Topics

(ساتویں قسط)

ایک نے سینے پر کئی ہک لگائے ہوئے تھے جو کھال میں پیوست تھے۔ غرج کلہ جسمانی اذیت کے طرح طرح کے مظاہرے تھے۔ ہجوم سے نکل کر کچھ آگے  بڑھے تو آنند نے بتایا۔” یہ تمام سادھو شمشان گھاٹ پر رہتے ہیں اور وہیں پر تپسیا کرتے ہیں۔ مرتبان میں وہ جو راکھ تھی وہ بھبھوتی کہلاتی ہے۔ یہ مر گھٹ کی راکھ ہے۔ سادھو  مرگھٹ کی راکھ کو جسم پر ملتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی روحانی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ لوگ ان سے فیضیاب ہوتے ہیں۔“

عاقب نے آنند سے پوچھا۔” روحانی صلاحیتوں سے یہ کیا کام لیتے ہیں؟“

 آنند بولا۔” ہمارے یہاں زیادہ تر مسائل عورتوں کے ہیں۔ یہ گھر گھر جا کے عورتوں کو اشیرواد دیتے ہیں۔ عورتیں عقیدت سے انہیں کھانا ، زیور جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے دان کرتی ہیں۔ اس کے بدلے میں ان کی دعاؤں سے بانجھ عورتیں اولاد والی بن جاتی ہیں۔ بیمار بچے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ لوگ ان کی بڑی عزت کرتے ہیں۔“

عاقب نے کہا۔” یار آنند شمشان گھاٹ  پر  جہاں یہ سادھو رہتے ہیں۔ کیا تم مجھے وہاں لے جا سکتے ہو۔“

آنند کچھ دیر تققف کے بعد بولا۔”  لے جا تو سکتا ہوں۔ مگر یہاں سے کافی فاصلے پر گنگا کنارے شمشان میں ایک سادھو رہتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ مہان ہیں۔ یہ کسی کو خالی نہیں لوٹاتے۔ تم اتنی دور سے آئے ہو تو ان سے ملو۔“

آنند کو عاقب کے متعلق بس اتنا معلوم تھا کہ وہ مغرب کے ہولناک طوفان سے بچتا بچاتا ادھر آیا ہے۔عاقب نے اسے رحمٰن بابا کے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا۔ نہ ہی جن غیر معمولی واقعات و حالات سے وہ گزر کر یہاں تک پہنچا تھا، اُس کے متعلق کچھ بتایا تھا۔ آنند اسے ایک تباہ حال مسافر جان کر اس کے ساتھ نیک برتاؤ کر رہا تھا۔ ویسے بھی وہ فطرتاً اچھا شخص تھا۔ آنند بولا۔” اگر ہم بارہ بجے کی ٹرین پکڑ لیں تو شام تک میرٹھ پہنچ جائیں گے۔ پھر وہاں سے وہ اتنے دور نہیں ہیں۔ طے یہ پایا کہ گھوڑے کو مسجد کے امام کے پاس ہی رہنے  دیا جائے اور خود ٹرین سے چلے جائیں۔ صرف پون گھنٹہ باقی تھا۔ دونوں جلدی جلدی اسٹیشن پہنچے اور میرٹھ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں آنند نے اسے بتایا کہ اس کی ماں مر چکی ہے۔ اس کے باپ نے دوسری شادی کر لی ہے اس  سے اس کے دو بچے ہیں۔ باپ کی توجہ زیادہ ان بچوں کی طرف ہے۔ آنند الگ رہتا ہے۔ ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی مگر وہ اِدھر اُدھر کام کر کے اپنی ضرورت کے لئے ٹھیک ٹھاک کما لیتا ہے۔ میرٹھ پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ انند کہنے لگا۔” اب رات تو یہیں گزارنی  ہوگی۔ یہاں میرا ایک  دوست رہتا ہے۔ چلو اس سے ملتے ہیں۔ خوش ہو جائے گا۔“

آنند نے پاس گزرنے والے موٹر رکشے کو اشارہ کیا اور دونوں اس پر سوار ہو گئے۔ پندرہ بیس منٹ میں وہ اپنے مقام پر پہنچ  گئے۔ دروازے پر دستک دی دروازہ کھلا ایک تیس بتیس سال کے آدمی نے دروازہ کھولا۔” نمستے ہردیال!“ آنند بولا۔ ہر دیال نے پہچانتے کی نظر سے اسے دیکھا اور اس کی  آنکھیں  پوری کھل گئیں۔ وہ خوشی اور  حیرت کے ملے جُلے جذبے کے ساتھ تقریباً چیختے ہوئے بولا۔” ارے انند تُو ہے“ اور پھر دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔

آنند نے عاقب کا تعارف کرایا۔” یہ میرا دوست عاقب ہے۔“

ہردیال بڑے تپاک سے ملا اور اندر آکر اپنی بیوی کو آواز دی۔ شیلا اشیلا دیکھ تو کون آیا  ہے؟“ وہ آواز سن کر فوراً ہی کمرے سے نکل آئی۔ آنند کو دیکھتے ہی خوشی سے چِلا پڑی۔” ارے انند بھیا! آپ ہیں ۔ نمستے اور یہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ مجھے پتہ تھا۔ آج کوئی مہان ضرور آنے والا ہے۔ صبح  صبح میں کاگا بول رہا تھا۔“

آنند ہنستے ہوئے بولا۔” بھائی  ایک نہیں دو کاگا بولے ہوں گے تمہارے گھر دو مہمان آئے ہیں۔“

سب ہنسنے لگے۔ تھوری دیر میں شیلا نے کھانا لگایا۔ آنند نے بتایا کہ پورے دو سال بعد ہماری ملاقات ہوئی ہے۔ کھانے سے فارغ ہو کر سب آپس میں خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔ ہردیال اور شیلا دونوں بہت خوش مزاج تھے۔ سب جلد ہی ایک دوسرے سے اس طرح گھل مل گئے جیسے بہت گہرے دوست ہوں۔ آنند نے بتایا ۔”  ہم صبح سادھو بابا کے پاس جانے  کا ارادہ رکھتے رکھتے ہیں۔“

شیلا بولی۔” بھیا ہم بھی چلیں گے۔“

ہردیال فوراً بولا۔” تم کیا کرو گی وہاں جاکر۔ تین سال سے لگاتار جارہی ہو اب کتنی دفعہ جاؤ گی ۔“

آنند بولا۔”کیوں بھئی کیا قصہ ہے ۔“

شیلا بولی۔” کچھ نہیں بھیا۔ وہ سادھو بابا سے بھبھوتی لاتی ہوں مگر ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ “

عاقب جان گیا کہ معاملہ کیا ہے۔ گھر بچوں سے خالی ہے۔ وہ مسکرا کر بولا۔” بھابھی کتنے سال ہوئے ہیں شادی کو؟“

وہ بولی۔” نو سال ہو چکے ہیں۔“ یہ کہتے کہتے اس کا کھلا ہوا چہرہ مرجھا سا گیا۔

عاقب بولا۔” ایک ٹوٹکا ہم بھی بتائے دیتے ہیں۔ آپ کا جی چاہے تو آز ما لینا۔ ایک بزرگ نے بتایا تھا۔ اس کے نتائج بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔“

شیلا ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے بولی۔” بھگوان آپ کی زبان    مبارک کرے۔“

عاقب بولا۔” ہر روز صبح سورج  نکلنے سے پہلے شمال رخ کھڑے ہو کر پانچ عدد  چمبیلی کے پھول اپنی بائیں ہتھیلی پر رکھیں۔ داہنے ہاتھ سے ایک ایک پھول کی ایک ایک پتی توڑتے جائیں اور یا ارحم الراحمین کہہ کر پتی پھونک مار کر کھالیں۔ اس طرح ایک ایک پتی کے اوپر ارحم الرحمین پڑھ کر پھونک مار کر کھا لیں۔ خوب چبا کر کھائیں۔ اس کے  ایک گھنٹے بعد تک کچھ بھی مت کھائیں پیئں۔ یہ اکیس روز تک  عمل کریں۔ اس دوران قربت سے پرہیز کریں۔ اللہ نے چاہا تو بائیسویں دن آپ کی مراد پوری ہو جائے گی۔“ تینوں بڑے غور سے سن رہے تھے۔ ہدیال اور شیلا دونوں  کے چہرے امید کی روشنی  سے چمک اُٹھے ۔ دونوں ایک ساتھ بول اُٹھے۔ ” یہ ضرور کریں گے۔“ شیلا بولی۔میرے گھر تو چمبیلی کی پوری بیل لگی ہوئی ہے۔ آج کل پھول بھی خوب آئے ہوئے ہیں۔“

عاقب بولا”گڈ لک “ اور پھر اندر ہی اندر اس رحمٰن بابا کو پکارا ۔” رحمٰن بابا اس گھر کے آنگن میں چمبیلی کا پھول کھلا دیں۔ اللہ آپ کی دعاؤں کو رد نہیں کرے گا ۔ ان شاء اللہ۔“ رحمٰن بابا سے کہہ کر اس کا دل پُر سکون ہو گیا۔

اس نے شیلا پر نگاہ ڈالی تو اُسے اپنی باطنی نگاہ سے اس کی ساڑھی کے پلو میں ایک ننھی منی جیتی جاگتی گڑیا ماں کے سینے سے چمٹی  دکھائی  دی۔ اس نے اپنا ہاتھ شیلا کے کندھے پر رکھا اور یقین کی گہرائی  میں ڈوبی ہوئی آواز کے ساتھ بولا۔” شیلا بھابھی اوپر والا اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ آپ ماں ضرور بنیں گی۔ اللہ یہی چاہتا ہے ہر روز کچھ پیسے دان بھی کر دیں غریبوں کو۔ اکیس دن تک روزانہ۔“ رات گئے تک مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ چائے کے دور چلتے رہے اور پھر صبح اُٹھنا ہے کہہ کر عاقب نے سب کی توجہ نیند کی طرف دلائی۔ لگتا تھا کہ کسی کا سونے کا ارادہ ہی نہیں ہے۔

صبح صبح شیلا کی آواز نے سب کو میٹھی نیند سے جگا دیا۔ انند بولا۔” کیا ہے بھابھی۔۔ کچھ دیر اور سونے دیا ہوتا۔“

وہ بولی۔” پراٹھے کھانے ہیں یا نہیں۔۔؟“

”پراٹھے ۔ ارے بھابھی جواب نہیں آپ کا۔ عاقب ، ہردیال اُٹھو بھئی اٹھو۔ پراٹھے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔“ اس نے زور سے آواز لگائی۔ گرم گرم پراٹھے ، خشخاش کا خُمینہ ، گڑکے چاول، پھر شیلا کا محبت پیار سے سب کو بٹھا کر کھلانا۔ عاقب کو گھر یاد آگیا۔ وہ سوچنے لگا۔ امی ابو جانے کس حال میں ہوں گے۔ میری یاد آتی   بھی ہوگی  یا نہیں۔ اس کے دل نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا۔ میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ مجھے کیسے بھول سکتے ہیں۔

شیلا عاقب کی نگاہوں میں اداسی کا سایہ دیکھ کر بولی۔” عاقب بھیا! آپ ایک دم سے کیوں اداس ہوگئے؟“

عاقب سوچ کی گہرائی  سے نکل کر بولا۔” کچھ نہیں بھابھی۔ آپ کی شفقت اور مہمان نوازی نے گھر کی یاد دلا دی۔“

 شیلا مسکرا کر بولی۔” بھیا محبت تو بھگوان کی روشنی ہے۔ بھگوان وہ سورج ہے جو سدا چمکتا رہتا ہے ۔ ہر منش کے من میں اسی کے نور کا اُجالا ہے ۔ آدمی ختم ہو جاتا ہے۔ اجالا ختم نہیں ہوتا۔ اجالا بھگوان ہے۔ محبت تو امرت ہے۔ پیالے بدلتے رہتے ہیں۔ امرت نہیں بدلتا۔“ عاقب نے عقیدت سے شیلا کے ہاتھ چوم لئے۔ ہردیال ہنس کے بولا۔” عاقب بھیا سادھو بابا کو گنگا کنارے کہاں ڈھونڈنے جاتے ہو۔ سادھو بابا تو یہاں ہیں۔“ اس کے مضحکہ خیز لیجے پر سب ہنس دیئے۔

اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ ہردیال بولا۔” لو سندیپ آگیا۔ شیلا ذرا دروازہ کھولنا۔“

سندیپ آیا تو ہردیال نے اسے ہدایت دی۔” آج میں تو اپنے کام پر ہوں۔ جا نہیں سکتا۔ تم ان دونوں کو لے کر گنگا کنارے جو شمشان گھاٹ ہے وہاں پر لے جاؤ اور ان کے ساتھ ہی رہنا جب یہ فارغ ہو جائیں انہیں واپس یہاں پہنچا دینا۔“

سندیپ نے پوچھا۔” کیا سادھو بابا کے درشن کرنے ہیں؟“

آنند کمار بولا۔” ہاں انہی کے پاس   جانا ہے۔“

سندیپ سر ہلا کے بولا۔” ٹھیک ہے لے جاؤں گا۔“

 سندیپ کی اپنی ٹیکسی تھی۔ رخصت ہوتے وقت آنند کہنے لگا۔” بھابھی  آپ بھی آ جاؤ۔“

شیلا بولی نہیں۔ ” اب میں عاقب بھیا کا بتایا ہوا علاج کرنا چاہتی ہوں۔ پھر تم لوگ شام کو آو گے تو کھانا بھی تو تیار ہونا چاہیئے۔

 آنند فوراً بولا۔” بھابھی ہم تو مصالحہ  دوسہ کھائیں گے۔“

شیلا ہنس کے بولی۔” لو فرمائشیں شروع ہو گئیں۔“

ہردیال دونوں کو رخصت کرتے ہوئے بولا۔” اچھا یار شام کو کھانے پر تمہارا انتظار رہے گا۔ جلدی آنا۔“

ٹیکسی روانہ ہوئی، کوئی دو گھنٹے ہرے بھرے کھیتوں کھلیانوں سے گزرتے ہوئے  گنگا کے کنارے چلتے رہے۔ یہاں تک کہ  آبادی سے بہت دور نکل آئے۔ یہاں چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں۔ ٹیلے تھے اور ان ٹیلوں کے درمیان سے گنگنا بہہ رہا تھا۔ تھوڑا  سا آگے  جا کر گنگا کے ساحل پر جگہ جگہ مُردوں کے جالانے کے آثار  دکھائی  دیئے۔ جلی ہوئی لکڑیوں اور راکھ کے ڈھیر تھے۔ سندیپ نے آنند سے پوچھا۔” آپ کو یہاں اُترنا ہے یا سادھو مہاراج کے پاس لے چلو۔“

وہ شمشان گھاٹ سے گزر ہی رہے تھے کہ گنگا کنارے بکھرے ہوئے گول گول چکنے پتھروں کے ڈھیر پر ایک سادھو بیٹھے  دکھائی  دیئے۔ سندیپ نے ٹیکسی کنارے پر روکتے ہوئے کہا وہ دیکھو سادھو مہاراج بیٹھے ہیں۔ تینوں ٹیکسی سے اتر کر سادھو بابا کی طرف بڑھے سندیپ اور آنند نے قریب جا کر انہیں نمستے کیا۔ عاقب نے بھی ان کی نقل میں ہاتھ جوڑ کر انہیں نمستے کیا۔ سادھو بابا خوش مزاجی سے بولے۔” آؤ بالک آؤ۔ تم پر بھگوان کی کرپا ہو۔“

عاقب نے اسے غور سے دیکھا۔ سادھو بابا ایک دبلے پتلے جسم کے درمیانے قد کے آدمی تھے۔ ان کا سارا جسم ننگا تھا۔ صرف ایک لنگوٹ کسی ہوئی تھی۔ سر کے بال لمبے اور الجھے ہوئے تھے۔ داڑھی کے بال بھی الجھے ہوئے تھے۔ سر سے پیر تک سارے جسم پر راکھ ملی ہوئی تھی۔  آنند کمار نے سادھو کے پاس پتھروں کے ڈھیر پر بیٹھتے  ہوئے کہا۔” سادھو بابا  آپ کی آگیا ہو تو کچھ عرض کریں۔“

سادھو بابا شفقت کے ساتھ بولے۔” ہاں بول بالک کیا کہنا ہے اور تم دونوں بھی بیٹھ جاؤ۔“ اس نے عاقب اور سندیپ کو اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ دونوں سادھو بابا کے سامنے بیٹھ گئے۔ آنند کمار بولا۔” سادھو بابا آپ کی آشیر واد تو ہم کو چاہیئے ہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی ہم آپ کی زندگی کے متعلق بھی جاننا چاہتے ہیں۔“

سادھو بابا خوش ہو کر بولے۔” میری زندگی کے متعلق کیا جاننا چاہتے ہو تم لوگ؟“

عاقب بولا۔” ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کو سادھو بننے کا خیال کیسے آیا اور اس کے لئے آپ نے کیا کیا تپسیائیں کیں۔ آپ کا رہن سہن آپ کی ضروریات ِ زندگی کیا ہیں؟ ہمیں اپنی زندگی کے متعلق سب کچھ بتائیں۔“

سادھو بابا بولے ۔” تم میری زندگی کے حالات جان کر کیا کرو گے۔؟“

عاقب نے کہا۔” ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سادھو بننے  کے لئے کن کن کٹھناؤں سے گزرنا پڑتا ہے؟“

” بالک سادھو بننا اتنا آسان نہیں ہے۔ برسوں کی تپسیا آدمی کو شیشے سے ہیرا بنا دیتی ہے۔ تم مجھ سے پوچھتے ہو کہ سادھو بننے کا خیال کیسے آیا؟ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ میرے ماں باپ غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ محنت مزدوری سے گھر کا خرچ چلاتے۔ نو سال کا تھا کہ باپ بلڈنگ کی تعمیر پر کام کرتے ہوئے اونچائی  سے گر کر مر گیا۔ اس کا غم اندر ہی اندر میری ماں کو کھانے لگا اور وہ کھٹیا سے لگ گئی۔ ایک دن کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے کھولا۔ ایک سادھو بابا سارے جسم پر بھبھوت ملے سامنے کھڑے تھے۔ بولے ۔ بچہ دان ملے گا۔ میں نے بے ہوش پڑی ماں کی طرف اشارہ کیا۔ بابا میری ماں کو اچھا کر دو۔ وہ دروازے سے اندر قدم رکھتے ہوئے بولا۔ کیا ہوا  تیری ماں کو؟ میں نے رونی  آواز میں بولا۔” میری ماں بہت بیمار ہے۔ وہ اندر آیا، ماں کی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور بولا۔ ارے یہ تو مر چکی ہے۔ پھر بولا آ بیٹا ادھر آ۔ اس گھر سے تجھے دان میں لیتا ہوں۔ میرے ساتھ چل۔ میں ماں کے پاس بیٹھ کر رونے لگا۔ سادھو بابا نے پڑوس کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پھر تھوڑی ہی دیر میں بہت سے لوگ میرے گھر پر جمع ہو گئے۔ ماں کو شمشان گھاٹ پر لے جاتے ہوئے سادھو بابا مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ تب سے میں شمشان گھاٹ پر سادھو بابا کے ساتھ رہنے لگا۔ شروع شروع میں مجھے مُردہ لاشیں دیکھ کر  بڑا خوف آتا اور ادھ جلی  لاشیں دیکھ کر تو خوف سے میری چیخ نکل جاتی۔ میرا خوف  نکالنے کے لئے سادھو بابا عورتوں  کی لاشوں کے بدن سے مجھے زیور تلاش کرنے کے کام پر لگا دیتے۔ چند ہی دنوں میں میرا خوف دور ہو گیا اور میں رات کو بھی لاشوں کے قریب جانے سے نہ گھبراتا۔ ایک دن سادھو بابا بولے۔” بچہ تو بڑا  ہو کے کیا کام کرنا چاہتا ہے؟ میں کہا۔” میں آپ کی طرح سادھو بننا چاہتا ہوں۔ سادھو بابا بولے۔” پھر تجھے جو میں کہوں وہی کرنا ہوگا۔ میں نے کہا ۔ میں کروں گا۔ بولےپرسوں پورا چاند ہوگا۔ آدھی رات کو شمشان میں کھڑے ہو کر اس منتر کا جاپ کرنا۔ اس کے بعد میں تجھے ایک بوٹی کھلاؤں گا جس سے تیرے اندر شکتی پیدا ہوگی۔ اس رات میں  صبح تک سادھو بابا کے دیئے ہوئے منتر کا جاپ کرتا رہا۔ جاپ کرتے وقت کئی بار میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے میری طرف آ رہے ہیں۔ چاند کی  پراسرار روشنی نے ماحول کو اور بھی زیادہ پُراسرار بنا دیا تھا۔ اگر میرے دل سے موت کا خوف نہ نکل گیا ہوتا تو اس خوفناک ماحول میں رات کاٹنا مشکل ہو جاتا۔ پھر اس وقت میری عمر بھی تقریباً بارہ سال تھی۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ موت نے مجھے بہت سے منتر اور جاپ سکھائے۔ میرے لئے گرو جی بھگوان کا روپ تھے۔ لوگ ان کی وجہ سے مجھے بھی محبت اور عزت سے دیکھتے اور میں بھی گرو کی طرح لوگوں کو تبرک دیتا، مرگھٹ کی راکھ ان کے ماتھے پہ لگاتا، چٹکی بھر راکھ ان کے منہ میں ڈالتا اور وہ خوش ہو کر کچھ نہ کچھ دان دیتے جو میں گرو کو دے دیتا۔ اسی طرح میں جوان ہو گیا۔ گرو جی سخت بیمار ہو گئے۔ مرتے وقت مجھے پاس بلایا اور بولے ۔ تُو میرا سچا بھگت ہے۔ مرنے کے بعد میری آتما تیرے جسم میں کام کرے گی۔ گرو جی کے مرنے کے بعد میں جانتا ہوں کہ میرے اندر گرو جی کی آتما کام کر رہی ہے۔“

عاقب نے سوال کیا۔” آپ کیسے جانتے ہیں کہ آپ کے اندر گرو جی کی آتما کام کر رہی ہے؟ ہر شخص کے اندر تو اسی کی آتما ہوتی ہے۔“

سادھو بابا نے تیز نظروں سے عاقب کو دیکھا۔ پھر بولے۔” میری زبان سے وہی الفاظ نکلتے ہیں جو گرو جی بولتے تھے۔ ان کے بعد لوگ مجھے گرو جی کہہ کر بلاتے ہیں میری آشیرواد سے لوگوں کے کام ہو جاتے ہیں۔“ پھر وہ عاقب کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے بولا۔” بالک تم اس راز کو نہیں سمجھو گے جو گرو اور چیلے کے درمیان ہے۔ گرو اپنی آتما کی روشنی اپنے چیلے کے اندھیرے بدن میں ڈال دیتا ہے۔ جس سے مُردہ جسم زندہ ہو جاتا ہے اور بند دماغ کھل جاتا ہے۔“

آنند کمار اور سندیپ دونوں نے نہایت ہی عقیدت سے ہاتھ جوڑ  کر سادھو کے قول کی تائید  کی۔

عاقب کے دل سے آواز ائی۔ اللہ کے نزدیک مردم خوری کسی حال میں بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ اللہ بندوں کی نفسانی خواہشات، اعمال و افعال سے بری ہے۔ عاقب کے ذہن میں رحمٰن بابا کے الفاظ گونجے۔” بچے! درست وہی ہے جسے اللہ نے درست کہا اور  غلط  وہ ہے جسے اللہ نےغلط کہا۔“ عاقب نے پھر سوال کیا۔” مگر سادھو بابا! انسان کا گوشت کھا کر کوئی شخص انسان کا کیسے خیر خواہ ہو سکتا ہے؟“

سادھو بابا بولے۔” جانور کا گوشت کھا کر کوئی شخص جانوروں کا خیر خواہ کیسے ہوتا ہے۔ جانوروں کو بھی تو لوگ  محبت   سے پالتے ہیں۔ ان کے دانے پانی کا خیال رکھتے ہیں۔“

”درست ہے۔ مگر جانور کو پالتے وقت ذہن میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کا گوشت کھایا جا سکتا ہے۔ مگر انسان کو پالتے وقت کسی کے  ذہن  میں یہ نہیں آتا کہ یہ ہماری خوراک بننے والا  ہے۔“ عاقب نے پھر سوال کیا۔

سادھو بابا تیزی سے بولے” بالک یہی تو ہم  بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ راستہ عام لوگوں کا نہیں ہے۔ تم اسے نہیں سمجھو گے۔“ یہ کہہ کر سادھو بابا ایک دم اُٹھ کھڑا ہوا اور تیزی سے پتھروں پر پاؤں رکھتا ہوا ایک سمت چلا گیا۔ آنند کمار اور سندیپ بولے۔” معلوم ہوتا ہے سادھو بابا ناراض ہوگئے۔“

عاقب نے صلح جوئی کے ساتھ کہا۔” یار میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔“

تینوں چپ چاپ گاڑی میں آبیٹھے۔ راستے میں پھر وہی موضوع چھڑ گیا۔ انند کہنے لگا۔” گرو کا ہر حکم بھگوان کا حکم ہے۔“

عاقب بولا۔ ” مگر سچا گرو کبھی اپنے مرید کو بھگوان کی مرضی کے خلاف کچھ کرنے کا حکم نہیں دیتا۔ اپنے ہم جنس کو مستقل طور پر خوراک بنا لینا جانوروں میں بھی رائج نہیں ہے۔ اللہ کی فکر ہمارے اندر کام کرتی ہے۔ جب ہم کسی جانور کو اپنے ہم جنس کو کھاتا دیکھتے ہیں تو کراہیت محسوس ہوتی ہے۔ جس کام میں کراہیت اور ناگواری کا احساس ابھرے تو اس کا مطلب ہے کہ روح اس کام سے خوش نہیں ہے۔ روح صرف اسی کام سے خوش ہوتی ہے جس کام سے اس کا خالق خوش ہوتا ہے۔“

آنند بولا۔” مگر سادھو بابا نے اپنے حال میں مست ہیں اگر ان کی روح خوش نہ ہوتی تو ان کے آشیرواد سے لوگوں کے کام کیسے درست ہو جاتے۔“

          عاقب بولا۔” روح کی روشنی لامحدودیت سے محدودیت میں آتی   ہے اور پھر محدودیت سے واپس لامحدودیت میں  اپنے تھکانے پر پہنچ جاتی ہے۔ روشنی جس زون میں کام کرتی ہے اسی زون میں شعوری طور پر انسان کی اور مخلوق کی موجودگی پائی  جاتی ہے ۔ انسان کا شعور اس زون سے بلند ہو کر دوبارہ لامحدودیت کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔ ذہن کا ہر خیال روح کی روشنی ہے۔ اس روشنی میں روح کی فکر کے خاکے ہیں۔ آدمی کا ہر عمل روح کی فکر کے خاکوں کا عملی مظاہرہ ہے۔ مرنے کے بعد آدمی جن جن عالمین سے گزرتا ہے۔ اسے اعمال کا مظاہرہ اس عالم کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ روشنی نظر ہے اور نظر شعور ہے ۔ شعور اپنی سکت کے مطابق غیب کے عالمین میں سفر کرتا ہے۔ شعور کو سکت روح کی روشنی سے ملتی ہے اور روح کو توانائی  خالق کے نور سے ملتی ہے ۔ شعور کا تعلق روح سے اور روح کا رابطہ اللہ سے اسی وقت قائم اور استوار رہتا ہے جب اس تعلق و رابطہ کی تمام شرائط کو پورا کیا جائے۔“ آنند بڑے غور سے عاقب کی بات سن رہا تھا۔ عاقب ذرا چپ ہوا تو  آنند کہنے لگا۔” یار سچ پوچھو تو مجھے بھی نیچر کے اصولوں اور قدرت کے در پردہ اسرار کو جاننے کا بڑا شوق ہے۔ میرا ایک بڑا اچھا دوست مسلمان ہے۔ اس کی میری دوستی کافی پرانی ہے وہ اکثر اولیاء اللہ کے مزاروں پر حاضری دیتا ہے۔ دوست ہونے کے ناطے مجھے بھی کئی دفعہ ساتھ لے گیا۔ شروع شروع میں دوست کی خاطر حاضری دیتا رہا۔ وہ تو صاحب مزار کے تصور میں ڈوب کر دعائیں مانگتا اور میں بس یونہی بے دلی سے اِدھر اُدھر دیکھتا رہتا۔


 


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی