Topics

(اٹھائسویں قسط)

خضر بابا نے بتایا” یہ تمام اسماء الحسنیٰ اللہ تعالیٰ کے نائب محبوب اور حکمران ہستی کے ہیں۔ جنہیں اللہ تعالی نے اسمائے الہٰیہ کے علوم عطا فرمائے  اور کائنات پر حکمرانی کرنے کا اعزازبخشا ہے۔ آپ ﷺ کے تمام ناموں کی بقا اللہ تعالی کے ناموں کے ساتھ ہے جو تمام عالمین کا خالق ہے۔“

          گلبدن اور عاقب پر ایک سحر انگیز محویت طاری تھی۔خضر بابا قدرت کے چہرے کا ایک نقاب سرکا کے خاموش ہو گئے۔ گلبدن اور عاقب کی روح کی نگاہ اس نظارے پر اٹک کر رہ گئی۔ ان کا تصور خضر بابا کی روشنیوں سے رنگین ہو گیا اور یہ تمام رنگ اللہ پاک کے محبوب ﷺ کے جمال کا جلوہ  بن گئے۔ دونوں غیر اختیاری طور پر  بے ساختہ تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔ روح کا گداز آنکھوں کی نمی بن گیا۔ کچھ دیر بعد جب وہ اس محویت سے نکلے  تو خضر بابا نے دونوں کو اپنے پہلو میں سمیٹ لیا۔ خضر بابا کا سکوت انہیں سمجھا رہا تھا کہ یہ الفاظ فکر کی جس لہر سے نکلے ہیں اسی لہر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ فکر سمندر کی گہرائی  ہے۔ جہاں سکوت ہے ۔ سطح کی موجیں اس سکوت کی قوت ہیں۔ جب قوت گہرائی  سے سطح پر آتی   ہے۔ تو سطح کا ٹکراؤ سکوت کو توڑ دیتا ہے۔ آواز سکوت کے ٹکروں کو الفاظ کی صورت میں فضاء میں بکھیر دیتی ہے۔ ذہن کی ہر فکر اللہ کے نور کی ایک شعاع ہے جو کن کہنے سے ٹوٹ کر کائنات کے دائرے میں بکھر چکی ہے۔ روح کی نگاہ جب فکر کی گہرائی  میں دیکھتی ہے تو اس فکر کا جمال اس کے مشاہدے میں  آجاتا ہے۔ زندگی روح کا ادراک ہے۔ روح کا ادراک نور سے گزرتا جاتا ہے۔ اس نور سے جو اللہ تعالی کے کن کہنے سے ازل سے ابد تک پھیل چکا ہے۔

          دن گزرتے گئے۔ عاقب اور گلبدن کے دل پر ” یٰسین“ نام جیسے نقش ہو کر رہ گیا۔ وہ جان چکے تھے کہ حضور پاک ﷺ کا ہر اسم مبارک آپﷺ کی شخصیت کی کاملیت کو ظاہر کرتا ہے۔ دونوں جب بھی اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتے۔ ان میں حضور پاک ﷺ کے مرتبے کا تذکرہ کرتے۔ انہیں یوں محسوس ہوتا جیسے اسم یٰسین کے انوار ان کے اندر جذب ہوتے  جا رہے ہیں۔

          ایک دن عاقب کے ممی اور پاپا بھی موجود تھے۔ عاقب اور گلبدن نے خضر بابا کی بتائی  ہوئی تمام باتیں انہیں سنا دیں۔ عاقب کی  ممی یہ سن کر فوراً بولیں۔

          ” بخدا یہ بالکل حقیقت ہے اور اس حقیقت سے دنیا والے بھی کچھ نہ کچھ واقف ہیں۔ تمہیں یاد ہو گا۔ دنیا کی زندگی میں ، میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ مرنے والے کے سرہانے سورہ یٰسین پڑھنے سے موت کی تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ قرآن کو اللہ کا کلام ماننے والے تقریباً تمام مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں۔ کہ جان کنی کی حالت میں   مبتلا افراد کو یٰسین سنانے سے اس کی تکلیف میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور موت اس پر آسان ہو جاتی ہے۔ سچ  تو یہ ہے کہ دنیا میں ہم بزرگوں کی بتائی  ہوئی باتوں پر اندھا دھند عمل کرتے  رہتے ہیں۔ یہ عمل نسل در نسل چلتا رہتا ہے مگر اس کے اندر کام کرنے والی حکمت کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا۔ اللہ کے ہر حکم میں اس کی حکمت موجود ہے۔ حکمت اس شئے یا حکم کے اندر موجود روشنیاں ہیں۔ حکمت جاننے سےروشنیوں کے اندر ذہن داخل ہو جاتا ہے اور روشنیوں کے عمل کو تیز کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے سختی دور ہو کر آرام مل جاتا ہے۔“

          عاقب کے پاپا خوش ہو کر جوشیلے انداز میں کہنے لگے۔

          یہ بات اب اچھی طرح سمجھ میں  آگئی کہ مرنے والے کے قریب ” یٰسین“ کیوں پڑھی جاتی ہے۔ اصل میں جاکنی کا عالم دنیاوی شعور کا اعراف کے شعور میں تبدیل ہونے کا عمل ہے۔ اس وقفے کے دوران فرد کو اعراف کی روشنیوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اعراف کا شعور جلد از جلد دنیاوی شعور پر غالب آجائے اور موت کی کشمکش سے نجات ملے۔ سورہ یٰسین اعراف کے انوار کا خزانہ ہے۔ جیسے جیسے ان انوار کی لہریں مرنے والے کے اندر جذب ہوتی جاتی ہیں۔ اسے موت کی تکلیف پر قابو پانے کے لئے قوت و ہمت مل جاتی ہے۔“

          گلبدن بولی۔” پاپا! قرآن مجید واقعی اللہ تعالیٰ کے انوار کا خزانہ ہے۔“

          پاپا بولے۔” بیٹی!اللہ پاک نے اپنے خزانوں کو پہچاننے کے لئے انسان کو جوہری کی نظر عطا کی ہے تاکہ وہ ان انمول خزانوں کو پہچان سکے۔ ورنہ عام نظر تو ہیرے کو کانچ کا ٹکڑا ہی دیکھتی ہے۔“

          ایک دن خضر بابا، عاقب اور گلبدن کے پاس آگئے خوشی سے ان کا چہرہ دمک رہا تھا۔  آتے ہی دونوں کو اپنے قریب کرتے ہوئے بولے۔” بچو! آج تمہارے لئے ایسی خوشخبری لایا ہوں کہ تم واقعی خوشی سے جھوم اُٹھو گے۔“

          دونوں نے اشتیاق بھری نظروں سے خضر بابا کو دیکھا اور بچوں کی طرح بولے۔” خضر بابا! جلدی بتایئے نا ۔ کیا خوشخبری ہے ہمارے لئے؟“

          خضر بابا ان کی اضطراری کیفیت سے  لطف اندوز ہوتے ہوئے اطمینان سے بولے۔” بھئی پہلے ہمیں آرام سے بٹھاؤ۔ کچھ خاطر کرو۔ پھر بات کریں گے۔“

          ”اوہ“۔ کہہ کر دونوں نے انہیں دونوں بازوؤں سے پکڑ کر صوفے پر بٹھایا اور خدم فرشتے کو آواز دی کہ وہ کچھ مہمان نوازی کا انتظام کرے۔ خضر بابا ان کے بڑھتے ہوئے تجسس کو دیکھ کر مسکراتے رہے۔ اتنے میں فرشتہ خشک میوؤں اور پھلوں کی بھری ہوئے ٹرے لے کے حاضر ہوا۔

 گلبدن نے ایک انگور اپنے ہاتھ سے خضر بابا کو کھلاتے ہوئے لاڈ سے کہا۔” خضر بابا! اب کہہ بھی ڈالیں نا۔“

          خضر بابا نے ہنستے ہوئے کہا۔” بھئی کیا کروں کبھی کبھی تم دونوں کو تنگ کرنے میں بڑا مزا آتا ہے۔“

          پھر تینوں ہنسنے لگے۔ گلبدن پھلوں اور میوؤں کی ٹرے کو پرے ہٹاتے ہوئے بولی۔” اب آپ کو اس میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ جب تک خوشخبری نہ  سنا دیں۔“

          خضر بابا سنجیدہ سا منہ بنا کر بولے۔” ارے بھائی  ! ایسا ظلم نہ کرو۔ لو ہم سنائے دیتے ہیں۔ آج سے پندرہ دن  بعد اعراف کے فرمانروا شہنشاہ حضرت یٰسین محمد الرسول  اللہ ﷺ کی سالگرہ مبارک کا دن ہے اس دن آپ ﷺ دنیا  سے اعراف میں تشریف لائے اس خوشی کے موقع پر اعراف کے لوگوں کے لئے اپنے شہنشاہ کے دیدار کی عام سہولت مہیا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مخصوص لوگ کھانے پر مدعو  ہوتے ہیں۔“

          خضر بابا نے ایک کارڈ عاقب کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔” یہ تمہارا انویٹیشن کارڈ ہے۔ تم دونوں کو اس پارٹی میں شریک ہونے کی سعادت عطا کی گئی ہے۔“

          عاقب خوشی کے مارے بے تابانہ کارڈکا لفافہ کھولا۔ گلبدن لپک کے قریب آئی۔ دونوں  کی خوشی ان کے وجود سے چھلکی جا رہی تھی۔ کارڈ حرف بہ حرف پڑھنے کے بعد دونوں خضر  بابا سے بے ساختہ لپٹ گئے۔ تشکرانہ جذبات سے ان کی  آنکھیں  دبدبا گئیں۔

          خضر بابا نے انہیں سینے سے لگا کر ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

          ” جن پر رحمت کی نظر ہو جائے۔ ان کی خوش نصیبی کے کیا کہنے۔“

          کچھ دیر تک دونوں اپنی خوش نصیبی پر حیرت زدہ گم  سم بیٹھے رہے۔ خضر بابا نے ان کی حالت کو سمجھتے ہوئے آہستہ آہستہ اس سکوت کو توڑتے ہوئے فرمایا۔

          ”سنو بچو! انسان کا نفس بڑا ہی کمزور ہے۔ روح کے وقتاً فوقتاً نت نئے تقاضے نفس میں اُبھرتے رہتے ہیں۔ ایک تقاضا اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ وجود کی حرکت زندگی کی شاہرہ پر رواں دواں رہتی ہے۔ خوش نصیب نفس وہ ہے  جو روح کے تقاضوں کو ضائع ہونے سے بچا لے۔ اس کے لئے دل اور  ذہن  اس کی تکمیل اپنے سارے وجود کو انادہ کر لیتا ہے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو تقاضہ دل میں اُبھر کر نفس کے لئے حسرت بن جاتا ہے کیونکہ  ذہن  کے قبول نہ کرنے پر وجود ساکت رہتا ہے۔ وجود کی حرکت روح کی روشنیوں کے جذب کرنے کی نشانی ہے۔“

          ان پندرہ دنوں میں اعراف کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ہر شخص ہر شہر کی سجاوٹ میں اپنی صلاحیتوں کو بھر پور استعمال کرنے  کی کوششوں میں لگ گیا۔ یوں لگا جیسے ہر شخص جنت کے خواب کو بیداری میں بدلنا چاہتا ہے۔ اعراف کی سج دھج  بے نظیر تھی اس کے باغات اس کے گلی کوچے اس کی شاہراہیں ہر شئے پر ایک نیا نکھار تھا۔ عاقب اور گلبدن کے لیے یہ پہلا موقع تھا وہ تعجب میں تھے کہ انسان میں اللہ نے کیا کیا خوبیاں بھری ہوئی ہیں۔ کوئی شخص بھی ہنر سے خالی نہیں ہے انسانوں کے ساتھ ساتھ فرشتے اور جنات بھی مستعدی سے اپنے کاموں میں لگے رہے۔ چرند پرند غرضیکہ اعراف کی ہر مخلوق اپنے شہنشاہ دو عالم رحمت     اللعالمین ﷺ کی لگن دل میں کیے ہوئے تھی۔ پرندوں کے غول کورس میں نئے سروں میں اپنی راگنیاں سناتے۔ جنگل کے جانور اپنے شہنشاہ ﷺ کے حضور حاضر ہونے کے لئے پریڈ کے نظم و  نسق کی تیاری کرنے لگے' ہوائیں گلشن کی خوشبوؤں کو اپنے دوش پر اُٹھائے ہوئے خراماں خراماں سارے عالم میں گھومتی رہتیں۔فضا کے لبوں پر خاموش پیغام جاری تھا۔ کالی کملی کی اوٹ سے رحمت کا چاند جلوہ نما ہونے والا تھا۔ عاقب اور گلبدن نے بھی دو دن پہلے اپنے لباسوں کا انتخاب کر لیا اور پھر اس مبارک دن کی صبح بھی اپنے نئے انداز کے ساتھ جلوہ افروز ہوگئی۔ فجر کے وقت سب سے پہلے ہوا خوشبو کے جھونکے لے کر بار گاہ رسالت ﷺ میں سلام کے لئے حاضر ہوئی اور شان کریمی کی پزیرائی  سے لہراتے ہوئے سارے عالم کو عطر بیز کر دیا۔ یہ خوشبو گلشن کی نہیں تھی۔ پھولوں کی نہیں تھی۔ یہ خوشبو تو سرور ِ کائنات ﷺ کی تھی۔ جن کی روح اعظم سے سب روحیں معطر ہیں۔ اس کے بعد پرندوں کے غول آئے اور اپنے شہنشاہ ﷺ کی تعریف و تمحید کے گن گانے لگے۔ حضور پاک ﷺ کی ایک نگاہ کرم نے ان کے سروں میں شیرنی بھر دی۔ جنگل کے درندوں نے بھی آپ ﷺ کی نظرِ محبت ہوئی اور اس نظرِ محبت نے ان کی درندگی کو کم کر دیا۔ آج شانِ کریمی اپنے جوش پر آئی  ہوئی تھی۔ دست ِ سوال کے اُٹھنے سے پہلے جھولیاں بھری جا رہی تھیں۔ صبح سے شام تک ایک ایک کر کے تمام مخلوق نے اپنے شہنشاہ کا دیدار کیا اور آپ ﷺ کے انوار و تجلیات سے فیض یاب ہوئے۔ شام کو عصر کے وقت آپ ﷺ نے جلوس کی صورت میں تمام پیغمبروں علیہ السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ پورے عالم اعراف کا گشت کیا۔ پھر رات کے وقت سالگرہ کی خصوصی پارٹی میں مدعو کیے گئے لوگ شاہی محل میں شرف ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ عاقب اور گلبدن بھی خضر بابا کے ساتھ اپنی ہمتوں کو یکجا کرتے ہوئے بارگاہ رسالت ﷺ میں جا پہنچے۔ رسالت مآب ﷺ کی خدمت  اقدس میں پیش کرنے کے لئے گلبدن نے بڑی عقیدت کے ساتھ اپنے باغ کے پھولوں کا ایک شاندار گلدستہ بنایا ۔ آج وہ اپنی پوری سج دھج کے ساتھ باہر نکلی تھی۔ قوس وقزح کے ہلکے ہلکے رنگوں کے باریک ریشمی لباس میں وہ دھنک کی کمان سے اتری ہوئی کوئی ابسرا  دکھائی  دیتی تھی۔ خادماؤں نے اس کے ہار سنگھار میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ عاقب کی پیار بھری نظر نے اس کے اوپر حیا کا نقاب ڈال دیا۔ خضر بابا تو اسے دیکھتے ہی بو ل اُٹھے۔

          ” بھئی گلبدن کیا واقعی یہ تم  ہی ہو؟“

          آج تو عاقب  کا روپ بھی کسی پرستان کے شہزادے سے کم نہ تھا۔ محل شاہی میں جب سب لوگ جمع ہو کر اپنی اپنی نشست پر براجمان ہو گئے۔ تب شاہی چوب دار نے شہنشاہ دو عالم ﷺ بادشاہ اعراف اسم یٰسین حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کا اعلان کیا۔ تمام لوگ نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ اللہ پاک کے محبوب ﷺ کے رعب و دبدبے نے سب کی جانوں کو اپنی مٹھی میں لے لیا۔ عظمت رسول ﷺ کے احساس نے سب کو حواس پر غلبہ کر لیا۔ دل دھڑکنا بھول گئے۔ ذہن کے تمام خیالات ایک مرکز پر جمع ہو گئے نگاہِ مشتاق دیدار نے اپنی  آنکھیں  کھول دیں۔ روح کا ایک تقاضا۔ دل کی ایک خواہش۔ زندگی کا ایک سپنا آج بے نقاب ہونے کو تھا۔ کائنات کا جگمگاتا سورج اعراف کا چودھویں کا چاند آسمان کا روشن ستارہ مصطفیٰ ﷺ کے ساتھ جمال خدواندی کے انوار پھیلاتا ہوا تخت ِ شاہی پر نمودار ہوا۔ ” یا رسول اللہ ﷺ“ کہہ کر سب کے سب تعظیم کے لئے گھٹنوں کے بل جھک گئے۔ رحمت اللعالمین ﷺ کی شیریں آواز نے دلوں کے گداز کو اور زیادہ بڑھا دیا۔

          ” اے امت رسول اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ہمیشہ آپ سب کے شامل حال رہیں۔“

          تب آپ کے اذن پر سب لوگ دوبارہ اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ حضر ت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہاتھ  باندھ کر نہایت تعظیم کے ساتھ سب لوگوں کی جانب سے درود و سلام پیش کرنے کی اجازت پیش کی۔ خوشی سے آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ آگئی۔ آپ ﷺ نے سر مبارک کو اثبات میں ہلاتے ہوئے اجازت مرحمت فرمائی۔ تمام لوگوں نے کھڑے ہو کر نہایت ہی احترام کے ساتھ درود و سلام پیش کیا اور شہنشاہ دو جہاں ﷺ کی تعریف  کے گیت گائے۔ سالگرہ کی مبارک باد پیش کی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے الگ الگ لوگوں کو اپنے قریب بلایا اور خصوصی نصیحت فرمائی۔ عاقب اور گلبدن خاموش بیٹھے نظارہ دیدار کر رہے تھے کہ اچانک حضور پاک ﷺ نے آپ دونوں کی طرف انگشت شہادت سے اشارہ کیا اور طلب فرمایا۔ دونوں فوراً ہی کھڑے ہوگئے ۔ گلبدن نے گلدستہ پیش کیا اور دونوں نے نپے تلے قدموں سے حضور پاک ﷺ کی بار گاہ اقدس میں پہنچے۔ سب سے پہلے الصلوٰۃ والسلام یا رسول اللہ کہہ کر تعظیم پیش کی۔ پھر نہایت عقیدت کے ساتھ دونوں نے گلدستہ پیش کیا۔ حضور پاکﷺ نے مسکرا کر نہایت ہی خندہ پیشانی کے ساتھ اسے قبول فرمایا۔ پھر حضور پاک ﷺ نے دونوں کے سروں پر دست شفقت پھیرا۔ عاقب اور گلبدن کی  آنکھیں  بھر ائیں وہ بے ساختہ رسالت مآب ﷺ کے قدموں میں جھک گئے آنسو زبان و دل کے تشکر کا اظہار بن گئے۔

          شاہی ضیافت کی اپنی ایک شان ہے اور پھر شاہی ضیافت بھی ایسی کہ جس میں فرشتے نہایت تعظیم کے ساتھ اپنی خادمانہ ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوں، ایسی شان و شوکت بار گاہ نبوی ﷺ کے سوا اور کہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس مقدس موقع پر تمام اہل بیت کا دیدار بھی  نصیب   ہوا۔ عاقب اور گلبدن کو یوں محسوس ہوا  جیسے اُن کی روح فضائے نور کی گہرائیوں میں پرواز کر رہی ہے۔ نور کی لہریں جب روح کے حواس سے ٹکراتیں تو نور کے اندر اللہ تعالیٰ کے پیغام روح کو موصول ہوتے۔ جب تک وہ بار گاہ  رسالت ﷺ میں حاضر رہے ان کا دل حضور  پاک ﷺ کے اس قول مبارک کو مسلسل دہراتا رہا کہ:

          ازل سے ابد تک ہر عالم اللہ تعالیٰ کی ہستی کا پھیلاؤ ہے۔“

          حضور پاک ﷺ کے قول مبارک نے اُن کے دلوں میں لا محدودیت کا روزن کھول دیا۔ اس روزن میں سرِ الہٰی کا نزول  روح پر ہونے لگا۔ دب دبہ سطوت و جبروت نبوی ﷺ نے دونوں کے دلوں پر ایسا پر تو ڈالا کہ گھر لوٹ کر بھی دونوں کی زبانیں اللہ پاک کے محبوب ﷺ کے رعب سے گنگ رہیں۔ دونوں اپنی پلکوں میں نورانی سپنے سجائے چپ چاپ محو خواب ہوگئے۔

          صبح کی صلوٰۃ تسبیح سے فراغت کے بعد گلبدن عاقب سے بولی۔

          ” رات میں نے بڑا عجیب خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ نور کا عظیم الشان پہاڑ ہے۔ اس پہاڑ کے اندر ایک غار نما سوراخ ہے۔ اس سوراخ سے انتہائی  قوت کے ساتھ نور کا آبشار نکل رہا ہے۔ میں غار کے اندر سے اس آبشار کے ساتھ باہر نکلتی ہوں جیسے ہی غار سے نور کے آبشار میں آتی   ہوں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں پیدا ہو رہی ہوں۔ آبشار کی قوت نے میرے ذہن و دل پر ایک خوف سا طاری کر دیا۔ ایک ان  جانا سا خوف کہ میں کون ہوں؟ اتنے میں آواز ائی۔

          ”اے روح  آنکھیں  کھولو۔ تم اپنے ربّ کی مضبوط پناہوں میں ہو۔ اللہ کے بندے اپنے ربّ کی بارگاہ میں ڈرا نہیں کرتے۔

میں نے  آنکھیں  کھولیں نور کی ایک عظیم الشان چادر میرے اوپر چھائی  ہوئی تھی۔ میں نے اس نور میں اپنے آپ کو دیکھا۔میری صورت خود میرے لئے اجنبی معلوم ہوئی۔ وہ ایسی حسین و جمیل تھی کہ میں نے ایسی کوئی چیز نہ دیکھی نہ تصور کر سکتی ہوں۔  پھر دوبارہ آواز آئی۔

          ” میں تمہارا رب ہوں! تمہارا خالق اور تم روح ہو۔ یہ نور کا آبشار سر الہٰی ہے جس نے تمہیں ڈھانپ رکھا ہے ۔ تم پر رحمت خداوندی کے اسرار کھلنے والے ہیں۔ یہ نور کا پہاڑ اللہ تعالیٰ کے امر کی تجلی ہے۔ غار اللہ تعالیٰ کے امر و ارادے کی مرکزیت ہے۔ سرِّ الہٰی کا ظہور تجلی کے پردے سے روح کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اے روح! تم اسرار خداوندی کا مظہر ہو ۔“

          ”پھر میں نے دیکھا کہ میں نور کی چادر میں لپٹی ہوئی ہوں ۔ اپنے اندر رنگوں کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے اسرار دیکھ رہی ہوں اور ان کے رموز کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اسی طرح ساری رات گزر گئی۔ یہاں تک کہ میری آنکھ کھل گئی“

          عاقب بڑی  محویت سے گلبدن کا خواب سن رہا تھا۔ خواب ختم ہونے پر وہ بے ساختہ کہہ اُٹھا۔

          ” سبحان اللہ۔  یہ ہمارے اوپر رحمت اللعالمین ﷺ کی رحمتوں کا سایہ ہے۔ خضر بابا کو یہ خواب بتانا۔ وہ تمہاری صحیح رہنمائی  کریں گے۔“  پھر وہ خوشی سے مسکراتے ہوئے بولا۔

          ”گلبدن میری جان! میں نے بھی رات بڑا اچھا خواب دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ ہر دکان میں لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ میں اس کھوج میں کہ کہاں کیا فروخت ہو رہا ہے؟ دیکھتا ہوں کہ دکانداار کے سامنے ایک  ایک شخص جا کر اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر رکھ دیتا ہے۔ دکاندار اس کے ہاتھ کی تحریر پڑھتا ہے اور اس کی آئندہ زندگی کے متعلق باتیں بتاتا ہے مگر زیادہ تر یہ باتیں نہایت ہی مایوس کن ہوتی ہے۔ یا فرد کی توقعات کے خلاف ہوتی ہیں ۔ پھر ہر فرد جو اپنے ہاتھ کی تحریروں سے واقف ہو جاتا ہے وہ رنج و غم اور غصے اور مایوسی کی حالت میں وہیں کھڑے ہوئے اللہ تعالیٰ سے شکوے شکایت شروع کر دیتا ہے کہ اس نے ہمارے نصیب ایسے بُرے بنائے۔ دکاندار اپنی دکانداری میں ہمہ تن مصروف ہے۔ اسے اس چیز سے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے بد ظن کر رہا ہے۔ ہر طرف کھڑے ہوئے لوگ اپنے ہاتھوں کی تحریروں ک کوی دیکھ دیکھ کر اپنے نصیبوں کو کوستے  جاتے ہیں اور دہائی  دیتے جاتے ہیں کہ میں نے ایسا کیا قصور کیا۔ جو ہمارے نصیب میں ایسی مصیبتیں لکھ دیں۔ میں کچھ دیر کھڑا غور سے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ لوگ غلط انداز میں سمجھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام غلط ہو نہیں سکتا۔ پھر میں اس ہجوم سے  ذرا پرے ہٹ کر ایک کونے میں کھڑا ہو جاتا ہوں اور آسمان کی جانب منہ اُٹھا کر اللہ تعالی سے دل ہی دل میں گزارش کرتا ہوں کہ اے میرے رب! مجھے اس بات پر صحیح آگاہی عطا فرمایئے۔ میرے اندر بالکل قریب سے آواز آتی   ہے۔کیا تم حقیقت  جاننا چاہتے ہو؟ میں اشتیاق اور لگن کے ساتھ فوراً کہتا ہوں۔ اے میرے ربّ! میں نصیبوں کی تحریر کی حقیقت کو جاننا چاہتا ہوں۔ میرے اندر ندا گونجتی ہے۔ اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے سامنے پھیلاؤ۔


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی