Topics
عاقب اور گلبدن
عالم اعراف میں بہت خوش رہ رہے تھے۔ اس عالم میں
ہر شئے دنیا کی ہی طرح تھی۔ مگر بہت ہی تازگی محسوس ہوتی تھی۔ سبزہ بہت ہی
چمکیلا اور صاف ستھرا، مٹی زرد بہت خوشنما رنگ کی۔ سمندر کے کنارے نہایت ہی دودھیا
سفید رنگ کی۔ ساتھ ہی سفید چمکتے گول گول پتھر ساحل سمندر پر بچھے ہوئے بہت ہی
خوشنما لگتے تھے۔ ساتھ ہی سمندر کا پا نی بہت ہی خوبصورت فیروزی رنگ کا تھا۔ ایک
روز عاقب خضر بابا کا ہاتھ چھوڑ کر سیدھا
سمندر کے پانی میں جا پہنچا اور چلو بھر لئے۔ پانی میں عجیب طرح کی ملائمیت تھی۔
ہلکا ہلکا سلکی سلکی۔ اس نے سوچا سمندر کا پانی تو بہت بھاری کثیف ہوتا ہے۔ یہ تو
میٹھے پانی سے بھی زیادہ لطیف لگ رہا ہے بھلا اس کا ذائقہ تو چکھوں اور اس نے
چلو سے پانی منہ میں ڈالا۔ اس کا ذائقہ
نمکین چھاج جیسا تھا۔ اس نے پی لیا اور پھر خضر بابا سے بولا۔
”یہاں تو سمندر کا پانی بھی اتنا خوش
ذائقہ ہے۔ دنیا میں تو سمندر کا پنی چکھا بھی نہیں جاتا۔ اچھا یہ تو بتایئے یہاں
وہی چیزیں ہیں مگر رنگ اور ذائقے میں وہاں سے مختلف کیوں ہیں؟“
وہ بولے۔” تم نے یہاں کے سورج کی روشنی
دیکھی ہے؟“
اس نے سورج کی جانب دیکھا اور اس کی
روشنی پر نظر ڈالی۔ سورج کا رنگ چمکتا ارغوانی تھا اور اس کی روشنیوں میں ایسا
اجالا تھا جو آنکھوں کو نہایت ہی بھلا لگتا تھا۔ اس کی دھوپ آنکھوں کو چبھنے والی
نہ تھی اس نے کہا۔
”یہاں کا تو سورج بھی مختلف ہے۔“
خضر بابا بولے۔” ہر زمین پر سورج کی
روشنی مخصوص سطح سے چھن کر آتی ہے۔ ہر
زمین کے اطراف میں مختلف گیسوں کی ایک فضا ہے۔ مادی زمین کے اطراف میں جو فضا ہے
اسے اوزون لیئر کہتے ہیں۔ سورج کی شعاعیں اس سطح سے چھن کر زمین تک پہنچتی ہیں۔ یہ
سطح شعاعوں کے لئے فلٹر کا کام کرتی ہے۔ ہر زمین کے اطراف میں یہ فلٹر مختلف گیسوں
کا ہے۔ جس کی وجہ سے اس زمین پر سورج کی شعاعیں دوسری زمین سے مختلف معلوم ہوتی
ہیں اور اس سیارے پر بسنے والی مخلوق ان کی روشنیوں سے متاثر ہوتی ہے۔“
عاقب نے ان سے سوال کیا۔” زمین کے اطراف
میں گیسوں کی یہ سطح بنتی کیسے ہیں؟“
وہ بولے۔” تم دیکھ رہے ہو کہ کائنات کی
ہر شئے میں حرکت پائی جاتی ہے۔ ہر شئے کی
حرکت کی مقداریں مختلف ہیں۔ سورج کی گردش کی رفتار الگ ہے، چاند کی الگ اور ستارے
کی الگ۔ روشنی جب سورج کی رفتار سے چل کر سطح زمین تک پہنچتی ہے تو زمین کی رفتار
مختلف ہونے کی وجہ سے سورج کی شعاعوں کو دوہری حرکات سے سابقہ پڑتا ہے۔ یہی دوہری حرکت کی لہریں گیسوں کی سطح بناتی ہیں جو
اس کرہ زمین کے لئے گلاف کا کام کرتی ہے اس طرح اس زمین کی رفتار اس غلاف کے اندر
بند ہو جاتی ہے اور اس غلاف سے باہر دوسرے سیاروں اور سورج کی روشنی کی رفتار
علیحدہ ہوتی ہے۔ زمین کی مخصوص رفتار زمین کو اپنے غلاف میں بند رکھتی ہے یہی زمین کی کشش ثقل کہلاتی
ہے اور سورج اور دوسرے سیاروں کی رفتار ایک دوسرے سے فاصلہ متعین کرتی ہے ۔ اس طرح
گردش کے قانون اور اصول گردش کی رفتار اور اس رفتار سے بننے والی سطح کو مدِ نظر
رکھتے ہوئے ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ جب زمین کے اطراف کا اوزون لیئر کسی وجہ سے متاثر
ہونے لگتا ہے تو زمین کی گردش کے نظام میں خلل پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے موسم میں
تبدیلیاں آتی ہیں اور کرہ زمین پر بسنے
والی مخلوق متاثر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کائناتی نظام و
تخلیقی فارمولوں کے علوم عطائے کئے ہیں تا کہ کرہ ارض پر انسان اللہ کی مخلوق کو
زمین پر پیدا ہونے والے تخریبی عناصر سے محفوظ رہنے میں مدد کرے۔“
وہ خضر بابا کی باتیں نہایت ہی غور سے
سن رہا تھا۔ اب وہ دونوں ایسی جگہ پہنچے جہاں دور دور تک لاوے کے دریا بہتے دکھائی
دیتے۔ خضر بابا ایک لمحے کو رکے۔ اس کی طرف جائزہ لیتی نظروں سے دیکھا اور
کہنے لگے۔
”تم ذرا بھی خوف نہ کرنا، میں جو تمہارے
ساتھ ہوں ، تم بے فکر رہو، تمہیں نقصان نہ ہوگا۔“
عاقب بچوں کی طرح ان سے لپٹ گیا” بھلا
آپ کے ہوتے ہوئے مجھے فکر کی کیا ضرورت ہے۔ آپ ہی تو میرا دل ہیں۔ آپ ہی میرا دماغ
، آپ ہی میرے ہاتھ پاؤں ہیں۔“
وہ خوش ہوگئے اور پیار سے عاقب کو چوم
لیا۔ اپنے اوپر کا لباس اتار کر اسے پہنا دیا۔ پھر بولے ۔
” چلو چلتے ہیں“ انہوں نے اس کا ہاتھ
زور سے پکڑا اور قرآن کی ایک آیت تلاوت کی ۔” اے آگ ! ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی کا
باعث بن جا ابراہیم علیہ السلام کے لئے۔“
یہ کہہ کر لاوے کے بہتے دریا میں کود
پڑے۔ ایک لمحے کو خوف سے عاقب کو دم نکلتا محسوس ہوا مگر اس نے مضبوطی سے خضر بابا
کا بازو تھام لیا۔ حیرت سے اس کی
آنکھیں پھتی کی پھٹی رہ گئیں۔ آگ
میں تپش بالکل نہ تھی۔ اب اس کے جسم کا تناؤ دور ہو گیا۔ چہرے پر اطمینان آگیا۔
وہ بولے۔” پتہ ہے ہم کہاں جا رہے
ہیں؟دوزخ کی سر زمین کے اطراف میں آگ یا نار کی سطح ہے جس کی وجہ سے اس زمین پر
سخت گرمی ہے۔“ اسی گفتگو کے دوران اس زمین پر پہنچ گئے۔ خضر بابا کہنے لگے۔
” اگر ہم نے یہ لباس نہ پہنا ہوتا تو ہم
کب کے جل چکے ہوتے۔“
پھر دونوں نے نہایت ہی تیزی کے ساتھ اس
زمین کے گرد چکر لگایا۔ وہاں کی زمین لاوے کی وجہ سے زیادہ تر سیاہ رنگ کی تھی
جیسے جھلس گئی ہو۔ زیادہ تر پتھریلی اور ریتلی تھی۔ ان پتھریلے پہاڑوں اور ٹیلوں
سے چشمے ابل رہے تھے۔ عاقب اسے دیکھنے لگا۔ ان کی رنگت ایسی تھی جیسے تلچھٹ۔
خضر بابا بولے۔” تم چند قطرے زبان پر
رکھو تاکہ تم اس کھانے کا مزہ بھی پتہ چل جائے،“
عاقب نے ان کے کہنے پر چند قطرے زبان پر
رکھے۔ زبان جل کر اکڑ گئی۔سخت گرم بدبودار اور زنگ آلود پانی تھا۔ انہوں نے فوراً
ہی اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ٹپکایا۔
اسی وقت وہ بالکل ٹھیک ہو گیا۔
خضر بابا نے کہا۔” ان پہاڑوں میں ایسے
ہی کیمیکل بنتے ہیں جو پانی میں گھل کر پانی کو زہریلا بنا رہے ہیں۔ پھر اس جلی
زمین پر درخت بھی جھلسے ہوئے تھے۔ ان پر زقوم کا پھل لگتا ہے۔“
انہوں نے توڑ کر عاقب کو دیا۔ ” اسے چکھ
کر تھوک دو۔“
عاقب نے ذرا سا کاٹا تو انتہائی کڑوا اور سخت کسیلا تھا۔ جی متلانے لگا۔ اب
انہوں نے اپنی انگلی عاقب کے منہ میں ڈال دی۔ اس انگلی کو چوسنے پر دودھ کا سا مزا
آیا اور منہ کا ذائقہ نارمل ہو گیا۔
وہ بولے۔” جس کرہ ارض پر ایسا پانی،
ایسی ہوا اور روشنی ہوگی وہاں کاشت بھی تو ایسی ہی ہوگی اور پھر یہاں کے رہنے والے
یہی سب کچھ استعمال کرنے پر مجبور بھی تو ہوں گے یا نہیں؟“
اس نے اثبات سے سر ہلایا۔” آپ بالکل
ٹھیک کہتے ہیں۔“
وہ دونوں اس زمین سے باہر نکل کر ذرا
کھلی فضا میں اڑنے لگے۔ جیسے جیسے آگے
بڑھتے جاتے۔ ویسے ویسے لطافت کا احساس ہوتا۔ یہاں تک کہ ایک حسین راستے پر
آگئے۔ پھولوں اور درختوں سے بھرا ہوا یہ راستہ ان کے دل میں فرحت و انبساط کے
جذبات
ابھارنے لگا۔
عاقب ایک دم بول پڑا۔” کیا ہم جنت کی طرف جا رہے ہیں؟“
وہ ہنس
کر بولے۔” ہم جنت میں جا رہے ہیں۔“
پھر نہایت ہی حسین باغ میں دونوں داخل
ہوئے خضر بابا بولے۔” تم نے دیکھا کہ جنت کس غلاف میں بند ہے۔“
وہ ایک دم بول پڑا۔” جنت نور کے غلاف
میں بند ہے۔ جب ہی تو اس کے راستے میں خوشیاں اور اللہ تعالی کی رحمت کا احساس
ہوا۔“
خضر بابا نے کہا۔” تم بالکل درست کہتے
ہو۔ جنت کی زمین کے اطراف میں نور کا لیئر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نور نے چاروں طرف سے
جنت کے مقام کو گھیر رکھا ہے۔ اب تم دیکھو کہ نور اس مقام پر کیا تخلیق کر رہا
ہے؟“
اس نے چاروں طرف دیکھا ۔ دور دور تک وہی پہاڑ
تھے۔ وہی چشمے وہی زمین مگر ہر شئے گزشتہ مقامات سے مختلف تھی۔ ہر شئے میں ایسی
کشش تھی کہ دیکھنے کے ساتھ ہی وہ خود بخود کھینچ کر قریب آجاتی تھی۔ جیسے دور بین سے دیکھنے پر شئے بال کل آنکھوں کے
سامنے دکھائی دیتی ہے۔ ہر طرف خوشبوئیں ، ہر طرف نغمے اور
قہقہے۔ دونوں ایک دریا پر پہنچے پانی ا نتہائی
شفاف تھا۔ دریا کی تہہ میں جو ریت تھی۔ وہ بہت ہی خوشنما گلابی رنگ کی تھی
۔ دیکھنے پر پانی گلابی لگتا تھا۔ عاقب نے
پیا تو اس کا مزا نہایت ہی لذیذ اور شیریں تھا۔ وہاں کے پھل بھی بے حد خوش ذائقہ تھے۔ ہر شئے میں نور نمایاں
تھا۔ نور اللہ کا عکس ہے، نور جو جمال ہے، جنت کی ہر شئے اللہ کے نور کے جمال کا
مظاہرہ دکھائی دی۔ ہر شئے نور کی بنی ہوئی تھی۔ نور کے دھلے
ہوئے یہ اجسام جنہیں دیکھ کر خود بخود انہیں بنانے والے پر پیار آتا تھا۔ اب دونوں
جنت سے باہر آئے۔ جیسے جیسے آگے بڑھتے جاتے تجلیات کا ہجوم بڑھتا جاتا۔ یہاں کے
دونوں تجلیات میں گھر گئے۔
خضر بابا بولے۔” تجلیات کا یہ ہجوم عرش
کی ایک بلندی ہے۔ یہ تجلیات کا دائرہ ہے جس کے درمیان کائنات ہے۔“ پھر خضر بابا نے
ایک مقام پر قدم رکھے اور کہنے لگے۔
” یہ مقام تجلی ذات کا عالم ہے۔“
عاقب نے چاروں طرف دیکھا اسے یوں لگا
جیسے یہاں ہر شئے تجلی کی صورت میں ہے۔ اس نے زمین پر دیکھا زمین تجلی تھی، آسمان
بھی تجلی تھا۔ غرض یہ کہ ہر طرف سوائے تجلی کے کچھ نہ تھا۔ اس کے اندر تجلی ہی
حواس بن گئی۔ عاقب نے زور سے کہا۔
” لا الہ الا اللہ“ اس پر عجیب حیرت کا
احساس غالب تھا ۔ خضر بابا نے اس حیرت کو توڑتے ہوئے زمین کی تجلی کو مٹھی میں
بھرتے ہوئے کہا۔ ” اسے چکھو۔“
وہ تو جیسے حیرت سے روبورٹ بن چکا تھا۔
سوچنے سمجھنے کی ساری سلاحیتیں سلب ہو گئی تھیں۔ صرف آنکھ دیکھ رہی تھی۔ اس نے خضر
بابا کے ہاتھ سے لے کر وہ تجلی منہ میں ڈالی۔ وہ نہایت ہی لذیذ غذا لگی۔ اب وہ
بولے۔
” مقام قرب میں ہر شئے تجلی کا مظاہرہ
ہے۔ اللہ تعالیٰ جو کچھ اپنے بندے کو کھلآنا چاہتا ہے وہ غذا تجلی کی صورت میں
بندہ کھاتا ہے ، جو لباس اللہ پہنآنا چاہتا ہے وہ لباس تجلی کی صورت میں بندہ
پہنتا ہے ۔ اس مقام پر بندے کی ذات تجلی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور اس کا شعور
بھی تجلی ہی بنتا ہے۔ پس تجلی کی آنکھ اللہ کو دیکھتی ہے۔“
عاقب نے پوچھا ۔” جب اللہ تجلی ہے تو
بندے کا اپنی ذات کا شعور کس طرح باقی رہتا ہے؟“
وہ بولے۔” اللہ کی صفت حی قیوم خود زندہ
اور قائم رہنے والی ہستی ہے اور اس صفت کے اندر جو بھی علم اور نقش ہوگا اسے بھی
اپنی بقا سے باقی رکھنے والی ہے۔ جیسے تم فریزر میں کھانا رکھ کر اسے محفوظ کر
دیتے ہو۔ اسی طرح کائنات کے نقوش تجلی ذات کے عالم میں محفوظ ہیں۔ یہی لوح محفوظ
کا عالم ہے۔ جہاں کائنات اللہ تعالیٰ کی صفت حی قیوم سے زندگی اور بقا حاصل کر رہی
ہے۔ بقا توانائی ہے اور یہ توانائی صفت حی قیوم کی تجلی سے حاصل ہوتی ہے۔ جب
اللہ کی بقا سے کوئی بندہ ہم رشتہ ہو جاتا
ہے تو وہ تجلی کے نقش یا متشکل تجلی کی صورت میں قائم اور زندہ رہتا ہے اور اس عالم
میں موجود تجلیات کو ذات خالق کی حیثیت سے پہچانتا ہے۔ تب اس کے اوپر اسمائے
الہٰیہ کے حواس غالب آجاتے ہیں اور اللہ کی صفات
اس کا ادراک بن جاتی ہیں۔“ خضر بابا نے بات ختم کی تو عاقب نے اللہ کا شکر
ادا کیا جس نے اسے اپنے رازوں کا امین بنایا۔
ایک روز شام کو خضر بابا سے ان کے گھر
میں ملاقات ہوئی۔ دیکھتے ہی خوشی
سے فرمایا۔
”
سبحان اللہ! تم دونوں کے اندر کالی کملی والے کی رحمتوں کے انوار جھلک رہے
ہیں۔“
گلبدن اور عاقب خضر بابا کے دائیں بائیں
بیٹھ گئے۔ گلبدن خضر بابا کی بات سن کر نہایت شوق سے بولی۔
خضر بابا ہم دونوں نے بڑے اچھے خواب
دیکھے ہیں۔ پہلے میں آپ کو اپنا خواب سناتی ہوں۔“
گلبدن کا خواب سن کر خضر بابا کا چہرہ
خوشی سے مزید روشن ہو گیا۔ کہنے لگے۔
” قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم
دوبارہ مرو گے پھر دوبارہ تمہیں زندہ کیا جائے گا۔ پھر تم اللہ کی طرف بلائے جاؤ
گے۔ غار سے نور کے ابشار میں آنا عدم سے وجود میں آنا ہے۔ یہ تخلیق کا وہ پہلا نقش
ہےجو اللہ تعالیٰ کے کن کہنے سے ظہور میں آیا۔ یہی وہ ازلی تخلیق ہے جس کی بقا اللہ کے ساتھ ہے جو
اللہ کی صفات کے ساتھ زندہ اور قائم ہے۔ اس ازلی وجود کے
ساتھ عدم کے اسرار لپٹے ہوئے ہیں۔ جب انسان اپنی ازلی حقیقت سے واقف ہو جاتا ہے تو
اس کے اندر ازلی شعور بیدار ہو جاتا ہے اور وہ تخلیق کائنات میں اللہ تعالیٰ کے
ارادے و منشا کو سمجھنے لگتا ہے۔“
خضر بابا کی بات سن کر گلبدن بولی۔” خضر
بابا ! مجھے تو اب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اللہ کا ارادہ اور اللہ کی منشا ہی
میرے اندر منتقل ہو رہی ہے اور میں اسے اپنا شعور اپنا ارادہ اور اپنے ذہن کی
حیثیت سے پہچان رہی ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ازل کے وہ انوار و تجلیات ہیں جو عدم کے پردے سے نکل
کر اپنا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عدم کے پردے میں چھپی ہوئی حقیقت اللہ کے سوا اور کون
ہے۔ پس عدم سے ظہور میں آنا اسی کنبہ حقیقت کا پھیلاؤ ہے۔“
خضر بابا بولے۔” عدم اور وجود کی تمام
حقیقتوں کا تعلق انسان کی فکر کی انتہائی گہرائی
سے ہے۔ آدمی کی فکر جس مقام پر جا کر اپنی آنا سے باخبر ہو جاتی ہے۔ وہی
مقام عدم کا پردہ ہے۔ روح کی تمام انفرادی فکریں کائنات کا سفر طے کرتی ہوئی واپس
عدم کی طرف لوٹتی ہیں اور روح کی فکر اللہ کی فکر کے اندر ڈوب جاتی ہے۔ فنائیت کے
اسی مقام پر بقا کا راستہ کھلتا ہے۔ اسی مقام کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں
فرمایا کہ۔” تم دوبارہ مروگے پھر دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے۔ “ اللہ کی طرف لوٹ
کر جانا اسرار خداوندی اور مشیت الہٰی کے
رموز کے انکشافات سے آگاہی عطا کرتا ہے کہ انسان اللہ کے رازوں کا امین ہے۔
گلبدن بولی۔” خضر بابا ہر وقت ایسا لگتا
ہے جیسے میری روح اللہ کو ہر وقت سجدہ کرتی رہتی ہے۔ خواہ میرا یہ جسم کہیں بھی
مشغول ہو۔ مگر جسم کے در پردہ ایک اور وجود ہر وقت اللہ کو سجدہ کرتا رہتا ہے گویا
اس وجود کی نگاہ اپنے رب سے کسی ان نہیں ہٹتی۔ وہ
وجود ہر وقت اپنے رب کے ساتھ مشغول رہتا ہے۔“
خضر بابا بولے۔” جب تمہاراشعور اس جسم
سے انتقال کر کے اس در پردہ جسم کے اندر منتقل ہو جائے گا تب تم روح کی ماورائیت
کے ادراک کو انسانی احساس و شعور کے دائرے میں محسوس کرنے لگو گی اور یہ سب کچھ
اللہ پاک کے محبوب بشر محمد رسول
اللہ ﷺ کی رحمت
کے زیر سایہ ہوتا ہے۔ جس پر ان کی رحمت کی نظر ہو جائے۔ ان کی خوش نصیبی کا کیا
ٹھکانہ ہے۔“
گلبدن کو یوں لگا جیسے اس کا نقوش
لاشمار وجود میں تقسیم ہو کر ساری کائنات میں پھیل گیا ہے۔ اس کے وجود کا ہر نقش
اپنے رب کی بارگاہ میں سرنگوں تھا اور ہر نقش کے لب پر ایک ایک اسم الہٰی جاری
تھا۔ روح کی آنا آہستہ آہستہ صفات الہٰیہ
کی رنگینوں میں فنا ہونے لگی۔ اس لمحے گلبدن خضر بابا کے پہلو سے لگ کر دنیا و
مافیہا سے بے خبر ہو گئی۔ جب وہ ہوش میں آئی
تو خضر بابا نے اسے اور عاقب کو شربت پینے کو دیا۔ اور پھر دونوں کو گلے سے
لگا کر پیار کرتے ہوئے بولے۔
” بس اب گھر جا کر آرام کرو۔ کل دوبارہ
انا۔ پھر عاقب کا خواب بھی سنیں گے۔“
دوسرے دن پھر اپنی مصروفیت سے فراغت
پانے کے بعد شام کو عاقب اور گلبدن خضر بابا کے پاس گئے۔ عاقب کا خواب سن کر خضر
بابا نے فرمایا۔
” اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انسان کی
تخلیق کے مقصد کو بیان کیا ہے کہ اللہ پاک نے انسان کو کس مقصد کے تحت تخلیق کیا
ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہم نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ عبادت سے
مراد بندگی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان اور جنات کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ
وہ اللہ تعالیٰ کو اپنی مرکزیت قرار دے کر
جو کچھ اس کی جانب آرہا ہے وہ اللہ کی طرف
سے ہے۔ مسلسل اللہ کی طرف دھیان رکھنے سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ قلبی رابطہ
قائم ہو جاتا ہے۔ قلبی رابطہ روح کی ایک ایسی Frequency ہے جس Frequency پر امر ربی یا
انسان کے لئے احکامات نشر کئے جاتے ہیں۔ جب آدمی کا اللہ کے ساتھ قلبی رابطہ قائم
ہو جاتا ہے تو وہ زندگی کے کاموں میں اللہ تعالیٰ کی منشا و ارادے کو جان لیتا ہے۔
یاد رکھو! علم روشنی ہے اور جہالت اندھیرا ہے۔ ساری خوشیاں روشنی کے ساتھ ہیں اور
تمام اندیشے، ڈر، وسوسے، اور رنج و غم جہالت کے ساتھ ہیں۔ آدمی جب اپنے مقصد حیات
سے ہٹ جاتا ہے۔ یعنی زندگی کو ملنے والے احکامات کا رُخ جب اللہ کے بجائے مخلوق کے
ساتھ یا اپنے نفس کے ساتھ جوڑ دیتا ہے تب وہ اندھیرے میں چلا جاتا ہے۔ جہاں ہر طرح
کی پریشانیاں اسے گھیر لیتی ہیں۔ یہ سارا عالم اللہ تعالی ٰ کی صفات کا مظاہرہ ہے۔ انسان کو ملنے والی تمام اطلاعات
اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم ہے۔ انسان کی
حیثیت ایک اسکرین (Screen) کی طرح ہے جس اسکرین پر اللہ تعالیٰ کی
صفات اپنا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ آدمی کی
مرکزیت جب اللہ تعالی کے ساتھ قائم ہو جاتی ہے۔ تو اسکرین پر چلنے والی فلم رنگین
اور روشن ہو جاتی ہے۔ جسے روح کے حواس بخوشی قبول کر لیتے ہیں اور جب قلب و ذہن سے
اللہ نکل جاتا ہے تو اسکرین screen
پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور روح کے حواس اندھیرے
میں بھٹکنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالی کے کن کہنے سے اللہ تعالی کی صفا ت کے مظاہرے کی
یہ فلم کائنات کے ہر فرد کے اسکرین پر جاری ہوگئی۔ انسان کی اسکرین پر جاری ہونے
والی فلم ہی اس کی زندگی ہے۔ اس خواب میں اللہ تعالیٰ تمہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ زندگی کے احکامات اور اعمال سے
انسانی شعور کا کیا تعلق ہے اور اس تعلق کی بنا پر ایک فرد کس طرح اپنی زندگی سے
فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ آدمی جب سینما گھر جاتا ہے تو اسکرین پر فلم دیکھنے کے لئے
وہ اپنی آنکھ اور کان کا استعمال کرتا ہے بصارت اور سماعت ہی دو ایسے حواس ہیں جو
فلم دکھاتے اور اس کے معنی گوش گزار کرتے ہیں۔ مگر ان حواس کے استعمال سے پہلے
اسکرین پر ان حواس کو سیٹ کرنا ضروری ہے۔ آنکھ اور کان کی مرکزیت اسکرین بنتی ہے تو
فلم دیکھی جا سکتی ہے۔ کائنات میں جاری و ساری ہونے والی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کے
ارادے کی فلم ہے پس اس فلم کو دیکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مرکزیت ضروری ہے۔
کائنات کی تمام حرکات اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ظہور میں آرہی ہیں۔ اللہ کا ارادہ
اس کا امر ہے۔ روح اللہ کے امر کی تشکیلی صورت ہے جو اس کے ارادے کے اسکرین پر
حرکت کر رہی ہے۔ اللہ کے امر کی تشکیلی صورت ہے جواس کے ارادے کے اسکرین پر حرکت کر رہی ہے۔ اللہ نور ہے اس
کا ارادہ اس کا امر بھی نور ہے نور کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جس طرح سینما گھر کے
اسکرین پر چلنے والی فلم کے ہر کردار وہ روشنی ہیں جو فلم سے گزر کر اسکرین پر
آرہی ہے۔ فلم کا ہر نقش اس روشنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بس روشنی ہی بنیادی (Source) ہے جو فلم دکھانے والی ہے اللہ کا نور کائنات کا بنیادی (Source) ہے جو مظاہرات کائنات میں
ظاہر باطن اوّل آخر ہر سمت کام کر رہا ہے۔ اس حقیقت کا جاننا پہچاننا اور ماننا ہی
ایمان ہے۔“
پھر خضر بابا عاقب اور گلبدن کی آنکھوں
کی گہرائی میں جھانکتے ہوئے بولے۔
” اے بچو! یاد رکھو۔ لوحِ محفوظ اللہ
تعالیٰ کے علوم کا مکمل ریکارڈ ہے انسان کا دل ایک اسکرین (screen) ہے۔ جس اسکرین پر لوح محفوظ کی فلم مسلسل ڈسپلے (Display) ہورہی ہے۔ اس فلم کو
دیکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو دل اور دماغ دو قسم کے حواس عطا کیے ہیں۔ دل کے حواس روح کی آنکھ ہے۔ جو
اللہ کی نظر سے دیکھتی ہے اور دماغ کے حواس آدمی کے انفرادی عقل و شعور ہے۔ اللہ
کی نظر سے روح کی آنکھ لامحدودیت میں نور
کی اسکرین پر اللہ تعالیٰ کے علوم کو دیکھتی ہے اور انفرادی عقل جسم کی آنکھ سے
ظاہر کے پردے پر کائنات کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کرتی ہے۔ جسم کی آنکھ صرف سطح
پر دیکھتی ہے اور روح کی آنکھ گہرائی سے
سطح تک بیک نظر دیکھ لیتی ہے۔ اپنی عقل کو روح کے سمندر میں ڈبو دو تمہاری ہر حرکت
امر ہو جائے گی۔“
خضر بابا کی دونوں آنکھوں سے نور کی ایک
ایک شعاع نکلی اور عاقب اور گلبدن کی آنکھوں میں داخل ہوگئی روح کی قندیل جل
اُٹھی۔ ازل سے ابد کے کنارے مل گئے۔ دل
اور دماغ ہم آہنگ ہو گئے۔ اللہ کی نظر کے نور میں روحوں کے رنگین جمال خوشبو بن
کر عرش سے فرش
تک بکھر گئے۔ دونوں کے لب بے ساختہ کہہ اُٹھے۔
”حسن اللہ کی نظر میں ہے ۔ بلا شبہ حُسن اللہ کی نظر میں
ہے۔“
ختم شد