Topics

(چوتھی قسط)

سورج  ڈوبنے کے قریب وہ ایک ایسی بستی میں پہنچا جہاں پتھر کے کچھ مکانات پوری طرح تباہ ہونے سے بچ گئے تھے۔ وہ خوش ہوا شاید یہاں لوگ زندہ بچ گئے ہوں۔ اس نے زور زور سے آوازیں دیں کہ اگر کوئی زندہ ہو تو باہرآجائے مگر کہیں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ اب تو سورج بھی غروب ہو گیا تھا۔ وہ ایک آدھے ٹوٹے ہوئے مکان میں احتیاط سے داخل ہوا ۔ ایک کمرے کی چھت اپنی دیواروں پہ اٹکی ہوئی تھی ۔اس نے غنیمت   جانا۔ ہاتھوں سے زمین ہموار کر کے کچھ دیر آرام کرنے کی ٹھان لی۔ مٹی کی ملبے میں اس کے ہاتھ ایک بوتل لگی۔ نکال کر جو دیکھا تو اس میں شہد بھرا ہوا تھا۔ خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پیاس کے مارے اس کا حلق خشک ہو رہا تھا اس نے بوتل کھولی اور انگلی سے تھوڑا سا شہد کھایا ۔بوتل کو احتیاط سے محفوظ جگہ پر رکھا اور زمین پر لیٹ کر سو گیا ۔صبح اٹھ کر اس نے پھر کچھ کھانے پینے کی چیزیں تلاش کیں ۔مگر ہر طرف مٹی دھول اور ٹوٹی پھوٹی لکڑیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس نے سوچا یہاں تو مکانوں کے چھت پر ہی تھوڑے بہت بچے ہوئے ہیں ۔یہاں ضرور لوگ زندہ ہوں گے۔ مجھے تلاش کرنا چاہیے۔ اس نے شہد کی بوتل اپنی جیب میں رکھی اور نکل کھڑا ہوا کل سے اب تک وہ جہاں جہاں بھی گیا تھا ۔کہیں بھی پانی اسے نظر نہ آیا تھا البتہ دلدل موجود تھی۔ پانی کے بغیر لوگ کیسے زندہ رہ سکتے ہیں ۔مجھے پہلے پانی کو ڈھونڈنا چاہیے آدھے دن چلنے کے بعد اسے دور کچھ لوگ  دکھائی  دیے اس کی خوشی اور حیرانی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ وہ دوڑتا ہوا ان کے قریب پہنچا ۔یہ پندرہ بیس لوگوں کا جتھہ  تھا ۔جن میں چند عورتیں بھی تھیں۔ ان کی خستہ حالت دیکھ کر عاقب کا دل بھر آیا۔  سب ایک دوسرے سے خائف نظر  دکھائی  دیتے تھے ۔عاقب کو دیکھ کر کسی کے چہرے پہ خوشی کی کوئی لہر  دکھائی  نہ دی ۔سب کے چہرے سپاٹ اور مرجھائے ہوئے تھے ۔ عاقب نے پوچھا۔” یہاں  پانی ہے؟“  کسی نے  کوئی جواب نہ دیا بلکہ سارے اسے غصے بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔ عاقب تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ تاکہ سب لوگ اس سے کچھ مانوس ہو جائیں۔ وہ نرمی کے ساتھ  ان  سے مخاطب ہوا۔ ” دیکھو میں تم سے کوئی چیزچھینے نہیں آیا۔ پھر کسی کے پاس ہے ہی کیا جو چھینا جائے ۔میں تو صرف اس لیے آیا ہوں کہ اب ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نئے سرے  سے زندگی کا آغاز کرنا ہے۔“

سب اسے ایسی نظروں سے گھورنے لگے جیسے وہ کوئی مذاق کر رہا ہے۔ وہ ان کی خاموشی کو نظر انداز کرتے ہوئے پھر بولا۔” کیا تم نہیں چاہتے کہ ہم پھر پہلے کی طرح آرام دہ زندگی گزار یں ۔ہمیں کوشش تو کرنی چاہیے ۔“

ایک شخص نے  قدرے  توقف کے بعد جواب دیا ۔”تم کس دنیا سے آئے ہو میاں ۔بچاہی کیا  ہے ۔جس سے ہم اپنی زندگی کا آغاز کریں۔ تین مہینے کے طوفانوں نے سب کچھ تباہ کر دیا  ہے ۔ایسڈ اور  کیمیکل زدہ پانی پی کر تم  ہماری صحتیں دیکھ رہے ہو۔ اب تو بولنے کی بھی ہمت نہیں ہے ۔“

عاقب نے غور سے سب کی طرف دیکھا وہ سب واقعی مٹی کی جیتے جاگتے بت  دکھائی  دے رہے تھے۔ ان کے  جسموں اور چہروں پر وقت کی خاک جمی ہوئی تھی ۔اس کا دل بھر آیا ۔یااللہ ! اپنے بندوں پر رحم کر ہماری خطائیں بخش دے۔ اس نے اندر ہی اندر خضر باباکو پکارا ۔ مگر خضر باباکا بھی کوئی پتہ نہ تھا۔ وہ اٹھا اور پانی تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا۔ کچھ   فاصلے پر ایک گھڑے میں پانی نظر آیا ۔مگر یہ پانی اس قدر  گندا اور بدبودار تھاکہ وہ دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ اسی پانی نے سب کی صحتوں کو تباہ کر دیا ہے ۔وہ چپ چاپ ان لوگوں سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا اور اللہ کی طرف دھیان لگا دیا۔ اسے یقین تھا کہ اللہ کوئی نہ کوئی سبب اس مصیبت  سے نجات کا بنائیں گے ضرور ۔رات کا اندھیرا چھا گیا ۔بجلی نہ ہونے کی وجہ سے رات بھی شب ہجر کی طرح بالکل سیاہ تھی ۔اتنی سیاہ رات تو اس نے اپنی زندگی میں بھی دیکھی نہ تھی۔ اس نے سوچا زمین کی گہرائی  میں اور زمین کے اوپر دونوں جگہ ہی اندھیرا ہے۔ انسان کے سیاہ بختی نے ساری زمین کو سیاہی میں ڈبو دیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعائیں مانگتے مانگتے  اسے  نیند آگئی۔

 اچانک شور و غل کی آواز نے اسے جگا دیا۔ صبح کا سفید  ڈور ا رات کی تاریکی سے  گلے مل رہا تھا۔ یہ شور کیا ہے ؟ وہ جلدی سے باہر نکلا اور شور کی طرف بڑھنے لگا ۔ ملگجی  روشنی میں اس نے تمام لوگوں کو اس جگہ پایا جو بالکل جانوروں کی طرح  آوازیں نکال رہے تھے اور ایک دوسرے پر جھپٹ رہے تھے ۔ عاقب آہستہ آہستہ کچھ اور قریب آگیا کہ دیکھیے کیا معاملہ ہے؟ اس کے منہ سےایک چیخ نکلی۔ تمام لوگ ایک مردہ  لاش  کو جانوروں کی طرح جھپٹ  جھپٹ کر کھا رہے تھے ۔اس کو چکر سا اآگیا۔ نہیں نہیں یہ انسان نہیں ہوسکتے ۔ وہ پوری قوت  سے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اس نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ وہ اندھا دھند ایسے بھاگ رہا تھا جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے ۔جب اس کے حواس  سنبھلے تو اس نے دیکھا سورج نکل آیا ہے۔ کھڑے ہو کر اپنے چاروں طرف نگاہ ڈالی ۔وہ ایک ریت کے میدان میں کھڑا تھا۔ اس نے سکون کا سانس لیا اور ریت پر لیٹ گیا۔ اسے یاد آگیا ۔اس کی ماں نے ایک دفعہ کہا تھا۔ بیٹے کھٹن  سے کھٹن وقت میں بھی انسان کو انسانیت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ انسانیت اور حیوانیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس کی  آنکھیں  ماں باپ کی یاد میں بھیگ گئ۔ماں  آج  انسان حیوان کیسے بن گیا؟ کیسے بن گیا اور بھیگی ہوئی آنکھوں میں نیند نےبسیرا کر لیا۔ اس نے خواب میں دیکھا ایک سر سبز جگہ ہے ۔وہاں اس کی ماں خضر بابا کے ساتھ کچھ باتیں کر رہی ہے۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہیں۔ مگر وہ اتنا ضرور جان گیا کہ یہ دونوں اسی کے متعلق باتیں کر رہے ہیں۔ یہ جان کر کہ یہ دونوں چیزیں مطلب باتیں کر رہے ہیں اسے  تجسس ہوا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس جستجو کے ساتھ ہی  ان کی باتیں اسے سنائی  دینے لگی۔ اس کی ماں خضر بابا کہہ رہی تھیںآپ  عاقب کو وہاں پہنچا دیجیے ۔خضر بابا  کہتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ پھر خضر  بابا عاقب کا ہاتھ پکڑ کےرایک پہاڑ پر چڑھتے ہیں ۔آدھے راستے پر چڑھنے کے بعد پہاڑ میں ایک  غار ہے۔ خضر بابا اسے غار میں داخل کر دیتے ہیں ۔اس غار میں ایک اور بزرگ بیٹھے ہیں۔ عاقب کو دیکھتے ہی  وہ گلے سے لگا لیتے ہیں پھر عاقب کی آنکھ کھل گئی۔

عاقب جاگنے کے بعد دل ہی دل میں خواب کے دہرانے  لگا۔ یہ بزرگ کون ہے اور وہ پہاڑ کہاں ہے ۔مجھے ان کی تلاش کرنی چاہیے ۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے تھوڑا سا شہد کھایا اور خضر باباکی طرف دھیان لگا دیا ۔خضر بابا مجھے ان بزرگ کے بعد پہنچا دیجیے ۔تھوڑی دیر بعد خضربابا ظاہر ہوئے۔ اس کی  آنکھیں  بند تھیں۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے کندھوں کو چھوا ہے ۔اس نے  آنکھیں  کھول دیں۔ دیکھا تو خضر بابا اپنے نورانی جسم میں سامنے موجود ہیں۔ عاقب نے ادب سے انہیں سلام کیا ۔”خضر بابا خواب میں آپ مجھے غار والے بزرگے پاس لے گئے ۔خواب میں میں نے دیکھا کہ میری ماں بھی یہی چاہتی ہے۔خضر بابا وہ بزر گ کون ہیں۔ میں ان کے پاس   جانا چاہتا ہوں۔ خواب میں آپ نے مجھے ان کے پاس پہنچایا تھا ۔اس لیے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے ان کے پاس پہنچا دیجیے ۔“

خضر بابا بولے ۔”بچے خواب کے ٹائم میں اور دنیا کے ٹائم میں فرق ہے ۔خواب میں تو تم وہاں پہنچ  گئےکوئی دقت نہیں لگا ۔لیکن جاگتے میں جسمانی حالت میں جانے کے لیے ابھی تمہیں وقت درکار ہے۔“

عاقب بولا۔” لیکن آپ  تو وقت کے پابند نہیں ہیں ۔آپ آن کی آن میں مجھے وہاں پہنچا سکتے ہیں ۔“خضر بابا بولے۔” بچے ضد نہ کر ۔اندھیرا ہے قندیل جلا۔“ یہ کہہ کر خضر بابا غائب ہو گئے ۔“

عاقب نے کھوجتی نظروں کے ساتھ چاروں طرف گھوم کر دیکھا۔ خضر باباتو اسے  دکھائی  نہ دیئے۔ البتہ دورِ حد نگاہ پر اسے کچھ ہرے درخت  دکھائی  دیئے۔ خوشی کے مارے اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا ۔ضرور یہاں پانی ہوگا ۔شاید یہ حصہ طوفان سے  تباہ ہونے سے بچ گیا ہے ۔خوشی نے اس کے اندر نئی قوت بھر دی۔ وہ تیزی سے درختوں کی سمت چل پڑا ۔چلتے چلتے اسے خیال آیا ۔یہ درخت پہلے تو یہاں نہیں تھے ۔میں نے اچھی طرح چاروں طرف دیکھا تھا۔ سوائے ریت کے میدان کے کچھ نہ تھا۔ پھر اب یہ کہاں سےآگئے ۔اس خیال کے ساتھ ہی اس کے ذہن  کے پردے پر خضر بابا کا نورانی ہیولا  نظر آیا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکان آگئی۔ وہ جھومتا سیٹی بجاتا  اس طرح چلنے لگا جیسے وہ باہر کا ایک جھونکا ہے۔

تھوڑی ہی دیر میں درخت  اس کے بالکل قریب آگئے۔ یہ کھجوروں کے درخت تھے ۔عاقب قریب پہنچ کر ذرا محتاط ہو گیا کہ نہ جانے یہاں کس قسم کے لوگ ملیں ۔کچھ دیر کھڑے ہو کر اس نے ادھر ادھر نگاہ ڈالی۔ درختوں کے ساتھ ساتھ لکڑی اور درخت کے پتوں سے بنی ہوئی جھونپڑیاں تھیں ۔یہ تقریبا  پچاس جھونپڑیوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی تھی ۔عاقب سوچنے لگا ۔شاید یہ لوگ بھی طوفان سے بچ کر یہاں آئے ہیں۔ نہ جانے کیسے لوگ ہیں؟ خدا کرے اچھے ہی ہوں ۔انہی خیالوں کے ساتھ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا جھونپڑیوں کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ اسے دیکھتے ہی کچھ لوگ باہر نکل آئے ۔عاقب نے سلام کیا ۔جواب میں اس نے سب لوگوں کو گہری گہری نظروں سے اپنی طرف گھورتے پایا۔ اب کےسے  اس نے اجنبیت کی دیوار کو توڑنے کے لیے باتیں شروع کی کہنے لگا۔ دوستو! میں سیلاب سے بچتا ہوا لوگوں کی کھوج میں یہاں تک پہنچا ہوں۔ اس امید پر کہ دوستوں کے ساتھ کچھ دن آرام کے گزر جائیں اور زندگی کی تنہائیاں دور ہوں۔ میں آپ کے لیے اجنبی ضرور ہوں۔ لیکن بے ضرر ہوں ۔تھکا ہوا ہوں۔ ہرے بھرے درخت نظر آئے تو اس طرف نکل آیا۔“

عاقب کی باتیں سن کر ایک شخص آگے  بڑھا کہنے لگا۔” ہم سب ہی یہاں طوفان کے مارے ہوئے ہیں۔ مگر اللہ کا کرم ہے کہ زندہ رہنے کے لیے اہم وسائل ہمارے پاس ہیں۔ اگر تم یہاں رہنا چاہتے ہو تو رہ سکتے ہو۔“ عاقب کے چہرے پر خوشی کی لہریں چھا گئیں۔ اس نے سب کا شکر ادا کیا اور اس شخص سے اس کا نام پوچھا۔” میں عاقب ہوں آپ کا اسم شریف کیا ہے؟“ وہ شخص مسکرایا اور کہا۔” مجھے دانش کہتے ہیں ۔اس وقت تو تم تھکے ہوئے ہو۔ تمہارے سونے کا انتظام ہو جائے گا۔ کل تم اپنی رہائش کے لیے جھونپڑی بنا لینا ۔“عاقب نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ انسانوں میں آگیا ۔دانش اسے اپنی جھونپڑی میں لے گیا ۔جہاں کھجور کے پتوں کا فرش تھا۔ دانش نے کچھ کھجوریں اس کے سامنے رکھی اور ایک کٹورے میں پانی رکھا۔” صدف ٹحنڈے پانی سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں ہے ۔“یہ کہہ کر عاقب نے ایک ہی سانس میں پورا پیالہ پی گیا ۔ کچھ کھجوریں کھائیں اور سو گیا۔

پھر اس نے خواب میں دیکھا ”وہ اسی جھونپڑی میں فرش پر اسی طرح سویا ہوا ہے۔ نیند میں اسے کسی کے پکارنے کی آواز آتی   ہے ۔عاقب۔ عاقب ۔عاقب تیسری بار پکارنے پر اس کی آنکھ خواب میں کھل جاتی ہے وہ آواز  پر کان دھرتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ آواز بہت ہی دور سے آ رہی ہے وہ اٹھ کر آواز کی سمت چلنا شروع کر دیتا ہے۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد اسے ایک پہاڑی سلسلہ  دکھائی  دیتا ہے ۔ایک پہاڑ پر بڑے بڑے حروف میں تبت لکھا ہوا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ یہ تبت کی پہاڑیاں ہیں۔ بہت دور سب سے اونچے پہاڑ کی چوٹی پر ایک بزرگ کھڑے اس کے نام سے پکار رہے ہیں ۔وہ دوڑتا ہوا پہاڑوں کی جانب بڑھتا ہے۔ راستے میں دریا بھی آتے ہیں ۔خشک میدانوں سے بھی گزرتا ہے اور پھر بالآخر  اس چوٹی پر ان بزرگ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ جیسے ان کے پاس پہنچتا ہے۔ وہ بزرگ عاقب کو گلے سے لگا لیتے ہیں۔ ایک ٹھنڈی سی لہر اس کے وجود میں دوڑ جاتی ہے۔“ اور پھر اسی وقت اس کی آنکھ کھل گئی۔ آنکھ کھلنے کے بعد بھی وہ لطیف تھی ٹھنڈک اس کے وجود میں باقی تھی ۔وہ سمجھ گیا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کی خضر بابا نے نشاندہی کی تھی۔ وہ سوچنے لگا نہ جانے تبت یہاں سے کتنی دور ہے۔ نہ موٹر گاڑی ہے نہ ہوائی  جہاز ہیں۔ نہ ہی گھوڑا ہے ۔کس طرح   جانا ہوگا ؟اس کے دل نے کہا ۔”اللہ ہی راستہ دکھانے والا ہے۔“ صبح صبح اٹھ کر اس نے نماز پڑھی ۔اتنے میں دوسرے لوگ بھی جاگ گئے۔ دانش نے چند لوگوں سے اس کا تعارف کرایا۔ سب نے کھجوریں کھائیں۔ تھوڑا پانی پیا اور عاقب کے لیے جھونپڑی بنانے میں لگ گئے۔ ان کے پاس ایک کلہاڑا تھا ۔ہتھوڑی اور کیلیں تھی ۔درخت کاٹ کر انہوں نے چھوٹی سی ایک جھونپڑی بنا لی اور درخت کے سوکھے پتے چھت پر ڈال دیئے۔ گھر بن کر جب تیار ہو گیا تو عاقب کے  اسے  دیکھنے لگا ۔اس کی نظریں  اس جھونپڑی پر تھیں۔ مگر سامنے اس کا اپنا گھر تھا جس میں وہ پیدا ہوا ۔اپنی ماں اور باپ کی آغوش میں پلا بڑھا۔ ان کی ما درانہ  اور بدرانہ شفقتوں میں جوان  ہوا۔اس کی  آنکھیں  خشک تھیں۔ مگر دل آنسوؤں میں ڈوبا ہوا تھا۔ دل کی ہوک صدہابن کر سینے میں گونجی۔ یا بارِ الہٰی !  میری کمزوریاں دور کر اور مجھے استقامت عطا فرما ۔درد کے لمحے سے نکل کر اسے احساس ہوا کہ سب کی نظریں اس  پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اس کے غم میں مسکراہٹیں شامل ہو گئیں۔اس نےسب کا شکریہ ادا کر کے وہ اپنے نئے گھر میں داخل ہو گیا ۔سب لوگ واپس اپنے  گھروں میں ہی چلے گئے ۔کھجور کی سوکھی ٹہنیوں سے بنی ہوئی اس چھوٹی سی کٹیا پر اس نے  ایک حسرت بھری نظر ڈالی ۔درد کے طوفان نے دل کا بند توڑ ڈالا۔ فرش  پر سر رکھ کر وہ جی بھر کر رویا ۔اس کے اندر کا انسان کہنے لگا۔ اے میرے رب !یہ کیسی  قیامت ہے ۔جو دلوں پر گزر رہی ہے۔ ہونٹوں کی مسکراہٹ  اب مصنوعی لگتی ہے ۔اے اللہ زندگی کے ان لمحوں کو تیزی سے گزار دے۔“

چند دن عافیت کے گزر گئے۔ کھجوروں کے درختوں کے پاس ہی یہاں ایک چھوٹی سی جھیل تھی۔ جس میں صاف شفاف پانی بھرا ہوا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ” جب وہ طوفان سے بچتےبچاتے یہاں تک پہنچے تو یہاں صرف یہ کھجوروں کے درخت ہی تھے۔ کھجور کے سب پرانے اور مضبوط درخت کے ساتھ دانش ہمیں چمٹا ہوا ملا۔ اس نے بتایا کہ یہاں اس کا گھر تھا اور بھی کئی گھر تھے۔ جو طوفان میں بہہ گئے۔ دانش نے ضرورت کی چند چیزیں کلہاڑا ہتھوڑی، چاقو اور بندوق یہ چیزیں اس درخت کے ساتھ رسی سے باندھ دیں اور خود بھی اپنے آپ کو رسی کے ساتھ درخت کے تنے سے باندھ دیا۔ اللہ نے اپنی قدرت سے اسے بچا ہی لیا۔ دانش کا اس خوفناک طوفان میں زندہ بچ   جانا ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔“ یہ سن کر عاقب بولا۔” مگر کیا ہم سب کا اس مصیبت سے بچ نکلنا معجزہ نہیں ہے؟“ سب نے  اس کی تائید کی۔ دانش کہنے لگا۔”اللہ ہی زندگی دیتا ہے۔ اللہ ہی اسے واپس بھی لے لیتا ہے۔ جسے وہ زندہ رکھنا چاہتا ہے اسے زندگی  کے وسائل بھی مہیا کرتا ہے۔ یہ جھیل یہاں نہیں تھی۔ جب ہم سب اکٹھے ہوئے۔ تو ہمارے ذہنوں میں خیال آیا کہ طوفان اب تھم گیا ہے اگر ہم نے پانی کا ذخیرہ نہ کیا تو بعد میں مشکل ہو جائے گی۔ بس کلہاڑا میرے پاس تھا۔ ہم نے لکڑی کاٹ کر اس کے اوزار بنائے ۔ زمین بالکل گیلی تھی اور ابھی تو بارش بھی بالکل تھمی نہ تھی۔ ہم نے جھیل بنا لی۔ جو بارش اور طوفان کے پانی سے خود بخود بھر گئی۔ بعد میں ہمیں تباہ شدہ گھروں کے بچے کچھے سامان سے کچھ  اور ضرورت  کی چیزیں مل گئیں۔ جن میں کئی قسم کے اناج  کے دانے بھی ہیں۔ اب ہم آہستہ آہستہ بو رہے ہیں۔ ہم سب بہت خوش ہیں کہ زندگی کی ضروریات کی چیزیں ہمارے پاس ہیں۔ ہم اب یہاں سے کہیں اور   جانا نہیں چاہتے۔ یہ سُن کر عاقب خاموش ہو گیا۔ اس نے خضر بابا یا تبت والے بزرگ کا ذکر نہیں کیا کہ نہ جانے یہ لوگ اس بات کو کس طرح لیں۔ کیونکہ ان چند دنوں میں اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ تمام لوگ اپنی جگہ اب بالکل مطمئن ہیں کہ اللہ نے انہیں اس ہولناک طوفان سے بچا لیا ہے۔ اب اس نئی زندگی کے سوا انہیں اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات آ چکی تھی کہ بس اب اللہ ان سے خوش ہیں اب وہ اپنی زندگی اسی مقام پر گزارنا چاہتے تھے۔ مگر عاقب کا ذہن مسلسل تبت والے بزرگ کے پاس جانے کے پروگرام بناتا رہتا۔

آٹھ نو دن کے بعد اس نے خواب میں دیکھا کہ” تبت والے بزرگ کے پاس ایک خوبصورت عربی گھوڑا کھڑا ہے۔ بزرگ اپنے خادم کو آواز دیتے ہیں۔ پاشا او پاشا! خادم بھاگتا ہوا آتا ہے۔ ہاتھ باندھ کر ادب سے کہتا ہے۔” جی سرکار کا حکم سر کار۔۔ بزرگ فرماتے ہیں دیکھو اس گھورے کو عاقب کے پاس لے جاؤ۔ اس سے کہنا۔ رحمٰن بابا نے آپ کے لئے سواری بھیجی ہے۔آپ کو بلوایا ہے۔ خادم گھوڑے کی لگام تھام کر ادب  سے سر جھکاتے ہوئے جو حکم سرکار کہہ کر رخصت ہو جاتا ہے۔“ پھر عاقب کی آنکھ کھل  گئی۔ اس نے اُٹھ کر وضو کیا۔ نماز پڑھی اور نئے سفر کے لئے اللہ تعالی سے مدد کا خواستگار ہوا۔ اسے یقین تھا کہ رحمٰن بابا ضرور اس کے لئے گھوڑا بھیجیں گے۔ سارا دن وہ سوچتا رہا کہ مجھے دانش اور بستی والوں کو اپنے جانے کے متعلق بتانا  چاہیئے  یا نہیں۔ رات آگئی تو عاقب نے دانش کو بتایا کہ وہ کئی مرتبہ خواب میں تبت والے بزرگ کو دیکھ چکا ہے کہ وہ اسے اپنے پاس آنے کا حکم دے رہے  ہیں۔ یہ سنتے ہی دانش ذرا غصے سے چیخ  اُٹھا اور بولا ۔” تم نے خواب کو سچ سمجھ لیا۔ یہاں تمہیں کس چیز کی کمی ہے ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ تم جاؤ۔ اس کے ساتھ ہی دانش نے زور سے سب کو آواز دی۔” ارے بھئی۔ ادھر تو آؤ۔ یہ عاقب میاں تبت جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ سب لوگ دانش کی آواز پر اکٹھے ہو گئے۔ ایک بولا۔ کیا کہا تبت جائیں گے ۔ دانش بولا۔” ہاں بھئی انہیں ایک بزرگ خواب میں ملے ہیں جو تبت کی پہاڑیوں میں رہتے ہیں کہتے ہیں ہمارے پاس آؤ۔ وہ سارے کے سارے قہقہ مار کے ہنسے۔ ارے میاں تبت   جانا آسان ہے کیا اور پھر خواب کا کیا بھروسہ چھوڑو یہ خیال اور اسی جگہ کو تبت سمجھ لو۔ ان کے مضحکہ خیز انداز نے عاقب کو چونکنا کر دیا۔ اس نے ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں ہی عافت جانی اور بات کو ختم کرنے کے لئے بولا۔ ” ہاں بھئی تم لوگ ٹھیک ہی کہتے ہو۔ بھلا خواب کا کیا اعتبار۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ “ یہ بات سُن کر  سارے خوش ہو گئے۔ کہنے لگے۔” سن لو۔ تمہیں تو ہم کسی قیمت پر جانے نہیں دیں گے۔ اگر اسی طرح ایک ایک کر کے لوگ جاتے جائیں گے تو بستی تباہ ہو جائے گی۔ اس کے بعد عاقب نے مزید اس موضوع پر بات کرنا مناسب نہ سمجھا اور بات آئی  گئی ہوگی۔ مگرا رات بھر اسے اس فکر میں نیند نہ آئی  کہ یہاں سے نکلنے کی کیا ترکیب ہو؟۔ رحمٰن بابا کا بھیجا ہوا گھوڑا اگر یہاں آئے گا تو کیا بستی والوں پتہ نہیں چل جائے گا۔ دانش کے پاس تو بندق بھی ہے۔ ان لوگوں  پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا رات کے پچھلے پہر یہی سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ ” کھجوروں کے درختوں میں بستی سے دوسرے سرے پر ایک خوبصورت عربی گھوڑا کھڑا ہے۔ یہ پتوں میں چھپا ہوا ہے۔ عاقب جلدی جلدی سب سے چھپتا ہوا درختوں کی آڑ  لیتا ہوا گھوڑے کی طرف بڑھتا ہے۔ پاس پہنچ کر وہ گھوڑے کو پہچان لیتا ہے کہ یہ گھوڑا تو رحمٰن بابا نے اس کے لئے بھیجا ہے۔ بستی کے تمام لوگ سو رہے ہیں۔ رات کا وقت ہے اور بستی اور گھوڑے کے درمیان کھجوروں کے درخت ہیں ۔ جس کی وجہ سے عاقب اور گھوڑے کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا۔ عاقب گھوڑے پر سوار ہو جاتا ہے اور جیسے ہی اس کی لگام ہاتھ میں لیتا ہے۔ گھوڑا بستی سے مخالف سمت میں بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ کافی دیر سفر کرنے کے بعد اسے تبت کی پہاڑیاں  دکھائی  دیتی ہیں اور پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر رحمٰن بابا کھڑے اسے ہاتھ ہلا کر خوش امدید کہتے   دکھائی  دیتے  ہیں۔ اس وقت خوشی سے وہ ہنس پڑتا ہے ” اور پھر اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور دل  خوشی سے اچھل رہا تھا کیسفیت اس قدر شدید تھی کہ جاگنے کے بعد ایک لمحے کو وہ سمجھا کہ وہ سچ مُچ رحمٰن بابا کے پاس پہنچ  چکا ہے۔ مگر پھر جب پلکیں جھپکیں تو سین ہی بدل گیا۔ وہ اپنے حجرے میں زمین پر پڑا تھا۔ اس نے ایک لمبا سانس لیا اور باہر نکل کر جھیل پر منہ ہاتھ دھونے لگا ۔  صبح ہو چکی تھی اب اسے اس رات کا انتظار ہونے لگا۔ جو اس نے خواب میں دیکھی تھی اسے یقین تھا کہ آج  رات گھوڑا ضرور  آجائے گا۔ وہ سارا دن اس نے بستی والوں کے ساتھ خوش باش گزارا۔ رات کو اپنی کٹیا میں آ کر فرش پر بچھی ہوئی کھجوروں کی شاخوں اور  پتوں کے نیچے سے شہد کی بوتل نکالی۔اپنی جینز کی جیب میں  بوتل رکھی۔ کچھ کھجوریں رکھیں اورآنے والے وقت کا انتظار کرنے لگا جب رات بیت گئی۔ بستی کے تمام لوگ گہری نیند سو گئے تو وہ آہستہ سے دبے پاؤں اُٹھا ۔

اس وقت اسے خضر  بابا یاد آگئے۔ اس نے برے دل دعا مانگی کہ خضر بابا مجھے راستہ دکھانا۔

اس وقت اس کے دماغ میں خضر بابا کی آواز گونجی۔” بچے اندھیرا ہے۔ قندیل جلا“ خضر بابا کے طلسماتی الفاظ بھی خضر بابا کی طرح راہ نماتھے۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے سامنے روشنی کا ایک راستہ ہے۔ پتلا سا راستہ۔ جو درختوں سے گزرتا ہوا درختوں کے پار جا رہا  ہے۔ اس راستے کے دوسرے سرے پر رحمٰن بابا کا گھوڑا کھڑا ہے۔ اس کے دل کے سارے اندیشے روشنی میں دور ہو گئے۔ اسے یاد آیا۔ اس کی ماں کہا کرتی تھی ۔ بیٹے! شک و وسوسہ، در خوف اور بے یقینی یہ سب کا سب اندھیرا اور اندھیرے کی مختلف صورتیں ہیں۔ اندھیرے کی تمام صورتیں سایہ ہیں۔ یعنی خود اعتمادی، بھروسہ یہ سب اجالا اور اجالے کی صورتیں ہیں اجالا اندھیرے کو نگل جاتا ہے۔ “اس نے دل میں اپنے رب سے مدد مانگی۔ ” اے دو جہان کے مالک۔ آج اُجالا اندھیرے کو نگلنے جا رہا ہے۔ میری مدد فرما۔ اور بسم اللہ پڑھ کر اس روشنی کے راستے پر قدم رکھ دیئے۔ اس کے ذہن سے بستی والوں کا خیال ہی مٹ گیا تھا۔ رحمٰن بابا کی عاقب، عاقب کی پکار اس کے اندر گونج رہی تھی۔ وہ جلد ہی گھورے کے پاس پہنچ گیا۔ گھورے پر بیٹھ کر گھوڑے کی لگام ہاتھ میں لی اور گھورے کی گردن پر تھپتھپا کر کہا۔” رحمٰن بابا کے پاس لے چلو۔ اسی وقت گھوڑا ہوا سے باتین کرنے لگا۔ نیا سفر ، منزل، نئی خوشی اس کے دل  کی دنیا بدل گئی۔

رات کے اندھیرے میں گھوڑا اس طرح دوڑ رہا تھا جیسے وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے وہ گھوڑے  کی پشت پر بیٹھا اللہ کے ناموں کا ورد کر  تا رہا۔ یہاں تک کہ صبح کا اجالا پھیلنے لگا اور حدِ نگاہ پہاڑی کا سلسلہ  دکھائی  دیا۔ گھوڑا اسی جانب اپنی پوری رفتار سے دوڑ رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد پورا اجالا پھیل چکا تھا اور پہاڑی بستیاں  دکھائی  دینے لگیں۔ یہاں طوفان کی تباہی کے کوئی آچار  دکھائی  نہیں دیتے تھے۔ گھوڑا ایک شہر میں داخل ہوا جو پہاڑوں کے درمیان تھا جگہ جگہ مندر اور بت  دکھائی  دیئے۔ اس نے ادھ اُدھر  بورڈ پر لکھے ہوئے ایڈریس پڑھنے شروع کر دیئے۔

٭٭٭


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی