضبوط بند کر دیا گیا۔ لیڈر نے اپنے کچھ آدمیوں کو حکم دیا کہ ان بکسوں کو ان کی کشتی میں لوڈ کریں اور پھر وہ سب واپس چلے گئے۔ جہاز دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوا۔ ان بکسوں کے اندر موجود مال کی تفصیل صرف کیپٹن اور اسمعیل کے سوا اور کسی کو معلوم نہ تھی۔ جہاز جب اپنی رفتار سے چلنے لگا اور لُٹیروں کی کشتیاں ان سے بہت دور رہ گئیں تو کیپٹن نے عاقب کو اپنے کیبن میں طلب کیا۔ کیپٹن کینیا کا باشندہ تھا، جہاندیدہ اور نیک طنیت شخص تھا۔ اپنے تمام عملے کے ساتھ اس کا دوستانہ سلوک تھا۔ سب ہی کیپٹن کی بہت عزت کرتے اور اس سے محبت کرتے تھے،

          کیپٹن نے عاقب کو اپنے پاس بٹھایا ۔ چائے منگوائی  اور پھر کہنے لگا۔ ” آج جو کچھ ہوا ہے۔ میں اس واقعہ کی کچھ وضاحت چاہتا ہوں۔“ کیپٹن اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا۔” جہاز پر جو مال بند بکسوں میں لادا جاتا ہے۔ عام طور سے اس کی تفصیل صرف مجھے اور اسماعیل کو ہی معلوم ہوتی ہے عملے کے دوسرے لوگ اس سے بے خبر ہوتے ہیں۔ تم نے جن آٹھ بکسوں کو قزاقوں کے حوالے کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ان کے اندر بندوقیں اور اسلحہ نہیں تھا بلہ فوٹو گرافی کا سامان تھا۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ جب بکس کھولے گئے تو فوٹو گرافی کا سامان اسلحہ کی صورت میں کیسے تبدیل ہو گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہاری حکمت ِ عملی نے خون خرابے سے بچایا ورنہ یہ بحری قزاق بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ ان کے لئے قتل و غارت روز مرہ کا کھیل ہے۔“

          عاقب مسکرا کے بولا۔” حق تو یہ ہے کہ ہر کام اللہ ہی کی جانب سے ہوتا ہے۔ اللہ کبھی ظالم کی حمایت نہیں کرتا۔ جو کچھ میرے ذریعے سے ہوا یہ بھی اللہ کی جانب سے تھا۔ میں  نے اپنے دل میں اپنے رب کو پکارا اور اپنے پیر و مرشد کو مدد کے لئے آواز دی تاکہ وہ اس سنگین صورت حال سے ہمیں بچائیں۔ ان کے ارادے کی روشنی میرے ارادے کی قوت بن گئی اور کام ہو گیا۔“

          کیپٹن کہنے لگا۔” تمہاری باتوں میں صداقت ہے۔ میرا بھی اس بات پر پکا یقین ہے کہ ہر کام کا فاعل حقیقی ایک ذاتِ واحد ہے جس کی قوت و جبروت کا صحیح اندازہ لگآنا ممکن نہیں ہے۔ اپنی بے پناہ قوتوں اور عظمتوں کے ساتھ اس ہستی نے اپنی ناتواں مخلوق کو سنبھالا ہوا ہے۔ جب بھی مخلوق اسے پکارتی ہے وہ مدد کو حاضر ہو جاتا ہے۔ اپنی جہاز رانی کی مدت کے دوران کئی بار ایسے واقعات سے سابقہ پڑا۔ جو خالق کی عظمت اور اپنی  ناتوانی کا دیلی مشاہدہ بن گئے۔ مگر اس وقت مجھے یہ بھی خیال آرہا ہے کہ ان قزاقوں کے ہاتھ میں ہم نے مزید بندوقیں دے  کر اپنی جان تو بچا لی۔ نہ جانے اس اسلحہ سے وہ کتنے بے گناہوں کا خون بہائیں گے۔“

          عاقب اطمینان بھری آواز میں بولا۔” کیپٹن صاحب اللہ کا کام کبھی ادھورا نہیں ہوتا۔ جب وہ دوبارہ ان بکسوں کو کھولیں گے تو فوٹو گرافی کے پیپر دیکھ کر اپنا سر پیٹ لیں گے۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آئے گا کہ ان سب کی  آنکھیں  کیسے دھوکہ کھا سکتی ہیں۔“

          کیپٹن خوش ہو کر ہنس پڑا اس کے چہرے سے فکر مندی کے تمام آچار فنا ہو چکے تھے۔ اب وہ ہنستے ہوئے بولا۔” یار تم بڑے دلچسپ آدمی ہو۔ یہ گُر ہمیں بھی سکھا دو۔ وقتِ ضرورت کام آئے گا۔“

          عاقب بولا۔” کیپٹن صاحب یہ صلاحتیں تو سب میں موجود ہیں۔ مگر ہر آدمی اپنی صلاحیتوں کو اپنے یقین کی سکت کے مطابق استعمال کرتا ہے۔“

          کیپٹن اب اس سے فری ہو گیا تھا۔” اچھا یہ بتاؤ تم کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟“

          عاقب نے بتایا۔” میں  دنیا کی سیاحت کے لئے نکلا ہوں۔ میرے شیخ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں دنیا میں بسنے والوں کو قریب سے دیکھوں تاکہ پتہ چلے کہ لوگوں کے  ذہن  کس کس انداز سے سوچتے ہیں۔“

          کیپٹن بولا۔” تم مڈغا سکر سے افریقہ جانے کا ارادہ رکھتے ہو تو کینیا چلے   جانا۔ میں کینیا سے تعلق رکھتا ہوں۔ وہاں میرا گھر ہے۔ میرے بال بچے ہیں۔ میں تمہیں ان کے لئے خط لکھ دوں گا تاکہ وہ تمہیں پہچان لیں  اور انہیں تمہارے متعلق اطلاع بھی کر دی جائے گی تاکہ تم وہاں جاؤ تو تمہیں رہنے میں آسانی ہو جائے۔ افریقہ میں لوگوں کے ذہن بڑے عجیب طریقے سے سوچتے ہیں۔ تم وہاں کچھ دن گزارو گے تو خود ہی جان جاؤ گے۔“

           عاقب نے کیپٹن کا شکریہ ادا کیا اور واپس اپنے کیبن میں لوٹ آیا۔

          چند دنوں بعد وہ مڈغاسکر پہنچ گئے۔ جہاز کے کیپٹن سے لے کر سارے عملے نے عاقب کو بہت محبت کے ساتھ رخصت کیا۔ کیپٹن نے کینیا جانے اور اپنے بال بچوں سے ملنے کی دوبارہ تاکید کی۔ اسماعیل گلے مل کر کہنے لگا۔” کبھی موقع ملا تو ضرور رحمٰن بابا سے ملاقات کروں گا۔“

          مڈغا سکر میں دو دن گھومنے پھر نے کے بعد وہ موز مبیق کے لئے روانہ ہو گیا۔ وہ مومبیق کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پہنچا۔ یہ گاؤں جنگل کے درمیان میں تھا۔ لوگوں کی طرزِ زندگی میں جنگل کا عکس تھا۔ گھانس پھونس سے بنی ہوئی جھونپڑیاں ، پتوں اور گھاس پھونس کے لباس، جیسے ہی وہ ان کی بستی میں داخل ہوا تو چاروں طرف سے فوراً جنگلی لوگ نکل آئے۔ ان کے منہ اور جسموں پر طرح طرح کے پینٹ سے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور پتوں سے صرف اپنے ستر چھپائے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں نیزے تھے ۔ عاقب نے سوچا اگر میں نے ذرا بھی ڈر خوف کا اظہار کیا تو یہ جنگلی لوگ نہ جانے کیا حشر کریں۔ اس نے اپنے دل میں ہی دل میں رحمٰن بابا کو پکارا رحمٰن بابا مجھ پر نظر رکھنا۔“

          رحمٰن بابا کے نام سے اس کے اندر اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے مسکرا کے سب کی طرف دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے انہیں  بتایا کہ وہ مسافر ہے۔ بھوکا پیاسا ہے۔ جلد ہی یہاں سے آگے  چلا جائے گا۔ تم لوگوں کے رہن سہن کو دیکھنے آیا ہے۔

          وحشی قوم میں ایک صفت یہ ہے کہ  یہ لوگ خود بھی بہت نڈر ہوتے ہیں اور بہادر و نڈر لوگوں کی قدر  بھی کرتے ہیں۔ ڈرپوک لوگوں کو پسند نہیں کرتے۔ عاقب جانتا تھا کہ یہ لوگ سب سے پہلے مسافر کو  آتے ہی گھیر گھار کے خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرآنے والا ان سے خوف زدہ ہو گیا تو پھر  یہ ان کے ظلم و ستم کا شکار ہو جاتا ہے۔ دلیر آدمی کو یہ لوگ کچھ نہیں کہتے۔ سب لوگ اسے لے کر ایک درخت کے نیچے لائے۔ یہاں لکڑی کے تنے سے تراشے ہوئے اسٹول پر ان کا سردار بیٹھا تھا۔ اس کے سر پر بڑے بڑے خوبصورت پروں سے سجا ہوا  تاج تھا۔ جو  دوسرے لوگوں میں اسے ممتاز کر رہا تھا۔ عاقب اسے دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ ان کا سردار ہے۔ اس نے سر جھکا کے اس کو اشارے میں سلام کیا اور ایک شخص نے اپنی زبان میں سردار سے کچھ کہا۔ عاقب جان گیا کہ وہ سردار سے اس کا تعارف کرا رہا ہے۔ سردار نے اسے کچھ دیر تک گھورا پھر اسے زمین پر بیٹھنے کا اشارہ کیااور اپنے کچھ آدمیوں کو بھی اشارہ کیا۔ جو اشارہ ملتے ہی چلے گئے۔ باقی سارے لوگ وہیں  زمین پر بیٹھ گئے۔

٭٭٭


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی